جنوری۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جنوری۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

غیرمسلموں میں دعوت کی حکمت

سوال : مجھے حصولِ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے کا موقع ملا ہے۔ یہاں غیرمسلموں سے بھی ملاقات رہتی ہے اور اسلام کی دعوت دینے کا موقع بھی میسرآتا ہے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) سے تو مشترک بنیاد‘ یعنی توحید‘ رسالت اور آخرت پر بات ہو سکتی ہے لیکن دیگر مذاہب‘ مثلاً کسی ہندو کو دعوت دینا ہو جو اس کے قائل نہیں ہیںتو کیا حکمت پیش نظر رکھی جائے؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرما دیں۔

جواب: اس سوال کا تعلق بنیادی طور پر دعوت کی حکمت سے ہے۔ قرآن کریم نے سورۂ نحل (۱۶:۱۲۵) میں اس اصول کا تعین کر دیا کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت‘ یعنی اسلام کی دعوت حکمۃ اور موعظہ حسنہ سے دی جائے گی اور اگر نوبت بحث و تکرار کی آجائے‘ یعنی بات شدت اختیار کرجائے تو جدال بھی احسن طریقے سے ہوگا۔ گویا بھونڈے انداز میں مخاطب کو للکارنا‘ غیرضروری مباحث میں الجھنا‘ اس کی تضحیک کرنا‘طنز یا ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا دعوت کا طریق نہیں ہے بلکہ عقلی اور سوچے سمجھے انداز میں بات کرنا ہوگی۔

دوسرا اصول سورۂ آل عمران(۳:۶۴) میں یہ بیان کر دیا گیا کہ اہلِ کتاب ہوں یا دیگر افراد‘ آغاز قدر مشترک سے کیا جائے گا‘ یعنی ان موضوعات پر بات کی جائے جن میں بظاہر بنیادی اختلاف نہ پایا جاتا ہو۔ اسلام کے قرنِ اول میں یہ مشترک بنیاد توحید‘ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو خالق‘ مالک اور رب ماننا اور ساتھ ہی اخلاقی طرزعمل کو اختیار کرنا تاکہ آخرت میں حساب کتاب میں آسانی ہو‘ قرار دی گئی۔ ان دو بنیادوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کا مدعا یہ نظر آتا ہے کہ رسالت جو دین کے تین بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ممکن ہے مختلف فیہ ہو کیونکہ عموماً ایک عیسائی حضرت عیسٰی ؑکو‘ ایک یہودی حضرت موسٰی ؑ کو یا حضرت دائود ؑ اور حضرت یعقوب ؑکو اپنا قائد مانے گا لیکن خالق کائنات اور انسانی اعمال کی جواب دہی کا منکر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان دو موضوعات کو دعوت دین کی حکمت سمجھانے کے لیے بطور مثال بیان کر دیا گیا۔

آج کے دور میں ان کے علاوہ اور بہت سے مسائل (issues) ایسے ہیں جن سے بات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جان کی حرمت‘ خواتین پر جبروتشدد‘ معاشی اور اخلاقی زوال کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور جس مذہب سے مخاطب کا تعلق ہو اس کے مذہب میں ان مسائل کے بارے میں موقف۔

ایک مرتبہ جب گفتگو کا آغاز ہو جائے تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ مخاطب کو پڑھنے کے لیے اسلام کے بعض پہلوئوں پر لکھے گئے آسان اور مدلل کتابچے دیے جائیں۔ موٹی موٹی کتابوں کے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مخاطب دل چسپی کا اظہار کرے تو قرآن کریم کا کوئی آسان ترجمہ‘ مثلاً انگریزی میں محمد اسد کا ترجمہ‘ عبداللہ یوسف علی کا ترجمہ‘ یا مولانا عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے ہی اسلامک فائونڈیشن کی طبع کردہ Our'an Basic Teachings جس میں بعض عنوانات پر قرآن کریم کی آیات مع ترجمہ مرتب کی گئی ہیں‘ دی جاسکتی ہے۔ اس طرح مخاطب کو قرآن کریم کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس پورے عمل میں کوشش کیجیے کہ مخاطب مطالعہ کے دوران سوالات اٹھائے جن پر آپ بھی بطور طالب علم غور کریں اور اُس سے یہی بات کہیں کہ ہم مل کر ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ قرآن کریم کے مطالعہ میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب اس کے پاس پہلے سے تیار ہو لیکن مجھے یقین ہے جب آپ اس طرح مطالعہ کریں گے اور کرائیںگے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی حکمتیں آپ پر خود کھولنی شروع کر دے گا۔

