قربانی کی بحث کے سلسلے میں چند مزید باتیں عرض کرنی ہیں۔ پہلے یہ بتایاجاچکا ہے کہ:
اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے، اور اس کا ثبوت کیا ہےکہ یہ شکل حضوؐر ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے؟
اوّلاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے، اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربان کردے، بلکہ آپ نے تمام اُمت کے لیے تین دن مقرر فرمادیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کردیں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کاحکم دیا گیا۔ ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی، تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کی گئیں، تاکہ انھیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینہ مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔
اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اُس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے، جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں، اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے، جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
ثانیاً، اس کے لیے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ایک یومِ عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں۔ پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں۔ یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ (انعام ۶:۱۶۲) اے نبیؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۲ۭ (الکوثر ۱۰۸:۲) پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے ۔ ہر معاشرہ فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں، جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہروقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہرگھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں اور غریب ہمسایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں۔ یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ اور لہو ولعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے، جو خدا پرستی اور اُلفت و محبت اور ہمدردی و مواسات کی پاکیزہ روح سے لبریز ہو۔
ثالثاً، اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا، جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے زیادہ زرّیں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا۔ یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی کرنا چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی کی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعے کی یادگار بھی بن گئی، جو ایمانی زندگی کے اِس منتہاے مقصود، اُس کے اس آئیڈیل اور مثلِ اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
قربانی کا حکم بجالانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اِس خاص تاریخ کا انتخاب ’بیک کرشمہ دوکار‘ کا مصداق ہے۔
ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا: مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیُّ،یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ (مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس واقعے کے بعد ہرسال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضوؐر نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے، اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اُس روز کریں، جس روز حضرت ابراہیمؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے ۔ اپنی تاریخ کےیادگار واقعات کا ’یوم‘ دنیا کی ہرقوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اُس دن کا انتخاب کرتا ہے، جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔
رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بُری طرح کھل رہی تھی کہ کفّار نے اُن پر حرم کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایامِ حج کو مدینے ہی میں ان کے لیے ایامِ عید بنا دیا۔ آپ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ۹ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے، جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہرنماز کے بعد اللہُ اَکْبَرُ اللہُ اَکْبَرُ ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ اللہُ اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ کا ورد شروع کریں اور ۱۳ذی الحج تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایامِ تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز ۱۰ ذی الحج کو، جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانۂ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔
یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلّی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کر دیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریکِ حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اس کو تمام دنیاے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنا دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسکِ حج ادا کر رہے ہوتے ہیں، اسی زمانے میں ساری دنیاے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریک ِ حال ہوتے ہیں ۔ ہرمسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے۔ وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کر رہا ہوتا ہے۔
خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےسکھایا، وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کا دوگانۂ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:
اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ، اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، لَا شَرِيْكَ لَہٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِـمِيْنَ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا! یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔
ان الفاظ پر غور کیجیے۔ ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں، جن کی بنیاد پر قرآنِ مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں:
یہ پانچ نکات جو اُوپر عرض کیے گئے ہیں، انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبی کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت ایسی نمایاں نظر آئے گی کہ اگر اس قربانی کے سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی کوئی اور شہادت موجود نہ ہوتی، تب بھی اُس کے اِس طریقے کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لیے کافی تھی کہ اس کو اسی خدا کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے، جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔
قرآنِ مجید میں قربانی کے متعلق جو کچھ اور جتنا کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا، اس کوپڑھ کر کوئی غیر نبی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم اور دانش مند ہی کیوں نہ ہوتا، اس سے زیادہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کرتا کہ مسلمان وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کی عبادت بجا لاتے رہیں۔
وہ کبھی ان ارشادات سے یہ منشا نہ پاسکتا کہ ساری دنیاے اسلام کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر کیا جائے، اس دن کو ’یوم العید‘ قرار دیا جائے، وہ دن حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کا دن ہونا چاہیے۔ وہ دن اور اس کے سابق و لاحق ایام زمانۂ حج کے بھی مطابق ہونے چاہییں، اور یہ قربانی ایسے طریقے سے ادا کی جانی چاہیے کہ اس سے اسلام کی پوری روح تازہ ہوجائے۔ یہ منشا ایک نبی کے سوا اور کون پاسکتا تھا؟ اس منشا کو پانا اُس نبی کے سوا اور کس کا کام ہوسکتا تھا، جس پر خدا نے اپنا قرآن نازل فرمایا تھا؟
مگر اس کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی اِس اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور اتنی مضبوط ہیں کہ بجز ایک ہٹ دھرم آدمی کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔
اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں، جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ سے یہ بات نقل کرتی ہیں کہ حضوؐر نے عیدالاضحی کی قربانی کا حکم دیا، خود اس پر عمل فرمایا اور مسلمانوں میں اس کو سنت الاسلام کی حیثیت سے رواج دیا:
یہ روایات اور بکثرت دوسری روایات جو احادیث میں آئی ہیں، سب اپنے مضمون میں متفق ہیں اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف روایت بھی کہیں موجود نہیں ہے، جو یہ بتاتی ہو کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی سنت ِ رسولؐ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حج کے موقعے پر مکہ معظمہ میں نہ کوئی عیدالاضحی منائی جاتی ہے اور نہ کوئی نماز قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے ان تمام احادیث میں لازماً صرف اسی عید اور قربانی کا ذکر ہے جو مکہ سے باہر ساری دنیا میں ہوتی ہے۔
دوسری اہم شہادت عہد ِ نبوت سے قریب زمانے کے فقہاے اُمت کی ہے، جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں، اور کسی ایک فقیہہ کا قول بھی اس کے خلاف نہیں ملتا۔ ان فقہا سے یہ بات بالکل بعید تھی کہ سب کے سب بلاتحقیق ایک فعل کو سنت مان بیٹھتے، اور وہ ایسے زمانے میں تھے جب یہ تحقیق کرنے کے تمام ذرائع موجود تھے کہ یہ کام جو مسلمان کر رہے ہیں، یہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ سنت ہی ہے یا کسی اور کی رائج کردہ بدعت؟
مثلاً: امام ابوحنیفہؒ کو دیکھیے، وہ ۸۰ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدایش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیان صرف ۷۰سال کا فاصلہ ہے۔ ان کے زمانے میں بعض طویل العمر صحابہ موجود تھے، اور ایسے لوگ تو ہزاروں کی تعداد میں جگہ جگہ پائے جاتے تھے جنھوں نے خلفاے راشدین کا زمانہ دیکھا تھا اور صحابہ کرامؓ کی صحبت پائی تھی۔ پھر کوفہ جو امام صاحب کا وطن تھا، کئی سال تک حضرت علیؓ کا دارالخلافہ رہ چکا تھا۔ امام صاحب کی پیدایش اور حضرت علیؓ کی شہادت کے درمیان صرف ۴۰سال کا زمانہ گزرا تھا۔ اس شہر میں ان لوگوں کا شمار نہ کیا جاسکتا تھا جو خلیفۂ رابع کا عہد دیکھ چکے تھے۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کو یہ تحقیق کرنے میں کوئی مشکل پیش آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طریقہ کب سے اور کیسے شروع ہوا ہے اور کس نے اسے جاری کیا ہے؟
اسی طرح امام مالکؒ کی مثال لیجیے۔وہ ۹۳ہجری میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ساری عمر گزاری۔ اس شہر میں سیکڑوں خاندان ایسے موجود تھے، جن کے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں نے خلافت ِ راشدہ کا عہد دیکھا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی گودوں میں پرورش پائی تھی، اور جن کے اپنے بزرگ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ کیا کوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ اتنی قلیل مدت میں عہد نبویؐ کی روایات گم کرچکے تھے، اور وہاں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ عیدالاضحی کی یہ قربانی کس نے رائج کی ہے؟
یہی حال پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تمام فقہا کا ہے۔ وہ سب عہد ِ نبوت سے اتنے قریب زمانے میں تھے کہ ان کے لیے سنت اور بدعت کی تحقیق کرنا کوئی بڑا مشکل کام نہ تھا، اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوسکتے تھے کہ جو چیز سنت نہ ہو اسے سنت سمجھ بیٹھیں۔
تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی، اسی روز سے وہ مسلمانوں میں عملاً رائج ہوگئی اور اس وقت سے آج تک تمام دنیا میں پوری مسلم اُمت ہرسال مسلسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہرنسل نے پہلی نسل سے اس کو سنت ِ اسلام کے طور پر لیا ہے اور بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔
یہ ایک عالم گیر عمل ہے، جو ایک ہی طرح دنیا کے ہر اُس گوشے میں ہوتا رہا ہے، جہاں کوئی مسلمان پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے، جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ہی تواتر ہے، جس تواتر سے ہم کو قرآن پہنچا ہے اور یہ خبر پہنچی ہے کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی فتنہ پرداز اس تواتر کو بھی اگر مشکوک ٹھیرا دے تو پھر اسلام میں کیا چیز شک سے محفوظ رہ جاتی ہے۔
اس معاملے کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا ہو جس میں قربانی اور اس کی عید رائج نہ رہی ہو، پھر کسی قدیم نوشتے میں اس کا حکم لکھا ہوا مل گیا ہو اور کچھ ملّائوں نے اُٹھ کر لوگوں سے کہا ہو کہ: ’دیکھو فلاں جگہ ہم کو یہ لکھا ملا ہے، لہٰذا اے مسلمانو! آئو ہم عیدالاضحی منایا کریں اور اس میں جانوروں کی قربانی دیا کریں‘۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تاریخ میں کہیں اس کا سراغ ملتا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اور کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے؟ پھر کسی مُلّا کی کبھی مسلمانوں میں یہ حیثیت نہیں رہی ہے کہ وہ کسی پرانے نوشتے سے ایک حکم نکال کر دکھائے اور تمام دنیا کے مسلمان بالاتفاق اور بے چون و چرا اس کی بات مان کر اس کی پیروی شروع کردیں اور کوئی یہ نوٹ تک نہ کرے کہ یہ طریقہ پہلے ہم میں رائج نہ تھا، فلاں مُلّاصاحب کے کہنے سے اب حال ہی میں اس پر عمل شروع ہوا ہے۔
یہ تین قسم کی شہادتیں ایک دوسری سے پوری طرح مطابقت کر رہی ہیں۔ حدیث کی کثیرالتعداد مستند و معتبر روایات، اُمت کے تمام معتمدعلیہ فقہا کی تحقیقات، اور پوری اُمت کا مسلسل و متواتر عمل، تینوں سے ایک ہی بات ثابت ہورہی ہے۔ اس کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا مقرر کیا ہوا ہے؟
اب اگر اس کے مقابلے میں کسی شخص کے پاس کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کی شہادت بھی ایسی ہے، جس سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ یہ حضوؐر کا مقرر کیا ہوا نہیں ہے، تو وہ اسے سامنے لائے اور ہمیں بتائے کہ اسے کب، کس مُلّا نے، کہاں گھڑا اور کیسے تمام دنیا کے مسلمان اتنا بڑا دھوکا کھاگئے کہ اسے سنت ِ رسولؐ مان لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہنی انحطاط اور اخلاقی تنزل کی اس سے زیادہ شرمناک تصویر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے درمیان جو شخص چاہتا ہے اُٹھ کر ہمارے دین کے بالکل ثابت شدہ، مسلّم اور متفق علیہ حقائق کو، بلکہ اس کی بنیادوں تک کو بے تکلف چیلنج کردیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں، حالاکہ اس کے پاس اس کے اپنے مجرد دعوے کے سوا نہ کوئی دلیل ہوتی ہے، نہ شہادت۔
لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر باربار پیش کی جاتی ہے کہ: ’قربانی پر ہرسال لاکھوں روپیہ ’ضائع‘ ہوتا ہے۔ اسے جانوروں کی قربانی کے بجاے رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے ‘۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے:
پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’ضیاع‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اپنی اجتماعی تقریبات پر، اپنے میلوں پر، اور اپنے قومی اور بین الاقوامی تہواروں پر لاکھوں کروڑوں روپے صرف نہ کرتی ہو۔ اِن چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی قوم محض دولت کے گز سے ان کو ناپے اور روپے کے وزن سے ان کو تولے۔
آپ یورپ اور امریکا کے کسی سخت مادہ پرست آدمی کو بھی اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ کرسمس پر ہرسال جو بے شمار دولت ساری دنیاے عیسائیت مل کر صرف کرتی ہے، یہ روپے کا ضیاع ہے ۔ وہ آپ کی اس بات کو آپ کے منہ پر مار دے گا اور بلاتامل یہ کہے گا کہ دنیا بھر میں بٹی ہوئی بے شمار فرقوں اور سیاسی قومیتوںمیں تقسیم شدہ مسیحی ملّت کو اگر ایک بین الاقوامی تہوار بالاتفاق منانے کا موقع ملتا ہے، تو اس کے اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس کے خرچ سے بہت زیادہ ہیں۔
ہندوئوں جیسی زرپرست قوم تک اپنے میلوں اور تہواروں کو اُس مال کی میزان میں تولنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان تقریبات پر صرف ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ چیز ان کے اندروحدت پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ نہ ہو تو ان کے تفرقے اور اختلافات اور طرح طرح کے باہمی امتیازات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کبھی جمع ہوکر ایک قوم نہ بن سکیں۔
یہی معاملہ ان دوسری اجتماعی تقریبات کا ہے، جو دنیا کی مختلف قومیں وقتاً فوقتاً مشترک طور پر مناتی ہیں۔ ہر ایک تقریب اپنی ایک محسوس صورت چاہتی ہے اور اس صورت کو عمل میں لانے پر بہت کچھ صرف ہوتاہے۔ مگر کوئی قوم بھی یہ حماقت کی بات نہیں سوچتی کہ:’ بس ہسپتال اور مدرسے اور کارخانے ہی ایک چیز ہیں جن پر سب کچھ لگ جانا چاہیے۔ اور یہ تہوار اور تقریبات سب فضول ہیں‘۔ حالانکہ دُنیا کی کسی قوم کی تقریبات اور تہواروں میں وہ بلند اور پاکیزہ روحانی، اعتقادی اور اخلاقی روح موجود نہیں ہے، جو ہماری عیدالاضحی میں پائی جاتی ہے، اور کسی تہوار اور تقریب کے منانے کی صورت ہرطرح کے شرک و فسق اور مکروہات سے اس درجہ خالی نہیں ہے، جتنی ہماری عیدیں ہیں اور کسی تہوار کے متعلق، کسی قوم کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا حکم موجود نہیں ہے جیسا ہمارے پاس ہے۔ اب کیا ہم مادہ پرستی میں سب سے بازی لے جانے کا عزم کرچکے ہیں؟
اور یہ قربانی پر روپیہ ’ضائع‘ ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہ کہاں ضائع ہوتا ہے؟ قربانی کے لیے جو جانور خریدے جاتے ہیں ان کی قیمت ہماری ہی قوم کے ان لوگوں کی جیبوں میں تو جاتی ہے جوان جانوروں کو پالتے اور ان کی تجارت کرتے ہیں۔ اسی کا نام اگر ضائع ہونا ہے تو اپنے ملک کے سارے بازار اور سب دکانیں بند کردیجیے، کیونکہ ان سے مال خریدنے پر کروڑوں روپیہ روز ضائع ہورہا ہے۔ پھر جو جانور خریدے جاتے ہیں کیا وہ زمین میں دفن کر دیے جاتے ہیں یا آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں؟ ان کا گوشت انسان ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ اگر ضیاع ہے تو سال بھر انسانی خوراک پر جو کچھ صرف ہوتا رہتا ہے، اس کے بند کرنے کی بھی کوئی سبیل ہونی چاہیے۔ اب کچھ لوگوں نے یہ محسوس کرکے کہ یہ ضائع ہونے کی بات چلتی نظر نہیں آتی، یہ افسانہ تراشا ہے کہ بقرعید میں بہت سا گوشت سڑ کر پِھک جاتا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اس ملک میں ایک مدت سے جی رہے ہیں، ہم کو تو کبھی سڑے ہوئے گوشت کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ وہ بتائیں انھیں کہاں ان کا دیدار میسر ہوا ہے؟
حال میں ایک صاحب نے کچھ ’شرعی‘ سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہوجائے اور حکومت اسے محدود کرکے حدِّ مقرر سے زائد قربانیوں کا روپیہ خیراتی کاموں میں صرف کرنے کا انتظام کردے۔ ان سہاروں کی نوعیت بھی ملاحظہ فرما لیجیے:
وہ کہتے ہیں کہ ’’قربانی صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے، باقی ائمہ دین اسے صرف سنت مانتے ہیں‘‘۔ حالانکہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ اسے صرف امام اعظمؒ واجب قرار دیتے ہیں، اور یہ بھی غلط کہ باقی ائمہ اسے سنت اس معنی میں مانتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جن ائمہ نے اسے واجب قرار دیا ہے، ان میں امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ بھی شامل ہیں، اور امام شافعیؒ وغیرہ جنھوں نے اسے سنت مانا ہے، وہ سب اسے ’سنتِ موکدہ‘ کہتے ہیں جس کا ترک جائز نہیں۔
ان کا بیان ہے کہ: شارع کا منشا قربانی کو محدود کرنا تھا کیونکہ حضوؐر نے قربانی کا حکم صرف ذی استطاعت لوگوں کو دیا ہے اور حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ: عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً (ہرگھر کے لوگوں پر ہرسال ایک قربانی بقرعید کی اور ایک رجب کی لازم ہے)۔ حالانکہ ترمذی کے بقول یہ حدیث غریب اور ضعیف السند ہے اور ابوداؤد نے صراحت کی ہے کہ رجب کی قربانی کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ فرما دیا تھا۔
تاہم، اس بحث کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ شارع نے ایک چیز کو لازم کرتے ہوئے اگر اس کی ایک کم سے کم حد مقرر کی ہو، تو کیا واقعی اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع اس پر عمل کو محدودکرنا چاہتا ہے؟ نماز صرف پانچ وقت کی چند رکعتیں فرض ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع نماز کو محدود رکھنا چاہتاہے اور فرض رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اسے پسند نہیں؟ روزے صرف رمضان کے فرض ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کو محدود کرنا ہی مقصود ہے اور زائد روزے ناپسندیدہ ہیں؟ زکوٰۃ کی ایک محدود مقدار صرف صاحب ِ نصاب پر لازم کی گئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کو محدود کرنا پیش نظر ہے اور غیر صاحب ِ نصاب اگر راہِ خدا میں مال صرف کرے یا صاحب ِ نصاب زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرے تو یہ ناپسندیدہ بات ہوگی؟
وہ قرآن سے بعض نظیریں پیش کرتے ہیں کہ حج کی بعض رعایات سے فائدہ اُٹھانے والوں اور بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کرنے والوں پر جو قربانی لازم کی گئی ہے، اس کا بدل روزوں کی شکل میں یا مالی اِنفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ بقرعید کی قربانی کا بدل بھی اسی طرح تجویز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال اصولاً غلط ہے۔ وہاں شارع نے دو تین متبادل صورتیں ایک واجب سے سبکدوش ہونے کے لیے خود تجویز کی ہیں۔ یہاں آپ شارع کی ایک ہی مقرر کردہ شکلِ عبادت کا بدل تجویز فرما رہے ہیں۔
یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا اسی طرح آپ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور دوسرے فرائض و واجبات کے بدل بھی آپ ہی آپ تجویز کرلینے کے لیے آزاد ہیں؟
