جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

سفرِلیبیا‘ مشاہدات وتاثرات

حافظ محمد ادریس | جنوری۲۰۰۵ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے حکمرانوں اور اہلِ ثروت نے مادہ پرستی کی دوڑ اور عیش و عشرت کے ریکارڈ قائم کرنے میں ایک دوسرے کا خوب مقابلہ کیا ہے‘ تاہم عرب ممالک کے ان مال دار مسلمان حکمرانوں نے کسی نہ کسی انداز میں خود کو اسلام کا خادم ثابت کرنے کی بھی ضرور کوشش کی ہے۔ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر اور بحرین کے مختلف ادارے دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات‘ لٹریچر اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے خاصے خطیر بجٹ مختص کرتے ہیں۔ لیبیا بھی تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں بھی ملک کے مقتدر حاکم اعلیٰ کرنل معمر القذافی نے سرکاری سرپرستی میں انقلاب کے بعد ایک تنظیم  ۱۹۷۲ء میں قائم کی جس کا نام جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ ہے۔ انگریزی میں اسے World Islamic Call Society لکھا جاتا ہے جس کا مخفف وکس (wicks) ہے۔

رابطہ عالم اسلامی اور دارالافتا کے انداز میں اس تنظیم نے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے مبعوثین‘ معلمین اور دعاۃ مقرر کیے‘ مدارس قائم کیے اور لٹریچر پھیلانے کے علاوہ رفاہی کاموں کے ذریعے اپنے ملک کے لیے خیرسگالی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم کے بانی تو خود قذافی صاحب ہیں مگر اس کے پہلے سیکرٹری جنرل اور روح رواں شیخ محمود صبحی صاحب تھے۔ شیخ محمود وضع قطع اور لباس سے بھی روایتی عالمِ دین نظر آتے تھے۔ اب اس طرح کا    ایک بھی شخص لیبیا میںنظر نہ آیا۔ آج کل اُس تنظیم کے سیکرٹری جنرل قذافی صاحب کے قریبی ساتھی‘ معتمد اور لیبیا کی ایک مؤثر و طاقت ور شخصیت الشیخ ڈاکٹر محمد احمد شریف ہیں۔ یہ تنظیم ہر چار سال بعد اپنی عالمی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ گذشتہ کئی چارسالہ کانفرنسیں دیگر ممالک میں منعقد ہوتی رہی ہیں کیونکہ لیبیا آنے جانے میں بھی مہمانوں کو مشکلات تھیں اور اشیاے ضروریہ کی فراہمی میں دقت کی وجہ سے یہاں ان کی مہمان نوازی بھی محال تھی۔ اس مرتبہ پابندیاں ہٹنے کے بعد یہ کانفرنس طرابلس میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چار روزہ کانفرنس کی تاریخیں ۲۵ تا ۲۹نومبر ۲۰۰۴ء طے ہوئیں۔ سابقہ کانفرنس جکارتہ میں منعقد ہوئی تھی۔

شیخ محمود صبحی صاحب کے دور میں کئی مرتبہ لیبیا کی کانفرنسوں میں شرکت کا دعوت نامہ ملتا رہا مگر میں بوجوہ معذرت ہی کرتا رہا۔ اس مرتبہ مجھے جماعت اسلامی کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت کی ہدایت کا حکم ملا تو سوچا کہ لیبیا کے بدلے ہوئے حالات کا کچھ مطالعہ کرنے کا بھی موقع مل جائے گا اور مختلف ممالک سے آنے والے پرانے دوستوں سے بھی ملاقات کی سبیل نکل آئے گی۔ خواہش کے پہلے حصے کا محدود ہی موقع مل سکا کیونکہ ایک تو وقت مختصر تھا اور وہ سارا کانفرنس کے طے شدہ اجلاسوں میں شرکت ہی کے لیے مختص تھا۔ دوسرے‘ ہمارا قیام طرابلس ہی میں تھا‘ کہیں اور جانے کا موقع اور وقت دستیاب نہ تھا۔ تیسرے‘ یہ معاشرہ اپنی بعض اسلامی اور بدوی خوبیوں کے باوجود خاصا جکڑا ہوا اور محدود ہے۔ اشتراکی خصوصیات اور یک جماعتی نظام کی جملہ ’’برکات‘‘ یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہر شخص دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سہما ہوا اور خوف زدہ معاشرہ کبھی کھلے اور بے تکلف ماحول سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً معلومات خاصی محدود اور چھنی چھنائی ہوتی ہیں۔ صحافت بہت ترقی یافتہ نہیں ہے۔ لیبیا کا سرکاری ٹی وی الجماھیریہ بھی بالکل محدود نوعیت کی معلومات اور کنٹرولڈ پروگراموں پر مشتمل نشریات و ابلاغیات فراہم کرتا ہے۔ قطر کا الجزیرہ چینل یہاں مقبول ہے اور آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کانفرنس میں دنیا کے تقریباً ۱۲۵ ممالک سے مندوبین مدعو تھے۔ مرد بھی تھے اور خواتین بھی اور کانفرنس بالکل مخلوط نوعیت کی تھی۔ ایسی اسلامی کانفرنس راقم نے زندگی میں    پہلی مرتبہ دیکھی۔ مردوں اور عورتوں کو کانفرنسوں میں شریک تو دیکھا تھا مگر حدود‘ نشستوں کا تعین ہمیشہ ملحوظ رہا۔ اس کانفرنس کا رنگ بالکل دوسرا تھا۔ اس پر تفصیلاً لکھنے کا یہ موقع نہیں۔ غیرملکی مندوبین کی تعداد ۳۵۰ سے زائد تھی۔ کئی ممالک سے ایک سے زائد تنظیموں کی نمایندگی تھی۔ تنظیموں کی تعداد ۲۰۰ سے زائد تھی۔ پاکستان سے مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ راجا ظفرالحق اور راقم کے علاوہ حکمران پارٹی کے حافظ طاہر اشرفی اور جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر شریک تھے‘ جب کہ اہم مہمانوں میں افغانستان کے دو سابق صدور صبغۃ اللہ مجددی اور پروفیسربرہان الدین ربانی‘ تنزانیہ کے سابق صدر علی حسن موینیی اور کئی ممالک کے سابق اور موجودہ وزرا کے نام نظر آئے۔ اتفاق سے افغانستان اور تنزانیہ کے سابق صدور سے پرانی ملاقات تھی۔ جناب علی حسن سے تجدید ملاقات بہت مفید رہی۔ انھوں نے کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اب انھوں نے عملی سیاست چھوڑ دی ہے اور خود کو دعوتِ اسلام کے لیے وقف کر دیا ہے۔

کانفرنس کا ایجنڈا پہلے سے طے شدہ تھا۔ تنظیم کی کارکردگی رپورٹ‘ عالمی جدوجہد اور سرگرمیوں کا جائزہ‘ سرمایہ کاری کے منصوبے اور ان کی رپورٹ‘ لیبیا میں قائم الکلیۃ الاسلامیہ اور دیگر بیرون ملک قائم ہزاروں تعلیمی و نشریاتی اداروں کا تعارف سامنے آیا۔ مختلف لیکچر بھی ہوئے مگر سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت تھا۔ کانفرنس کا افتتاح کرنل قذافی صاحب کی نیابت میں سیرالیون کے پہلے مسلمان صدر احمد تیجانی کعبہ نے کیا۔ قذافی صاحب ملک میں موجود تھے مگر وہ کانفرنس میں تشریف نہیں لائے۔ افتتاحی سیشن میں فلپائن کے نائب صدر‘ پوپ جان پال کے نمایندے‘ قبطی چرچ مصر کے آرچ بشپ کے نائب اور یونانی گرجا کے چیف کے نمایندے نے بھی شرکت کی اور خیرسگالی جذبات کا اظہار کیا۔ مختلف اجلاس مختلف اہم عالمی شخصیات کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ ان میں کوئی ایشیائی ریجن سے نہیں تھا۔ کسی بھی صدر کا صدارتی خطاب پروگرام میں شامل نہ تھا۔ ہر صدر محض مقررین کے نام پکارنے اور انھیں وقت کی تحدید اور یاد دہانی کا فرض ادا کرتا رہا۔ آخری سیشن میں ۳۶ رکنی مجلس انتظامیہ کا انتخاب بصورت تقرر عمل میں آیا۔ پاکستان سے پہلے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ممبر تھے۔ اس مرتبہ راجا ظفرالحق کو شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد احمد شریف حسب سابق سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ پڑھا گیا اور اس تجویز کو بڑی پذیرائی ملی کہ ’’قائد انقلاب‘‘ کو ان کی خدماتِ جلیلہ پر مبارک باد کا تار بھیجا جائے۔ پاکستان کے معروف عالم دین اور تنظیم کے بانی رکن مولانا علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کے لیے اسٹیج سے خصوصی طور پر دعاے مغفرت کرائی گئی۔ کانفرنس میں اسلام کو دین گوسفنداں کے طور پر پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا مگر سامعین جہاد کے حقیقی معنوں سے آشنا تھے۔ اس کا اظہار بھی ہوتا رہا جودل چسپ اور ایمان افروز تھا۔

یہ توکانفرنس کے متعلق چند اشارات تھے۔ اب عمومی مطالعے اور تاثرات کے حوالے سے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

لیبیا شمال مغربی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ اس ملک کی تاریخ تابناک ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کی اہم اصلاحی و تجدیدی سنّوسی تحریک کا مولد و مرکز اور ہماری تاریخ جہاد کے عظیم بطلِ جلیل عمر المختار کا مسکن و موطن ہونے کا اعزاز اس ملک کو حاصل ہے۔ ملک کا رقبہ ۱۷لاکھ ۵۹ ہزار مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان سے تقریباً دگنا ہے‘جب کہ آبادی صرف ۵۶ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس آبادی کا بھی بیشتر حصہ دو بڑے شہروں دارالحکومت طرابلس (۲۴ لاکھ افراد) اور بن غازی (ساڑھے سات لاکھ) میں آباد ہے۔ باقی ماندہ آبادی چھوٹے چھوٹے قصبات اور نخلستانوں میں مقیم ہے۔

ملک میں یک جماعتی نظام رائج ہے۔ یکم ستمبر ۱۹۶۹ء سے لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کی حکومت ہے۔ پورے ملک میں ایک ہی شخصیت اور ایک ہی نام زبانوں اور ذہنوں میں جاگزین ہے اور یہ قائد‘ فاتح الاخ معمرقذافی کاہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور انتظامیہ کے دیگر عہدے سبھی موجود ہیں مگر کوئی اجنبی چند ایام کے لیے یہاں مقیم رہنے کے باوجود ذرائع ابلاغ سے مشکل ہی سے کسی نام سے مانوس ہوسکتا ہے۔ الاخ القائد کے بعد اگر کوئی دوسرا نام سامنے آتا بھی ہے تو وہ خانوادئہ قذافی کا ’’ہونہار‘‘ نوخیز سپوت سیف الاسلام القذافی ہے۔

لیبیا کے انقلاب ستمبر‘ جسے مقبول اصطلاح میں انقلابِ فاتح کہا جاتاہے‘ کے وقت ملک کی آبادی ۲۰ لاکھ سے بھی کم تھی۔ اس وقت پٹرولیم کی دولت دریافت ہوئے ۱۱ سال بیت گئے تھے اور ملک میں خوش حالی کا دور شروع ہوگیا تھا‘ تاہم عام آدمی اور بالخصوص فوجی جوان و افسران عدمِ اطمینان کا شکار تھے۔ ۲۷ سالہ کرنل معمر قذافی نے ملک کے تاجدار شاہ ادریس سنوسی کا   تختہ الٹ کر ملک میں یکم ستمبر ۱۹۶۹ء کو فوجی راج قائم کر دیا۔ لیبیا بادشاہت سے آزاد ہو کر فوجی تسلط کے ’’مزے لوٹنے‘‘ لگا۔ قذافی صاحب نے آخر کار اسے جماھیریہ (جمہوریہ) لیبیا بنا دیا۔ اس کے نام کے ساتھ سوشلسٹ‘ اسلامی اور عرب وغیرہ کے سابقے لاحقے لگتے اور اترتے رہے مگر جماھیریہ کا جھومرمسلسل اس کے ماتھے پر درخشاں رہا۔

معمر قذافی صاحب نے ملک میں اصلاحات کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ پیپلز کانگرس (پارلیمنٹ) وجود میں آئی۔ سیاسی جماعت قائم کی گئی۔ کمیونٹی مراکز بنے اور یک جماعتی نظام کے ذریعے نیچے سے اوپر تک نمایندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ جماھیریہ کی جمہوریت ہمارے دورِ ایوبی کی بنیادی جمہوریتوں‘ سابقہ کمیونسٹ روس کے نظامِ جماعت (پولٹ بیورو) اور انڈونیشیا کے فوجی دورکے نظامِ حکمرانی کا ملغوبہ ہے۔

پولٹ بیورو کے طرز پر حکمران جماعت ملک کا نظام چلا رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر کوئی جماعت بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ طرابلس کی سڑکوں پرسب سے زیادہ مقبول اور عام نظرآنے والا نعرہ چاکنگ یا بینرز اور ہینگرز کی صورت میں ’’فاتح ابداً‘‘ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک فقرے سیاسی فکر کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عام فقرہ طرابلس کی دیواروں پر آپ کو نظرآئے گا: من تحزّب فقد خان‘ یعنی جس کسی نے (یک) جماعتی نظام کے اندر گروہ بندی کی کوشش کی‘ گویا اس نے خیانت کا ارتکاب کیا۔

معمر قذافی ایک حکمران ہی نہیں ’’مفکر‘‘ بھی ہیں اور ’’مبلغ‘‘ و ’’داعی‘‘ بھی۔ انھوں نے اس صحرائی ملک کے عوام کو نئی سوچ اور جہت سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ عالمی راہنما بننے کا داعیہ اور عزم رکھتے تھے۔ سرخ کتاب کی طرز پر سبز کتاب (Green Book) مرتب کی۔ ان کے ایک قریبی مشیر کے بقول‘ عالم اسلام نے ان کو مایوس کیا۔ پھر انھوں نے عرب ممالک کو متحد و منظم کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور محنت کی مگر یہ تو مینڈکوں کی پنسیری تولنے جیسا ناممکن عمل   ثابت ہوا۔ آخرکار ان کی توجہ براعظم افریقہ پر مرتکز ہوئی۔ برطانیہ میں مقیم ان کے ایک مشیر نے جس کا اپنا پس منظر بھی افریقی ہے‘ ان کے اس نئے تصور کی بہت تحسین کی اور کہا کہ عالمِ اسلام اور عالمِ عرب میں اقدارِ مشترک کم اور تضادات زیادہ ہیں‘ جب کہ افریقہ میں (اس کے بقول) غربت‘ پس ماندگی‘ محرومی‘ بیماری اور جہالت مشترک ہیں۔ قذافی صاحب مبلغ بھی ہیں اور شارحِ دین بھی۔ وہ اپنے صحرائی خیمہ ہائوس میں خود ہی نماز کی امامت کراتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے مطابق غیر مسلموں کو اپنی دعوت سے مسلمان بھی بناتے ہیں۔ میڈیا یہ مناظر پوری باقاعدگی سے دکھاتا ہے۔ ہمیں بھی ایسا ایک منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ آٹھ مرد اور دو خواتین نے ان کے خیمے میں بیرونی مہمانوں کی موجودگی میں ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ یہ سب افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدور تھے جو یہاں تلاشِ معاش کے لیے مقیم ہیں۔

کرنل قذافی کی قیادت میں لیبیا نے گذشتہ ۳۵ سالوں میں بڑے بڑے تجربات کیے ہیں۔ کئی ممالک سے اتحاد و وفاق کی کوششیں ہوئیں۔ وفاق و وصال ختم ہوا تو عناد و محاذ آرائی کا مرحلہ آیا۔ سب سے اہم معاملہ مغربی بلاک اور خصوصاً امریکا سے محاذ آرائی سے متعلق ہے۔ اس کاڈراپ سین بھی عجیب ہے۔ برطانیہ کی کامیاب سفارت کاری کے طفیل اور امریکا کے عراق میں جمہوریت و آزادی کی مہم جوئی کے بالواسطہ نتائج و ثمرات کے نتیجے میں قذافی صاحب نے ’’مدبرانہ‘‘ فیصلہ کیا کہ محاذآرائی اور تصادم کی پالیسی ترک کرکے مکالمہ و مذاکرہ اور افہام و تفہیم کی راہ نکالی جائے۔ ہتھیاروں سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ ہتھیار بنانے کا جنون چھوڑ کر پرامن بقاے باہمی بلکہ گاندھی جی کے نظریے کے مطابق اہنسا (عدمِ تشدد) ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اسے آزمانے میں کیا ہرج ہے۔

لیبیا پر اس کی سابقہ پالیسیوں کی وجہ سے کم و بیش ۱۳ برس تک امریکی دبائو کے تحت  اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مکمل معاشی مقاطعہ اور گوناگوں پابندیوں کا زمانہ خاصا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ تیل کی دولت کے باوجود معاشی حالات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ لیبیا کے دینار کی قیمت مایوس کن حد تک گر گئی۔ اشیاے ضروریہ حتیٰ کہ عام مشروبات تک کی دستیابی ناممکن ہوگئی‘ دوائوں کا حصول بھی ایک پریشان کن دردِسر کی صورت اختیار کرگیا۔ اہلِ لیبیا کے لیے سفر اوردنیا میں اِدھر اُدھر جانے آنے کے راستے مسدود ہوکررہ گئے۔ افراطِ زر اور کرپشن نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ صورت حال عالمی مقاطعہ ختم ہونے کے بعد ہنوز کسی حد تک قائم ہے۔ طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی احساس ہوتا ہے کہ کسی تیل پیدا کرنے والے مال دار ملک کی بجاے تیسری دنیا کے کسی مفلوک الحال علاقے میں آپہنچے ہیں۔ سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ ہے اور عام آدمی عسرت میں زندگی گزار رہا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ملازمت کے علاوہ کئی اور کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ گزربسر کر سکیں۔

حکومت نے زرعی شعبے کو ترقی دینے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے مگر ملک بنیادی طور پر زرعی ماحول نہیں رکھتا۔ زمین زرخیزتو ہے مگر پانی دستیاب نہیں۔ بارشوں پر دارومدار ہے اور بارشوں کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔دارالحکومت کے گرد و نواح کے مضافاتی علاقوںمیں زیتون‘ انگور‘ مالٹے اور نارنجی کے چھوٹے چھوٹے باغات دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مرکز شہر سے ہوائی اڈے تک جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں جانب بھی باغات ہیں۔ شہر کے مرکزی حصے میں بلندوبالا عمارتیں‘ بنکوں کے دفاتر‘ سرکاری عمارتیں اور وزارتوں کے ہیڈ کوارٹر تیل کی دولت کا تاثر دیتے ہیں۔دارالحکومت کے بیشتر بڑے بڑے ہوٹل سمندر کے کنارے واقع ہیں۔ ہمارا قیام فندق باب البحرمیں تھا۔ اس کے جوار میں فندق باب المدینہ اور فندق باب الجدید واقع ہیں‘ جب کہ ذرا فاصلے پر فندق المہاری کی بلندوبالا اور نسبتاً جدید عمارت سیاحوں کا مرکز ہے۔

لیبیا کے عام لوگوں بالخصوص انقلاب کے بعد کی نسل کے نوجوانوں کی بڑی تعداد فوجی تربیت سے گزری ہے۔ کئی شعبوں میں پاکستان کی طرح فوجی جوان و افسران خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کا رویہ عموماً سخت اور ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا ہوتا ہے۔ پرانی نسل کے لوگ مقابلتاً زیادہ مذہبی اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔

فقہی مسلک مالکی ہے مگر صوفیا کا معاشرے پر بڑا گہرا اثر ہے۔ تیجانی‘ شاذلی‘ قادریہ اور کسی حد تک دیگر سلسلہ ہاے تصوف سے وابستگان مساجد میں نمازوں کے بعد بلند آواز سے ذکر اللہ کرتے ہیں جو مسنون دعائوں اور کلامِ نبویؐ کے الفاظ و اوراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نہایت   خوش آیند بات ہے۔ مذہبی حلقوں میں جامعۃ الازہر کا بھی بڑا اثر ہے۔ مسجدوں کے ائمہ اور خطبا میں کوئی ایک بھی باریش نظر نہ آیا۔ یہ نئی تبدیلی ہے۔ شاہی دورِ حکومت میں ایسا نہ تھا۔ خود     شاہ ادریس کی بھی مکمل اور مسنون ڈاڑھی تھی۔ جمعیت اسلامی کے پہلے سیکرٹری جنرل جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا برعظیم کے مسلمان علما کی تصویر تھے مگر اب وہ سب کچھ قصۂ پارینہ ہے۔