سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


انتظامی اُمور اور مملکتی نظام(Civil Administration) میں فوج کا داخل ہونا، فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔

فوج، بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے، ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔

اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف، خود اپنے ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔

علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں، خواہ وہ سیاست کار ہوں یا ملکی نظم و نسق کے منتظم(Civil Administrators)، ان کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ ان سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی۔

فوج کا اس میدان میں اُترنا لامحالہ فوج کو غیر ہردلعزیز بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقعے پر ملک کا ہرفرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔

دُنیا میں زمانۂ حال کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کومفید ثابت نہیں کیا ہے، بلکہ درحقیقت تجربے نے اس کے بُرے نتائج ظاہر کر دیئے ہیں۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہ نامہ  ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۴، جنوری ۱۹۶۲ء، ص۵۰-۵۱)

اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہوسکتا، جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے، اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔

اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے، جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں، بلکہ اس کو دفترِ بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں۔ پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات واقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے، تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان، جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔

اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا، وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلط کیا جاسکے گا ،اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہوجائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اُگل کر پھینک دے گا، جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔

مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کرسکتے ہیں، تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے، جن کے علمِ دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسا ہو، اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصورات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔

جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رَد کردینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اِس [زمانے] میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی،  ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۳،دسمبر ۱۹۶۱ء، ص۵۷-۵۸)

یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی، اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ اُلٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یو رپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے؟ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) شائع کی ہے۔ اس میں کوئی ایک مضمون (Article) بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائیبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین، اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ’’ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں‘‘۔

یہ صورتِ حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویّہ مسلمانوں کی ’غیراسلامی حکومت‘ ہی کو مبارک رہے! (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی،  ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۲،نومبر ۱۹۶۱ء، ص۵۵-۵۶)

اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز نافذ ہونے سے روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سدِّراہ ہیں، ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ انھیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔

مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلّط ہوئیں تو انھوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظامِ تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے اُن سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہرملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو اُن کے قائم کردہ نظامِ تعلیم سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی  رفتہ رفتہ اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جنھوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقہ سے انھوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی، جو اسلام اور اس کی تاریخ، اس کی تعلیمات اور اس کی روایات ہرچیز سے علمی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔

یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے۔جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیراسلامی طریقے پر دی گئی ہو وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابلِ عمل نہیں ہے ۔ جس نظامِ زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابلِ عمل تصور کرسکتے ہیں۔ اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: یا تو ہم من حیث القوم کافر ہوجانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دُنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ (منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقہ سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے قابل لوگ تیار کرسکیں۔ (’رسائل و مسائل‘ ، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۱،اکتوبر ۱۹۶۱ء، ص۵۰-۵۱)

مرتبہ : سلیم منصور خالد

علم کے حصول اور ہدایت کی نعمت پانے کے لیے سوال کو بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے۔  مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒنے جب قافلۂ راہِ حق کو منظم کیا، تو پھر بھرپور ساتھ دینے والے اور قافلے کو دُور سے دیکھنے والے، دونوں، مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے پاس اپنے سوال لے کر آئے۔

سوال پوچھا اسی سے جاتا ہے کہ جس پہ اعتبار ہو اور جس کی بات پر اعتماد ہو۔ جس کے علم اور جس کی دیانت پر دل کو اطمینان ہو۔ سو، کارکنان، کارزارِ زندگی میں دعوت و تنظیم کی مشکلات  برداشت کرتے ہوئے، جب بھی کوئی اُلجھن یا خلش دل میں پاتے تو مولانا محترم کی مجالس میں پہنچ جاتے یا خط کی صورت میں ذہن کی مشکلات، دل کے وسوسے اور راہوں کے کانٹے مولانا کے سامنے بلاجھجک ڈھیر کر دیتے۔مولانا مودودی کمالِ شفقت، حددرجہ محبت اور نہایت توجہ سے سوالات سنتے، بلکہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور پھر نہایت نرمی سے جواب عطا فرماتے۔ یہاں ان کی مجالس میں، کارکنوں کے سوالات، مولاناؒ کے جوابات اور کچھ تقریروں کے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں رہنمائی کے نقوش روشن ہیں۔

دسمبر ۱۹۷۰ء میں پہلے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نامزد اُمیدواروں کو ناکافی ووٹ ملے۔ اس صورتِ حال نے کارکنوں کے ذہنوں میں چند در چند اُلجھنیں پیدا کیں۔ متعدد نشستوں میں کارکنوں کی جانب سے اُٹھائے جانے والے حسب ذیل سوالات کی روشنی میں دیکھا، سمجھا اور راہِ عمل کے لیے زادِ راہ بنایا جاسکتا ہے:


  •    ۱۰ جنوری ۱۹۷۱ء کو لاہور میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے، مولانا ؒنے فرمایا:

انتخابات میں کامیابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کامیابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طریقے سے ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھوکے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھوکریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔

اس لیے محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کرسکتے، جو ہمارے کارکن کا معیارِ اخلاق گرا دے، اوروہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔

جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت اُن سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہرپہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔اس کے لیے بلاشبہہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازماً، وہ ایسے ہی کارکن ہونے چاہییں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دُور دُور تک انھیں کامیابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔

  •     ۱۲فروری ۱۹۷۲ء کو لاہور میں مرکزی مجلس شوریٰ سے خطاب کے دوران فرمایا تھا:

جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیونکہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی، تخریب ہوتی ہے۔ اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کوشش کرسکتے ہیں، وہ کریں گے… جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ کیا عہد کرکے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری اُمت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟

 بہرحال، ہمیشہ ہنگامہ خیز پروگرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے برپا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑگیا ہو تو اس کو اب دُور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔

ہم اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوعِ انسانی کی جماعت ہے۔اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کوشش کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہرایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اور میرا کیا فریضہ ہے؟ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہوگا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہونا چاہیے کہ میں اکیلا ساری دُنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔

انتخابی نتائج سے مایوسی پر

  • انتخابی نتائج کے بعد کچھ لوگ تحریک ِ اسلامی کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جمہوریت کا ’طولانی راستہ‘ طے کرنے کے بجائے کوئی ایسا ’شارٹ کٹ‘ اختیار کیا جائے کہ ملک میں فوری طور پر اسلامی انقلاب برپا ہوجائے؟
    • ’شارٹ کٹ‘ [مختصر راستہ] اگر کوئی اختیار کرنا چاہے تو وہ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر کوئی اور جماعت بنائے اور اپنے ’شارٹ کٹ‘ پر چل کر دیکھ لے۔جماعت اسلامی نادانی کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کرسکتی۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں اس میں کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں ہے۔ یہ بہرحال ایک لمبا راستہ ہے، محنت طلب ہے اور جان مار کے کرنے کا کام ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ ہم متوسّط تعلیم یافتہ طبقے کے خیالات کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ عوام کے خیالات کی اصلاح ہے، جن کے اندر بڑے پیمانے پر جہالت پھیلی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اب پہلے سے زیادہ جان مار کے کوشش کرنا پڑے گی۔

  • اس موقعے پر ایک صاحب نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ’’عوام میں کام کرنے کے لیے اب جماعت اسلامی کو ’عوامی جماعت اسلامی‘ ہونا چاہیے‘‘۔
    • مولانا محترم نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

جتنی ’عوامی‘ جماعت اسلامی ہے، اتنی ہی رہے گی، اس سے زیادہ ’عوامی‘ نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اسے عوامی جماعت اسلامی ہی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر اسے جماعت اسلامی کا نام دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے مسلم لیگ کا نام دے دیجیے۔ یہ جماعت اسلامی کے نظم کا ہی نتیجہ ہے کہ اصلاحِ احوال کا کام ایک مؤثر طریقے سے ہورہاہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آپ اس جماعت میں بھی وہی بھانت بھانت کی بولیاںسنتے، جو دوسری جماعتوں میں آپ سنا کرتے ہیں، اور آپ کو ایک ہی جماعت کا نام لے کر لوگ طرح طرح کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے۔ آخر آپ نے مسلم لیگ کا حشر دیکھ لیا۔ اس میں سے عوامی لیگ نکلی اور پھر کئی لیگیں بن گئیں۔ اسی کے اندر سے ری پبلکن پارٹی اور نہ جانے کون سی پارٹیاں نکلیں۔ یہ سب اس کے عوامی پن ہی کا نتیجہ ہے۔

ہم جماعت اسلامی کو ہرگز اس طرح کی عوامی جماعت نہیں بنائیں گے۔ جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف وہ لوگ اس کے اندر کام کریں، جو خوب سوچ سمجھ کر اسلام کو شعوری طور پر مانتے ہوں۔ اگر جماعت اسلامی کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہرشخص مسلمان کے نام سے اس کے اندر آکھڑا ہوگا اور وہی کچھ کرے گا، جو دوسرے مسلمان دُنیا میں کر رہے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ جو شخص جماعت اسلامی میں شامل ہو، وہ شعوری مسلمان ہو۔ سوچ سمجھ کر ایمان لایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کسی نظم کے تحت کام کرے۔ اس جماعت میں جس شخص کو بھی کام کرنا ہے اسے Personal Ambitions [ذاتی جاہ طلبی] کو دل سے نکال دینا چاہیے۔ آدمی کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد اور اپنی شخصیت کا کبر، یہ ساری چیزیں قربان کردے، اور اپنے مقصد کے لیے ایک نظم کے تحت کام کرے۔ نظم کو خراب کرنے والی کسی قسم کی حرکت، درحقیقت اس جماعت کو خراب کرنے کا گناہ ہے۔ اگر نظم اور ضبط کے ساتھ ہم کام کریں گے، تو ان شاء اللہ، آخرکار حالات بدل جائیں گے، خواہ معاشرے میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ پیدا ہوگئی ہوں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲، لاہور]

امام مہدی کا انتظار؟

  • کیا ’اقامت ِ دین‘ ایک ایسا فریضہ ہے، جسے ہر زمانے اور ہرحال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں بھی کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟
    • قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میں اس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بھی بس اسی حد تک ہے کہ ’مہدی آئیں گے اور دُنیا کو، جو ظلم سے بھرچکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے‘۔ اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں،اُس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے نظام قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔

 یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے دی ہے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمدسے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یا اُسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمّہ سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی، جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ شخصیت کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتی کہ ہم دُنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔

رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو کوئی ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اِس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیاء علیہم السلام بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے ہی کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کررہے۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ؑکا فرض یہ بیان کیا گیا ہے: اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ  [الشورٰی ۴۲: ۱۳]، ’’اس دین کو قائم کرو او اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔

اسی طرح سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے۔ تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ  ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ [الفتح۴۸: ۲۸]’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ پورے دین پر اُسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا مقصدِ وجود نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ بعثت سے مختلف بھی کچھ ہوسکتا ہے! [۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

فوری اسلامی انقلاب؟

  • ایک طرف تو بے حیائی، غنڈہ گردی اور اسلام کے مخالف نظریات کے طوفان اُٹھ رہے ہیں، اور دوسری طرف ہم اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں، جب کہ مخالف قوتیں زیادہ قوی ہیں، تو اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟
    • یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ’اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے‘۔ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں مزید اضافہ بھی ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کے لیے ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل میں سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اُٹھائیں۔ ہم نہیں کَہْ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی؟ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے اور دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ لیکن ہمیں پختہ یقین ہے کہ اللہ کا دین غالب ہوکر رہے گا۔[۲۵ مئی ۱۹۷۵ء، لاہور]

سیاسی حکمت عملی کیا ہو؟

  • پاکستان کے موجودہ حالات میں عوام کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریکِ اسلامی کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
    • پاکستان کے موجودہ حالات میں عوام کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ہماری سیاسی پالیسی کیا ہونی چاہیے‘‘، مَیں اس کا ایک اصولی جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ ہمارے رفقا کسی غلط طرزِ فکر میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہم جس ملک میں، جس قوم میں، جس زمانے میں، اور جن حالات میں کام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی پروگرام بناتے ہوئے اُن سب کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ لیکن ان تمام احوال میں ہماری اصولی دعوت لازماً ایک ہی رہے گی۔ ہمارا بنیادی مقصد بھی قطعاً ناقابلِ تغیر ہوگا ، اور اپنا عملی پروگرام بناتے ہوئے ہم ان چیزوں کو صرف اِس حیثیت سے ملحوظ رکھیں گے کہ اس ملک میں، اس زمانے کے حالات میں، ہم اپنی دعوت کو کس طریقے سے فروغ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس قوم کے اچھے رجحانات سے کس طرح فائدہ اُٹھائیں، اوراِس کے بُرے رجحانات کو کس طرح بدلیں کہ وہ ہمارے مقصد کی راہ میں کم از کم رکاوٹ تو نہ بن سکیں۔

اس نقطۂ نظر سے اِن چیزوں کو ملحوظ رکھنا تو عین تقاضائے حکمت ہے۔ لیکن اگر ہم زمان و مکان کے حالات اور لوگوں کے رجحانات کو دیکھ کر اپنی دعوت اور اپنے مقصد ہی پر نظرثانی کرنے بیٹھ جائیں، تو یہ سراسر گمراہی ہے جس کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ طریقِ کار حالات کے لحاظ سے بدلا جاسکتا ہے۔حکمت ِعملی میں لوگوں کے اچھے یا بُرے رجحانات کے لحاظ سے تغیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور اس کی دعوت کے جو اصول مقرر کر دیے ہیں، ان میں ذرّہ برابر کوئی ردّ و بدل لوگوں کے رجحانات یا زمانے کے حالات کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں ہرحال میں اُسی کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ملک میں کام کر رہے ہوں، اُس کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ہم اس مقصد کے لیے سعی و جہد کے ایک طریقے کو موزوں پاکر اختیار کرلیں اور دوسرے طریقے کو ناموزوں سمجھ کر ترک کر دیں۔

اِسی طرح جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مٹانا چاہتے ہیں، ان کو مٹانا ہی ہماری کوششوں کا ہمیشہ مقصود رہے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی استطاعت اور ملک کے حالات، اور عوام کی مزاجی کیفیات کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ کن چیزوں کو مٹانے کی کوشش مقدّم اور کن کے مٹانے کی کوشش مؤخر رکھنی جانی چاہیے۔ نیز یہ کہ اس غرض کے لیے ہم کون سی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں اور کن تدابیر کا اختیار کرنا غیرممکن، غیرمفید، یا غیرمناسب ہے۔ [۲۰ مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

بُرائی کی یلغار میں کام کیسے؟

  • اگر اخلاقی بدحالی اسی رفتار سے بڑھتی رہی اور زیادہ سے زیادہ لوگ بُرائیوں میں ملوث ہوگئے، تو کیا کچھ عرصے بعد لوگ اسلامی نظام سے خائف نہ ہونے لگیں گے؟
    • یہ بات میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ ’معاشرے میں اخلاقی فساد اگر اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو وہ اسلامی نظام کے لیے غیر موزوں ہوجائے گا‘۔لیکن جو بات یہاں سمجھ لینے کی ہے، وہ یہ ہے کہ جس حد تک آپ کے بس میں ہو، آپ اصلاحِ خلق کی کوشش کرتے رہیں۔ جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہے، آپ اس کے بارے میں جواب دہ بھی نہیں ہیں۔