پھر وہ ہدایہ کی ایک عبارت سے یہ بالکل غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ: ’قربانی کے دنوں میں اگرچہ قربانی ہی کرنا افضل ہے، مگر اس کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کردینا بھی جائز ہے، حالانکہ کوئی فقیہہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بقرعید کے ایام میں جانور کی قیمت کا صدقہ قربانی کا بدل ہوسکتا ہے۔ صاحب ِ ہدایہ غریب کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی وقت ان کے الفاظ اَلتَضْحِیَۃُ فِیْھَا اَفْضَلُ مِنَ التَّصَدُّقِ بِثَمَنِ الْاُضْحِیَۃِ کا مطلب یہ نکالا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کے بجاے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست ہے تو وہ دس بار اس پر توبہ کرتے۔ آخر فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ ہی تو نہیں ہے، دوسری بے شمار کتابیں بھی دنیا میں موجود ہیں اور قریب قریب سب ہی میں بالفاظِ صریح یہ بات لکھی گئی ہے کہ اِن دنوں میں کوئی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔
ایک دل چسپ استدلال ان کا یہ بھی ہے کہ: ’اب لوگوں کے اندر خلوص و تقویٰ کم ہے اور اس کے بجاے فخر اور ریا اور نام و نمود کی خاطر لوگ قربانیاں کرتے ہیں‘۔ گویا جب یہی لوگ قربانی کے بجاے قومی فنڈ میں___ اور وہ بھی سرکاری فنڈ میں___ بڑھ چڑھ کر چندے دیں گے تو اس وقت یہ کام غایت درجہ خلوص و تقویٰ کے ساتھ ہوگا۔ اس کے بعد بعید نہیں کہ ہرمسجد پر ایک محتسب خلوص پیما آلات لیے ہوئے موجود رہے اور اس سے ناپ ناپ کر ہر ’ریاکار‘ نمازی کو حکم دے کہ نوافل اور سنتیں چھوڑ کر ان کے بدلے قومی فنڈ میں روپیہ داخل کرو۔
اِن کمزور سہاروں پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے کہ قربانی کو محدود کر دینا شریعت کے منشا کے مطابق ہے۔ [اگست ۱۹۵۹ء]
کئی سال سے مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہربقرعید کے موقعے پر اخبارات اور رسالوں کے ذریعے سے بھی اور اشتہاروں اور پمفلٹوں کی صورت میں بھی، قربانی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھایا جاتا ہے، اور ہزاروں بندگانِ خدا کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا جاتا ہے کہ: ’’یہ کوئی دینی حکم نہیں ہے بلکہ ایک غلط اور نقصان دہ رسم ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کرلی ہے‘‘۔
اس وسوسہ اندازی کے خلاف قریب قریب ہرسال ہی علما کی طرف سے مسئلے کی پوری وضاحت کر دی جاتی ہے۔ قربانی کے ایک حکمِ شرعی ہونے اور مسنون اور واجب ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں، اور مخالفین کے استدلال کی کمزوریاں کھول کر رکھ دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرمرتبہ یہ سب کچھ ہوچکنے کے بعد، دوسرے سال پھر دیکھا جاتا ہے کہ وہی لگی بندھی باتیں، اسی طرح دُہرائی جارہی ہیں۔ گویا نہ کسی نے قربانی کے مشروع [یعنی شریعت کے مطابق]ہونے کا کوئی ثبوت دیا اور نہ اس کے خلاف دلیلوں کی کوئی کمزوری واضح کی، بلکہ [بعض افراد نے] تو ایک قدم اور آگے بڑھا کر حکومت کو بے تکلف یہ مشورہ دے دیا ہے کہ: ’وہ قربانی کو ازروے قانون محدود کرنے کی کوشش کرے‘۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جو [اگست ۱۹۴۷ء] تک متحدہ ہندستان کا ایک حصہ تھا۔ ہماری سرحد کے اُس پار ہمارے کروڑوں دینی بھائی اب بھی سابق متحدہ ہندستان کے اُس حصے میں موجود ہیں، جس سے ہم الگ ہوئے تھے۔ ان کو آج بھی اُسی قوم سے سابقہ درپیش ہے جس سے کبھی ہم کو درپیش تھا، بلکہ وہ آج تقسیم سے قبل کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ کمزوری اورمغلوبی کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اُن پر جس قوم کو غلبہ حاصل ہے، وہ سالہا سال سے گائے کی قربانی پر ہمارے ساتھ سر پھٹول کرتی رہی تھی، اور تقسیم کے بعد جب اسے مسلمانوں پر پورا قابو حاصل ہوا تو اس نے سب سے پہلے ان کو اسی حق سے محروم کیا۔
اب یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان جو ہندو تہذیب و تمدن کے تسلط سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو بچانے کے لیے بنا تھا، وہی آگے بڑھ کر ہندستان کے ہندوئوں کو یہ رہنمائی دے کہ: ’’مہاراج! گائے کی قربانی کیسی؟ آپ تو ہرقسم کی قربانی ازروے قانون بند کرسکتے ہیں۔ یہ چیز سرے سے شعائر اسلام میں داخل ہی نہیں ہے کہ اسے روک دینے پر آپ کو کسی مذہبی تعصب کا الزام دیا جاسکے۔ حق بجانب وہ مسلمان نہیں ہے جو اسے اپنا مذہبی حق کہہ کر اس پر اصرار کرتا ہے، بلکہ وہ ہندو ہے جو اِس غیر مذہبی رسم سے اس کو باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں تو پاکستان میں اس جاہل مسلم اکثریت سے سابقہ ہے، اس لیے یہاں ہم بربناے احتیاط بتدریج اسے محدود کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ آپ کو تو کسی کا ڈر نہیں ہے۔ آپ یک قلم اسے مسدود فرما دیں۔ اس معاملے میں شریعت ِاسلام، مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ آپ کے ساتھ ہوگی!‘‘
کس قدر جلدی بُھولے ہیں ہم اُس حالت کو، جس سے خدا نے ہمیں نکالا اور جس میں ہمارے کروڑوں بھائی اب بھی مبتلا ہیں۔ شاید برطانوی ہند میں ہندوئوں سے ہماری کش مکش صرف اس لیے تھی کہ اپنی تہذیب کا جھٹکا دوسروں سے کرانے کے بجاے ہم خود اسے حلال کرنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں میں اختلافات کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ تفرقوں کی ماری ہوئی قوم فی الواقع رحم کی مستحق تھی۔ کسی کے دل میں اس کے لیے خیرخواہی کا جذبہ موجود ہوتا تو وہ یہ سوچتا کہ اس کے اختلافات میں اتفاق کی کوئی راہ دریافت کرے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ جو لوگ خیرخواہی کے ارادے یا دعوے سے اُٹھتے ہیں، وہ ان چیزوں میں بھی اختلاف کی راہیں نکال رہے ہیں، جن میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے آج تک اتفاق موجود ہے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملّت کی صحیح خیرخواہی یہ ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طرح اختلافی بنادیا جائے، اور کوئی چیز ایسی نہ چھوڑی جائے جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ سب مسلمان اس میں متفق ہیں۔
قربانی کا مسئلہ ایسے ہی متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں ائمہ اربعہ اور اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں شیعہ اور سُنّی متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب فرقے بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیاہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بے چارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ ’تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے‘۔
پھر یہ اختلاف بھی کسی معمولی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتنہ انگیز بنیاد پر اُٹھایا گیاہے۔ یعنی سوال یہ چھیڑا گیا ہے کہ: ’یہ بقرعید کی قربانی آخر تم کس سند (authority ) پر کرتے ہو، قرآن میں تو اس کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے؟‘ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ: ’اسلام میں سند صرف ایک قرآن ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوئی سند نہیں ہے‘۔ حالانکہ جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے، اسی نے اپنا رسولؐ بھی مبعوث کیا تھا۔ اس کا رسولؐ اسی طرح ایک اتھارٹی ہے، جس طرح اس کی کتاب۔
اس کے رسولؐ کی اتھارٹی کسی طرح بھی اس کی کتاب کی اتھارٹی سے کم نہیں ہے۔ نہ وہ کتاب کے ساتھ کوئی ضمنی حیثیت رکھتی ہے، نہ اس کے ذریعے سے دیے ہوئے کسی حکم کے لیے قرآن کی توثیق کسی درجے میں بھی ضروری ہے، بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن جس کی سند پر کلام اللہ مانا گیا ہے وہ بھی رسولؐ ہی کی سند ہے۔ اگر رسولؐ نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ: ’یہ قرآن، خدا نے اس پر نازل کیا ہے، تو ہمارے پاس نہ یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا اور نہ یہ ماننے کی کوئی وجہ تھی کہ یہ کتاب خدا کی کتاب ہے۔ اب یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہو اور جس طریقے پر رسولؐ نے خود عمل کیا اور اہلِ ایمان کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہو، اس کے متعلق یہ کہا جائے کہ: ’اس کا حکم قرآن میں ہو تو ہم مانیں گے، ورنہ پیروی سے انکار کردیں گے؟‘___ اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ: ’خدا کی کتاب تو واجب الاتباع ہے مگر خدا کا رسولؐ واجب الاتباع نہیں ہے‘۔
یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیہ بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ: ’آپ کا کام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہوجائے اور اس کے بعد بندے، اللہ کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے، اس کی تعمیل کرتے رہیں‘۔
خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفّار کے لیے الگ اور اہلِ ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفّا رکے لیے آپؐ بے شک صرف مبلّغ اور داعی الی اللہ ہیں، مگر جو لوگ ایمان لے آئیں، ان کے لیے تو آپؐ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپؐ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے، مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج [النساء۴:۸۰]۔ آپؐ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ [اٰلِ عمرٰن۳:۳۱]۔اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلّم، مربی، رہنما، قاضی، امروناہی اور حاکمِ مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہرگوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں، جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں۔ اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپؐ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسولؐ اللہ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسول ؐ اللہ کی ذات خود سند ہے۔ اس کا حکم بجاے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعے سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعے سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
بالکل غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ: ’محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور فیصلوں اور ہدایات کی قانونی حیثیت صرف اپنے عہد کے رئیس مملکت (Head of the State) ہونے کی بناپر تھی، یعنی جب آپ رئیسِ مملکت تھے اس وقت آپؐ کی اطاعت واجب تھی اور اب جو [فرد] رئیسِ مملکت یا ’مرکز ملّت‘ ہوگا، اس کی اطاعت اب واجب ہوگی۔ یہ [منصب ِ] رسالت کا بدترین تصور ہے جو کسی شخص کے ذہن میں آسکتا ہے۔ اسلامی تصورِ رسالت سے اس کو دُور کا واسطہ بھی نہیں:
اب یہ کیسا سخت طغیانِ جاہلیت ہے کہ رسولؐ کو محض ایک علاقے اور زمانے کے رئیسِ مملکت کی حیثیت دے کر کہا جائے کہ: ’اس کے دیے ہوئے احکام اور ہدایات بس اسی زمانے اور علاقے کے لوگوں کے لیے واجب الاتباع تھے، آج ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘۔
یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی نظامِ حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کہتے ہیں، جس کے اصولوں اور عملی مظاہر کی یکسانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک ملّت بنا رکھا ہے، جس کی یک رنگی نے مسلم کو مسلم سے جوڑا اور کافر سے توڑا ہے، جس کی امتیازی خصوصیات نے مسلمانوں کو ساری دنیا میں غیرمسلموں سے ممیز کیا اور سب سے الگ ایک مستقل اُمت بنایا ہے، اس کا تجزیہ کرکے آپ دیکھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس کا کم از کم ۱۰/۹ حصہ وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدارِ رسالت سے مسلمانوں میں رائج کیا ہے، اور بمشکل ۱۰/۱ حصہ ایسا ہے جس کی سند قرآن میں ملتی ہے۔ پھر اس ۱۰/۱ کا حال بھی یہ ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد کی وہ صورت شریعت ِ واجب الاتباع نہ ہو، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے تو دنیا میں مختلف مسلمان___ افراد بھی اور گروہ بھی اور ریاستیں بھی___ اس پر عمل درآمد کی اتنی مختلف شکلیں تجویز کرلیں کہ ان کے درمیان کوئی وحدت و یک رنگی باقی نہ رہے۔
اب خود اندازہ کرلیجیے کہ اگر وہ سب کچھ ساقط کردیا جائے ، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے رواج دینے سے مسلمانوں میں رائج ہے، تو اسلام میں باقی کیا رہ جائے گا، جسے ہم اسلامی تہذیب و تمدن کہہ سکیں اور جس پر دنیا بھر کے مسلمان مجتمع رہ سکیں؟
مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملّی شعار ہے، جسے روے زمین کے ہرگوشے میں ہر روز پانچ وقت مسلم اور کافر سب سنتے ہیں، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مقرر اور رائج کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ نہ وہ اس کے الفاظ بتاتا ہے، نہ یہ حکم دیتا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نمازوں سے پہلے یہ پکار بلند کی جائے:
سوال یہ ہے کہ اگر وہ اختیار و اقتدار جس نے اس اذان کے الفاظ مقرر کیے اور اسے مسلمانوں میں رواج دیا، دائمی اور عالم گیر شریعت مقرر کرنے کا مجاز نہ ہوتا، تو کیا صرف ان دو آیتوں کی بنیاد پر آج دنیا میں آپ اذان کی آواز کہیں سن سکتے تھے؟
خود یہ نماز باجماعت جس کے لیے اذان دی جاتی ہے، اور یہ نمازِ جمعہ جس کی پکار سن کر دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ عیدین جو ہزارہا مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہیں، اور یہ مسجدیں جو دنیابھر میں مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہو۔ قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے ، باقاعدہ نماز باجماعت ادا کرنے کا کوئی صاف حکم نہیں دیتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جب اس کے لیے پکارا جائے تو دوڑ پڑو۔ اسے خود نمازِ جمعہ قائم کرنے کا حکم مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔ عیدین کی نمازوں کا تو سرے سے اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ رہیں مسجدیں تو ان کے احترام کا حکم ضرور قرآن میں دیا گیا ہے، مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ: ’اے مسلمانو! تم اپنی ہربستی میں مسجد تعمیر کرو اور اس میں ہمیشہ نمازِ باجماعت قائم کرنے کا اہتمام کرو‘۔ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس اختیار واقتدار کی بنا پر ، جس کے ساتھ اللہ نے آپؐ کو شارع مقرر کیا تھا، مسلمانوں میں رائج کی ہیں۔ اگر یہ اختیارواقتدار مسلّم نہ ہوتا، تو اسلام کے یہ نمایاں ترین شعائر جن کا مسلمانوں کو مجتمع کرنے اور ایک یک رنگ اُمت بنانے اور اسلامی تہذیب کی صورت گری کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ہے، کبھی قائم نہ ہوتے اور مسلمان آج مسیحیوں سے بھی زیادہ منتشر و پراگندہ ہوتے۔
یہ صرف سامنے کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب ہی ملی ہوتی اور اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے آکر انفرادی زندگی سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست تک کے معاملات میں ہمارے لیے تہذیب کی ایک متعین صورت نہ بنا دی ہوتی، تو آج ہم ایک ممتاز عالم گیر ملّت واحدہ کی حیثیت سے موجود نہ ہوتے۔ اب جو شخص اس رسالتؐ کی شرعی حیثیت اور اس کی قانونی سند کو چیلنج کرتا ہے، اس کے اس چیلنج کی زد ایک ’قربانی‘ کے مسئلے یا دوچار منفرد مسئلوں پر نہیں پڑتی، بلکہ اسلامی تہذیب کے پورے نظام اور ملّت اسلامیہ کی اساس و بنیاد پر پڑتی ہے۔ جب تک ہم بالکل خودکشی پر آمادہ نہ ہوجائیں، ہمارے لیے کسی کی یہ بات ماننا محال ہے کہ: ’جس چیز کی سند قرآن میں ملے بس وہی باقی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند پر جتنی چیزوں کا مدار ہے وہ سب ساقط کردی جائیں‘۔
اعتراض کی اس غلط بنیاد اور اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ لینے کے بعد اب بجاے خود اس مسئلے کو دیکھیے، جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ’قربانی‘ کے متعلق یہ کہنا کہ: ’قرآن میں سرے سے اس کا کوئی حکم ہی نہیں ہے، خلافِ واقعہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن وہ اصولی حقائق بیان کرتا ہے، جس کی بناپر انسان کو اللہ تعالیٰ کے لیے جانوروں کی قربانی کرنی چاہیے، اور پھر اس کا ایک عام حکم دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ اس کی کوئی تصریح وہ نہیں کرتا۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کہ آپؐ اُسی خدا کی ہدایت کے تحت، جس نے قرآن آپؐ پر نازل کیا تھا، اس کی عملی صورت، اس کا وقت، اس کی جگہ اور اس کے ادا کرنے کا صحیح طریقہ مسلمانوں کو بتائیں اور خود اس پر عمل کرکے دکھائیں۔
یہ کام تنہا ایک قربانی کے متعلق ہی نہیں، قرآن کے دوسرے احکام کے متعلق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، وراثت، غرض مسلم معاشرے کے مذہب اور تمدن و معاشرت اور معیشت و سیاست اور قانون و عدالت اور صلح و جنگ کے تمام معاملات میں یہی کچھ ہوا ہے کہ قرآن نے کسی کے بارے میں مختصر اور کسی کے بارے میں کچھ تفصیل کے ساتھ احکام دیے، یا صرف اشارتاً اللہ تعالیٰ کی مرضی بیان کردی، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی صورتیں واضح حدود کے ساتھ متعین فرمائیں، ان پر خود کام کر کے دکھایا، اور اپنی رہنمائی میں ان کو رائج کیا___ کوئی صاحب ِ عقل آدمی اس میں شک نہیں کرسکتا کہ کتابی رہنمائی کے ساتھ یہ عملی رہنمائی بھی انسانوں کو درکار تھی، اور اس رہنمائی کے لیے اللہ کے رسولؐ کے سوا کوئی دوسرا نہ موزوں ہوسکتا تھا نہ مجاز۔
قربانی کا قرآن میں حکم اور حکمت
قرآن میں [قربانی کے] مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں،وہ یہ ہیں:
__ انسان غیراللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اس کے لیے نماز کی صورت مقرر کر دی۔
__ انسان غیراللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت ’زکوٰۃ‘ مقرر کر دی۔
__ انسان غیراللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا اور اس غرض کے لیے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔
__ انسان غیراللہ کے لیے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لیے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا۔
__ اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیراللہ کے لیے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیراللہ کے لیے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔
چنانچہ دیکھیے: ایک طرف قرآنِ مجید مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ۰ۚ[البقرہ ۲:۱۷۳] ’’جسے غیراللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ اور مَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ [المائدہ ۵:۳] ’’جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو‘‘ کو قطعی حرام قرار دیتا ہے، اور دوسری طرف حکم دیتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ O [الکوثر۱۰۸:۲] ’’اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھ اور اسی کے لیے قربانی کر‘‘۔
یہی تین وجوہ ہیں ، جن کی بنا پر قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام اُمتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ [الحج ۲۲:۳۴]اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری اُمتوں کے لیے تھا، اسی طرح شریعت محمدی میں اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۱۶۳ (الانعام۶:۱۶۲-۱۶۳) اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے مَیں سرِاطاعت جھکانے والا ہوں۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ[کوثر۱۰۸:۲]پس، اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
یہ حکمِ عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر یہ واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں؟ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا کیونکہ رسولؐ اس نے بلاضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔
[جولائی ۱۹۵۹ء]
سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر ہمیں تبلیغ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یا اگر علم تو ہو لیکن عمل نہ ہو، تو اس صورت میں بھی تبلیغ کا کوئی حق نہیں، مثلاً پینٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر تبلیغ کی جاتی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ کیا یہ خیال صحیح ہے؟
جواب :جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر کسی کو تبلیغ کا حق نہیں ہے، ان سے دریافت کیجیے کہ: پورے علم کی تعریف کیا ہے؟ اس کی حد کیا ہے؟ اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ پیمایش کیسے ہوگی کہ کسی کو پورا علم حاصل ہوگیا کہ نہیں؟ جن لوگوں کی عمریں قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے گزر گئی ہیں، وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انھیں پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو آدمی صحیح معنوں میں عالم ہوتا ہے، وہ مرتے دم تک طالب علم رہتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں یہ ہوا نہیں بھرتی کہ مَیں پورا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ ’پورا علم‘ حاصل کیے بغیر تبلیغ کرنا درست نہیں۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو بدوی آکر مسلمان ہوتے تھے اور پھر اپنے قبیلوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ کب پورے عالم بن کر جاتے تھے۔ بس دین کی بنیادی باتیں انھیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ وہ یہ جان لیتےتھے کہ حق کیاہے اور باطل کیا ہے؟ ہمارے فرائض کیا ہیں، کون کون سی چیزیں ہمارے لیے ممنوع ہیں، اور کن کن کی اجازت ہے؟ یہ باتیں وہ جان لیتے تھے اور جاکر لوگوں میں خدا کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور پورے پورے قبیلوں کو مسلمان بنا لیتے تھے۔
