اجتماعی زندگی مختلف سطحوں پر رواں دواں رہتی ہے جس میں حالات میں خرابی‘ الجھائو اور سدھار کی موجیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ بلاشبہہ دوسری اقوام کی بھی قومی زندگی کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ لیکن پاکستان کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کے حالات و واقعات کے بھنور میں گھرا نظر آتاہے۔
بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیوں میں‘خصوصاً سماجی علوم پر ہونے والی تحقیق اور تجزیہ کاری‘ بیش تر صورتوں میں بے رنگ‘ بے لطف اور بڑی حد تک بے مغز بھی ہے۔ ان دانش کدوں میں زندہ موضوعات پر دادِ تحقیق دینا غالباً شجرممنوعہ ہے‘ اسی لیے تحقیق ایک لگے بندھے (stereotype) اسلوب میں لڑکھڑاتی نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و صحافت کو‘ ہماری جامعاتی سطح کی تحقیقات سے کوئی قلبی رغبت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایسے اہلِ قلم غنیمت ہیں جو ’’چراغ اپنے جلا رہے ہیں‘‘۔ عبدالکریم عابد ایسے دانش وروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں‘ جنھوں نے مختلف اخباروں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے ذریعے قوم کی بروقت رہنمائی کی ہے۔
عبدالکریم عابد کی تازہ کتاب سیاسی‘ سماجی تجزیے موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ علمی گہرائی اور مشاہداتی وسعت کا ایک قیمتی نمونہ ہے۔ ان کے ہاں کسی نام نہاد اسکالر کا سا جامد اسلوب نہیں ہے اور نہ کارزارِ سیاست کے کھلاڑی جیسا یک رخا پن‘ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف‘ اظہار اور اطلاع کا جھرنا پھوٹ رہا ہے۔ وہ فلسفے‘ سیاسیات‘ ادب‘ آرٹ اور تاریخ کی عبرت آموز تفصیلات اور وجدآفریں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت قابلِ رشک ہے اور سماجی سطح پر تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انداز نگارش رواں دواں ہے اور لکھنے والے کے ذہنی توازن اورپختہ فکری کا پتا دیتا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم عابد کے ۴۹ مضامین پر مشتمل ہے‘ جن میں بیشتر کی اشاعت جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں ہوئی۔
جناب عابد نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں صحافت و سیاست‘ اور ادب و دانش کے ویرانوں (یا مرغزاروں) میںگزاری ہیں۔ وہ ایمان اور عقیدے کی پختگی اور تشخص کا امتیاز رکھنے کے باوجود‘ پیشہ ورانہ دیانت اور تجزیاتی معروضیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان پان اسلام ازم کے جذبے کی پیداوار ہے اور اس جذبے کے بغیر پاکستان کو نہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے‘ نہ چلایا جا سکتا ہے (ص ۱۷۳)--- پاکستان کی سیاسی زندگی میں‘ اہلِ سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی ‘ اور مرغِ بادنما جیسی فطرت کے ہاتھوں وطن عزیزکو کھیل تماشے کی طرح برتنے میں ]کوئی[ عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن جوں ہی عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی ہے تو یہ لیڈر حضرات اپنی توپوں کا رخ دوسری قومیت کی طرف پھیر دیتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے تمام المیوں کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا ہماری سیاست میں ایک چلتا سکّہ ہے‘ عابد صاحب نے تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہماری سیاست کا فیشن پنجاب کو مطعون کرنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خداوندان پنجاب کے جرائم بہت ہیں… لیکن دوسرے صوبوں کے اہلِ سیاست نے کیاکسی اچھے کردار کا مظاہرہ کیا (ص ۱۷۹)… یہ حسین شہید سہروردی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد ] کے نظریے [ کو زیروجمع زیرو قرار دے کر اینگلو امریکی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریزی کا مسلک پورے دھڑلے سے اختیار کیا (ص ۱۸۱)… جمہوریت کی تباہی کے عمل میں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادت کی بے اصولی اور موقع پرستی بھی شامل ] رہی ہے[۔ صورتِ حال ہرگز یہ نہیں تھی کہ پنجاب میں صرف حکمران طبقہ تھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت‘ وفاقیت‘ صوبائی خودمختاری اور منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ موجود اور خاصے منظم تھے لیکن دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے ان سیاسی عناصر کے ساتھ اشتراکِ عمل کے بجاے ] پنجاب کے[ حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننا پسند کیا۔ انھوں نے اپنا سارا وزن‘ جمہوریت اور وفاقیت کے بجاے آمریت اور غیر جمہوری مرکز کے پلڑے میں ڈال دیا (ص ۱۲۵)… سرحد کے قیوم خاں کوئی معمولی رہنما نہیں تھے] انھوں[ نے اتحاد کے لیے کبھی پنجاب کی عوامی قوتوں کو پسند نہیں کیا]بلکہ[ ان کا گٹھ جوڑ اوپر کے اس حکمران طبقے سے تھا جس نے ظلم و جبر کی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے سائے میں خود خان قیوم کی حکومت بھی حزبِ اختلاف کو کچلنے کی کارروائیاں بے جھجک کرتی رہی۔ انھوں نے مانکی شریف کا لحاظ کیا نہ دوسرے مسلم لیگیوں کا‘ اور سرحد کا مردِ آہن بن کر اپنے ہتھوڑے سے جمہوریت کا سر کچلتے رہے۔ ادھر غفار خاں کو سواے پختونستان کی رَٹ لگانے کے‘ دوسری کوئی بات ہی نہیں سوجھتی تھی (ص ۱۲۶)… بھٹوصاحب نے سرحد‘ بلوچستان میں نمایندہ حکومتوں کو ختم کیا‘ بلوچستان پر فوج کشی کی تو ایک طرف اکبربگٹی نے ] بھٹو صاحب کا ساتھ دے کر[ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘ اور دوسری طرف سندھ سے حفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو‘ طالب المولیٰ نے تالیاں بجا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ جمہوریت نہ کسی کو عزیز ہے نہ کسی کو مطلوب۔ اب بلا سے اگر جمہوریت ذبح ہوتی ہے تو ہوجائے‘ ہم کیوں اس کا غم کریں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے آخرکار جمہوریت اور سندھی رہنمائوں کے چند روزہ اقتدار‘ سب کو ختم کر دیا (ص ۱۲۹)… سب کھیل جو آمریت‘ چھوٹے صوبوں کے جغادری لیڈروں کی مدد سے کھیلتی رہی ہے‘ اور اب بھی کھیل رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ بے شک پنجاب کا حکمران طبقہ بڑا لعنتی ہے‘ مگر اس لعنتی گروہ کے ساتھی ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ اپنی ضمیرفروشی ترک کر کے‘ پنجاب کے حکمران طبقے کے بجاے‘ پنجاب کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر کو تقویت نہیں پہنچائیں گے‘ اس وقت تک ] پاکستان[ آمریت کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے لیے پرانی ضمیرفروش قیادت کے بجاے نئی قیادت تلاش کریں‘ جس کا اصولوں پر واقعی ایمان ہو‘ اور وہ استقامت کا مظاہرہ کرے‘ورنہ صرف پنجاب کو گالیاں دیتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا‘‘ (ص ۱۲۹‘ ۱۳۰) وغیرہ۔
یہ تبصرہ تو ماضی پر تھا‘ اب دورِ جنرل مشرف میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے ان ناسوروں کی ایسی سچی تصویرکشی بھی کی ہے۔ میرظفراللہ خاں جمالی کا بے آبرو ہو کر کوچہ بدر ہونا‘ آنسو بہانا اور پھر کپڑے جھاڑ کر‘ حکمران طبقے کی تعریف پر کمربستہ ہونا عبرت کی جا ہے۔ پنجاب کے چودھریوں اور وڈیروں کا اپنے جیسے خاندانی خدمت گاروں اور پارہ صفت انسانوں کو جمع کر کے ملازمین ریاست کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کرانے کی خواری مول لینا ایک گھنائونافعل ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم قسم کی بھتہ خور قیادت کا کذب و دہشت گردی وغیرہ۔
