سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


اے لوگو! جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے، اس شخص نے تمھیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمھیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پرکیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمھاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بُغض وہ اس خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں، اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجائو، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ  تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیرخواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے  ربِّ دوجہاں! جس طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر   بے حدوبے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے بلند کر اور آخرت میں بھی انھیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔(جلد ۴، حاشیہ ۱۰۷، صفحہ ۱۲۴)


اِس جامع فقرے [مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں] کے کئی مطلب ہیں:

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں، میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے، اوروہ ہے سراسر عدل وانصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے، میں اس کا ساتھی ہوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمھارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر، بڑے اور چھوٹے، غریب اور امیر، شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اور جو جرم ہے، وہ سب کے لیے جرم ہے، اِس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی دانست کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں، اور اُن بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کروں جوتمھاری زندگیوں میں اور تمھارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمھارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔(ج ۴، ح ۲۸، ص ۴۹۵-۴۹۶)


جس سیاق و سباق میں یہ آیت (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) ارشاد ہوئی ہے، اس کے لحاظ سے رسولِؐ پاک کے طرزِعمل کو اس جگہ نمونے کے طور پر پیش کرنے سے مقصود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنھوں نے جنگ ِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسولؐ کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیرووں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کااس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدّم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کے پیرووں کی طرف سے اِن کمزوریوں کااظہارمعقول ہوسکتا ہے مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہرمشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے حصہ لیا۔ کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپؐ ہر وقت محاذِ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔   بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوںکے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِعظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کررہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپؐ کے اتباع کا مدعی تھا، اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اُس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہرمعاملے میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔(ج ۴، ح ۳۴، ص ۸۰-۸۱)


شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی، حق کے لیے لڑنے والوں، اور خصوصاً اُن کے سربرآوردہ لوگوں، اور سب سے بڑھ کر اُن کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اُونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انھوں نے بھی کی ہے۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کارروائی کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہرطرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں، مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہوجائے، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہوجاتے ہیں، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے...

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخرکار جناب صدیقؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور انھوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ اُن کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضوؐر پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرئہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپؐ فوراً اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اُٹھ کر آپؐکے پیچھے ہولیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپؐ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپؐ ناراض ہوگئے؟ فرمایا: ’’جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمھارے ساتھ رہا اور تمھاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں  بیٹھ سکتا تھا‘‘۔ (ج ۴، ح ۴۰،ص ۴۵۹)


 

حضرات! اتنی تفصیل مَیں نے اس لیے بیان کی ہے کہ پیش نظر مسئلے کی پوری نوعیت، نزاکت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لی جائے۔ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے، اس سے چند باتیں بخوبی واضح ہوجاتی ہیں:

اول: یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور اُن کی اس روش میں آیندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکا کی پُشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔

دوم: یہ کہ اشتراکی بلاک  سے کوئی اُمید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعاً کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور    وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میںڈالیں اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔

سوم: یہ کہ اقوامِ متحدہ ریزرولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔

چہارم: یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے۲۲ سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔

ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد نہ صرف مسجدِاقصیٰ، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کردینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک   عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجداقصیٰ کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جب کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ ۶۰لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو ۷۰، ۷۵ کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی ۳۰-۳۲ حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سرجوڑ کر بیٹھیں، اور روے زمین کے ہرگوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوجائیں تو اس مسئلے کو حل کرلینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔

اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجداقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے، اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفر سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی ۱۹۱۷ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انھیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبروظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بناکر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجاے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور عالمِ اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پُرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں، اور باہر سے آئے ہوئے اُن غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکا، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر، اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے،    تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کوصاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش  اگر اسی طرح جاری رہی تو روے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں   اُس کے لیے کوئی ادنیٰ درجے کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ  اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔ (سانحۂ مسجداقصٰی، ص ۱۸-۲۰، ناشر: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور)

 

دنیا میں ہر طریقِکار مقصد کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے۔ جب مقصد متعین ہوجاتا ہے تو پھر تمام وسائل حصولِ مقصد کے لیے لگا دیے جاتے ہیں اور آدمی جو بھی محنت اور مشقت کرتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد کو اس کے قریب تر کر دے۔ اسی طرح ہمارا بھی ایک مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک طریقِکار ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، محنتوں اور وسائل کو اس میں صرف کردیں۔

ھمارا مقصد

ہمارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارا مقصد اقامتِ دین ہے، یعنی پورے کے پورے دین کو عملاً نافذ کرنا۔ اور یہ نفاذ صرف اپنے ہی ملک تک مقصود نہیں ہے بلکہ تمنّا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں نافذ ہو اور پورا کرۂ ارضی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔ لیکن اس کی ترتیب یہ ہے کہ یہ پہلے پاکستان میں نافذ ہو۔ اس کے بعد اس کے وسائل کو دین کی عالمی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔

تبلیغ

تبلیغ کامفہوم اسلام کی تعلیمات کو فقط پہنچا دینا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق، اعمال اور معاملات میں کیا کیا ہدایات دی ہیں، بندگانِ خدا کو ان چیزوں سے آگاہ کر دینے کا نام تبلیغ ہے۔ یہ سب امور واضح کر دینے کے بعد مبلغ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی۔ لیکن اقامتِ دین کے کام کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے، جہاں تبلیغ کا کام ختم ہوتا ہے۔ تبلیغ اقامتِ دین کی تمہید ضرور ہے، لیکن یہ ختم ہو جاتی ہے، جب تعلیماتِ دین پہنچ جائیں۔ ہمارا مقصد صرف تبلیغ نہیںبلکہ اقامتِ دین ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے از خود نہیں لی، بلکہ ہم پر  ڈالی گئی ہے، جیسا کہ قرآن میں آتا ہے: اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳) کہ اس دین کو قائم کرو۔ چونکہ ہم انبیا کے وارث ہیں اس لیے یہ مقصد از خود ہمارا مقصد بن جاتا ہے۔

اقامتِ دین اور تبلیغِ دین

اگر ہم اپنے ذمے صرف تبلیغِ دین ہی کا فرض رکھتے تو ہمارا کا م بہت ہلکا تھا۔ تبلیغ کی   ذمہ داریاں زیادہ گراں نہیں ہیں۔ ایک شخص نماز کی تبلیغ کرتا ہے، وہ لوگوں کو ارکانِ نماز اور   طریقۂ نماز سے متعارف کراتا ہے اور مسجد کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے اس کا کام یہاں ختم ہو گیا، کیونکہ تبلیغ کی حدود تلقین سے آگے نہیں بڑھتیں۔ لیکن جس شخص نے اپنے ذمے صرف تبلیغِ صلوٰۃ نہ لے رکھی ہو، بلکہ اقامتِ صلوٰۃ بھی ہو، اس کے کام کی حدود اس سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ذمے یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ مسجد بنائے بھی اور اس کا انتظام و انصرام بھی کرے اور اس کی تعمیر کے لیے اینٹ چونا سیمنٹ بھی فراہم کرے۔ یہ سارے کام جب وہ کر رہا ہوتا ہے تو دور سے دیکھنے والا اسے شاید کسی دُنیوی شغل میںمنہمک سمجھتا ہو اور یہ جان سکتا ہو کہ یہ شخص عمارت کے لیے جو عمارتی سامان فراہم کر رہا ہے، وہ اقامتِ صلوٰۃ کا ضروری حصہ ہے اور اقامتِ صلوٰۃ اس وقت تک ہو نہیں سکتی، جب تک مسجد نہ بنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ اینٹ، پتھر اور چونا بہم پہنچایا جائے۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی اور اس کی شکل و صورت ہر نگاہ کو دکھائی دینے لگی، تب معلوم ہوگا کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہے۔ کچھ لوگ شاید عمارت کا قبلہ رخ ہونا   دیکھ کر اندازہ کرلیں کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہو رہا ہے لیکن عام لوگ اس کی نوعیت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب کام پورا ہو چکتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ اقامتِ دین کا ہے۔ لوگ اقامتِ دین کے بنیادی تقاضوں کو جب نہیں سمجھتے تو وہ متعجب ہوتے ہیں کہ یہ اقامتِ دین کاکیسا کام ہو رہا ہے۔ درآں حالیکہ یہ ساری ضروریات فریضہ اقامتِ دین کی ہیں جو پوری ہوں گی تو اقامتِ دین کاکام ہوگا۔ لوگ عام طور پر تبلیغ کوتو سمجھتے ہیں لیکن اقامتِ دین کی اصطلاح اُن کے لیے اجنبی ہوتی ہے اور وہ اس کے مفہوم اور تقاضوں کو کماحقہ نہیں سمجھ پاتے۔