اس وقت صورت یہ ہے کہ ملک کی دولت اور وسائل اور اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ پوری طرح بگاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ یہاں بھلائی نہ پھیلے اور بُرائی ہی پرورش پائے۔ اب ظاہر ہے کہ ہم، جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وسائل و اختیارات، ان کو کیسے روک سکتے ہیں؟ جو ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم پر اس کی جواب دہی بھی نہیں ہے۔ ہم جواب دہ اس بات کے ہیں کہ جو چیز ہمارے امکان میں تھی، اس کے انجام دینے میں ہم نے کہاں تک اس کا حق ادا کیا ہے یا اس میں کمی کی ہے؟ چنانچہ، آپ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور مسلسل اصلاحِ احوال اور اصلاحِ خلق کے لیے کام کرتے رہیں۔

یہ تو تھی اصولی بات! لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کے لیے اسلامی نظام کا گہوارہ بننا مقدر فرما دیا ہے۔ گذشتہ حالات کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوکر رہے گا۔ ہندستان میں مسلمانوں کی ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور معجزہ تھا کہ اس نے ہندستان کے ایک حصے کو پاکستان بنایا اور ایسی شکل میں بنایا، جو کسی اسکیم میں نہیں تھا۔ اسکیم تو یہ تھی کہ ملک تقسیم ہوگا اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندستان میں اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ نقلِ آبادی کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اگر ایسی شکل ہی قائم رہتی تو یہاں اسلامی نظام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا، مگر یہ اللہ کی مشیت تھی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ہجرت کرنا پڑی اور اس طرح یہ علاقہ واضح مسلم اکثریت کا علاقہ بن گیا۔ گویا فسادات کے شر سے اللہ نے خیر کا یہ پہلو اسلامی نظام کے لیے مقدّرفرمایا اور اسلامی نظام کے امکانات واضح فرمائے۔

دوسرے یہ کہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ یہاں جو بھی اسلامی نظام کی راہ میں مزاحم بنا ہے، وہ ذلیل و خوار ہوا ہے۔ نہ اس سے پہلے اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے والے زیادہ دیر تک ٹھیر سکے ہیں اور نہ ان شاء اللہ آیندہ ٹھیر سکیں گے۔ میرا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے اور میں یہ سوچ کر کبھی پریشان نہیں ہوتا کہ یہ لوگ جو اس قدر بگاڑ پیدا کر رہے ہیں تو شاید یہاں اسلامی نظام قائم نہ ہوسکے۔بہرحال، یہ صورتِ حال قوم کے لیے آزمایش کا درجہ رکھتی ہے خدا کرے کہ ہم اس آزمایش پر پورا اُتریں۔

پھر میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جتنی کوششیں اس قوم کو بگاڑنے کے لیے ہورہی ہیں، ان کے تناسب سے لوگوں میں بُرائی نہیں پھیل رہی۔ اس قوم میں خیر اب بھی موجود ہے۔ اب جس حدتک خیر موجود ہے، آپ ا س سے استفادہ کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی جب آپ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ وہ آپ سے نفرت نہیں کرتے بلکہ غلط راستے پر چلنے والوں اور چلانے والوں کو ہی بُرا سمجھتے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کی قدریں نہیں بدلیں، ان کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں اور یہ مرض لاعلاج نہیں ہے۔[۲۷ جنوری، ۱۹۷۳ء، لاہور]

جمہوری طریقے پر ہی اصرار کیوں؟

  • موجودہ حالات میں، جب کہ جمہوریت کے نام پر تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، ہرقسم کی آزادی سلب کرلی گئی ہے، اس میں جماعت اسلامی محض جمہوری طریقوں سے اسلامی نظام کیسے قائم کرسکے گی؟ کیا اس کے سوا اور کوئی طریقہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار نہیں کیا جاسکتا؟
    • جن حالات کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، اُن کو دیکھ کر فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑگئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ’ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘۔ یہ بجائے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی، اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام،  جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہوسکتا، اوراگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ ’غیرجمہوری طریقوں‘ کے مقابلے میں جب ’جمہوری طریقوں‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائیدسے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔

اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنالینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہرحال میں صرف انتخابات ہی پر انحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جباروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جباروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا، جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیرمقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیرجمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔

اس تشریح کے بعد آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونساجاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے، اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ ’انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے‘۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اورفسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔

لیکن، اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، اندازِ فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوسکتے۔

یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی۔ بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی Values (قدریں) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ ’جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے‘ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا، جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔

شاید آپ میری یہ باتیں سن کرسوچنے لگیں گے کہ ’اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں‘۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں:

جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے برسوں میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہرشعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہرشعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر خیر کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوں کی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔

پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے، اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے، مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کیجیے۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمت ِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے، اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔

رہا یہ سوال کہ ’جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیاجاسکتا ہے؟‘

اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا، جبروظلم کے مقابلے میں ہرطرح کی کڑیاں [مصائب و مشکلات کے سلسلے] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ ’’جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں‘‘۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا، جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق،دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل،اورانسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے۔ اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیزدرحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔

جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے افراد لے کر،عام لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہرحالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رُونما ہوتے ہیں:

  •  ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں بہت سے باہمت اور اُولوالعزم لوگ ہی اس دعوت کو علانیہ قبول کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایسا قیمتی سرمایہ ثابت ہوتے ہیں، جو کسی دوسری صورت میں بہم نہیں پہنچ سکتا۔
  •  دوسرا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ظالموں کی پیدا کردہ اِس خوفناک فضا میں بکثرت، بلکہ بے اندازہ لوگ اس دعوت کو دل میں مان لیتے ہیں، مگر آگے بڑھ کر اس میں شامل نہیں ہوتے۔ مخالف طاقت آخرکار اِس کا خود نقصان اُٹھاتی ہے۔ اسے قطعی اور حتمی شکست ہونے تک کبھی یہ پتا ہی نہیں چلنے پاتا کہ جس دعوت کو مٹادینے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے، اس کے حامی کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اُس کی اپنی صفوں تک میں موجود ہوتے ہیں اور وہ اُن سے بے خبر رہتی ہے۔
  • تیسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی برتری اور دعوت کی معقولیت و صداقت اپنی فطری طاقت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دشمن اُس کے پیروئوں پر جتنا زیادہ ظلم کرتے ہیں، اُتنے ہی وہ ہرشریف النفس اور نیک طبع انسان کی نظر سے گرتے جاتے ہیں۔ اُس کے پیرو جتنی ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ ظلم برداشت کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی حق پرستی سے بال برابر بھی نہیں ہٹتے، اُتنی ہی ان کی قدر و منزلت عام دیکھنے والوں ہی میں نہیں، بلکہ خود دشمنوں کی صفوں میں بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، اور پھر جب فیصلہ کن مقابلوں کا وقت آتا ہے، تو قدم قدم پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں طرح طرح سے کام آتی ہیں، جو دشمنوں کے جبر کی وجہ سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے، مگر دل سے اِس دعوت کے حامی تھے، یہاں تک کہ آخرکار چند مٹھی بھر ہٹ دھرم دشمن ہی میدان میں رہ جاتے ہیں جن کا ساتھ دینے والا تو درکنار ان کے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

ظلم و جَور کا ماحول جہاں بھی ہو، اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رُونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے۔ آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

پالیسی ساز کون؟

  • آیندہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟
    • اس سوال کا جواب مَیں آپ کو یہاں نہیں دے سکتا۔ اس کے متعلق اگر مجھے کچھ کہنا ہوگا تو امیرجماعت سے کہوں گا، یا جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ مجھ سے دریافت کرے گی تو اس کے سامنے بیان کروں گا، یا مجلس شوریٰ مجھ سے پوچھنا چاہے گی، تو اس کے اجلاس میں پیش کروں گا۔ میں ایک عام رُکنِ جماعت ہوں۔ نہ امیر جماعت ہوں، نہ مجلسِ عاملہ کا رُکن اور نہ مجلسِ شوریٰ کارُکن۔میرا یہ کام نہیں ہے کہ یہاں بیٹھ کر جماعت کی پالیسی طے کروں۔ پالیسی طے کرنا اُن لوگوں کا کام ہے، جو دستور کی رُو سے اس کے مجاز ہیں۔ کسی معاملے میں میری جو رائے بھی ہوگی، اُسے اُن تک پہنچا دوں گا۔ پھر یہ اُن کی صواب دید پر موقوف ہے کہ جو پالیسی چاہیں بنائیں۔
  • اس موقعے پر ایک صاحب نے کہا: ’’لیکن مولانا، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ سب کچھ ہیں‘‘۔
    • میں اِس تصور کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہوں۔ یہ جماعت ایک دستور اور ایک نظام پر قائم ہے۔ اس میں مجھ سمیت کوئی شخص بھی اپنی ذاتی حیثیت میں ’سب کچھ‘ نہیں ہوسکتا۔ جس روز جماعت کی تاسیس ہوئی تھی، اُسی روز میں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ دعوت تو بلاشبہہ میں نے دی ہے، مگر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ جو شخص داعی ہے، اُسی کو آپ سے آپ امیر جماعت بھی ہونا چاہیے۔ میرا کام آپ کو اقامت ِ دین کے لیے جمع کر دینا تھا، سو وہ میں نے کر دیا۔اب یہ طے کرنا آپ کا کام ہے کہ یہ ذمہ داری کس کے سپرد کریں۔

اُس وقت چونکہ ارکانِ جماعت نے امارت کا بار میرے اُوپر ہی رکھ دیا، اس لیے میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب میری خرابی ٔ صحت نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ اِس ذمہ داری کا حق ادا کرسکوں، اس لیے میں نے ایمان داری کے ساتھ اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرا لیا ہے۔ اس کے بعد پھر وہی ذمہ داری میں اپنے سر کیسے لے لوں، جب کہ نظامِ جماعت کی رُو سے اب میں اس کا حامل نہیں رہا ہوں ؟ البتہ خادمِ جماعت ہونے کی حیثیت سے میرا جو فرض ہے، اُسے جب تک زندہ ہوں، ان شاء اللہ ادا کرتا رہوں گا۔[۲۰مارچ ۱۹۷۵ء، لاہور]

جمہوری راستہ بند ہوجائے تو پھر؟

  • [مولانا مودودی نے خود اپنے الفاظ میں سوال وضع کرتے ہوئے فرمایا:] ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب یہاں جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا،اور جمہوری طریقوں سے صالح تغیر کا راستہ قریب قریب بند کر دیا گیا ہے، اور اگر یہاں کبھی انتخابات بھی ہوئے تو وہ انتہائی بے ایمانیوں اور بددیانیتوں کے ذریعے سے جیتے جاتے رہے ہیں، اور ایسے حالات بھی یہاں پیدا کردیے گئے ہیں کہ اگر مفروضے کے طور پر ہم انتخابات میں کبھی سو فی صدی ووٹ حاصل کربھی لیں، تو صندوقچیوں سے ووٹ ہمارے خلاف ہی برآمد ہوں گے، تو ایسی صورت میں جمہوری ذرائع سے اصلاحِ احوال کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
    • یہ صورتِ حال فی الواقع یہاں موجود ہے، لیکن ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرنی ہے۔ ہمیں اس غرض کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی ہے کہ ہماری اَن تھک محنتوں کے نتیجے میں، انسانوں کا سیلاب اس طرح انتخابات کے مراکز پر اُمڈ آئے کہ اگر کوئی شخص بے ایمانی کرنا بھی چاہے ، تو وہ ایسا نہ کرسکے۔ انقلابی تحریکوں کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب لوگوں کے اندر ایسا عزمِ راسخ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی طاقت ان کے مطلوبہ نظام کو آنے سے نہیں روک سکتی۔ وہ ہر راستے سے آتا ہے اور ایسے ایسے راستوں سے آتا ہے، جن کو بند کرنے کا خیال بھی کسی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔

اس لیے آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپ جس نظام کے لیے جدجہد کر رہے ہیں، وہ یہاں کیسے آئے گا؟ آپ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنا فرض نہایت خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کرتے چلے جائیں۔ آپ کی واحد فکرمندی آپ کا وہ کام ہو، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، جو اس نظام کا تقاضا ہے۔

جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں؟ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی، یا اس کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی نظم کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہدکرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہوگا، وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں، آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، آپ کے اندر نظمِ جماعت کی اطاعت پائی جاتی ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہرلحظہ کوشاں ہوں۔ چاہے یہ کام آپ کو برسوں بھی کرنا پڑے، لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو ان شاء اللہ کوئی طاقت اس ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔[۳۱مارچ، ۱۹۷۴ء، لاہور]

حکومتی تشدد کے جواب میں طریق کار

  • اسلامی تحریکیں اس وقت جگہ جگہ حکومتوں کے جبروتشدد کی فضا میں سانس لے رہی ہیں۔ چنانچہ آپ کی نظر میں وہ کون سا مناسب ترین رویہ ہے، جو اسلامی تحریکوں کو ان حکومتوں کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے؟
    • میرے نزدیک یہ طے کرنا ہر ملک کی اسلامی تحریک کے کارکنوں اور قائدین کا کام ہے کہ جس قسم کا ظلم و استبداد اُن پر مسلط ہے، اس کے مقابلے میں وہ کس طرح کام کریں؟ ہرملک میں اس کی صورتیں اور کیفیتیں اتنی مختلف ہیں کہ سب کے لیے کوئی ایک طریق عمل تجویز کرنا مشکل ہے۔

البتہ جو چیز مَیں ان کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے، اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرکے بھی علانیہ، پُرامن اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قیدوبند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔ [نومبر ۱۹۶۸، لندن]

مسلح مخالف عناصر کے جواب میں ردعمل

  • پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی سوشلسٹ عناصر (اور علاقائی نسل پرست) خفیہ طریقے سے اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں، اور اپنے کارکنوں کو فوجی تربیت دے رہے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی اسی طریقے سے اپنے آپ کو منظم کریں؟
    • ہمارا کام خفیہ تحریک چلانا نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے نظریے کو پھیلانا ہے۔ کمیونسٹ کھلے طریقے سے عوام میں کام نہیں کرسکتے۔ ان کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ خفیہ طریقوں سے کام کرتے ہیں، اور عوام کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیونکہ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں، ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا، اور جب وہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے، تو یہ خرابیاں ایکا ایکی اُبھر کر پورے ملک کے لیے آزمایش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی اشتراکی روس میں برسرِ اقتدار آگیا، اور روس کے عوام نے ایک زار [یعنی پرانے روسی بادشاہ]سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے سرخ زار نےان کی گردن دبوچ لی۔

خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے ، اور یہ قتل و غارت گری اس تحریک کا عام مزاج بن جاتا ہے۔