کسی ہندو یا عیسائی یا کسی بھی فرد کو مسلمان کرنا ایک ایسے دور میں جب مسلمان خود اسلام پرکم عمل کرتے ہیں‘ آسان نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے اخلاصِ نیت کی قدر کرتے ہوئے ایسے بہت سے کام آسان کر دیتا ہے۔ اس لیے اگر آپ خلوصِ نیت سے کوشش کریں گے تویہ کام بہت آسانی سے ہوجائے گا۔ ہاں ‘آپ کا اپنا طرزِعمل ہمدردانہ ہو۔ مخاطب سے باعزت طور پر پیش آیئے۔ اس کے ساتھ اپنے معاملات کو صاف رکھیے اور ساتھ ہی رب کریم سے دعا کیجیے کہ وہ آپ کو اس نیک کام میں اپنی نصرت سے نوازے۔ اس کی مدد کے بغیر تو انبیا بھی یہ کام نہیں کرسکتے تھے‘ ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات آغاز سے واضح کر دیجیے کہ آپ بھی اسلام کے طالب علم ہیں اور اسی کی طرح قدم بقدم اسلام کا مطالعہ اور اس پر عمل کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران ہندوازم کا مطالعہ بھی کیجیے تاکہ ہندو ازم کی بنیادی تعلیمات آپ کے علم میں آجائیں۔

ایک ہندو عالم Sen کی چھوٹی سی کتاب Hindus کے عنوان سے پینگوین سیریز میں طبع ہوئی ہے‘ اسے پڑھ لیجیے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ ہندو ازم کیا ہے اور کس طرح اس کا تقابل اسلام سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام سے متعارف کرانے کے لیے Towards Understanding Islamاور Let us be Muslimsیہ دو کتابیں ان شاء اللہ بہت مددگار ہوں گی۔ انھیں آپ خود بھی پڑھیں اپنے دوست کو بھی پڑھنے کو دیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خواتین اور دعوت دین میں رکاوٹیں

س :  میں متوسط گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میٹرک کے بعد اسلامی جمعیت طالبات میں آئی۔ دو سال تک میں نے قریبی کالج میں نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔ اس کے بعد میں زون کی ناظمہ بھی رہی اور جتنا مجھ سے کام ہوتا تھا میں کرتی تھی۔ بی اے کے بعد یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کی اجازت نہیں ملی۔ اب گھر کے کام اور ٹیوشن پڑھانا میرے ذمے ہیں اور اس صورت میں میرے لیے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں؟ حتیٰ کہ نظم کی اطاعت کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ والدہ محترمہ اِس حق میں نہیں ہیں کہ جمعیت کا کام کیا جائے۔

میرے ابا جان تحریک سے تعلق رکھتے ہیں اور گھرانہ پڑھا لکھا ہے لیکن والدہ اس بات کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ ان حالات میں کہاںجائوں اور کیا کروں؟ ہفتہ وار درسِ قرآن  گھرمیں ہی کرواتی ہوں۔ اس کے علاوہ بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں اور جہاں بھی کوشش ہو دین کی دعوت پھیلانے سے دریغ نہیں کرتی۔ براہ مہربانی آپ مجھے ضرور بتائیں کہ اس سلسلے میں عورتوں کو کس حد تک چھوٹ دی گئی ہے؟