جماعتِ اسلامی کا مقصد

اقامتِ دین، جماعت ِاسلامی کا صرف اجتماعی مقصد نہیں بلکہ اس کے ایک ایک رکن کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ تبلیغ انفرادی طور پر بھی ہو سکتی ہے مگر اقامت کے لیے جدوجہد اجتماعی اور منظم ہونی چاہیے۔ جو لوگ اقامتِ دین کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عملی کام ہے، جس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام منظم محنت کامحتاج ہے اور منتشر اور غیر منظم افراداسے ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔

دنیا میں بعض ایسے اجتماعی ادارے بھی ہیں، جہاں ایک فرد اپنا ذاتی مقصد الگ رکھتے ہوئے بھی ان کے محدود مقاصد کی تکمیل میں شریک ہو سکتا ہے، مثلاً کوئی کلب ہے جو بالکل محدود مقاصد کے لیے وجود پذیر ہوا ہے، لوگ اس کے رکن بنتے ہیں اور کلب کے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن کلب کا مقصد ان کی اپنی شخصی زندگیوںکا مقصد نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا ہر رکن جس کو اپنا اجتماعی یا جماعتی مقصد جانتا ہے وہ اس کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دین کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے، اپنی انفرادی زندگی میںبھی اور اجتماعی زندگی میںبھی، وہ اپنی ہر سعی اور اپنی محنت کی ہر رمق اس میںکیوں نہ لگائے، وہ ضرور لگائے گا۔

جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اچھی طرح سے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے، یہ دین ان کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنا کوئی مقصد زندگی مقرر کر لیا ہے تو پھر اس کے لیے فطری اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنے تمام ذرائع، وسائل اور اپنا تمام وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس میں لگا دے، کیونکہ وہ مقصد اس کا مقصدِ زندگی ہے اور وہ اسی کے لیے جیتاہے۔ اور اگر کوئی شخص اقامتِ دین کو اپنا مقصد زندگی قرار دے کر کام نہیں کرتا تو کہنا پڑے گا کہ وہ اس کا مقصد زندگی ہی نہیں۔ اگر اقامتِ دین اس کا مقصد زندگی ہوتا اور وہ اس کا شعور بھی رکھتا تو حضرت صدیق اکبرؓ کے طرز عمل کی یاد اسے ضرور بے چین کیے رکھتی ۔

اقامتِ دین : انفرادی تقاضے

  •  دین کا فھم: اِس مقصدِ زندگی کے کچھ تقاضے اور ضروریات ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مقصدِ زندگی قرار دے لینے کے بعد اس کا علم وفہم ضروری ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا علم حاصل نہیں کرتا اور نہ اس کی فکر کرتا ہے، وہ اپنے مقصد کے شعور سے تہی دامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کا علم و شعور حاصل کرے اور اس کے مطابق اپنے اندر استعداد پیدا کرے۔
  •  مطلوبہ اخلاقی اوصاف: دوسری چیز ہے، اپنے مقصد کے مطابق اپنے اندر اخلاق پیدا کرنا۔ مبلّغ کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ لیکن اقامتِ دین کے لیے اس سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے۔ یہاں قدم قدم پر مخالف ہوائوں اور مزاحم قوتوں کا سامنا ہوتاہے، چپے چپے پر رکاوٹوں کی باڑیں کھڑی ملتی ہیں اور مقابلہ ہوتا ہے۔ پھر اس راہ میں صرف مزاحمتوں ہی سے سابقہ نہیں پڑتا، زیادتیوں سے واسطہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہاں گالیاں بھی ملتی ہیں اور بہتانوں کی غلاظت بھی اپنے اوپر برداشت کرنی پڑتی ہے، اور جیل بھی دیکھنی پڑتی ہے اور لالچ اور ترغیب کی وادیاں بھی قطع کرنی پڑتی ہیں۔
  •  حکمت: تیسری ضرورت اس راہ میں حکمت کی ہے۔ اس مقصد کے حامل میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ہر بلا کا سامنا حکمت سے کر سکے۔ راستے کا کوئی کانٹا اگر اس کا دامن کھینچتا ہے تو وہ اس سے اپنا دامن چھڑائے۔ اگر وہ دامن نہیں چھوڑتا تو اپنے دامن کا اتنا ٹکڑا پھاڑ کر پھینک دے اور اپنی منزل کو چل کھڑا ہو۔ یہ مقصد نوعیت میں خالص علمی ہے اور اس کا تقاضا ہے  کہ وقت ضائع نہ ہو، یکسوئی ہو اور صرف ایسی چیزوں کی جانب توجہ ہو جو حصولِ مقصد میں معاون و مددگار ہو سکتی ہیں۔ اس مقصد کا حامل بیکار بحثوں میں نہیں الجھتا۔ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور  نہ گالی کا جواب گالی سے دیتا ہے۔ یہ تقاضے مقصد کو ذاتی حیثیت میں اختیار کرنے کے تھے۔ اب اس کے جماعتی حیثیت میں تقاضوں کو بھی سمجھ لیجیے۔

اقامتِ دین: اجتماعی تقاضے

  •  موعظۂ حسنہ اور اس کے تقاضے: اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ موعظۂ حسنہ کو اختیار کیجیے۔ اقامتِ دین کرنے والوں کو حکمت کے ساتھ جائزہ لینا پڑے گا کہ عہد جدید کی کون کون سی گمراہیاں ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک طبیب ِحاذق کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گمراہی کے کیا اسباب ہیں۔ فرد اور معاشرے کے امراض کی  تشخیص کرنی پڑے گی کہ بگاڑ کے کیا محرکات ہیںاور لوگ دین کی جانب کیوں رغبت نہیں کرتے، اس سے رکنے کی کیا وجوہ ہیں؟ان تمام انحرافات کے عوامل معلوم کرنے ہوں گے تاکہ انھیں   معلوم کرکے ان کا سدباب اور استیصال کیا جائے۔ موعظۂ حسنہ کا مطلب صرف شیریں بیانی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اصلاح کیسے ہو؟ مناظرہ بازی نہیں بلکہ مرض کو دور کرنے کی کوشش ہے تاکہ مریض صحت یاب ہوجائے۔ مریض حکیم کو گالی دے گا تو حکیم بُرا نہیں مانے گا، نہ اپنا مقصد ترک   کرے گا۔ اسی طرح اقامتِ دین کرنے والے کی نگاہ اپنے مقصد پرلگی رہتی ہے اور وہ راہ کے کانٹوں اور ان کی چبھن کی کبھی پروا نہیں کرتا۔
  •  تنظیم و تربیت اور دعوت: اس مقصد کی راہ کا دوسرا کام تنظیم و تربیت اور دعوت ہے۔ اقامتِ دین ٹھنڈے ٹھنڈے وعظوں سے انجام نہیں پا جاتا۔ اس کے لیے جہاد کی پتّا ماری کی ضرورت ہے اور جہاد کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم ہو۔ جو لوگ اس مقصد کے حامل ہوں انھیں ایک رشتۂ نظم میں پرو دیا جائے۔ ان کے اندر فوج کا سا ڈسپلن اور ویسا ہی نظم ہو۔ پھر وہ باطل کی قوتوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ڈھیلے نظم والی فوج کبھی فتح نہیں پا سکتی۔ اقامتِ دین کی سعی کامیابی سے کبھی ہم کنار نہیں ہو سکتی، جب تک یہ منظم اور باسلیقہ نہ ہوگی۔ واضح رہے کہ اقامتِ دین کا مسئلہ ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دین بے چارگی کی حالت کو پہنچ چکا ہو اور باطل نظریات کا غلبہ ہو چکا ہو،  اب ان غالب اور طاقت ور نظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کوئی ڈھیلی ڈھالی قوت کار آمد نہیں ہوگی۔ اقامتِ دین کے لیے اجتماعیت کی نہ صرف مضبوط تنظیم ہونی چاہیے بلکہ اس کی تربیت بھی مسلسل ہونی چاہیے۔ جو مخالف قوتیں میدان میں اتری ہیں وہ رہنے کے لیے آئی ہیں، جانے کے لیے نہیں آئیں۔ اس لیے ان کا مقابلہ طاقت ور اور مضبوط تنظیم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ نظم کی جانب سے جو ہدایات جاری ہوں ان پرپوری پابندی سے عمل کیا جائے اور کوئی کام خود سری سے  نہ کیا جائے۔ تنظیم کے استحکام کا یہی راز ہے۔ یہ تنظیم و تربیت انتہائی ضروری ہے، چاہے اس قافلے میں مٹھی بھر آدمی ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ تنظیم و تربیت ہی کی برکت ہے کہ مٹھی بھر آدمی لاکھوں کی بھیڑ پر غالب آئے۔
  •  توسیع دعوت: تیسرا کام اس سلسلے کا توسیع دعوت ہے۔ جو جماعت قائم ہوگی، ناگزیر ہے کہ وہ اپنی دعوت بھی پھیلائے اور عوام کی راے کو اپنے حق میں ہموار کرے۔ توسیع دعوت کا ایک راستہ اقتدار بھی ہے، لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ کسی کو اقتدار مل جائے۔ یہ راستہ کوئی پایدار نہیں ہے اور اس کے بہت سے لوازمات ہیں، مثلاً اگر آپ کے ہاتھ میں اقتدار آتا ہے اور اقتدار کی مشینری آپ کی ہم نوا نہیںہوتی تو آپ اپنی تمام کوشش اور اخلاص کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکتے۔ پایدار راستہ صرف عوام کے ساتھ رابطے کا ہے۔ ایک ایک فرد تک دین کا پیغام پہنچایا جائے۔ وہ فرد زندگی اور مملکت کے جس بھی شعبے میں ہوگا، وہ بجاے خود دین کے لیے قوتِ نافذہ بن جائے گا۔ جب ملک کی فضا اور راے عامہ میں یہ نظریات رچ بس جائیں گے تو اس کے بعد کوئی مخالف قوت، وہ چاہے کتنی ہی مقتدر کیوں نہ ہو، ٹکنے نہ پائے گی، اور نہ دین کی راہ میں مزاحم ہو سکے گی۔ اس غرض کے لیے بڑی محنت اور جان ماری کی ضرورت ہے۔