بہرکیف، یہ ایک بلا ہے، جو ہمارے ملک میں پرورش پارہی ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ ’ہم بھی ایک جوابی بلا بننے کی کوشش کریں‘۔ہمارا کام یہ ہے کہ کھلے بندوں لوگوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کریں۔ گائوں گائوں جاکر، ایک ایک کسان کو بتائیں کہ یہاں سوشلسٹ انقلاب آگیا تو ایک بیگھہ زمین بھی تمھارے پاس نہیں رہے گی۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسان یہ بات سمجھ جائیں تو کوئی کمیونسٹ بھی ان کے گائوں میں داخل نہیں ہونے پائے گا، اور یہ لوگ کمیونسٹوں کی وہ خبر لیں گے کہ ان کے حواس درست ہوجائیں گے۔

جہاں تک ہتھیار بند ہونے کا تعلق ہے، اگر آپ کو لائسنس کا ہتھیار مل سکتا ہو تو ضرور رکھیے، نشانہ بازی کی مشق بھی کیجیے، لیکن غیرقانونی اسلحہ نہ رکھیے۔ مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی اخلاقی، شرعی یا قانونی جرم نہیں ہے، بلکہ اس کی اجازت ہے۔ لیکن خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا، اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی خطرناک۔[۹نومبر ۱۹۶۹ء، لاہور]

پُرتشدد گروہ اور ان سے تعاون؟

  • آپ بار بار کہتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی آئینی ذرائع سے ہونی چاہیے۔ لیکن گذشتہ انتخابات سے ثابت ہوگیا ہے کہ رائے عامہ کی واشگاف تائید کے باوجود پُرامن تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف تخریب پسندی اور توڑ پھوڑ میں ہلاکت ہے، تو پھر اس کا حل کیا ہے؟
    • آئینی طریقے سے حالات کی تبدیلی کا مفہوم اور ہے، اور کسی ملک کے آئین کی پابندی کرتے ہوئے حالات کو تبدیل کرنے کا مفہوم اور ہے۔ آئینی ذرائع سے نظام کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ آئینِ پاکستان (۱۹۶۲ء) کے مقرر کردہ طریقوں کے اندر رہ کر ہی کوششیں کی جائیں گی، بلکہ دُنیا بھر میں آئینی ذرائع سے جو مطلب لیا جاتا ہے، ان ذرائع کو اختیار کرکے تبدیلی کی جائے گی، اور یہ ذرائع موجودہ آئین کے مقرر کردہ طریقوں سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک توڑ پھوڑ کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس ملک میں ایک ایسا عنصر موجود ہے، جو ایسی کارروائیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے اشتراکی آمریت قائم کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کے لیے ان کا فلسفہ تو یہی ہے کہ ’بندوق کی نالی انقلاب کا سرچشمہ ہے‘۔ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائے دار نظامِ حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقا کے اُن ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے، اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں گے، اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔

  • بعض عناصر ملک میں توڑ پھوڑ اور تشدد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ کیا جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں ان سے کسی طرح کا اشتراکِ عمل کیا جاسکتا ہے؟
    • اس موقعے پر جو پہلی بات میں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پاکستان کسی سوشلزم یا مارکس ازم، برطانیہ ازم اور امریکا ازم کے لیے قائم نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ملک صرف اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، اس لیے یہاں صرف اسلامی نظام ہی آئے گا۔ کسی طاقت کی یہ جرأت نہیں کہ وہ یہاں اسلام کے علاوہ کوئی اور ازم نافذ کرے۔ جب تک ہم زندہ ہیں، ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔

دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں اصلاح کے لیے اُٹھے ہیں، اسے خراب کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کے فضل سے تحریک ِ اسلامی ایک منظم تحریک ہے، اور وہ صرف ایسے عناصر سے مل کر کام کرے گی، جو مفسد اور غارت گر نہیں ہیں۔ تحریک ِ اسلامی نہ تو کسی تخریب کار گروہ سے تعاون کرے گی، اور نہ اسے یہاں کام کرنے دے گی۔[نومبر ۱۹۶۸ء، لندن]

آئینی ذرائع سے انقلاب کیسے ممکن؟

  • کیا موجودہ صورتِ حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہوگیا، کیونکہ جن لوگوں سے ہم کو سابقہ درپیش ہے، وہ خود غیر آئینی ذرائع استعمال کر رہے ہیں؟
    • فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں، تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟

بہت بُرا کیا گیا کہ غیرآئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے، اور بہت بُرا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیرآئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں:

ایک ’علانیہ‘ اور دوسری ’خفیہ‘۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟

علانیہ طور پر غیرآئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ بُرا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے، اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہندستان میں تحریک ِ آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔

اگر خفیہ طریقے سے غیرآئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے، تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کُل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک انھی کی مرضی پرچلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِاقتدار آئیں گے، تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں، تو خلقِ خدا کےلیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ،تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کاربھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسی طریقے کو اپنایا ہے۔ پہلے چند سال میں ہمارے اُوپر مسلسل غیرقانونی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر ان کے جواب میں ہم نے کبھی کوئی غیرقانونی ذریعہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود انھی کا منہ کالا ہوا کہ جنھوں نے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی طریقے روا رکھے، مگر خدا کے فضل و کرم سے ہمارے اُوپر کوئی دھبّا ثابت نہ کرسکے۔ اِس چیز کا زبردست اخلاقی اثر مرتب ہوا۔ خود ان لوگوں کا ضمیر بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں۔

آپ سے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیرآئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔[۲۳؍اگست ۱۹۷۲ء، لاہور]


  •   ۳۱مارچ ۱۹۷۴ء کو منصورہ، لاہور میں اپنے سب سے پہلے خطاب میں مولانا  ؒ نے فرمایا:

جماعت اسلامی کا یہ موقف کیوں ہے، اور اسے اپنے اس موقف پر کیوں اصرار ہے کہ وہ جمہوری ذرائع ہی سے اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اور وہ غیر جمہوری ذرائع کے استعمال کی کیوں مخالف ہے؟ اس کو مَیں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:

خدا کی قسم! اور مَیں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ جو مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے سے، کسی قسم کی دہشت پسندانہ تحریک کے ذریعے سے، اور کسی قسم کی خفیہ تحریک یا سازشوں کے ذریعے سے ملک میں انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ خالصتاً جمہوری ذرائع سے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، یہ مسلک قطعاً کسی خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ ہرگز اس بناپر نہیں ہے کہ ہم کبھی کسی ابتلا کے وقت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کَہْ سکیں کہ ’’ہم دہشت پسند نہیں ہیں، ہمارے اُوپر تشدد یا قانون شکنی کاالزام نہ لگایا جائے‘‘۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے۔

 اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر اسلامی انقلاب ہے، اور اسلامی انقلاب کسی خطۂ زمین میں اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں۔ جب تک لوگوں کے افکار، اور ان کے اخلا ق و عادات میں تبدیلی نہ لائی جائے، اس وقت تک مضبوط بنیادوں پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ اگر زبردستی، کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا سازشوں اور خفیہ ہتھکنڈوں کے ذریعے سے کوئی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو اس کو کبھی دوام اور ثبات نصیب نہیں ہوتا، اور بالآخر اسے کسی دوسرے انقلاب کے لیے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔ پھر اسی طرح اگر دھوکے بازیوں اور جھوٹ اور افترا کی مہم کے ساتھ انتخابات جیت کر، یا کسی اور طریقے سے حکومت پر قبضہ کرکے کوئی سیاسی انقلاب برپا کر بھی دیا جائے، تو چاہے وہ کتنی دیر تک قائم رہے، لیکن جب وہ اُکھڑتا ہے تو اس طرح اکھڑتا ہے، جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہیں تھی۔ ہم اس طرح کے تجربے نہیں کرنا چاہتے۔

  •   ۱۰مئی ۱۹۶۳ء کو مکہ مکرمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے وصیت فرمائی:

اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔

ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اورافکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ،ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا، وہ ایسا پائے دار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر، مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رُونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔

  •    ۲۹؍اکتوبر ۱۹۷۳ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

جب ہم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا، تو ہمیں اندازہ اس سے بہت زیادہ سخت رکاوٹوں کا تھا۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ ہمارا زمین پر جینا اور سانس لینا مشکل کردیا جائے گا۔ اُس وقت ہم نے اس تحریک کو شروع کیا تھا اس ارادے کے ساتھ، اور اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس ارادے کو تقویت عطا کرے، کہ جان جس کی دی ہوئی ہے، اس کی راہ میں چلی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ ہم اپنی جگہ اس سے بہت بدتر حالات کے لیے تیار ہوکر اُٹھے، اور اللہ کا شکر ہے کہ جن بدتر حالات کا ہم نے اندازہ کیا تھا، ابھی تک وہ پیش نہیں آئے۔

اس لیے میں آپ سے صرف ایک بات کہوں گا کہ آپ یہ تدبیریں سوچنے کی فکر چھوڑ دیں کہ ان سماجی حالات میں اور ان پابندیوں میں کیسے کام کیا جائے؟ یہ فکر چھوڑ کر اپنے اس عزم کو تازہ کریں کہ اگر پہاڑ بھی ہمارے راستے میں آئے تو ہم اس کے اندر بھی سرنگ کھودیں گے۔ اس عزم کے ساتھ آپ اپنا کام کریں کہ جو طاقت بھی راستے میں حائل ہو، اس کے ہوتے ہوئے ہم اپنا کام کرکے رہیں گے۔

ضرورت باہر کے حالات سازگار ہونے کی نہیں ہے، ضرورت اندر کے عزم اور ایمان اور ارادے کے پختہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو تو باہر کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، آخرکار ان کے اندر سے آپ اپنا راستہ نکال ہی لیں گے۔

یہ بات اس سے پہلے بارہا کَہْ چکا ہوں، اور اب پھر کہتا ہوں کہ اسلام کا کام کرنے والوں کے لیے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے، اندھادھند کام کریں۔ ان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ کام کریں، عقل سے کام لیں، اور عقل سے کام لے کر دیکھیں کہ جو رکاوٹیں ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں؟ اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ان رکاوٹوں کے اندر سے ہم اپنا راستہ کیسے نکال سکتے ہیں؟

  • مولانا مودودیؒ نے حالات کی سنگینی اور کارکنان کی پریشان فکری کا اندازہ لگا کر فرمایا:

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو کچھ بھی کام ہے، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہماری اپنی تنظیم مضبوط ہو۔ کیونکہ وہ مشینری، جس سے ہم نے کام لینا ہے، وہی اگر کمزور پڑگئی ہو، ڈھیلی ہوگئی ہو، اس کے کچھ پیچ نکل گئے ہوں یا کچھ پیچ ڈھیلے پڑگئے ہوں، تو ہم کام کس چیز سے لیں گے؟

جس قسم کے ہنگامی کام ہم کو کرنے پڑے، ان سے یہ بات صاف طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اندر سے کمزور پڑگئی ہے۔ اس لیے دوسرے تمام کاموں سے پہلے آپ کو اپنی تنظیم مضبوط کرلینی چاہیے۔ اب تک جو مشکلات آپ کو پیش آچکی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مشکلات آگے چل کر پیش آسکتی ہیں۔ اس لیے اب آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ جماعت کی تنظیم زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو، اور جو ڈھیل پیدا ہوگئی ہے، وہ رفع ہو۔ اس غرض کے لیے اگر آپ کو کچھ لوگوں کو نکال دینا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں۔ سختی کے ساتھ نظم کی پابندی کرائیں۔ جو نظم کی پابندی نہ کرے اس کو نکال باہر کریں۔ آپ نظم کی پابندیوں پر پورا زور دیں۔ جو احکام دیے جائیں، جو ضوابط مقرر کیے جائیں، ان کی پابندی کروایئے۔ اجتماعات کے اندر لوگوں کو باقاعدگی سے آنا چاہیے۔ اگرکوئی رکن اجتماعات میں مسلسل حاضر نہیں ہوتا تو ہرایسے شخص کو بلاتامل خارج کردیں، اِلا یہ کہ وہ توبہ کرے اور آیندہ نظم کی پابندی کا وعدہ کرے۔

 


مولانا مودودیl نے بڑے واضح الفاظ میں ان ہدایات کو زور دے کر ذہن نشین کیا:

  • ہماری تمام تر جدوجہد کا محور صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
  • ہمیں معاشرے کے اندر دینی، اخلاقی اور تہذیبی سطح پر دعوت و تربیت دینا ہے۔
  •  ہماری جدوجہد آئینی حدود میں ہوگی، اور اسی سے عوام میں بیداری پیدا کی جائے گی۔
  •  ہماری کوششوں کا دائرہ رائے عامہ کی ہمواری اور جمہوری جدوجہد سے منسوب ہوگا۔
  • ہم تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے اور خفیہ یا مسلح کارروائیوں کو کسی درجے میں اپنے ہاں جگہ نہیں دیں گے۔
  • ہماری ’عوامیت‘ اخلاق، معیار اور خداترسی پر مبنی ہوگی۔
  •  ہم نظم جماعت میں کوئی ڈھیل نہیں دیں گے اور نہ غیرمعیاری تنظیم بنیں گے۔
  • بہرصورت، ہم مذکورہ بالا اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ جسے ہماری اس پالیسی سے اتفاق نہ ہو، وہ خود الگ ہوجائے، یا پھر وہ نہیں سمجھتا تو اسے الگ کر دیا جائے۔ [سوال و جواب کتاب تصریحات سے اور تقریروںکے اقتباسات، ترجمان القرآن، آئین، ایشیا، ہم قدم سے لیے گئے ہیں]

انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے ’خوارج‘ اور ’معتزلہ‘ تھے:

’خوارج‘ کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت حائل تھی، جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا۔ اور اس کی راہ میں حضوؐر کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں’ خوارج‘ کے انتہاپسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔

’معتزلہ‘ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر ’عقل‘ کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کے عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے، جس سے وہ ان نام نہاد ’عقلی تقاضوں کے مطابق‘ ہوجائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انھوں نے بھی ’خوارج‘ کی طرح ’حدیث‘ کو مشکوک ٹھیرایا اور ’سنت‘ کو حجت ماننے سے انکار کیا۔

ان دونوں فتنوں کی غرض اور ان کی تکنیک مشترک تھی۔ ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اُس نظام فکروعمل سے جو خدا کے پیغمبرؐ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا۔ الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔ (منصب رسالت نمبر، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۶،ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۹-۱۰)

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْـرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۝۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۝۱۳ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے  جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکےہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔

یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کرکے اسے سمجھا جائے۔

شریعت کا مفہوم

فرمایا کہ  شَرَعَ لَكُمْ  ’’مقررکیا تمھارے لیے‘‘۔شرع کے لغوی معنی ’راستہ بنانے‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد ’طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا‘ ہے۔ عربی زبان میں اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’تشریع‘ کا لفظ قانون سازی (Legislation) کا، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا اور ’شارع‘ کا لفظ واضع قانون (Law-Giver )کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریعِ خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ہے، اُن اصولی حقائق کا، جو اُوپر آیت نمبر ۱، ۹ اور ۱۰ میں بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہرچیز کا مالک ہے، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون وضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کردیا ہے۔