سماجی زندگی پر ادب کے کردار و احوال پر بھی بڑے جان دار تبصرے سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے کارنامے اور ان کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کا رویّہ زیربحث آیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’وہ قنوطیت اور بے عملی کے خلاف ساری زندگی جہاد کرتا رہا‘ اور اس جہاد کے سبب ہی برصغیر کے مسلمان عوام نے اقبال کو ملّت کے اقبال کا ستارہ سمجھا‘ لیکن ترقی پسندوں کو یہ ناگوار گزرا۔ اخترحسین رائے پوری نے رسالہ اردو‘ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھا:’’اقبال فاشتّیت کا ترجمان ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندستان کے لیے خطرناک ہے‘ یہی بات روزنامہ پرتاپ کے مدیرمہاشے کرشن نے ایک اداریے میں لکھی تھی: ’’شمالی ہند کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ ]تاہم[ اقبال جب مسلمان عوام کا شاعر بن گیا تو ترقی پسندوں نے یہ کوشش کی کہ اسے ترجمان اشتراکیت ظاہر کریں‘ لیکن وہ دھوکا دہی کی اس واردات میں کامیاب نہیں ہوسکے…اس ضمن میں سب سے شاہکار چیز علامہ اقبال پر وہ رنگین فلم تھی‘ جو فیض احمد فیض نے کرنل فقیر وحید الدین کے سرمائے سے بنائی تھی۔ اس فلم کو میں نے بھی کراچی میں دیکھا‘ اور جب ہال سے باہر نکلا تو ممتاز حسن آگ بگولا نظرآئے۔ وہ کہنے لگے: ’’اس فلم سے اصل اقبال جو مسلمان تھا‘ غائب کر دیا گیا ہے‘ اور وہ جعلی اقبال رکھ دیا گیا ہے‘ جو مارکس اور لینن کا پیرو نظرآتا ہے‘‘۔ ہم دونوں کرنل فقیر سید وحید الدین کے مکان پر بھی گئے۔ ممتاز صاحب نے ان سے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے سرمائے سے اقبال پر ایسی فلم بنی‘ جس میں اقبال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ کرنل صاحب نے ان کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا کہ یہ فلم عوام میں نمایش کے لیے پیش نہیں کی جائے گی ‘ اور اسے ضائع کر دیا جائے گا۔ کرنل صاحب نے کہا: ’’میں یہ سمجھ لوں گا کہ جو سرمایہ اس فلم پر صرف کیا گیا‘ وہ کوئی چور لے اڑا‘‘۔ اس کے بعد فیض صاحب اور کرنل صاحب کے تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوگیا (ص ۱۱۱-۱۱۴)وغیرہ۔
اس نوعیت کے تجزیاتی نکات سے عابد صاحب نے ان دقیق بحثوں کو ایک عام فہم اسلوب میں سمو کر رکھ دیا ہے۔
کتاب کا سب سے زیادہ دل چسپ اور فکرانگیز حصہ وہ ہے‘ جس میں انھوں نے تحریکِ آزادی‘ تحریکِ پاکستان‘ جدید مسلم قیادت اور علما کے حرکی تجربات وغیرہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاریخ کے سیاسی اور منطقی پہلو کو ایسے قائل کر دینے والے لہجے میں بیان کیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت رکھنے والا فرد بھی اس سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی تاریکیوں کو ختم کرنے پر سوچ بچار شروع کر دیتا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک‘ علامہ شبلی نعمانی کے نظریات‘ مغرب زدہ حکمران‘ پاکستانی سیاست میں جاگیردار طبقے کا کردار‘ جدید تعلیم اور ماڈرن اسلام اور موجودہ اقتصادی نظام وغیرہ کے حوالے سے ایک جہان معانی‘ نظرنواز ہوتا ہے۔
عبدالکریم عابد کہتے ہیں:’’ایک مثالی اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہر دو سے رابطہ ہوتا ہے۔ (ص ۱۷۲)… اسلام کے نام لیوائوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔ اگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اسلام اصلی اسلام نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اصلی اسلام ہوتا تو اس کے پاس عوام کے اقتصادی اطمینان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا اور یہ محرومی جو نظر آرہی ہے نہ ہوتی‘‘ (ص ۲۳۱)۔
معاشی ناہمواری کے موجودہ ظالمانہ شکنجے پر عابد صاحب نے جان دار بحث کی ہے۔ اس نگارخانہ دانش و حکمت کے دلآویز رنگ گوناگوں ہیں: موضوعات کا تنوع ہے‘ بحث کی وسعت‘ نقطہ نظر کی کشادگی اور اسلوب تحریر سادہ مگر دل چسپ اور پُرکشش۔ ابتدائیہ جناب سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخِ اشاعت بھی درج ہوتی۔ اس کتاب کو منشورات (منصورہ‘لاہور) نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۳۶۰ اور قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