توسیعِ دعوت کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کے اخلاق درست کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اسلامی نظام یہاں قائم ہو بھی جاتا ہے توکیا ایسے بداخلاق لوگ اس کی غیر معاون رعایا ثابت نہ ہوں گے؟ معاشرے میں جتنی اخلاقی خرابیاں رونما ہوں گی، دین کی اقامت میں اتنی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لیے آپ دعوت بھی پھیلائیں اور اخلاق کو بگڑنے سے بھی روکیں۔

  •  نـفاذِ اسـلام کے لیے تبدیلیِ اقتدار: اقامتِ دین کا چوتھا تقاضا تبدیلی ِاقتدار بہ حقِ اسلام ہے۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں آپ کا مقصد معروف کا فروغ اور منکر کا استیصال ہے۔ مثال کے طور پر آپ قرآن میں سود کو حرام پاتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں جب آپ کوئی کاروبار کرتے ہیں تو آپ کو جگہ جگہ سود سے سابقہ در پیش آتا ہے۔ شریعت میں بدکاری اور فحاشی ممنوع ہے، آپ گھر سے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسے ہر جگہ کھلی چھٹی ہے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ حرام کو فروغ اور حلال کی راہ میں بندشیں ہیں۔ ایک حالت یہ ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ ملک کی پوری انتظامی مشینری زور لگا دے کہ زنا بند ہو، سود ممنوع ہو، معروف پھیلے، منکر سکڑے۔ ان دونوں حالتوں میں کون سی حالت مطلوب ہے؟ ظاہر ہے دوسری حالت ہی مطلوب ہے۔

اب اگر دوسری حالت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، تو کیا یہ سیاست ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن نافذ ہونے کے لیے آیا ہے، صرف تلاوت کے لیے نہیں۔ تعزیرات پاکستان پڑھنے کے لیے نہیں چلن کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص دوسری حالت کو مطلوب جانتا ہے، تو کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حالت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اگر یہ حالت خود بخود پیدا ہونے والی ہوتی تو حضوؐر کو معرکہ ہاے بدروحنین در پیش نہ آتے۔ کوئی نہر کبھی دعائوں سے نہیںکھودی جاتی، اس کے لیے ہاتھ پائوں ہلانے پڑتے ہیں۔ دعائوں سے علم دین حاصل ہو سکتا تو دینی مدرسے قائم نہ ہوتے۔ سعی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو گا۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے: لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ، انسان کو بہرحال سعی کرنی پڑتی ہے۔ آج تک کسی کو یہ پھل انعام میں نہیں ملا۔

موجودہ حالات میں طریقِ کار

پاکستان بظاہر اس جماعت کو منتقل ہوا تھا جس نے مطالبہ پاکستان پیش کیا تھا، لیکن  بہ باطن یہ افسر شاہی [بیوروکریسی] کے ہاتھوں میںپہنچ گیا، اور بعد میں یہ بات بالکل کھل گئی کہ سب کچھ اتفاق سے نہیں ہوگیا بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے تحت یہ ساری کارروائی کی گئی تھی۔ مصر میںلارڈ کرومر نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’ہم مسلمانوں کو آزادی تو دے دیں گے، لیکن اگر وہ اسلام کی طرف پلٹنا چاہیں گے، تو اسے ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘‘ انگریزوں نے اسی پالیسی کے تحت جب اس امر کا پورا اطمینان کر لیا کہ وہ جن کو اقتدار دے رہے ہیں کیا وہ ان کے رنگ میں پورے رنگے جا چکے ہیں، تو اسی اطمینان کی بنا پر انھوں نے اقتدار کو اس بیوروکریسی کی طرف منتقل کیا تھا جو ان کے رنگ میںپوری طرح رنگی ہوئی تھی۔

یہ لوگ درپردہ مملکت کو لادینی بنانے کے لیے زور لگاتے رہے اور ملی بھگت میں بعض سیاست دان بھی ان کے ہم نوا تھے۔ ہم نے جب اسلامی دستور کا مطالبہ کیا تو ان لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے اس مطالبے کے اندر اپنی خواہشات کے خلاف ایک زبردست خطرہ پایا۔ لیکن وہ ابھی اس پوزیشن میںنہ تھے کہ اپنے آپ کو پوری طرح نمایاں کرکے میدان میں اتر آتے۔ سیاست دانوں میں بیش تر ایسے شریف النفس بھی تھے جنھوں نے اسلامی دستور کی پوری پوری حمایت کی۔ یہ کش مکش ۱۹۵۳ء تک اسی طرح جاری رہی۔ اس کے بعد اقتدار سیاست دانوں کے ہاتھ سے چھن کر سول سروس کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ ۱۹۵۴ء میں دستوریہ توڑ دی گئی۔ پھر۱۹۵۶ء میں دستور بنا، تو اس حلقے میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ جب مسلسل ٹال مٹول کے بعد عام انتخابات کی تاریخ مقرر ہوئی تو [اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان صاحب کا] فوجی انقلاب آگیا۔ یہ فوجی انقلاب اسلامی دستور کا راستہ روکنے کے لیے آیا تھا۔ اگر یہاں سیکولرزم ہوتا تو غالباً یہ انقلاب نہ آتا۔

اس کے بعد آمریت آئی، پریس اور پلیٹ فارم پر پہرے بٹھا دیے گئے اور ادارہ تحقیقات اسلامی جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ ان سب چیزوں کو ایک ترتیب کے ساتھ اپنے سامنے رکھ کر دیکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ اسلام کا راستہ روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسلام اگر اب آسکتا ہے تو صرف جمہوریت کے راستے سے آسکتا ہے۔ اقتدار عوام کے نمایندوں کو ملے گا تو اسلام آئے گا۔ لیکن آمریت ہرگز پسند نہیں کرتی کہ یہاں اسلام آئے۔ یہ اس راہ میں ایک سدِّگراں ہے۔ جب تک یہ نہ ہٹے گی، نفاذِ اسلام کے تمام مواقع بند رہیں گے۔(رحیم یار خان میں اجتماعِ کارکنان سے خطاب، ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء، بہ شکریہ ایشیا ۱۹مئی ۱۹۶۸ء، ص ۷-۹)

 

ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں سُن لو! تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمھاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے، جن سے محروم ہوکر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اُٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے، وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے۔ بچپن سے تمھارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں، اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی، ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہوسکے ہیں، تم کو آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دُور نہیں ہوتی، بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہوجاتا ہے، جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں، تمھیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنھیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ اسی طرح حج کا وہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے، جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگِ عالم میں پھیلانے اور ابدالآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خداے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کردے، اور بے شمار نسلوں اورقوموں کو ایک خدا پرست، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے، ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمھیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا۔ مگر تم نے اِن نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی، کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم اُن سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو، جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور اسے کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بُری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اُٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟

میرے عزیزو، تم نے شاعر کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ

خرِ عیسٰی اگر بمکّہ رَود

چوں بیاید ہنوز خر باشد

یعنی گدھا خواہ عیسٰی ؑ جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکّہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اگر وہ وہاں ہو آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔

نماز روزہ ہو یا حج، یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کے لیے ہیں، جانوروں کو سُدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ نہ ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدّعا سے کچھ غرض رکھیں، نہ اُس فائدے کوحاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کر دیا، تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں، مگر وہ شکل رُوح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔

تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزارہا زائرین مرکز ِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں، مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے، نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے، اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے، بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمایش کرکے اسلام کی عزت کو بٹّہ لگاتے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھائو، حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔

کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہرسال دنیا کے ہرحصے سے کھنچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر زندگی، پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں، جہاں جہاں ٹھیریں اور جہاں سے گزریں وہاں اپنی تحریک کے اُصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ ۱۰، ۲۰ برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے، بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم! اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا، ہزاروں پر اسلام کی بزرگی کا سکّہ بٹھا دیتا۔ مگر بُرا ہو جہالت کا، جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بُری طرح ضائع ہو رہی ہے ... اس ذکر سے میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہیں ہے بلکہ صرف آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں نے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غلط فہمی کسی کے دل میں نہ رہنی چاہیے کہ اسلام میں اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔ نہیں، کوتاہی دراصل اُن لوگوں میں ہے جو اسلام کی صحیح پیروی نہیں کرتے۔ یہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کو انسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے اور جن پر ٹھیک ٹھیک عمل کر کے تم تمام دنیا کے مصلح اور امام بن سکتے تھے، ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہر نہیں ہورہا ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک طبیب حاذق چند بہترین تیربہ ہدف نسخے مرتب کر کے چھوڑ گیا ہو اور بعد میں اس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بیکار بھی ہو رہے ہوں اور بدنام بھی۔ نسخہ بجاے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو، مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہوجائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔ (خطبات، ص ۲۵۱ -۲۵۶)

 مجھے بتایئے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہوجاتے ہیں؟ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قماربازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو مَیں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر  اُٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے، اور نفسانیت میں کیا کمی آجاتی ہے؟

عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ

سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پر بھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامّل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا  رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے، اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اُس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہرطرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں۔

 یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور اُن صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کردے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ توروزہ رکھنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اُگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ رمضان اور اُس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس اُن کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جو حقیقت میں روزے سے ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اُسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اُترنے اور خیال، نیت ، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔

روزہ، متقی بننے کا ذریعہ

یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، یعنی  تم پر روزہ فرض کیا جاتاہے، شاید کہ تم متقی وپرہیزگار بن جائو۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور     متقی و پرہیزگار بن جائو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید نہیں۔ (خطبات، ص ۱۹۶-۱۹۸)

اجتماعِ عام ۲۰۰۸ء کی مناسبت سے سید مودودی رحمہ اللہ علیہ کی ایک اہم تحریر پیش کی جارہی ہے جو روایت کا تسلسل بھی ہے اور جامع رہنمائی بھی۔ (ادارہ)

اس سے پہلے جتنے اجتماعات ہوتے رہے ہیں ان میں مَیں نے آغاز ہی میں اپنے رفقا کو اور شرکاے اجتماع کو کچھ نہ کچھ ضروری ہدایات دی ہیں، لیکن چونکہ کافی مدت گزر چکی ہے اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ بہت سے لوگوں کو وہ ہدایات یاد نہ ہوں اور بہت سے نئے لوگ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس لیے میں چند ضروری باتیں عرض کر دینا چاہتا ہوں:

  • زمانۂ اجتماع میں ہمارے رفقا،ہمارے ارکان اور متفقین اور دل چسپی رکھنے والے جو باہر سے یہاں تشریف لارہے ہیں اور اس جگہ مقیم ہیں، ان کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ یہ تین چار دن جو ہم کو ملے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہاں اپنا مال اور وقت صرف کرکے جو اصحاب تشریف لائے ہیں انھیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کسی تفریحی سفر پر نہیں آئے ہوئے ہیں۔ ان کو اس وقت کا ایک ایک لمحہ اس مقصد پر غور کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کی تدابیر پر غوروفکر کرنے کے لیے، اس مقصد کی کامیابی کے لیے باہمی تبادلۂ خیال اور باہمی گفت و شنید کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق باتوں سے بچیں، جہاں تک ممکن ہو غیرمتعلق فکر تک سے بچیں۔ پوری کوشش کیجیے کہ جس نصب العین کے لیے یہ جماعت بنی ہے اور جس   نصب العین کے لیے اس جماعت میں شامل ہونے کا خطرہ آپ نے مول لیا ہے، صرف اس کی کامیابی پر آپ کی توجہ مرکوز ہو۔ اس کو آگے بڑھانے کی تدابیر پر آپ غوروفکر کریں، اس کی مشکلات، اس کے اندر پیدا ہونے والی خرابیاں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے کانٹوں کو ہٹانے کے لیے غور کریں۔ یہ پہلی چیز ہے۔
  • دوسری چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں تمام لوگوں کو بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین رویے کا اظہارکرنا چاہیے۔ نہ اس لیے کہ کوئی دیکھے تو تعریف کرے، بلکہ اس لیے کہ جس دین کے خادموں کی حیثیت سے آپ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، اس دین کے خادموں کا کوئی برا نمونہ آپ کے سامنے نہ آئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے بُرے نمونے کو دیکھ کر دین کی خدمت کے لیے آگے بڑھنے والے رک جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نمونے کو دیکھ کر کوئی غیرمسلم یہ راے قائم کرے کہ جس دین کے خادموں کا یہ اخلاق ہو، جس دن کے خادموں کا یہ رویہ ہو وہ کیا انسان بناتا ہوگا! اس لیے پوری کوشش کریں کہ ایک سچے مسلمان گروہ کا جو رویہ نشست و برخاست میں،   رہنے سہنے، کھانے پینے میں، میل جول اور گفتگوؤں میں ہونا چاہیے، وہی آپ کا ہو۔ کسی مجمع پر ایک نظر ڈال کر آدمی یہ معلوم کرسکتا ہے کہ یہ مجمع کس قسم کا ہے۔ اس مجمع کی ایک ایک ادا یہ بتا دیتی ہے اور ایک آدمی کے قلب پر فوراً یہ اثر ڈالتا ہے۔ اگر وہ کوئی تفریحیں کرنے والا مجمع ہے تو اس کے ٹھٹوں اور قہقہوں سے فوراً ایک آدمی یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ دل لگی کرنے والے خوش باش لوگ ہیں۔ اگر وہاں سے جھگڑوں کی آوازیں آرہی ہوں، بحثوں اور مناظروں کی آوازیں آرہی ہوں تو فوراً ایک آدمی کے کان اس کی یہ خبر دے دیتے ہیں کہ یہاں کچھ جھگڑالو لوگ ہیں، یہاں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو الجھنے اور الجھانے والے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی مجمع لوگوں کو سنجیدہ اور متین اور بااخلاق اور مہذب نظر آئے تو فوراً دلوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ معقول لوگ ہیں، یہ شریف لوگ ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی شخص آپ کے مقصد سے اتفاق کرے یا نہ کرے، لیکن آپ کا رویہ اس کے دل میں احترام بھی پیدا کرسکتا ہے اور اس کے دل میں بے احترامی بھی۔ یہ دوسری بات ہے جسے آپ کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
  • تیسری چیز یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں ان تین چار دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ایثار سے پیش آنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا مددگار اور ہمدرد ہونا چاہیے۔ ہرشخص اس امر کی کوشش کرے کہ میں خود تکلیف اُٹھا لوں لیکن میری ذات سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ ہرشخص جو دوسرے کے قریب رہتا ہو اس کو ان ہدایات کا لحاظ رکھنا چاہیے جو قرآن اور حدیث میں ہمسایوں کے لیے آئی ہیں۔ ہمسایہ صرف اسی کو نہیں کہتے جو آپ کے مکان کے ساتھ رہتا ہو بلکہ ہمسایہ اس کو بھی کہتے ہیں کہ جو چند لمحوں کے لیے آپ کے ساتھ راستے میں ہو، یا کسی مسافر گاڑی میں، یا کسی عارضی قیام گاہ میں ہو۔ ہمسائے کے حقوق اچھی طرح سے سمجھئے اور ان کو پوری طرح ادا کیجیے۔ وہ بہت بُرا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے اس کے ہمسایوں کو تکلیف پہنچے اور وہ بہت اچھا ہمسایہ ہے کہ جس کی ذات سے ہمسائے کو آرام پہنچے اور اس کے ہمسائے اس بات پر مطمئن ہوں کہ میرا مال اگر اس کے قریب پڑا رہ جائے گا، یا میرا راز اگر اس کے کان میں پڑ جائے گا تو یہ خیانت کرنے والا نہیں ہے۔ اس سے اس کا ہمسایہ پوری طرح مطمئن ہے۔
  • چوتھی چیز یہ ہے کہ اس زمانۂ قیام میں باہر سے آنے والے لوگ محض مہمان بن کر نہ رہیں۔ یہ ایک مشترک کام ہے۔ ایک مشترک مقصد کے لیے ہے۔ یہاں کے منتظمین اور باہر سے آنے والے دونوں اس مقصد میں شریک ہیں۔ اس لیے یہاں کے منتظمین جو زحمت اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں ان کی میزبانی میں اس کا احساس کیجیے۔ حتی الامکان کوشش کیجیے کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے خود کریں اور منتظمین کو تکلیف نہ دیں۔ منتظمین اگر تھکے ہوئے نظر آئیں تو آگے بڑھ کر ان کی ڈیوٹی خود سنبھال لیں اور ان کو کہیے کہ ذرا آرام کرلیں۔ منتظمین اگر آپ سے درخواست کریں کسی مدد کی تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیجیے الا یہ کہ واقعی کوئی عذر مانع ہو۔ بہرحال میری یہ درخواست ہے کہ باہر سے آنے والے حضرات منتظمین کو کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ ایسا رویہ اختیار کریں کہ منتظمین کا دل ان کا شکریہ ادا کرے۔
  • پانچویں چیز یہ ہے کہ زمانۂ قیام میں نظم و ضبط کا، ڈسپلن کا اور قواعد کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھیں۔ جو اوقات جن کاموں کے لیے مقرر ہیں ان کاموں کو انھی اوقات پر کیجیے اور کسی قسم کی بدنظمی یہاں نہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہماری ساری کامیابی کا انحصار جن اخلاقی اوصاف پر ہے ان میں سے ایک نظم و ضبط ہے۔ تمام بہتر سے بہتر اوصاف بھی اگر آپ جمع کرلیں لیکن آپ کے اندر ڈسپلن نہ ہو تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ وہ موقع ہے کہ سارے پاکستان سے جماعت کی طاقت سمٹ کر یہاں جمع ہوگئی ہے، اس موقع پر اگر آپ کسی اِن ڈسپلن (indiscipline) کا، کسی بے ضبطی اور بدنظمی کا اظہار کریں گے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ پوری جماعت کو بے نظمی کی بیماری لگ گئی ہے۔ اس لیے یہاں میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کامل ڈسپلن پایا جائے۔ ڈسپلن دیکھوں گا تو میری ہمت بڑھے گی اور میں زیادہ کام کرنے کی ہمت پائوں گا، اور بدنظمی دیکھوں گا تو میری ہمت ٹوٹ جائے گی اور میں کچھ زیادہ کام کرنے کی نہیں سوچوں گا۔