پھر فرمایا: مِّنَ الدِّيْنِ  ،’’ازقسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس کا ترجمہ ’’از آئین‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ لفظ ’’دین‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورئہ زمر، حاشیہ نمبر۳ میں کرچکے ہیں، وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کرکے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مُطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ و نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا، وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔

اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اُسی کی ہدایت اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہِ راست ہرانسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کرکے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اُس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ اُن لوگوں کی رسالت کو ماننا جن کے ذریعے یہ تشریع بھیجی گئی ہے اور اُس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے، اِس دین کا لازمی جز ہے، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جُز ہونا چاہیے، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے  خدا کی طرف سے مستند (Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔

اقامتِ دین

اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاءؑ کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ  ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ’’قائم رکھو دین کو‘‘۔   یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہوجائے یا پہلے سے قائم ہو، وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہوچکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنا پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔

اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اُٹھانا ہوتا ہے، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اُٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے اسے بلند کرنا ہوتا ہے، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا۔ لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں اُن کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد اُس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اُسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآنِ مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت وتبلیغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود اداکرو، بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہلِ ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔

اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں، بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورے کا پورا دین اُن میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب ِ عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے۔کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاءؑ کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔

ایک سطحی اور خطرناک رائے

اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: لِکُلِّ  جَعَلْنَا  مِنْکُمْ شِرْعَۃً  وَّمِنْھَاجًا۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی اُمت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیراہم اور اس کی اقامت کو غیرمقصود بالذات سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے، آیا اس سے مرا د صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔

دین کیا    ہـے؟

قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں:

۱- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۝۵(البینہ ۹۸:۵) اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہوکر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی راست رو ملّت کا دین ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت، یہی اس کے اجزا ، یہی اس کی رکعتیں، یہی اس کا قبلہ، یہی اُس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔

۲- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ  بِہٖ …اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ …(المائدہ ۵:۳)’’تمھارے لیے حرام کیا گیا مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے  تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے ، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا…‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکامِ شریعت بھی دین ہی ہیں۔

۳- قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ  (التوبہ ۹:۲۹)’’جنگ کرو اُن لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘‘۔

معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور اُن کی پابندی کرنا بھی دین ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیئے ہیں۔

۴- اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ (النور ۲۴:۲) ’’زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲:۷۶) ’’یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔

دین کس لیے آیا ہـے؟

یہ چارتو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظِ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنّم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خوری، قتلِ مومن، یتیم کا مال کھانا، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا، وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عملِ قومِ لوط اور لین دین میں قومِ شعیبؑ کا رویّہ) اُ ن کا سدِّباب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے، اس لیے کہ دین اگر جہنّم اور عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکامِ شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خُلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۝۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۴ۧ (النساء۴: ۱۴) ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اُس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح جن چیزوں کی حُرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حُرمت، شراب کی حُرمت، چوری کی حُرمت، جوئے کی حرمت، جھوٹی شہادت کی حُرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت ِ دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیرضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اِجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے، مثلاً روزہ اور حج، اُن کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامتِ دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے، اور کعبے کا حج تو صرف اُس شریعت میں تھا جو اولادِ ابراہیم ؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔

دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ آیت لِکُلِّ  جَعَلْنَا  مِنْکُمْ شِرْعَۃً  وَّمِنْھَاجًا (ہم نے تم میں سے ہراُمت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا اُلٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہراُمت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاءؑ کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت ِ دین کے حکم میں اقامت ِ شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔

سورئہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبیؐ کی اُمت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی، وہ اُس اُمت کے لیے دین تھی اور اُس کے دورِ نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے اس لیے اُمت محمدیہؐ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اِس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوںمیں فرض رہی ہے، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہرشریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت ِ دین میں شامل ہے، مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہرنبی کی اُمت کے لیے اُس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے، انھی کے مطابق اُس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت ِ دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہؐ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انھیں ادا کیا جائے۔ انھی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکامِ شریعت کو بھی قیاس کرلیجیے۔

تعبیر کی غلطی

قرآنِ مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفراور کفّار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔

یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ  بِالْحَقِّ  لِتَحْكُمَ  بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ(النساء۴: ۱۰۵) ’’اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اُس روشنی میں جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ ۹: ۶۰،۱۰۳)۔اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سودخواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلانِ جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵- ۲۷۹)، وہ اسی صورت میں رُوبہ عمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ ۲:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ ۵:۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور ۲۴: ۲-۴)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفّار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفّار سے قتال کا حکم (البقرہ ۲: ۱۹۰-۲۱۶)یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ  اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوجی بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ ۹:۲۹)اس مفروصے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے اُن سے جزیہ وصول کریں گے اور اُن کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکّی سورتوں میں بھی دیدئہ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہلِ دین کے ذمّی بن کر رہنے کا....

سب سے بڑھ کر جس چیزسے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے، جو حضوؐر نے ۲۳برس کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپؐ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اُس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔

اگر حضوؐر کے اس پورے کام کو ’اقامت دین‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپؐ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔

یا تو معاذ اللہ، حضوؐر پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپؐ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپؐ نے اس سے تجاوزکرکے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بناڈالا جو شرائع انبیاءؑ کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔

یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورئہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ  اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کیا)، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ان دوصورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسولؐ پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔(تفہیم القرآن، چہارم، ص۴۸۶- ۴۹۲)

کسی مسئلے میں کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی اس شخص یا گروہ کا مخالف ہے، یا اس کا دشمن ہے، یا جملہ مسائل میں اسے غلط کار سمجھتا ہے۔ آخر آپ حضرات خود شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کی بہت سی آرا سے اختلاف کرتے ہیں، اور بسااوقات بڑے زور شور سے ان کی آراء کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی لینے میں کوئی شخص حق بجانب ہوگا کہ آپ ان ائمۂ ثلاثہ اور ان کے پیرو علما کے مخالف ہیں اور ان کو قاطبۃً خطاکار قرار دیتے ہیں اور ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟

اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے اس طرزِ فکر پر نظرثانی فرمائیں اور اختلاف رائے کو مخالفت و عداوت اور عناد کے ساتھ خلط ملط نہ فرمائیں۔

میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اصلاحِ باطن اور تزکیۂ نفس کا جو طریقہ قرآن و سنت اور عملِ صحابہؓ سے ثابت ہے وہی کافی ہے اور اسی پر ہمیں اکتفا کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے اور اس میں کمی و بیشی کرنا نہ درست ہے، نہ مفید۔ اس سے ہٹ کر جو طریقے جس نے بھی ایجاد کیے ہیں، یا دوسرے ادیان و ملل کے متبعین سے اخذ کیے ہیں، ان سے اجتناب کرناچاہیے۔ اس رائے میں اگر کوئی غلطی ہے تو آپ اس پر مجھے دلائل کے ساتھ متنبہ فرمائیں۔ میں پھر اس پر غور کروں گا۔ لیکن میں اس الزام سے براءت ظاہر کرتا ہوں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے میں صوفیا کا مخالف ہوں، یا تصوف کا دشمن ہوں، یا اہلِ تصوف کو بالکلیہ مطعون کرتا ہوں۔(رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶،عدد ۵،اگست ۱۹۶۱ء، ص ۴۷-۴۸)

[وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ (السجدہ ۳۲:۹) اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی]

’روح‘ سےمراد محض وہ زندگی نہیں ہے، جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے، جو فکروشعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحب ِ شخصیت ہستی، صاحب ِ اَنا ہستی، اور حاملِ خلافت ہستی بنتا ہے۔

اِس ’روح‘ کو اللہ تعالیٰ نے ’اپنی روح‘ یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے، جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہوکر اُس کی چیزکہلاتی ہے۔

یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پرتو ہیں۔ ان کا سرچشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کو دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔

یہ اوصاف کسی بے علم،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔(تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، جلد۵۶،عدد ۴،جولائی ۱۹۶۱ء، ص ۲۱-۲۲)

دنیاکی زندگی، سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے:

  • کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے، بس اسی دنیا میں ہے۔ اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمھیں کرنا ہے، بس یہیں کرلو۔
  • کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوش حالی کے نشے میں بدمست ہوکر اپنی موت کو بھول جاتا ہے، اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے‘۔
  • کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کرکے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’معیارِ زندگی‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، خواہ نتیجے میں اس کا معیارِ آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔
  • کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ’دُنیوی خوش حالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے۔ ہر وہ طریقہ حق ہے، جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو، اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے، باطل ہے‘۔
  • کوئی اسی خوش حالی کو مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدئہ کلیہ بناکر بیٹھ جاتا ہے کہ ’جس کی دُنیا خوب بن رہی ہے___ خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے___ اور جس کی دُنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے‘۔

یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے آیت [فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا’پس، یہ دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے‘، سورئہ لقمان۳۱:۳۳] میں ’دُنیوی زندگی کے دھوکے‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ (’تفہیم القرآن‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۳، جون ۱۹۶۱ء، ص۱۲-۱۳)

انسان کے مذہبی تصورات میں عبادت کا تصور سب سے پہلا اور اہم تصور ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی تصور عبادت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نوع انسانی کے جتنے مذاہب کا پتہ چلا ہے، عام اس سے کہ وہ انتہا درجے کی وحشی اقوام کے خرافات و اوہام ہوں، یا اعلیٰ درجے کی متمدن اقوام کے پاکیزہ معتقدات، ان میں سے ایک بھی عبادت کے تصور و تخیل سے خالی نہیں۔

علم الانسان اور آثار قدیمہ کی تلاش و جستجو کے سلسلے میں پرانی سے پرانی تہذیب کی حامل قوموں کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، وہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ گو وہ قومیں عقل و شعور کے بالکل ابتدائی درجے میں تھیں لیکن اس حالت میں بھی انھوں نے اپنی بساط بھر کسی نہ کسی کو ضرور معبود بنایا ہے، اور کوئی نہ کوئی طریق عبادت ضرور اختیار کیا ہے۔[۱]  قدیم قوموں کو جانے دیجیے۔ آج بھی بہت سی انسانی جماعتیں زمین کے مختلف گوشوں میں موجود ہیں، جو عقلی و ذہنی اعتبار سے قدیم ترین قوموں کی سطح پر ہیں، یا یوں کہیے کہ نوع انسانی کے بالکل ابتدائی دَور کا نقشہ اپنی زندگی میں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی ایسی جماعت دیکھی گئی ہے، جو معبود اور عبادت کے تصور سے کلیتاً خالی ہو۔[۲] پس، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان قدیم ترین وحشت و بداوت سے لے کر جدید ترین تہذیب و حضارت تک جتنے مدارج سے گزرا ہے، ان میں سے ہر درجے میں عبادت کا تصور اس کے ساتھ ساتھ رہا ہے، گو اس کے مظاہر و اشکال میں بے شمار تغیرات و اختلافات رونما ہوئے ہیں۔

عبادت ایک فطری جذبہ

غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہ خیال سارے بنی آدم پر حاوی ہے اور تمام زمانوں میں باوجود اختلاف احوال یکساں حاوی رہا ہے؟ کیا یہ بالارادہ اختیار کیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ساری نوع پر اس کا اس طرح حاوی ہونا غیر ممکن تھا۔ کیونکہ بالارادہ اختیار کی ہوئی چیزوں میں کبھی کامل اتفاق نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اختیار کی ہوئی چیزوں میں سے ایک بھی ایسی نہ ملے گی، جس کے اندر ہر مرتبہ اور ہر دَور کی تمام انسانی جماعتیں یکساں مشترک ہوں، اور یہ کسی طرح متصور نہیں ہے کہ ہر زمانے کے تمام آدمیوں نے ایک عالم گیر کانفرنس کرکے باہم یہ ٹھیرالیا ہو کہ وہ کسی کی عبادت ضرور کریں گے، خواہ معبود مختلف اور طریقہ ہائے عبادت بے شمار ہوں۔

پھر جب یہ چیز اختیاری نہیں ہوسکتی تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ عبادت کا جذبہ انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے۔[۳]  جس طرح انسان کو بھوک فطری طور پر لگتی ہے اور اس کے فرو کرنے کے لیے وہ غذا تلاش کرتا ہے، جس طرح اسے سردی اور گرمی فطری طور پر محسوس ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ سایہ اور لباس ڈھونڈتا ہے، جس طرح ادائے مافی الضمیر کی خواہش اس میں فطری طور پر پیدا ہوتی ہے، اور اسے پورا کرنے کے لیے وہ الفاظ و اشارات بہم پہنچاتا ہے، بالکل اسی طرح عبادت کا جذبہ بھی انسان میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کی تسکین کے لیے وہ کسی معبود کی تلاش کرتا اور اس کی بندگی کرتا ہے۔

مگر جیسا کہ ہم بھوک اور سردی و گرمی کے احساس، اور ادائے مافی الضمیر کی خواہش کے معاملے میں دیکھتے ہیں، فطرت کا اثر زیادہ تر اس مجرد داعیہ کی حد تک رہتا ہے جو انسان کو غذا، سایہ، لباس اور وسیلۂ اظہار مافی الضمیر کی تلاش پر مجبور کرتا اور جسم کے ان اعضاء کو جو ان کاموں سے متعلق ہیں، حرکت دینے پر ابھارتا ہے۔ اور اسی حد تک تمام انسانوں میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے آگے فطرت کا اثر کمزور اور خود انسان کا اپنا اختیار غالب ہو جاتا ہے اور یہیں سے وہ بے شمار اختلافات شروع ہوتے ہیں، جو غذا، مکان، لباس، زبان اور اشارات و علامات کی مختلف صورتوں اور ہئیتوں کے اعتبار سے ہر زمانے کی مختلف قوموں میں پائے گئے ہیں۔

قریب قریب یہی حال عبادت کے جذبے کا بھی ہے کہ وہ انسان کو بندگی و پرستش پر اُکسا کر چھوڑ دیتا ہے، اور اس کے بعد یہ انسان کے اپنے انتخاب پر ہے کہ اس جذبے کی تسکین کے لیے وہ کس کو معبود مانتا ہے اور اس کی عبادت کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی اختیار کی حد پر پہنچ کر معبودوں اور عبادت کے طریقوں میں وہ اختلاف شروع ہوتا ہے، جو انسان کی اختیار کی ہوئی تمام چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی فطرت کی رہنمائی انسان کا ساتھ بالکل نہیں چھوڑ دیتی، جس طرح غذا اور لباس وغیرہ فطری مطلوبات کے انتخاب میں نہیں چھوڑتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی اتنی دھندلی اور خفی ہوتی ہے کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے نہایت لطیف و نازک شعور کی ضرورت ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔

آئیے، اب ہم سراغ لگائیں کہ اس فطری داعیہ کا سر رشتہ کہاں سے ملتا ہے؟ اس کشش کا مرکز کہاں ہے جو انسان کو عبادت کے لیے کھینچتی ہے؟ کون سی قوتیں ہیں جو اسے معبود کی تلاش اور اس کی عبادت پر ابھارتی ہیں؟ اور وہ کیا رہنمائی ہے جو اس تلاش میں ہم کو خود فطرت سے حاصل ہوتی ہے؟