دوسرا سوال ہے عمل نہ ہوتے ہوئے تبلیغ کرنے کے متعلق___ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف بلانا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر شیطان کے راستے کے بجاے اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے اور اس کے اپنے عمل میں خامی ہے، تو اس کا اللہ کے راستے کی طرف بلانا تو غلط نہیں ہے۔ اسے اس کام سے نہ روکیے اور نہ اس پر اعتراضات کیجیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب ایک آدمی یہاں تک آپہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہے، انھیں بُرائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے سامنے حق پیش کرتا ہے، تو اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ عمل اس کی اپنی زندگی کو بھی درست کردے گا۔ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ خود ہر وقت اپنے عمل اور زندگی پر بھی نظر دوڑائے گا، اور آہستہ آہستہ اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اب جو آدمی خود بخود غلط سے صحیح راستے کی طرف آرہا ہے اگر آپ اسے بار بار ٹوکیں گے اور اس طرح اس کے واپس لوٹ جانے کا سبب بنیں گے، تو میرا خیال ہے کہ آپ خدا کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔ آپ کے اس طرح ٹوکنے کا نتیجہ یہی تو نکل سکتا ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف نہ بلائے، حق بات نہ کہے اور لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت نہ دے ۔ظاہر ہے کہ یہ نہایت غلط بات ہے۔ اگر اس کے عمل میں کوئی خرابی ہے تو، توقع کیجیے کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
حدیث میں آتا ہے کہ آں حضوؐر سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوریاں کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو،یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔ یہ تو ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ:کم بخت جب تو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی آخری اُمید بھی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو و ہ مبتلا ہے ہی، اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن آپ وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل؟‘ بلکہ یہ فرمایا: اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی یا چوری نماز چھڑا دے گی‘۔
بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اصلاح کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، لیکن اصلاح کے لیے جس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس کے ابتدائی تقاضوں سے بھی واقف نہیں ہوتے، اور بسااوقات اپنے غیرحکیمانہ طرزِعمل سے درست ہوتے ہوئے آدمیوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔
سوال : آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ ازراہِ احترام بعض لوگ ’صلعم‘ لکھ دیتے ہیں اور بعض جگہ صرف ’ ؐ‘ لکھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : ’صلعم‘ لکھنا تو صحیح نہیں اور آںحضوؐر کے نام کے ساتھ لکھنا نامناسب ہے۔ البتہ ’ ؐ‘لکھا جاسکتا ہے،لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل لکھا جائے۔
سوال : روزے کی حالت میں آدمی کسی شدید تکلیف میں مبتلا ہوجائے، تو کیا اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے؟
جواب : اگر تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجائے یا ڈاکٹر اسے بتا دے کہ جان جانے کا خطرہ ہے تو روزہ توڑنا جائز ہے۔
سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ایسی حالت میں انسان روزہ نہ توڑے اور جان دے دے، تو اس کا درجہ بلند ہوجاتا ہے؟
جواب : ایسا نہیں ہوتا، بلکہ شریعت کی رُو سے انسان گناہ گار قرار پاتا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں انسانی جان کے معاملے میں وہی معیار سامنے رکھنا چاہیے اور مومن کی زندگی کو وہی اہمیت دینی چاہیے، جو اسلام دیتا ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ جان پر آبنے یا تکلیف آپے سے باہر ہوجائے، تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال : ایک فرد جو ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے تو کیا اس کے لیے محصول چونگی کی ادایگی بھی ضروری ہے؟
جواب : محصول چونگی دراصل اس شہر کا حق ہوتا ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں۔ یہ ان مصارف کے لیے ہوتا ہے، جن کے ذریعے آپ کو متعدد سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس لیے اس کی ادایگی کرنی چاہیے۔ یہ درست نہیں ہے کہ آپ سہولتوں سے تو استفادہ کریں اور مصارف کی ذمہ داریوں سے بچیں۔
سوال : انسان کے دل میں بعض اوقات طرح طرح کے وسوسے آتے ہیں، ان میں سے بعض بہت بُرے ہوتے ہیں، کیا ان کی بنیاد پر گرفت ہوگی؟
جواب : وسوسہ جب تک دل میں اس طرح جم نہ جائے کہ اس کی بنیاد پر انسان کوئی غلط کام کربیٹھے، اس وقت تک نہیں پکڑا جائے گا۔
سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیّت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔
سوال : کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔
سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟
سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔
سوال : ’خمر‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟
جواب :خمر کے معنی عربی لغت میں ڈھانک لینے کے ہوتے ہیں۔ چوں کہ شراب انسانی عقل کو ڈھانک لیتی ہے، یعنی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے، اس لیے کہ یہ لفظ شراب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوال : تو کیا اس سے مراد صرف شراب ہے یا اس میں دوسرے نشے بھی آجاتے ہیں؟
جواب :خمر کے معنی تو شراب کے ہی ہیں مگر اس کی تشریح حضرت عمرؓ کے بقول یوں ہے کہ وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ [مسلم:۵۴۸۰] یعنی ’خمر‘وہ ہے جو عقل کو ڈھانک لے۔ گویا اس میں ساری نشہ آور چیزیں آگئیں، اور خمر کے معنی محض انگوری شراب تک محدود نہیں رہے۔ اسی طرح حدیث میں یہ آیا ہے کہ:[مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ،ابوداؤد:۳۲۱۴] ’’جس شے کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے‘‘۔ گویا اس سے بھی دوسری نشہ آور اشیا کے استعمال کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی، خواہ وہ قلیل مقدار میں استعمال کی جائیں یا کثیر مقدار میں۔
سوال : آج کل بعض لوگ ذہنی سکون کے لیے بعض مُسکّن ادویات استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کا دماغ Dull[کند] سا ہوجاتا ہے۔ ایسی مُسکن ادویات اگر زیادہ مقدار میں استعمال کی جائیں، تو انسان اپنے آپ کو اُونگھتا ہوا، drowsy [خواب آلودہ، نیم خوابیدہ] سا محسوس کرتا ہے۔ کیا ایسی چیزیں بھی نشے کی ذیل میں آتی ہیں؟
جواب :Dull ہونا اور چیز ہے، اور نشہ اور شے ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ نشے کی تعریف یہ ہے کہ انسان پر ایسی حالت یا کیفیت طاری ہوجائے کہ اسے اپنے ارادے پر اختیار نہ رہے اور اس کی قوتِ فیصلہ اور قوتِ تمیز ختم ہوجائے۔ لیکن وہ کیفیت جسے آپ Dull ہونا کہتے ہیں، وہ اور چیز ہے۔ ان دونوں کے فرق کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ: کوکین کے نشے میں مدہوش کوئی شخص اگر برسرِعام برہنہ بھی ہوجائے تو اسے احساس نہیں ہوتا کہ مَیں یہ کیا کر رہا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قوت تمیز ختم ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس Dull ذہن کے آدمی کو ایسی حالت میں اپنے ننگے ہونے کا احسا س ہوگا۔ پہلی حالت نشے کی ہے، لیکن دوسری نہیں۔
سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔
سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔
سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔
سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔
سوال : لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔
سوال : ’لیپاپوتی‘ اور ’لیپ پوت‘ میں کون سا لفظ صحیح ہے؟
جواب :دونوں صحیح ہیں۔ ’لیپاپوتی‘ بول چال کی زبان میں استعمال ہوتا ہے، لکھنے میں نہیں آتا، اور ’لیپ پوت‘ لکھنے میں آتا ہے۔
ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں:
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر تووہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانیت ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردّ و بدل نہ ہو۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ’رسائل و مسائل‘، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۶، مارچ ۱۹۵۹ء، ص۵۹-۶۰)
سوال : قرآن پاک میں آیا ہے کہ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا ’’یعنی اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘ ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اس میں کوئی exception [استثنا] نہیں ہے، مثلاً اگر آگ کی خاصیت جلانا ہے تو وہ ہر ایک کو جلائے گی۔ لیکن بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں بھی ہوتا، جیساکہ حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہے، اور ایسے ہی بعض دوسرے معجزات ہیں۔ توکیا معجزات کا صدور اس آیت کے خلاف نہیں پڑتا؟
جواب :لوگ دراصل context[سیاق و سباق] سے بات الگ کر کے اس کا مطلب نکالتے ہیں۔ وہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو قوم اللہ کے نبی ؑ کو آخرکار جھٹلا دیتی ہے، اللہ اسے تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اب اس خاص موقعے سے الگ کر کے اس آیت کا مطلب نکالا جائے گا تو صحیح مفہوم خبط ہوجائےگا۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی سنت کیا ہے اور کیا نہیں؟ اس کا تعین اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ آگ ہمیشہ اور ہرمقام پر جلانے ہی کا کام کرے گی؟ اس کی اس چھوٹی سی زمین میں جو ایک بہت بڑی لامحدود کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، یہ بات آپ کو نظر آتی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ اس پر آپ نے اسے اللہ کا قانون قرار دے لیا، کہ آگ جلاتی ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہوسکتا۔ آخرکار یہ معلوم کرنے کا آپ کے پاس کیا ذریعہ ہے کہ اللہ کا قانون یہی ہے؟
جہاں تک آگ کا جلانا ایک physical law [طبعی قانون] قرار دیا جاتا ہے تو اس ’فزیکل لا‘ کی حیثیت کائنات کے لامحدود حقائق کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے کہ وسیع سمندر کے مقابلے میں چندقطروں کی ہوتی ہے۔ جو حقائق آج آپ کو معلوم ہیں اور آپ انھیں ’فزیکل لا‘ قرار دیتے ہیں۔ جب تک وہ حقائق آپ کو معلوم نہیں تھے تو آپ کا وہ ’فزیکل لا‘ (طبعی قانون) بھی کوئی چیز نہیں تھا۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو پہلے انسان کو معلوم نہ تھیں توفزیکل لا نہ تھیں۔ سوسال پہلے اگر کوئی کہتا کہ ایک ایسی سواری ہےجو ہوا میں اُڑ سکتی ہے تو لوگ اسے کہتے کہ ’تو جھک مارتا ہے‘ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ چیز اس وقت تک کے معلوم حقائق کے مطابق ’فزیکل لا‘ کے خلاف تھی۔ ان کے نزدیک تو ’فزیکل لا‘ یہ تھا کہ جوچیز ہوا سے زیادہ بھاری ہو، وہ ہوا میں نہیں ٹھیرسکتی۔ لیکن اب یہی چیز علم کے ذریعے سامنے آگئی ہے تو یہ طبعی قانون بن گیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو مالک اور حاکم ہے، اگر اس کا قانون اسے باندھ دے اور وہ اپنے قانون میں کسی تبدیلی کا اختیار نہ رکھتا ہو، تو یہ چیز اس کی حاکمیت اور قدرت کے خلاف ہوگی۔
سوال : اقامت ِ دین اور تبلیغ کے فرق کے بارے میں وضاحت فرمایئے؟
جواب :تبلیغ بلاشبہہ مفید چیز ہے مگر اس سے وہ تمام حقوق پورے نہیں ہوجاتے جو فریضۂ اقامت ِ دین کی رُو سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ محض کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اگر آدمی، اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کہہ دے، مگر ارادہ ہرگز یہ نہ ہو کہ یہ باتیں عمل میں بھی آئیں تو یہ چیز لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ [تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ الصف ۶۱:۲] کے زمرے میں آئے گی۔
مثلاً ایک بستی میں ایک شخص چاہتا ہے کہ لوگ نماز پڑھیں، تو کیا وہاں اس کا فرض محض نماز کے لیے کہہ دینا ہی ہے؟ یا ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے یہ بھی اس کا فرض ہے کہ جو لوگ نماز پڑھنے پر آمادہ نظر آئیں، ان کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے، انھیں یک جا کرے اور فریضۂ نماز کی بجاآوری میں ان کی مدد کرے۔ پھر وہاں نماز پڑھنے کے لیے مسجد بنانے کی فکر کرے۔ ساتھ ہی اسے یہ فکر بھی ہو کہ وہاں وقت پر اذان دی جائے اور باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ یہ تمام چیزیں نماز کی تبلیغ کے لوازم ہیں۔ اب اگرکوئی شخص محض نماز کی تبلیغ کرکے بیٹھ رہے اور جب اس سے یہ کہا جائے کہ ان لوازم کے اہتمام کے لیے بھی آگے بڑھو، تو وہ کہے کہ یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب وہ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے کہتا ہے تو وہ تبلیغ نہیں کرتابلکہ محض ایک بات کہتا ہے جو کہنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔
اگر کوئی گروہ اقامت ِ صلوٰۃ کے لوازم پورے کرنے کے لیے کنواں کھودتا ہے تاکہ نمازیوں کو وضو کے لیے پانی میسر آسکے، مزدوروں کی طرح اینٹیں ڈھوتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر ہوسکے اور مبلغ یہ سب کچھ دیکھ کر کہے کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے کنواں کھودنے یا اینٹیں ڈھونے کے لیے تو نہیں کہا تھا، میں نے تو صرف نماز پڑھنے کو کہا تھا، تو ظاہر بات ہے کہ ایسا کہنے والا تبلیغ کے تقاضوں اور فریضۂ اقامت ِ دین کے حقیقی مفہوم ہی سے ناآشنا ہے۔
سوال : بھارت میں مسلمان جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں، اس سے وہاں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ذہن میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
جواب :بھارت میں اس وقت جو مسلمان موجود ہیں، انھیں ملک نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ وہاں رہ کر کام کرناچاہیے۔ میں نے ہندستان کے آخری اجتماع میں بھی کہا تھا کہ جب تک کوئی سخت مجبوری لاحق نہ ہو ، کسی کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خود ہم نے پٹھان کوٹ میں فیصلہ کیا تھا کہ ڈٹ کر بیٹھیں گے، لیکن جب وہاں کی اور دُوردُور تک کی ساری آبادیاں مسلمانوں سے خالی کرا لی گئیں تو مجبوراً لاہور آنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بھارتی مسلمان صبر کے ساتھ رہیں اور اپنے رویے کو درست رکھیں۔ ان شاء اللہ حالات آج نہیں تو کل تبدیل ہوں گے۔ ہندوئوں کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے نظریات کا علاج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ دراصل پہلے انگریز دشمنی اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر ہندو قوم کا تشخص برقرار تھا۔ اب صرف مسلمان دشمنی باقی رہ گئی ہے۔ مسلمان دشمنی کے سوا ان کے پاس کھڑے رہنے کے لیے کوئی پائوں نہیں ہیں۔یہ پائوں اگر آپ نے کاٹ دیے تو پھر وہ ٹھیر نہیں سکیں گے۔ ہندو کا مقابلہ اگر آپ مسلمان قوم پرستی کے ذریعے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوئوں میں آپ کو ’مسلمانوں کے مطالبات‘ کے بجاے ’اسلام کے مطالبات‘ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورتِ حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آیندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہندوئوں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ خود ہندو اس صورتِ حال سے بیزار ہوجائیں گے۔
سوال : ہندوئوں کے قومی تشخص کو، ہندو لیڈر مسلمان دشمنی کو ہوا دے کر برقرار رکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوئوں کا مذہب ان کے قومی تشخص کے لیے کافی نہیں ہے؟
جواب :ہندوئوں کی کوئی ایسی کتاب یا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر سب ہندو متفق ہوں۔ ۱۸۸۱ء میں جب مردم شماری ہوئی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ہندو کس کو قرار دیا جائے؟ کیوں کہ کسی کا کچھ عقیدہ تھا اور کسی کا کچھ۔ آخر یہ طے پایا کہ جس کا مذہب ہندستان سے متعلق ہو اور جو گائے کو مقدس مانے وہ ہندو ہے۔ ان کی کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں جس پر یہ سب متفق ہوں۔ دیوتا بھی ایک نہیں، بلکہ کروڑوں ہیں۔ ان کے لٹریچر میں اپنے گروہ کے لیے کوئی نام بھی نہیں ہے، جس سے انھیں پکارا جائے۔ ہم برصغیر میں آئے اور انھیں ہندو کہنا شروع کیا تو ان کا نام ہندو پڑگیا۔
سوال : اسلام میںجہیز کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب :جہیز کا دینا ناجائز نہیں، مگر آج کل اس کو جو شکل دے دی گئی ہے، وہ بُری ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہیز کے بارے میں مجبور نہیں کیا۔ اگر کوئی جہیز نہ بھی ہو، تو بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ دراصل ایک مسلمان معاشرے میں عدم توازن اس لیے پیداہوتا ہے کہ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کا حکم نہیں دیا، لوگ وہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’کرنا پڑتا ہے؟‘‘۔ لیکن جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، انھیں نظرانداز کردیتے ہیں، مثلاً میراث کے جو حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں، انھیں ادا نہیں کرتے۔ ایسا طرزِعمل کبھی مفید ثابت نہیں ہوتا۔
سوال : کیا یہ درست ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد جہاد کی تیاری ہے؟
جواب :نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہے۔ جہاد بھی اللہ کی عبادت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نماز، روزہ انسان کو جہاد کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔ حُسنِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کی جانے والی ایک نیکی اور عبادت مسلمان کو دوسری نیکی اور عبادت کے لیے تیار کرتی ہے۔
سوال : کیا نماز روزے سے نفس کی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے؟
جواب :مسلمان کی نماز تو اسے یہی حکم دیتی ہے کہ وہ بُرائی سے بچے۔ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر نماز پڑھے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بلاسوچے یا نماز کے مقصد کو نظرانداز کرکے پڑھے گا تو پھر نماز پڑھ کر رشوت لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ اگر رشوت لینے والا نماز پڑھے گا اور سمجھے گا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو یہ خیال کرکے کہ مَیں تو حرام کھا رہا ہوں، وہ رشوت کے قریب بھی نہیں جائے گا۔
سوال : کیا نماز اقامت ِ دین کا حکم بھی دیتی ہے؟
جواب :نماز ہی تو حکم دیتی ہے اقامت ِدین کا۔ جب آپ [نماز میں دعاے قنوت پڑھتے ہوئے]کہتے ہیں: نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ’’ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے اور اس سے تعلق کاٹ دیں گے جو تیرا نافرمان ہو‘‘۔ تو دشمنانِ دین سے آپ کی لڑائی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سوال : ہوٹلوں میں بیروں کو دی جانے والی ٹپ کی شرعی نوعیت کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ٹپ کیا رشوت کی تعریف میں آتی ہے؟
جواب :ٹپ کا اب عام رواج ہوگیا ہے، لیکن اس کی نوعیت وہ نہیں ہے جو رشوت کی ہے۔ ٹپ اگر آپ نہ بھی دیں تب بھی بیرا چائے لائے گا۔ وہ ٹپ کے لیے آپ پر کوئی جبر نہیں کرسکتا، اور نہ آپ کا کوئی حق سلب کرسکتا ہے، نہ آپ کے کسی حق سے انکار کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتی ہے۔ رشوت یہ اس وقت ہوگی جب بیرا آپ کو اس ٹپ کے بدلے میں کوئی زائد شے لا کر دے، مثلاً وہ دو پیالی کے بجاے ٹپ کے لالچ میں آپ کو تین پیالی لادے اور مالک کو رقم دوپیالیوں ہی کی ملے۔ یہ چیز رشوت ہوگی اور اسی لیے حرام ہوگی۔
سوال : تقلید اور عدمِ تقلید کی اصل نوعیت کیا ہے؟
جواب :جب کوئی محقق یا عالم کسی معاملے میں تحقیق کرنے بیٹھتا ہے تو درحقیقت وہ تقلید نہیں کرتا بلکہ عملاً وہ غیرمقلّد ہوتا ہے۔ اگر آدمی یہ قسم کھا کر تحقیق کرنے بیٹھے کہ مَیں اپنی تحقیق میں اسی نتیجے پر پہنچوں گا جو کسی خاص امام کا ہے، تو ایسی تحقیق بے کار ہے۔ تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہوکر بیٹھے اور پھر ایمان داری کے ساتھ تحقیق کرے کہ اس مسئلے کے بارے میں کسی امام کا مسلک کس حد تک اور کتنا کچھ وزن رکھتا ہے؟
سوال : مولانا، کیا خیروشر کی قوتیں انسان کے باہر ہی سے اثرانداز ہوتی ہیں، یا یہ انسان کے اندر بھی موجود ہوتی ہیں؟
جواب :یہ قوتیں اندر بھی موجود ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ اگر یہ انسان کے اندر نہ ہوں تو باہر کی طاقتیں ان سے کیسے ربط قائم کرسکتی ہیں۔ اندر وہ قوتیں موجود ہوتی ہیں، جبھی تو وہ بیرونی قوتوں کو متاثر کرتی ہیں۔
سوال : ہم شیطان کی اثراندازی کا احساس کس طرح کرسکتے ہیں؟
جواب :جب انسان اپنے اندر بُرائی کی اُکساہٹ محسوس کر رہا ہو تو سمجھ لے کہ شیطان بُرائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس پر اسے چوکنا ہوجانا چاہیے۔
سوال : کیا عیسائیوں کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اجازت ہے؟
جواب :یہ تو قرآن مجید ہی میں آیا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر کھایا پیا جاسکتا ہے۔ بس اس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز ہو تو اُسے استعمال نہ کیا جائے۔
سوال : اگر کوئی مسلمان ریسرچ کو اپنا فریضہ بنا لے تو یہ کہاں تک درست ہے؟
جواب :دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ریسرچ کس غرض کے لیے کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ ریسرچ براے ریسرچ تو بے معنی ہے۔ ہر ریسرچ کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ چاہے وہ مقصد روپیہ کمانا ہو یا شہرت حاصل کرنا، یا قومی سربلندی کا مظاہرہ کرنا۔ ریسرچ براے ریسرچ کبھی نہیں ہوا کرتی۔ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے ، اگر کوئی مسلمان اس مقصد کو سامنے رکھ کر ریسرچ کرے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو یہ ایک مفید چیزہے۔