اس بات کا بھی خیال رکھیے کہ اجتماع کی کارروائیوں کے دوران میں لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں میں پڑے نہ رہ جائیں۔ باہر ٹہلتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ غیرمتعلق گفتگوؤں میں جاکر مشغول نہ ہوجائیں بلکہ یہاں آکر پوری دل چسپی کے ساتھ سنیں۔ دل چسپی نہ بھی لے رہے ہوں تو بھی خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں۔ اجتماع کی کارروائیوں کے درمیان میں کسی شخص کو اجتماع گاہ سے باہر نہ پایا جانا چاہیے، الا یہ کہ اسے کوئی شدید ضرورت ہو۔ (روداد جماعت اسلامی،ہفتم، ص ۳۵-۴۰)

آدمی قرآن کی رُوح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِّ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں… یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو .ُ اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے     ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک  پورے ۲۳سال یہی کتاب ایک عظیم الشان تحریک کی راہ نمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس  طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر ودین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہواہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔

اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و اُحد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے، اور سابقین اوّلین سے لے کر مؤلفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’سلوک‘ ہے، جس کو میں ’سلوکِ قرآنی‘ کہتا ہوں۔ اِس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔

پھر اسی کُلیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصول وقوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد کر رکھا ہو اور نہ وہ  قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔(تفہیم القرآن، ج ۱، ص ۳۳-۳۴)

… عموماً سب مسائل کو لپیٹ کر صرف ایک بڑا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کا عنوان ہے: ’پاکستان کا دفاع اور استحکام‘۔ اور اس کا حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب پاکستانی مل کر ایک ہوجائیں اور فوجی حیثیت سے مضبوط ہوں۔ لیکن تھوڑا سا تجزیہ کرنے ہی پر یہ بات کُھل جاتی ہے کہ پاکستان کا دفاع و استحکام کوئی ایک سادہ سا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے، اور اس کا حل بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ایک ملک جس کے اخلاق کو   گھن لگا ہوا ہو، محض اسلحے اور فوجی تربیت کے بل پر کھڑا ہوسکتا ہے؟

کیا ایک ملک جس کے عناصرِ ترکیبی کو ایک دوسرے سے پھاڑنے اور باہم متصادم کرنے کے لیے بہت سے طاقت ور اسباب موجود ہوں بس ’ایک ہوجائو‘ کی تسبیحیں پڑھنے سے واقعی ایک ہوسکتا ہے؟ پس بجائے اس کے کہ ہم سادگی اور سادہ لوحی سے خود کام لیں یا دوسروں کو سادہ لوح فرض کر کے ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور فرضی مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں، ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ فی الواقع پاکستان کی بقا و تحفظ اور اس کا استحکام کن مسائل سے وابستہ ہے اور ہم کس طرح انھیں حاصل کرسکتے ہیں۔

l اخلاقی انحطاط: اولین مسئلہ ملک کے اخلاق کا ہے جو تشویش ناک حد تک گر چکے ہیں۔ ہماری تمام مشکلات میں سب سے زیادہ اخلاق ہی کی خرابیاں کارفرما ہیں۔ اس بگاڑ کا  زہر اتنے وسیع پیمانے پر ہماری سوسائٹی میں پھیل گیا ہے اور اتنا گہرا اُترچکا ہے کہ اگر ہم اسے  اپنا قومی دشمن نمبر ایک قرار دیں تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ کوئی بیرونی خطرہ ہمارے لیے اتنا  خوف ناک نہیں ہے جتنا یہ اندرونی خطرہ ہے۔ یہ ہماری قوتِ حیات کو کھا گیا ہے اور کھائے چلا جا رہا ہے...

