۵۲ سالہ بشیرالخطیب کو آج سے آٹھ سال قبل پیش کش کی گئی تھی کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر اظہار ندامت کر لو تو فوری رہائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسے گرفتار ہوئے ۱۷ سال گزر چکے تھے۔ الخطیب نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اخوان المسلمون سے تعلق کا جو الزام تم لگاتے ہو‘ میں اس پر نادم نہیں‘ اس کا اقراری ہوں۔ جواب سن کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اب بشیرالخطیب اور ان کے ۱۱۹دیگر ساتھیوں کو ۲۵‘۲۵سال قید کے بعد اچانک اور کسی کارروائی کے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔ شام کی مختلف جیلوں میں ربع صدی گزارنے والے ان قیدیوں کے اہل خانہ میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے یہ عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اب بھی ہزاروں خاندانوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جن اعزہ کو آج سے کئی سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا وہ زندہ بھی ہیںیا موت کے آئینے میں رخِ دوست پر نظریں جمائے‘ شہادت کے جام نوش کر گئے۔
۱۲۰ مفقود الخبر افراد کی رہائی کی نوید سن کر یہ ہزاروں خاندان ایک بار پھر انتظار کی سولی پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے عزیزوںسے محروم ہوجانے کے بعد نہ تو ان کی موت کا سوگ مناسکتے ہیں کہ وراثت اور یتیموں کی سرپرستی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے‘ اور نہ ان کے زندہ ہونے کو حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ ۲۰‘ ۲۰ اور ۲۵‘ ۲۵ سال سے ان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ ساری تفصیل مجھے بشیرالخطیب کے خالہ زاد بھائی نے شام کے صدر بشار الاسد کے اس اعلان کے بعد سنائی کہ ہم سیاسی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔
اخوان المسلمون شام کے سربراہ صدرالدین البیانونی نے بھی ان رہائیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسے ایک مثبت لیکن ادھورا اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں شام میں ایک مکمل سیاسی مفاہمت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں‘ لیکن فی الحال شامی حکومت کی طرف سے ان تجاویز کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔
رہا ہونے والوں کی اس کھیپ سے پہلے بھی کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا تھا اور یہ بات عرصے سے زبان زدِعام ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں‘ حالانکہ اس سے پہلے اس موضوع پر اشارتاً بھی بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومتی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ بشارالاسد کا اپنے باپ حافظ الاسد سے مختلف ہونا بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اصل وجہ ۱۱ستمبر کے بعد روپذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ بش‘ شام کو محورِشر کا ایک زاویہ قرار دینے کے بعد عراق میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ شام پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں جاری مزاحمت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ فلوجہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد کہا گیا کہ فلوجہ کے کھنڈرات سے سراغ و ثبوت ملے ہیں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ نے شام کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادھر شارون نے اعلان کیا ہے کہ شام میں پناہ گزیں دہشت گردوں کا پیچھا ان کے ٹھکانوں تک کریں گے۔ متعدد فلسطینی رہنمائوں پر شام کے مختلف علاقوں میں قاتلانہ حملے بھی کیے جاچکے ہیں۔ امریکی اخبارات اور صہیونی کالم نگار مسلسل زور دے رہے ہیں کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شام پر بھی فوج کُشی ناگزیر ہے۔ جو تباہ کن اسلحہ عراق میں نہیں ملا‘ اس کی شام میں موجودگی کی ’مصدقہ اطلاعات‘ نشر کی جارہی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ۸دسمبر کو اپنی بریفنگ میں شام اور ایران پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انھیں اس سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں امریکی ترجمان‘ کئی مسلم حکمران بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اُردن جس کی سرحدیں شام‘ عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں کے شاہ عبداللہ نے بھی خطے میں شیعہ کمان کے وجود سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عراق‘ شام اور لبنان میں شیعہ حکومتیں قائم کرتے ہوئے ایران پورے خطے پر تنی ایک کمان تشکیل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کو اس خطرے سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔
اس تناظر میں شام کی قیادت نے کئی اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ حقیقت بن جاتا ہے اور سالہا سال سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو ملک واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے‘ ملک میں افہام و تفہیم اور سیاسی آزادی کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ تو یقینا مقابلے کے لیے تیاری کا یہ سب سے اولیں اور ضروری تقاضا پورا ہو سکتا ہے کہ پوری قوم یک جان ہو اور اندرونی محاذ مضبوط تر ہو۔ اس وقت سیاسی و صحافتی آزادیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی حکمران پارٹی ہے‘ کوئی دوسرا پارٹی تشکیل دینے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ابلاغیات کے دور میں بھی شام میں صرف تین سرکاری اخبار بعث‘ الثورہ‘ تشرین ہی شائع ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرون ملک مقیم شامی شہریوں نے مختلف ممالک میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ لیکن انھیں ملک واپسی کی اجازت نہیں ہے۔
