ایک آخری دلیل یہ تصنیف کی گئی کہ مسلمانوں کی ترقی و فلاح‘اور بعض حالات میں ان کی زندگی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ وہ نظامِ کفر کے عدالتی‘ تشریعی‘ انتظامی‘ فوجی‘ صنعتی‘ غرض تمام شعبوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں ورنہ اُمت کے وفات پاجانے یا کم از کم ترقی کی دوڑ میں غیرمسلموں سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہے… دین میں یہی وہ عظیم الشان ترمیم تھی جس کی بدولت بڑے بڑے متقی و دین دار حضرات تسبیحوں کو گردش دیتے ہوئے وکالت اور منصفی کے پیشوں میں داخل ہوئے تاکہ جس قانون پر وہ ایمان نہیں رکھتے اس کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں اور کرائیں‘ اور جس قانون پر ایمان رکھتے ہیں اس کی تلاوت صرف اپنے گھروں میں کرتے رہیں۔ اسی ترمیم کی بدولت بڑے بڑے صلحا و اتقیا کے بچے نئی درس گاہوں میں داخل ہوئے اور وہاں سے بے دینی و مادہ پرستی اور بداخلاقی کے سبق لے لے کر نکلے اور پھر اس نظامِ کفر کے صرف عملی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ اکثر حالات میں اخلاقی و اعتقادی حیثیت سے بھی خدمت گزار بن گئے‘ جو ان کے اسلاف کی غفلتوں اور کمزوریوں کی بدولت ان پر ابتداء ً محض اوپر سے مسلط ہوا تھا۔ پھر اسی ترمیم نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ مردوں سے گزر کر جاہلیت اور ضلالت اور بداخلاقی کا طوفان عورتوں تک پہنچا۔ وہی فرض کفایہ جسے ادا کرنے کے لیے پہلے مرد اٹھے تھے‘ عورتوں پر بھی عائد ہوگیا اوران بیچاریوں کو بھی آخر اس ’’دینی خدمت‘‘ کی بجاآوری کے لیے نکلنا پڑا۔ نہ نکلتیں تو خطرہ تھا کہ کہیں غیرمسلم ان سے بازی نہ لے جائیں…
جس حقیقی فارمولے پر فی الواقع یہ لوگ کام کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ ’’جب ہم نے اس دین پر یہ احسان کیا ہے کہ اس کو اپنے ایمان سے سرفراز کیا تو اس کے بدلے میں کم سے کم جو فرض اس دین پر عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہمارے آگے چلنے کے بجاے ہمارے پیچھے چلنا شروع کردے‘ یعنی اب ہمارا اور اس کا تعلق یہ نہ ہو کہ ہم اسے اپنے اوپر اور خدا کی زمین پر قائم کرنے کی سعی کریں اور اس سعی کے سلسلے میں جو جو ضرورتیں ہم کو پیش آتی جائیں یہ انھیں پورا کرنے کی ضمانت لیتا جائے‘ بلکہ تعلق کی صورت اب یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس کی اقامت کا کام حتیٰ کہ اس کا خیال تک چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی میں جس جس وادی کی خاک چھانتے پھریں اُس میں یہ ہمارے ساتھ ساتھ گردش کرتا رہے اور جن جن ادیانِ باطلہ کے ہم تابع فرمان بنتے جائیں ان کے ماتحت ساری غلامانہ حیثیتیں یہ بھی اختیار کرتا چلا جائے…‘‘ (’’حضرت یوسف ؑ اور غیر اسلامی نظامِ حکومت کی رکنیت‘‘، نواب محمد ذکاء اللہ خان‘ حاشیہ مولانا مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۱-۲‘ محرم و صفر ۱۳۶۴ھ‘ جنوری و فروری ۱۹۴۵ئ‘ ص ۶۸-۶۹)