یہ حقیقت اب کھل چکی ہے کہ ہمارے اخلاق کے جوڑبند بُری طرح ڈھیلے ہوگئے ہیں۔  ہم میں ہزارہا آدمی ایسے موجود ہیں جو قتل و خون کے مشّاق ہوچکے ہیں، ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو موقع ملنے پر بد سے بد تر جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں، اور نیچے سے لے کر اُونچے طبقوں تک کم از کم ۹۵ فی صد تعداد ان لوگوں کی ہے جنھیں حرام کا مال سمیٹنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے بشرطیکہ انھیں قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا اطمینان ہو۔

ان حالات میں ہمارے لیے یہ کوئی وجہِ تسلی نہیں ہے کہ اس سے بدرجہا زیادہ بدتر اخلاقی صفات کا ظہور [گذشتہ برس] ہندستان میں ہندوئوں اور سکھوں سے ہوا ہے۔ جو زہر انھوں نے کھایا اس کی فکر انھیں ہو یا نہ ہو، ہمیں تو اُس زہر کی فکر ہے جو ہماری رگوں میں اُتر گیا ہے۔ کیا مشّاق مجرموں اور بے باک خائنوں کی اتنی کثیر تعداد اپنے اندر لیے ہوئے ہم اپنی قومی زندگی کو مستحکم بنا سکتے ہیں؟ کیا وہ بداخلاقیاں جو کل غیروں کی جان، مال اور عصمت کے معاملے میں برتی گئی تھیں، ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور اپنا کوئی پایدار اثر ہماری سیرت و کردار پر نہیں چھوڑ گئیں؟ کیا یہ بگڑے ہوئے اخلاق اب خود اپنوں پر ہاتھ صاف کرنے سے رُک جائیں گے؟

ایک سال کا تجربہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جس اخلاقی زوال کی خبر گذشتہ فسادات نے دی تھی وہ وقتی اور محدود نہ تھا۔ دراصل وہ ایک نہایت خوفناک مرض کی حیثیت سے ہمارے اندر اب بھی موجود ہے اور ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو دشواریاں فطرتاً ایک نئی مملکت کو پیش آیا کرتی ہیں وہ تو ہمیں پیش آنی ہی تھیں، اور جو مصائب انگریز، ہندو اور سکھ کی باہمی سازش سے ہم پر نازل ہوئے وہ بھی اپنی جگہ تھے، لیکن یہ سب کچھ بڑی آسانی سے انگیز کیا جاسکتا تھا۔ اگر ہمارے عوام و خواص اور ہمارے سربراہ کاروں کے اخلاق اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔ یہ واقعہ ہے، اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کہ اخلاق کی خرابیوں نے ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو، جتنی کہ وہ تھیں، اصل سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا۔

مثال کے طور پر ’مہاجرین‘ کے مسئلے کو لیجیے جو پاکستان بنتے ہی ایک پہاڑ کی طرح ہم پر نازل ہوا۔ بلاشبہہ ایک ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں کہ اس پر ۶۰، ۷۰ لاکھ    بے سروسامان آدمی یک لخت لا کر ڈال دیے جائیں۔ لیکن غور سے دیکھیے کہ اس طرح جو مشکلات حقیقتاً رونما ہوئی تھیں ان پر کتنا اضافہ ہماری اپنی اخلاقی خرابیوں نے کردیا۔۱؎ ہندوئوں اور سکھوں نے جو عمارات، سامان، اموال، دکانیں، کارخانے، زمینیں اور دوسری چیزیں پاکستان میں چھوڑی تھیں، اگر ان پر خود پاکستان کے باشندے، حکومت کے عُمّال اور قومی کارکن قبضے کر کے نہ بیٹھ جاتے تو کیا مہاجرین کو بسانے میں ہم کو وہی دقتیں پیش آسکتی تھیں جن سے اب ہم دوچار ہیں؟ مغربی پنجاب اور سرحد اور سندھ کی حکومتوں سے پوچھیے کہ جانے والوں نے کیا کچھ چھوڑا تھا، اور اس کا کتنا حصہ آنے والوں کو دیا گیا اور کتنا حصہ کن کن غیرمستحقین کو پہنچا؟ اگر یہ اعداد وشمار روشنی میں آجائیں تو دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ جائے کہ مہاجرین کے مسئلے کا جو زخم غیروں نے ہم کو لگایا تھا اسے سرطان کا پھوڑا بنا دینے والے دراصل کون لوگ ہیں۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حمام میں آپ کس کس کو برہنہ دیکھیں گے۔

پھر جو لوگ کل تک ’پاکستان زندہ باد‘کے نعرے لگا رہے تھے، جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا… ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جارہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں، یہ خیانتیں، یہ غبن، یہ قومی خرچ پر اقربا پروریاں اور دوست نوازیاں، یہ فرائض سے غفلت، یہ ڈسپلن سے گریز، یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں، جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظامِ حکومت کے لیے ہر شعبے میں برپا ہے اور جس میں بکثرت چھوٹے اہل کاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزرا تک آلودہ ہیں___کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم، جس کی بدولت ملک کی صنعت و تجارت کا بڑا حصہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے، کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا اور ان سے بچنے کے لیے، نیز دوسرے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازموں کو رشوتیں دینا، اور جہاں بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہو پبلک فنڈ کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی تامّل نہ کرنا، کیا یہی وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟

ملک کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی ہے کہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اور کیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا اس وقت ۱۲، ۱۳ لاکھ مسلمانوں کے شہر میں سے چند ہزار نہیں، چند سو آدمی بھی ایسے    نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اٹھاتے۔ متعدد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں کہ کوئی مہاجر مرگیا ہے اور اس کے عزیزوں کو نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے اُجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں۔ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے کہ سرحد کے قریب کسی گائوں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلا کر ان پر حملہ کرا دیا تاکہ یہ بھاگ جائیں اور زمین ہمارے قبضہ میں رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں___ اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں، اور ان شرم ناک جرائم کے مرتکب صرف عام شُہدے ہی نہیں تھے___ کیا اِتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ اُمید کرسکتے ہیں کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ چلنے دے گا؟

تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو جانے دیتے ہیں کہ ہماری قیادت نے سیاسی تحریک کے ساتھ قوم کی اخلاقی طاقت کو سنبھالنے کی فکر کیوں نہ کی؟ ہم پوچھتے ہیں کہ اب وہ اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اخلاق بنانے اور سنوارنے کا کیا سروسامان اس کے پاس ہے؟ کیا تدابیر اس کے پیشِ نظر ہیں؟ کیا لائحۂ عمل اس نے بنایا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا واضح جواب ہمیں ملنا چاہیے۔ اگر اس کے جواب میں اُن نصائح کی طرف اشارہ کیا جائے جو کبھی کبھی ریڈیو اور سرکاری پریس اور تقریروں کے ذریعے سے پبلک کو اور حکومت کے چھوٹے اہل کاروں کو کی جاتی رہتی ہیں، تو ہم پہلے ہی کہے دیتے ہیں کہ اس طرح کی طفل تسلیوں سے ہمیں معاف رکھا جائے۔ اس لیے کہ بداخلاقی کے اصل سرچشمے تو خود قصرِقیادت کے ستونوں میں شامل ہیں۔ کارفرمائی اور کارپردازی کی باگیں تو اِس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جن کی بڑی اکثریت ہی کے دم قدم سے بداخلاقی کا بازار گرم ہے۔ پھر بھلا خیانت کی زبان سے امانت کا سبق، خودغرضی کی زبان سے ایثار کا وعظ اور گناہ کی زبان سے نیکی کا درس انسانی فطرت نے کب قبول کیا ہے کہ یہاں اس کے کارگر ہونے کی توقع کی جائے!

l ملکی وحدت و سلامتی : دوسرا مسئلہ جو پاکستان کی زندگی، اس کی بقا اور اس کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے، انھیں کس طرح جوڑ کر ایک بنیانِ مرصوص بنایا جائے؟ یہ عناصر اِس وقت شدت کے ساتھ مائلِ انتشار نظر آرہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کے عناصرِ ترکیبی ہی اگر مُجتمع اور باہم پیوستہ نہ ہوں تو اِس کے وجود کا برقرار رہنا سخت دشوار ہوتا ہے___لہٰذا اگر یہ واقعہ ہے، اور کون ہے جو اس کا انکار کرسکتا ہو،    کہ پاکستان کے ترکیبی عناصر میں جمع و تالیف کے بجاے کچھ انتشار و پراگندگی کے رُجحانات پائے جاتے ہیں اور کچھ قوتیں اُن کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بندِ استحکام، بلکہ عین ہماری بندشِ وجود ہی میں ایک خطرناک رخنہ موجود ہے، جسے دُور کیے بغیر ہم اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے ان میں تین تفریقیں اس وقت بالکل نمایاں ہیں:

