جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

دین: قرآن کی روشنی میں

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جنوری۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں سید مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ہے جسے ان کی فکر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں رب‘الٰہ‘ عبادت اور دین ان چار الفاظ کی لغوی تحقیق اور حقیقی مفہوم کی بنیاد پر کلامِ الٰہی میں اترنے کے لیے نئے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اس کے مطالعے سے اسلام کا انقلابی تصور اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے۔ آج جب اسلام پر مغرب کے حملوں کے دفاع میں بعض عناصر دین اور سیاست کے جداگانہ تصور کو پیش کر رہے ہیں‘ ہم مذکورہ کتاب سے ’’دین‘‘ کا باب پیش کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ قارئین مکمل کتاب کا مطالعہ کر کے اپنے علم کو تازہ کریںگے۔ (ادارہ)

الہ‘ رب‘ دین اور عبادت‘ یہ چار لفظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب و الٰہ ہے‘ اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے نہ رب‘اور نہ الوہیت و ربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے‘ لہٰذا اسی کواپنا الٰہ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الہٰیّت و ربوبیت سے انکار کر دو‘ اس کی عبادت اختیار کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘ اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہر دوسرے دین کو رَد کر دو…

اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لیے ان چاروں اصطلاحوں کا صحیح اور مکمل مفہوم سمجھنا بالکل ناگزیر ہے۔ اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو کہ الٰہ اور رب کا مطلب کیا ہے؟ عبادت کی کیا تعریف ہے؟ اور دین کسے کہتے ہیں؟ تو دراصل اس کے لیے پورا قرآن بے معنی ہوجائے گا۔ وہ نہ توحید کو جان سکے گا‘ نہ شرک کو سمجھ سکے گا‘ نہ عبادت کو اللہ کے لیے مخصوص کر سکے گا‘ اور نہ دین ہی اللہ کے لیے خالص کر سکے گا۔ اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں ان اصلاحوں کا مفہوم غیر واضح اور نامکمل ہو تو اس کے لیے قرآن کی پوری تعلیم غیرواضح ہوگی اور قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود اس کا عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل رہ جائیں گے۔ وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا رہے گا اور اس کے باوجود بہت سے اربابٌ من دون اللّٰہ اس کے رب بنے رہیں گے۔ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا‘ اور پھر بھی بہت سے معبودوں کی عبادت میں مشغول رہے گا۔ وہ پورے زور کے ساتھ کہے گا کہ میں اللہ کے دین میں ہوں‘ اور اگر کسی دوسرے دین کی طرف اسے منسوب کیا جائے تو لڑنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ مگر اس کے باوجود بہت سے دینوں کا قلاوہ اس کی گردن میں پڑا رہے گا۔ اس کی زبان سے کسی غیراللہ کے لیے ’’الٰہ‘‘ اور ’’رب‘‘ کے الفاظ تو کبھی نہ نکلیں گے‘ مگر یہ الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کے لحاظ سے اس کے بہت سے الٰہ اور رب ہوں گے اور اس بیچارے کو خبر تک نہ ہوگی کہ میں نے واقعی اللہ کے سوا دوسرے ارباب و الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اس کے سامنے اگر آپ کہہ دیں کہ تو دوسروں کی ’’عبادت‘‘ کر رہا ہے اور ’’دین‘‘ میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ پتھر مارنے اور منہ نوچنے کو دوڑے گا مگر عبادت اور دین کی جو حقیقت ہے اس کے لحاظ سے واقعی وہ دوسروںکا عابداور دوسروں کے دین میں داخل ہوگا اور نہ جانے گا کہ یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں یہ حقیقت میں دوسروں کی عبادت ہے اور یہ حالت جس میں مبتلا ہوں یہ حقیقت میں غیراللہ کا دین ہے…

پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم‘ بلکہ اس کی رُوح نگاہوں سے مستور ہوگئی ہے‘ اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائدو اعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے۔(ص ۷-۱۳)