شامی حکومت نے وقت کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے بھی روابط مضبوط کرنا شروع کیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شامی علما اور دانش وروں کے ایک وفد نے متعدد مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وفد پاکستان بھی آیا اور متعدد حکومتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ محترم قاضی حسین احمد سے اپنی ملاقات میں انھوں نے شام کی اسلامی تاریخ اور بشارالاسد کی اسلام پسندی کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ قاضی صاحب نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ عالمِ اسلام سے رابطہ بہت اہم ہے لیکن ملک کے اندر اعتماد و آزادی کی فضا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پوری قوم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامے گی‘ تو کوئی خطرہ‘ خطرہ نہیں رہے گا۔
بشارالاسد نے اندرون ملک بعض اصلاحات کا عندیہ دینے کے ساتھ ہی بعض سیاسی کارڈ بھی پھینکے ہیں۔ عراق کے پڑوسی ممالک کی مصری سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس میں شامی وزیرخارجہ نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے امریکی میزبانوں کو عراق میں امن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بشارالاسد نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم شارون کو بھی مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن نہ تو شارون نے اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ اس غیرمعمولی پیش کش سے ہی امریکی خوشنودی کا کوئی امکان پیدا ہوا‘ بلکہ بش نے مزید رعونت سے کہا کہ اس وقت میری ساری توجہ مسئلہ فلسطین حل کرنے پر ہے۔ اس سے فراغت کے بعد شام کی پیش کش کا جائزہ لیں گے۔
سابق روسی وزیرخارجہ یفجینی پریماکوف اپنے ۱۹ دسمبر کے ایک کالم میں شام کے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’میں حافظ الاسد سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر گفتگو کر رہا تھا تو حافظ الاسد نے کہا: ’’شام نہیں چاہتا کہ کوئی شام کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ہم سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والا پہلا ملک ہو‘‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین اور لبنان میں اپنے گہرے اثرونفوذ کے باوجود شام خطے کے واقعات پر اپنا نقش ثبت نہیں کر سکا۔ یقینا جنوبی لبنان‘ جولان کی پہاڑیوں اور فلسطینی تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی شام کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور اب عراق میں جاری مزاحمت کے حوالے سے‘ عراق شام سرحدیں حساس ترین اور اہم ترین ہوگئی ہیں لیکن معاملات کا تمام تر انحصار شامی حکومت کے یکسو ہونے پر ہے۔ اگر شام یکسو ہوکر پوری قوم کو اسلامی اصولوں پر ساتھ لیتا ہے اور قبلۂ اول کے حوالے سے دمشق‘ حمص اور حلب کے تاریخی کردار کو زندہ کرتا ہے تو تجزیہ نگاروں کا یہ تجزیہ ایک زندہ و عظیم حقیقت بن جائے گا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی حالت‘ خطے کے باقی ممالک کی سلامتی کی علامت ہے‘‘۔
۲۱ دسمبرکو موصل کے امریکی اڈے پر میزائلوں کا حملہ اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کا اس کی زد میں آنا (واضح رہے کہ حملے کے وقت ۵۰۰ امریکی فوجی ظہرانہ کھا رہے تھے) پورے فلوجہ کو زمین بوس کر دینے کے باوجود‘ عراقی مزاحمت میں روز افزوں اضافے ہی کی نہیں نئی اور‘ زیادہ مؤثر حکمت عملی کی خبردے رہا ہے۔ ۳۰ جنوری کو عراقی انتخابات کا ڈراما اسٹیج ہو بھی جاتا ہے‘ تب بھی نہ تو اس مزاحمت کو روکا جا سکے گا اور نہ امریکا کوئی ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکے گا جو وہاں امریکیوں کی جنگ لڑے۔ البتہ ان انتخابات کے ذریعے عراقی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شاہ عبداللہ نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنے سابق الذکر انٹرویو میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ ’’عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے ایران نے اپنے ۱۰ لاکھ شہری عراق میں داخل کیے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے وہاںشیعہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ تقریباً تمام سنی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ اور آیۃ اللہ سیستانی سمیت اہم شیعہ رہنمائوں کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بیانات اور کربلا و نجف میں حالیہ خوفناک بم دھماکے‘ اسی تقسیم کے خطرے کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات‘ ہزاروں فوجیوں کی لاشیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے۳ ہزار اہلکار (جن کی قیادت وہی امریکی سفیر جون نیگروبونٹی کر رہا ہے جس نے ویت نام میں امریکی شکست کا یقین ہونے کے بعد وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کا مشن سرانجام دیا تھا)‘عراق میں امریکی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بش کے دوسرے عہدصدارت میں امریکی ناکامیوں کی فہرست مختصر ہونے کے بجاے طویل تر ہوگی ‘ کیونکہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجاے مزید غلطیوں پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شام اور دیگر مسلم ممالک کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ دلدل میں دھنسے‘ پھنکارتے بدمست ہاتھی کے ساتھ بندھنے کے بجاے اپنے عوام کے ساتھ صلح کریں‘ اپنے خالق اور کائنات کے مالک سے رجوع کریں۔
شام کے حالیہ واقعات نے دنیا کو ایک اور حقیقت سے بھی دوبارہ روشناس کروایا ہے کہ دسیوں سال جیلوں میں رکھ کر‘ ہزاروں خاندانوں کو عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے اور سیکڑوں افراد کو شہید کر کے بھی اسلام اور اسلامی تحریک کے وابستگان کو کچلا نہیں جاسکتا۔ مظالم ڈھانے والوں کو خدا کے حضور جانے کے بعد جس انجام کا سامنا کرنا پڑے گا وہ تو قرآن کریم میں ثبت کردیا گیا۔ دنیا میں بھی ان کا انجام ٹالا نہیں جاسکتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ (الشعرائ:۲۶:۲۲۷)، ’’جنھوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!‘‘