m پہلی تفریق مہاجرین اور غیرمہاجرین کے درمیان ہے۔ ہماری آبادی میں مہاجرین کی تعداد اس وقت ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور یہ تعداد روزافزوں ہے، کیونکہ ہندستان کے ہرحصے سے مسلمان اُکھڑ اُکھڑ کر برابر پاکستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ مشرقی ہند کے لوگوں کا رُخ مشرقی پاکستان کی طرف ہے اور باقی ہندستان کے لوگ مغربی پاکستان کی راہ لے رہے ہیں۔۲؎ یہ نیا عنصر اب ہماری آبادی کا ایک مستقل عنصر ہے اور تعداد کے لحاظ سے کوئی معمولی عنصر نہیں ہے۔ لیکن متعدد اسباب ایسے ہیں جو نئے اور پرانے عناصر کو مل کر ایک قوم بننے سے روک رہے ہیں۔ کچھ تو زبان، تہذیب، معاشرت اور عادات و خصائل کے قدرتی اختلافات ہیں جوبہرحال ایک مدت تک یگانگت میں مانع ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ان پر غیرمعمولی اضافہ جس چیز نے کردیا ہے وہ  یہ ہے کہ مہاجرین اور غیرمہاجرین دونوں میںجاہلیت کے تعصبات اور نفسانی خود غرضیاں کارفرما ہیں۔ یہ چیز ہر جگہ ان دونوں عناصر کو پھاڑ رہی ہے، ان کو مخالف جتھوں کی شکل میں منظم کر رہی ہے، ان کے درمیان آویزش کی صورتیں پیدا کر رہی ہے اور دونوں طرف کے تنگ نظر اور خود غرض مفسدین ان کو باہم لڑا رہے ہیں۔۳؎

m دوسری تفریق جغرافی، نسلی اور لسانی ہے۔ پاکستان اول تو دو ایسے خطوں پر مشتمل ہے جن کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ پھر یہ خطے بھی اپنی اپنی جگہ اندرونی وحدت نہیں رکھتے بلکہ مختلف اجزا سے مرکب ہیں اور ہر جز دوسرے جز کے خلاف تعصب رکھتا ہے۔ اس وقت درحقیقت ہم ایک قوم نہیں ہیں، پانچ مختلف قومیں ہیں جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں، یعنی سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور بنگالی۔ ان میں سے ہر ایک قوم کے اندر علیحدگی کا رُجحان شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے اور بعض نادان گروہ اس کو شدید تر کرنے کی پیہم جدوجہد کررہے ہیں۔۴؎

m تیسری تفریق معاشی ہے۔ امیر اور غریب، زمین دار اور کاشت کار، مزدور اور سرمایہ دار، بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہل کار، یہ مختلف گروہ ہیں جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے سے پھاڑ دیا ہے۔ ان کے درمیان اخوت اور ہمدردی کا تعلق نہیں ہے بلکہ حسد اور بُغض کا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے رفیق اور حامی و ناصر نہیں ہیں بلکہ حریف اور مدِّمقابل ہیں۔ ان کی کش مکش بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے اندر ایک گروہ ایسا موجود ہے جس کا مستقل فلسفہ ہی یہ ہے کہ انھیں ملا کر ایک کر دینے کا خیال باطل ہے اور حق صرف یہ ہے کہ ان کو باہم لڑا دیا جائے۔۵؎

سوال یہ ہے کہ یہ مختلف تفریقیں، جو ہماری قوم اور ریاست کو پارہ پارہ کردینے پر تلی ہوئی ہیں، جن کو نشوونما دینے کے لیے گہرے داخلی اسباب بھی موجود ہیں، اور جنھیں بھڑکانے کے لیے خارجی محرکات کی بھی کمی نہیں ہے، آخر کس طریقے سے مٹائی جاسکتی ہیں؟ طاقت کے ذریعے سے ان کو دبا کر ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو برقرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے، مگر یہ چیز دلوں کو جوڑ کر وہ قلبی وحدت تو ہرگز پیدا نہیں کرسکتی جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ پھٹے ہوئے دل اور کھنچے ہوئے ہاتھ  نہ تعمیر میں تعاون کرسکتے ہیں اور نہ مدافعت ہی میں بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ قومیت کا پرچار بھی اس معاملے میں بے بس ہے۔ ہندستان میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ مغربی تصورات کے مطابق قومیت کی تبلیغ و تلقین وہاں جتنی بڑھتی گئی، اس نے ملک کی آبادی میں وحدت پیدا کرنے کے بجاے ان تمام گروہوں میں اپنے امتیازی وجود کا احساس جگا دیا جو اپنے اندر قومیت کے عناصر رکھتے تھے۔ پھر معاشی اغراض کا تصادم تو وہ چیز ہے جس کے زہر کا تریاق فراہم کرنے میں قومیت جگہ جگہ ناکام ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری موجودہ قیادت کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے اور وہ کہاں تک اس سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟

کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم اُن دوسرے مسائل کی اہمیت سے غافل ہیں جو اس وقت پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہیں۔ بلاشبہہ وہ مالی، صنعتی، انتظامی، دفاعی اور خارجی مسائل بھی اپنی جگہ کافی اہم ہیں جن سے ہم اس مملکت کی پیدایش کے بعد دوچار ہوئے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے، نہ ان واقعی خدمات کا انکار کرنا قرین انصاف ہے جو اس سلسلے میں موجودہ قیادت نے انجام دیں۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حیات قومی کے لیے اِس وقت سب سے بڑے مسئلے یہی ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے، اور قیادت کا اصل مِحکِّ امتحان [کسوٹی] یہ ہے کہ وہ انھیں صحیح طور پر حل کرنے کی اہلیت، فکری اور اخلاقی حیثیت سے کہاں تک اپنے اندر رکھتی ہے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۴۸ئ، تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص ۳۱۷-۳۲۵)

 

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَـآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (الحشر: ۵۹:۱۰) اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو    ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ‘ اَے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔

[اس آیت سے قبل فَے کی تقسیم کا مسئلہ زیربحث ہے۔ فَے وہ مال ہے جو دشمن سے بغیر لڑائی کے مسلمانوں کو حاصل ہو۔] اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں‘ بعد میںآنے والے مسلمانوں اور ان کی آیندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے‘ اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعاے مغفرت کرتے رہیں‘ نہ یہ کہ وہ اُن پر لعنت بھیجیں اور تبرّا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے‘ وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیرخواہ ہوگا جو ایمان کے رشتے سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بدخواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں اسی وقت جگہ پا سکتی ہے، جب کہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملے میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمھارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے‘ اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورؐ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیرمعمولی چیز اُنھیں نظر نہ آئی۔ ناچار انھوں نے خود ہی ان سے پوچھ لیا کہ بھائی‘ آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضوؐر سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سُنی ہے؟ انھوں نے کہا: میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو‘ اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو‘ اس سے حسد کرتا ہوں‘‘۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے‘ یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اُسے بیان کر دینا اور چیز ہے ‘ اور بغض و نفرت‘ مذمت و بدگوئی اور سبّ و شتم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی بُرائی ہے‘ لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی بُرائی ہے‘ کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہوگا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید بُرائی یہ ہے کہ کوئی شخص اُن لوگوں کے حق میں بدگوئی کرے جنھوں نے انتہائی سخت آزمایشوں کے دَور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسّر ہوئی ہے۔ اُن کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے اُن میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی راے میں صحیح نہ ہو، تو وہ یہ راے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کرسکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بدگوئی کی تراوش ہونے لگے‘ ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے‘ اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں، وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے۔ لیکن یہ الزام اُس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات‘ جن کے سلسلۂ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے      اہلِ ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے‘ اُن کے اس اِلزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ اِن آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے: اوّل مہاجرین‘ دوسرے انصار‘ تیسرے اُن کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور اِن بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے، ان کے حق میں دعاے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی سورئہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اِس سے یہ بات بالکل ہی کُھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنھوں نے غزوئہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی‘ اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوئہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ شامل تھے۔ اِس کے بعد کیا ایک مسلمان ‘ جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو‘ یہ جسارت کر سکتا ہے کہ اُن لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟

امام مالکؒ اور امام احمد ؒنے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ راے ظاہر کی ہے کہ فَے میں اُن لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابۂ کرام کو بُرا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی‘ غایۃ المنتھٰی)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس راے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے‘ مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حمایت کے لیے کمربستہ رہتے ہیں‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حق دار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے‘ خواہ وہ خود تنگ دست ہوں‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کا کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ اُن کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہش مند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعاے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہلِ ایمان کا رویّہ دوسرے اہلِ ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملے میں کیا ہونا چاہیے۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۴۰۳- ۴۰۵)

