سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد، نسائی)

یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطبات میں سے ہے جو آپؐ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو اس مبارک مہینے کی اہمیت اور برکات سے آگاہ فرمانے کے لیے دیا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ  نے پہلی بات یہ بتائی کہ رمضان بڑی ہی برکت والا مہینہ ہے اور اس کے روزے امت پر فرض کیے گئے ہیں۔

  • برکت کا مفھوم: برکت کے اصل معنی ہیں افزایش کے۔ رمضان کے مہینے کو مبارک مہینہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر بھلائیاں نشوونما پاتی ہیں اور نیکیوں کو افزونی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس برائیاں بڑھنے کے بجاے سکڑتی چلی جاتی ہیں اور ان کی ترقی رک جاتی ہے۔ (کتاب الصوم، ص۴۳)

ماہِ رمضان کے بزرگ یا بابرکت ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کے دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں فی نفسہٖ کوئی ایسی برکت شامل ہے جو لوگوں کو خود بخود حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا مطلب   یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ایسے مواقع پیدا کردیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حدوحساب برکات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا، وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیںگے۔ اس لیے اس مہینے کے بزرگ اور بابرکت ہونے کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر تمھارے لیے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کردیے گئے ہیں۔ (ایضاً، ص ۵۲)

  • رمضان میں فیاضی: حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپؐ  ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہرسائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (بیہقی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ  کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ  معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ  کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ  کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیساکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ  رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضوؐر  کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ  رمضان میں ہرقیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کر کے ان کو آزاد کردیتے تھے۔ اس طرح کی بعض دوسری توجیہات بھی اس قول کی کی گئی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول (parole) پر رہا کرنے کا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کر دینا۔ قیدی کو اس اُمید پر رہاکردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے، وہ یہ خیال کر کے کہ اب مجھے کون پکڑتا ہے، کسی ایسی جگہ فرار ہوجائے گا، جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو، جن کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی، رمضان کے زمانے میں مشروط طور رہا کر دیتے ہوں تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)

  • روزہ اور قرآن:حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتا ہے کہ اے رب! میں نے اس کو دن بھر کھانے (پینے) اور شہوات سے روکے رکھا، تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہتا ہے کہ (اے رب!) میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، پس دونوں کی شفاعت قبول فرما لی جائے گی۔ (بیہقی)

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روزہ اور قرآن کوئی جان دار ہیں، جو کھڑے ہوکر یہ بات کہتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک روزہ دار کا روزہ رکھنا اور قرآن پڑھنے والے کا قرآن پڑھنا دراصل خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے۔ جب روزہ دار اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اس بندے نے روزہ رکھا تو اس پیشی کے ساتھ ساتھ روزے کی یہ شفاعت بھی موجود ہوتی ہے کہ یہ بندہ آپ کی خاطر دن بھر بھوکا پیاسا رہا۔ یہ چھپ کر کھا پی سکتا تھا اور دوسری خواہشات بھی پوری کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس بندے نے چونکہ آپ کی خاطر دن بھر بھوک پیاس برداشت کی ہے اور اپنی دوسری خواہشات پر بھی پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں، اس لیے اس کے قصور معاف فرما دیجیے۔ اسی طرح ایک شخص رات کو جو قرآن مجید پڑھتا ہے، جب وہ قرآن اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے کہ آج اس بندے نے اتنا قرآن پڑھا ہے توقرآن کا وہ پیش کیا جانا ہی  خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے، اور وہ شفاعت یہ ہے کہ اس بندے نے دن بھر کے   روزے سے تھکاماندہ ہونے کے باوجود آپ کی رضاجوئی کی خاطر رات کو (نماز میں) کھڑے ہوکر قرآن پڑھا، اس لیے اس کے گناہ معاف کردیے جائیں۔

ظاہر بات ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز مومنین صالحین کی شفاعت فرمائیں گے، اسی طرح خود آدمی کے اعمال بھی اس کے حق میں شفیع ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعمال خدا کے حضور یہ شفاعت کرتے ہیں کہ یہ آدمی یہ یہ نیکیاں کرکے آیا ہے، اس لیے اسے بخش دیجیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں روزے اور قرآنِ مجید کی یہ شفاعتیں قبول فرما لیتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۵-۴۶)

  • دوزخ سے رھائی: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے‘‘ (البیھقی)۔گویا ادھر اس مبارک مہینے کی آمد پر آپ روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ادھر اللہ کی رحمت آپ پر سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ پھر رمضان کے وسط تک پہنچتے پہنچتے اللہ تعالیٰ آپ کے قصوروں سے درگزر فرما لیتا ہے اور آپ کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب آپ رمضان کے آخر تک پہنچتے ہیں تو ادھر آپ آخری روزہ رکھتے ہیں، ادھر آپ کو دوزخ کے خطرے سے آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔

اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب آخری روزے کی وجہ سے آپ کو دوزخ سے آزادی حاصل ہوگئی تو اب آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں، اب آپ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ سب پابندیاں توڑ ڈالتے ہیں جو اس مبارک مہینے میں انھوں نے اپنے اُوپر عائد کر رکھی ہوتی ہیں۔ بس رمضان ختم ہوا اور وہ عین عید کے دن (یعنی شوال کی پہلی ہی تاریخ کو) سینما دیکھنے چلے گئے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ناچ گانے کا شوق بھی کرلیا۔ پھر کہیں بیٹھ کر کچھ تھوڑا بہت جوا وغیرہ بھی کھیل لیا۔ یہ سب کچھ اگر ایک شخص نے کرڈالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر وہ دوزخ کے خطرے سے آزاد ہوا اور اِدھر اس نے پھر اس میں کودنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی بھلا آدمی، جس کے دل میں ایمان کی کچھ روشنی اور خوفِ خدا کی کوئی رمق موجود ہو یہ کھیل نہیں کھیل سکتا۔(ایضاً،ص ۵۸-۵۹)

طلاق کے احکام سورئہ بقرہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔ یہ سورت نازل کر کے بہت سی اُن غلطیوں کی اصلاح کی گئی جو لوگ طلاق کے معاملے میں بالعموم کرنے لگے تھے۔

[اس سورۃ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو طلاق اور عدّت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہوچکی ہیں: ’’طلاق دوبار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔’’اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں… اور اُن کے شوہر اس مدّت میں اُن کو اپنی (زوجیت) میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں‘‘(البقرہ ۲:۲۲۸)۔’’ پھر اگر وہ (تیسری بار) اُس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اُس کے لیے حلال نہ ہوگی، یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہوجائے‘‘(البقرہ ۲:۲۳۰) ۔’’ جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدّت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا      تم مطالبہ کرسکو گے‘‘ (الاحزاب ۳۳:۴۹)۔’’ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں  چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘(البقرہ ۲:۲۳۴)۔

  • یہ تحریر سورئہ طلاق کے اس درسِ قرآن پر مبنی ہے جو سید مودودیؒ نے یکم اور ۸؍اکتوبر ۱۹۶۷ء کو مسجدمبارک،لاہور میں ہفتہ وار درس کے تحت دیا تھا۔ اس میں فہم قرآن کے حوالے سے تفہیم القرآن سے مختلف نکات سامنے آئے ہیں جن کی اہمیت کے پیش نظر یہ درس مرتب کیا گیا ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورئہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اُس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے: ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اسے استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جن سے  حتی الامکان علیحدگی کی نوبت نہ آنے پائے، اور علیحدگی ہو توبدرجۂ آخر ایسی حالت میں ہو، جب کہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اِس شعبے کی تکمیل کردی جائے۔(دیکھیے: تفہیم القرآن، جلد۵، سورئہ طلاق، ص۵۵۰- ۵۵۲)

بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ج لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَـیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا o (الطلاق ۶۵:۱)  اے نبیؐ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنھیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو، اور عدّت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے۔ (زمانۂ عدّت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالواَ ور نہ وہ خود نکلیں، اِلاّ یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے۔

یہ سورئہ طلاق کی پہلی آیت ہے۔  اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو، تو اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو۔ عدّت کہتے ہیں اس مدت کو جو طلاق کے بعد، یا شوہر کی وفات کے بعد، اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہے کہ اس کے دوران میں عورت دوسرا نکاح نہ کرے۔ اس مدت کو شریعت کی اصطلاح میں عدّت کہتے ہیں۔

’’عدّت کے لیے طلاق دو‘ ‘ کے دو معنی ہیں: ایک معنی یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں طلاق مت دو بلکہ ایسی حالت میں طلاق دو، جب کہ وہ پاک ہوں۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے طلاق دو۔ یہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اگر عورت کو طلاق دینی ہو تو ایامِ ماہواری میں طلاق نہ دی جائے بلکہ جب وہ ایام گزر جائیں تو حالت ِ طُہر میں طلاق دی جائے، اگر طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دی، جب کہ وہ حالت ِ حیض میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے اس طرح (طلاق دینے کا) حکم نہیں دیا ہے، بلکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دی جائے۔ یہ مضمون کہ ’’اُن کو  اُن کی عدّت کے لیے طلاق دو‘‘ اس بات سے نکلتا ہے کہ عدّت کا شمار طُہر سے ہوتا ہے، (ایامِ) حیض سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب یہ فرمایا کہ ان کی عدّت کے لیے ان کو طلاق دو تو آپ سے آپ یہ بات نکل آئی کہ طلاق حالت ِ طُہر میں دینی چاہیے نہ کہ حالت ِ حیض میں۔

طلاق میں حکمت کا پھلو

اس بات پر غور کیجیے کہ اس حکم کے اندر کتنی بڑی حکمت ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں عورت اور اس کے شوہر کے درمیان ایک طرح کی دیوار حائل ہوتی ہے۔ اگر عورت حالت ِ طُہر میں ہو تو فریقین کو ایک دوسرے کی طرف رغبت ہوگی۔ اس صورت میں طبیعت طلاق کی طرف کم مائل ہوگی، اِلاّ یہ کہ نفرت اور ناراضی کا کوئی بڑا گہرا سبب ہو۔ لیکن ایامِ ماہواری میں جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے دُور ہوتے ہیں، اس زمانے میں اگر شوہر کے دل میں بیوی کی طرف سے کوئی کراہت یا نفرت یا اور اس قسم کی کوئی حالت پیدا ہو تو عورت کے پاس اس نفرت کو دُور کرنے کا کوئی مؤثر چارئہ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے فرمایا کہ اگر طلاق دینی ہی ہو تو حالت ِ طُہر میں دو، جس میں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان آسانی سے موافقت پیدا ہونے کی سبیل نکل سکتی ہے۔

دوسری اس سے بھی زیادہ گہری حکمت اس معاملے میں یہ ہے کہ ایامِ ماہواری میں بالعموم عورت کی طبیعت میں غصہ، چڑچڑاپن اور ہٹ سی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ ایک طبّی حقیقت ہے، حتیٰ کہ موجودہ زمانے کے ڈاکٹر تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت سے کوئی جرم سرزد ہوا ہو تو پہلے اُس کا    طبی معائنہ کرکے یہ تحقیق کرلی جائے کہ اس زمانے میں کہیں وہ ایامِ ماہواری میں تو نہیں تھی کیونکہ بعض اوقات اس زمانے میں اس کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں موجودہ زمانے کی جتنی سائنٹی فک تحقیقات ہیں وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایامِ ماہواری میں عورت معمول کی حالت میں (normal) نہیں ہوتی۔ یہ ایک غیرطبعی (abnormal) حالت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اگر عورت، مثلاً موٹر چلائے تو غلطی کرجائے گی، ٹائپ کرے تو غلطی کرجائے گی۔ گویا اس حالت میں اس سے بہت سے کاموں کے اندر غلطی سرزد ہوجاتی ہے۔ ان ایام میں بعض اوقات نہایت شریف اور نیک عورتوں سے چوری کا فعل سرزد ہوجاتا ہے۔ اگر وہ کسی چیز کو اچھی نگاہ سے دیکھ لیں، وہ چیز اُن کو پسند آجائے تو بعض اوقات اس کو اُڑا لیتی ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان ایام میں ان کو اپنے اُوپر قابو نہیں ہوتا۔ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرجائے جس سے میاں بیوی کے درمیان کوئی نزاع اور بُعد پیدا ہوجائے۔ اس طرح اگر ایک طرف تو یہ صورت ہو، اور دوسری طرف یہ صورت ہو کہ جو چیز ان کو ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رکھتی اور ایک دوسرے کی طرف راغب کرتی ہے وہ اس دوران میں موجود نہ ہو، تو اس بنا پر حکم دیا گیا کہ حالت ِ حیض میں کبھی عورت کو طلاق نہ دو۔

طلاق دینے کا صحیح طریقہ

اس حکم میں دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ طلاق عدّت کی گنجایش رکھتے ہوئے دی جائے۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دے کر نکاح کا جھٹکا مت کردو، بلکہ اتنی گنجایش رکھو کہ عدّت کے دوران میں رُجوع کرسکو۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے تو عدّت کے دوران میں وہ جس وقت چاہے رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ دو طلاق دے تب بھی عدّت کے دوران میں وہ رُجوع کرسکتا ہے۔ اگر وہ تین طلاق دے دے تو پھر رُجوع کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ اس طرح طلاقِ مغلظ ہوجائے گی۔ پھر بیوی اس کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گئی، اِلاّ یہ کہ اس کا کسی اور مرد سے نکاح ہو اور وہ شوہر اس کو اپنی مرضی سے طلاق دے دے۔ تب کہیں جاکر اگر یہ پہلے میاں بیوی چاہیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس لیے شریعت کا منشا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق دے بھی تو اس کو کم سے کم تین مہینے کی مدت ایسی مل جائے گی   جس میں وہ باربار اچھی طرح غور کرسکتا ہے کہ آیا اسے اس عورت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے یا  اس سے نباہ کی کوئی صورت ممکن ہے۔ اس دوران میں عورت کے لیے بھی یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر کو راضی اور مطمئن کرلے کہ اب تک جو وجوہ نااتفاقی کے تھے آیندہ وہ نہیں ہوں گے۔

یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ طلاق کا لفظ آدمی کو زبان سے نکالنا ہی اس وقت چاہیے، جب کہ وہ واقعتا اس کو چھوڑنے کا ارادہ اور فیصلہ کرچکا ہو، ورنہ طلاق دینا کوئی کھیل نہیں۔ یہ بات اس کو اچھی طرح یاد رہنی چاہیے کہ اگر ایک آدمی ایک عورت کو تین مرتبہ طلاق دینے کا حق استعمال کرلیتا ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوجائے گی۔ اس وجہ سے ایک آدمی طلاق کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے دس مرتبہ اس پر سوچ لے کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ سلامتی اس میں ہے کہ اگر وہ یہ لفظ زبان سے نکالے بھی تو ایک مرتبہ نکالے تاکہ اس کے بعد اگر عدّت گزر بھی جائے، یا دوطلاق کی وجہ سے طلاق بائن ہوجائے اور وہ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے حلالہ وغیرہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ چنانچہ دو مرتبہ بھی اگر آدمی نے طلاق دی ہو تو عدّت کے دوران میں رُجوع بھی ہوسکتا ہے اور اگر عدّت گزر جائے تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتا ہے، لیکن تین مرتبہ طلاق دینے کے بعد قصہ ختم ہوجاتا ہے، اور رُجوع کی کوئی گنجایش نہیں رہتی۔ پھر لوگ ایسے مفتی تلاش کرتے پھرتے ہیں جو ان کے لیے بغیر تحلیل (حلالہ) کے رُجوع کی گنجایش پیدا کردیں، یا پھر حلالہ کی ایسی شکلیں تجویز کریں جو شریعت کے ساتھ کھیل کرنے سے کم نہیں ہوتیں، اور جن کا کوئی اخلاقی یا شرعی جواز نہیں ہوتا۔ شریعت میں ایسی سازشی تحلیل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔

رسولؐ اللہ کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین مرتبہ طلاق دے دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ گویا یہ فعل اس قدر بُرا فعل ہے کہ نبیؐ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ہاتھ اُٹھا کر فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلنے لگے ہو درآں حالیکہ میں ابھی تمھارے درمیان موجود ہوں۔

حضرت عمرؓ اُس شخص کو مارتے تھے جو بیک وقت تین طلاق دیتا تھا اور دُرّے سے اس کی خبر لیتے تھے۔ یہ ایک طرح سے جرم ہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق دے دے۔ قرآن مجید ہدایت دیتا ہے کہ اگر طلاق دو تو عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو۔

اس کے بعد فرمایا گیا: اَحْصُوْا الْعِدَّۃَ(۶۵:۱) ’’عدّت کا شمار کرو‘‘، یعنی جس روز طلاق دی جائے وہ تاریخ نوٹ کرلی جائے اور اس کو یاد رکھا جائے۔ میاں اور بیوی دونوں یاد رکھیں تاکہ عدّت کا ٹھیک وقت پر آغاز ہو اور ٹھیک وقت پر ختم ہو۔ مثلاً فرض کیجیے عدّت ختم ہونے میں تین دن رہ گئے ہیں تو شوہر آخری مرتبہ سوچ لے کہ اس بیوی کو رکھنا ہے یا رخصت کرنا ہے۔ برابر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اب اتنا وقت باقی ہے۔ اس دوران میں عورت بھی سوچ لے کہ آیا مجھے   اُس شخص کے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہونا ہے، اور مرد بھی سوچ لے کہ کیا مجھے اُس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہے۔ اس طرح آخر وقت تک اس کا خیال رکھا جائے، کیونکہ عدّت کے خاتمے سے پہلے کسی وقت بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔ ایک رات یا چند گھنٹے پہلے بھی رُجوع ہوسکتا ہے۔

وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ (۶۵:۱)،’’اور ڈرو اللہ سے جو تمھارا رب ہے‘‘۔یعنی ان چیزوں کو کھیل نہ بنائو۔ یہ بڑے سنجیدہ معاملات ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایک آدمی اگر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ بڑا نازک اور اہم کام ہے۔ اگر زوجین کے بچے ہوں تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے مستقبل کو ہمیشہ کے لیے خطرے میں ڈال دیا گیا۔ اگر بچے نہیں ہیں تب بھی اس مرد کے لیے دوبارہ نکاح آسان کام نہیں ہوتا، اور اسی طرح عورت کے لیے بھی بڑی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ جس شخص نے طلاق دی ہو اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں فوراً یہ شک پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ آدمی جھگڑا لو معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ ایک بیوی کو چھوڑ چکا ہے تو کوئی دوسرا شخص ا س کو اپنی بیٹی دیتے ہوئے گھبرائے گا۔ کوئی دوسری عورت اس سے نکاح کرتے ہوئے گھبرائے گی کہ معلوم نہیں یہ کس مزاج کا آدمی ہے۔ یہ ایک عورت کو چھوڑ چکا ہے تو کیا خبر مجھے بھی چھوڑ دے۔عورت کے متعلق بھی ہزار قسم کی بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ تو نہ آدمی کے لیے دوبارہ نکاح کرنا آسان ہوتا ہے اور نہ اس عورت کے لیے آسان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور ان چیزوں کو کھیل مت بنائو۔ اور اگر کسی کو طلاق دینی ہی ہو تو___ جیساکہ فرمایا کہ:عدّت کے دوران میں رُجوع کی گنجایش رکھتے ہوئے دو اور عدّت کا شمار ملحوظ رکھو۔

طلاق بائن کے باوجود خاوند کے گہر رھنا

لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ(۶۵:۱)،اور اُن کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔

مطلب یہ ہے کہ عدّت کا زمانہ بیوی شوہر کے گھر میں ہی گزارے۔ طلاق دے کر اس کو رخصت نہ کردیا جائے۔ دونوں اسی گھر میں رہیں تاکہ اگر طبیعت میں ذرہ برابر بھی میلان باقی ہے تو اس مدت کے اندر وہ رُجوع کرلیں۔ رخصت کردینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے رُجوع کے امکانات کو خود ختم کردیا۔ اور اگر عورت خود نکل گئی تو بھی نتیجہ ظاہر ہے، اور یہ بات دونوں کے لیے حماقت اور عاقبت نااندیشی کی بات ہے۔

اس لیے یہ ہدایت کی گئی کہ طلاق کے بعد نہ عورت خود گھر سے نکلے اور نہ تم اس کو نکالو، بلکہ اس دوران میں اسے اپنے گھر میں ہی رکھو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر طلاق بائن ہوجائے تب بھی عورت گھر سے نہ جائے، اگرچہ اس دوران میں اس کا نفقہ شوہر کے ذمّے نہیں ہوتا۔ لیکن اگر طلاق رجعی ہے، یعنی جس کے اندر رُجوع کی گنجایش ہے، تو جس زمانے میں عورت عدّت شوہر کے گھر میں گزار ر ہی ہو تو اس زمانے کا اس کا نان نفقہ شوہر کے ذمے ہے۔

اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط(۶۵:۱)،اِلا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔

عورت کو گھر سے نکالنا صرف اس صورت میں صحیح ہے، جب کہ وہ کسی کھلی فحش حرکت کا اِرتکاب کرے۔ کھلی فحش حرکت کا اِطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو ایسی سخت بدزبانی، جو ناقابلِ برداشت ہو اور دوسرے بدکاری۔ بدکاری ضروری نہیں کہ وہ عملی ہو بلکہ اگر اس سے بداخلاقی کسی ایسی شکل میں ظاہر ہو جس سے اس کے شوہر کے دل میں اس کے لیے دوبارہ میلان کی گنجایش ختم ہوجائے یا اس کی وفا پر اعتماد باقی نہ رہے۔ ان دو چیزوں کے سوا کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ اجازت ہو کہ عورت کو طلاق دینے کے بعد گھر سے رخصت کردیا جائے۔

حدود اللّٰہ سے تجاوز، اپنے اُوپر ظلم

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط (۶۵:۱)،  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپرخود ظلم کرے گا۔

دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ حدیں تمھاری بھلائی کے لیے مقرر کی ہیں، تمھاری مصلحتوں کو ملحوظ رکھ کر حکیمانہ حدود کا تعین کیا ہے تاکہ تمھاری زندگیاں خراب نہ ہوں۔   اب اگر تم اِن حدود کو توڑتے ہو تو اپنا ہی کچھ بگاڑتے ہو، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ اللہ کی حدود کو توڑنے والا اللہ کا کیا نقصان کرتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی شخص حفظانِ صحت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جن سے اس کی صحت خراب ہوجائے تو سوال یہ ہے کہ اس نے اللہ کا یا کسی کا کیا نقصان کیا، اس نے اپنی ہی صحت بگاڑی اور اپنا ہی نقصان کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو حدیں انسان کی معاشرتی زندگی کے لیے مقرر کی ہیں وہ اس کی بھلائی کے لیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔

اب آپ دیکھیے کہ اگر کوئی شخص غصے میں آکر بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو ایک غلط کام کرتا ہے جس کا نقصان اسی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے بیوی سے لڑائی جھگڑے کا مطلب لازمی طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب دونوں کے درمیان بات بگڑے تو ایک دفعہ تو طلاق کا لفظ زبان پر آئے گا ہی! یعنی لڑائی کی اور کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ انسان بُرا بھلا بھی کہہ سکتا ہے یا کسی اور طریقے سے بھی اپنا غصہ نکال سکتا ہے لیکن لوگوں کے نزدیک لڑائی کے معنی ہی گویا یہ ہوگئے ہیں کہ چھوٹتے ہی طلاق کے الفاظ بول دیے جائیں۔ اوّل تو یہی حماقت ہے، اور پھر اس سے بھی آگے بڑ ھ کر ایک دفعہ نہیں بلکہ بیک وقت تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ کر طلاق کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ تو ہزار ہزار طلاق دے ڈالتے ہیں۔ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہزار مرتبہ طلاق دی تو حضوؐر نے فرمایا کہ تین تو تیری بیوی کے اُوپر پڑ گئیں باقی جتنی ہیں وہ جس پر چاہے تقسیم کردے۔ اس طرح کی جو احمقانہ حرکتیں ہیں اُن سے خدا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، آدمی اپنا ہی گھر بگاڑتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ غصے میں آکر تین طلاق دے بیٹھتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ بچائو کی کوئی صورت ہے کہ نہیں۔ خدا کے بندے،  اگر تمھیں پچھتاناہی تھا تو کس احمق نے تمھیں یہ کہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق دو۔ جو کام تین طلاق سے چلتا ہے وہی ایک سے بھی چلتا ہے۔ اگر ایک آدمی عورت کو چھوڑنا ہی چاہے تو ایک طلاق کا بھی وہی حاصل ہے جو تین طلاق کا ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ عدّت گزر جانے کے باوجود دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ تین طلاق دینے کے بعد پوچھتے پھرتے ہیں کہ اب بچنے کی کیا صورت ہے۔ چلو کسی اہل حدیث سے پوچھتے ہیں یا فلاں سے فتویٰ لیتے ہیں۔ اس سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر حلالہ کرنے کے لیے لوگوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سب لغو باتیں ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی حدوں کو توڑتے ہیں، وہ اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔

لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا(۶۵:۱)،.  ُتو نہیں جانتا، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی صورت پیدا کردے (کوئی راستہ نکال دے)۔

اُوپر جو ہدایات دی گئی ہیں کہ عورت کو حالت ِ حیض میں طلاق نہ دی جائے، عدّت کی گنجایش رکھی جائے، اور طلاق دینے کے بعد عورت کو گھر سے نہ نکال دیا جائے، تو اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ تمھیں کیا خبر ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ملاپ اور صلح کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اسی غرض کے لیے یہ حدود مقرر کی گئی ہیں کہ اگر صلح کی کوئی گنجایش ہو تو اس سے فائدہ اُٹھانا ممکن رہے۔

بہلے طریقے سے رخصت کرنا

فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ ط ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا o (۶۵:۲-۳)، پھر جب وہ اپنی (عدّت کی) مدت کے خاتمے پر پہنچیں تو یا انھیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا بھلے طریقے پر اُن سے جدا ہوجائو۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب ِ عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیے ادا کرو۔ یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہراُس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے۔  اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔

پہلی بات یہ فرمائی کہ جب مطلقہ عورتیں اپنی عدّت کو پہنچیں تو یا اُن کو بھلے طریقے سے روک رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ عدّت کو پہنچنے سے مراد یہ ہے کہ جب عدّت ختم ہونے کے قریب آئے تو اگر اُن کو روکنا چاہو تو بھلے آدمیوں کی طرح روک لو، یا رخصت کرنا چاہو تو    بھلے آدمیوں کی طرح رخصت کردو___ یعنی کسی جھگڑے ٹنٹے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارا نباہ نہیں ہوتا تو ٹھیک ہے، تم نے طلاق دے دی ہے، تو اب ان کو بھلے طریقے سے رخصت کردو، کسی لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر رکھنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح رکھ لو۔

دوسرے الفاظ میں شریعت یہ بات سکھاتی ہے کہ آدمی کو دنیا میں ایک معقول انسان کی طرح زندگی گزارنی چاہیے ۔ کسی حالت میں بھی نامعقول آدمی کا سا رویّہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آدمی کسی سے نہیں نباہ سکتا ہے تو صاف کہہ دے کہ بھائی السلام علیکم، تمھارا راستہ الگ، ہمارا راستہ الگ۔ کسی طرح کی کھینچاتانی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص سے موافقت کرنا ممکن ہے تو پھر شریف آدمی کی طرح موافقت کرلی جائے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بات بڑھائی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ صبح تو ایک دوسرے کو بُری بھلی سنائی جارہی ہے اور شام کو گھل مل کے باتیں ہورہی ہیں، اور اگلے روز پھر وہی جھک جھک شروع ہوجائے۔ یہ بھلے آدمیوں کا کام نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ عدّت کی مدت ختم ہونے سے پہلے آدمی اچھی طرح سوچ لے کہ بھئی اس عورت سے نباہ ہوسکتا ہے یا نہیں، یا ہم بھلے طریقے سے مل کر رہ سکتے ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ کرلیجیے۔ اگر مل کر رہ سکتے ہیں تو فبہا، ورنہ علیحدگی کا فیصلہ کر کے بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔

 وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ(۶۵:۲)،’’اور جو تمھارے صاحب ِ عدل آدمی ہوں ان میں سے دو کو گواہ بنائو‘‘۔ صاحب ِ عدل سے مراد ہے نیک، معقول اور سچا آدمی۔ گویا کسی اَیرے غیرے کو گواہ نہ بنایا جائے۔ گواہ بنانا ہے تو دو معقول شریف آدمیوں کو بنایئے۔ ان کے سامنے    یہ بات واضح طور پر کہی جائے کہ آج میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ اگر بعد میں رُجوع کرنے کا فیصلہ کرو تو اس پر پھر گواہ بنا لیجیے کہ مَیں رُجوع کر رہا ہوں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، اور اگر بعد میں کوئی قضیّہ پیدا ہوجائے تو شہادت قائم کرنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔ اگر بالآخر رخصت کرنا ہے تو لوگوں سے کہہ دیجیے کہ آج عدّت ختم ہوئی اور میں اس عورت کو رخصت کر رہا ہوں۔ اوّل تو اس طرح  سے آیندہ چل کر جھگڑے کھڑے نہیں ہوتے، اور اگر کوئی جھگڑا پیدا بھی ہوتو دو ایسے راست باز اور قابلِ اعتماد آدمی ایسے موجود ہوں گے جو صحیح شہادت دے دیں گے اور جھگڑے کا خاتمہ ہوجائے گا۔

وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِط(۶۵:۲)، اور شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرو اللہ کے لیے۔

شہادت کو ٹھیک ٹھیک قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو گواہ بنایا جا رہا ہے اس کو  صحیح صحیح اطلاع دی جائے، کوئی غلط اطلاع نہ دی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی نے آج طلاق دی ہے اور گواہی دو تین دن کے بعد قائم کر رہا ہے تو یہ بات غلط ہوجائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں اگر آدمی یہ کہے کہ گواہ رہو کہ میں نے بیوی کو طلاق دے دی ہے تو چونکہ ان دو تین دنوں کی وضاحت نہیں ہوگی، اس لیے گواہوں کا یہ کہنا کہ اس نے فلاں تاریخ کو طلاق دی ہے خلافِ واقعہ بات ہوگی، جب کہ وہ دو تین دن پہلے طلاق دے چکا تھا۔ اس لیے یہ طلاق دینے والے کی طرف سے شہادت کے قواعد کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسی طرح جن کو گواہ بنایا جائے ان کی شہادت بھی خلافِ اصول ہوگی۔ اس لیے کہ ان کا بھی یہ کام ہے کہ وہ طلاق کی تاریخ کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھیں اور جب ضرورت پیش آئے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں۔

ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط (۶۵:۲)، اس چیز کی   تم کو نصیحت کی جاتی ہے، تم میں ہر اُس شخص کو جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی خلاف ورزیاںکرتا ہے، اس کا یہ فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ اور  یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ حرکتیں ایمان کے منافی ہیں کہ آدمی کہے کہ میں خدا کو خدا مانتا ہوں اور یہ بھی مانتا ہوں کہ آخرت میں مجھے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرے اور اس کی حدود کو توڑے تو یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر ایک شخص صحیح ایمان رکھتا ہو تو اس کا یہ کام ہے کہ پھر ایمان داری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی کرے۔

پیچیدگیوں سے بچنے کا راستہ

وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا(۶۵:۲)، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کردیتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ جب آدمی اینچ پینچ کی باتیں کرتا ہے تو دراصل وہ بعض عملی پیچیدگیوں کے ڈر سے ایسا کرتا ہے۔ اسے یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے ٹھیک ٹھیک بات کی تو میرے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی، جیساکہ آج کل بہت سے لوگ عدالت میں جاکر اس لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ اگر ہم نے سچ بات کہی تو فلاں پیچیدگی پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح وہ عملاً حدود اللہ کو توڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے پیچیدگیوں سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔ اس لیے کسی قسم کی پیچیدگی اور اُلجھن کا خوف تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اللہ سے بے خوف ہوکر اس کے حدود توڑنے پر اُتر آئو۔ اگر عملاً کوئی اُلجھن پیدا بھی ہوگی تو اللہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ اس سے نکلنے کا راستہ تمھارے لیے پیدا کردے گا۔

 وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط(۶۵:۳)، ’’اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اس کا خیال بھی نہ گیا ہو‘‘۔ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ طلاق کے معاملے میں زیادہ تر پیچیدگیاں مالی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ نان نفقہ کا خرچ، مہر کا خرچ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے آدمی بہت سی پیچیدگیاں اپنے لیے خود پیدا کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا یہ گیا کہ کسی قسم کی مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حدود مت توڑو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ایسی جگہ سے دے گا جس طرف تمھارا خیال بھی نہیں گیا۔ جو ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے اس کو ایمان داری کے ساتھ اُٹھائو، اسے ٹھیک طرح سے ادا کرو۔ یہ مت خیال کرو کہ اگر میں نے اس  ذمہ داری کا بوجھ اُٹھا لیا تو میری مالی حالت خراب ہوجائے گی اور میں بڑی مشکل میں پڑ جائوں گا۔ اس طرح سوچنا درست نہیں ہے۔ دینے والا اللہ ہے، آدمی کو اس کے بھروسے پر کام کرنا چاہیے۔

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط(۶۵:۳)، اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا پھر اللہ اس کے لیے کافی ہے۔

دوسرے الفاظ میں آدمی کا کام یہ ہے کہ جو قواعد اور قوانین اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں وہ اللہ کے بھروسے پر اس کی پوری پوری پابندی کرے۔ اگر کسی قسم کی مشکل پیدا ہونے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی پروا نہ کرے۔ اللہ پر بھروسا رکھے کہ اس نے جو قوانین اور قاعدے مقرر کیے ہیں وہ میری ہی بھلائی، مصلحت اور فائدے کے لیے ہیں۔ اس لیے میرا یہ کام ہے کہ میں ان کی پابندی کروں اور باقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دوں۔

 اِِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط،’’اللہ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے‘‘۔  یعنی اللہ کا فیصلہ تمھاری کسی تدبیر سے ٹل نہیں جائے گا۔ اگر کسی مصلحت اور حکمت کی بنا پر اللہ کو تمھیں کسی نقصان میں ڈالنا ہو توو ہ ڈال کر رہے گا، اور دراصل وہ تمھاری بہتری کے لیے ہوگا۔ تم لاکھ تدبیریں اس کو ٹالنے کی کر دیکھو، اس کو نہیں ٹال سکو گے لیکن ہوگا یہ کہ تم نقصان بھی اُٹھائو گے اور خدا کے قوانین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرکے گناہ گار بھی ہوگے۔

اگر ایک آدمی ایسی حالت میں نقصان اُٹھائے کہ وہ اللہ کے قوانین کی پوری پابندی کر رہا ہو تو وہ گنہگار تو نہ ہوا۔نقصان اس کو ضرور ہوا لیکن نقصان وہ ہوا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں پہلے سے طے تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک آدمی خدا کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے نقصان تو اُٹھاتا ہے لیکن گنہگار نہیں ہوتا، صرف نقصان اُٹھاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نقصان اس نے خدا کے قوانین کو توڑ کر اُٹھایا ہے تو گویا دوہرا نقصان اُٹھایا۔ یہاں بھی نقصان اُٹھایا اور آخرت میں بھی سزا پائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کرنا ہے اس کو وہ کرکے رہتا ہے۔ اس کے فیصلے تمھاری تدبیروں سے ٹلنے والے نہیں۔ اس لیے تمھارا کام ہرچیز سے بے نیاز ہوکر صرف اس کے احکام و ہدایات کی پابندی کرنا ہے۔

قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا(۶۵:۳)،’’اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک قدر مقرر کررکھی ہے‘‘۔ قدر کے معنی تقدیر کے بھی ہیں اور مقدار کے بھی۔ گویا اللہ کے سارے کام ایک قاعدے اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس طرح ہرچیز کے لیے اللہ نے ایک تقدیر بھی مقرر کر رکھی ہے اور ہر چیز کی ایک مقدار بھی مقرر کر رکھی ہے، اور وہ اس کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔

 وَّالِّٰٓیْٔ  یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِ کُمْ اِِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍلا وَّالِّٰٓیْٔ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (۶۵:۴) اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اُن کے معاملے میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) اُن کی عدّت تین مہینے ہے، اور یہی حکم اُن کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوںکی عدّت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضعِ حمل ہوجائے اور جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کردیتا ہے۔

عدّت کے متعلق چونکہ سورئہ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ عدّت کا شمار حیض کے حساب سے ہوگا، تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو حیض نہ آیا ہو یا جن کو حیض آنا بند ہوچکا ہو ان کی عدّت کس طرح شمار ہوگی؟ اس کا قانون یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی عورتوں کے لیے یہ مدت تین مہینے ہوگی۔ اور یہ مدت ہلالی مہینے کے حساب سے ہوگی نہ کہ شمسی مہینے کے حساب سے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جہاں شرعی قوانین کا معاملہ ہو، ان میں ہلالی مہینے شمار ہوتے ہیں نہ کہ شمسی۔ لہٰذا ایسی عورتوں کے معاملے میں عدّت ہلالی مہینے کے حساب سے تین مہینے ہے۔

یہاں ایک اور بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ہے ان کی عدّت کی مدت بھی بتا دی ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کے قانون کی رُو سے    ایک ایسی لڑکی کا نکاح جائز ہے جس کو حیض ابھی نہ آیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ زمانے میں فیملی لاز آرڈی ننس کے ذریعے سے جو قانون بنایا گیا ہے کہ فلاں عمر سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو یہ صریح طور پر قرآن مجید کے حکم سے ٹکراتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ایسی لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون کہتا ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد آخر اللہ کے قانون سے لڑائی کی اور  کیا شکل باقی رہ جاتی ہے؟ پھر فرمایا: وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط ’’اور جو حاملہ عورتیں ہیں ان کی عدّت وضعِ حمل ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ خواہ وضعِ حمل میں نو مہینے  لگ جائیں یا طلاق دینے کے دوسرے ہی دن وضعِ حمل ہوجائے اس وقت عدّت ختم ہوجائے گی۔ عورت نکاحِ ثانی کے لیے آزاد ہوجائے گی۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا،  ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے معاملات کو آسان کرتا ہے‘‘۔گویا کوئی پیچیدگی ایسی نہیں ہے جس سے آدمی کو واقعی سابقہ پیش آتا ہو اور اللہ نے اس سے نکلنے کا راستہ نہ بتایا ہو۔

اللّٰہ سے ڈرنے کی حکمت

ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنزَلَہٗٓ اِِلَیْکُمْ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًاo (۶۵:۵) ، یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے، جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دُور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔

اللہ سے ڈرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جو مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اللہ ان سے بچ نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی صورت میں آدمی ان غلطیوں میں مبتلا نہیں ہوتا جو اس کی حدود کو توڑنے کی صورت میں رُونما ہوتی ہیں: دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّـٰاتِہٖ  ’’وہ اس کی برائیاں دُور کردیتاہے‘‘۔

 بُرائیاں دُور کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر جو اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو دُور کردیتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرلیا، اس کی خرابیاں آپ سے آپ دُور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ایک طرف اس کی خطائیں دُور ہوں گی اور دوسری طرف اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا کرنے کے بعد آدمی کی اخلاقی تربیت بھی اِسی خوف کی بدولت شروع ہوجاتی ہے۔ جب بھی وہ کسی برائی کی طرف مائل ہوگا اس کو یاد آئے گا کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور ایک روز مجھے اسی کے حضور جانا ہے۔ اس احساس سے وہ برائی کے ارتکاب سے بچ جائے گا۔ اگر اس کے اندر کوئی بُری عادت راسخ ہوچکی ہے تو جب بھی اس سے بشری کمزوری کی بنا پر بلاارادہ اس کا صُدور ہوجائے گا تو رب کے حضور جواب دہی کا احساس آیندہ اس کو بچنے پر آمادہ کر ے گا، اور متعدد بار اس کوتاہی میں مبتلا ہونے کے بعد بالآخر اس سے پوری طرح بچنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے اندر ان ساری کوششوں کے باوجود، جو وہ تقویٰ کی بدولت اپنی اصلاح کے لیے کرتا ہے، اگر کچھ برائیاں رہ جائیں گی تو اللہ آخرت کے حساب سے اس کی ان برائیوں کو ساقط کردے گا، کیونکہ اس نے دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہے۔ اس کے بعد اگر اس سے کچھ غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوتی بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اُن خطائوں سے درگزر فرمائے گا، اس کو معاف کردے گا۔چوتھا فائدہ اس کا یہ ہے کہ: یُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا، ’’اور وہ اس کو بڑا اجر دے گا‘‘۔گویا اس کو اس بات کا اجرِعظیم بھی دیا جائے گا کہ اس نے   دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری___ اس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنے فوائد ہیں جو ان آیات میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کے بیان کیے گئے ہیں۔

اس مقام پر نکاح و طلاق کے سلسلے میں اسلام کی حکمت ِ تشریع کو ایک بار پھر سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طلاق کو جائز ہونے کے باوجود ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ شَیْئًا اَبْغَضَ اِلَیْہِ مِنَ الطَّلَاقِ، ’’اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘ (ابوداؤد، بحوالہ تفہیم القرآن، جلد۵، ص ۵۵۲)۔ اس  کی وجہ یہ ہے اور یہ سامنے کی بات ہے کہ طلاق کے نتیجے میں میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے بچوں کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے ماں یا باپ میں سے کس کے پاس جائیں گے؟ جب مرد اور عورت نیا نکاح کرلیں گے تو سوتیلے ماں باپ کے ہاں بچوں کی زندگیاں بالعموم خرابی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان کو صحیح محبت اور سرپرستی نہیں ملتی جس کی وجہ سے ان کے دلوں سے محبت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جب ماں باپ آپس میں نہ نباہ سکے تو وہ کس کی شخصیت کو اپنے لیے نمونہ بنائیں۔ ایسے ہی حالات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر جرائم پیشگی کے رجحانات پرورش پاتے ہیں۔ اگر جدا ہونے والے مرد و زن کے ہاں اولاد نہ ہو تب بھی نئے نکاح کی صورت میں عام طور پر زندگی دونوں کے لیے تلخ ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہورہی ہو تو پھر اُن کو غیرفطری طور پر جوڑ کر رکھنے سے اور طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں، جب کہ نکاح کے مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں، مردوزن کی علیحدگی ہی صحیح حل ہوتی ہے اور اس حکمت کے تحت طلاق کو جائز رکھا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا حکیمانہ قانون دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا۔ جن قوموں کے ہاں طلاق کو عملاً ایک گناہ اور جرم قرار دے دیا گیا ہے وہاں خانگی زندگی جس طرح کے مفاسد کا شکار ہوئی ہے اس کا مشاہدہ آج کل کے یورپی اور برعظیم کے ہندی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے۔(جاری)

یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس شخصیتوں اور ان کی الہامی تعلیمات پر کبھی دل آزار تنقید نہیں کی گئی۔ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی اُمہات المومنینؓ کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ  نہیں مانتے، بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے درحقیقت یہ ایک طرفہ لڑائی ہے جسے حملہ آور فریق ہی ختم کرسکتا ہے۔ اور یہ جاننے کے لیے نفسیات کے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے جاری رہتے ہوئے کسی خیرسگالی کے نشوونما پانے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔

مسلمانوں کے لیے صرف یہی ایک وجۂ شکایت نہیں ہے، بلکہ وہ بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ دیکھتے ہیں کہ بالعموم اہلِ مغرب کا رویّہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیں،بلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہے۔ وہ علمی تنقید کی حدود سے اکثر تجاوز کرجاتے ہیں اور ہمیں black paint کرنے کی کوشش میں ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں ناروا داری کہنا معاملے کو بہت ہلکا بنانے کا ہم معنی ہوگا۔ ایسی مثالیں بہ کثرت پیش کی جاسکتی ہیں.... کہ انھوں نے ہم کو    دانستہ misrepresent کیا ہے اور بالکل جھوٹ اور بے اصل باتیں تک ہماری طرف منسوب کرنے میں تامل نہیں کیا ہے۔ ان کا مستقل رویّہ یہ رہا ہے کہ ہمارے دین یا ہمارے ہیروز کی زندگی یا ہماری تاریخ میں جس بات کو بھی دو معنی پہنانے کی گنجایش ہو، اسے وہ بُرے ہی معنی پہنانے اور اس کا تاریک رُخ ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مسلسل عناد کا رویّہ ظاہر ہے کہ اپنا بُرا ردعمل پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اسی عناد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ....اسلام کے تجدید و احیا کی ہرکوشش کا استقبال  مغرب میں ایک شدید احساسِ خطر کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور مسلمان ملکوں میں اسلام سے انحراف، بلکہ اس کے خلاف بغاوت کی ہراطلاع ان کے لیے خوش خبری کا حکم رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں میں سے وہ سب لوگ انتہائی تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو مسلمان ملکوں میں اسلام کی اصلی بنیادوں پر زندگی کی ’تعمیرجدید‘ اور ’ترقی‘ کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی اسلام سے عناد ہی کا ایک شاخسانہ ہے اور اس معاملے میں اہلِ مغرب خود اپنی اقدار (values) اور اپنے ہی اصولوں کا لحاظ بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک مسلمان ملک میں کوئی ’ایثارپسند‘ حکمران گروہ اگر کسی اسلامی تحریک کو کچلنے کے لیے رواداری، جمہوریت اور عدل و انصاف کے سارے تقاضوں کو    بھی پامال کرگزرے تو صرف یہ ایک بات کہ یہ سب کچھ اسلام کے revival کو روکنے کے لیے  کیا جارہا ہے، اس بات کے لیے کافی ہوتی ہے کہ مغرب سے اس پر تحسین و آفریں کی صدائیں  بلند ہوں۔

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دوست ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کہ یہ طرزِعمل بجاے خود کہاں تک حق بجانب ہے، اور اس سے وہ کس اچھے نتیجے کی توقع رکھتے ہیں۔ (مغرب اور اسلام از پروفیسر خورشیداحمد کا دیباچہ، بحوالہ تذکرہ سید مودودیؒ-۲، ص ۷۱۵-۷۱۶)

اس معاملے میں سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو....

  • اسلام کا علم پہیلایا جائے: اب اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغازِ کار میں اگر کچھ ہوسکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل، ملک کے تمام ذرائعِ ابلاغ، ملک کے سارے نظامِ تعلیم، اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی.... بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کرسکیں، مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہوجائے۔
  • ذرائعِ ابلاغ کی اِصلاح:سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ   یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائعِ ابلاغ کو فحش اور بے حیائی، بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجاے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافر انہ اخلاق کیا، اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔ پہلے میں بیان کرچکا ہوں کہ اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا، پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی، پورے معاشرتی نظام کی، پورے معاشی نظام کی، پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اُٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دَور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔

عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان، رسولؐ پر ایمان، قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا.... اسلامی قانون  صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا، جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کردیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔

  • راے عامہ کی ھمواری اور دباؤ:اسلامی قانون میں ڈنڈے کا بھی ایک مقام ہے مگر وہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ اسلام میں ترتیب ِکار یہ ہے کہ پہلے ذہنوں کی اصلاح کا کام تعلیم و تلقین کے ذریعے سے کیا جائے تاکہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوں۔ پھر لوگوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے۔ یہاں تک کہ محلّے محلّے، بستی بستی اور کوچے کوچے میں ایسے لوگ تیار ہوجائیں جو بدکرداروں کو عوام کی مدد سے دبائیں اور اپنے اپنے علاقے کے باشندوں میں دین داری اور دیانت داری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک ایسی راے عام پیدا ہوجائے گی جو بُرائیوں کو سر نہ اُٹھانے دے گی۔ کوئی شخص ایسی راے عام کی موجودگی میں بگڑنا چاہے گا تو اس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوجائیں گی اور جو شخص صحیح طرزِ زندگی اختیار کرے گا اس کو پورا معاشرہ مد د دینے والا ہوگا۔

اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہرشخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنے اُوپر پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سو د حرام ہو، زکوٰۃ فرض ہو، حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزقِ حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان، اخلاق، تعلیم، انصاف، اصلاح معیشت، اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہوجائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔

  • پھلے اِصلاح پہر سزا:لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزائوں پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط راے عام تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور بُرائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر ایسا معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا      وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اُٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو  پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو ایمان کی طرح نِگل جاتا ہے۔
  • تبدیلی کا ذریعۂ انتخابات: [سوال یہ ہے] کہ اس مغربی اندازِ انتخابات کو کس حد تک اسلام کے شورائی نظام سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے اور کس طرح؟ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا، اور جس منزل تک  ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ہوگا تاکہ ہمارا ہرقدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں، یا نہ کریں۔ نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہوسکتا ہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ  اس وقت ایسا موجود نہیں ہے جس سے ہم پُرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔

اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور   معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۹-۲۷)

نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات  [سورئہ اعراف، آیات ۱۹۹-۲۰۲ میں] بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضورؐ ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضوؐر کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضوؐر کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:

تحمل مزاجی اور عالی ظرفی

داعیِ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو‘ متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق‘ عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے‘ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے‘مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی‘ بہتان تراشی‘ ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو‘ اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری‘ درشت خوئی‘ تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اِس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں بیان فرمایاہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’غضب اور رضا‘ دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں‘ جو مجھ سے کٹے‘ میں اس سے جڑوں‘ جو مجھے میرے حق سے محروم کرے‘ میں اسے اس کا حق دوں‘ جو میرے ساتھ ظلم کرے میںاس کو معاف کردوں‘‘۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپؐ ان لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپؐ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا ویسروا ولا تعسروا، یعنی جہاں تم جائو وہاں تمھاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو نہ کہ باعث ِ نفرت‘ اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے۔اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹)یعنی ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

عام فھم دعوت

دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (common sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعیِ حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتاہے اور ہرسامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتا ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ عام انسان ‘ خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں‘ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلنداخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں‘ تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیِ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں‘ یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپؐ کے بعد تھوڑی ہی مدّت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہوگئے۔

اُلجہنے سے احتراز

اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت ِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اشتعال سے اجتناب

[گذشتہ] ہدایت… کے سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعیِ حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اُکساہٹ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر‘ خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان‘ جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا‘ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعیِ حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعیِ حق کو اُکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔    یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے‘ اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی تہہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو وہ اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ حق کا مفاد کس طرزِعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ‘ تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلے میں نہیں ٹھیرسکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انھیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم  نہیں رُکتے۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔

بُرے خیال کی کہٹک

اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیرمتقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انھیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات‘ بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انھیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبارِشر کو اپنے اُوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں‘ نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں‘ اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے‘ ان کے نفس میں بُرے خیالات‘ بُرے ارادے‘ بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اوروہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے‘ یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۱۱-۱۱۳)

حکمت اور عمدہ نصیحت

دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں: ایک حکمت، دوسرے عمدہ نصیحت۔

حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔

عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں:

ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت سے ہی ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدایشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھارا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔

بحث و مباحثہ

[دعوت میں اگر مباحثے کی نوبت آجائے تو] اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کرا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو، اعلیٰ درجے کا شریفانہ اخلاق ہو، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ.َ  [ضد] اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔ (ایضاً، ص ۵۸۱-۵۸۲)

مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ‘ مہذب و شایستہ زباں میں‘ اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اُتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتاہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے‘ اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملے میں دی گئی ہے‘ مگریہ اہل کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جوقرآن میں جگہ جگہ دی گئی ہے ۔مثلاً:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل ۱۶:۱۲۵)  دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں(مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو‘ تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔

اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹۶) تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو، ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمھارے خلاف ) بناتے ہیں۔

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ (الاعراف۷:۱۹۹-۲۰۰) درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے) شیطان تمھیں اُکسائے تواللہ کی پناہ مانگو۔

یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت، ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلے میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی ‘ شرافت اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن ج۳:۷۰۸-۷۰۹)۔ (انتخاب و ترتیب: ڈاکٹر خالد محمود ترمذی)

 

تمام مسلمان ملکوں کا مستقبل منحصر ہے اس بات پر کہ آخرکار یہاں اسلام کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ اگر اسلام کے بارے میں منافقانہ طرزِعمل کی صورت مسلمان ملکوں میں جاری رہی اور یہ معاندانہ رویہ اسی طرح روا رکھا جاتا رہا تو مجھے ڈر ہے کہ مسلمان قوم زیادہ دیر تک اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ پھر دوبارہ غلام ہوگی اور پہلے سے بدتر پوزیشن میں ڈالی جائے گی۔البتہ اب بھی اگر ان لوگوں کو عقل آجائے جو مسلمان قوموں کے معاملات چلا رہے ہیں اور مسلمان ملکوں میں صحیح قسم کی جمہوریت قائم ہوجائے، مسلمان قوموں کو یہ اختیار مل جائے کہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو منتخب کرکے ان کو اقتدار سونپیں اور یہاں اسلام کے منشا، اس کی تہذیب اور اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت، نظامِ معیشت اور نظامِ تعلیم رائج کیا جائے، تو میرا خیال ہے کہ بہت جلدی مسلمان قومیں بہت بڑی طاقت بن جائیں گی۔ نہ صرف یہ کہ طاقت حاصل کرلیں گی بلکہ دنیا میں ان کی ایک فیصلہ کن طاقت ہوگی۔ مسلمان ملکوں کا بلاک کوئی معمولی بلاک نہیں ہے۔ انڈونیشیا سے مراکو تک مسلسل مسلمان قوموں کا اتنا بڑا بلاک جس کے پاس اس قدر وسیع ذرائع و وسائل اور جس کی اتنی آبادی (man power) ہے، اگر سارے کا سارا اسلام کے اصولوں پر کام کرے اور اسلام کے اُوپر متحد ہو، تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو اس کے سامنے ٹھیرسکتی ہے۔

اب دوسرا سوال جو میں نے آپ کے سامنے چھیڑا ہے، اس کا جواب میں چند الفاظ میں دوں گا۔ سوال یہ تھا کہ اسلام اس زمانے میں دنیا میں غالب آسکتا ہے یا نہیں؟ دنیا کی قومیں اس کو قبول کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرسکتی ہیں تو کیسے؟ اور اسلام اس زمانے میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟     یہ سوال آج کل بڑی کثرت سے چھیڑا جاتا ہے۔

میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی زمانے میں بھی زمانے نے خود آگے بڑھ کر نہیں کہا تھا کہ میں اسلام کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرب کی جاہلی سوسائٹی میں اسلام کی دعوت دی تھی تو کب زمانے نے اُٹھ کر، پکار کے    یہ کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تمھاری اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔  اصل انحصار تو اس طاقت ور اور مضبوط داعی پر ہوتا ہے جو یہ کہے کہ ’’اے زمانے! اگر تو مجھ سے موافقت نہیں کرتا تو میں تجھے موافق بنا کر چھوڑوں گا‘‘....

اسی طرح یہ سوال بھی بالکل لغو ہے کہ اسلام آج قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک قابلِ عمل رہے گا۔ اصل سوال جس پر انحصار ہے وہ یہ ہے کہ کیا کوئی قوم دنیا میں ایسی موجود ہے کہ جو پورے کے پورے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہو؟ جیساکہ میں نے آغاز میں بتایا تھا کہ ہماری تاریخ کا آغاز ہی اس چیز سے ہوا تھا کہ عرب کی پوری کی پوری قوم اس بات کے لیے تیار ہوگئی تھی کہ اپنے پورے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی نظام کو  اسلام پر قائم کرے، اپنی انفرادی سیرتوں اور اجتماعی احوال کو اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس نے عہد کیا تھا کہ دنیا میں اسلام کی علَم بردار بن کر اُٹھے گی، اسی کے لیے جیے گی اور اسی کے لیے مرے گی۔

جب ایک ایسی قوم دنیا میں پیدا ہوگئی تو دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ دنیا پر بم کی طرح پھٹی! اور کس طرح دنیا پر اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اگر اس طرح سے کوئی قوم پوری طرح سے اسلام کو اپنائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اس کے مطابق چلائے اور اسی کے لیے جینے اور مرنے کو تیار ہو، تو میرا خیال ہے کہ آج دنیا اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

لوگوں کے لیے ناممکن ہے کہ چلتے پھرتے اسلام کو دیکھیں اور اس کو قبول نہ کریں۔ البتہ اگر آپ زبانی تقریروں اور کتابوں کے ذریعے سے اسلام پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو قیامت تک آپ یہ’شغل‘ جاری رکھیے، دنیا کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہوگا کہ اسلام قابلِ عمل بھی ہے۔

اب آخر میں دل کی بات بھی آپ سے عرض کیے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ مجھے  اس قوم میں پیدا کیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ قوم، یہی قوم ہی ہو۔ میری سیاست ہے تو  یہی ہے، میرا مذہب ہے تو یہی ہے، میری ساری کوششوں کا مدعا یہی ہے کہ یہ قوم جس کے اندر میں پیدا ہوا ہوں، پوری طرح سے اسلام کو اپنا لے اور اپنی زندگی میں چلتا پھرتا اسلام دکھا دے۔ (اسلام عصرِحاضر میں، ص ۵۰-۵۳)

 

اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس سے مراد    لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے، یعنی وہ رات جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ جیساکہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہواہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ o (القدر ۹۷:۱-۳) ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا نزول انسانیت کے لیے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کے لیے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں ہوا ہے، جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں، جو اپنی بھلائی کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس سے لو لگائی، اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کرلی۔ کیونکہ   اس رات میں بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کی اہمیت کا    پورا پورا احساس ہے، اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لیے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا، گویا  اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی     صحیح قدروقیمت کا احساس موجود ہے۔ (کتاب الصوم، ص ۴۳-۴۴)

  •  لیلۃ القدر کی تلاش میں حکمت: اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ    لیلۃ القدر کے متعلق یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ کون سی رات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا ہے وہ بس یہ ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ یعنی وہ رات اکیسویں ہوسکتی ہے بائیسویں نہیں، تئیسویں ہوسکتی ہے، چوبیسویں نہیں، وعلیٰ ہذا القیاس،   وہ آخری عشرے کی طاق رات ہے۔ یہ فرمانے کے بعد اس بات کو بغیر تعین کے چھوڑ دیا گیا کہ    وہ کون سی رات ہے۔ عام طور پر لوگ ستائیسویں رمضان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ   وہ لیلۃ القدر ہے لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ رمضان کی ستائیسویں شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ جو بات تعین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ فقط یہ ہے کہ وہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔

لیلۃ القدر کا قطعی طور پر تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہرطاق رات میں اس اُمید پر اللہ کے حضور کھڑا ہوکر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہو۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پالی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھاوہ اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند مزید راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کی موجب بنیں گی....