اس کے لیے ہم کو سب سے پہلے خود عبادت کی حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بغیر ان سوالات کا حل مشکل ہے۔

عبادت کی حقیقت

عبادت کا تصور دراصل ایک جامع تصور ہے، جو دو ذیلی تصورات کے امتزاج سے مکمل ہوتا ہے: ایک بندگی، دوسرے پرستش۔ بندگی کے معنی ہیں کسی بالاتر قوت کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی فرمانبرداری و اطاعت کرنا۔ اور پرستش کے معنی ہیں کسی بالاتر ہستی کو پاک، مقدس اور بزرگ سمجھ کر اس کے آگے سرنیاز جھکا دینا اور اسے پوجنا۔ ان میں سے پہلا تصور عبادت کا ابتدائی اور بنیادی تصور ہے، اور دوسرا تصور انتہائی اور تکمیلی۔ پہلا زمین کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا عمارت کی۔ اس لیے ہمیں اپنی تحقیق کی ابتدا پہلے تصور سے کرنی چاہیے۔

بندگی و اطاعت

بندگی یا فرماںبرداری و اطاعت ہمیشہ اس قوت کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جو بندگی کرنے والے پر قہر و غلبہ اور قدرت و استیلاء رکھتی ہو، اور بندے یا مطیع میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو۔ اس کی محدود شکل تو وہ ہے، جو آقا اور نوکر کے درمیان ہم عموماً دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ وسیع تصور کے لیے سب سے زیادہ واضح مثال وہ بندگی ہے، جو رعایا اپنی حکومت کی کرتی ہے۔ حکومت کوئی مادی شے نہیں ہے، نہ ایک محسوس و مشاہد چیز ہے۔ ایک نظام و ضابطے کی بندش ہے جس کا غلبہ و استیلاء لاکھوں کروڑوں آدمیوں پر حاوی ہوتا ہے۔ رعایا اس کے قانون پر طوعاً و کرہاً چلتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں، کسان اپنے کھیتوں میں اور مسافر دُور دراز جنگلوں میں، جہاں بظاہر حکومت کا زور جتانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اس کے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے حدود و اختیار میں رہ کر جو شخص اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے اور زیادہ شدید نافرمانی کی صورت میں اس کے تمام وہ حقوق سلب ہو جاتے ہیں، جو رعیت ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھے۔ اس لحاظ سے جس قدر لوگ کسی حکومت کے حدود میں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، ان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ ’وہ فلاں حکومت کی فرماںبرداری و اطاعت کر رہے ہیں‘۔ اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’وہ اس کی بندگی و عبادت کر رہے ہیں‘۔

اب اس تصور کو اور زیادہ وسیع کیجیے۔ پوری کائنات پر نظر ڈالیے:

 آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرّہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتاب عالمتاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی یہ مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرّہ برابر سرتابی کرتی ہے، وہ فساد اور فنا کی شکار ہو جاتی ہے۔ یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسام ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے، ہماری زبان میں ’قانون فطرت‘ یا ’قانون قدرت‘ کہلاتا ہے۔

 اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے، وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں۔ بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ پانی اس کے فرمان سے بہتا ہے۔ سیارے اس کے ارشاد سے حرکت کرتے ہیں۔ غرض اس تمام کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسی قانون کے ماتحت ہو رہا ہے اور ہر ذرہ اسی کام میں لگا ہوا ہے، جس پر اس قانون نے اسے لگا دیا ہے۔ جس چیز کو ہم زندگی، بقا اور کَون کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا، اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں، وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جو زندہ اور باقی ہے، وہ اس قانون کی اطاعت کر رہی ہے اور کائنات عالم میں کوئی شے زندہ اور باقی نہیں رہ سکتی اگر اس کی اطاعت نہ کرے۔

لیکن جس طرح حکومت کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کی اطاعت دراصل قانون کی اطاعت نہیں بلکہ اس حکومت کی اطاعت ہے، جس نے اپنے قہر و غلبے سے اس قانون کو نافذ کیا ہے، اور حکومت کا نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے لا محالہ ایک حاکم، ایک مرکزی فرماںروا، ایک مقتدرِ اعلیٰ ہستی کا وجود ضروری ہے، بالکل اسی طرح قانون فطرت کی اطاعت بھی دراصل اس غالب و قاہر حکومت کی اطاعت ہے، جو اس قانون کو بنانے اور زور و قوت سے اس کو چلانے والی ہے، اور یہ حکومت ایک فرمانروا کے دست قدرت میں ہے، جس کے بغیر اتنا بڑا عالمگیر نظام ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتا۔

یہاں اگر ہم قانونی لفظ ’اطاعت‘ کو مذہبی اصطلاح ’عبادت‘ سے بدل دیں اور لفظ ’حاکم‘ کی جگہ ’اللہ‘ یا ’خدا‘ کا لفظ رکھ دیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات اور اس کی ہر ہر چیز اللہ کی عبادت کر رہی ہے، اور یہ ایسی عبادت ہے، جس پر ہر شے کے وجود و بقا کا انحصار ہے۔ کائنات کی کوئی شے اور مجموعی طور پر ساری کائنات، اللہ کی عبادت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوسکتی، اور اگر غافل ہو جائے تو ایک لمحے کے لیے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔

قرآن مجید میں اس ’بندگی‘ کو کہیں ’عبادت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، کہیں تسبیح و تقدیس سے، کہیں سجود سے، اور کہیں قنوت سے۔ چنانچہ جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:

  • وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ۝۵۶ (الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔
  • وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَ۝۱۹ۚ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ۝۲۰ (انبیاء۲۱: ۱۹-۲۰) آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوقات ہیں اور جو خدا کے پاس حاضر ہیں سب اسی کے ہیں اور اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات دن اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی اس سے کاہلی نہیں کرتے۔
  •  يُسَـبِّحُ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِـيْمِ  ۝۱ (الجمعہ ۶۲:۱) آسمانوں اور زمین میں جو چیز بھی ہے اللہ ہی کی تسبیح کر رہی ہے، اُس بادشاہ کی جو پاک، غالب اور صاحب ِحکمت ہے۔
  • اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ۝۰ۭ …… وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُ۝۴۲ (النور۲۴: ۴۱-۴۲)کیا تو نہیں دیکھتا کہ جس قدر مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے، اور جو پرندے پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں، سب اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں … اور زمین و آسمان کی حکومت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے۔
  •  تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ۝۰ۭ (بنی اسرائیل ۱۷:۴۴) ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اسی کی تسبیح کر رہے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد کے گیت نہ گاتی ہو مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
  •  وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ۝۲۶  (الروم۳۰:۲۶)آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ سب اسی کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
  • اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۝۶ (الرحمٰن ۵۵: ۵-۶)سورج اور چاند ایک حساب سے چکر لگا رہے ہیں، اور درخت اور تارے سجدے میں ہیں۔
  • کیا لوگوں نے خدا کی مخلوق میں سے کسی چیز کی طرف بھی نظر نہیں کی جن کے سائے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں؟ گویا اللہ کے آگے سربسجود ہیں اور اظہار عجز کر رہے ہیں۔ اور جتنے جان دار اور ملائکہ آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے رب سے جو بالاتر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔ (النحل۱۶:۴۸ -۵۰)
  •  کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور چاند اور سورج اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے نیک آدمی اور بہت سے وہ بھی جو اپنی نافرمانی کی وجہ سے مستحقِ عذاب ہو چکے ہیں، سب کے سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں؟ (الحج۲۲: ۱۸)
  • زمین اور آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں سب طوعاً و کرہاً اللہ ہی کو سجدہ کر رہی ہیں۔  (الرعد۱۳:۱۵)

یہ عبادت، یہ سجود، یہ تسبیح، یہ قنوت، تمام جان دار اور بے جان، ذی شعور اور بے شعور چیزوں پر یکساں حاوی ہے، اور انسان بھی اس پر اسی طرح مجبور ہے، جس طرح مٹی کا ایک ذرہ، پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کا ایک تنکا۔ انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر، خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو، خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی، جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے اور اس قانون کے تحت ہی زندہ ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بوجھے، بلا عمد و اختیار، طوعاً و کرہاً خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے، اسی کے سامنے سربسجود ہے اور اسی کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ اس کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اسی کی عبادت ہے۔ چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی اور کی پوجا کر رہا ہو اور اپنی زبان سے کسی اور کی بندگی و اطاعت کر رہا ہو، مگر اس کا رونگٹا رونگٹا اسی خدا کی عبادت میں مشغول ہے، جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس کا خون اسی کی عبادت میں چکر لگا رہا ہے، اس کا قلب اسی کی عبادت میں متحرک ہے، اس کے اعضا اسی کی عبادت میں کام کر رہے ہیں، اور اس کی وہ زبان بھی، جس سے وہ خدا کو جھٹلاتا اور غیروں کی حمد و ثنا کرتا ہے دراصل اسی کی عبادت میں چل رہی ہے۔

بندگی کا صلہ

اس عبادت کا صلہ یا اجر خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے؟ فیضانِ وجود ، رزق اور قوت بقا۔ جتنی چیزیں خدا کے قانون پر چلتی ہیں اور اس کی بندگی کرتی ہیں، وہ زندہ اور باقی رہتی ہیں اور انھیں وہ وسیلۂ بقا عطا کیا جاتا ہے، جسے ہم اپنی زبان میں ’رزق‘ کہتے ہیں۔ اور جو چیزیں اس کے قانون سے انحراف کرتی ہیں ان پر فساد مسلط ہوجاتا ہے، ان کا رزق بند ہو جاتا ہے، اور وہ فیضانِ وجود سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ معاملہ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں شجر و حجر، حیوان و انسان، کا فرو شاکر کے درمیان کوئی امتیاز نہیں:

  • وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا۝۰ۭ  (ھود۱۱:۶)کوئی چیز زمین پر چلنے والی ایسی نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ اللہ ہرایک کے ٹھکانے سے بھی واقف ہے اور اس کے سونپے جانے کی جگہ بھی جانتا ہے۔
  • يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ۝۰ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۡۖ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ  ۝۳ (فاطر ۳۵:۳) لوگو اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو زمین اور آسمان سے تم کو رزق دیتا ہو؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم کدھربھٹکائے جارہے ہو؟
  • ہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ۝۰ۭ )الملک ۶۷:۱۵)وہی ہے جس نے زمین کو تمھارے لیے مطیع و مسخر بنا دیا۔ پس تم اس کی پہنائیوں پر چلو اور پھر اس کا رزق کھائو۔
  • اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۝۶۴ (النمل ۲۷: ۶۴) کون ہے جو مخلوقات کو اوّل بار پیدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اور تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔
  • اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ فَوْقَہُمْ صٰۗفّٰتٍ وَّيَقْبِضْنَ۝۰ۭؔۘ مَا يُمْسِكُـہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍؚبَصِيْرٌ۝۱۹  اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَجُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ۝۰ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ۝۲۰ۚ  اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَہٗ۝۰ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ۝۲۱(الملک ۶۷: ۱۹-۲۱) کیا یہ لوگ پرندوں کو نہیں دیکھتے جو ان کے اوپر پَر پھیلاتے اور سکیڑتے ہوئے اڑ رہے ہیں؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو ان کو سنبھالے ہوئے ہو۔ وہ ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا ہے۔ اور یہ رحمٰن کے سوا اور کون ہے جو تمھارا لشکر بن کر تمھاری مدد کرتا ہے؟ مگر کافر ہیں کہ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر اللہ اپنا رزق بند کر دے تو کون ہے جو تم کو رزق دے سکتا ہے؟ مگر کافر سرکشی اور سرتابی پر جمے ہوئے ہیں۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح انسان اس بندگی میں دوسری اشیا کے ساتھ مساوی ہے، اسی طرح اس بندگی کے اجر اور معاوضے میں بھی وہ ان کے ساتھ مساوی رکھا گیا ہے۔ انعام کی صورتوں کا فرق جو کچھ بھی ہے، دراصل استعداد اور حاجتوں کے فرق پر مبنی ہے۔ لیکن صورتوں سے قطع نظر کرکے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک درخت، ایک جانور، ایک چڑیا، ایک گھاس کی پتی کی احتیاج و استعداد کے مطابق اللہ اس کی دیکھ بھال، خبرگیری، امداد و اعانت، اور رزق رسانی کر رہا ہے، اسی طرح انسان کی احتیاج و استعداد کے مطابق اس پر بھی انعام فرماتا ہے۔

اس بارے میں انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اگر کوئی فضیلت ہے تو محض وہ صورتِ انعام کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت ِانعام کے اعتبار سے اور صورتِ انعام کا حال یہ ہے کہ وہ ہر شے کی طبیعت اور حاجت کے عین مناسب ہے۔ ایک چوہے پر جو انعام فرمایا گیا ہے، انعام کی وہی صورت اس کی فطرت اور ضرورت سے مناسبت رکھتی ہے۔ دوسری کوئی صورت جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لیے انعام نہیں سزا ہو جائے گی۔ ایک بڑے سے بڑا منعم انسان جو آرام اپنی پھولوں کی سیج پر محسوس کرتا ہے، وہی آرام ایک چھوٹی سے چھوٹی چڑیا اپنے گھاس پھونس کے گھونسلے میں محسوس کرتی ہے۔ پھولوں کی سیج، تنکوں کے گھونسلے پر لاکھ فخر کرے، مگر حقیقت میں گھونسلے والے کی استعداد کے مطابق اس کی احتیاج پوری کی گئی ہے۔ اس حیثیت سے دونوں پر خدا کا انعام یکساں ہے۔ پھر یہی معاملہ کافر و شاکر، مومن و مشرک کے ساتھ بھی یکساں ہے۔

 جو لوگ خدا کے منکر ہیں اور اس کی پرستش نہیں کرتے، جو اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہیں، جو شجر و حجر کو اس کا مدمقابل ٹھیراتے ہیں، ان پر بھی رزق اور فیضانِ وجود اور حفاظت و خبر گیری کا انعام اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح پکے موحدوں اور خدا پرستوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ اگر قانون فطرت کی پیروی یا بالفاظ دیگر ’فطری عبادت‘ میں ایک کافر ایک مومن سے بڑھا ہوا ہے، تو اس کی عبادت کا صلہ بھی کافر کو مومن سے بہتر صورت میں عطا ہوتا ہے، خواہ وہ حقیقت کی نگاہ میں متاعِ غرور ہی کیوں نہ ہو۔

جذبۂ عبادت کیوں پیدا ہوتا ہـے؟

اب یہ سوال بآسانی حل ہو جاتا ہے کہ انسان میں عبادت کا جذبہ فطری طور پر کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کیوں اپنے معبود کو تلاش کرتا ہے؟