سوال : مولانا، لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد میں کیا خصوصیات ہیں؟
جواب :لاہور کی جامع مسجد بہت بڑی ہے، جب کہ دہلی کی جامع مسجد حُسن اور خوب صورتی میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہوتے ہوئے جو گنبد سا ہے، اس کے نیچے کھڑے ہوکر اُوپر دیکھیں تو قرآنِ پاک کی آیات یکساں خط میں لکھی نظر آتی ہیں۔ حالاں کہ عبارت شروع ہونے کے مقام سے انتہائی بلندی تک پہنچتے پہنچتے ابتدائی اور آخری خط کی موٹائی میں ایک اور سولہ کی نسبت ہوجاتی ہے۔ لکھنے والے کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلندی کی طرف جاتے ہوئے خط کی موٹائی میں اس تناسب کے ساتھ اضافہ کیا ہے کہ نیچے سے پڑھنے والے کو خط بالکل یکساں جلی معلوم ہوتا ہے۔
سوال : بنک کے ملازم کی تنخواہ میں سود شامل ہوتا ہے، اسی لیے اُسے ناجائز ٹھیرایا گیا ہے، لیکن ایک عام سرکاری ملازم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں بھی سود کی رقم شامل رہتی ہے، تو یہ کیوں کر جائز ہے؟
جواب :بنک کے ملازم کو ملنے والی تنخواہ تمام تر سود پر مشتمل ہوتی ہے ،جب کہ سرکاری ملازم کی کُل تنخواہ میں محض ایک حصہ سود کا ہوتا ہے۔ لیکن دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ بنک کا ملازم براہِ راست سودی کام کرتا ہے، جب کہ کوئی عام سرکاری ملازم سود سے براہِ راست متعلق کوئی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا۔ اسی لیے بنک کی ملازمت اور عام ملازمت ایک درجے میں نہیں ہے۔
قریب ترین رشتہ داروں کے حق [وراثت] ادا ہوچکنے کے بعد، یا ان کی غیرموجودگی میں حقِ میراث ان قریب تر جدی رشتہ داروں کو پہنچے گا، جو ایک آدمی کے فطرتاً پشتی بان اور حامی و ناصر ہوتے ہیں۔ یہی معنی ہیں ’عصبات‘ کے ، یعنی آدمی کے وہ اہلِ خاندان جو اس کے لیے تعصب کرنے والے ہوں۔ اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر یہ حق ’ذوی الارحام‘ (رحمی رشتہ داروں،مثلاً: ماموں، نانا، بھانجے اور بیٹی یا پوتی کی اولاد) کو دیا جائے گا۔ یہاں بھی نہ تو قائم مقامی کا اصول کام کرتا ہے اور نہ یہ اصول کہ جو محتاج اور قابلِ رحم ہو اس کو میراث دی جائے، بلکہ قرآن کے بتائے ہوئے چاراصول اس معاملے میں کارفرما ہیں:
یہ ہیں تقسیمِ میراث کے اسلامی اصول، جن کو سمجھنے میں کوئی ایسا شخص غلطی نہیں کرسکتا، جس نے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو اور اس کے مضمرات پر غور کیا ہو۔ (’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۴، جنوری ۱۹۵۹ء، ص۳۴-۳۵)
جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔
تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔
۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔
حج سے فارغ ہوتے ہی مدینے جانے کے لیے دل میں ایک بے چینی پیدا ہوچکی تھی۔ روانہ ہونے سے مدینہ پہنچنے تک جذبات کا عجیب حال رہا، اور خصوصاً جس مقام سے گنبد ِ خضرا نظر آنا شروع ہوجاتاہے، وہاں تو جذبات کاوفور اختیار سے باہر ہوجاتا ہے۔
مجھے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد ِ نبویؐ میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزارِ پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔
صرف مسجد نبویؐ کو مقصودِ سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مزارِ مبارک نہ ہوتا، تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصیٰ کی بھی بہت ہیں، مگروہاں کتنے لوگ جاتے ہیں؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔ وہاں آں حضوؐر کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضوؐر کا مزارِمبارک بھی ہے۔
جس حدیث سے امام ابن تیمیہؒ نے استدلال کیا ہے، اس کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو انھوں نے سمجھا۔ بلاشبہہ آں حضوؐر نے فرمایا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ہے۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ: ’دُنیا میں کوئی سفر جائز نہیں سواے ان تین مسجدوں کے‘ اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ: ’تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں ہے کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے‘۔
اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی، دُنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا، خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو، اور ظاہر ہے کہ اس معنی کا کوئی قائل نہیں، خود ابن تیمیہؒ بھی اس کے قائل نہیں تھے۔
اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے، غیرمساجد سے نہیں۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبویؐ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے، لیکن دُنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کر کے وہاں جائے۔ لیکن اس کو خواہ مخواہ زیارتِ قبرِ رسولؐ پر لے جاکر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں۔
مدینہ پہنچ کر مسجد نبویؐ میں حاضری دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخینؓ کے مزارات کی زیارت کی۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجدحرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرمِ نبویؐ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔
مسجد نبویؐ اب جدید توسیع کے بعد بہت شان دار اور نہایت خوب صورت بن گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں۔ اصل مسجد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں، اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی۔
چہارشنبہ، ۴ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح کو مدینہ منورہ کا سفر شروع ہوا۔ مغرب کے بعد موٹر چلتی رہی۔ یہ راستہ کویت اور ریاض کے درمیانی راستے سے اچھا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس راہ میں پانی جابجا ملتاہے۔ عاجز صحرا کے سفر کا خاصا عادی ہوچکا ہے۔ کھانسی کی تکلیف نہ ہوتی تو یہ سفر ایک گونہ دل چسپ اور نشاط انگیز ہوتا۔ قلب و روح کی حد تک تو اب بھی نشاط انگیز ہے۔ مدینے کی قربت خود بخود مُردہ جسم میں جان ڈال رہی ہے۔ سانس کی تکلیف کے باوجود گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ رات مفرق کے مقام پر بسر ہوئی۔
جمعرات ، ۵ محرم ۱۳۶۹ھ ، ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۹ء: صبح ہوئی ، قافلہ روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کی قربت طبیعت کو اُکسانے لگی۔ ابھی تین چار گھنٹے کی مسافت باقی ہے، لیکن دل ابھی سے لرزنے لگا ہے۔ مدتیں گزریں، زمانہ بیت گیا، مدینے کی حاضری کا شوق دل میں چٹکیاں لیتا رہا۔ بارہا فرطِ شوق میں آسی غازی پوری کا یہ پُرکیف مطلع پڑھتا رہا ہوں:
صبا تو جا کے یہ کہنا مرے سلام کے بعد
کہ تیرے نام کی رَٹ ہے خدا کے نام کے بعد
وہ کیا ساعت ہوگی جب یہ گنہگار، رُو بہ رُو حضرت عالیؐ میں سلام عرض کرے گا۔ جب کبھی یہ خیال آتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، درود پڑھتا اور اُردو، عربی کے مناسب حال شعر زبان پر جاری ہوجاتے۔
کچھ دیر کے لیے مسیجید کے اسٹیشن پر موٹر رکی، پھر قافلہ آگے روانہ ہوا۔ اب یہ گنہگار ہمہ تن شوق ہے۔ ’وہابیت‘ کی خشکی کے باوجود دل پسیج رہا ہے۔ جانے ان راستوں پر حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گزر ہوا ہو۔موٹر نہ ہوتی تو گردِ راہ سے پوچھتا، شایدنقش پا کے کھوئے ہوئے اثرات کا سراغ لگتا۔ شاعر کی زبان میں محبوب کے گزرنے سے تمام وادی نعمان معطر ہوگئی تھی تو کیا سرورِ عالم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی گزرگاہ میں ہوائیں مشک آفریں اور عنبربیز پسینے کی خوش بُو سے خالی ہوں گی؟ مدینہ پاک کی سرزمین قریب ہوتی جارہی ہے اور خاکسار کھانسی کے حملوں سے چور کھویا ہوا،گنگناتا اور درود پڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اتنے میں شور ہوا، ’ذوالحلیفہ آگیا‘۔ سن کر دل بَلّیوں اُچھلنے لگا۔ یہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے۔ یہاں سے مدینہ چار پانچ میل سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے جانثار ساتھیوں نے یہیں سے حج کا احرام باندھا ہوگا۔ جی چاہا غسل کر کے کپڑے بدل لیے جائیں اور یہاں سے پیدل چلیں۔ عرصے سے تمنا تھی کہ مدینہ پاپیادہ داخل ہوں۔ امام مالکؒ مدینہ منورہ میں سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ کہتے: ’’جہاں رسولِ کریم ؐکی قبر ہے،اس زمین کو کسی جانور کے ٹاپوں سے روندنا حرام سمجھتا ہوں‘‘۔عربی کا ایک دل آویز شعر بڑے ذوق و شوق سے پڑھا کرتا تھا:
وَاِذَا الْمَطِیُّ بِنَا بَلَغْنَ مُحَمَّدًا
فَظُھُورُھُنَّ عَلَی الرِّجَالِ حَرَامٗ
[جب سواریاں ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے کر پہنچیں گی تو اس وقت ان کی پیٹھیں مسافروں پر حرام ہوں گی، یعنی وہ اب پیدل چلنے لگتے ہیں، اور سواریاں چھوڑ دیتے ہیں۔]
مگر جب اس تمنا کے پورا ہونے کا وقت آیا تو مرض نے بے بس کر دیا۔ واے ناکامی! عاصم [الحداد] صاحب سے راے طلب کی کہ صرف کپڑے ہی بدل لیے جائیں؟ گردوغبار کی وجہ سے ان کی راے نہ ہوئی۔ آخر صبر کر کے بیٹھ رہا۔ لیکن دل کے اندر سے ایک آواز آرہی تھی:
نگاہیں فرشِ راہ ہوں، حمیدؔ سر کے بل چلو
ادب! ادب! یہ کوچۂ حبیب کردگار ہے
مگر سنے کون؟ مسعود و بے نوا تو [دمے اور]کھانسی سے چُور، قہوہ خانے میں بیٹھا اپنے ساتھیوں کو اُمیدبھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایک قہوہ خانے میں چائے پی اور پہلی بار مدینہ کے انگور کھائے۔ انگور اچھے اور لذیذ تھے، شوقِ محبت نے انھیں اور لذیذ بنا دیا۔
ذوالحلیفہ سے قافلہ آگے بڑھا۔ ڈرائیور نے کچھ دیر کے بعد پکارا: ’وہ دیکھو!‘ نگاہیں اُٹھ گئیں اور دیدئہ نم نے دھندلی عمارتوں کو سلام کیا۔ جوں جوں منزل قریب ہوتی گئی، تحیر اور ذہول کی حالت طاری ہونا شروع ہوئی۔درود و سلام کے علاوہ ابن جبیر اندلس کے مشہور قصیدے کے اشعار ورد زبان تھے۔آخر مدینے کی چار دیواری میں داخل ہوئے۔
پہلا مرحلہ مسجد نبویؐ میں حاضری کا تھا۔ [عبدالعزیز] شرقی صاحب نے گرم پانی کا انتظام کرایا۔ ہم لوگوں نے غسل کیا، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اورشرقی صاحب کی رہنمائی میں حرم پہنچے۔ دو منٹ کی بھی راہ نہیں ہوگی۔ دروازے پر پہنچے تو مکہ مکرمہ کی خشونت اور مسجد ِحرام کی سادگی کے برعکس ساری فضا لطیف اور مسجد عروس المساجد معلوم ہوئی۔ جدھر نظر اُٹھے خطاطی اور فن کاری کے بہترین نمونے نظر آئیں۔ لیکن اس وقت خطاطی اور فن کاری پر نگاہ ڈالنے کی کسے فرصت؟ ایک مرعوبیت اور تاثیر کے عالم میں روضہ میں تحیۃ المسجد ادا کی۔ ہجوم اور شور میں دلِ پُرشوق کیا کہے۔ نماز کے بعد شباکِ نبوی (جسے عام طور پر مواجہہ شریفہ کہتے ہیں) کے پاس مؤدبانہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے۔ سلف کے معمول کے مطابق اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود پڑھ کر آگے بڑھا اور شیخینؓ کی قبروں کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَبَـابَکرِ یَاخَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہ ِ اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَیُّھَا الْفَارُوْقُ یَاعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کہتا ہوا آگے بڑھ کر ایک طرف قبلہ رُخ کھڑا ہوگیا اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے حسب ِ توفیق دُعا کی۔
چہارشنبہ، ۲۵محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۶؍نومبر ۱۹۴۹ء: ارادہ سفر کا ہے، مدینہ منورہ میں بیس دن ہوگئے، پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ابھی اس سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ در و دیوار سے انس و محبت کی خوشبو آتی ہے اور جب کبھی دُور سے سبزگنبد کی طرف نگاہ اُٹھ جاتی ہے، دل دھڑکنے لگتا ہے۔ بس میں ہوتا تو اس دَر کی جاروب کشی کرتا۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس دیارِ محبت و اُلفت میں رہتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں:
خاک طیبہ از دوعالم خوش تر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست
[طیبہ کی خاک دونوں جہانوںسے بہتر ہے۔ اے پیارے شہر (مدینہ) تو کتنا اچھا ہے کہ یہاں محبوب ہے]
جمعہ ۲۷محرم ۱۳۶۹ھ ، ۱۸؍نومبر ۱۹۴۹ء: معلّم صاحب نے بھی نماز کے بعد فوراً تیار ہوجانے کا حکم دیا، پر اس دیارِ محبت سے جانے کو جی نہیں چاہتا۔ سردی کا موسم سر پر نہ ہوتا تو غالباً دوچار مہینے کا عزم ضرور ہی کرلیتا، مگر آج نماز کے بعد جی کڑا کر کے رخت ِ سفر باندھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور پھر اپنے محبوب کے محبوب شہر میں رہنے اور دن گزارنے کی توفیق اور موقع عنایت فرمائے۔ سفر کی تیاریاں ہیں مگر مدینۃ الرسول کا پُرمحبت ماحول اپنی طرف رہ رہ کر کھینچتا ہے۔ مدینہ کی بہار، سدابہار ہے۔ آخر کیوں نہیں؟___ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر، محبوب اور دل نواز نہ ہو تو پھر کون سی جگہ دل نواز اور روح پرور ہوگی؟ جانے کو جارہا ہوں، پر دیدۂ دل میں مدینہ ہی مدینہ بسا ہوا ہے:
نظر نظر پہ چھا گئی ، دلوں میں یہ سما گئی
مدینہ کی بہار کیا ، بہار در بہار ہے
نمازِ جمعہ سے کچھ پہلے ہی حرم آیا۔ ’روضہ‘ تو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جمعہ کی تقریب سے نمازی بہت پہلے آگئے تھے اور ہر طرف تلاوتِ قرآن کی ہلکی، مگر سامع نواز گونج سنائی دیتی تھی۔ عاجز نے ایک کنارے تحیۃ المسجد ادا کی۔ دل متاثر تھا۔ شاید اس حسین و جمیل اور مقدس مسجد میں آخری تحیہ ہو۔ پھر کشاں کشاں بارگاہِ نبوتؐ کی طرف گیا۔ اپنی جرأت پر نازاں اور بادشاہوں کے درباروں میں بے محابا جانے والا، یہاں ششدر اور مبہوت تھا۔ کیا کہے اور کیا عرض کرے؟ قدم حدودِ نبوت سے آگے بڑھنے نہ پائے، ادب و وقار کا دامن بھی ہاتھ میں رہے۔ ایک گنہگار و شرم سار اپنے آقا و مولا اور ساری انسانیت کے محسنِ اعظم (محمد سیّدالکونین من عرب و من عجم) کے حضور کھڑا کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ ، وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ سے زیادہ نہ کہہ سکی۔ بڑی ہمت کی تو ماثور درُود پڑھ کر آگے بڑھ گیااور شیخین رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا ہوا ایک کنارے قبلہ رُخ ہوکر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض مدعا کی: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ بِمَسْجِدِ نَبِیِّکَ ’’اے اللہ، اس دیارِ شوق و محبت میں پھر آنے کی توفیق عطا ہو۔ اس پاک سرزمین میں بار بار آنا نصیب ہو!‘‘
آخر وہ گھڑی آگئی۔ عصر کے بہت بعد موٹر روانہ ہوئی۔ یوں تو دل دیر سے لرزاں اور تراساں تھا، مگر جب گاڑی حرکت میں آئی تو عجب حال ہوا۔ نگاہ سبزگنبد کی طرف جمی ہوئی اور زبان پر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد۔ایک حسرت کے ساتھ سارے ماحول پر نظر ڈال رہا تھا۔ اس شہر خوباں میں بائیس دن ہوگئے، مگر ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ جوں جوں موٹر آگے بڑھتی جاتی، پلٹ پلٹ کر نگاہیں ڈالتا،تاآنکہ وہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور یہ گنہگار دیر تک ایک ذہول کے عالم میں اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ ھٰذَا آخِرَ عَھْدِیْ اِلٰی بَیْتِ رَسُولِکَ کا ورد کرتا رہا۔
طور کی چوٹیاں جن کی تجلیاتِ جمال کی جلوہ گاہ بننے لگیں تو پاکوں کے پاک اور دلبروں کے دلبر موسٰی کلیم تک تاب نہ لاسکے اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ معراج کی شب جب کسی کا جمال بے نقاب ہونے لگا، تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت وہ عبدکاملؐ جو فرشتوں سے بھی بڑھ کر مضبوط دل اور قوی ارادے کا پیدا کیا گیا تھا، اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا، اور ضرورت ہوئی کہ رفیق غارؓکا مثل سامنے لاکر آب و گل کے بنے ہوئے پیکرنورانی کی تسلی کا سامان کیا جائے ۔ یہ سرگزشت ان کی تھی، جو قدسیوں سے بڑھ کر پاک اور نُورانیوں سے بڑھ کر لطیف تھے۔ پھر وہ مشت ِ خاک جو ہمہ کثافت اور ہمہ غلاظت ہو، جس کا ظاہر بھی گندا اور باطن بھی گندا، اگر رسولؐ کی مسجد اَقدس میں قدم رکھتے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کا قدم رسولؐ کے روضۂ اَنور کی طرف بڑھتے ہوئے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں جواب دینے سے جواب دے رہی ہو، اگر اس کا دل اس وقت اپنی بے چارگی اور درماندگی کے احساس سے پانی پانی ہوا جا رہا ہو، تو اس پر حیرت کیوں کیجیے؟ خلافِ توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ و آوارہ، بے چارہ و درماندہ کے اس حالِ زار کی ہنسی کیوں اُڑایئے؟
مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی۔ دھڑکتا ہوا دل کچھ تھما،اور ڈگمگاتے ہوئے پیر کسی قدر سنبھلے۔ ادھر اذان کی آواز ختم ہوئی، ادھر قدم دروازے سے باہر نکالے، مکان کے جس سے بابِ جبریل اگر چند فٹ نہیں تو چند گز پر ہے، اتنا فاصلہ بھی خدا معلوم کے منٹ میں طے ہوا۔ اس وقت نہ وقت کا احساس ،نہ فاصلے کا ادراک، نہ زمان کی خبر، نہ مکان کی۔
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے کھول دے اور اپنے رسولؐ کی زیارت مجھے نصیب کر جیسی کہ تُو نے اپنے اولیا کو نصیب کی، اور اے ارحم الراحمین، میری مغفرت کردے اور میرے اُوپر رحم فرما۔
لیکن پہلی مرتبہ قدم رکھتے وقت ہوش و حواس ہی کب درست تھے جو یہ دُعا یا کوئی اور دُعا قصدو ارادہ کر کے پڑھی جاتی۔ ایک بے خبری اور نیم بے ہوشی کے عالم میں درود شریف کے الفاظ تو محض بلاقصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتے رہے، باقی بس۔ ہوش آیا تو دیکھا کہ نماز کو شروع ہوئے دوچار منٹ ہوچکے ہیں اور امام پہلی رکعت کی قرأت ختم کر کے رکوع میں جارہے ہیں۔ جھپٹ کر جماعت میں شرکت کی ، اور جوں توں کر کے نماز ختم کی۔ یہ پہلی نماز وہاں ادا ہورہی ہے جہاں کی ایک ایک نماز پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اللہ اللہ شان کریمی اور بندہ نوازی کے حوصلے دیکھنا! کس کو کیا کیا مرتبے عطا ہورہے ہیں:
وقت نمازِ مغر ب کا تھا اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر پڑھی جاتی ہے۔ لیکن جس کی نصیبہ دری کا آفتاب عین اسی وقت طلوع ہو رہا ہو ، جس کی سربلندیوں اور سرفرازیوں کی ’فجر‘ عین اسی وقت ہورہی ہو،کیاوہ بھی اس وقت کو مغرب ہی کا وقت کہتا اور سمجھتا رہے! لیجیے نماز ختم ہوگئی۔ فرض ختم ہوگئے اور روضۂ اطہر کے دروازے پر ہر طرف سے صلوٰۃ و سلام کی آوازیں آنے لگیں، جس پر اللہ خود درود بھیجے، اللہ کے فرشتے درود بھیجتے رہیں، اس کے آستانے پر بندوں کے صلوٰۃ و سلام کی کیا کمی ہوسکتی ہے؟
جسے دیکھیے مواجہ شریف [روضۂ رسولؐ کے سامنے کے حصے]کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ اس وقت رُخ قبلہ کی جانب نہیں، پتھر سے تعمیر کیے ہوئے کعبہ کی جانب نہیں بلکہ اس کے دَرِ اَقدس کی جانب ہے، جو دلوں کا کعبہ اور روحوں کا قبلہ ہے،کسی کا نالہ جگرگداز، کسی کے لب پر آہ و فریاد، ہرشخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، ہرمتنفس اپنے اپنے کیف میں سرشار، گنہ گاروں اور خطاکاروں کی آج بن آئی ہے، آستانۂ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی ہے:
سجدوں سے اور بڑھتی ہے رفعت جبیں کی
یہاں بھی نہ پائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ آج بھی نہ گڑگڑائیں گے تو کدھر سر ٹکرائیں گے: وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ ……(النساء۴:۶۴) [اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کربیٹھے تھے تو تمھارے پاس آجاتے…] وعدہ پورا ہونے کے لیے ہے۔ محض لفظ ہی لفظ نہیں ہیں۔
ادھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے، رند و پارسا، فاسق و متقی، سبھی اس دُھن میں لگے ہوئے ہیں، ادھر ایک ننگ ِ اُمت حیران و ششدر ، فرطِ مہیب و جلال سے گنگ و مضطر، حواس باختہ ، چپ چاپ سب سے الگ کھڑا ہوا ہے۔ نہ زبان پر کوئی دُعا ہے اور نہ دل میں کوئی آرزو۔سر سے پیر تک ایک عالمِ حیرت طاری، یاالٰہی! یہ خواب ہے یا بیداری؟ کہاں ایک مشت خاک، کہاں یہ عالم پاک، جل جلالہ جہاں ابوبکرؓ و علیؓ آتے ہوئے تھراتے ہوں، جہاں عمرؓ آواز سے بولتے ہوئے لرزتے ہوں، جہاں کی حضوری جبریل ؑ کے لیے باعث ِ فخر اور شرف کا سبب ہو، آج وہاں عبدالقادردریا بادی کا فرزند عبدالماجد اپنے گندا دل اور گندا تر قلب کے ساتھ بے تکلف اور بلاجھجک کھڑا ہوا ہے۔ دماغ حیران، عقل دنگ، زبان گنگ، ناطقہ انگشت بدنداں۔ نہ زبان یاوری کرتی ہے، نہ لب کسی عرض معروض پر کھلتے ہیں۔نہ دُعائوں کے الفاظ یاد پڑتے ہیں، نہ کسی نعت گو کی نعت خیال میں آتی ہے۔ چلتے وقت دل میں کیا ولولے اور کیسے کیسے حوصلے تھے! لیکن اس وقت سارے منصوبے یک قلم غلط، سارے حوصلے اور ولولے یک لخت غائب۔ لے دے کے جو کچھ یاد پڑ رہا ہے وہ محض کلامِ مجید کی بعض سورتیں ہیں، یا پھر وہی عام و معروف درود شریف، اور زبان ہے کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر غوروفکر کیے انھی الفاظ کو رَٹے ہوئے سبق کی طرح اضطراراً دُہرائے چلی جارہی ہے۔
اب ہم بالاخانہ سے اُتر کر نیچے آچکے ہیں۔ ہماری معلّمہ کا مزدور ہمارے ساتھ ہے۔ قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھر ی ہوئی ہے، کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے؟ اے آلودۂ گناہ، اے سرتا بقدم معصیت، اے غفلت شعار، ان کے حضور جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس انھی کو سزاوار ہے، کس منہ سے روضۂ اَقدس کے سامنے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ کہے گا۔اس زبان نے کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں، ان لبوں کو کتنی بُری بُری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے، ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام، اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے؟
ان کی اطاعت سے کس کس طرح گریز کیا ہے، ان کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے، ان کے اسوئہ حسنہ سے تیری زندگی کی کوئی دُور کی بھی نسبت رہی ہے!