اس مقام پر ایک اور بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ چونکہ ساری دنیا میں رمضان کی تاریخیں ایک نہیں ہوتیں اور ان میں رد وبدل ہوتا رہتا ہے، اس لیے یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کس آدمی کو واقعی وہ اصل رات میسر آگئی ہے۔ اس کے لیے ایک طالبِ صادق کو ہر رمضان میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔

رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے، اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی، اس لیے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسے ان میں کبھی نہ کبھی وہ رات بھی لازماً مل جائے گی۔

بعض لوگ اپنی جگہ لیلۃ القدر کی تلاش کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو باہر نکل کر یہ دیکھا جائے کہ فضا میں کوئی ایسی علامت پائی جاتی ہے جس سے یہ ظاہر ہوکہ یہ قدر کی رات ہے۔ فضا میں کوئی ایسا نور برس رہا ہے جس سے اس کا لیلۃ القدر ہونا ثابت ہوجائے۔ لیکن دراصل یہ طرزِ فکر مطابق حقیقت نہیں ہے۔ بے شک یہ نور برستا ہے، لیکن یہ نور تو پورے رمضان میں اور رمضان کی ہر رات میں برستا ہے، البتہ اس کے لیے وہ آنکھیں چاہییں جو اس کو دیکھ سکیں۔ یہ نور درحقیقت آپ کی عبادت کے اندر برستا ہے۔ یہ نور خدا کی رضاطلبی کے اندر آپ کے انہماک میں، بھلائیوں کے لیے آپ کے ذوق و شوق میں، اور عبادات کے لیے آپ کے خلوص و اہتمام میں اور فی الجملہ آپ کے ایک ایک فعل میں برستا ہے۔ (ایضاً، ص ۴۷-۴۹)

  •  بڑی محرومی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا (احمد،نسائی)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآنِ مجید کی اس نعمت عظمیٰ کا احساس ہی نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اُتاری تھی۔ اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضرور رات کے وقت عبادت کے لیے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتا کہ اے اللہ! یہ تیرا احسانِ عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے روٹی اور پہننے کے لیے لباس عنایت فرمایا۔ لیکن تیرا اصل احسانِ عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تو نے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علمِ حقیقت کی وہ روشن شمع  عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کرسکوں۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدروقیمت کا احساس ہوگا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا   شکر ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا۔ لیکن جو شخص اس رات میں اداے شکر کے لیے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور درحقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔ (ایضاً،ص ۴۴-۴۵)

 

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔

دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل  ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔

بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے  خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے   آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔

اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)

 

اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی، اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔

آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض زبانی تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ  پڑھ کر اسلام کو سمجھیں، اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی    بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا، بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا، وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہروقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا، اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے، اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں، اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔

اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دینِ فطرت ہے۔  انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں، اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔

لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ آپ کے اندر جذبۂ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (تصریحات ، ص ۲۸۳-۲۸۵)

 

ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے، ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقے کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔

اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقے کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں۔ جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک طرف مائل اوردوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں ، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔

اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیرجانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا س شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم ، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجاے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے، وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔

  •  ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلے میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں، جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اُونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور بُرے ہرطریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اورمفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
  •  ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے۔ ان جاگیرداروں اور زمین داروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انھیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین۔ یہ اُونچے ہیں اور دوسرے نیچے۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو، ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہوسکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانب داری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
  •  ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کون سا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہرحیثیت سے اپنے آپ کو دوسروںسے اُونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں، ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔

یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں، بلکہ انھیں انسانیت کے درجے سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے___ مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کردیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کرلیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔ ( اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۷۰-۷۳)

 

یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ o (التغابن ۶۴:۱۴-۱۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

عمومی ہدایات کے بعد اب مسلمانوں کو کچھ خصوصی ہدایات دی جارہی ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں ایک بات تو اگرچہ خاص اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے فرمائی گئی لیکن اگر دوسرے زمانوں میں بھی وہی حالات پیش آئیں تو ان کے لیے بھی وہ ہدایت ہے، اور ایک ہدایت ان آیات میں عام ہے۔

منافقانہ طرزِعمل

جو بات خاص حالات کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ تھی کہ مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کے اندر بہت سے لوگ ایسے تھے جو خود تو مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کے خاندان کے لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اگر ایک صاحب نے اسلام قبول کرلیا تھا تو ان کی بیوی مسلمان نہیں ہوئی تھی، یا میاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے تھے لیکن ان کی جوان اولاد مسلمان نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی اولاد اور بیویاں بظاہر تو مسلمان ہوگئی تھیں لیکن انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ شوہر چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے اس کے ساتھ بیوی بھی مسلمان ہوگئی۔ باپ چونکہ مسلمان ہوگیا ہے اس لیے بیٹے بھی مسلمان ہوگئے لیکن ان کی عام روش اور دل چسپیاں اسلام کے مطابق نہیں ڈھلی تھیں۔ ان کے لیے ان کے ذاتی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے تھے بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے سرفروشی کرے اور قربانی کی راہ اختیار کرے۔ بیویوں کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ یہ نبی جو مکّہ سے یہاں آئے ہیں، ان کے ماننے والے ہمارے شوہر صاحب اب اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ان کی دعوت اور دین کی تبلیغ کے کاموں میں   خرچ کر ڈالتے ہیں، جب کہ گھر کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ اولاد کو یہ بات کھلتی.َ   تھی کہ ہمارے اباجان نے ایک ایسے کام میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے کہ جس میں سواے سرفروشی اور قربانیوں کے اور کچھ نہیں۔ دوسرے نقصانات اور خطرات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ان کو اپنی آخرت کی بہت فکر ہے لیکن اپنی اولاد کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ ایسے کام میں پڑ گئے ہیں کہ اگر کفار کو مدینے میں غلبہ حاصل ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ خود مارے جائیں گے بلکہ زن بچہ کولھو میں پیل دیا جائے گا اور ہم بھی ساتھ ہی لپیٹ میں آجائیں گے۔

یہ تصورات ایک اچھی خاصی تعداد کے اندر موجود تھے۔ یہ منافقت اس زمانے میں اپنا رنگ دکھاتی رہتی تھی۔ آج ہم مدینے کے جن منافقین کا اور ان کے منافقانہ طرزِعمل کا ذکر سنتے ہیں     یہ یونہی کچھ ہوائی چیز نہیں تھی، بلکہ اس کی کچھ جڑیں اور بنیادیں تھیں۔

حقیقت واقعی یہ ہے کہ جب تک ایک آدمی کے دل میں سچا اور پکا ایمان اُترا ہوا نہ ہو وہ ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا، بلکہ وہ شاید ان کا پورا شعور و ادراک بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ محض یہ تسلیم کرلینا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، کافی نہیں ہوتا۔ جب تک آدمی کے دل میں آپؐ کی رسالت اور دعوت پر سچا اور پکا ایمان نہ ہو، اس وقت تک آدمی اس کے لیے   راضی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے سارے مفادات سے بے پروا ہوکر اللہ کے دین کے لیے سب کچھ قربان کردینے پر تیار ہوجائے۔ ہرتکلیف سہ جانے اور ہرنقصان برداشت کرلینے کے لیے آمادہ ہوجائے۔ آدمی کو بے شمار فائدے علی الاعلان حاصل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن وہ دین کی خاطر ان کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلے۔ یہ بغیر سچے اور پکے ایمان کے ممکن نہیں ہے۔ منافقین مدینہ کا معاملہ یہی تھا کہ ان کے اندر یہ سچا اور پکا ایمان نہیں اُترا تھا۔ وہ اس کو تو ماننے کو تیار تھے کہ ہاں،  خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولؐ ہیں۔ وہ یہ بھی ماننے کو تیار تھے کہ اچھا بھئی نماز پڑھ لیں گے، روزہ بھی رکھ لیں گے، ہوسکے گا تو زکوٰۃ بھی دے دیں گے لیکن اس سے آگے بڑھ کر باقی سارے خطرات مول لینے کو ہم تیار نہیں۔ ہم سارے عرب کی دشمنی مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ قریش جیسا عرب کا سب سے بڑا طاقت ور قبیلہ، جس کے ساتھ سارے عرب کے مشرکین ہیں، اس کے خلاف لڑائی مول لینے کا مطلب یہ ہے کہ کل ہمارے اُوپر کوئی بڑی آفت آجائے، تب ہمارا کیا حشر ہوگا، ایسا کرنا کوئی دانش مندی اور دُوراندیشی کا کام نہیں۔ اس طرح کے خیالات ان لوگوں کے دماغوں میں تھے۔

پھر چونکہ وہ اپنے ایمان میں راسخ اور جماعت مسلمین کے ساتھ مخلص نہیں تھے، اس لیے ان میں اس وجہ سے بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جن کے بیش تر افرادِ خانہ کی دل چسپیاں فریق مخالف کے ساتھ تھیں۔ اس لیے بعض اوقات ان کے گھروں سے راز کی باتیں باہر پھیلتی تھیں۔ اسلام کے دفاع کے سلسلے میں مسلمانوں میں جو مشورے ہوتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں جو باتیں طے ہوتی تھیں کہ اب دشمنوں کے مقابلے میں یہ تدابیر اختیار کرنی ہیں، تو اس طرح کی باتیں بعض اوقات سچے اہلِ ایمان اپنے گھروں میں آکر بیان کرتے تھے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اپنی ہی بیوی اور بال بچے ہیں، ان سے کیا چھپانا۔ لیکن ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی بعض باتیں منافقین تک اور دوسرے دشمنوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ اس طرح مسلمانوں کے بہت سے راز دشمنوں کو معلوم ہوجاتے تھے۔

اس لیے فرمایا کہ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ، ’’تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں،ان سے ہوشیار رہو‘‘۔ یعنی یہ  وہ کام کر رہے ہیں کہ چاہے ان کا ارادہ تمھیں نقصان پہنچانے کا نہ ہو لیکن عملاً وہ تمھارے دشمن ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک آدمی کا ارادہ آپ سے دشمنی کا نہیں ہوتا لیکن کام وہ کرتا ہے جو بدترین دشمن کے کرنے کا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ملک کا اپنا سربراہ وہ کام کرجاتا ہے جو کسی غدار کے کرنے کا ہوتا ہے۔ آج کے حالات [۱۹۶۷ء] آپ کے سامنے ہیں کہ عربوں اور مسلمانوں کا دشمن اسرائیل بھی وہ کام نہیں کرسکتا تھا جو خود ملک [مصر] کے سربراہ کی حماقتوں سے ہوگیا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں بیویوں اور اولاد کے بارے میں عَدُوّ ان معنوں میں نہیں کہا گیا کہ ان کا ارادہ دشمنی کرنے کا ہے، بلکہ اس معنی میں ہے کہ عملاً ان کی طرف سے عداوت ہورہی ہے۔ چنانچہ فرمایا:فَاحْذَرُوْھُمْ، ان سے ہوشیار رہو۔

چشم پوشی سے کام لینا

اس کے بعد فوراً ہی فرمایا کہ: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ یعنی یہ بات جو ہم بتارہے ہیں کہ تمھاری بیویاں اور تمھاری اولادیں تمھاری دشمن ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تم جاکر اپنے ازدواجی تعلقات خراب کرلو، بیویوں سے ڈانٹ ڈپٹ کرو، یا ہر وقت اولاد کے پیچھے پڑے رہو اور سرزنش کرتے رہو۔ یہ مطلب اس کا نہیں ہے۔ یہاں حَذَرْ کا، یعنی ہوشیار رہنے کا حکم دیا جا رہا ہے، یہ حکم نہیں دیا جا رہا ہے کہ جاکر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سختیاں شروع کر دو اور اولاد کے ساتھ تعلقات بگاڑ لو، یا بیوی اور شوہر کے تعلقات کو تلخ کرلو۔ اس کے بعد فرمایا: فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’، تم اگر چشم پوشی سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آج جس شخص کے اُوپر دنیوی مفاد کا غلبہ ہے اور وہ غلط روش پر چل رہا ہے، کل اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دے دے اور وہ سچے دل سے ایمان لے آئے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر آدمی کسی کے ساتھ سختی برتے اور باہمی تعلقات کو    تلخ کرلے تو اس شخص کا آپ کی کوشش سے ہدایت پانا مشکل ہوجائے گا۔ اگر آدمی چشم پوشی اور نرمی سے کام لے اور اپنی طرف سے جو احتیاط کرنا ضروری ہے وہ پوری طرح کرے تو اس طرح محبت و شفقت اور خوش گوار تعلقات کی فضا میں ان کی اصلاح کی زیادہ توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: اگر تم چشم پوشی اور درگزر سے کام لو گے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اس طرح معاملے کے دونوں پہلو پوری طرح سے واضح فرما دیے گئے۔

اولاد کا دشمن ھونا

دوسری چیز جو عام مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کے اصل دشمن اس کی اپنی اولاد اور بیویاں ہی ہیں۔ یہ کس معنی میں؟ اس معنی میں کہ آدمی کے بال بچوں کے مطالبات وہ چیز ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے، ان کو راضی کرنے اور ان کو خوش حال دیکھنے، ان کا مستقبل روشن بنانے کے لیے آدمی ۹۹ فی صد حرام خوریاں کرتا ہے۔ ان میں سے بمشکل ایک فی صد وہ اپنی ذات کے لیے کرتا ہے، جب کہ باقی ۹۹ فی صد حرام خوریاں وہ     بیوی بچوں کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے اصل دشمن کون ہیں جن کی وجہ سے آدمی کی عاقبت تباہ ہوتی ہے؟

حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا، جو مبتلاے عذاب ہوگا۔ لوگ اس کو دیکھ کر کہیںگے اس کی عیال نے اس کے حسنات کھا لیے۔ جو نیکیاں اس نے کی تھیں وہ ان کی وجہ سے برباد ہوئیں، اور ایسے بے شمار گناہ اس کے اُوپر لازم آئے جنھوں نے اس کی عاقبت تباہ کردی___ اس لیے فرمایا کہ تمھارے بیوی بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے تم ہوشیار رہو۔ تمھارا کام یہ ضرور ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو مگر جائز ذرائع سے ایسا کرو۔ خدا کی بندگی کرتے ہوئے کرو۔ تمھارا کام ہے کہ ان کی حالت کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرو لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے یہ کام کرو، کیونکہ اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق دنیا میں سب سے بڑھ کر ہے۔

والدین، اولاد، بیوی بچوں کے حقوق سب بجا، لیکن اللہ تعالیٰ کا حق ان سب سے فائق تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق کو قربان کرکے ان کی خدمت نہ کرو۔ جس شخص نے اپنے اہل و عیال کو خوش کرنے کے لیے اللہ کے حقوق مارے، اس کی نافرمانیاں کیں، اللہ کے دین کے ساتھ غداریاں کیں، اس نے درحقیقت اپنی اولاد اور بال بچوں کے اُوپر اپنی عاقبت قربان کر دی، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے وفا کرنے کے بجاے دغا کی۔ چنانچہ چاہے وہ عَدُوّ اس معنی میں ہوں کہ ان کی وجہ سے جماعت مسلمین کے راز دشمنانِ دین تک پہنچیں، اور چاہے وہ عدو اس معنی میں ہوں کہ  ان کی محبت کا تقاضا آدمی یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ان کے لیے ہر حق اور ناحق کام کرنے پر تیار ہوجائے۔ ان دونوں صورتوں میں وہ عدو ہیں۔ اس لیے فرمایا: یہ تمھارے لیے عدو ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’’اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘۔ اس حکم کی وضاحت اُوپر بیان کی جاچکی ہے۔

مال اور اولاد کی آزمایش

اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵) تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمایش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

فتنہ کہتے ہیں آزمایش کو۔ فتنہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے ایسے حالات پیش آجائیں جن کے اندر وہ اس امتحان سے دوچار ہوجائے کہ وہ حق کی طرف جائے یا باطل کی طرف۔ خدا کی اطاعت اختیار کرے یا اس سے بغاوت کی طرف چل نکلے۔ ایسے تمام مواقع فتنے کے مواقع ہیں۔ یہاں آکر آدمی کی اصل آزمایش ہوتی ہے۔ آدمی کی زندگی کا یہ فیصلہ کہ وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ ہے یا نہیں، پلنگ پر لیٹے لیٹے نہیں ہوجاتا۔ جب آپ دنیا کی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور دنیا کے معاملات سے آپ کو سابقہ پیش آتا ہے، اس وقت قدم قدم پر آدمی کی آزمایش ہوتی ہے کہ آیا یہ واقعی اللہ کا بندہ ہے یا اپنے نفس کا بندہ ہے، اللہ کا بندہ ہے یا دوسرے انسانوں کا بندہ ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ بڑی آزمایش آدمی کو اپنے اموال اور اپنی اولاد کے معاملے میں پیش آتی ہے۔ آدمی کا اپنا مالی مفاد اور اس کی اولاد کا مفاد اس کے سامنے یہ سوال رکھ دیتا ہے کہ آیا وہ حق کی پیروی کرے یا باطل کی پیروی کرے۔ حرام و حلال کے حدود کا لحاظ رکھے یا ان کو پسِ پشت ڈال دے۔ مالی مفاد یہ کہتا ہے کہ حرام ذرائع سے جو کچھ بھی کامیابی ہوسکتی ہے وہ ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ کاروبار کو وسعت دینے کے لیے اگر سودی قرض لینا پڑتا ہے تو لے لو کیونکہ اس سے تمھارے لیے کامیابی کے دروازے کھل جائیں گے۔ تمھاری کھیتیاں پھلیں پھولیں گی اور تمھاری تجارت چمکے گی۔ دوسری طرف یہ ہے کہ اگر تم حلال اور حرام کے چکر میں پڑے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ تمھاری تجارت بڑھے گی، نہ زراعت کو ترقی ملے گی۔ اس طرح تمھارا معیار زندگی ان پابندیوں کے ساتھ تو بلند ہونے سے رہا۔

اسی طرح اولاد کے معاملے میں بھی آدمی کو سخت آزمایش پیش آتی ہے۔ ایک طرف اولاد کا دنیاوی مفاد یہ چاہتا ہے کہ آدمی حلال و حرام کے حدود و قیود کو توڑ دے، اور س بات سے بے پروا ہوجائے کہ جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے۔ کیا چیز اللہ کے دین کے مطابق ہے اور کیا چیز اس کے دین کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کس چیز میں ہے اور اس کی بغاوت کس چیز میں ہے۔ بس وہ صرف یہ سوچے کہ اس کی اولاد کو عیش کس طرح نصیب ہوسکتا ہے، اور اس کا مستقبل کس طرح تاب ناک ہوسکتا ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے سب کچھ کرتا چلا جائے۔ دوسری طرف آدمی اپنی آنکھوں سے یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے والے ہیں، ان کی اولاد کے لیے ترقی کے کتنے مواقع کھلے ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جو شخص حدود اللہ کی پابندی کرنے والا ہے، اس کی اولاد کو آیندہ کیا مشکلات پیش آنے والی ہیں اور ان کا مستقبل کتنا تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے سخت ماحول کے اندر جب ایسی سخت آزمایشیں آدمی کو پیش آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے طرزِعمل اور انتخاب کو اس وقت دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ آدمی واقعی میرا بندہ ہے یا خودسر اور خودمختار ہے اور اپنی ذات کا اور خواہشات کا بندہ ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد فتنہ ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ: وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ ’’اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے‘‘۔

ان دونوں باتوں کے درمیان ایک پورا خلا ہے جس کو آپ خود بھر سکتے ہیں۔ اس فتنے سے بخیریت نکلو گے تو یہ نہیں ہے کہ تمھارے مفاد سچ مچ قربان ہوگئے اور تمھیں واقعی نقصانات اٹھانے پڑے___ نہیں، بلکہ اللہ کے پاس اجرعظیم ہے۔ وہ اجرعظیم جو نہ دنیا تمھیں دے سکتی اور نہ اولاد دے سکتی ہے۔ اللہ کے پاس جو اجرعظیم ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے تمھارا خدا کی خوش نودی اور اس کی راہِ اطاعت اختیار کرنے کا انتخاب خسارے کا سودا نہیں ہوگا، بلکہ اس کے بدلے میں تم اللہ کے ہاں اجرعظیم پائو گے۔ ہاں، اگر تم اس آزمایش کے موقع پر ناکام ہوجاتے ہو تو پھر تم نہ صرف اللہ کے اجرعظیم سے محروم ہوجائو گے، بلکہ اُلٹے اللہ کے ہاں بغاوت اور سرکشی کے جرم میں پکڑے جانے کا سامان بھی کرلو گے۔

استطاعت کا مفھوم

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۶) لہٰذا جہاں تک تمھارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمھارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہاں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہفَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ،  ’’اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہو‘‘۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ سے تقویٰ کرنے کا جو بلند ترین معیار ہے، اس کے مطابق تقویٰ اختیار کرو، بلکہ فرمایا کہ جتنی تمھاری استطاعت ہے اس کی حد تک اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کمی نہ کرو۔ دیکھیے یہ ایک بہت بڑی رعایت ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو کمالِ تقویٰ کا حق ہے وہ ادا کرو کیونکہ اگر یہ مطالبہ عام انسانوں سے کردیا جاتا ہے تو انبیا ؑکے سوا کون اس مرتبے تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے مطالبہ ہم سے یہ کیا گیا ہے کہ جہاں تک تمھارے بس میں ہے، اللہ سے تقویٰ کرو اور اس میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ آپ کی استطاعت کیا ہے، یہ اللہ کا کام ہے، آپ کا نہیں۔ گویا ایک وہ استطاعت ہے جو آپ خود اپنی جگہ سمجھ لیں، اور ایک استطاعت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں آپ کی استطاعت ہے۔ ان دونوں باتوں میں بے انتہا فرق ہے۔

میں آپ کو ایک مثال دے کر بتاتا ہوں کہ آدمی کے سامنے ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ اگر میں حرام طریقے سے یہ قرض حاصل کر کے اپنا سرمایہ بڑھا لوں تو میری صنعت اور تجارت اتنی ترقی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر میں یہ کام نہ کروں تو یہ جو میرا چھوٹا سا کاروبار ہے بس اسی میں پڑا رہوں گا اور کبھی ترقی نہیں کرسکوں گا۔ یہ سوچ کر وہ یہ راے قائم کرتا ہے کہ اب میری استطاعت میں یہ نہیں ہے کہ میں اس حرام سے بچوں۔ اب کیا کروں؟ یہ ایک واقعی مجبوری اور اضطرار کی حالت ہے___ یہ محض خود فریبی ہے۔ شریعت کی رُو سے اضطرار اس چیز کا نام ہے کہ آپ پر فاقوں کی نوبت آجائے تب محض جان بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت ہوسکتی ہے۔ اگر ایک آدمی اپنی جگہ یہ قرار دے لیتا ہے کہ اسے کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے۔ دوسری طرف دو وقت کی روٹی چل رہی ہے، کپڑا پہننے کو مل رہا ہے، مکان بھی رہنے کے لیے موجود ہے، لیکن وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کو کاروبار بڑھانے کا اضطرار لاحق ہے اور اس لیے اب اس کی استطاعت میں حرام سے بچنا ممکن نہیں ہے، محض مجبوری کی حالت میں لینا پڑ رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ خوداختیار کردہ اضطرار تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ ہاں، واقعی تمھاری استطاعت بس اتنی ہی تھی۔ نہیں، بلکہ آخرت کی میزان میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا کہ واقعی تمھاری استطاعت کیا تھی اور اس کے مطابق تم نے تقویٰ کا حق ادا کیا ہے یا نہیں۔

ایک وہ استطاعت ہے جس کے حدود آدمی اللہ سے ڈرتے ہوئے طے کرے، ایک استطاعت وہ ہے جو آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے طے کرتا ہے۔ جب آدمی نفس کی بندگی کرتے ہوئے اپنی استطاعت طے کرتا ہے تو وہ ہمیشہ خود کو غلط طور پر حرام کھانے پر قائل کرتا ہے، اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کا خدا بھی اس کی اس خودفریبی سے دھوکا کھا جائے۔ جب اپنے دل میں اپنے موقف کی کمزوری کو محسوس کرتا ہے تو پھر مولویوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے اس اضطرار کی بنا پر اس حرام کو میرے لیے حلال کر دیجیے کہ میں واقعی ایسا مضطر ہوں جس کی بنا پر یہ میرے لیے حلال ہے۔ لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اگر کوئی مولوی صاحب بھی یہ فتویٰ دے دیں کہ ہاں، تم واقعی مضطر ہو اور یہ حرام تمھارے لیے حلال ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا حرام حلال نہیں ہوجائے گا، بلکہ جب وہ اس کے فتوے کی بنا پر حلال و حرام کے حدود توڑے گا تو خود وہ مولوی صاحب بھی ساتھ ساتھ پکڑے ہوئے آئیں گے کہ حرام کو حلال قرار دینے کا یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون تھے۔ اس طرح اس حرام خور کی دنیا تو بنے گی اور تجارت چمکے گی لیکن    وہ صاحب جنھوں نے یہ فتویٰ دیا ہوگا خواہ مخواہ جوتے کھائیں گے اور شاید کھال بھی کھنچوا بیٹھیں۔ یہ اس بنا پر کہ یہ فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے کہ واقعی آپ کی استطاعت کیا ہے۔ ایک آدمی اگر خود اپنی جگہ اپنی خواہشِ نفس کے پیچھے لگ کر اپنی استطاعت کی حدود مقرر کرے تو وہ فیصلہ کن چیز نہیں ہے___ اسی لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو جہاں تک تمھارے بس میں ہے۔

وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا’’اور سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعے سے تمھیں احکام دیتا ہے ان کو سنو، سمجھو اور ان کے مطابق عمل کرو، اس کی اطاعت اختیار کرو۔ وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِاَ۔ّ   نْفُسِکُمْ ’’اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو‘‘۔ یہ تمھارے لیے ہی بہتر ہے۔

دل کی تنگی

وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶) اور جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے، بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

دل کی تنگی سے مراد یہ ہے کہ آدمی تنگ نظری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے لگے کہ مجھے کیا کام کرنا چاہیے اورکیا نہ کرنا چاہیے۔ جب آدمی تنگ نظری کے ساتھ اپنے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فیصلہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر تمھارے مفاد پر ذرا سی بھی چوٹ پڑتی ہے تو اس کو گوارا نہ کرو بلکہ تمھارے مفاد کی ترقی میں جو رکاوٹ بھی پیش آسکتی ہو، اس کا خطرہ کبھی مول نہ لو۔ یہ تنگ نظری کا فیصلہ ہے۔ اس کے برعکس جو آدمی فراخ حوصلگی اور عالی ظرفی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میرا مال تو سارے کا سارا اللہ کا دیا ہوا ہے۔ میں تو محض امین ہوں، اوراس کو بہرحال مجھے چھوڑ کر جانا ہے۔ آج اگر یہ میرے پاس ہے تو میرے مرنے کے بعد یہ دوسروں کے پاس چلاجائے گا۔ اس میں سے میرے کام صرف وہی کچھ آنا ہے جو میں نے اپنی زندگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا، باقی سب کچھ تو وارثوں کے لیے رہ جائے گا۔ اس طرح سوچ کر جو آدمی فیصلہ کرتا ہے وہ صحیح فیصلہ کرتا ہے لیکن جو آدمی دل کی تنگی میں مبتلا ہو وہ اپنے نہایت چھوٹے اور حقیر مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بخل کرتا ہے۔ اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو لوگ دل کی تنگی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اور لازمی بات ہے کہ جو تنگ نظری میں مبتلا ہیں ان کے لیے کوئی فلاح نہیں ہے۔

قرضِ حسن

اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (۱۷) اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمھیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمھارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدر دان اور بُردبار ہے۔

اس چھوٹے سے فقرے میں دیکھیے ایک وسیع اور عظیم مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو، یعنی مال اللہ تعالیٰ کا ہے، تمھارے پاس تو بس بطور امانت ہے لیکن اس کے باوجود تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کرنا تمھارا فرض تھا۔ ہاں، اس مال میں سے جو کچھ تم اپنے لیے، اپنی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہو، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت ہے جو اس نے تمھیں دے رکھی ہے کہ میرا یہ مال تیرے حوالے ہے اور تم اپنی ذات پر بھی اس میں سے خرچ کرسکتے ہو۔ اصل میں تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا آپ کا فرض تھا لیکن یہ اس کی انتہائی فیاضی اور مہربانی ہے کہ وہ اس کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے بشرطیکہ وہ قرضِ حسن ہو۔

