تم کو اللہ کا مہمان بننا مبارک ہو‘ اللہ تمھارے حج کو قبولیت بخشے اور تم کو تمھارے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے ابھی ابھی تم نے اپنی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
احرام باندھتے ہوئے‘ طوافِ کعبہ کرتے ہوئے‘ زم زم پیتے ہوئے‘ صفا مروہ کی سعی کرتے ہوئے‘ منیٰ میں قیام کرتے ہوئے‘ عرفات میں وقوف کرتے ہوئے‘ مزدلفہ میں رات گزارتے ہوئے‘ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے‘ قربانی کرتے ہوئے‘ حلق کراتے ہوئے ‘ غرض ہر قدم پر اور ہر موقع پر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے رہو‘ اپنا احتساب کرتے رہو اس دن سے پہلے جب سب سے بڑا حساب ہوگا۔ اور یاد رکھو خدا کی قسم وہ حساب ضرور ہوگا!
ہمارے باپ ابراہیم ؑ نے یہ امور کیوں انجام دیے تھے۔ ایسا کون سا جذبہ کارفرما تھا‘ ان اعمال کی کیا روح تھی ‘ اللہ کو یہ کام کیوں اتنے پسند آئے کہ اس نے انھیں رہتی دنیا تک امر کردیا۔ بس کوشش یہ کرنا کہ ہمارا کوئی بھی عمل روح سے خالی نہ ہو ۔ یہ تو تم بھی جانتے ہو کہ کوئی بھی جان دار بغیر روح کے جان دار کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ تمھارے اپنے پیاروںکے‘ اپنے چاہنے والو ںکے جسم جب روح سے خالی ہو جاتے ہیںتو تم ہی کو بہت جلدی ہوتی ہے کہ ان کو ان کے اصلی گھر پہنچا دیں۔
کیوں؟… کیا کبھی سوچا تم نے؟…
ان کا جسم اب تمھارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا‘
اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو وہ بات نہیں کرتا‘
اس کو کچھ سنانا چاہتے ہو لیکن وہ تمھاری کچھ بھی سننے سے قاصر ہوتا ہے‘
تم اس کی پیاری سے پیاری چیز اس کو دکھانا چاہتے ہولیکن وہ دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا‘
اگر زیادہ دیر اسے گھر میںرہنے دو تو اس کا وہ جسم جس کاہونا کل تک تمھارے گھر کی مہک تھا‘ تعفن بن جائے گا۔
غرض ثابت ہوا کہ اصل چیز اس کی روح تھی ۔ جو اس کے وجود کو باقی رکھے ہوئی تھی۔ جب وہ اس کے جسم سے پرواز کر گئی تو گویا اس کا جسم محض ایک کھلونے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کیونکہ کھلونابھی کم از کم بچوں کے کھیلنے کے کام تو آتا ہی ہے۔
تمھارا یہ حج اپنی روح سے خالی نہ رہنے پائے‘ اگر یہ اپنی روح سے خالی ہوا تویقین جاننا اس بناوٹی حج کی بھی وہی وقعت ہوگی جو ایک مردہ جسم کی ہوتی ہے ۔ جو اپنے اندر نقصان تو رکھتا ہے لیکن فائدہ کوئی نہیں رکھتا۔
اگر تم نے حج کی اصل روح کو پالیااور اللہ کرے تم ضرور اس روح کو پاؤ ‘ تو یاد رکھنا تمھاری زندگی میں ایک انقلاب آنا چاہیے۔ جو گناہ پہلے کرتے تھے اب ان سے کنارہ کش ہوجانا اور اچھے کام کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا۔
ہر آنے والا دن تمھاری زندگی کی کتاب کا ورق اُلٹ رہا ہے ‘ اورتم خود ایک کتاب تصنیف کررہے ہو ۔ اس کتاب میں تم ہر وہ چیز لکھ رہے ہو جو سوچتے ہو‘ جو بولتے ہو‘ جو دیکھتے ہو‘ جو سنتے ہو‘ جوکرتے ہو اور جو کراتے ہو۔ اس کتاب میں کسی کو بھی ذرا سا بھی اختیار نہیں کہ کچھ گھٹا سکے یا بڑھا سکے۔ ایک دن اس کتاب کاآخری ورق اُلٹ جائے گا‘ اور یہ کتاب تمھارے ہاتھوں میں ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میں تم وہ انقلاب لے آئے جو معبودِ حقیقی کو مطلوب ہے تو یہ کتاب تمھارے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی اور دائیں ہاتھ میں اس کتاب کا ملنا کامیابی کی علامت ہے:
اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ’’لو دیکھو‘ پڑھو میرا نامۂ اعمال ‘ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا‘ عالی مقام جنت میں‘ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھائو اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں۔ (الحاقہ ۶۹:۱۹-۲۴)
اگر خدانخواستہ اُس روز یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو یہ اللہ کے دربار سے دُھتکارے جانے کی علامت ہوگا۔ اور جسے یہ کتاب بائیں ہاتھ میں دی جائے گی اُس کے لیے قرآن کا آئینہ دیکھ لو:
اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: کاش! میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش! میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا‘‘۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو سترہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارِ غم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقہ ۶۹: ۲۵-۳۷)
یہ کتاب کس ہاتھ میں لینی ہے--- دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