کیسے ہی نافرمان اور بلاتوفیق سہی مگر نام لیوا تو انھی کے ہیں۔ کلمہ تو انھی کاپڑھتے ہیں۔ درود تو آپؐ ہی پر بھیجتے ہیں۔ ہم لاکھ کم ظرف اور نالائق سہی ، لیکن جن کے ہم غلام ہیں وہ تو سب کچھ ہیں۔ جس نے خون کے پیاسے دشمنوں کو معافی دے دی، اس کی وسعت ظرف، مروت، عفو وکرم اور درگزر کی بھلا کوئی حد و نہایت ہے؟ مدینہ کی طرف اپنے کو متقی، نیکوکار اور پرہیزگار سمجھ کر ہم کب چلے تھے؟ اور اپنی پارسائی کا دعویٰ کسے ہے؟ یہاں تو بھاگے ہوئے غلاموں کی طرح حاضر ہوئے ہیں۔ ایک ایک آنسو کی بوند میں پشیمانی اور ندامت کے طوفان بند ہیں۔
اسی عالم خیال و تصور میں باب السلام سے داخل ہوئے اور مسجد نبویؐ میں جاپہنچے۔ یہ سروقامت ستون، یہ مصفا جھاڑ فانوس، یہ نظرافروز نقش و نگار،ایک ایک چیز آنکھوں میں کھبی جارہی ہے۔ اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی، جیسے مسجد نبویؐ کے دَر و دیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں:
دامان نگہ تنگ و گل حُسن تو بسیار
گل چین بہار توز داماں گلہ دارد
[نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حُسن کے پھول بے شمار ہیں۔ تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے]
کی معنویت آج سمجھ میں آئی۔ تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے اَنوار کا کیا پوچھنا، یہ آفتاب جہاں تاب بے چارہ اس جلوہ گاہ کے ذرّوں کا ادنیٰ غلام ہے۔ دائیں بائیں، اُوپر نیچے، اِدھر اُدھر روشنی ہی روشنی مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔
جب ہم مسجد نبوی ؐ میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ سنتوں کے بعد جماعت سے نماز ادا کی۔ کہاں؟ مسجد نبویؐ اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی؟
نماز کے بعد اب روضۂ اَقدس کی طرف چلے، حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اُٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں ۔ مواجہ شریف میں حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر:
وہ سامنے ہیں ، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے، نہ عشق میں دَم ہے
زائرین بلندآواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں، مگر اس کمینے غلام کے شوقِ بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دُور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سےمختلف، آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کررہا ہوں کہ حضوؐر کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں:
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللہِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللہِ
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے [اور یہ اشعار ڈھل گئے]:
پاک دل ، پاک نفس ، پاک نظر ، کیا کہنا
بعد مکہ کے مدینہ کا سفر کیا کہنا
جیسے جنّت کے دریچوں سے جھلکتی ہو بہار
پہلی منزل ہی کے اَنوارِ سحر کیا کہنا
تپش شوق بھی ہے، گرمیِ موسم بھی ہے
اور پھر اس پہ مرا سوزِ جگر کیا کہنا
راہ طیبہ کے ببولوں پہ مچلتی ہے نگاہ
مرحبا! دیدۂ فردوس نگر کیا کہنا
خشک آنکھوں کو مبارک ہو یہ طغیانی شوق
ہیں رواں اَشک بہ انداز دگر کیا کہنا
سنگریزے ہیں کہ جاگی ہوئی قسمت کے نجوم
خارِ منزل ہیں کہ انگشت خضر کیا کہنا
ترتیب : سلیم منصور خالد
اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔
بیسویں صدی میں تنقید ِمغرب کے علمی موضوع نے مسائل و مشکلات کے نئے ابواب رقم کیے اور زیر تشکیل علم کلام ترقی، استحکام اور پھیلائو کی جانب گام زن ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء- ۱۹۱۴ء)، علّامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء- ۱۹۳۸ء)، اکبر الٰہ آبادی (۱۸۴۶ء- ۱۹۲۱ء) مولانا سیّد سلیمان ندوی (۱۸۸۴ء- ۱۹۵۳ء)، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور دوسرے اکابر نے مغربی فکر و فلسفہ کی تاریخ و تہذیب پر علمی و استدلالی انداز میں تنقید کی اور اس کی فسوں کاری کو طشت از بام کیا۔ ۱
سیّد مودودی نے تیسرے اور چوتھے عشرے میں جو مقالات و مضامین تحریر کیے ان میں تنقید ِ مغرب، اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان تصادم اور اس کے بطن سے جنم لینے والے مسائل ان کے علم کلام کے خاص موضوعات ہیں۔ انھوں نے تخریب و تطہیر کے پہلے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسلامی فکر کی مؤثر اور جان دار تشکیلِ جدید اور تعمیرِ نو کا فریضہ انتہائی مؤثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا۔ یہ ان کی تشکیلِ فکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔ تب، ان کے اسلوب میں علامہ شبلی اور مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء- ۱۹۵۸ء) کا حسن بیان، رعنائی خیال، فکر کی پختگی و استحکام، اظہار ِخیال کی دل کشی نظر آتی ہے، اور اسی طرح سرسیّد احمد خان کی سادگی و صراحت اور علمی و سائنسی اندازِ تحقیق بھی۔ وہ دل اور دماغ دونوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور دونوں پر یکساں اثر ڈالتے ہیں۔ ان کے یہاں تدبر و تفکر بھی ہے اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی۔ دونوں کے حسین امتزاج سے ابھرنے والا توازن اور اعتدال ان کی فکر کا خاصّا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں مرتب کردہ کتاب الجہاد فی الاسلام، مولانا مودودی کی علمیت، پُرمغز استدلال، مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے اور جدید قوانین و دساتیر پر گہری نظر کی واضح مثال ہے۔ ہندستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب ، ۱۶۰۰ء سے ۱۹۲۴ء تک کے ہندستان کے اقتصادی و تمدنی حالات پر ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصاد یات کی طرح پختہ فکر اور مستحکم استدلال کی واضح مثال ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کا یہ تبصرہ برمحل ہے کہ ’’حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیّد مودودی سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں پوری صراحت سے نظر آتا ہے‘‘۔۲
فکری و علمی اعتبار سے تطہیر و تعمیر افکار کے میدان میں مولانا مودودی کا یہ علم کلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ء-۱۷۶۲ء) کی روایت کا تسلسل ہے۔ سیّد مودودی نے اس علمی روایت میں کئی پہلوؤں سے خاصا اضافہ کیا ہے۔۳ اگر اُس فکری و تہذیبی ماحول کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے، جس میں انھوں نے تجدید و احیا کا کام کیا ہے، تو ان کے علم کلام کی معنویت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسو سال کا فکری جمود، مغرب میں نشاتِ ثانیہ، عقلیت پرستی، لبرل ازم، نسل پرستی اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ___ پھر صنعتی انقلاب، مغربی استعمار اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار، مسلم دنیا پر ان کا عسکری و سیاسی اور فکری و ثقافتی تسلط، یہ ہے وہ وسیع ترین پس منظر، جس میں مسلم دنیا میں دورجحانات رُونما ہوئے:
۱- تحفظ ودفاع اسلام کی خاطر روایت پسندی پر انحصار اور جدت سے گریز یا اجتنا ب کا رویہ۔
۲- اپنے تشخص سے بے نیاز ہو کر غالب فکر و تہذیب سے ہم آہنگی کا رویہ، یعنی:
علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح سیّد مودودی نے ان دونوں نقطۂ ہاے نظر کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کو بالکلیہ مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا:
زمانہ باتونہ سازد تو با زمانہ ستیز
اور مغرب کی ترقیات اور ایجادات کو اپنی تہذیبی روایات و اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرْ (جو صاف ستھرا ہے اسے لے لو اور جو گندا ہے اسے چھوڑ دو) کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سیّد مودودی کے اس معتدل و متوازن علم کلام کا خاص میدان مغرب پر ان کی تنقید ہے۔
اس علمی و فکری تنقید کے مرحلے میں سیّد مودودی نے مغرب کے فلسفہ و سائنس اور علمی و فکری نظام کو ’جاہلیت ِخالصہ‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی بنیاد الحاد و تشکیک اور وحی ورسالت کے انکار اور بغاوت پر ہے۔ مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا، ان میں سے بعض کسی مستقل تہذیب سے محروم تھیں اور بعض اقوام اپنی تہذیب تو رکھتی تھیں، مگر اپنی تہذیبی خصوصیات کھو چکی تھیں، اس لیے ان کے ہاں کسی تصادم کی نوبت ہی نہ آسکی۔ ان کے برعکس مسلمانوں کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک تھے اوران کی تہذیب فکری وعملی دونوں حیثیتوں سے مغربی تہذیب سے متصادم تھی ۔ اس کش مکش کے دوران مسلمانوں کی اعتقادی و عملی زندگی کے ہرشعبے پر نہایت تباہ کن اثرات پڑے۔۴ ’جاہلیت خالصہ‘ وہ نظریۂ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا جواب حسّی مشاہدے پر دیاگیاہے۔
انسانی زندگی میں ’جاہلیت خالصہ‘ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے آخر تک خود مختارانہ اورغیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرے اوراس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اخلاقی احساس، ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو،جو اسے شتربے مہار بننے سے روکتا ہو۔ اس طرزِ فکر سے جو معاشرہ استوارہوگا، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت پر ہوگی، اس مملکت کے تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی اور مصلحت پسندی ہی کے لحاظ سے تمام پالیسیاں بنائی اور بدلی جائیں گی۔ اس معاشرے کا تمدن اور معاشرت نفس پرستی پر استوار ہوگی اور لذات نفس کی طلب ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوگی۔ اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے۔ ان کے اندر عریانی و شہوانیت کے عناصر کی کارفرمائی ہوگی۔ اس معاشرے کا نظام تعلیم وتربیت بھی اسی تصور حیات اور اسی رویے کے مناسب حال ہوگا۔یہ خالص جاہلیت شب وروز کی زندگی میں اظہر من الشمس ہے۔ اس طرزِ فکر سے افراد کی بے ایمانیوں ، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں اور مال داروں کی خود غرضیوں اور عام لوگوں کی بداخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ آج انسانیت کو ہورہاہے، اوربڑے پیمانے پر اس نظریے سے قوم پرستی، استحصال و استعمار، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکل رہے ہیں، ان کے چرکوں سے یہ نتیجہ خود بخود نکلتاہے کہ یہ جاہلیت کا رویہ ہے۔۵
سیّد مودودی نے جاہلیت کی دوسری قسم ’شرک‘ کو قرار دیاہے، یعنی یہ عقیدہ اور فکر کہ کائنات کے نظام کو چلانے والا ایک خدا نہیں، بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ، کام یابی وناکامی، نفع و نقصان، بہت سی ہستیوں کی مہربانی و نامہربانی پر منحصر ہے۔۶سیّد مودودی رہبانیت کو مشاہدہ اورقیاس و وہم کے باہم اختلاط والتباس کا فطری نتیجہ مانتے اور شرک کی طرح اسے بھی جاہلیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ سیّد مودودی ’راہبانہ جاہلیت‘ کی درج ذیل خصوصیات شمارکراتے ہیں:
۱- انسان کے تمام رجحانات اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔
۲- نیک دل لوگ دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہاے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیںاور دنیاکے معاملات بدکار اور شریر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔
۳- تمدن میں سلبی اخلاقیات،مخالفِ تمدن اور انفرادیت پسندانہ رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے تابع فرمان بنانے میں جادوکی تاثیر رکھتاہے۔
۴- انسانی فطرت سے رہبانیت کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتاہے، عشق مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتاہے اور کہیں ترکِ دنیا کے پردے میں بدترین مادہ پرستی جنم لیتی ہے۔۷
سیّد مودودی ’ہمہ اوست‘ اور ’وحدت الوجود ‘کے نظریے کوبھی مشاہدے اور قیاس کی آمیزش بتاتے ہوئے جاہلیت سے موسوم قرار دیتے ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی تمام چیزیں بجاے خود غیر حقیقی ہیں، ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے، دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کررہاہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا خارجی ظہور ہیں اور دراصل موجود وہی ہے ، باقی کچھ نہیں۔۸ اس طرز خیال کے نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ’راہبانہ جاہلیت‘ کے ہیں، بلکہ بعض حالات میں اس راے کو اختیار کرنے والے کا طرز عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتاجلتاہے، جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں ،کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتاہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلاجاتاہے کہ: ’جانے والا وجود کلّی ہے نہ کہ میں‘۔۹
عالمِ عرب کی طاقت ور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے رہ نما ، مؤثر اور دل میں اترجانے والے ادیب سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء)بھی تہذیب ِمغرب کو عہد حاضر کی جاہلیت قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اس کا نظریۂ حیات و کائنات اور فلسفہ و سائنس خدا کے اقتدار اعلیٰ پردست درازی اور اس کی حاکمیت سے بغاوت پر استوار ہواہے۔ اس جاہلیت نے حیرت انگیز مادی سہولیات، آسایشوں اور بلند پایہ ایجادات کے قصر پر خیمہ زنی کررکھی ہے ۔ دور قدیم کی جاہلیت سیدھی سادی اور ابتدائی صورت میں تھی، مگر جدید جاہلیت اس طنطنے اور دعوے کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ: ’انسانوں کویہ حق پہنچتاہے کہ وہ خود افکار و اقدار کی تخلیق کریں، شرائع و قوانین وضع کریں اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے لیے جوچاہیں نظام تجویز کریں‘۔ سیّد قطب کہتے ہیں:
اس باغیانہ انسانی اقتدار اور بے لگام تصورِ حاکمیت کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ خلق اللہ ظلم و جارحیت کی چکی میں پس رہی ہے۔ چنانچہ اشتراکی نظاموں کے زیر سایہ انسانیت کی جو تذلیل ہورہی ہے، یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے دائرے میں سرمایہ پرستی اور جوع الارضی کے عفریت نے افراد و اقوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑ رکھے ہیں، وہ دراصل اسی بغاوت کا ایک شاخسانہ ہے، جو زمین پر خداوند تعالیٰ کے اقتدار کے مقابلے میں دکھائی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو تکریم اور شرف عطاکیاہے، انسان اسے خود اپنے ہاتھوں پامال کرکے نتائج بدسے دوچار ہے۔۱۰
سیّد قطب شہید بہت واشگاف انداز میں کہتے ہیں کہ: جاہلی قیادت سے انحراف لازم ہے اور مسلمان محض نظریاتی مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ وہ عملی مسلمان ہوتاہے۔ جس لمحے کوئی شخص کلمۂ شہادت اداکرتاہے وہ بالفعل جاہلی اجتماع سے اپنی وفادریوں کا رشتہ کاٹ لیتاہے۔ اس کا فرض بن جاتاہے کہ وہ جاہلی قیادت سے بغاوت کرے، خواہ وہ قیادت کسی بھیس میں ہو ، کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو، یا سیاسی، معاشی اور معاشرتی قیادت ہو، جیسا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی، اسے اپنی تمام تر وفاداریاں نئی اسلامی جماعت، خدا شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔ مسلم معاشرہ اس انقلابی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔۱۱
سیّد مودودی کا نقطۂ نظر مغرب کے متعلق بالکل واضح ہے۔ وہ مغرب کی مادہ پرستی اور الحاد کی تاریخ کو مذہب کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔وہ صراحت کرتے ہیں کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی نے ہی اس تہذیب کو پیداکیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کلّی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غور وفکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و بُرہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے، مگر سوے اتفاق سے نشاتِ جدیدہ کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رُونماہوئی تو اس تحریک کا مقابلہ ان عیسائی پادریوں سے ہوا، جنھوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ وحکمت کی بنیادوں پر قائم کررکھاتھا۔ جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہوجائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیر اثر انھوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں قائم کی گئیں، جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔۱۲
سیّد مودودی لکھتے ہیں کہ: آغاز میں لڑائی حریتِ فکر کے علم برداروں اور مذہبی پیشوائوں کے درمیان تھی، مگر بہت جلد یہ لڑائی مسیحیت اور آزاد خیالی کے درمیان ٹھن گئی۔اس کے بعد نفسِ مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِّمقابل قرار دیاگیا اور نئے دور کے اہل ِحکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعیت کے خلاف ایک تعصب پیداہوگیا،جو عقل واستدلال کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کانتیجہ تھا۔
’’مغربی فلسفہ اور سائنس دونوں نے ابتداے سفر میں ’نیچریت‘ کو خدا پرستی کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی، مگر آگے چل کر ’نیچریت‘ خداپرستی پر غالب آگئی اور خدا کا تخیل اور عالم طبیعیت سے بالا ہر فکر اور نظریہ ان سے غائب ہوگیا اور سائنس، نیچریت کا ہم معنی قرار پاگئی‘‘۔۱۳ سترھویں صدی میں فلسفہ اور سائنس نے کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیاتھا۔ کوپرنیکس (Copernicus)، کپلر(Kepler)،گیلیلیو(Galileo)سب خدا کے منکر نہ تھے ، مگر الٰہی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اٹھارہویں صدی میں مادہ پرستی، الحاد اور بے دینی سکہ رائج الوقت بن گئی۔ جان ٹولینڈ(Toland)،ڈیوڈہارٹلے(Hartley)،جوزف پریسٹلے(Priestley)، والٹیر (Voltaire)،لامیٹری (La Matrie) ،ہول باخ (Holback) ،کیبانیس(Cabanis) ، ڈینس ڈائیڈیرو(Denis Diderot)،مانیٹسکو (Montesquieu)، روسو (Rousseau) وغیرہ فلاسفہ و حکما نے علانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا ، یا اگر تسلیم کیابھی تو اس کی حیثیت محض ایک دستوری فرماں رواے حکومت سے زیادہ نہ سمجھی ، جو نظام کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہوگیا۔۱۴
سیّد مودودی اٹھارہویں صدی کے معروف فلاسفہ کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہیوم (Hume)نے اپنی تجربیت(Empiricism)اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism)سے عالمِ طبیعیت اور دنیاے مادہ و حرکت کے باہر کسی طاقت کے وجود کو نہ ماننے اور مشاہدے و تجربے ہی کو معیار ماننے پر زور دیا۔ برکلے نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رَو کا جان توڑ مقابلہ کیا، مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل(Hegel)نے مادیت کے مقابلے میں تصوریت (Idealism)کو فروغ دینا چاہا ، مگر ٹھوس مادہ کے مقابلے میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant)نے بیچ کی راہ نکالی کہ خدا کی ہستی، روح کی بقا اور ارادے کی آزادی ان چیزوں میںسے نہیں ہیں، جو ہمارے علم میں آسکیں۔سیّد مودودی کہتے ہیں کہ ’’یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی، لیکن ناکام ہوئی۔ کیوں کہ عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حدسے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا، تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا، اس سے ڈرنااور اس کی خوش نودی چاہنا، سراسر ایک غیر عاقلانہ فعل تھا‘‘۔۱۵ اس طرح اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جو طریقِ فکر خدا کی ہستی کو نظر انداز کرکے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا، وہ لامذہبیت تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔
سیّد مودودی، ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘کو نیچریت و مادیت کو فروغ دینے والا سب سے مدلل و منظم علمی نظریہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و فلسفہ میں مادہ پرستی اپنے اوج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ فوگت(Vegt)، بوخنر(Buchner)، سولیے (Czelle)، کومت(Comte)، موبشات (Mobechoute)وغیرہ حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کو مرکزی حیثیت دی تھی اور اس کے سواہر شے کے وجود کو باطل قرار دے دیاتھا۔ جان اسٹورٹ مل فلسفے میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utilitarianism)کا وکیل اور ترجمان ہے۔ اسپنسر (Spencer)فلسفیانہ ارتقا اور نظام کائنات کے خود بخود پیداہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رُونما ہوجانے کے نظریے کا مؤید ہے ۔ حیاتیات(Biology)، عضویات (Physiology)، ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشاف ، عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کردیاتھا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آئی ہے اور آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے اور آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے ،مگر ڈارون کی کتاب ’اصل الانواع‘(Origin of Species) ۱۸۸۹ء میں پہلی بار شائع ہوئی تو اس نے مغربی فکر و سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپاکردیا ۔۱۶ سیّد مودودی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے، جو انیسویں صدی کے سائنٹی فک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا، اس نظریے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتاہے۔ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علّت کی حاجت نہیں۔ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقا ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیداکرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے، بلکہ وہی ایک جان دار مشین، جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی، تنازع للبقا، بقاے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجے کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہوگئی۔۱۷
قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت سیّد مودودی بار بار تخلیق انسانی کے قرآنی نظریے کی تشریح کرتے اور ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا رد کرتے ہیں۔ سورۂ اعراف آیت ۱۱ کی تفسیر میں وہ تخلیق انسانی کے خدائی منصوبے کے مراحل بیان کرتے ہیں: ابتداے تخلیق، صورت گری اور پھر فرشتوں کو حکم کہ آدم کو سجدہ کریں۔۱۸ اس کے بعد وہ صراحت کرتے ہیں کہ تخلیقِ انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم اس حقیقت کاپوری طرح ادراک نہیں کرسکتے کہ موادِ ارضی سے بشر کس طرح بنایاگیا؟ پھر اس کی صورت گری کیسے ہوئی؟ اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیاتھی؟:
لیکن بہرحال، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے، جو موجودہ زمانے میں ڈارون کے متبعین، سائنس کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ ان نظریات کی رُوسے انسان، غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتاہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچاہے، اور اس تدریجی ارتقاکے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہوسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ’نوع انسانی‘ کا آغاز تسلیم کیاجائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتاہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی۔ وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا، اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔۱۹
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۲۸ فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۲۹ (الحجر ۱۵: ۲۸-۲۹) پھر یاد کرو اس موقعے کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیداکررہاہوں۔ جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتاہے کہ ’’انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتاہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیاہے، جیسا کہ ڈاروینیت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا براہِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے، جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُونٍ کے الفاظ میں بیان فرمایاہے‘‘۔ حمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہوچکی ہو، یا بہ الفاظ دیگر خمیر اٹھ آیاہو۔ مسنون کے دو معانی ہیں: ایک معانی ہیں متغیر، منتن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی مٹی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیداہوگئی ہو۔ دوسرے معانی ہیں مصور اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی، جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں، جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایاگیا تھا، جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی‘‘۔۲۰ قرآن کی یہ صراحت اس نظریۂ ارتقا سے براہ راست متصادم ہے، جو ڈارون نے تخلیق کی ہے۔
سیّد مودودی نے ترجمان القرآن محرم،صفر ۱۳۶۳ھ / جنوری ، فروری ۱۹۴۴ء میں ڈارون کے ’نظریۂ ارتقا‘ کی علمی اور عقلی حیثیت سے کم زوریاں واضح کیں اور ثابت کیا کہ فلسفے، اخلاق اور علوم تمدن واجتماع میں جب یہ تخیّل برگ و بار لایا تو اس نے انسان کو برباد کرنے کے لیے شدید فتنے پیداکیے۔ تمام انسان دشمن نظریات میں ڈاروینیت کی حیثیت سرتاج کی ہے۔ اس نظریے نے: ’’انسان کے سامنے پورے نظام کائنات کو ایک رزم گاہ کی حیثیت سے پیش کیاہے، اور اس کو بتایاہے کہ نزاع، جنگ اور کش مکش ہی اصل تقاضاے فطرت ہے۔ اس کش مکش میں جو زورآور ہے وہی زندہ ، صالح اور کامیاب ہے اور جو کم زور ہے وہی غیر صالح ہے اور اس کا مٹنا اور فنا ہوجانا قوانینِ فطرت کا ایک ایسا نتیجہ ہے جس کو برحق ہونا ہی چاہیے۔ آج یہ اسی طرزِ فکر کی ’برکات‘ ہیں کہ انسانی افراد سے لے کر طبقات، اقوام اور ممالک تک، سب کے سب دنیا کو حقیقت میں ایک رزم گاہ بنائے ہوئے ہیں اور فطرت کا تقاضا انھوں نے یہی سمجھا ہے کہ جو طاقت ور ہے وہ کم زور کو فنا کردے۔۲۱
سیّد مودودی ’نظریۂ ارتقا‘ کو واقعہ اور حقیقت سے دور قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے علمی واستدلالی مرتبے کو چیلنج کرتے ہیں۔ان کا نقطۂ نظریہ ہے کہ علم الحیات کا مشکل ترین مسئلہ ،جس میں سائنس کے علما اُلجھ رہے ہیں ، وہ دراصل یہ سوال ہے کہ زندگی کا مبدأکیاہے؟ قرآن زندگی کا مبدأ، حکم خداوندی کو قراردیتاہے ، لیکن مغرب کی نشاتِ ثانیہ کے بعد کے تمام فلاسفہ اور سائنس داں کسی فوق الفطرت ہستی کی کارفرمائی اور کاری گری کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اس کارگاہِ فطرت کے اندر ہی انھیں اس کی کارفرما طاقت کا بھی کہیں سراغ مل جائے۔ اس کے نتیجے میں انھیں قیاس آرائیوں سے کام لینا پڑا۔ قیاس آرائی ہی سے انھوں نے اس سوال کو بھی سلجھانا چاہا کہ حیات میں اس تنوّع کی وجہ کیاہے؟ اور مختلف انواع کے درمیان تفاضل کا سبب کیاہے؟ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ ڈارون نے اگر قرآن کے دیے ہوئے نقطۂ آغاز سے تحقیق و تجسّس کے سفر کی ابتداکی ہوتی تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا کہ زندگی کی شکلوں میں تنوّع ، جو ایک بے نظیر ترتیب کے ساتھ واحد الخلیہ بھنگے(Unicellular Molecule) سے لے کر انسان تک میں نظر آرہاہے ، یہ ایک حکیم کے منصوبے کا نتیجہ ہے ، جو مختلف انواع کی زندگی کے لیے مناسب ماحول اور سازگار حالات فراہم کرنے کے بعد انھیں ان کی مخصوص نوعی خصوصیات کے ساتھ بتدریج وجود میں لاتا چلاگیاہے اور جن انواع کی ضرورت اس کے خاکے میں باقی نہیں رہی ہے انھیں مٹاتابھی رہاہے۔
قرآن کے نظریۂ ابتدئے تخلیق سے اعراض و انکار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ: ’’یورپ نے، جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلارہاتھا، لپک کر [ڈارون کے] یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صر ف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں، بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علوم عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا۔ حالاں کہ علمی و عقلی حیثیت سے اس توجیہہ میں اتنے جھول تھے اور ہیں کہ مشکل ہی سے کوئی صاف دماغ کا آدمی اس کو منظر(Phenomena) کی ممکن توجیہات میں ایک قابل لحاظ توجیہہ قرار دے سکتا ہے‘‘۔۲۲ سیّد مودودی کا یہ مضمون ترجمان القرآن کے ایک سنجیدہ قاری کے سوال کے جواب میں لکھاگیا تھا ،جو ’ڈارون کا نظریۂ ارتقا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔۲۳
جدلی مادیت کا بانی ہیگل (۱۷۷۰ء-۱۸۳۱ء) ہے، جس کا فلسفۂ تاریخ، تہذیب جدید کی گم راہیوں اور فکری و نظری فتنوں کا سر چشمہ ہے، سیّد مودودی کی دل چسپی اور مطالعے کا موضوع ان کے عہد نوجوانی میں بنا۔’ہیگل اور مارکس کا فلسفۂ تاریخ‘ ان کا وہ مضمون ہے جو ترجمان کے شمارے جمادی الاخریٰ ۱۳۵۸ھ؍ اگست ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا۔
سیّد مودودی نے ہیگل کے فلسفۂ تاریخ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اضداد کے ظہور، تصادم اور امتزاج سے واقع ہوتاہے اور تاریخ کا ہردور ایک وحدت ، ایک کل اور ایک زندہ جسمانی نظام ہوتاہے۔ اس دور میں انسان کے سیاسی ، معاشی،تمدنی واخلاقی، علمی و عقلی اور مذہبی تصورات میں ایک ہم آہنگ کلّیت ہوتی ہے۔ جب ایک دور ترقی کے آخری مدارج کو پہنچ جاتاہے اور اس دور کے اصول و نظریات اور افکار انسانی تہذیب و تمدن کو اپنی قوت و استعداد کی آخری حد تک پہنچادیتے ہیں، تب خود اسی دور کی آغوش سے پرورش پاکر نئے افکار و نظریات اسی رُوبۂ زوال کے طبیعی تقاضے سے پیداہوتے ہیں اور پرانے افکار سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ایک مدت تک قدیم و جدید میں کش مکش جاری رہتی ہے، بالآخر کسر وانکسار کے بعد ایک نئی عنصری تہذیب وجود میں آتی ہے اور تاریخ کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ باہمی کش مکش کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ارتقائی عمل کو ہیگل اپنی اصطلاح میں جدلی عمل (Dialectical Process) کہتاہے۔اس مسلسل منطقی مناظرہ و مجادلہ کے عمل میں دعویٰ (Thesis)، جواب دعویٰ (Antithesis) اور پھر ایک مرکب (Synthesis)کا ظہور اس فلسفے کی رُو سے ایک کُلّی اجتماعی عمل ہے ،جس میں تاریخ کے بڑے سے بڑے آدمی ، نام ور ترین تاریخی اشخاص تک اس جدلی کھیل، اس کل کی کش مکش باخود میں شطرنج کے پیادوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دریا کے طوفانی بہائو میں ’خیالِ مطلق‘ ایک شاہانہ شان کے ساتھ بے روک ٹوک تاریخ کی شاہراہ پر خود ہی ’دعویٰ‘ اورخود ہی ’جواب ِدعویٰ‘ اور بالآخر خود ہی ’امتزاج بین الاضداد‘ کرتاہوا بڑھتا چلاجارہاہے۔’عقلِ کُل‘ یا ’جانِ جہاں‘ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اشخاص اور گروہوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتی ہے کہ اس تاریخی ڈرامے میں وہ رہ نمایانہ اور کارفرمایانہ پارٹ اداکررہے ہیں، حالاں کہ دراصل ’جانِ جہاں‘ انھیں خود اپنی تکمیل ذات کے لیے استعمال کررہی ہے‘‘۔۲۴
سیّد مودودی یہاںایک حاشیے کا اضافہ کرتے ہیں کہ: ہیگل دراصل خدا کو ’عقل کُل‘ (World Reason) ’جانِ جہاں‘ (World Spirit)، ’روحِ مطلق‘ (Absolute Spirit)اور ’فکرمطلق یا خیالِ مطلق‘(Absolute Idea)وغیرہ ناموں سے یاد کرتاہے۔ اس کے نزدیک انسانی تمدن کے ارتقا میں دراصل رُوحِ کل، یعنی ذات خداوندی خود ترقی کررہی ہے۔ خدا اس پر دے میں آپ اپنی نمایش کررہاہے، اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے، تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کررہاہے۔رہا انسان تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کہتے ہیں کہ کارل مارکس(۱۸۱۸ء-۱۸۸۳ء)نے ہیگل کے جدلی فلسفے کو تو تسلیم کرلیا ،مگر روح یا فکر کے تصور کی جگہ اس نے معاشی اسباب و محرکات کو دے دی۔۲۵
سیّد مودودی سورئہ مائدہ، آیت ۱۲ کی تفسیر کرتے ہیں تو سَوَاءَ السَّبِیْلِ‘ کی بڑی ایمان افروز تشریح کرتے ہیں ۔ زندگی کے بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رجحانات کے ساتھ، اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیاگیاہو۔ اسی کو قرآن صراط مستقیم اور سَوَاءَ السَّبِیْلِ کہتاہے۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے اور جس نے اس راہ کو گم کردیا، وہ یہاں غلط ہے، غلط رو اور غلط کار ہے اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے۔ سیّد مودودی اس دل نشیں تفسیر کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:
’’موجودہ زمانے کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے درپے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جارہی ہے، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ’جدلی عمل‘ (Dialectical Process)انسانی زندگی کے ارتقا کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (Thesis)اسے ایک رُخ پر بہالے جائے، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے ’امتزاج‘ (Synthesis) سے ارتقاے حیات کا راستہ بنے ۔ حالاں کہ دراصل یہ ارتقا کی راہ نہیں ہے، بلکہ بدنصیبی کے دھکے ہیں، جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقا میں بار بار مانع ہورہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتاہے اور اسے کھینچے لیے چلاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاءَ السَّبِیْلِ سے بہت دُور جاپڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بے انصافی ہورہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کردیتی ہیں، اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کرکے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کرتی ہے۔جوں جوں سَوَاءَ السَّبِیْلِ قریب آتی ہے، ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیںوجود میں آتی ہیں، جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاءَ السَّبِیْلِکے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا، بلکہ اپنے زور میں اُسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہوجاتی ہے، اور نتیجے میں ایک دوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انھوں نے سَوَاءَ السَّبِیْلِکو دیکھ لیاہوتا تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ انسان کے لیے ارتقا کا صحیح راستہ یہی سَوَاءَ السَّبِیْلِ ہے ،نہ کہ خطِ منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا‘‘۔۲۶
ہیگل کی جدلی مادیت کے فلسفے کو کارل مارکس نے معاشیات پر منطبق کیا اوروہ فلسفہ تراشا جسے تاریخی مادیت(Historical Materialism) کہا جاتاہے۔ سیّد مودودی نے اس معاشی جبریت کے فلسفے پر کاری ضرب لگائی۔ اس فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ: ’’مارکس کے نزدیک تاریخ کے دوران میں جدلی عمل اس طرح رونما ہوتاہے کہ جب ایک معاشی نظام کے تحت ایک طبقہ اسباب زندگی کی تیاری و فراہمی اور ان کی تقسیم پر قابض ہوکر دوسرے طبقوں کو اپنا دست نگر بنالیتاہے، تو رفتہ رفتہ ان دبے ہوئے طبقوں میں بے چینی شروع ہوجاتی ہے۔وہ معاشی پیداوار اور اسباب زندگی کی تقسیم اور ملکیتی تعلقات کے ایک نئے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ان کے مفاد سے زیادہ مناسبت رکھتاہو۔اب دونوں میں کش مکش شروع ہوتی ہے اور اس کش مکش میں حاضر الوقت نظام کے قوانین، مذہب ، اخلاق اور تصورات کا پورا مجموعہ اسی نظام کی حمایت کرتاہے، جو اس دور میں پہلے سے قائم تھا۔ ایک مدت تک طبقاتی نزاع (class struggle) برپارہتی ہے۔ آخر کار اس نزاع کے نتیجے میں معاشی نظام بدل جاتاہے اور اس کے ساتھ ہی پرانے قانونی، مذہبی، اخلاقی اور فلسفیانہ تصورات کو بھی نئے تصورات کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے‘‘۔۲۷
سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی اس مادی تعبیر تاریخ میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا اور تاریخ کے تمام تغیرات کا محور اسباب ِمعیشت کی فراہمی اور تقسیم کے سوال کو قرار دیاگیاہے۔اس میں مذہب ، اخلاق اور انسانی تہذیب و تمدن کے لیے مستقل اور ازلی وابدی صداقتوں اور اصولوں کا انکار کیاگیاہے۔ خود غرضانہ کش مکش کو تقاضاے فطرت قرار دے کر باہم آویزش، قتال و فساد، کی معاشی توجیہہ کی گئی ہے اور انسانی تاریخ کے ارتقا کا بس یہی ایک راستہ بتایاگیاہے۔
سیّد مودودی صاف کہتے ہیں کہ جو لوگ [اس فکر پر مبنی] سوشلزم اور اسلام میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے ہیں: ’’ان سے عرض کروں گا کہ ایک مرتبہ وہ مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ اور اس کے منطقی نتائج پر اچھی طرح غور کریں، اور پھر سوچیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنے کے بعد کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی کون سی گنجایش باقی رہ جاتی ہے؟ ہرشخص کو عقیدے کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ وہ اگر مارکسی نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں تو اسے ضرور اختیار کریں، مگر انھیں کم از کم اپنے دماغ کو تو صاف رکھنا چاہیے‘‘۔۲۸
اگر ہیگل اور مارکس نے قرآن کو پڑھا ہوتا، تو انھیں انسان کی حقیقت کو سمجھنے اور ارتقاے تہذیب انسانی کے اساسی قانون کو دریافت کرنے میں وہ ٹھوکریں نہ لگتیں، جو انھوں نے خود گمان اور قیاس کے تیر تکے لڑانے کی وجہ سے کھائی ہیں۔ قرآن کا علم الانسان اور فلسفۂ تاریخ ان تمام مسائل کو نہایت صحیح اور تشفی بخش طریقے سے حل کرتاہے، جن میں یہ لوگ اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔۲۹
اس کے بعد سیّد مودودی بتاتے ہیں کہ قرآن کی رُو سے انسان محض اُس حیوانی وجود کا نام نہیں ہے جو بھوک ، شہوت، حرص، خوف،غضب وغیرہ داعیات کا محل ہے ، بلکہ دراصل انسان وہ روحانی وجودہے جو اس اوپر کے حیوانی خول کے اندر رہتا ہے اور اخلاقی احکام کا محل ہے۔ اسے دوسرے حیوانات کے برعکس عقل ، تمیز، اکتسابِ علم اور فیصلے کی قوتیں دے کر ایک حدتک خوداختیاری عطاکی گئی ہے۔ باہر کا حیوان اس اندرونی انسان کو خادم اور آلۂ کار کے طور پر دیاگیاہے۔ یہ خادم جاہل ہے اور اس کے پاس صرف جسمانی مطالبات اور خواہشات ہیں۔ یہ اندر کے انسان کو اپنا خادم اور آلۂ کار بناناچاہتاہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان کش مکش ہوتی ہے اور پوری انسانی تاریخ اسی کش مکش کا مرقع ہے۔ باہر کا حیوان اندر کے انسان کو اپنا تابع بناکر ظلم و عدوان، فحشا و منکر، شہوت ولذتِ نفس کی راہ پر لگانا چاہتاہے۔ اس کی خاطر کچھ ٹیڑھے راستے بھی پیداکرلیتاہے، جیسے رہبانیت، ترکِ دنیا، نفس کشی اور فطری ضروریات سے انحراف، تمدن اور اجتماعی زندگی سے فرار وغیرہ۔
تاریخ کے دوران میں انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا ایک ایسے خطِ منحنی کی شکل میں ہوتا رہاہے جو بار بار ایک خطِ مستقیم کے گرد چکر کاٹتاچلاجاتاہے۔ اس فطری راستے کو قرآن نے صراطِ مستقیم، رشد ، ہدایت،سَوَاءَ السَّبِیْلِ اور سبیلِ ربّ وغیرہ سے تعبیر کیاہے۔ انسانیت ابتدا میں فطری حالت پر تھی، پھر انسانوں میں اپنی جائز حد سے گزرنے کے میلانات پیداہوئے:
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹)ابتداءً سارے انسان ایک ہی امت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالیے۔
كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ ۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۰ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ ۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۲۱۳ (البقرہ۲: ۲۱۳)ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے،(پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رُونماہوئے)۔تب اللہ نے نبی بھیجے ،جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے۔ اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی، تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونماہوگئے تھے،ان کا فیصلہ کرے۔ (اور ان اختلافات کے رُونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا)___ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنھیں حق کا علم دیاجاچکاتھا۔انھوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑکر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے___ پس، جو لوگ انبیا ؑپر ایمان لے آئے، انھیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھادیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیاتھا۔ اللہ جسے چاہتاہے راہِ راست دکھادیتاہے۔
آگے سیّد مودودی صراحت کرتے ہیں کہ: ’’ہیگل جن کو ’دعویٰ‘ اور ’جواب دعویٰ‘ کہتاہے وہ وہی انتہا پسندانہ میلانات ہیں، جو کبھی خط مستقیم کے اِس طرف اور کبھی اُس طرف انسان کو کھینچ کرلے جاتے ہیں، اور وہ جسے ترکیب و امتزاج سے تعبیر کرتاہے، وہ بعینہٖ وہ نقطے ہیں، جہاں یہ خطِمنحنی صراطِ مستقیم کو کاٹتاہے۔ ہیگل اور مارکس دونوں کو تاریخ میں یہ خطِ منحنی تو نظر آگیا، مگر وہ اس خطِ مستقیم کو نہ دیکھ سکے، جو اَزل سے ابد تک سیدھا کھینچا ہواہے اور اس خطِ مستقیم کا علم صرف انبیا علیہم السلام کو حاصل تھا۔ انھوں نے اس سیدھے خط پر انسانی تہذیب کو عملاً قائم کرکے دکھادیا‘‘۔۳۰
سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا ایک اہم پہلو جدید نظام تعلیم اور اس کے اثرات کا تجزیہ ہے۔ ان کے یہ تنقیدی مضامین کتاب تعلیمات میں شامل ہیں۔ اگست۱۹۳۶ء میں ان کا معرکہ آرا مضمون ’ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص‘ ترجمان القرآن میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کورٹ کے سالانہ اجلاس اپریل ۱۹۳۶ء میں زیر بحث ایک اہم مسئلے کے سنجیدہ تجزیے پر مشتمل تھا۔ اے ایم یو کورٹ نے دینیات کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح اور طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیداکرنے کی ضرورت پر مفصّل گفتگو کی تھی۔ سیّد مودودی نے جدید تعلیم کے بنیادی نقص پر انگلی رکھی اور کہا کہ دینیات کی کچھ کتابیں نصاب میں داخل کردینے سے یونی ورسٹی، مسلم یونی ورسٹی نہیں بن سکتی۔ یونی ورسٹی کے قیام کے بعد اس کے ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیاتھی ؟اور ان کا رہرو پشت بہ منزل جا کدھر رہاہے؟ انھوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:
اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیرکٹر ، اسلامی اسپرٹ ، اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعدادشاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی سی نظر اور مسلمان کا سا نصب العین لے کر نکلے ہوں، اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم و تربیت نے یہ قابلیت پیداکی ہو کہ اپنے علم اور اپنے قواے عقلیہ سے کام لے کر ملت اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے، یاکم از کم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی و عملی خدمت ہی انجام دیتے۔۳۱
انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے اربابِ حل وعقد کو ۱۹۳۶ء میں متنبہ کیا کہ جدید [غیرمنقسم] ہندستان میں ایک بالکل غیر متوقع اور ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا پرانا جہاز، دورِ جدید کے کسی ہولناک طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں‘‘۔۳۲پس، اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرایے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں، جس کے آلات اور کُل پرزے جدید ترین ہوں، مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو، مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینیر اور کپتان اور دید بان سب وہ ہوں جو منزل کعبہ کی راہ و رسم سے باخبر ہوں‘‘۔۳۳
علی گڑھ تحریک کا وقتی مقصد ، سیّد مودودی کے الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان نئے دور کی ضروریات کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہوجائیں اور تعلیم جدید سے بہرہ مندہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچالیں اور ملک کے جدید نظم و نسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں: ’’ مگر اس تحریک نے ایک حدتک ہماری دنیا تو ضرور بنادی، مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑدیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیداکیے۔ اس نے ہم میں’اینگلو محمڈن‘ اور’اینگلو انڈین‘ پیداکیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’محمڈن‘ اور’انڈین‘ کا تناسب بس براے نام ہی ہے‘‘۔۳۴
۱- مغربی علوم و فنون پر نظر ثانی کیجیے اور طلبہ کے سامنے انھیں تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نقطۂ نظر سے ہو ، تاکہ وہ ہر قدم پر ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔
۲- علوم اسلامیہ سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کیجیے اور اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کی تعلیم دیجیے۔ ان کی اصل اسلامی اسپرٹ دلوں میں اتاریے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیداکیجیے۔
۳- اساتذہ میں سے جو ملحد اور مغرب زدہ ہیں، انھیں یونی ورسٹی سے رخصت کیجیے۔۳۵
ایم اے او کالج امرتسر کے جلسۂ ’تقسیم اسناد‘ (قدیم اصطلاح کے مطابق ’جلسۂ دستاربندی‘) میں سیّد مودودی کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی ،تو اپنے خطبے میں فاضل مدبر نے بڑی صراحت اور سنجیدگی و دل سوزی کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں کو ’قتل گاہ‘ قراردے دیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
دراصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں، بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیمی کو ’درس گاہ‘ کے بجاے ’قتل گاہ‘ سمجھتاہوں۔ میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں، جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جارہے ہیں، جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کرچکاہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگارہنے نہیں دیاہے۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں ۔ میں یہاں اس صداقت نامۂ موت کے حصول پر آپ کو مبارک باد دینے نہیں آیاہوں، بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہمدردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتاہوں، وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل عام ہوچکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہاہے‘‘۔۳۶
ضرورت ہے کہ سیّد مودودی کی تنقیدِ مغرب کا مطالعہ اس کے وسیع پس منظر میں کیا جائے اور سیاسیات، سماجیات اور معاشیاتِ مغرب پر ان کی وقیع تحریروں کو بھی موضوع گفتگو بنایاجائے۔
۱- برصغیر سے باہر عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں مغربی فکر و فلسفہ اور نظام حیات کو جن مفکرین و مصلحین نے نشانۂ تنقید بنایا ان میں: مصر کے امیر شکیب ارسلان(۱۸۶۹ء-۱۹۴۶ء)،الجزائر کے امیر عبدالقادر (۱۸۰۷ء-۱۸۸۳ء)، ترکی کے بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۰ء-۱۹۶۰ء)، ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی (۱۹۳۳ء-۱۹۷۷ء) اور آیت اللہ روح اللہ خمینی( ۱۹۰۲ء-۱۹۸۹ء) بہت اہم ہیں۔ اخوان المسلمون عالم عرب کی طاقت ور اور مؤثر ترین تحریک اسلامی بن کر ابھری۔ اس کے مؤسس حسن البنا شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) اور مفکرسیّد قطب شہید (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) اور جمعیۃ العلماء المسلمین الجزائر کے بانی شیخ عبدالحمید بن بادیس (۱۸۸۹ء- ۱۹۴۰ء) نے مغربی استعمار کے خلاف منظم تحریکیں چلائیں اور اپنے زیر اثر علاقوں میں مسلمانوں کو مغرب کی فکری و علمی غلامی سے نکالا۔ مالک بن نبی (۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء) نے فرانسیسی استعمار پر کاری ضرب لگائی۔
۲- دیکھیے: پروفیسر خورشید احمد کا مضمون’سیّد مودودی :مفکر ، مصلح اور مدبر‘،ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور، ربیع الاول ۱۴۲۵ھ؍مئی ۲۰۰۴ء، ص ۱۸۷۔۲۳۲(اشاعت خاص ۲ ، بہ سلسلہ صد سالہ یوم ولادت مولانا مودودی ۱۹۰۳ء-۲۰۰۳ء) مدیر اشاعت خاص : سلیم منصور خالد۔پروفیسر خورشید احمد نے اس مضمون میں سیّد مودودی کے علمی وتحریکی کاموں کے تین اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے: (الف)فکر اسلامی کی تشکیلِ نو(ب) اُمت کی کم زوری اور زوال کے اسباب کا تعیین اور اصلاحِ احوال کے لیے خطوطِ کار کی نشان دہی(ج)اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرِنو کی جدوجہد کا عملی آغاز۔ اوّلین پہلو کی مزید وضاحت ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء)کے مضمون’مولانا مودودی کی تنقیدِ مغرب‘ سے ہوتی ہے، اور وہ ہے فکر اسلامی کی تشکیل سے پہلے غیر اسلامی افکار و رجحانات پر تنقید و تطہیر۔ سیّد مودودی نے مغربی افکار و نظریات کا وسیع مطالعہ کیاتھا، لیکن جن پہلوئوں کا انھوں نے زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیاتھا وہ پانچ تھے:(الف) سیاستِ مغرب(ب) معاشیاتِ مغرب(ج) مغربی قانون (د)مغربی فلسفہ (ہ)مغربی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ۔دیکھیے: ابوالاعلٰی مودودی، علمی و فکری مطالعہ، مرتبین: رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصور خالد، ادارہ معارف اسلامی لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۲۳۸-۲۵۷
۳- دیکھیے: ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری (۱۹۳۱ء-۲۰۱۲ء)کا مضمون’کلامی مسائل میں مولانا مودودی کا موقف‘ تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ، اپریل۔ جون ۱۹۹۷ء۔ فاضل مضمون نگار نے امام غزالی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے تجدیدی کارناموں کا مولانا مودودیؒ سے تقابل کیاہے۔ بعض پہلوئوں سے اسلاف کا علم کلام مودودی کی خدمات پر حاوی اور بھاری ہے، مگر مولانا مودودی کے افکار و عطیات کے بعض پہلو نئے ہیں اور اسلاف سے زیادہ وقیع اور قابل قدر ہیں، جیسے اسلام کے اجتماعی فکر کی تشکیل کی تفصیلات اور مغربی افکار و نظریات واقدار پر تنقید کا میدان، تفسیر میں تفہیم القرآن کی منفرد کاوش، وحی و نبوت کے تصورات کی وضاحت اور انبیا و رسل کے مشن کی تشریح اور اسلامی نظام زندگی کی دعوت و شہادت اور اقامت کے لیے ایک تحریک کا برپاکرنا۔
۴- ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘کے عنوان سے مولانا مودودی کا یہ معرکہ آرا مقالہ پہلے ترجمان القرآن جمادی الاخریٰ ۱۳۵۳ھ؍ستمبر ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔ بعد میں اسے مصنف کے مجموعۂ مضامین تنقیحات میں شامل کیاگیا۔ پیش نظر تنقیحات کی اشاعت ۱۹۶۵ء ، ناشر:اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص۶-۲۲
۵- سیّد مودودی، اسلام اور جاہلیت(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اسلامیات، اسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھاگیا۔) ماہ نامہ ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۱ء
۶- ایضاً ، ص۲۳ ۷- ایضاً ، ص۲۶
۸- ایضاً ، ص۲۶، ۲۷ ۹- ایضاً ، ص۲۷
۱۰- سید قطب شہید، معالم فی الطریق،[جادہ و منزل: اُردو ترجمہ خلیل احمد حامدی] ۱۹۸۰ء، ص۷۴
۱۱- ایضاً ، ص۱۵۳ ۱۲- تنقیحات، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۶۵ء، ص ۱۱-۱۲
۱۳- تنقیحات، ص۱۳،مولانا مودودی مثالیں دیتے ہیں۔ ڈیکارٹ (Descartes، م:۱۶۵۰ء) مغربی فلسفے کا باوا آدم سمجھاجاتاہے۔ وہ ایک طرف خدا کا زبردست قائل ہے، مگر دوسری طرف عالم طبیعیت کے آثار کی میکانکی توجیہہ کی ابتدا اسی نے کی اور اس طریق فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسر مادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس(Hobbes،م: ۱۶۷۹ء) فوق الطبیعیت کی کھلم کھلا مخالفت کرتاہے اور کسی ایسی نفسی، روحی یا عقلی قوت کا قائل نہیں جو مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو۔ اسپائنوزا(Sponiza،م: ۱۶۷۷ء) سترھویں صدی میں عقلیت کا سب سے بڑا علَم بردار تصور کیاجاتاہے۔ اس نے مادہ، روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا۔ خدا اور کائنات کو ملاکر ایک کُل بنادیا اور اس کل میں خدا کے اختیارِ مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لایبنز(Leibniz،م: ۱۷۱۶ء) اور لاک(Locke، م:۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے، مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔
۱۴- تنقیحات،ص۱۴-۱۵ ۱۵-ایضاً،ص۱۵، ۱۷ ۱۶-ایضاً، ص ۱۶-۱۷ ۱۷-ایضاً، ص ۱۷
۱۸- قرآن کریم، سورہ اعراف۷:۱۱۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (ہم نے تمھاری تخلیق کی ابتداکی، پھر تمھاری صورت بنائی،پھر فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو)۔ مولانا مودودی نے تخلیق آدم کے مراحل کی توضیح کے لیے درج ذیل آیات سے بھی استدلال کیا ہے: ص۷۱-۷۲،حجر:۲۸-۲۹،
۱۹- سیّد مودودی،تفہیم القرآن، جلد دوم، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور ،ص۱۱ ۲۰-ایضاً، ص ۵۰۴
۲۱- سیّد مودودی،تفھیمات، حصہ دوم، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ڈھاکہ، نومبر ۱۹۶۸ء، ص ۲۸۴
۲۲- تفھیمات، ص۲۸۰۔ سیّد مودودی علمی و عقلی حیثیت سے نظریۂ ارتقاء کی کج فہمی کو واضح کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ اس نظریے کی حمایت میں تیار کردہ لٹریچر کی ساری بنیاد ’ہوگا‘ پر ہے (یعنی امکانات پر ہے، بجاے حقائق کے)، حالاں کہ سائنس میں اصل قابل اعتبار چیز ’ہے‘ ہے نہ کہ ’ہوگا‘۔ میں پوچھتاہوں کہ اگر سائنس میں ’ہوگا‘ بھی کوئی اہمیت رکھتا ہے تو ایک ’ہوگا‘ اور دوسرے ’ہوگا‘ میں فرق کیوں ہو؟ خصوصاً، جب کہ ایک ’ہوگا‘ دوسرے ’ہوگا‘ سے کچھ زیادہ ہی لگتاہوا ہوگا۔ جب آپ اس کے لیے تیار ہیں کہ مشہودات کی توجیہہ میں ’ہوگا‘ کو بھی مان لیں تو ڈارون کے ’ہوگا‘ سے میرا یہ ’ہوگا‘ کچھ زیادہ ہی لگتاہواہے کہ زندگی کا آغاز اور زندہ اشیا کا تنوع اور ان کا تفاضل سب کا سب ایک حکیم کے امر اور حکیمانہ تدبر سے ہوا ہوگا۔ میرا یہ ’ہوگا‘ ڈارون کے ’ہوگا‘ سے زیادہ بہتر طریقے پر تمام مشہودات کی توجیہہ کرتا ہے،کسی سوال کو لاجواب نہیں چھوڑتا۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے حق میں وجہ ترجیح یہ ہے کہ اُس طرف تو آدمی صداقت کے ساتھ ’ہوگا‘ سے زیادہ کچھ کہنے کے قابل نہیں ہے، مگر اس طرف بکثرت صالح ترین انسان ،جو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پائے گئے، پورے زور کے ساتھ اس حقیقت کا دعویٰ کرچکے ہیں کہ ’ہے‘۔ تفھیمات، دوم،ص ۲۸۳۔
۲۳- تفھیمات، دوم،جنوری، فروری ۱۹۴۴ء،ص۲۷۷-۲۸۴۔ ۲۴- ایضاً، ص۲۶۴-۲۶۵
۲۵- قرآن کریم، سورۂ مائدہ۵:۱۲ کا آخری حصہ ہے: فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ (مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سَوَآءَ السَّبِیْلِ گم کردی۔)
۲۶- تفہیم القرآن ، جلد اوّل ،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۴۵۳-۴۵۴
۲۷-تفھیمات، دوم، ص ۲۶۶ ۲۸- ایضاً،ص۲۶۹ ۲۹-ایضاً،ص۲۷۲
۳۰- ایضاً، ص۲۷۵، ۲۷۶۔یہاں فاضل مصنف نے درج ذیل آیت سے استدلال کیا ہے : لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷:۲۵) (ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) اُتاری، تاکہ لوگ عدل کے طریقے پر قائم ہوں۔)
۳۱- تعلیمات، مکتبہ جماعت اسلامی ہند، رامپور، طبع دوم، مئی ۱۹۵۰ء، ص۹
۳۲- ایضاً، ص ۱۶-۱۷ ۳۳- ایضاً ،ص۱۷ ۳۴- ایضاً،ص۱۸
۳۵- تعلیمات، ص۲۰-۲۱۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ’مجلس اصلاح نصاب دینیات‘ نے سیّد مودودی سے ایک جامع نصاب بنانے کی گزارش کی ۔ اس کے جواب میں سیّدمودودی نے’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے مضمون ترجمان القرآن میں شائع کیا۔ جس میں اسلامی تعلیمی پالیسی کی وضاحت کی اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آٹھ تجاویز دیں۔ تفصیل دیکھیے: ص ۳۳-۴۳
۳۶- سیّد مودودی، تفھیمات، دوم، ص ۲۸۶-۲۸۷
جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔
بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک میں جو لیڈرشپ قائم ہے، وہ کسی عنوان سے بھی مسلم عوام کے ضمیر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حکومتیں اگر سو برس بھی زور لگائیں تو بھی مَیں ان سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ مسلم عوام کے عقائد اور ان کے تصورات، تہذیب و تمدن اور ان کی اخلاقی قدروں کو تبدیل کرسکیں گی، اور یہ توقع بھی نہیں رکھتا کہ مزید سو برس میں وہ کسی دوسری تہذیب کی قدروں اور تصورات پر قوم کی تعمیرِ سیرت کرسکیں گی۔
اس ڈگر پر چلنے کا نتیجہ اس سے زائد کچھ نظر نہیں آتا کہ مسلمان قوم کی کوئی سیرت اور کردار نہ بن پائے اور اخلاقی اعتبار سے وہ بالکل دیوالیہ ہوجائے اور کوئی مادی ترقی بھی نہ کرسکے۔ ایک بے سیرت قوم خواہ کتنے ہی ذرائع و وسائل رکھتی ہو ، درحقیقت کوئی مادی ترقی نہیں کرسکتی اور کسی حکومت کی کوئی پالیسی خواہ وہ خارجی ہو یا داخلی، ایسی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی، جب کہ پوری قوم کا ضمیر پورے اطمینان کے ساتھ اس کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام مسلمان ملکوں کے مستقبل کا انحصار صرف ایک صحیح قسم کی اسلامی لیڈرشپ پر ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ قیادت میسر نہ آئی تو ہم سب کو بہت ہی بُرا دن دیکھنا پڑے گا۔
جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی۔ اس کو زندگی کے ہر شعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے، تو بالکل ایک فطری ارتقا کے طور پر مسلمان ملکوں میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلمان ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا، تو آخرکار اقتدا ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔
سوال : یہ صاف نظر آتا ہے کہ مسلمان جمہور خود اسلام کے راستے سے بہت دُور ہیں۔ انھیں اسلام سے جذباتی لگائو تو ہوسکتا ہے مگر غالباً تربیت کی کمی کی وجہ سے ان میں وہ جوہر نظر نہیں آتا جو اسلامی لیڈرشپ کو جنم دے سکے، تو پھر جمہوری نظام قائم کرنے سے صالح قیادت کیسے بروے کار آسکے گی؟
جواب :ان دونوں کی حالت میں ایک بنیادی فرق ہے۔ عوام کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اگرچہ ان میں جہالت بھی بہت پھیلی ہوئی ہے، لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں۔ کسی بُرے سے بُرے اور بدکردار آدمی سے آپ بات کریں، تو تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ اس کی قدریں (values) ابھی وہی ہیں، جو ایک مسلمان کی ہونی چاہییں۔ اپنی تمام بدکرداریوں کے متعلق اسے یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے بُرا کر رہا ہے، بُرائی کو بھلائی کہنے والے آدمی مسلم معاشروں میں آپ کو بہت ہی مشکل سے ملیں گے۔
اس کے برعکس مغرب زدہ طبقے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں، اور ان کا فلسفۂ زندگی بدل گیا ہے۔ اسلام جن چیزوں کو بُرا کہتا ہے، وہ انھیں اچھا سمجھتے ہیں اور اسلام جن چیزوں کو نیکیوں سے تعبیر کرتا ہے، ان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسلامی روایات سے وہ منحرف ہوچکے ہیں بلکہ ان کی نگاہوں میں ان روایات کے لیے کوئی احترام نہیں ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں جو پروفیسر تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے اکثر اس خیال کے حامی ہیں کہ ’’انسانی تاریخ میں مسلمانوں نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا‘‘۔ ایسے استاد بھی ہماری درس گاہوں میں موجود ہیں جو فرائڈ کے نظریات کے مطابق انبیاے کرام ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی تصریح فرماتے ہیں۔ اُونچے سرکاری مناصب پر بلاتامل ایسے لوگ رکھے جاتے ہیں، جو شراب اور سود کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رقص و سُرود کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے عقائد اور عوام کے درمیان کوئی بھی مماثلت نہیں۔ اگر اقتدار اسلامی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو تو مسلمان عوام کے انداز و اطوار کو بغیر کسی جبر کے، صرف چند برسوں میں بالکل تبدیل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے رگ و ریشے میں اسلامی تصورات اور اقدار موجود ہیں، صرف ان کو اُبھار کر عملی شکل میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔
جواب : ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقامت ِ دین اور ظہورِ مہدی
سوال : کیا اقامت ِ دین ایک فرض ہے کہ جسے ہر زمانے اور ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ بات ملتی ہے کہ ظہورِ مہدی سے قبل اسلامی نظام قائم ہوسکے گا؟
جواب : قرآن میں تو خیر ظہورِ مہدی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ احادیث میںاس کا ذکر ضرور آیا ہے، مگر وہ بس اسی حد تک ہے کہ مہدی آئیں گے اور دنیا کو، جو ظلم سے بھر چکی ہوگی، عدل سے بھر دیں گے۔اس خوش خبری سے آخر یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ جب تک وہ نہ آئیں، اس وقت تک دنیا ظلم سے بھرتی رہے اور ہم اس کا تماشا دیکھتے رہیں۔ شیاطین کے دین قائم ہوتے رہیں اور اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے ہم امام مہدی کی تشریف آوری کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔
یہ تعلیم نہ اللہ نے دی ہے، نہ اللہ کے رسولؐ نے، اور قرآن و حدیث میں یہ بھی کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ امام مہدی کی آمد سے پہلے اللہ کا دین کبھی قائم نہ ہوسکے گا، یااسے قائم کرنے کی کوشش کا فریضہ مسلمانوں کے ذمے سے ساقط رہے گا۔ یہ بات ایک بشارت تو ضرور ہوسکتی ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں کوئی ایسی عظیم شخصیت اُٹھے گی جو تمام عالم میں اسلام کا جھنڈا بلند کردے گی، مگر یہ کوئی حکمِ امتناعی نہیں ہوسکتا کہ ہم دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کچھ نہ کریں۔
رہا یہ سوال کہ اقامت ِ دین فرض ہے یا نہیں؟ تو ایسا شخص جو قرآن و حدیث کو جانتا ہے، اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے انبیا بھی بھیجے ہیں، اپنا دین قائم کرنے کے لیے بھیجے ہیں۔ کوئی ایک نبی بھی لوگوں کو یہ سکھانے کے لیے نہیں بھیجا کہ وہ غیراللہ کا دین قائم کرنے والوں کے ماتحت بن کر رہیں۔ سورئہ شوریٰ دیکھیے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاؑ کا فرض یہ بیان کیا گیا کہ: اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط ’’اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘۔ سورئہ توبہ، سورئہ فتح اور سورئہ صف میں دیکھیے تین مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ پورے دین پر اسے غالب کردے‘‘۔ اب کون یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نبی برحق کے مقصد بعثت سے مختلف بھی ہوسکتا ہے؟(ہفت روزہ آئین)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔
یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:
وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے والا انسان جو عرب کی اس وقت کی حالت کو جانتا ہے، بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے کتنا صحیح نقشہ اس وقت کے عرب کے حالات کا کھینچا ہے۔ قبائل کے درمیان مختلف قسم کی گمراہیوں کے نتیجے میں اور جاہلی عصبیتوں کی وجہ سے اِس کثرت سے جنگیں ہوئی تھیں کہ ان میں سے بعض جنگیں سو سال تک طول کھینچ گئیں۔ اِس کیفیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عرب کتنا تباہ و برباد ہوا ہوگا۔