[سورئہ اعراف میں ہے]: ’’وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘‘ (۷:۴۳)، یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دُور کردی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوجائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہوگی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔

اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انھیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انھیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۳۰-۳۱)

’طاغوت‘ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کرگیا ہو۔ قرآن کی اِصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اُصولاً منحرف ہوکر یا تو خودمختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہوکر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، ص۱۹۶-۱۹۷)

طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش) کہنے کے بجاے اگر طاغوت (سرکشی) کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو حسین کے بجاے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حُسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ   خوب صورتی میں درجۂ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبودانِ غیراللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ    اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے، وہ کمال درجے کا سرکش ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، ص ۳۶۶)

’طاغوت‘ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا... جو عدالت ’طاغوت‘ کی حیثیت رکھتی ہو، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا  عین منافقت ہے۔ (ایضاً، ص ۳۶۶-۳۶۷)

کسی کے طاغوت ہونے کے لیے اس کا خود طاغی (سرکش) ہونا تو شرطِ اوّل ہے۔ رہی دوسری شرط تووہ محض پوجا جانا نہیں ہے، بلکہ اس پوجے جانے میں اس کی اپنی خواہش اور کوشش کا دخل بھی ہونا چاہیے۔ بالفاظِ دیگر طاغوت وہ ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی کی ہو، بلکہ اِس سرکشی میں یہاں تک بڑھ گیا ہو کہ خدا کے بجاے اس نے اپنے آپ کو لوگوں کا رب اور اِلٰہ بنانے کی کوشش کی ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے بتوں پر یا ان بزرگوں پر جن کو مرنے کے بعد بت بنایا گیا، طاغوت کا اطلاق نہ ہوگا۔ (مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، ص ۱۲۲)

خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدابہار سبزباغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے اور بے شمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بیوی اور بچے، اعزہ اور اقربا، برادری اور خاندان، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور راہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اُس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقائوں کا یہ   غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔ (تفہیم القرآن، ج ۱، ص ۱۹۷)

طاغوت کا مصدر ’طغیان‘ ہے جس کے معنی حد سے گزر جانے کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزر جاتا ہے توآپ کہتے ہیں: طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزر کر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یااپنے مناسب حصے سے زائد فوائد حاصل کرے تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے اور اس کے مقابلے میں راہِ خدا کی جنگ وہ ہے جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانونِ عدل دنیا میں قائم ہو۔ لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کرائے، چنانچہ قرآن کہتا ہے:

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o (القصص ۲۸:۸۳) آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ ’’راہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے، دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے، تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیّت کا جوش ہوتا ہے، اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’کسی کی بھی نہیں، فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اُونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا‘‘۔

اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیشِ نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے فی سبیل اللہ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جان دار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے پورا زور صرف کر رہا ہے، لیکن ’مسلمان‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے، اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپائو، دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو، اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کرو، نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم   ان کی جگہ لے لو، بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذہو۔ (اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۲۴۵-۲۴۶)

ہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے رہنما ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات ہے جوکسی انسان کے متعلق کہی جاسکتی ہے مگر جس بلندپایۂ ہستی کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کے لیے یہ قول مُبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔

دنیا کے رہنما میں اولین صفت یہ ہونی چاہیے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں، جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب انسان یکساں ہوں۔ وہ سب کا خیرخواہ ہو اور اپنی رہنمائی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ صفت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ آپؐ کی زندگی کسی قوم پرست یا وطن پرست کی زندگی نہ تھی بلکہ ایک محبِّ انسانیت کی زندگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے عہد میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی اُسی طرح آپؐ کے رفیق کار بلکہ جاں نثار بنے جس طرح عرب۔ آپؐ کے بعد بھی دنیا کے ہر ملک اور ہرنسل کے لوگ آپؐ  کے متبعین میں شامل ہوتے چلے گئے اور مل کر ایک ملّت بن گئے۔

دوسری اہم صفت رہنماے عالم میں یہ ہونی چاہیے کہ اس کے پیش کردہ اُصول عالم گیر اور ہمہ گیر ہوں، تمام دنیا کے انسانوں کی یکساں رہنمائی کرتے ہوں، اور ان میں انسانی زندگی کے  تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اس معاملے میں بھی کامل ہے۔ آپؐ  نے کسی مخصوص قوم یا ملک کے مسائل سے بحث کرنے کے بجاے پوری انسانیت کے مسائل کو لیا ہے، اور ان میں ایسی رہنمائی دی ہے جس پر بنی نوع انسان بحیثیت مجموعی تمام دنیا میں عمل کرکے دنیا اورآخرت کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

تیسری بنیادی صفت جس کے بغیر کوئی شخص سارے جہاںکا رہنما نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ وہ ہرزمانے میں صحیح اور قابلِ عمل ہو۔ عالم گیر رہنما  وقتی وزمانی نہیں ہوسکتا۔ یہ لقب تو اسی کو زیب دیتا ہے جس کی رہنمائی رہتی دنیا تک کارآمد رہے۔ اس کسوٹی پر بھی اگر کسی کی تعلیم و ہدایت پوری اُترتی ہے تو وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔ وہ ایک روشنی کا مینار تھے جوصدیوں سے دنیا کو راہِ راست دکھا رہا ہے اور زمانہ جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے اس کی روشنی اور زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔

دنیا بھر کا لیڈر ہونے کے لیے چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اُصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھا دیا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کردی ہو۔ محض اُصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکّر ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشے پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی، اور۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے سامنے سراطاعت جھکا دینے پر آمادہ کردیا۔ ایک نیانظامِ اخلاق، نیا نظامِ تمدن، نیا نظامِ معیشت اور نیا نظامِ سلطنت پیدا کر کے تمام دنیا کے سامنے یہ عملی مظاہرہ کردیا کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح زندگی وجود میں آتی ہے۔

یہ ہے وہ کارنامہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت پوری دنیا کے رہنما ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں۔ آپؐ کی تعلیم کسی خاص قوم کی جایداد نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس  میراث سے فائدہ اٹھائے اور جو چاہے فائدہ نہ اُٹھا کر ابدی محرومی میں مبتلا رہے۔ (بنام ایڈیٹر اتحاد، جولائی ۱۹۶۲ئ)۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص۳۳-۳۵)

موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اخلاقی، تمدنی،سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے دراصل [جن] تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے، ان میں سے پہلا اصول سیکولرزم یعنی لادینی یا دنیاویت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صواب دید کے مطابق خود   جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے‘‘۔ ابتداء ً یہ طرزِعمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خودساختہ دینیات (Theology) سے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان  کے لیے زنجیرِپا بن کر رہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزِعمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور  تہذیب.ِ جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا کہ ’’مذہب ایک پرائیویٹ معاہدہ ہے خدا اور بندے کے درمیان‘‘۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب.ِ  حاضر کا ’کلمہ‘ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تووہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس ’کلمہ‘ کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اُٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوئوں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثروبیش تر افراد کے معاملے میں نری دنیاوی (سیکولر) ہی ہوکر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے۔ خصوصاً جو لوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما اور کارکن ہیں ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے...

یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دوحال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسی غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عمل داری (jurisdiction) محض ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک___ دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہوجائیں۔ یہ حدبندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے۔ اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خودمختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزا میں سے ہر ایک بندہ اور اجزا کا مجموعہ غیربندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصورصرف ایک پاگل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی راہ نمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہائوس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھائونی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں،   تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری راہ نمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آتی؟

یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی   خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظامِ تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انھی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ اور وہ صرف خدا ہی ہے جو انسانوں کو ان روابط کے لیے صحیح اور منصفانہ اور پایدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر خودمختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی راہ نمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان راہ نمائی کے لیے رجوع کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینی یا دنیاویت کے اصول پرچلتا ہے، اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم،     بے انصافی ، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خودغرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی   اس کی پروا نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔   پروا کرنے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے، اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے، صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پائوں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے، وہ دوسروں کو صرف   اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑنا چاہیے،بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔   پس لادینی اور دنیاویت کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا، بے لگام، غیرذمہ دار اور بندۂ نفس ہوکر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔ (اسلامی نظام اور مغربی لادینی جمہوریت، ص ۱۱-۱۲، ۱۵-۱۸)