قرضِ حسن سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض کسی غلط نیت کے ساتھ نہ دیا جائے، بطور ریاکاری نہ دیا جائے، کسی پر احسان جتانے کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ اس سے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی مطلوب ہو۔ یہ سمجھتے ہوئے خرچ کیا جائے کہ یہ اللہ کا مال ہے اور اسے اسی کی راہ میں جانا چاہیے۔ پھر قرضِ حسن سے مراد یہ بھی ہے کہ آدمی اس پر صرف اللہ ہی سے اجر کی اُمید رکھتا ہے کسی اور سے اجر کی خواہش یا اُمید نہیں رکھتا۔ یہ ہے وہ قرضِ حسن جس کے متعلق فرمایاکہ یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ ’’وہ اس کو تمھارے لیے کئی گنا بڑھائے گا‘‘۔ گویا وہ صرف اس قرض ہی کو واپس نہیں کرے گا بلکہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر عطا کرے گا۔

مغفرت کی شرط

اس کے بعد فرمایا: وَیَغْفِرْلَکُمْ’’اور وہ تم سے درگزر کرے گا‘‘۔ یعنی آدمی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کتنا ہی اخلاص اپنے اندر پیدا کرلے، اور کتنی ہی تن دہی کے ساتھ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے، تب بھی اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو شیطان ہی ایک کانٹا مار جائے گا کہ میاں، تمھارے کیا کہنے! تم نے خدا کی راہ میں جو اتنا روپیہ خرچ کیا ہے، لوگ واقعی اس پر تمھاری تعریف کر رہے ہیں۔ اللہ تمھاری اس نیکی کی قدر نہیں کرے گا تو اور کس چیز کی کرے گا۔ اب اگر اللہ کے ہاں ان چیزوں کی پکڑ ہوجائے تو آدمی کا سب کیا دھرا خاک میں مل جائے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں سے درگزر نہ فرمائے، اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوسکتی۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ آپ کے دل میں آپ کے عمل کا اصل محرک کیا ہے، دنیا کی تعریف حاصل کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی۔ اگر واقعتا اللہ کی رضا جوئی اصل محرک تھی تو بیچ بیچ میں شیطان کے یا کسی انسان کے یا نفس کے ڈالے ہوئے جو وسوسے آئے تھے وہ سب معاف ہوجائیں گے بشرطیکہ بنیادی محرک اللہ کی رضا حاصل کرنا ہی ہو۔

اسی طرح آدمی دنیا میں جتنے اعمال بھی اللہ کی خوش نودی کے لیے کرتا ہے، وہ اپنی حد تک پوری کوشش بھی کرڈالے کہ اللہ تعالیٰ کی صحیح بندگی کا حق ادا کردے، اس کے حدود سے ممکنہ حد تک تجاوز نہ کرے، اس کے باوجود آدمی کے عمل میں بہ تقاضاے بشریت بہت سی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ درگزر سے کام نہ لے، چشم پوشی نہ فرمائے اور معیارِ مطلوب کے مطابق محاسبہ کرنے پر اُتر آئے تو شاید ہی آدمی کے کسی عمل کے قبول ہونے کی نوبت آسکے۔ ہر عمل کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی کھوٹ اور ایسی خامی نکل آئے گی جس کی بنا پر وہ عمل کھوٹے سکّے کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا جائے۔ لیکن یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے یہ اصول قائم کر دیا ہے کہ اگر بنیادی طور پر ایک آدمی کے اندر سچی وفاداری ہے، اس کی اطاعت کا حقیقی جذبہ ہے، اور اس کی رضاجوئی کی سچی خواہش ہے تو اس کے بعد اس کی سب کوتاہیاں معاف، اور سارے قصوروں سے درگزر!

اللّٰہ کی قدردانی اور بُردباری

وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ ’’اور اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بُردبار ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی یہ دو صفتیں بیان فرمائیں۔ شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی بڑا شاکر۔ شکریہ کا لفظ اسی ’شکر‘ سے ہے جو ہم اپنی زبان میں بولتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کا شکریہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شکریہ اللہ کی قدردانی ہے۔ مثلاً آپ کا کوئی خادم ہے جس کو آپ پوری تنخواہ دیتے ہیں، اس کے اُوپر ہر طرح کی عنایات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ بہتر سے بہتر حُسنِ سلوک کرتے ہیں۔ اگر اس کے مقابلے میں وہ خادم اپنی حد تک آپ کی پوری پوری اطاعت کرتا ہے اور کمالِ ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے، مزید یہ کہ اپنی استطاعت کی حد تک آپ کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تب یہ ایک فطری بات ہے کہ آپ کے دل میں لامحالہ اس کے لیے قدر پیدا ہوگی۔ اسی قدر کا نام شُکر ہے۔ آپ اس کے دل ہی دل میں شکرگزار ہوں گے کہ آپ نے اس پر جو عنایات کی ہیں، اس کو تنخواہ پوری اور بروقت دی ہے اور اس پر ہرطرح سے مہربان رہے ہیں، تو اس نے بھی آپ کی ان عنایات کا جواب نمک حرامی سے نہیں دیا، کام چوری سے نہیں دیا بلکہ اس نے ان احسانات کا جواب واقعی سچے دل سے وفادارانہ خدمت کے ذریعے سے دیا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے مشکور ہونے کا ترجمہ دراصل قدردان ہونا چاہیے نہ کہ شکرگزار۔ اگر یہ لفظ بولا جائے تو یہ اصل مفہوم کو عجیب رنگ دے دیتا ہے اور غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں اس کا صحیح مفہوم قدردانی ہی سے ادا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’قدردان‘ کیا ہے۔

دوسری چیز فرمائی کہ وہ حلیم ہے۔ اُوپر فرمایا کہ مَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ ’’جو شخص دل کی تنگی سے بچ گیا وہی فلاح پانے والا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہ ہے کہ وہ دل کی تنگی سے بچیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حِلم اور بُردباری ہے، سخت گیری اور  خُروہ گیری نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بات بات پر اپنے بندوں کو پکڑے۔ وہ درگزر سے، بُردباری اور حلیمی سے کام لیتا ہے۔ تم بھی وسیع القلب بنو، تنگ دل مت بنو کیونکہ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ تمھارے ساتھ سخت گیری کا معاملہ نہیں کرتا، بلکہ نرمی اور شفقت برتتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ رویّہ ہوتا کہ آپ نے جو جو قصور کیے ہیں ان کی سزا دیتا چلا جائے اور جو جو نیک کام کیے ہیں ان کا اجر دیتا چلا جائے، تو کون آدمی ایسا ہے جو سزا سے بچ سکے گا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک اور آقا اور فرماں روا مان کر اطاعت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تو اس کے بعد جتنی کوتاہیاں آپ سے اس کام میں رہ گئی ہوں وہ ان پر گرفت کرنے کے بجاے ان سے درگزر سے کام لیتا ہے اور آپ کو معاف کر دیتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ قیامت میں وہ نامۂ اعمال ہی سے خارج کر دی جائیں اور وہاں آدمی کو رسوا ہی نہ کیا جائے کہ تم دنیا میں یہ یہ کچھ کر کے آئے ہو۔ خود قرآن مجید میں اور احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ ایک سچے اور مخلص و وفادار مومن کا حساب دنیا ہی میں صاف کر دیا جاتا ہے۔ ایک کانٹا بھی اس کو چبھا تو اس کی کوئی غلطی معاف کر دی گئی، بیمار ہوا تو کوئی اور خطا معاف کر دی گئی، کوئی نقصان ہو تو کوئی اور گناہ معاف کر دیا گیا۔ الغرض ایک ایک خطا، قصور اور گناہ کا حساب یہیں صاف کر دیا جاتا ہے۔ آخر میں اگر پھر بھی کچھ بچ گیا تو اس کی وفاداریوں اور اعلیٰ خدمات کو دیکھ کر معاف کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کے سچے وفادار بندے بن کر زندگی گزاریں اور اس کے ساتھ جان بوجھ کر کوئی بے وفائی کا کام نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ دلی اور تنگ نظری کے ساتھ معاملہ کرنے والا نہیں ہے۔ جو کام انھوں نے اس کی خوش نودی کے لیے کیے ہیں ان کے لیے وہ شکور ہے، یعنی ان کی قدردانی کرتا ہے اور جو کوتاہیاں ان سے ہوگئیں وہ ان سے درگزر کرے گا، ان کے ساتھ حلم کا برتائو کرے گا۔

عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸) حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے، زبردست اور دانا ہے۔

یعنی اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں ہے۔ جو چیز آپ کے لیے غیب ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ، اور جو چیز آپ کے لیے شہادۃ ہے وہ بھی اس کے لیے شہادۃ ہے۔ یہ غیب کے الفاظ دراصل ہمارے علم کے لحاظ سے استعمال کیے گئے ہیں۔ مخلوق کے لیے جو کچھ غیب ہے وہ بھی اس پر عیاں ہے، اور جو کچھ مخلوق کے لیے عیاں ہے وہ بھی اس کے لیے عیاں ہے۔ تم جو کچھ کام بھی کرتے ہو ان کی حقیقت کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ساتھ وہ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ہے، یعنی زبردست اور حکیم۔ اس کے ارادوں اور فیصلوں کی تکمیل میں کوئی طاقت حائل نہیں ہوسکتی، اور اس کے ساتھ وہ حکیم ہے، یعنی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طاقت اور قدرت کو ہمیشہ حکمت اور دانائی کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ تمھارا معاملہ اس ہستی سے ہے اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے لیے سلامتی اور فلاح کی راہ کون سی ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمن احسن)

 

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ کا پہلا عظیم الشان کارنامہ    انصار و مہاجرین کے درمیان نظامِ مواخات کا قیام تھا۔ اس کے ساتھ ہی مکّے کے اہلِ ایمان کو مدینے (دارالاسلام) کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا، کیوں کہ مدینۂ طیبہ ایک شہری ریاست بن چکا تھا، جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان چند واضح شرائط پر ایک معاہدہ میثاقِ مدینہ طے پاگیا کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا، اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں دونوں فریق متحد ہوکر مدینے کا دفاع کریں گے۔ میثاقِ مدینہ مسلمانوں کے نزدیک اس لیے اہم تھا کہ اس معاہدے کے مطابق قوت و اقتدار کا مرکزی کردار آنحضوؐر کی ذات کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی تاریخ اور یہود حجاز کے طرزِعمل پر ایک نگاہ ڈالی جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ جو معاہدہ کیا، وہ کیوں ضروری تھا، اور اس کے حقیقی اسباب کیا تھے؟]

یھودِ مدینہ کی تاریخ

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑسکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے اُن کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے، جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آکر وہ اپنے بقیہ ابناے ملّت سے بچھڑگئے تھے ، اور دنیا کے یہودی سرے سے اُن کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انھوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں، اُن میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہودِ عرب کی تاریخ کا بیش تر انحصار اُن زبانی روایات پر ہے جو    اہلِ عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلایا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آکرآباد ہوئے تھے۔ اس کا قصّہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسٰی ؑنے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالِقَہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آکرفرمانِ نبی کی تعمیل کی، مگر عَمالقہ کے بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوب صورت نوجوان تھا، اسے انھوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اُس وقت حضرت موسٰی ؑکا انتقال ہو چکا تھا۔ اُن کے جانشینوں نے اِس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت ِ موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انھوں نے اِس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آکر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن درحقیقت اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے،اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہلِ عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبلِ مسیح میں ہوئی، جب کہ بابِل کے بادشاہ بُختِ نَصَّر نے بیت المَقدِس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتربتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اُس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آکر وادی القُریٰ، تَیماء اور یثرب میں آباد ہوگئے تھے (فُتوح البُلدان، البلاذُرِی)۔ لیکن اِس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

حقیقت کیا ھے؟

درحقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب سنہ ۷۰ء میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا، اور پھر سنہ ۱۳۲ء میں انھیں اس سرزمین سے بالکل نکال باہر کیا، اُس دَور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آکر انھوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سُودخواری کے ذریعے سے اُن پر قبضہ جما لیا۔ اَیلہ، مَقنا، تبوک، تَیماء، وادی القُریٰ، فَدَک اور خیبر پر اُن کا تسلّط اسی دَور میں قائم ہوا۔ اور بنی قُرَیَظہ، بنی نَضِیر، بنی بَہدَل اور بنی قَینُقَاع بھی اُسی دور میں آکر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے [تین] قبائل میں سے بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ زیادہ ممتاز تھے ، کیونکہ وہ کاہنوں (Cohens یا Priests) کے طبقے میں سے تھے، انھیں یہودیوں میں [بنوقَینُقاع کے مقابلے میں] عالی نسب مانا جاتا تھا اور ان کو اپنی ملّت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینے میں آکر آباد ہوئے، اُس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انھوں نے دبا لیا اور عملاً اِس سرسبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد سنہ ۴۵۰ء یا ۴۵۱ء میں یمن کے اُس سیلابِ عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورئہ سبا کے دوسرے رکوع میں [آیا] ہے۔ اِس سیلاب کی وجہ سے قومِ سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غَسّانی شام میں، لَخمی حِیرَہ (عراق) میں، بنی خُزاعہ جدّہ و مکّہ کے درمیان، اور اَوس و خَزرَج یثرب میں جاکر آباد ہوئے۔ یثرب پرچونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انھوں نے اوّل اوّل اَوس و خَزرَج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چارو ناچار بنجر زمینوں پر بس گئے، جہاں اُن کو قُوتِ لایمُوت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخرکار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غَسّانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اَوس و خَزرَج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نَضِیر اور بنی قُرَیَظہ شہر کے باہر جاکر بسنے پر مجبور ہوگئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینُقاع کی چونکہ اِن دونوں یہودی قبیلوں سے اَن بن تھی، اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اُسے قبیلۂ خَزرَج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اُس کے مقابلے میں بنی نَضِیر و بنی قُرَیَظہ نے قبیلۂ اَوس کی پناہ لی، تاکہ اطرافِ یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں…

یھودِ یثرب کے نمایاں خدوخال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے، آغازِ ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خدوخال یہ تھے:

  •  عربیت کا رنگ: زبان، لباس،تہذیب، تمدّن، ہر لحاظ سے انھوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کرلیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہوگئے تھے(ایضاً، ص ۹۲-۹۴)۔ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُورا کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ ان کے چند گنے چُنے علما کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانۂ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے، ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعراے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انھیں مُمیَّز کرتی ہو۔ اُن کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ درحقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن اِن ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انھوں نے شدّت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیّت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انھوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں رہ نہ سکتے تھے۔
  •  اسرائیلیت کا شدید تعصب: ان کی اِس عربیت کی وجہ سے مغربی مُستشرقین کو   یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علما نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح   اہلِ عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔

اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کو وہ اُمّی (gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف اَن پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان اُمّیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سردارانِ عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انھیں دین یہود میں داخل کرکے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایاتِ عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہوگئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجاے صرف اپنے کاروبار سے دل چسپی تھی۔ اِسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایۂ فخروناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علما نے تعویذ گنڈوں اور فال گیری اور جادُوگری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا، جس کی وجہ سے عربوں پر اُن کے ’علم‘ اور ’عمل ‘کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔

  •  مضبوط معیشت اور سود خواری: معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہلِ عرب میں رائج نہ تھے، اور باہرکی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ اِن وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلّے کی درآمد اور یہاں سے چھواروں کی برآمد ان کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انھی کا قبضہ تھا۔ پارچہ بافی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ مے خانے بھی انھوں نے قائم کر رکھے تھے، جہاں شام سے شراب لاکر فروخت کی جاتی تھی۔ بنی قَینُقاع زیادہ تر سُنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنجَ بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سودخواری کا تھا، جس کے جال میں انھوں نے گردوپیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھاتھا، اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنھیں قرض لے لے کر ٹھاٹ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہ بھاری شرح سُود پر قرضے دیتے، اور پھر سُوددر سُود کا چکر چلاتے تھے، جس کی گرفت میں آجانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اِس طرح انھوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اِس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔
  • دوغلی پالیسی: ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انھیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ اُن بڑی بڑی جایدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انھیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انھوں نے اپنی منافع خوری اور سُودخواری سے پیدا کی تھیں۔ مزیدبرآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بناپر بارہا انھیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسااوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلے کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قُرَیَظہ اور بنی نَضِیر اَوس کے حلیف تھے اور بنی قَینُقاع خَزرَج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدّت پہلے اَوس اور خَزرَج کے درمیان جو خوں ریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی، اُس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

میثاقِ مدینہ

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی  تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپؐ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اوّلین کام کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ اَوس اور خَزرَج اور مہاجرین کو ملاکر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا، جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔

اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں] یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن اُمور کی پابندی قبول کی تھی:

اِنَّ عَلَی الْیَہُوْدِ نَفَقَتُہُمْ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ نَفَقَتُہُمْ ، وَ اِنَّ بِیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ حَارَبَ اَہْلَ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ ، وَ اِنَّ بَیْنَھُمْ النُّصْحُ وَالنَّصِیْحَۃُ وَالْبِرُّ دُوْنَ الْاِثْمِ ، وَاِنَّہُ لَمْ یَاثَمْ اِمْرَؤٌ بِحَلِیْفِہٖ ، وَ اِنَّ النَّصْرَ لِلْمَظْلُوْمِ، وَ اِنَّ الْیَہُوْدَ یُنْفِقُوْنَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ مَا دَامُوا مُحَارِبِیْنَ ، وَ اِنَّ یَثْرَبَ حَرَامٌ جَوْفُھَا لِاَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ …… وَ اِنَّہُ مَا کَانَ بَیْنَ اَہْلِ ہٰذِہِ الصَّحِیْفَۃِ مِنْ حَدَثٍ اَوْ اِشْتَجَارِ یُخَافُ فَسَادُہُ فَاِنَّ مَرَدَّہُ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاِلٰی مُحَمَّدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ …… وَ اِنَّہُ لَا تُجَارُ قُرَیْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَہَا، وَ اِنَّ بَیْنَہُمُ النَّصْرُ عَلٰی مَنْ دَہِمَ یَثْرِبَ - عَلٰی کُلِّ اُنَاسٍ حِصَّتَہُمْ مِنْ جَانِبِھِمْ الَّذِیْ قِبَلَہُمْ (ابن ہشام، ج ۲ ، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)

یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا، حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہوگا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا۔ اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے ، یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اُس کے مصارف اٹھائیں گے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے۔ اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکا کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی، اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو، اس کے مقابلے میں شرکاے معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔

یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معانِدانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بہ روز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے:

 ___ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو محض ایک رئیسِ قوم دیکھنا چاہتے تھے جو اُن کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کرکے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے، مگر انھوں نے دیکھا کہ آپؐ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں خود اُن کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا)، اور معصیت چھوڑ کر اُن احکام الٰہی کی اطاعت کرنے اور اُن اخلاقی حُدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیا بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ اُن کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالم گیر اصولی تحریک اگرچل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

 ___دوسرے یہ کہ اَوس و خَزرَج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گردوپیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اِس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اِس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملّت بنتے جا رہے ہیں، انھیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انھوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی، وہ اب اِس نئے نظام میں نہ چل سکے گی، بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا، جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

 ___تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدّن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کر رہے تھے، اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام ناجائز طریقوں کا سدّباب شامل تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سُود کو بھی آپؐ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے، جس سے انھیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپؐ  کی فرماں روائی قائم ہوگئی تو آپؐ  اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اِس میں ان کو اپنی [معاشی اور سماجی] موت نظر آتی تھی۔

حضوؐر کی مخالفت: یھود کا قومی نصب العین

ان وجوہ سے انھوں نے حضوؐر کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپؐ  کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرّہ برابر تأمُّل نہ تھا۔ وہ آپؐ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے، تاکہ لوگ آپؐ  سے بدگمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے، تاکہ وہ اِس دین سے برگشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے، تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے سازباز کرتے تھے۔ ہر اُس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اَوس اور خَزرَج کے لوگ خاص طور پر اُن کے ہدف تھے، جن سے اُن کے مدت ہاے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بُعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ اُن کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش کرتے تھے، تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اُخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیاتھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جوں ہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا، وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور عَلانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمھارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمھارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔(تفہیم القرآن ،جلد پنجم،ص ۳۷۰-۳۷۷)

[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دعوتِ اسلامی سے یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کا اظہار تو مکی زندگی میں بھی ہوتا رہتا تھا، اور قرآن مجید کی مکی سورتوں میں اس کے شواہد بھی موجود ہیں، لیکن حضوؐر کی مدینہ تشریف آوری پر ایک معاہدے کی پابندی قبول کرلینے کے باوجود، حضوؐر اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے خلاف ان کا عناد ایک تدریج کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آغاز اس معاہدے کے فوراً بعد ہوا، پھر اس کی شدت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ غزوئہ بدر (سنہ ۲ ہجری) تک پہنچتے پہنچتے ان کا یہ طرزِعمل معاہدے کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور دشمنی میں تبدیل ہوگیا۔   غزوئہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر جو فتحِ مبین حاصل ہوئی، اس نے انھیں اور زیادہ مشتعل اور بے قابو کردیا اور ان کے بُغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ یہود کی اس کھلی کھلی معاندانہ روش کی بنا پر آگے چل کر حضوؐر نے ان کے تینوں بڑے قبائل (بنوقَینقُاع، بنونَضیر اور بنوقُرَیَظہ) کے خلاف جو سخت اقدامات فرمائے ان کی تفصیل آیندہ صفحات میں اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔]

یھودِ مدینہ کا طرزِعمل ___ قرآن کی روشنی میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتابُ اللہ کے خلاف یہود کی دشمنی، ان کا بُغض، ان کی نفرت اور ان کی مُعانِدانہ روش کس درجے کی تھی؟ اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے، قرآن حکیم، خاص طور سے سورۃ البقرہ کے حوالے سے، یہود کے مُعانِدانہ طرزِعمل کی ایک جھلک سطورِ ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:

اَوس اور خَزرَج کے نومسلموں (یعنی گروہِ انصار) سے خطاب کرکے فرمایا گیا: اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ م بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ o (اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔)

(الف)نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان [لانے سے پہلے قبائلِ مدینہ اَوس اور خَزرَج کے] لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت،کتاب، ملائکہ ،آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انھوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انھوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھاجائیں گے۔ یہی معلومات تھیںجن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سن کر آپؐ  کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب ِآسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُرجوش نومسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مُشتَبہ ہی معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اس بنا پر [سورۂ بقرہ کی متعدد آیات میں] بنی اسرائیل کی تاریخی سرگذشت بیان کرنے کے بعد [یہاں] ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں، ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمھاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہوجائو گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، انھی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین ِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیںاور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔

(ب) [سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں]’ایک گروہ‘ سے مراد [یہود] کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔ ’کلام اللہ‘ سے مراد تورات، زَبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔ ’تحریف‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیر و تبدل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں ___ علماے بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلامِ الٰہی میں کی ہیں۔( تفہیم القرآن ،جلد اوّل، ص ۸۷)

یھود کی دینی اور اخلاقی پستی

[نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر یہودی پیشوائوں کے اندر یہ مرض شدت اختیار کرگیا تھا۔ اسی سورئہ بقرہ کی آیت ۷۶ تا ۱۲۱ میں یہود اور ان کے مذہبی پیشوائوں کی حالت پر جو تبصرہ کیا گیا ہے، اس کے درج ذیل نِکات سے اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، اس کی کتاب اور اس کے دین کے ساتھ کس قسم کا برتائو کر رہے تھے اور اُن کی دینی اور اخلاقی پستی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔]

۱- اللّٰہ کے متعلق ان کا فاسد عقیدہ: [اُن کے علما] وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں، یا جو آیات اورتعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہے، انھیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمھارے رب کے سامنے ان کو تمھارے خلاف حجت کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چھپا لے گئے، تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جملۂ معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔

۲- کلام اللّٰہ میں تحریف اور آمیزش: اُن کے علما--- نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الٰہی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کردیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ [مزید برآں ]ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفسر کی تاویل، ہرمُتکلم کا الٰہیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد، جس نے مجموعۂ کتبِ مقدسہ (بائبل) میں جگہ پا لی، اللہ کا قول (Word of God) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہوگیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہوگئے۔(ایضاً، ص ۸۸-۸۹)

[اس پر فرمایا گیا:] فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ o (پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نَوِشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔(ایضاً)

۳- یھودی عوام کی خوش خیالیاں: [رہے عوام تو ان کا یہ ] حال تھا، علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں، اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھوٹی توقعات پر جی رہے تھے(ایضاً)۔ [ان کے بارے میں فرمایا:] ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جوکتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد اُمیدوں اور آرزوئوں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔

۴- خود فریبی کی انتھا: [کلامِ الٰہی کے ساتھ یہ معاملہ کرنے اور خوفِ خدا سے   بے نیاز ہوجانے کے بعد اُن کی خود فریبی اور جسارت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ بمطابق ارشاد الٰہی] وہ کہتے تھے: دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلاَّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ [اس پر فرمایا گیا:] اِن سے پوچھو: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی    خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو    جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمھیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکّر میں پڑا رہے گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔(ایضاً، ص ۸۸-۹۰)

یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں، بہرحال چونکہ ہم یہودی ہیں، لہٰذا جہنم کی آگ ہم پر حرام ہے، اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔

۵- کتابُ اللّٰہ پر جزوی ایمان:نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِجنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبردآزما ہو جاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انھیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انھیںچھڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لین دین کو جائز ٹھیرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔(ایضاً، ص ۹۱-۹۲)

[چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:] اَفَـتُؤْمِنُوْنَ بِـبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِـبَعْضٍ، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کُفر کرتے ہو؟ (ایضاً، ص ۹۱)

۶- جبریل علیہ السلام سے یھود کی دشمنی: یہودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل ؑکو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں عذاب کا فرشتہ ہے(ایضاً، ص ۹۶)۔ [فرمایا گیا:] اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل ؑ سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل ؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمھارے قلب پر نازل کیا ہے---اس بنا پر تمھاری گالیاں جبریل ؑ پر نہیں، بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔ [پھر] یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے، لہٰذا تمھاری گالیوں میں تورات بھی حصے دار ہوئی۔۱۰؎

۷- انبیا کے مقابلے میں سرکشی اور سنگ دلی: [سورۂ بقرہ کی آیت ۸۷ میں ان کے ایک سنگین جرم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:] پھر یہ تمھارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمھاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمھارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ [اس کے بعد اگلی آیت ۸۸ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:] وہ کہتے ہیں: ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پِھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔(ایضاً، ص ۹۲-۹۳)

[گویا اُن کا کہنا یہ ہے کہ] ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمھاری بات کا اثر نہ ہوگا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کردیا جائے۔

۸- کتابُ اللّٰہ اور رسولؐ اللّٰہ کی تکذیب:[آیت ۸۹ میں قرآن کے بارے میں ان کے طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:] اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دُعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے، تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

[پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ] نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دَورشروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ ِبعثتِ محمدیؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی اُمیّد پر جِیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیۂ کلام یہی تھا کہ ’’اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے‘‘۔ اہلِ مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حالات معلوم ہوئے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہ یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان   لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’وہ اس کو پہچان بھی گئے‘ تواس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت امّ المومنین حضرت صَفِیَّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیرتک آپ ؐسے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:

چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟ والد: خدا کی قسم، ہاں۔ چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟ والد: ہاں۔ چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟ والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، جلد دوم، ص۱۶۵، طبع جدید)

[علماے یہود کی اس بے جا ضد اور انکارِ حق پر تبصرہ کرتے ہوئے آیت ۹۰ میں فرمایا گیا:] خدا کی لعنت اِن منکرین پر! کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلّی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ  اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا، لہٰذا اب یہ غضب بالاے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلّت آمیز سزا مقرر ہے۔

[اس ارشادِ الٰہی کے مطابق:] یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو، مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا، جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا، جب اس نے ان سے نہ پوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا، نواز دیا، تو وہ بگڑ بیٹھے۔(ایضاً، ص ۹۳-۹۵)

[اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری پر،  گروہِ یہود، یثرب کے اندر معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ایک قابلِ لحاظ حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب خیال فرمایا کہ چند شرائط کے ساتھ اُن سے ایک معاہدہ کرلیا جائے۔ نیز درج بالا تفصیل سے یہودِ مدینہ کی مختصر تاریخ، اُن کی اخلاقی اور مذہبی حالت،  ان کے قومی نصب العین (آنحضوؐر سے دشمنی)، اسلام سے ان کے تعصّب اور عناد اور بحیثیت مجموعی ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ پر مبنی ان کے منفی رویوں کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔] (انتخاب، ترتیب و تدوین: عبدالوکیل علوی، حفیظ الرحمٰن احسن، رفیع الدین ہاشمی)