ج: قرآن کریم نے دعوتِ دین کا فریضہ ہر مسلمان مرد و عورت پر عائد کیا ہے۔ چنانچہ امربالمعروف ونہی عن المنکر میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی رفیق و ساتھی قرار دے کر اس غلط فہمی کو دُور کر دیا گیا ہے کہ عورتیں دعوتِ دین سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن قرآن و سنت نے نہ صرف دعوتِ دین بلکہ دین کے تمام معاملات میں جواب دہی کو استطاعت کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ اگر ایک شخص کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ کر اسے بے بس کر دیا گیا ہے یا مرض کے غلبے سے وہ یہ قوت نہ رکھتا ہو کہ اٹھ کر نماز پڑھ سکے تو وہ اشاروں سے نماز پڑھ سکتا ہے۔ گویا ایک کام کے کرنے کا تعلق صلاحیت و استطاعت کے ساتھ ہے۔ اگر حالات ایسے ہیں کہ باوجود خواہش اور  تڑپ کے ایک شخص ایک کام نہیں کرپاتا تو وہ اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت صدقِ دل سے جائزہ لے لیا جائے کہ کیا واقعی ممکنہ ذرائع کا جائزہ لینے کے بعد ایک شخص اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ اور کیا جن حالات میں وہ شخص ہے کسی اور طریقے سے دعوت نہیں دی جاسکتی۔

خصوصی طور پر جو بات آپ نے دریافت فرمائی ہے اس میں اس بات کی کوشش کیجیے کہ اپنی والدہ اور والد کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان سے اپنی تعلیم کے حوالے سے بات کیجیے تاکہ  آپ یونی ورسٹی میں تعلیم مکمل کرسکیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے فاصلاتی نظام کے ذریعے ایم اے کی کوشش کیجیے۔ یونی ورسٹی لکھ کر معلوم کیجیے کہ آپ جس مضمون میں ایم اے کرنا چاہتی ہیں اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔

بچوں کو قرآن کریم پڑھانا خود دعوت ہی کی ایک اہم شکل ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو خود قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے وہ سب سے اچھا انسان ہے۔ اس لیے آپ اس کام کی عظمت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھانے کے ساتھ اس کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ کیجیے تاکہ ان میں اسلامی فکر پیدا ہوسکے۔ یہی بچے آیندہ چل کر تحریکِ اسلامی میں شامل ہوں گے اور جب تک وہ دعوتی کام کریں گے آپ کا اجر مسلسل بڑھتا جائے گا۔

ہفتہ وار درس قرآن باقاعدگی سے کرایئے لیکن اس میں بھی کوشش کیجیے کہ شرکا محض سامع نہ ہوں بلکہ انھیں آپ اس حد تک قرآن کریم کے الفاظ و معانی سے آگاہ کر دیں کہ وہ خود اپنے اپنے گھروں میں اس طرح کے اجتماعات کر سکیں گویا آپ trainersکو تیار کریں۔ اس غرض کے لیے انھیں خود تیاری کروا کے درس دینے پر آمادہ کریں۔ ان کے لیے ہر درس کے بعد ایک سوال نامہ مرتب کریں جس میں قرآن کے جس حصے کا مطالعہ کیا گیا ہے اس پر سوالات ہوں۔ ان سوالات کے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد اگلے درس میں آپ انھیں اصلاح شدہ پرچے واپس کر دیں تاکہ وہ اپنی اغلاط سے آگاہ ہوں اور اپنی اصلاح کرلیں۔اس طرح آپ جو کام کررہی ہیں وہ خود دعوت کا بہترین نمونہ بن جائے گا۔

