موجودہ دور میں اسلامی معاشروں میں رجوع الی القرآن کا روز افزوں رجحان عام مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کا ایک اظہار قرآن کے حوالے سے مختلف نوعیت کی کتب کی تحریر و اشاعت میں اضافہ ہے۔ اب لکھنے والوں کا دائرہ علماے دین تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی علم حاصل کر کے اس میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مصنف نے اسی حوالے سے زیرتبصرہ کتاب‘ مفتی محمد نوراللہ فاضل دیوبند اور محمد حنیف (سی‘ اے) کے تعاون سے مرتب کی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا انگریزی چہرہ بائیں طرف ہے جہاں سرورق پر اس کا عنوان Quranic Commandments درج ہے۔
قرآن کے حوالے سے احکام القرآن ایک الگ مبحث ہے۔ اس پر متعدد کتابیں ملتی ہیں‘یہاں مصنف کا مقصد احکامات کی حکمت یا ان پر بحث نہیں ہے بلکہ اس کی ایک فہرست مرتب کرنا اور قاری کے لیے متعلقہ آیت تک رسائی کو سہل بنانا ہے۔ تبصرہ نگار کی رائے میں مصنف اس میں کامیاب ہے۔ مصنف کی سکیم کو سمجھ لیا جائے تو پھر اس سے فائدہ اٹھانا مضمون نگاروں‘ مقرروں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے بہت آسان ہے۔ مصنف کے اپنے الفاظ میں یہ کتاب صرف اور صرف احکاماتِ الٰہی پر مشتمل آیاتِ قرآنی کا مجموعہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو صاحبان مکمل قرآن کریم کے مطالعے کے لیے وقت نہ نکال سکیں تو وہ کم از کم اس کتاب کو پڑھ کر احکاماتِ الٰہی سے واقف ہوجائیں‘ خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔
کتاب کے پہلے حصے میں ’’مضامین احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے آٹھ موضوعات (ایمانیات‘ اخلاقیات‘ عبادات‘ معاملات حدود و تعزیرات‘ حلال و حرام‘ آداب‘ متفرقات) کی فہرست دی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہر حکم جہاں جہاں قرآن میں آیا ہے‘ اس کا سورہ نمبر اور آیت نمبر درج ہے۔ دوسرے حصے میں ’’فہرست قرآنی احکاماتِ الٰہی‘‘ کے عنوان سے سورۃ فاتحہ سے سورۃ والناس تک ان ۵۵۴ احکامات کو ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے آگے سورۃ اور آیت نمبر‘ اور تیسرے حصے میں جس صفحے پر متعلقہ آیت ہے‘ اسے درج کیا گیا ہے۔ پہلے دونوں حصے اردو اور انگریزی میں اپنی اپنی طرف سے دیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے (ص ۹۷ تا ۳۲۰) میں آیات کا متن اور اردو انگریزی ترجمہ تین علیحدہ کالموں میں دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایمانیات کے تحت ۱۹ نمبر پر حکم ہے: طاغوت سے اجتناب کرو جو سورہ نمبر۲ اور آیت نمبر۲۵۶-۲۵۷ ہے۔ دوسرے حصے میں اسی کا صفحہ نمبر ۱۲۸ ملتا ہے۔ تیسرے حصے میں صفحہ ۱۲۸ پر متعلقہ آیت مل جاتی ہے۔ یہ ایک مفید خدمت ہے جسے ہر لائبریری میں ضرور ہونا چاہیے۔ لکھنے پڑھنے والوں کی میز کے لیے بھی ناگزیر ہے۔(مسلم سجاد)
پروفیسر علی محسن صدیقی طویل عرصے تک کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معارفِ اسلامی و تاریخ اسلام سے وابستہ رہے اور اس حیثیت میں انھوں نے بیش بہا علمی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر مجموعہ‘ اسلامی علوم و تاریخ کے موضوع پر ان کے پندرہ گراں قدر تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالات قبل ازیں مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب انھیں یک جا پیش کیا جارہا ہے۔ یہ مقالات مصنف کی نصف صدی کی تحقیق و ریاضت کا نتیجہ ہیں۔