دین: لغوی تحقیق

کلامِ عرب میںلفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

۱-  غلبہ و اقتدار‘ حکمرانی و فرمانروائی‘ دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا‘ اس پر اپنی قوتِ قاہرہ (sovereinty) استعمال کرنا‘ اس کو اپنا غلام اور تابع امر بنانا۔ مثلاً کہتے ہیں دَانَ النَّاسَ، اَیْ قَھَرَھُمْ عَلَی الطَّاعَۃِ (یعنی لوگوں کو اطاعت پر مجبور کیا)۔ دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کیا اور وہ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الْقُوْمَ اَیْ ذَلَّلْتُھُمْ وَاسْتَعْبَدْتُّھُمْ (میں نے فلاں گروہ کو مسخرکرلیا اور غلام بنالیا) دَانَ الرَّجُلُ اِذَا عَزَّ (فلاں شخص عزت اور طاقت والا ہوگیا) دِنْتُ الرَّجُلَ حَمَلْتُہٗ عَلٰی مَا یَکْرَہُ۔ (میں نے اس کو ایسے کام پر مجبور کیا جس کے لیے وہ راضی نہ تھا)۔ دِیْنَ فَلانٌ - اِذَا حَمَلَ عَلٰی مَکْرَوْہٍ (فلاں شخص اس کام کے لیے بزور مجبور کیا گیا)۔ دَنْتُہٗ اَیْ سُسْتُہٗ وَمَلَکْتُہٗ (یعنی میں نے اس پر حکم چلایا اور فرمانروائی کی) دَیَّنْتُہُ الْقَوْمَ وَلَّیْتُہٗ سَیَاسَتَھُمْ (یعنی میں نے لوگوں کی سیاست و حکمرانی فلاں شخص کے سپرد کردی) اسی معنی میں حطیّہ اپنی ماں کو خطاب کر کے کہتا ہے    ؎

لَقَدْ دَیَّنْتِ اَمْرَ بَنِیْکِ حَتّٰی

تَرَکْتِھِمْ اَدَقَّ مِنَ الطَّحِیْنِ

تو اپنے بچوں کے معاملات کی نگراں بنائی گئی تھی۔ آخرکار تو نے انھیں آٹے سے بھی زیادہ باریک کر کے چھوڑا۔

حدیث میں آتا ہے: اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمُوْتِ ، یعنی   عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو مغلوب کر لیا اور وہ کام کیا جو اس کی آخرت کے لیے نافع ہو۔ اسی معنی کے لحاظ سے دیّان اس کو کہتے ہیںجو کسی ملک یا قوم یا قبیلے پر غالب و قاہر ہو اور اس پر فرماں روائی کرے۔ چنانچہ اعشی الحرمازی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے کہتا ہے: یَاسَیِّدَ النَّاسِ وَدَیَّانَ الْعَرَبِ۔ اور اسی لحاظ سے مَدْیَنْ کے معنی غلام اور مَدِیْنَہ کے معنی لونڈی‘ اور ابن مدینہ کے معنی لونڈی زادے کے آتے ہیں۔ اخطل کہتا ہے ربت وربانی حجرھا ابن مدینۃ۔ اور قرآن کہتا ہے:

فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْـنِیْنَ o تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o  (الواقعہ: ۵۶: ۸۶-۸۷)

یعنی اگر تم کسی کے مملوک ‘ تابع‘ ماتحت نہیں ہو تو مرنے والے کو موت سے بچا کیوں نہیں لیتے؟ جان کو واپس کیوں نہیں پلٹا لاتے؟

۲-  اطاعت‘ بندگی‘ خدمت‘ کسی کے لیے مسخر ہوجانا‘ کسی کے تحتِ امر ہونا‘ کسی کے غلبہ و قہر سے دب کر اس کے مقابلے میں ذلّت قبول کرلینا۔ چنانچہ کہتے ہیں: دِنْتُھُمْ فَدَانُوْا اَیْ قَھَرْتُھُمْ فَاَطَاعُوْا (یعنی میں نے ان کو مغلوب کرلیا اور وہ لوگ مطیع ہوگئے) دِنْتُ الرَّجَلَ، ای خَدِمْتُہُ (یعنی میں نے فلاں شخص کی خدمت کی) حدیث میں آتا ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: اُرِیْدُ مِنْ قُرَیْشٍ کَلِمَۃً تَدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ اَیْ تُطِیْعُھُمْ وَتَخْضَعُ لَھُمْ (میں قریش کو ایک ایسے کلمے کا پیرو بنانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو تمام عرب اُن کا تابع فرمان بن جائے اور اُن کے آگے جھک جائے)۔ اسی معنی کے لحاظ سے اطاعت شعار قوم کو قومِ دیّن کہتے ہیں۔ اور اس معنی میں دین کا لفظ حدیثِ خوارج میں استعمال کیا گیا ہے‘ یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیّۃ-۱؎

۳-  شریعت‘ قانون‘ طریقہ‘ کیش و ملت‘ رسم وعادت۔ مثلاً کہتے ہیں: مَازَالَ ذٰلِکَ دِیْنِیْ وَوَیْدَنِیْ ، یعنی یہ ہمیشہ سے میرا طریقہ رہا ہے۔ یُقَالُ دَانَ ’ اِذَا اعْتَادَ خَیْرًا وَشَرًّا، یعنی آدمی خواہ بُرے طریقہ کا پابند ہو یا بھلے طریقہ کا‘ دونوں صورتوں میں اس طریقے کو جس کا    وہ پابند ہے دین کہیں گے۔ حدیث میں ہے: کَانَتْ قُرَیْشٌ وَمَنْ دَانَ بِدِیْنِھِمْ، ’’قریش اور وہ لوگ جو اُن کے مسلک کے پیرو تھے‘‘۔ اور حدیث میں ہے اِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ عَلٰی دِیْنِ قَوْمِہٖ-نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے۔ یعنی نکاح‘ طلاق میراث اور دوسرے تمدّنی و معاشرتی امور میں انھی قاعدوں اور ضابطوں کے پابند تھے جو اپنی قوم میں رائج تھے۔

۴-  اجزاء عمل‘ بدلہ ‘ مکانات‘ فیصلہ‘ محاسبہ۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے: کمَا تدین تدان، یعنی جیسا تو کرے گا ویسا بھرے گا۔ قرآن میں کفار کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے: اَئِ نَّا لَمَدِیْنُوْنَ ’’کیا مرنے کے بعد ہم سے حساب لیا جانے والا ہے اور ہمیں بدلہ ملنے والا ہے‘‘۔ عبداللہ ابن عمرؓ کی حدیث میں آتا ہے: لَا تَسُبُّوا السُّلْطٰنَ فَاِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ دِنْھُمْ کمَا یدینون، ’’اپنے حکمرانوں کو گالیاں نہ دو۔ اگر کچھ کہنا ہی ہو  تو یوں کہو کہ خدایا جیسا یہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ویسا ہی تو ان کے ساتھ کر‘‘۔ اسی معنی میںلفظ دیّان بمعنی قاضی و حاکمِ عدالت آتا ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے جب حضرت علیؓ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا : کان دیان ھذہ الامّۃ بعد نبیّھا،’’ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اُمت کے سب سے بڑے قاضی تھے‘‘۔

قرآن میں لفظ دین کا استعمال

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں‘ یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے:

۱-  غلبہ و تسلط‘ کسی ذی اقتدار کی طرف سے‘

۲- اطاعت ‘ تعبد اور بندگی صاحب ِ اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے‘

۳- قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے‘

۴- محاسبہ اور فیصلہ اور جزا و سزا۔

انھی تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہلِ عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے‘ مگر چونکہ ان چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلندبھی نہ تھے۔ اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشا کے لیے مناسب پاکر بالکل واضح و متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنالیا۔ قرآنی زبان میںلفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزا سے ہوتی ہے:

۱- حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ‘

۲- حاکمیت کے مقابلہ میں تسلیم و اطاعت‘

۳- وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیرِاثر بنے‘

۴- مکافات جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی و بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔

قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی ٔ اوّل و دوم پر کرتا ہے‘ کبھی معنی ٔ سوم پر‘ کبھی معنی ٔچہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزا سمیت مراد لیتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے حسب ذیل آیاتِ قرآنی ملاحظہ ہوں:

دین بمعنی غلبہ و تسلط اور اطاعت و بندگی

اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآئَ بِنَـآئً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ - ھُوَ الْحَیُّ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المومن ۴۰: ۶۴-۶۵)

وہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس پر آسمان کا قبہ چھایا‘ جس نے تمھاری صورتیں بنائیں‘ جس نے پاکیزہ چیزوں سے تم کو رزق بہم پہنچایا‘ وہی اللہ تمھارا رب ہے اور بڑی برکتوں والا ہے‘ وہ رب العالمین ہے‘ وہی زندہ ہے‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا تم اسی کو پکارو‘ دین کو اسی کے لیے خاص کر کے‘ تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ … قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہُ دِیْنِیْ o فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ … وَالَّذِیْنَ اجْتَنَـبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی - (الزمر ۳۹: ۱۱-۱۷)

کہو‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خاص کر کے اسی کی بندگی کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود سرِاطاعت جھکائوں… کہو میں تو دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا۔ تم کو اختیار ہے اس کے سوا جس کی چاہو بندگی اختیار کرتے پھرو۔ اور جو لوگ طاغوت کی بندگی کرنے سے پرہیز کریں اور اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ ان کے لیے خوش خبری ہے۔

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَo  اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ - (الزمر  ۳۹: ۲-۳)

’’ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق نازل کر دی ہے لہٰذا تم دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کی بندگی کرو۔ خبردار! دین خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے۔

وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا ، اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ (النحل ۱۶: ۵۲)

زمین اورآسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کے لیے ہے اور دین خالصتاً اسی کے لیے ہے۔ پھر کیا اللہ کے سوا تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟ (یعنی کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جس کے حکم کی خلاف ورزی سے تم بچو گے اور جس کی ناراضی سے تم ڈرو گے؟)

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَـہٓٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ ( اٰل عمرٰن۳:۸۳)

کیا یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کادین چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی مطیعِ فرمان ہیں اور اسی کی طرف ان کو پلٹ کر جانا ہے۔

وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵)

اور ان کو اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ یکسو ہوکر دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی کریں۔

ان تمام آیات میں دین کا لفظ اقتدارِاعلیٰ اور اُس اقتدارکو تسلیم کرکے اُس کی اطاعت و بندگی قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حاکمیت‘ فرمانروائی‘ حکمرانی اللہ کے سوا کسی کی تسلیم نہ کرے‘ اور اپنی اطاعت و بندگی کو اللہ کے لیے اس طرح خالص کر دے کہ کسی دوسرے کی مستقل بالذّات بندگی و اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریک نہ کرے۔۲؎

دین بمعنی قانون و شریعت اور نظامِ فکروعمل

قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ              مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ- (یونس ۱۰:۱۰۴-۱۰۵)

کہو کہ اے لوگو! اگر تم کو میرے دین کے بارے میں کچھ شک ہے (یعنی اگر تم کو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرا دین کیا ہے) تو لو سنو! میں ان کی بندگی و عبادت نہیں کرتا جن کی بندگی و اطاعت تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو‘ بلکہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمھاری روحیں قبض کرتا ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوجائوں جو اسی کے ماننے والے ہیں‘ اور یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ تو یکسو ہوکر اسی دین پر اپنے آپ کو قائم کر دے اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔

اِنِ الْحُکْمُ  اِلاَّ  لِلّٰہِط اَمَرَ  اَلاَّ  تَعْبُدُوْٓا  اِلَّا ٓ اِیَّاہُط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(یوسف۱۲:۴۰)

حکمرانی اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو‘ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُوْنَ … ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَـلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْط ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَـآئَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ تَخَافُوْنَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْط … بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَھْوَآئَ ھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ … فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (الروم ۳۰:۲۶-۳۰)

زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کے مطیعِ فرمان ہیں… وہ تمھیں سمجھانے کے لیے خود تمھارے اپنے معاملہ سے ایک مثال پیش کرتا ہے۔ بتائو یہ غلام تمھارے مملوک ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی ان چیزوں میں جو ہم نے تمھیں دی ہیں تمھارا شریک ہے؟ کیا تم انھیں اس مال کی ملکیت میں اپنے برابر حصہ دار بناتے ہو۔ کیا تم ان سے اپنے ہم چشموں کی طرح ڈرتے ہو؟… سچی بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ علم کے بغیر محض اپنے تخیلات کے پیچھے چلے جارہے ہیں… پس تم یکسو ہوکر اپنے آپ کو اس دین پر قائم کر دو۔ اللہ نے جس فطرت پر انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی کو اختیار کرو۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلا نہ جائے۔۳؎ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔ مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

اَلزَّانِیْۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (النور ۲۴:۲)

زانی اور زانیہ دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر رحم نہ آئے۔

اِنَّ  عِـدَّۃَ  الشُّھُوْرِ  عِنْدَ  اللّٰہِ  اثْـنَا  عَـــشَرَ  شَـــھْرًا  فِــیْ  کِــتَابِ اللّٰہِ یَـوْمَ  خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط  ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ-(التوبہ ۹:۳۶)

اللہ کے نوشتے میں تو اس وقت سے مہینوں کی تعداد ۱۲ ہی چلی آتی ہے۔ جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے ۴ مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ٹھیک صحیح دین ہے۔

کَذَالِکَ کِــدْنَا لِــیُوْسُفَ مَــا کَـانَ لِیَأْخُذَ  اَخَــاہُ  فِـیْ دِیْنِ الْــمَلِکِ (یوسف ۱۲:۷۶)

اس طرح ہم نے یوسف ؑ کے لیے تدبیر نکالی۔ اس کے لیے جائز نہ تھا کہ اس بادشاہ کے دین میں اپنے بھائی کو پکڑتا۔

وَکَذٰالِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَـآؤُھُمْ لِیُرْدُوْھُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْھِمْ دِیْنَھُمْ ط  (انعام ۶:۱۳۷)

اور اس طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں۴؎ نے اپنی اولاد کے قتل کو ایک خوش آیند فعل بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں ڈالیں اور ان کے لیے ان کے دین کو مشتبہ بنائیں۔۵؎

اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـھُمْ مِّـنَ الـدِّیْنِ مَالَمْ یَـاْذَنْم بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱)

کیا انھوں نے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں جو ان کے لیے دین کی قسم سے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کا اللہ نے اذن نہیں دیا ہے؟

لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ  (الکافرون۱۰۹: ۶ )

تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین۔

ان سب آیات میں دین سے مراد قانون‘ ضابطہ‘ شریعت‘ طریقہ اور وہ نظامِ فکروعمل ہے جس کی پابندی میں انسان زندگی بسر کرتا ہے۔ اگر وہ اقتدار جس کی سند پر کسی ضابطہ و نظام کی پابندی کی جاتی ہے۔ خدا کا اقتدار ہے تو آدمی دین خدا میں ہے ۔ اگر وہ کسی بادشاہ کا اقتدار ہے تو آدمی دین بادشاہ میں ہے۔ اگر وہ پنڈتوں اور پروہتوں کا اقتدار ہے تو آدمی انھی کے دین میں ہے۔ اور اگر وہ خاندان‘ برادری‘ یا جمہورِ قوم کا اقتدار ہے تو آدمی ان کے دین میں ہے۔ غرض جس کی سند کو آخری سند اور جس کے فیصلے کو منتہاے کلام مان کر آدمی کسی طریقے پر چلتا ہے اسی کے دین کا وہ پیرو ہے۔

دین بمعنی محاسبہ اور جزا و سزا

اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ o وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ o (الذاریات ۵۱:۶)

وہ خبر جس سے تمھیں آگاہ کیا جاتا ہے (یعنی زندگی بعد موت) یقینا سچی ہے اور دین یقینا ہونے والا ہے۔

اَرَ ئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنٍ o  (الماعون ۱۰۷ : ۱-۳)

تم نے دیکھا اس شخص کو جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اُکساتا۔

وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ o ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَـوْمُ الدِّیْنِ o یَـوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلّٰہِ - (انفطار ۸۲: ۱۷-۱۹)

تمھیں کیا خبر کہ یوم الدین کیا ہے۔ ہاں تم کیا جانو کیا ہے یوم الدین۔ وہ دن ہے کہ جب کسی متنفس کے اختیار میں کچھ نہ ہوگا کہ دوسرے کے کام آسکے‘ اس روز سب اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔

ان آیات میں دین بمعنی محاسبہ و فیصلہ و جزائے اعمال استعمال ہوا ہے۔

دین ایک جامع اصطلاح

یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھی مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل تھا لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا اور اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی مراد لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کر کے اس کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلے‘ اس کے حدود و ضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے‘ اس کی فرمانبرداری پر عزت‘ ترقی اور انعام کا امیدوار ہو اور اس کی نافرمانی پر ذلّت و خواری اور سزا سے ڈرے۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے نظام پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانے کا لفظ ’’اسٹیٹ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن ابھی اس کو ’’دین‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے۔

حسبِ ذیل آیات میں ’’دین‘‘ اِسی اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ - (توبہ۹:۲۹)

اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدراعلیٰ تسلیم نہیں کرتے) نہ یومِ آخرت (یعنی یوم الحساب اور یوم الجزائ) کو مانتے ہیں نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے‘ اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

اس آیت میں ’’دین حق‘‘ اصطلاحی لفظ ہے جس کے مفہوم کی تشریح واضح اصطلاح جل شانہ نے پہلے تین فقروں میں خود کو دی ہے۔ ہم نے ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کر دیا ہے کہ لفظ دین کے چاروں مفہوم ان فقروں میں بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے مجموعے کو ’’دین حق‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَن یُّـبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ (المومن۴۰: ۲۶)

فرعون نے کہا چھوڑو مجھے ‘ میں اس موسٰی ؑ کو قتل ہی کیے دیتا ہوں اور اب پکارے وہ اپنے رب کو۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تمھارا دین نہ بدل دے‘ یا ملک میں فساد نہ کھڑا کر دے۔

قرآن میں قصۂ فرعون و موسیٰ کی جتنی تفصیلات آئی ہیں ان کو نظر میں رکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہاں دین مجرد ’’مذہب‘‘ کے معنی میں نہیں آیا ہے بلکہ ریاست اور نظامِ تمدن کے معنی میں آیا ہے۔ فرعون کا کہنا یہ تھا کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے تو اسٹیٹ بدل جائے گا۔ جو نظامِ زندگی اس وقت فراعنہ کی حاکمیت اور رائج الوقت قوانین و رسوم کی بنیادوں پر چل رہا ہے وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا اور اس کی جگہ یا تو دوسرا نظام بالکل دوسری ہی بنیادوں پر قائم ہوگا‘ یا نہیں تو سرے سے کوئی نظام قائم ہی نہ ہوسکے گا بلکہ تمام ملک میں بدنظمی پھیل جائے گی۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)

اللہ کے نزدیک دین تو دراصل ’’اسلام‘‘ ہے۔

وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ - (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)

اور جو ’’اسلام‘‘ کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ - (التوبہ ۹:۳۳)

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو صحیح رہنمائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اگرچہ شرک کرنے والوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ - (انفال ۸:۳۹)

اور تم ان سے لڑے جائو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکلیہ اللہ ہی کا ہوجائے۔

اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ o وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا o فَسَبِّحْ بِحَـمْدِ رَبِّکَ وَاسْـتَغْفِرْہُط اِنَّـہٗ کَانَ تَـوَّابـًا o (النصر ۱۱۰:۱-۳)

جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہوچکی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اب اپنے رب کی حمد وثنا اور اس سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔

ان سب آیات میں دین سے پورا نظامِ زندگی اپنے تمام اعتقادی‘ نظری‘ اخلاقی اور عملی پہلوئوں سمیت مراد ہے۔

پہلی دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صحیح نظامِ زندگی صرف وہ ہے جو خود اللہ ہی کی اطاعت و بندگی (اسلام) پر مبنی ہو۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام‘ جس کی بنیاد کسی دوسرے مفروضہ اقتدار کی اطاعت پر ہو‘ مالکِ کائنات کے ہاںہرگز مقبول نہیں ہے‘ اور فطرۃً نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ انسان جس کا مخلوق‘ مملوک اور پروردہ ہے‘ اور جس کے ملک میں رعیت کی حیثیت سے رہتا ہے‘ وہ تو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ انسان خود اس کے سواکسی دوسرے اقتدار کی بندگی و اطاعت میں زندگی گزارنے اور کسی دوسرے کی ہدایات پر چلنے کا حق رکھتا ہے۔

تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اسی صحیح و برحق نظامِ زندگی‘ یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کر کے رہے۔

چوتھی آیت میں دین اسلام کے پیروئوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ‘ یعنی اُن نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظامِ اطاعت و بندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہوجائے۔

پانچویں آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر خطاب کیا گیا ہے جب کہ ۲۳سال کی مسلسل جدوجہد سے عرب میں انقلاب کی تکمیل ہوچکی تھی‘ اسلام اپنی پوری تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی و فکری‘ اخلاقی وتعلیمی‘ تمدنی و معاشرتی اور معاشی و سیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہوگیا تھا‘ اور عرب کے مختلف گوشوں سے وفد پر وفد آکر اس نظام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تھے۔ اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور کیا گیا تھا تو آپؐ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنے لگنا‘ نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمھارے رب ہی کی ہے‘ لہٰذا اس کارِعظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمدوثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک! اس ۲۳ سال کے زمانۂ خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہوں انھیں معاف فرما دے۔ (ص ۱۲۱-۱۳۶)


حواشی

۱؎  اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوارج دین بمعنی ملت سے نکل جائیں گے کیونکہ حضرت علیؓ سے جب ان کے متعلق پوچھا گیا: اَکُفّارٌھُمْ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا: من الکفر فروا، کفر ہی سے   تو وہ بھاگے ہیں۔ پھر پوچھا گیا: افمنافقون ھم، کیا یہ منافق ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: منافق تو خدا کو کم یاد کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسی پر یہ متعین ہوتا ہے کہ اس حدیث میں دین سے مراد اطاعتِ امام ہے۔ چنانچہ ابن اثیر نے نہایہ میں اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں: اراد بالدین الطاعۃ ، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض الطاعۃ وینسلخون منھا، جلد۲‘ ص ۴۱-۴۲)

۲؎  یعنی اللہ کے سوا جس کی اطاعت بھی ہو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اُس کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہو۔ بیٹے کا باپ کی اطاعت کرنا‘ بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا‘ غلام یا نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا اور اسی نوع کی دوسری تمام اطاعتیں اگر اللہ کے حکم کی بنا پر ہوں اور ان حدود کے اندر ہوں جو اللہ نے مقرر کردی ہیں تو یہ عین اطاعتِ الٰہی ہیں۔ اور اگر وہ اس سے آزاد ہوں‘ یا بالفاظِ دیگر بجاے خود مستقل اطاعتیں ہوں‘ تو یہی عین بغاوت ہیں۔ حکومت اگر اللہ کے قانون پر مبنی ہے اور اس کا حکم جاری کرتی ہے تو اس کی اطاعت فرض ہے اور اگر ایسی نہیں ہے تو اس کی اطاعت جُرم۔

۳؎  یعنی اللہ نے جس ساخت پر انسان کو پیدا کیا ہے وہ تو یہی ہے کہ انسان کی تخلیق میں‘ اس کی رزق رسانی میں‘ اس کی ربوبیت میں خود اللہ کے سوا کوئی دوسرا شریک نہیں ہے‘ نہ اللہ کے سوا کوئی اس کا خدا ہے‘ نہ مالک اور نہ مطاعِ حقیقی۔ پس خالص فطری طریقہ یہ ہے کہ آدمی بس اللہ کا بندہ ہو اور کسی کا بندہ نہ ہو۔

۴؎  شریک س مراد ہے خداوندی وفرماں روائی میں اور قانون بنانے میں خدا کا شریک ہونا۔

۵؎  دین کو مشتبہ بنانے سے مطلب یہ ہے کہ جھوٹے شریعت ساز اس گناہ کو ایسا خوش نما بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے عرب کے لوگ اس شبہہ میں پڑ گئے ہیں کہ شاید یہ فعل بھی اس دین کا ایک جز ہے جو ان کو ابتداًء حضرت ابراہیم و اسماعیل سے ملا تھا۔