 جب ساری کائنات اور اس کی ہر چیز ایک غالب و قاہر فرماںروا کی بندگی کر رہی ہے، اور جب کہ خود انسان کا اپنا بھی ایک ایک رونگٹا اس کی عبادت میں لگاہوا ہے، وہ تمام عناصر جن سے انسان کا جسم مرکب ہے اس کے آگے سربسجود ہیں، انسانی جسم میں ان عناصر کی ترکیب اس کے فرمان سے ہوئی ہے، اور انسان کا وجود ہر آن اس کی بندگی ہی پر منحصر ہے، تو آپ سے آپ بندگی و عبودیت انسان کی سرشت میں داخل ہوگئی ہے۔ گو وہ اس صاحب ِحکومت کو نہیں دیکھتا جس کا وہ بندہ ہے، نہ دنیوی حکومتوں کی طرح اس خدائی حکومت کے عامل اور نمایندے اس کے سامنے آتے ہیں، مگر چونکہ وہ بندہ ہی پیدا ہوا ہے، اور بلا ارادہ ہر وقت بندگی کر رہا ہے اور اس کے مالک کی حکومت نے ہر طرف سے ___ اندر سے بھی اور باہر سے بھی___اس کو اور اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں کو جکڑ رکھا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کے اندر نیاز مندی، نیایش و گرایش، پرستش و عبودیت کا ایک گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اس کا دل بے اختیار کسی معبود کو تلاش کرتا ہے کہ اس کی حمد و ثنا کرے، اس سے اپنی حاجتوں میں مدد مانگے، اور ہر آفت سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈے۔

یہی سرشت ہے جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کو تلاشِ معبود پر مجبور کیا ہے۔ اسی تحریک پر اس نے ہمیشہ پرستش کی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس سے مذہب کی پیدایش ہوئی ہے۔

تلاشِ معبود میں فطرت کی رہنمائی

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، فطرت نے ہر معاملے میں انسان کے اندر ایک مجرد طلب، ایک سادہ خواہش، ایک خالص کشش پیدا کرکے اس کو چھوڑ دیا ہے کہ اپنے مطلوب کو خود تلاش کرے۔ گویا یوں سمجھیے کہ فطرت، انسان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ ایک نامعلوم چیز کی طلب پر اس کو اُکساتی ہے اور پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے تاکہ وہ اپنی عقل پر زور دے کر اپنے حواس سے کام لے کر معلوم کرے کہ اس کے دل میں جس چیز کی لگن لگی ہوئی ہے، اس کی فطرت جو چیز مانگ رہی ہے، وہ کیا ہے اور کہاں ہے، اور کس طرح اس کو حاصل کیا جائے؟

 یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو مشکلات پیش آئی ہیں اور اس نے اپنی عقلی استعداد، اپنی قوتِ فکروتمیز کی رسائی اور اپنے ذوق و وجدان کی صلاحیت کے مطابق اپنے لیے وہ مختلف راستے نکالے ہیں جو آج نوع انسانی کے تمدن و معاشرے کی گوناگونی میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس تلاش و جستجو اور اختیار و انتخاب میں فطرت نے کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مگر جس طرح وہ ہر ہر قدم پر حیوانات کی رہنمائی کرتی ہے، اس طرح انسان کی رہنمائی نہیں کرتی۔ انسان کو وہ نہایت لطیف اشاروں میں ہدایت دیتی ہے، نہایت خفیف روشنی دکھاتی ہے جس کا ادراک معمولی عقل و بصیرت والے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان کا اختیارِ تمیزی صحیح راستے کی تلاش میں ناکام ہوا ،اور ہوائے نفس اس کو غلط راستوں پر بھٹکا لے گئی۔

مثال کے طور پر غذا کی خواہش پیدا کرنے سے فطرت کا منشا تو یہ تھا کہ انسان ایسا مواد اپنے جسم کو مہیا کرے، جس سے وہ زندہ رہ سکے اور تحلیل شدہ اجزا کا بدل اس کو ملتا رہے۔ مگر بہت سے لوگ اس خوردن برائے زیستن کی حقیقت کو نہ سمجھے۔ تلاش غذا پر ابھارنے کے لیے جو ذائقہ کی چاشنی فطرت نے اس کے کام و دہن میں لگا دی تھی، اس کو وہ اصل مقصود سمجھ بیٹھے اور ہوائے نفس ان کو زیستن برائے خوردن کی غلط فہمی میں مبتلا کرکے فطرت کے اصل منشا سے دُور ہٹا لے گئی۔ اسی طرح لباس اور مکان کی طلب دراصل موسمی اثرات سے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ مگر ہوائے نفس نے اس کو بھڑک اور تفاخر اور اظہارِ شان و ترفع کا ذریعہ بنا لیا، اور انسان فطرت کے منشا سے تجاوز کرکے انواع و اقسام کے نفیس لباس اور عالی شان محل بنانے لگا، جو آخر کار خود اسی کے لیے مضرت رساں ثابت ہوئے۔

یہی حال ان تمام داعیاتِ فطرت کا ہوا ہے، جنھوں نے انسان میں مختلف چیزوں کی طلب پیدا کی، اور انسان نے فطرت کے منشا کو نہ سمجھ کر، یا بسا اوقات سمجھنے کے باوجود نظر انداز کرکے، اپنے اختیار سے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف ڈھنگ اور طریقے نکال لیے، جوفطرت کے اصل مقصد سے زائد اور بہت سے معاملات میں اس کے خلاف تھے۔ پھر یہی چیزیں اگلوں سے پچھلوں تک تمدن و تہذیب، رسم و رواج اور آداب و اطوار بن کر پہنچیں، جن کی گرفت نے بعد کی انسانی نسلوں کو ایسا جکڑا کہ فطرت کی رہنمائی کو سمجھنا تو درکنار، ان کے لیے اپنے اختیارِ تمیزی کو استعمال کرنے کی آزادی بھی باقی نہ رہی، اور اسلاف کے طریقوں نے مقدس قوانین بن کر ان کو اندھی تقلید کے رستے پر ڈال دیا۔ حالانکہ فطرت جس طرح پہلے انسان کو لطیف اشارے اور خفیف ہدایتیں دے رہی تھی، اسی طرح آج بھی دے رہی ہے اور ہمیشہ دیتی رہے گی، جنھیں عقل سلیم تھوڑے یا بہت اجتہاد سے ہر وقت سمجھ سکتی ہے۔

معبود کی طرف ہادیٔ فطرت کے اشارے

تلاشِ معبود کی فطری خواہش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔

جب انسان نے عبادت کے جذبے سے بے چین ہو کر اپنے لیے کسی معبود کو ڈھونڈنا شروع کیا، تو فطرت اپنے اسی لطیف انداز میں اس کو معبودِ حقیقی کے اَتے پتے دینے لگی کہ ’تیرا معبود وہ ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے، جو تجھ سے بالاتر ہے، جس کی قوت کے سامنے تو عاجز ہے، جو ہرچیز پر غالب ہے، جو تجھے اور ہر جان دار کو روزی دیتا ہے، جو اپنے حُسن و جمال اور خوبی و رعنائی کی بنا پر ہر طرح تیری مدح و ستایش کا مستحق ہے، جس کا نور آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو روشنی دیتا ہے، جس کا جمال اپنے جلووں سے آب و گل کی مورتوں کو یہ جو بن اور یہ نکھار اور یہ دل فریب حُسن بخشتا ہے، جس کا جلال پانی کی موج، ہوا کے طوفان، زمین کی لرزش، پہاڑ کی سربلندی، شیر کی درندگی اور سانپ کی گزیدگی میں اپنی شوکت کا اظہار کرتا ہے، جس کی ربوبیت ماں کے سینے میں محبت و شفقت بن کر، گائے کے تھن میں دودھ بن کر، پتھر کے کلیجے میں پانی بن کر ظہور کرتی ہے‘۔

 یہ لطیف اشارے ہر زمانے میں مختلف سمجھ بوجھ کے لوگوں کو دیئے گئے، اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اتوں پتوں سے اس پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی۔ جب انسان اپنی ابتدائی فطری حالت (State of Nature) میں تھا تو وہ ان اشاروں کو صاف سمجھتا تھا اور اس ایک ہی معبود کے آگے جھکتا تھا، جس کی طرف یہ اشارے ہورہے تھے۔ مگر جب وہ اس حالت سے آگے بڑھا اور استدلالی فکر کی راہ پر چلنے لگا تو اس کی سرگردانیوں کا آغاز ہوگیا۔

انسان کی سرگردانیاں

کسی نے ان صفات کے معبود کو زمین پر تلاش کیا اور پہاڑوں، دریائوں، درختوں اور نفع و ضرر پہنچانے والے جانوروں پر فریفتہ ہوگیا، صنفی اعضا کو پوجنے لگا، آگ کے سامنے دھونی رما بیٹھا، ہوا کے آگے سر بسجود ہوا، دھرتی ماتا کو عقیدت کا خراج دینے لگا۔ غرض اس کی نظر آس پاس ہی کے مناظر میں الجھ کر رہ گئی۔

کسی کی نظر اس سے آگے بڑھی۔ وہ ارضی معبودوں سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ یہ سب چیزیں تو اسی کی طرح کسی اور کی بندگی میں مبتلا ہیں، خود اپنے وجود و بقا کے لیے بھی غیر کی محتاج ہیں، ان کے پاس کیا رکھا ہے جس کے لیے ہم استعانت کا ہاتھ بڑھائیں اور عقیدت کی پیشانی جھکائیں۔ آخر اس نے زمین کو چھوڑ کر آسمان پر اپنے معبود کو تلاش کیا۔ سورج کو دیکھا، چاند پر نظر ڈالی، اجرامِ فلکیہ کی چمک دمک دیکھی اور کہا کہ ’یہ ہیں عبادت کے لائق‘۔

مگر جو اس سے زیادہ باریک بین تھا اس کو آسمان والوں کا حال بھی زمین والوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہ آیا۔ اس نے کہا یہ لاکھ بلند تر و برتر سہی، روشن اور روشن گر سہی۔ لیکن اپنے اختیار سے کیا کر سکتے ہیں؟ ایک مقرر قانون، ایک لگے بندھے نظام کے تحت گردش کیے جارہے ہیں۔ سورج کو بایں ہمہ عظمت و بزرگی آج تک یہ مجال نہ ہوئی کہ مشرق کے بجائے کسی روز مغرب سے نکل آتا یا اپنے مقام سے ایک ہی انچ سرک جاتا۔ چاند کبھی اس قابل نہ ہوا کہ جو دن اس کے ہلال بننے کا تھا، اس دن بدر بن کر نکلتا۔ اسی طرح کوئی اور سیارہ بھی اپنی مقرر گردش سے یک سرمُو تجاوز نہ کرسکا۔

اس بندگی، بے چارگی، کھلی ہوئی غلامی کو دیکھ کر اس جویائے معبود نے آسمان سے بھی منہ موڑ لیا، تمام مادی و جسمانی چیزوں کو ناقابل پرستش قرار دیا، اور اپنے معبود کی تلاش میں معانی مجردہ (Abstract Ideas)اور روحانیات کی طرف پیش قدمی کی۔ نور کا پروانہ بنا، دولت کی دیوی کا فریفتہ ہوا، محبت کے دیوتا پر ریجھا، حسن کی دیوی کا گرویدہ ہوا، قوت کے دیوتا کو سجدہ کیا، مدبرات عالم (World Forces )کے ہیکل تجویز کیے اور ان کی عبادت اختیار کی، ارواح اور عقول (logos) اور ملائکہ کو مسجود بنایا اور سمجھا کہ یہی عبادت کے لائق ہیں۔

اس طرح کائنات کی ہر وہ چیز جس کے اندر مختلف قابلیتوں کے لوگوں کو اپنی اپنی فکر کی رسائی اور نظر کی استعداد کے مطابق برتری، ربوبیت، نعمت بخشی، قدرتِ حُسن و جمال، قہر و جلال، اور خالقیت کی جھلک نظر آئی، اس کے آگے جھک گئے اور فطرت کے دیئے ہوئے سراغ پر جو شخص جتنی دُور جاسکا، گیا، اور ٹھیر گیا۔ مگر جو لوگ زیادہ صحیح وجدان، زیادہ لطیف ادراک اور زیادہ سلیم عقل رکھتے تھے، اور فطرت کے بتائے ہوئے نشانات پر ٹھیک ٹھیک سفر کر رہے تھے وہ ان اراضی و سماوی معبودوں اور روحانی و خیالی دیوتائوں میں سے ایک سے بھی مطمئن نہ ہوئے۔ بیچ کی منازل میں سے ایک پر بھی نہ ٹھیرے اور بڑھتے بڑھتے اس منزل پر پہنچ گئے، جہاں انھیں کائنات کی تمام مادی، روحانی، ذہنی، علوی اور سفلی قوتیں کسی اور کی گرفت میں جکڑی ہوئی، کسی اور کی بندگی میں مشغول، کسی اور کے آگے جھکی ہوئی، کسی اور کی تسبیح پڑھتی ہوئی نظر آگئیں۔ یہاں انھوں نے اپنے دل کے کانوں سے یہ آواز سنی:

  لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ  ۝۲۵   (انبیاء ۲۱:۲۵) میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو۔

یہ اسی معبود کی آواز تھی جس کی تلاش میں وہ چلے تھے۔ طالب کو قریب پاکر مطلوب خود پکار اٹھا۔ اس نے آپ ہی آگے بڑھ کر اپنا پتہ بتا دیا۔ یہاں پہنچ کر سفر ختم ہوگیا، منزل مقصود مل گئی، اور ڈھونڈنے والے مطمئن ہوگئے۔[۴]

یہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس آخری ہدایت کو پانے کے بعد بھی کوئی مزید تلاش و جستجو کے لیے بے چین نہ ہوا۔ بے چینی، بے قراری، بے اطمینانی جو کچھ بھی تھی بیچ کی منزلوں میں تھی۔ آخری منزل پر پہنچ کر ہر دل نے گواہی دی کہ جس کو ڈھونڈ رہے تھے وہ یہی ہے۔ اب کسی تلاش و جستجو کی حاجت نہیں:

اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۝۲۸  (الرعد ۱۳:۲۸) خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔

انسان اپنے معبود کی تلاش میں جب تک خدائے واحد تک نہ پہنچا، بے چین رہا، غیر مطمئن رہا، اس کے دل میں تلاش کی بے کلی اور جستجو کی کھٹک برابر چٹکیاں لیتی رہی، مگر جب خدائے واحد کو اس نے پالیا تو اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ پھر کبھی اس نے تلاش معبود کی بے چینی محسوس نہ کی۔

خدائے واحد ہی حقیقی معبود ہے

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ تلاش معبود کا یہ سفر خدا کے سوا کسی غیر پر ختم نہیں ہوا اور خدا تک پہنچ کر ایسا ختم ہوا کہ پھر کسی اور کی جستجو دل میں پیدا ہی نہ ہوئی؟

غور کرنے سے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کو جو فطری جذبہ پرستش پر مجبور کرتا ہے، اس کا اصل مقصد خدائے واحد ہی کی پرستش ہے۔ جب تک وہ اپنے اس معبود حقیقی کو نہیں پہنچ جاتا، مطمئن نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ عقل و فکر کی نارسائی، یا تعصب اور ہٹ دھرمی، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید بعض افراد کو یہ بے اطمینانی محسوس نہ ہونے دے۔

جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں، انسان کے اندر پرستش کا فطری جذبہ پیدا ہی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کے گرد و پیش کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی بندگی میں مشغول ہے۔ ایسی حالت میں جب ایک ظلوم و جہول انسان خدا سے ناواقف ہو کر غیر خدا کی پرستش کے لیے جھکتا ہے، تو اس کے گرد و پیش کا کوئی عنصر، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے جسم کا بھی کوئی جز اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ جن پائوں سے اپنے خود ساختہ معبود کی طرف بڑھتا ہے، وہ خدا کی عبادت میں چلتے ہیں۔ جن ہاتھوں سے اس کے آگے نذر پیش کرتا ہے، وہ خدا کی بندگی میں حرکت کرتے ہیں۔ جس پیشانی سے اس کو سجدہ کرتا ہے وہ خدا کے سجدے میں جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ جس زبان سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے، وہ خدا کی تقدیس و تمجید میں مشغول ہوتی ہے۔

ایسی حالت میں اس کی یہ ساری پرستش، یہ تمام نیائش و گرائش ایک جھوٹ، ایک افترا، ایک بہتان، ایک صریح جعل ہوتی ہے، جس کے بطلان پر کائنات کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے، اور خود انسان کی فطرت اپنی لطیف وغیر محسوس آواز میں بار بار اسے تنبیہ کرتی ہے کہ یہ تو کس دھوکے میں پڑگیا ہے؟ کیا تجھے بندے کی بندگی، پرستار کی پرستش، فرماںبردار کی فرماںبرداری کرتے شرم نہیں آتی:

 اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ  ط  (انبیاء۲۱:۶۷) تُف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔

پرستش اور بندگی کی یکجائی

’پرستش‘ دراصل ’بندگی‘ کی فرع ہے اور اپنی عین فطرت کے اقتضا سے اپنی اصل کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جب انسان اپنے جہل اور بے خبری کی بنا پر ’فرع‘ کو ’اصل‘ سے جدا کرتا ہے ___  بندگی ایک کی کرتا ہے اور پرستش دوسرے کی ___ تو یہ تفریق سراسر فطرت کے خلاف واقع ہوتی ہے اور ایک نہایت خفی و غیر محسوس تحت الشعوری بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے۔ بخلاف اس کے جب نادانی کا پردہ درمیان سے اٹھ جاتا ہے ___ انسان کو اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ معبود وہی ہے جو مالک اور خالق اور پروردگار ہے تو بندگی اور پرستش دونوں یکجا ہو جاتی ہیں، فرع اصل سے مل جاتی ہے، بیٹی اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ جاتی ہے، اور اس وصال سے وہ لطف، وہ مزا، وہ اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، جو ہجر و فراق کی حالت میں مفقود تھا۔

خلافت و نیابت الٰہی

بندگی اور پرستش کی یہی مواصلت ہے، جس سے انسان کو دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہوتا ہے، اور وہ اس مرتبہ پر پہنچتا ہے، جسے خدا نے اپنی خلافت و نیابت قرار دیا ہے۔

عرض کر چکا ہوں کہ خدا کی بندگی تو انسان آپ سے آپ بلا عمد و اختیار، بغیر جانے بوجھے کر ہی رہا ہے، اور ٹھیک اسی طرح کر رہا ہے، جس طرح لایعقل حیوان، بے شعور درخت، بے جان پتھر کر رہے ہیں۔ اس حیثیت سے اس میں اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ اور اس بندگی کا جو انعام ہے، یعنی فیضانِ وجود اور عطائے رزق، اس میں بھی وہ فی الحقیقت دوسری مخلوقات سے ممتاز نہیں ہے۔ فرق و امتیاز اور برتری و شرف جو کچھ ہے، اس امر میں ہے کہ دوسری موجودات کے برخلاف جو عقل و شعور، جو آزادیٔ ارادہ و اختیار، اور جو قوت علمیہ انسان کو دی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اُس کو پہچانے جس کا وہ بندہ ہے، اور بالاختیار بھی اسی کی عبادت اور پرستش کرے، جس کی وہ بلا اختیار بندگی کر رہا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اپنی عقل اور قوت علمیہ سے اپنے مالک کی معرفت حاصل نہ کی، اور اپنے اختیار کے حدود میں اس کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت اور پرستش شروع کر دی تو شرف کیسا، وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا:

لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۝۱۷۹  (اعراف ۷:۱۷۹) ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔

بجائے خود عقل اور قوت علمیہ میں کوئی شرف اور برتری نہیں ہے۔ یہ تو محض حصول شرف کے لیے ایک آلہ ہے اور اس آلے نے انسان کو یہ استعداد بہم پہنچا دی ہے کہ اس سے ٹھیک ٹھیک کام لے کر وہ بندگیٔ اضطراری کے حیوانی مقام سے ترقی کرکے عبادتِ اختیاری کے انسانی مقام پر پہنچ سکے۔ لیکن اگر انسان نے اس آلے سے غلط کام لیا، اور اس کو چھوڑ کر جس کا وہ بندہ ہے ان کی عبادت اختیار کی جن کا فی الحقیقت وہ بندہ نہیں ہے،[۵] تو وہ حیوانی مقام سے بھی نیچے اتر گیا۔ حیوان گمراہ تو نہ تھا، یہ گمراہ ہوا۔ حیوان منکر تو نہ تھا، یہ منکر ہوا۔ حیوان کافر و مشرک تو نہ تھا، یہ کافر و مشرک ہوگیا۔ حیوان جس مقام پر پیدا کیا گیا تھا، اسی مقام پر وہ رہا۔ اور حیوان ہونے کی حیثیت سے یہ بھی اسی مقام پر ہے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے جو ترقی اس کو کرنی چاہیے تھی وہ اس نے نہ کی، بلکہ اُلٹا تنزل کی طرف چلا گیا۔

ترقی کے لیے اس کو جو عقل کا آلہ دیا گیا تھا اس کو اس نے انسانی ترقی کے لیے استعمال نہ کیا بلکہ حیوانیت میں ترقی کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے دُوربین بنائی کہ حیوان جتنی دُور کی چیز دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی چیز یہ دیکھ سکے۔ اس نے ریڈیو ایجاد کیا کہ حیوان جتنی دُور کی آواز سن سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی آواز یہ سن سکے، اس نے ریل اور موٹر بنائی کہ حیوان جس قدر قطع مسافت کرسکتا ہے اس سے زیادہ یہ کرسکے۔ اس نے ہوائی جہاز بنائے کہ اڑنے میں پرندوں سے بازی لے جائے۔ اس نے بحری جہاز بنائے کہ تیرنے میں مچھلیوں کو مات کر دے۔ اس نے آلات حرب بنائے کہ لڑنے میں درندوں پر سبقت لے جائے۔ اس نے عیش و عشرت کے سامان فراہم کیے کہ جانوروں سے زیادہ پُرلطف زندگی بسر کرے۔ مگر کیا ان ترقیات کے باوجود یہ مقام حیوانی سے کچھ بھی بلند ہوا؟ عقل و علم کے ذریعے سے عالم مادی میں جتنے تصرفات یہ کر رہا ہے، وہ سب کے سب انھی قوانین فطرت کے ماتحت توہیں جن کے تحت عقل و علم کے بغیر حیوانات ایک محدود پیمانے پر ایسے ہی تصرفات کرتے ہیں۔ پس یہ تو وہی بندگیٔ اضطراری کا مقام ہوا جس میں حیوان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوان نے کمتر درجے کی بندگی کی، کم تر درجے کا رزق پایا۔ اس نے عقل و علم کی قوت سے اعلیٰ درجے کی بندگی کی، اعلیٰ درجے کے رزق کا مستحق ہوا۔ حیوان کو گھاس ملتی تھی۔ اس کو توس اور مکھن ملا۔ حیوان کو صوف اور اُون ملتا تھا۔ اس کو نفیس کپڑے ملے۔ حیوان کو گھونسلے میں جگہ دی جاتی تھی۔ اس کو بنگلوں اور کوٹھیوں میں ٹھیرایا گیا۔ حیوان کو پیدل دوڑنا پڑتا تھا اس کو موٹر دے دی گئی۔ یہ اس کی حیوانی بندگی اور اس کی اضطراری عبادت کا کافی انعام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ترقی کا جو آلہ اس کو دیاگیا تھا اس سے اس نے ترقی کیا کی؟

ترقی کے معنی تو یہ تھے کہ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کو بے اختیار سجدہ کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اختیاری سجدہ بھی اسی کو کرتا۔ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کے حکم تکوینی (Natural Law)کی اطاعت کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے حکم شرعی (Moral Law) کی اطاعت بھی کرتا۔ اگر یہ ترقی اس نے کی تو بے شک یہ حیوانات اور تمام موجودات پر شرف لے گیا، اس نے بالفعل وہ خلافت حاصل کرلی جس کی قوت و استعداد اس کو دی گئی تھی۔ اس نے تمام موجودات سے بڑھ کر اپنے خالق کی بندگی و عبادت کی، اس لیے تمام موجودات عالم سے زیادہ اجر کا مستحق ہوگیا۔ لیکن اگر یہ ترقی اس نے نہ کی اور آلۂ ترقی کے غلط استعمال سے الٹا تنزل کی پستیوں میں اُتر گیا تو بلا شائبہ شک و ریب تمام اسافل سے اسفل اور تمام اراذل سے ارذل بن گیا ___  اس نے خود اپنی حماقت سے اپنے کو عذاب کا مستحق بنا لیا۔[۶]

یہی حقیقت ہے جس کو سورۂ تین میں بیان کیا گیا ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۝۴ۡ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۝۵ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝۶ۭ (التین ۹۵:۴-۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اس کو تمام ادنیٰ درجہ والوں سے بھی ادنیٰ درجے میں پھیر دیا بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے بے نہایت اجر ہے۔

یہ اجمال ان تفصیلات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ ’بہترین ساخت‘ سے مراد ترقی کی وہ قوت و استعداد ہے جو انسان کو زمین کی تمام مخلوقات سے بڑھ کر دی گئی ہے۔ مگر محض بہترین ساخت پر ہونا بالفعل ترقی نہیں ہے۔

ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ انسان اس قوت و استعداد سے کام لے کر اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، جس کے انتہائی مرتبے کا نام ’ایمان‘ ہے، اور اس کے حکم شرعی کے تحت دنیا میں کام کرے جس کو ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ نہ کیا وہ ادنیٰ درجے کی مخلوقات سے بھی فروتر درجے میں گر گیا۔ اور جس نے یہ ترقی کرلی وہ ’اجر غیرممنون‘ کا مستحق ہوگیا۔ یعنی ایسا اجر جو کبھی بند ہونے والا نہیں ہے، جو دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک بلانہایت چلتا ہے۔ بندگیٔ اضطراری کے صلے میں جو اجر ملتا ہے، وہ تو منقطع ہو جاتا ہے۔ بس ایک اجل مقرر تک ہی زندگی عطا کی جاتی ہے اور ایک حدِ خاص تک ہی رزق دیا جاتا ہے۔ مگر عبادتِ اختیاری کے صلے میں وہ عیش نصیب ہوتا ہے جو خلل سے پاک ہے، وہ رزق میسر آتا ہے جس کے بند ہونے کا کوئی خوف نہیں۔

عبادت کا پورا مفہوم

اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں، جہاں عبادت کا صحیح اور مکمل مفہوم واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہو چکا ہے کہ عبادت کے اجزائے معنوی دو ہیں، جن کی ترکیب سے عبادت کا مفہوم مکمل ہوتا ہے۔ ایک، بندگی، یعنی قانون فطرت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور اس سے منحرف نہ ہونا۔ دوسرے، پرستش جو اپنی تکمیل کے لیے دوچیزوں کی محتاج ہے:

       ۱-    اپنے حقیقی معبود، یعنی خدائے واحد کی ایسی معرفت جو بالکل خالص ہو، جس میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو، جس میں کفر و انکار اور شک و ریب کی ذرّہ برابر آمیزش نہ ہو۔ جس میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو، کسی کے انعام کی طمع نہ ہو، کسی پر اعتماد و توکّل نہ ہو، کسی کی طرف الہٰیت و ربوبیت کو منسوب نہ کیا جائے، کسی کو نافع و ضار نہ سمجھا جائے، کسی سے عبدیت کا تعلق وابستہ نہ کیا جائے۔ اسی کا نام ’ایمان‘ ہے۔

       ۲-    اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اس معبود کے حکم شرعی کی اسی طرح اطاعت کرنا،   جس طرح اضطراری شعبے میں اس کے حکم تکوینی کی اطاعت کی جاتی ہے، تاکہ ساری زندگی ایک ہی فرماںروا، ایک ہی حکومت اور ایک ہی قانون کی تابع فرمان ہو کر ہم رنگ وہم آہنگ ہو جائے اور اس میں کسی حیثیت سے بھی دورنگی اور ناہمواری باقی نہ رہے۔ اسی کو ’عمل صالح‘ کہتے ہیں۔

غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ ’عبادت صرف تسبیح و مصلّٰی اور خانقاہ تک محدود ہے‘۔

مومن صالح صرف اسی وقت اللہ کا عبادت گزار نہیں ہوتا جب وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہے، اور بارہ مہینوں میں ایک مہینے کے روزے رکھتا ہے اور سال میں ایک وقت زکوٰۃ دیتا ہے اور عمر بھر میں ایک مرتبہ حج کرتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کی ساری زندگی عبادت ہی عبادت ہے:

  • جب وہ کاروبار میں حرام کے فائدوں کو چھوڑ کر حلال روزی پر قناعت کرتا ہے تو کیا وہ عبادت نہیں کرتا؟
  • جب وہ معاملات میں ظلم اورجھوٹ اور دغا سے پرہیز کرکے انصاف اور راست بازی سے کام لیتا ہے تو کیا یہ عبادت نہیں ہے؟
  •  جب وہ خلق خدا کی خدمت اور حق داروں کی حق رسانی کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے، تو کیا اس کی ہر حرکت عین عبادت نہیں ہوتی؟
  • جب وہ اپنے افعال و اقوال میں خدا کے قانون کی پیروی کرتا اور اس کی حدود کا لحاظ رکھتا ہے تو کیا اس کا ہر قول و فعل عبادت میں شمار نہ ہوگا؟

پس، حق یہ ہے کہ اللہ کے قانون کی پیروی اور اس کی شریعت کے اتباع میں انسان دین اور دنیا کا جو کام بھی کرتا ہے وہ سراسر عبادت ہے، حتیٰ کہ بازاروں میں اس کی خرید و فروخت اور اپنے اہل و عیال میں اس کی معاشرت اور اپنے خالص دنیوی اشغال میں اس کا انہماک بھی عبادت ہے۔

مگر یہ عبادت کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس عبادت کی مثال ایسی ہے، جیسے رعیت کے عام افراد اپنے بادشاہ کے قانون کی پیروی اور اس کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔

اس سے بڑا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کا نوکر بن جائے اور اس کے قوانین کی نہ صرف خود پیروی کرے بلکہ دوسروں پر بھی ان کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے احکام پر نہ صرف خود عامل ہو بلکہ دنیا میں ان کے اِجرا کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ اس کی حکومت میں نہ صرف خود امن اور وفاداری اور اطاعت کیشی کے ساتھ رہے بلکہ اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی قوتیں امن کے قیام میں، بگڑی ہوئی رعایا کی اصلاح میں اور باغی و سرکش بندوں کی سرکوبی میں بھی صرف کرے اور اس خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ نثار کردے:

  • وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ(البقرہ۲:۱۴۳)اور اس طرح ہم نے تم کو اقوام عالم کے درمیان ایک بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو[۷] ۱ور رسول تم پر گواہ ہو۔
  •  ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ  مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ ۝۰ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ(الحج ۲۲:۷۸)

              اسی نے تمھارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کے رستے پر جمے رہو۔

  • اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ ( الحج ۲۲:۴۱)وہ جن کو اگر ہم زمین میں طاقت بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔

یہ ہے اس عبادت کی حقیقت جس کے متعلق لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض نماز، روزہ اور تسبیح و تہلیل کا نام ہے اور دنیا کے معاملات سے اس کو کچھ سروکار نہیں۔ حالانکہ دراصل صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ اور ذکر و تسبیح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے مستعد کرنے والی تمرینات (Training Courses)ہیں، جو انسان کی زندگی کو حیوانی زندگی کے ادنیٰ مقام سے اٹھا کر انسانی زندگی کے بلند ترین مقام پر لے جاتی ہیں۔ اس کو اضطرار و اختیار دونوں میں اپنے مالک کا مطیع و فرماںبردار بندہ بنا دیتی ہیں، اور اسے بادشاۂ حقیقی کی سلطنت کا ایسا ملازم بناتی ہیں کہ اس کی خدمت وہ اپنے جسم و جان کی ساری قوتوں کے ساتھ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں کرتا ہے۔

 جب انسان عبادت سے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کو وہ شرف حاصل ہوتا ہے، جس میں کائنات کی کوئی مخلوق اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ملائکہ تک اس کے مقام سے فروتر ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اس کو خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہیں دی جاتی۔ اس کی گردن میں خدا کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی کا طوق نہیں ہوتا۔ اس کے پائوں میں خدا کی زنجیر کے سوا کسی کی زنجیر نہیں ہوتی۔ اس کا سر خدا کے حکم کے سوا کسی کے حکم کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ خدا کا غلام اور سب کا آقا ہوتا ہے۔ وہ خدا کا محکوم اور سب کا حاکم ہوتا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے اس کی زمین پر حکومت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ فرعون و نمرود کی طرح باغی اور غاصب نہیں ہوتا، بلکہ شاہی فرمان سے زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اور حق کے ساتھ فرماں روائی کرتا ہے:

  • وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ ۭ (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

یہ تو دنیا کا انعام ہے۔ اور آخرت کا انعام کیا ہے؟ یہ کہ:

  • وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ۝۵۲ (النور  ۲۴:۵۲) اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اور اللہ سے ڈرا اور اس کے غضب سے بچا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
  •  رِجَالٌ۝۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوۃِ۝۰۠ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ ۝۳۷ۤۙ  لِيَجْزِيَہُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ(النور ۲۴:۳۷-۳۸) وہ لوگ جن کو کوئی تجارت اورکوئی خریدو فروخت اللہ کے ذکر اور اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی، جو ڈرتے ہیں اس دن سے جب دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پھر جائیں گی۔ ان کو امید ہے کہ اللہ ان کے اعمال کا بہتر سے بہتر بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے اس پر مزید اضافہ کرے گا۔

عبادت کا غلط مفہوم اور نتیجہ

افسوس کہ عبادت کے اس صحیح اور حقیقی مفہوم کو مسلمان بھول گئے۔ انھوں نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا اور سمجھے کہ بس انھی اعمال کو انجام دینا عبادت ہے اور انھی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔

اس عظیم الشان غلط فہمی نے عوام اور خواص دونوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ عوام نے اپنے اوقات میں سے چند لمحے خدا کی عبادت کے لیے مختص کرکے باقی تمام اوقات کو اس سے آزاد کرلیا۔ قانون الٰہی کی دفعات میں سے ایک ایک دفعہ کی خلاف ورزی کی، حدود اللہ میں سے   ایک ایک حد کو توڑا، جھوٹ بولے، غیبت کی، بدعہدیاں کیں، حرام کے مال کھائے، حق داروں کے حق مارے، کمزوروں پر ظلم کیا، نفس کی بندگی میں دل، آنکھ، ہاتھ اور پائوں سب کو نافرمانی کے لیے وقف کر دیا، مگر پانچ وقت کی نماز پڑھ لی، زبان اور حلق کی حد تک قرآن کی تلاوت کرلی، سال میں مہینے بھر کے روزے رکھ لیے، اپنے مال میں سے کچھ خیرات کردی، ایک مرتبہ حج بھی کر آئے اور سمجھے کہ ہم خدا کے عبادت گزار بندے ہیں۔

  •  کیا اسی کا نام خدا کی عبادت ہے کہ اس کے سجدے سے سر اٹھاتے ہی ہر معبودِ باطل کے آگے جھک جائو، اس کے سوا ہر زندہ اور مُردہ کو حاجت روا بنائو، ہر اس بندے کو خدا بنالو جس میں تم کو نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی ذرّہ برابر بھی قوت نظر آئے؟
  •  روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کفار و مشرکین تک کے آگے ہاتھ جوڑو اور ان کے پائوں چومو، انھی کو رازق سمجھو، انھی کو عزت اور ذلت دینے والا سمجھو، انھی کے قانون کو قانون سمجھو اس لیے کہ وہ طاقت رکھتے ہیں؟ خدا کے قانون کو بے تکلف توڑ دو اس لیے کہ تمھارے زعمِ باطل میں وہ اپنے قانون کو نافذ کرنے کی قوت نہیں رکھتا۔ کیایہی تمھارا اسلام ہے؟ یہی تمھارے ایمان کی شان ہے؟ اسی پر تمھیں گمان ہے کہ تم خدا کی عبادت کرتے ہو؟
  •  اگر یہی اسلام اور ایمان ہے اور یہی اللہ کی عبادت ہے، تو پھر وہ کیا چیز ہے جس نے تم کو دنیا میں ذلیل و خوار کر رکھا ہے؟ کیا چیز ہے جو تم سے خدا کے سوا ہر در کی گدائی کرا رہی ہے؟ کس چیز نے تمھاری گردنوں میں غلامی اور ذلت کے طوق ڈال رکھے ہیں؟

خواص نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ تسبیح و مصلّٰی لے کر حجروں میں بیٹھ گئے۔

خدا کے بندے گمراہی میں مبتلا ہیں، دنیا میں ظلم پھیل رہا ہے۔ حق کی روشنی پر باطل کی ظلمت چھائی جارہی ہے، خدا کی زمین پر ظالموں اور باغیوں کا قبضہ ہو رہا ہے، الٰہی قوانین کے بجائے شیطانی قوانین کی بندگی خدا کے بندوں سے کرائی جارہی ہے، مگر یہ ہیں کہ نفل پر نفل پڑھ رہے ہیں، تسبیح کے دانوں کو گردش دے رہے ہیں، ہو حق کے نعرے لگا رہے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں مگر محض ثوابِ تلاوت کی خاطر، حدیث پڑھتے ہیں مگر صرف تبرکا ً، سیرت پاک اور اسوۂ صحابہ پر وعظ فرماتے ہیں، مگر قصہ گوئی کا لطف اٹھانے کے سوا کچھ مقصود نہیں، دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق نہ ان کو قرآن میں ملتا ہے، نہ حدیث میں، نہ سیرت پاک میں، نہ اسوۂ صحابہ میں۔

 کیا یہ عبادت ہے؟ کیا یہی عبادت ہے کہ بدی کا طوفان تمھارے سامنے اُٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے ہوئے مراقبے میں مشغول رہو؟

کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمھارے حجرے کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جائو؟

کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں، دنیا میں انھی کا علم پھیلے، انھی کی حکومت کار فرما ہو، انھی کا قانون رواج پائے، انھی کی تلوار چلے، انھی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور خدا کی مخلوق کو ان کے لیے چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر و شغل کرنے میں منہمک ہو جائو؟

اگر عبادت یہی ہے جو تم کررہے ہو، اور اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ عبادت تو تم کرو اور زمین کی حکومت و فرماںروائی دوسروں کو ملے؟ کیا معاذ اللہ، خدا کا وہ وعدہ جھوٹا ہے جو اس نے قرآن میں تم سے کیا تھا کہ:

 وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور ۲۴:۵۵)  تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔

اگر خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، اور اگر یہ واقعہ ہے کہ تمھاری اس عبادت کے باوجود نہ تم کو زمین کی خلافت حاصل ہے، نہ تمھارے دین کو تمکن نصیب ہے، نہ تم کو خوف کے بدلے میں امن میسر آتا ہے، تو تم کو سمجھنا چاہیے کہ تم اور تمھاری ساری قوم عبادت گزار نہیں بلکہ تارکِ عبادت ہے اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے، جس نے تم کو دنیا میں ذلیل کر رکھا ہے۔

(ماہ نامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد، دکن، جولائی ۱۹۳۵ء، ص ۱۳-۲۷، یکم اگست،ص ۱۱-۲۱)

  _______________

حواشی

[۱]   بلکہ علم الانسان کی تازہ ترین تحقیقات سے تو یہ عجیب حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اوّلین انسانی تہذیب کی حامل قوموں میں خالص توحید کا عقیدہ پایا جاتا ہے اور وہ شرک کے اثرات سے بالکل پاک ہیں (ملاحظہ ہو، کتاب علم الاقوام، مصنّفہ ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایہرن فیلس[ترجمہ: ڈاکٹر سیّدعابد حسین]، شائع کردہ انجمن ترقی اُردو، دہلی، ۱۹۴۱ء، دو حصے)۔ یہ قرآن کریم کے اس بیان کی پوری پوری تصدیق ہے کہ انسان کا اوّلین مذہب توحید ہے اور شرک بعد کی پیداوار ہے۔ ان تحقیقات نے انیسویں صدی کے فلسفۂ مذہب کا نظریہ اُلٹ دیا۔(مصنف)

[۲]   ان معلومات کے لیے کتابِ مذکور [علم الاقوام]کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔

[۳]   معترض کہہ سکتا ہے کہ ایسے افراد بکثرت پائے جاتے ہیں اور ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں اور تقریباً ہرزمانے میں موجود رہی ہیں، جن کا کوئی مذہب نہیں اور جو عملاً و اعتقاداً کسی کی عبادت نہیں کرتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مخنثوں کی ایک کثیرتعداد کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جذبۂ شہوت ایک فطری جذبہ نہیں ہے اور جس طرح مجردوں اور راہبوں کے ایک بڑے گروہ کا وجود اس بات کی دلیل نہیں کہ اَزدواج کی خواہش ایک فطری خواہش نہیں ہے، اسی طرح ایسے افراد یا جماعتوں کا موجود ہونا بھی جن کے اندر مخصوص اسباب کے تحت عبادت کا فطری جذبہ مُردہ یا بے حس ہوچکا ہے، اس دعوے کی دلیل نہیں بن سکتا کہ انسان میں عبادت کا جذبہ ایک فطری جذبہ نہیں ہے۔

[۴]   آج کل مذہب پر لکھنے والے مصنّفین کا رجحان زیادہ تر تاریخی ارتقاء کے نظریہ کی طرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان نے ابتدا شرک کی ادنیٰ شکلوں سے کی تھی۔ جوں جوں شعور بڑھتا گیا، معبودوں کا معیار اُونچا ہوتا گیا اور ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی، یہاں تک کہ ترقی کرکے انسان توحید تک پہنچا۔ لیکن تاریخ خود اس تاریخی نظریہ کا ابطال کرتی ہے۔ مسیح سے ڈھائی ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم ؑ خالص توحید کے پرستار تھے اور مسیح سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں کروڑوں آدمی شرک کے پرستار موجود ہیں۔ کیا یہ تاریخی ارتقاء کا ثبوت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادنیٰ ترین شرک سے لے کر بلند ترین توحید تک عبادت اور عقیدت کی تمام اقسام ہرزمانے میں پائی گئی ہیں اور آج تک پائی جاتی ہیں۔ تفاوت دراصل مختلف انسانوں کے عقلی و ذہنی مدارج میں ہے، نہ کہ تاریخی ترتیب میں۔

[۵]   ان معبودوں میں انسان کی اپنی ہوائے نفس بھی شامل ہے، جو شخص خدا کی بندگی نہیں کرتا، وہ یا تو بتوں اور مصنوعی معبودوں کی بندگی کرتا ہے، یا فرعون صفت انسانوں کی، یا پھر اپنی خواہشات کی۔

[۶]   یہ بحث نہایت غوروتامّل کی مستحق ہے۔ اس مسئلے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ خدا کے قانونِ طبیعی یا حکم تکوینی کی اطاعت ہی کو اصل عبادت سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ اس عبادت کا حق ادا کردے وہی عابد اور صالح اور ان تمام وعدوں کا مستحق ہے جو قرآن میں صالحین سے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انسان سے جو عبادت مطلوب ہے وہ محض حکم تکوینی کی اطاعت ہی نہیں بلکہ حکم شرعی کی اطاعت بھی ہے۔

[۷]   یعنی اپنی زبان سے، اخلاق سے ، کردار سے ، اپنی زندگی کے پورے رویے سے اور پھر اپنی قربانیوں سے، محنتوں سے، کوششوں سے اور جفاکشیوں سے اسلام کی صداقت پر گواہی دو۔ ایک طرف ساری دُنیا کے سامنے اپنے قول وعمل سے اسلام کا مظاہرہ بھی کرو اور دوسری طرف اسلام کی راہ میں جانفشانی کرکے یہ بھی ثابت کردو کہ تم واقعی اس دین پر ایمان لائے ہو، اور تمھارے نزدیک یہ ایسی صداقت ہے جس پر تن من دھن سب کچھ نثار کیا جاسکتا ہے۔

گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]

  • میاں طفیل محمد

ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘

ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔

پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘

نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔

’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔

پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:

آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:

’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔

جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔

مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘

انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔

چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔

سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔

مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔

ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟

یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔

اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔

  • مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی

[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:

۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔

اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔

اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔

جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....

  • نعیم صدیقی

رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟

مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔

یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔

  • صادق حسین

[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:

’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔

  • سیّد عمر فاروق مودودی

۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔

محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔

مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔

  • پروفیسر خورشید احمد

میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die

میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔

کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘

انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔

کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:

یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی

خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی

سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی

مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی

اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔

ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘

  • مولانا عبدالرحیم

میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔

 منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔

اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔

اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔

عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔

چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔

  • سیّد صدیق الحسن گیلانی

مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔  دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘

پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:

جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔

ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘

  • پروفیسر غلام اعظم

کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔  میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔

جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔

ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے،  مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔

رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔

لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:

پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘

مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد  ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔

اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:

’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔

نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے  کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔

۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔

مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔

جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔

مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ  مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔

  • سیّد اسعد گیلانی

یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔

اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟

آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔

ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:

’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔

’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔

اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

___  کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔

___  کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟

ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔

اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟  کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔

لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:

’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔

یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:

’’جمہوریت کا خون ___  بند کرو‘‘

 ’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:

یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔

طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:

’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔

یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔

پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔

ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:

ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘

دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔

یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔

پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔

طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:

’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘

’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔

اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔

اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔

 پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔

  _______________

حواشی

[۱]   l  ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l  ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l  ۷مئی  کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l  ۹مئی  کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l  ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب