استعماری طاقتیں فوجی قبضے کے بغیر بھی اپنے طویل المیعاد مقاصد کس کس طرح حاصل کر رہی ہیں‘ اس کا ایک اندازہ ہمیں اپنے ملک میں بھی ہے جہاں ابتدائی عمر کے تدریسی نصابات سے قرآن کی ان تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے جو ان کو پسند نہیں ہیں۔ لیکن بات کہاں تک پہنچ سکتی ہے‘ اس کا اندازہ مصر کی اس خبر سے کیا جاسکتا ہے جو المجتمع کے حوالے سے دعوت‘دہلی میں اس کے ایک قاری کی جانب سے شائع ہوئی ہے۔
دشمن نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن سے قائم ہے‘ اسے دین کے بنیادی تقاضوں سے بے تعلق نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ہر مسلمان کو اس بات کی اہمیت کو ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ابتدائی عمر ہی سے قرآن سے زندہ تعلق اور پھر عمر کے ہرحصے میں اس کو برقرار رکھنا اس کی دنیا و آخرت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ان استعماری طاقتوں کو جو آلۂ کار ملے ہیں وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے‘ ہر ہدایت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہیں‘ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ کسی دبائو کے بغیر کر رہے ہیں۔ المجتمع کی خبر کچھ اس طرح ہے:
مصری وزارت اوقاف نے اس بار ماہ رمضان المبارک میں روزانہ نماز تراویح میں قرآن کریم پڑھنے اور سننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے مطابق کسی مسجد میں تراویح میں قرآن ختم کرنے کے لیے انتظامیہ کی منظوری ضروری قرار دی گئی۔ حکومت نے ملک کی ۵۰ہزار ۸ سو ۷۰ مساجد میں سے صرف ۵۱مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کریم کی اجازت دی تھی۔ گویا ہر ۱۶۸۲ مساجد میں صرف ایک مسجد میں قرآن کریم ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
قاہرہ کی وزارت اوقاف کے ترجمان شیخ فواد عبدالعظیم نے ان پابندیوں کی خبر دی اور بتایا کہ شہری مساجد (جن کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار ہے) کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ وہ تراویح میں ختم قرآن کریم کے لیے حکومت سے اجازت حاصل کریں۔ قاہرہ کے گورنر ڈاکٹر عبدالعظیم وزیر نے کہا کہ قاہرہ میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت صرف تین مساجد میں دی گئی: (۱) مسجد نور (۲) مسجد ازہر (۳) مسجد عمرو بن العاص۔
مصری وزیر اوقاف نے ان نئی پابندیوں کو یہ کہتے ہوئے جائز و درست ٹھیرایا کہ وزارت ملک کی تمام مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کی اجازت نہیں دے سکتی‘ ہاں مساجد کے قریب آباد باشندوں کی ختم قرآن کی درخواست پر وہ اس کی منظوری دے سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ۵۱ مساجد میں مکمل ختم قرآن کی اجازت کافی ہے۔ کیونکہ بہت سے نمازی بوڑھے اور بیمار ہوتے ہیں‘ پورا قرآن کریم سننا ان کے لیے زحمت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ (المجتمع سے ترجمہ‘ محمد جسیم الدین قاسمی‘ بحوالہ دعوت‘ دہلی‘ ۴ دسمبر ۲۰۰۴ئ)