دین کی حکمت کا مطلب یہی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں ہوں‘ اس کا بہترین استعمال اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کیا جائے۔ اگر آپ اپنے وقت کا استعمال اس طرح کریں گی تو پھر کسی کالج یا محلے میں جاکر دعوتی کام نہ کرسکنے کا افسوس آپ کو نہیں ہوگا اور نتائج کے لحاظ سے ان شاء اللہ آپ کو مکمل اطمینان اورسکون ہوگا۔ (ا-ا)


مساجد میں بچوں کے ساتھ رویہ

س  : مساجد میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی نماز کے لیے آتے ہیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کی امامت میں جب خواتین نماز ادا کرتی تھیں توآپؐ کسی بچے کے رونے پر نماز مختصر فرما دیتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ مسجد میں کیا رویہ ہونا چاہیے؟ عام طور پر نمازی حضرات بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں‘ جھڑکتے ہیں اور بسااوقات مارنے سے بھی نہیں چوکتے جس کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ دوسری طرف بچے بھی ہنسی مذاق اور شرارتوں سے نماز میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔

ج : مساجد کو اللہ تعالیٰ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ اللہ کا گھر بچوں یا عورتوں کے لیے بند ہے۔ لیکن کسی بھی گھر کے آداب کی طرح مسجد کے بھی آداب ہیں۔ مسجد کے آداب میں خشوع و خضوع اور خاموشی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ صفوں کے سلسلے میں نمازیوں کے مراتب کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ احادیث میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ امام کے فوری پیچھے وہ افراد ہوں جو قرآن کا علم زیادہ رکھتے ہوں تاکہ اگر امام سے سہو ہو تو وہ فوراً اس کی اصلاح کر دیں۔ صف بندی میں آغاز امام کے پیچھے سے کیا جائے اور پھر پہلے داہنی پھر بائیں جانب بالترتیب افراد صف بناتے جائیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بچوں کو بعد کی صف میں رکھا جائے اور آخر میں خواتین تاکہ وہ مردوں سے دُور رہیں۔ نیز احادیث میں اس بات کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ عورت کی نماز گھر میں‘ مسجد میں نماز ادا کرنے کے مقابلے میں افضل ہے۔ اس لیے عام حالات میں خواتین کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا چاہیے۔ مسجد میں نماز کے لیے اسی وقت آئیں جب ان کے لیے مسجد میں آنا ضروری ہے‘ مثلاً خطبہ جمعہ‘ درس قرآن‘ درس حدیث وغیرہ سے استفادہ کرنا۔ ایسی صورت میں مسجد میں حاضری دیں‘ نماز بھی باجماعت پڑھیں اور وعظ و درس سے بھی استفادہ کریں۔

آپ نے بالکل صحیح نشان دہی کی ہے کہ بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ افسوس ناک ہے۔ اگر بچوں کے مساجد میں آنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو آیندہ نسلوں کا اسلام سے تعلق بھی کمزور ہوگا۔ اس لیے بچوں کو مساجد میں آنے پر ابھارنے اور ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ مساجد میں ان کے لیے ان کے ہم عمر بچوں کے تعاون سے ایسے پروگرام ہونے چاہییں جن سے وہ نہ صرف نماز میں پابندی کے عادی ہوں بلکہ دینی معلومات بھی حاصل کر سکیں۔

بچوں کو شرارت سے روکنے کا ایک انتہائی آسان طریقہ یہ ہے کہ مردوں کی صف میں اگر دومردوں کے درمیان ایک بچہ کھڑا کر دیا جائے تو بچے نہ شورغل کر پائیں گے ‘ نہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں گے اور نہ کسی دینی اصول کی خلاف ورزی ہوگی‘ نیز بچوں کو آخر سے پہلی صف میں رکھنے کا جومقصد ہے اس کے لیے انھیں تیار کیا جائے۔ جب وہ اس قابل ہو جائیں تو پھر تربیت یافتہ بچوں کی صفیں مردوں کی صفوں کے بعد بنائی جائیں۔(ا - ا)