پھر عرب کی اپنی آزادی کی کیفیت یہ تھی کہ یمن پر حبش کا قبضہ تھا اور باقی عرب کا کچھ حصہ ایران کے تسلط میں تھا اور کچھ رُومی اثر کے زیرنگیں۔ پوری عرب دُنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس وقت کی دو بڑی طاقتوں ایران اور روم کی وہی اخلاقی اور سیاسی حالت تھی جو آج کل امریکا اور روس کی ہے۔
اِس حالت میں، جب کہ دُنیا قبائلی عصبیتوں اور مختلف قسم کی دھڑے بندیوں میں، جن کی سربراہی ایران اور روم کر رہے تھے، بٹی ہوئی تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ وہ دنیا کے لیڈروں کی طرح کسی قبیلے کا جھنڈا لے کر نہیں اُٹھے تھے، کسی قومی نعرے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں کیا، کوئی اقتصادی نعرہ بلند نہیں کیا۔ ان تمام چیزوں میں سے کسی کی طرف آپؐ نے دعوت نہیں دی۔
جس چیز کی آپؐ نے دعوت دی، اس کا پہلا جزو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو دوسری تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔
آپؐ کی دعوت اللہ کی طرف تھی، یہ کہ عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے اور اس کے سوا آدمی کسی کو کارساز نہ سمجھے۔ آپؐ نے یہ دعوت کسی مخصوص طبقے یا قوم کو نہیں دی بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کو دی۔ آپؐ کی دعوتِ توحید تمام بنی آدم کے لیے تھی اور آپؐ نے کسی گورے کو، کسی کالے کو، کسی عرب کو، کسی عجمی کو اس کی قومی یا علاقائی حیثیت سے نہیں پکارا بلکہ صرف ابنِ آدم کی حیثیت سے یاایھا الناس کہہ کر پکارا۔ پھر جو دعوت آپؐ نے دی، وہ بھی کوئی قومی یا علاقائی نہ تھی بلکہ اصلاح کی اصل جڑ، یعنی توحید خالص کی دعوت تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ: اصل خرابی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو چھوڑ کر مختلف قسم کے خدائوں کا دامن تھام لے، اور اصل اصلاح یہ ہےکہ وہ اللہ کا بندہ بن جائے۔ اگر یہ خرابی دُور ہوگئی تو اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی، ورنہ لاکھ جتن کے باوجود درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔
دوسری بات جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو توجہ دلائی، وہ آخرت کا تصور تھا۔ آپؐ نے فرد کو اس کی ذاتی حیثیت میں جواب دہ قرار دیا تاکہ ہرفرد محسوس کرے کہ اسے اپنے اعمال کی ذاتی حیثیت میں جواب دہی کرنی ہے۔ اگر اس کی قوم بگڑی ہوئی تھی تو وہ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ میرا جس قوم سے تعلق تھا، وہ گمراہ تھی۔
اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر قوم گمراہ تھی تو تم راہِ راست پر کیوں نہ رہے، تم کیوں شُتربے مہار بنے رہے؟
آپؐ نے پہلے لوگوں کے دلوں میں توحید اور آخرت کے دو بنیادی تصورات بٹھائے اور ان کو پختہ کرنے میں برسوں محنت کی، طرح طرح کے ظلم برداشت کیے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، لیکن آپؐ نے کسی پر ملامت نہ کی۔ اس مقصد کے لیے آپؐ نے پتھر اور گالیاں کھاکھا کر لوگوں کو سمجھایا کہ: اگر خدا اور آخرت کا تصور اِنسان میں نہیں ہے تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ جب یہ دونوں چیزیں آپؐ نے اپنی قوم کے ذہن میں بٹھا دیں ، تو پھر ان کے سامنے زندگی کا عملی پروگرام پیش کیا۔
اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ O حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ O (التکاثر۱۰۲:۱-۲) تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں جا اُترو گے۔
یعنی آدمی کا دل دُنیا کی دولت اور کثرت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی کو دولت کی ایک وادی مل جائے تو وہ دوسری کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اِسی حرص کی اصلاح کے لیے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جہاں زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدمی حلال کمائی کی فکر کرے۔ اگرچوری کرنے والا زکوٰۃ کی فکر کرے گا تو اسے خود بخود کھٹکا ہوگا کہ اس کی کمائی بھی حلال ہونی چاہیے۔ اسے حلال کی کمائی اور حلال خرچ کی عادت پڑے گی۔ و ہ دوسروں کے حقوق پہچانے گا، کیوں کہ اسے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی کمائی میں دوسروں کا بھی حق ہے:
وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO(الذّٰریٰت۵۱:۱۹) اور ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔
یہ دونوں عملی پروگرام نماز اور زکوٰۃ اِنسان کی اصلاح کی بنیاد ہیں۔ یہ چودہ سو برس پہلے کا اصلاحی پروگرام جس طرح عرب کے لیے اصلاح کا پروگرام تھا اسی طرح دُنیا بھر کے لیے اصلاح کا پروگرام ہے اور اسی طرح آج بھی انسان کی اصلاح کا پروگرام ہے۔
اگر کوئی آدمی خدا کو نہیں جانتا، آخرت سے بے خوف ہے، اس کے سامنے کوئی معاشی پروگرام رکھ دینا بے معنی ہوگا۔ خدا اور آخرت کے خوف کے بغیر کوئی سیاسی اور معاشی اِصلاح ہونہیں سکتی اور دُنیا میں جو مختلف قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ، اُن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ اور آخرت پر یقین اور جواب دہی کے خوف کے بغیر جو بھی انسان یا جماعت اصلاح کے لیے اُٹھے گی وہ اصلاح کے بجاے فساد کا موجب ہوگی۔ وہ درستی کے بجاے اُلٹا ظلم میں اضافہ کرے گی۔ جو آدمی بااختیار ہو اور بے خوف ہو وہ رشوت سے کیسے بچے گا۔ آپ لاکھ قانون بنایئے لیکن اس کی تنفیذکے لیے جس قسم کے انسان درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں گے۔
قانون کی پوزیشن بھی یہی ہے کہ جیسے کوئی شخص نماز پر اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہے لیکن جب اذان ہو تو وہ نماز کے لیے اُٹھے نہیں۔ زکوٰۃ کا مُدعی ہو لیکن جب طلب کی جائے تو کہے: ع
گر زر طلبی سخن دریں است
ایسے شخص کے لیے کون سی تحریک ہوگی جو اس کو اصلاح پر آمادہ کرسکے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے دل میں کوئی خوف نہ ہوگا تو اس میں کبھی دین کے لیے حرکت نہ پیدا ہوسکے گی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انھی نکات پر مکّی دور میں لوگو ں کی اصلاح کی۔ جب آپؐ نے مکّے سے ہجرت فرمائی تو ان اصلاح یافتہ لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت آپؐ کے ساتھ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد بدر کے معرکے کے وقت ۳۱۳ تھی اور جب یہ اُحد میں گئے تو ان کی کُل تعداد ۷۰۰ تھی۔ یہ تعداد مادی اعتبار سے کوئی اُمیدافزا نہ تھی لیکن چونکہ یہ گروہ اِصلاح یافتہ تھا، ان کو اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقینِ کامل تھا، اِس لیے وہ اپنے سے کئی گنا مخالفین پر غالب آئے اور نوسال کی مدت نہیں گزرنے پائی تھی کہ وہ پورے خطۂ عرب پر چھا گئے۔
یہ خیال نہ کیجیے کہ ان کی تلوار کی کاٹ بڑی سخت تھی کہ عرب اس کی مزاحمت نہ کرسکا اور مسخر ہوگیا۔ درحقیقت یہ ان کے ایمان و اخلاق کی طاقت تھی، جو سب کو مسخر کرگئی۔ جہاں تک جنگوں اور معرکوں کا تعلق ہے، ان میں کام آنے والوں کی کُل تعداد تاریخ سے صرف ۱۲۰۰ ملتی ہے۔ گویا تسخیر کا یہ عمل میدانِ کارزار میں نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ساری تاثیر، ساری طاقت اور ساری قوت اس کیریکٹر کی تھی جو حضوؐر نے اپنے صحابہؓ کے اندر چار بنیادوں (توحید، آخرت، نماز اور زکوٰۃ) پر استوار کیا تھا۔ یہ اسی کیریکٹر کا نتیجہ تھا کہ عین لڑائی کے وقت بھی انھوں نے حق و انصاف کا دامن نہ چھوڑا۔ انھوں نے یہ لڑائیاں لُوٹ اور مالِ غنیمت کے لیے نہ کی تھیں بلکہ ہدایت کی روشنی پھیلانے کے لیے کیں۔ یہ سارے کرشمے اس سیرت کے تھے جو حضوؐر نے بڑی محنت سے تیار کی تھی۔ انھوں نے اگر کبھی کسی جگہ حکومت بھی کی تو لوگ ان کے اقتدار سے زیادہ ان کے کردار سے متاثر ہوئے۔
انسان کی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی بوریا نشین حاکم نہ دیکھے تھے جنھوں نے اپنے آرام اور ٹھاٹ باٹ کی بجاے خلقِ خدا کو آرام پہنچایا۔ وہ جاگتے تھے تو لوگ سکون سے سوتے تھے۔ ان کی حکومت جسموں سے زیادہ دلوں پر تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم آج بھی موجود ہے۔ مسلمان آج بھی اسے اپنالیں تو ان کی حکمرانی آج بھی اسی طرح کرئہ ارض پر قائم ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ O (الانبیا ۲۱:۱۰۷)اے رسولؐ، ہم نے تجھے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک انسان کے لیے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لیے ایک تقریر کیا، سیکڑوں تقریریں اور سیکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوئوں کا شمار نہیں کرسکتا۔ اِس لیے میں آ پ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اِکتفا کروں گا۔ اِس زاویے سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک ہی ہستی ہے جو انسان کے لیے حقیقتاً رحمت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سماج کے لیے وہ اصول پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انھی اصولوں پر ایک عالمی حکومت (World State) بھی معرضِ وجود میں آسکتی ہے، اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہوسکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔
اِس نکتے کی وضاحت کے لیے میں پہلے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے اصول بتائوں گا تاکہ تقابلی مطالعے سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اصول پیش کیے تھے۔ دُنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں ، انھوں نے جو بھی اصول پیش کیے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انھیں درندہ بنانے والے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ وہ ایران میں رہے تب بھی اِسی تصور کے ساتھ رہے اور ہندستان میں آئے تب بھی ان کے ساتھ یہی تصور تھا۔ ان کے نزدیک برہمن سب ذاتوں سے بلندوبرتر تھا اور باقی جتنے بھی طبقات یا ذاتیں معاشرے میں پائی جاتی تھیں، سب ان سے فروتر اور کم حیثیت تھیں۔ آریہ تہذیب نے واضح طور پر انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدایش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودربرہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دُوسری ذات میں منتقل ہوسکتی تھی۔ ان کے نزدیک کچھ انسان پیدایشی طور پر برتر پیدا ہوئے تھے اور کچھ ازل ہی سے کم تر اور نیچ تھے۔
اسی اصول کو جرمنی کے قوم پرست ڈکٹیٹر ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ اور نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدایشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہودیوں کے لیے انصاف کا ترازو اور ہے اور غیر یہودیوں کے لیے اور۔ چنانچہ تالمود میں یہاں تک لکھا ہوا ہے کہ: ’اگر کسی اسرائیلی اور غیراسرائیلی کے درمیان تنازع ہوجائے تو اسرائیلی کی بہرصورت رعایت کی جائے‘۔اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔ ان کی نگاہ میں :’تمام غیریونانی گھٹیا اور پست تھے‘۔
دوسری طرف آپ دیکھیے تو یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔ مغربی دُنیا سفید نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ رنگ دار نسل سے برتر ہیں۔ اسی زعمِ باطل کا نتیجہ ہے کہ آج دُنیا ظلم و فساد میں سرتاپا ڈوبی ہوئی ہے اور صرف رنگ کی بنا پر بے حدوحساب ظلم دنیا میں توڑا جارہا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک اس تصور کا جائز ہونا تھا جس نے اُنھیں اُکسایا کہ وہ سیاہ فاموں کو افریقہ سے غلام بناکر لائیں اور بیچیں اور ان پر جس طرح چاہیں ظلم ڈھائیں، ان کے لیے حلال ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلی صدی میں کم از کم ۱۰کروڑ انسان غلام بنائے گئے اور ان کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا کہ ان میں سے صرف ۴کروڑ جاں بر ہوسکے۔
یہی ظلم مختلف علاقوں میں آج بھی انسان، انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔
اِسی قبیل سے علاقائی قومیّت (Territorial Nationalism) کا ایک نشّہ بھی ہے۔ دُنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصّب کی بنیاد پر چھڑیں۔ لیکن جیساکہ اس عصبیت نے اپنے عملی مظاہرے سے دکھا دیا ہے کہ یہ آدمیوں کو جمع کرنے والی نہیں پھاڑنے والی اور ان کو درندہ بنانے والی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوسکتا اور کوئی غیرملکی ملکی نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آدمی اپنی وطنیت کو تبدیل کرسکے۔ وہ جہاں پیدا ہوا ہے بہرحال اسی مقام کا باشندہ ہوگا۔
یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہرقبیلہ اپنے آپ کو دوسرے قبیلے کے مقابلے میں برتروفائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک بُرا آدمی رکھتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مسیلمہ کذّاب اُٹھا، تو اس کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ ہماری نگاہ میں ہمارا جھوٹا آدمی بھی قریش کے سچّے آدمی سے بہتر ہے۔
جس سرزمین میں اِنسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکارانسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلندکرنے کے لیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:
اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔
اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:
اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اِس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اُس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔(الحجرات ۴۹:۱۳)
آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اِس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔ یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصو د تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سواکچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں توایک بستی بن جاتی ہے اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے اور یہ فرق باہمی تعاون کے لیے ہے نہ کہ بُغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔
اب دُنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بناپر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر لیکن اِس بناپر برتری نہیں کہ کون بُرائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے۔ کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔ خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے۔ لیکن د ُور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔
حضوؐر فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔آپؐ نے اس بنیاد پر ایک اُمت بنائی اور اسے بتایا کہ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)۔ اُمت ِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانب داری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہرلحاظ سے غیرجانب دار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانب دار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھو دے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اسے بھی سزا دینے میں تامّل نہیں کرے گا۔ جج کی یہی حیثیت پوری اُمت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم اُمتِ عادل ہے۔
اب یہ اُمتِ عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتاہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سیّد اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اِس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضوؐر نے اسی لیے فرمایا تھا:
کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔
اِسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔
غزوئہ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اِتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجروں کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی تو غضب ناک ہوکر فرمایا:
یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے؟ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔(مسلم:۴۷۸۸)
اِس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری اُمت ِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا یہ جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصاردونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اُٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے: کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ (النساء۴:۱۳۵)’’عدل کو قائم کرنے والے بنو‘‘۔
اس اُمت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دُنیا کو اسلام کے قدموں میں لاڈالا۔ خلافت ِ راشدہ کے عہدمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اِس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اُونچ نیچ کا فرق تھا جیساکہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فی صد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ۹۹فی صد کام کیا۔
آج دنیا کا کون سا خطّہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے۔ حج کے موقعے پر ہرملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکا کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا: ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دُنیا کے تمام اِنسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔
مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی ۸۰۰ برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اِسی طرح ہندستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں اُبھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پِٹے، پھر سکھوں سے پِٹے، اور آخر میں چھے ہزار میل دُور سے ایک غیرقوم آکر ان پر حاکم بن گئی۔
اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرِپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کر رہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنت ِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔
آج مسلمان مسلمان کو کھائے جا رہا ہـے!
اور یہی معاملہ آج بھی ہے۔ عرب عرب کو کھائے جارہا ہے۔ یمن میں اڑھائی لاکھ عرب خانہ جنگی میں مارے گئے۔ عرب اسرائیل جنگ میں بھی شکست کی یہی بڑی وجہ تھی۔ ایک زبان اور ایک نسل رکھتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے۔ اُردن، شام اور لبنان پہلے ۱۹۴۸ء میں پِٹے، پھر ۱۹۵۶ء میں پِٹے اور پھر ۱۹۶۷ء میں پِٹے، حالانکہ یہ سب اورمصر جمع ہوجائیں تو اپنی تعداد اور رقبے کے لحاظ سے اسرائیل سے کئی گنا بڑے ہیں۔
میں نے آپ کو تاریخ سے بتادیا ہے کہ مسلمان جب اپنے کلمے پر جمع ہوئے تو غالب آئے لیکن جب وہ رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر جمع ہوئے تو کٹے اور مٹے۔ اسپین جیسی عظیم الشان سلطنت مسلمانوں سے اِسی وجہ سے چِھنی۔ ہندستان میں وہ اِسی وجہ سے مغلوب ہوئے، اور اسی وجہ سے انھیں شرق اوسط میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکرِ رسولؐ سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور lip service ہوکر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیرویِ رسولؐ کے لیے مقدّر ہے۔ حدیث میں اِسی لیے آیا ہے: اَلْقُرْانُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ (مسلم:۳۵۴)’’قرآن تم پر حجت ہے، تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف‘‘۔
کوئی قوم اس کی پیروی کرتی ہے تو یہ قرآن اس کے حق میں حجت ہے اور جو پیروی نہیں کرتی اور وہ جانتی ہے کہ یہ حق ہے تو یہ اس کے خلاف حجت بن کر کھڑا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی شخص قانون کو جاننے والا ہے اور دوسرا اس سے ناواقف ہے۔ قانون اس کے خلاف حجت ہے، جو قانون کو جانتا ہے پھر بھی اس کی خلاف وزری کرتا ہے۔ اِس کلمے کو لے کراُٹھیں گے تو نہ صرف اپنا ملک مضبوط و مستحکم ہوگا بلکہ مشرق و مغرب مفتوح ہوجائیں گے، لیکن کلمے کو چھوڑا اور قومیتوں کے پیچھے پڑے تو پرکاہ کی حیثیت باقی نہ رہے گی۔
میری دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا سچّا اُمتی بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ: ’’ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘، بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے:
اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہرغلطی، ہر کمزوری اور ہرخامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو:
اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کرجائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں، اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہاے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ O [یونس ۱۰:۸۵] خدایا، ہم پر ایسا فضل فرما کہ ظالم لوگوں کے لیے ہمیں فتنہ نہ بنا۔
یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے، نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۳۰۶-۳۰۷)