ان مقالات میں خاصا تنوّع ہے۔ (قرآن میں غیر عربی الفاظ کی حقیقت۔ لفظ ’مولیٰ‘ کی اصطلاحی اور لغوی تشریح۔ عرب جاہلیت میں موالی کی حیثیت۔ اسلام کا نظام احتساب وغیرہ) بعض مقالات شخصیات پر ہیں (نظام الملک طوسی کے سیاسی نظریات۔ فاتح صقلیہ قاضی اسد بن فرات۔ امام ابوالفرج ابن الجوزی)۔ دو مقالات بغداد کے تعلیمی اداروں (جامعہ نظامیہ۔ جامعہ مستنصریہ) پر ہیں۔ اس مجموعے کی خاص خوبی یہ ہے کہ مصنف نے حواشی تحریر کرکے مقالات کی اہمیت کو دوچند کر دیا ہے۔ کتاب میں اگرچہ حوالہ جات اور کتابت پر خاص توجہ دی گئی ہے‘ اس کے باوجود چند غلطیوں کی طرف توجہ مبذول کرانا بے جا نہ ہوگا۔ ص ۱۵ پر سورہ النّباء کی آیت درج کی گئی ہے: اِلاَّ جَھِیْمًا وَّغَسَّاقًا، اصل میں اِلاَّ حَمِیْمًا وَّغَسَّاقًاہے۔ ص ۴۱ پر مولی کا مادہ ’دل ی‘ نہیں بلکہ ’ول ی‘ ہے۔ اسی طرح ص ۵۴ پر مشہور عرب شاعر کا نام ’فرزوق‘ نہیں، ’فرزدق‘ ہے‘ وغیرہ۔
علی محسن صدیقی کی تحقیق میں دِقّت نظری اور باریک بینی نمایاں ہے۔ وہ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن کے مقالات خالصتاً علمی تحقیق (اکیڈمک ریسرچ) کا نمونہ ہیں۔ یہ مجموعہ ہماری علمی دنیا میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ (محمد ایوب لِلَّہ)
نسلی صفائی سے ذہن بوسنیا کی طرف جاتا ہے لیکن کتاب اٹھا کر دیکھیں تو یہ قصص القرآن کی کتاب ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ،قومِ عاد و ثمود‘قومِ لوطؑ، حضرت شعیبؑ، حضرت یوسف ؑ، حضرت موسٰی ؑاور بنی اسرائیل کے دیگر انبیا کے حالات ملتے ہیں۔ آغاز میں اللہ کے تصور پر بحث ہے‘ بدھ تصور‘ ہندو تصور وغیرہ‘ ۹۹اسماے حسنہ پر اس کو ختم کیا گیا ہے۔ کتاب میں دوسری آسمانی کتب میں رسولؐ اللہ کا جو ذکر آیا ہے آخر میں اس کا حوالہ ہے۔ قصص کا بیان قرآن پر مبنی ہے اور بیشتر تفہیم القرآن سے لیا گیا ہے ‘مصنف نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور عیسائی عقائد پر تفصیل ملتی ہے۔ (م - س)
ڈاکٹر رحیم بخش شاہین (۱۹۴۲ئ-۱۹۹۸ئ) اردو زبان و ادب کے معروف معلّم‘ ادیب‘ محقّق اور اقبالیات کے متخصص تھے۔ شخصی اعتبار سے وہ ایک خوددار‘ درویش منش اور قناعت پسند انسان تھے۔ اوائل میں انھوں نے حصولِ علم کے لیے بہت محنت کی‘ پھر وہ وقت آیا جب علمی حلقوں میں وہ ایک مسلّمہ اقبال شناس‘ دانش ور اور ممتاز ادیب تسلیم کیے گئے۔ صدر شعبۂ اقبالیات جامعہ مفتوحہ (اوپن یونی ورسٹی) کے منصب پر فائز ہوئے‘ مگر ان کا عالمانہ انکسار برقرار رہا۔ ان کے اٹھ جانے سے قحط الرّجال کا احساس مزید گہرا ہوا ہے۔
زیرنظر کتاب میں ان کے فکروفن اور شخصیت پر مضامین‘ ان کے مجموعۂ کلام پر آرا و تاثرات‘ منظوم خراج تحسین اور متفرق تاثرات و مکالمات اور دیگر مفید معلومات کو یکجا کیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے ان کی شخصیت کا ایک مجموعی مثبت تاثر سامنے آتا ہے۔ یہ نفسانفسی کا دور ہے۔ لوگ قربت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں‘ مگر جانے والوں کو جلد بھلا دیتے ہیں‘ آج مرے کل دوسرا دن۔ لیکن ڈاکٹر شاہین‘ خوش بخت ہیں کہ ان کے ہونہار شاگرد وسیم انجم نے اپنے استاد سے بے لوث محبت کا ثبوت دیتے ہوئے‘ پہلے تو ان کا شعری مجموعہ چھاپا اور اب یہ دوسرا مجموعہ لائے ہیں۔
کتاب کی تدوین اور گٹ اَپ میں بہتری کی کافی گنجایش کے باوجود‘ وسیم انجم کی یہ کاوش قابلِ داد اور لائقِ ستایش ہے۔ اس سے ڈاکٹر شاہین کے احوال و آثار کی جامع تصویر سامنے آتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اس تحقیقی اور تجزیاتی کتاب میں انکارِ حدیث کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ‘ اگرچہ بظاہر موضوع بحث تو چودھری غلام احمد پرویز کے فکروفن کو بنایا گیا ہے‘ لیکن مصنف نے مختلف پہلوئوں سے بحث کی وسعت اور موضوع کے پھیلائو میں ‘مختلف مذہبی تصورات پر بھی ایک جان دار محاکمہ پیش کر دیا ہے۔
پرویز صاحب کے ہاں مسلمہ دینی شعائر سے فرار‘ استدلال کی کمزوری‘ موقف میں تبدیلی‘ یکسوئی کے فقدان اور تضاد فکری کو جس پیرائے اور ربط کے ساتھ پیش کیا گیا ہے‘ وہ خود پرویز صاحب کے مریدوں کے لیے ایک چشم کشا آئینہ ہے۔
جدیدیت کی لہر اور امریکا کی زیرنگرانی تحریف فی الدین کی تحریک کا ہراول دستہ منکرین حدیث یا ان کے آس پاس کے خود ساختہ ’’ماہرین علوم اسلامیہ‘‘ ہیں۔ ان عناصر کے استدلال کی داخلی کمزوری کو سمجھنے میں بھی یہ کتاب مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر کتاب کے اسلوبِ بیان میں آسان نویسی پر توجہ دی جاتی تو اس کا دائرۂ تفہیم وسیع تر ہوجاتا۔ تاہم‘ اب بھی اہلِ شوق اس سے دلیل کی قوت حاصل کر کے معرکۂ حق وباطل میں ایک کمک حاصل کرسکتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے اردو میں مختلف موضوعاتی مجلّوں کے بعد‘ ادارے کے ایک جامع تحقیقی مجلے کا آغاز‘ زیرنظر وقیع پیش کش سے کیا ہے۔ موضوعات کے تنوع اور معیار کے ہر لحاظ سے یہ تحقیقی مجلوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ عالمی‘ملّی اور قومی مسائل کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد (عالمی سرمایہ دارانہ نظام)‘ ڈاکٹر انیس احمد (عالمی امن اور انصاف)‘ خالد رحمن (امریکا کی مزاحم قوتیں) اور نواب حیدر نقوی (پاکستانی معیشت) کے مقالات کے علاوہ خارجہ امور میں چین سے تعلقات اور داخلی امور میں شمالی علاقوں نیز خاندان کے ادارے پر انسٹی ٹیوٹ کی مطالعاتی رپورٹیں بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ انگریزی کی وجہ سے اسے پاکستان کے عالی مقام حلقوں میں اور بین الاقوامی تحقیقی دنیا میں بھی جائز مقام ملنا چاہیے‘ یقینا اس طرح مسائل پر درست نقطۂ نظر کے ابلاغ کا راستہ کھلے گا۔ (م - س)
قائداعظم محمد علی جناح کی خواہر محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر قائداعظم کی سیاسی سرگرمیوں اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ناگزیر ہے۔ وطن عزیز کے قومی حلقوں نے ۲۰۰۳ء کو ’’مادرِ ملت کا سال‘‘ قرار دیتے ہوئے مختلف تقریبات‘ بچوں کے تقریری مقابلوں‘ مطبوعات کی اشاعت‘ مضامین اور کتب نویسی کے انعامی مقابلوں کے ذریعے مرحومہ کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی کہ ممکن ہے اس طرح اس بااصول اور جرأت مند خاتون کی زندگی سے ہم کچھ سبق سیکھ سکیں۔
زیرنظر کتاب فاطمہ جناح کی توضیحی کتابیات ہے۔ پہلے حصے میں اُن کے بارے میں لکھی جانے والی ۹۳ کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے۔ دوسرے حصے میں ۲۰۰۳ء کے دوران میں اخبارات و رسائل میں مطبوعہ مضامین کے حوالے یکجا کیے گئے ہیں۔تیسرے حصے میں مختلف شخصیات‘ طلبہ و طالبات اور بعض ایسی عام خواتین و حضرات کے تاثرات ہیں جنھیں محترمہ فاطمہ جناح کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ آخری حصے میں کچھ تصاویر اور فاطمہ جناح کے مضامین کی فہرست اور انگریزی کتابیات وغیرہ شامل ہیں۔
اپنے موضوع پر یہ ایک اچھی کتاب ہے جو فاطمہ جناح کا بخوبی تعارف کراتی اور مزید مطالعے کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی محنت لائق ستایش ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ علمی و ادبی لحاظ سے بلوچستان کے سنگلاخ ماحول میں وہ بڑے استقلال اور لگن سے تصنیف و تالیف کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محترم عبدالرشید ارشد کی تقریباً ۵۰ تصنیفات و تالیفات کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ ان سب میں اسلام سے گہری جذباتی وابستگی اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک سنجیدہ فکرمندی نظر آتی ہے۔
زیرنظر کتاب میں اسلام اور دیگر ادیان کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسلام بنی نوع انسان کی‘ بلارنگ و نسل بھلائی چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک طرف تو یہود و نصاریٰ اسے ختم کرنے کے درپے ہیں اور دوسری طرف خود مسلمان بھی اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ کتاب میں یہود کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہود کا مقصد محض ایک ملک حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دیرینہ خواب (عظیم تر اسرائیل) کی تعبیر کے بعد ساری دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی تعلیمات کو فروغ دینے کے ساتھ وہ دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں خصوصاً مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس طرح فحاشی و بدکاری اور جنسی بے راہ روی کے ذریعے بھی وہ معاشروں میںانتشار پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے ذریعے یہود کے عزائم پورے ہوئے‘ کلنٹن کو جنسی اسیکنڈل کے ذریعے پیچھے ہٹاکر جارج بش کی پشت پناہی کی گئی اور عراق و افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کو صف آرا کیا گیا۔ کتاب میں خاص طور پر پاکستان کے بارے میں اسرائیلی عزائم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہماری قیادت کس طرح پکے ہوئے پھل کی طرح یہود و نصاریٰ کی جھولی میں گرپڑی ہے۔ مصنف نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو بھی طشت ازبام کیا ہے۔ ہربات کے دلائل و شواہد اور حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ (محمد ایوب لِلَّہ)
ڈاکٹر سفرالحوالی (پ: ۱۹۵۰ئ) نے خلیج کی جنگ کے زمانے ہی سے تحریر و تقریر کے ذریعے عالمِ اسلام کو خبردار کرتے رہے کہ امریکی افواج کی آمد‘ یہود کی برسوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ الحوالی کی فیتہ بند تقریریں عربوں میں خوب خوب مقبول ہوئیں مگر ۱۹۹۴ء میں حق گوئی کی پاداش میں انھیں قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اور ان کی کیسٹیں بھی ممنوع قرار پائیں۔
سفرالحوالی نے زیرنظر خطبہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو اسپین میں منعقدہ مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کے پس منظر میں دیا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں امریکا اور روس کے صدور اور اسرائیل کے وزیراعظم بھی شریک ہوئے تھے اور یہ اسرائیل کو عربوں کے لیے قابلِ قبول بنانے (فلسطینیوں کے بقول ’قدس کی فروخت‘)کی مہم کا نقطۂ آغاز تھا۔
مصنف کے نزدیک مسئلہ فلسطین سیاسی اور نسلی نہیں بلکہ اس کا بنیادی تعلق قبلۂ اول سے ہے اور یہ ایمان کامسئلہ ہے۔ زیرنظرخطبے میں انھوں نے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کی عداوت اور نصاریٰ پر یہودی عقائد کے غلبے کی وجوہ پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ عیسائی‘ بشمول ریگن و بش عقیدہ ہرمجدون (Armageddon) کے قائل ہیں۔ پوری عیسائی دنیا حضرت مسیحؑ کی آمد کی منتظر ہے جس کے بعد ان کے عقیدے اور توقعات کے مطابق‘ عیسائی ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔
سفرالحوالی نے امریکا میں سرگرم بہت سی یہود نواز شخصیات اور تنظیموں‘ صہیونی منصوبوں اور اس پس منظر میں عالمِ اسلام کے بارے میں مغرب کے اہداف اور مذموم مقاصد کا ذکر کیا ہے‘ مثلاً: فلسطین میں جہاد کا خاتمہ‘ دعوت الی اللہ سے روکنا‘ عربوں کی فوجی قوت کا خاتمہ‘ عسکری لحاظ سے عربوں کو یہودیوں کے تابع کرنا‘ ابلاغ عامہ اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی‘ معیشت پر یہودیوں کی پوری گرفت‘ خلیج کے تیل اور پانیوں پر ڈاکازنی‘ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا فروغ‘ ارضِ حجازکو یہودیوں کا خطہ بنانا وغیرہ۔ الحوالی نے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے اور درپیش معرکے کی تیاری کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔
مبشرات (ناظم: محمد صہیب قرنی) نے اپنی پہلی کتاب‘ اہتمام سے شائع کی ہے۔ (ر-ہ)