سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جنوری ۲۰۱۳ | فہم قرآن
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ انَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (التحریم ۶۶:۶-۷) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوںگے، جس پر نہایت تندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوںگے، جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو حکم بھی انھیںد یا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ایسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کررہے تھے۔
واقعۂ تحریم اور ازواجِ مطہراتؓ کے واقعات بیان کرنے کے بعد اب تمام مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرشخص کو اپنی ذات ہی کی نہیں بلکہ اپنے گھروالوںکی بھی فکر کرنی چاہیے۔ آگے چل کر جو بات فرمائی گئی ہے اُس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کوبیان کرنے سے مقصود ازواجِ مطہراتؓ کو لوگوں کی نگاہ سے گرانا نہیں ہے، بلکہ ان واقعات کے بیان سے مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وجہ سے معافی نہیںپاسکتا کہ اس کی نسبت کسی بڑے آدمی کے ساتھ ہے۔گویا جو اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑھ کر محبوب ہوتا ہے، اس کی اولاد بھی ہو، اس کی بیوی بھی یا ماں بہن بھی ہو، صرف اس وجہ سے معاف نہیں کردی جائے گی کہ اس کا رشتہ نبی کے ساتھ تھا۔ میزانِ آخرت میں اس کے اپنے اعمال ہی اس کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلے کرنے والے ہوں گے اور اس کے اعمال ہی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اس کے مستقبل کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ اس کا رشتہ کس کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں صاف صاف فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کا یہ کام ہے کہ وہ نہ صرف اپنی فکر کریں بلکہ وہ اپنے گھروالوں کی بھی فکر کریں، نیز اپنی اولاد،بیویوں اور بیٹے بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کی بھی فکر کریں کہ کہیں وہ آگ کے مستحق نہ ہوجائیں۔ اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو خدا کے غضب سے بچانے کی کوشش کریں۔
یہ جو فرمایا کہ اس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، یہ بات سورئہ بقرہ میں بھی کہی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے پتھروں سے مراد بت لیے ہیں لیکن بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر پتھروں سے مراد بت نہیں ہوسکتے۔
سورئہ بقرہ کے اندر جو سلسلۂ بیان آیا ہے اس میں اس سے مراد بت بھی لیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں چونکہ مشرکین کا ذکر نہیں ہے بلکہ اہلِ ایمان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد اور گھروالوںکو آگ سے بچائو، تو ظاہر بات ہے کہ وہ پتھروں کو پوجنے والے نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن پتھروں کی نوعیت کا ہوگا، جیسے آپ کے ہاں پتھر کا کوئلہ ہوتا ہے جو عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جلتا ہے اور آگ کو زیادہ تیز کرنے والا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا:
عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ ، دوزخ پر ایسے ملائکہ مامور ہیں جو نہایت تندخُو اور سخت مزاج ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس کو جس کام کے لیے پیدا کیا ہے اُسے اس کام کے لیے موزوں ترین ساخت عطا فرمائی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ملائکہ چونکہ نوری ہیں اس لیے وہ تمام یکساں صفات کے حامل ہوںگے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ جس قسم کی خدمات جس فرشتے کے سپرد ہیں، اس کے اندر ویسی ہی صفات اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر جو فرشتے جنت کے لیے مقرر ہیں وہ نہایت متواضع، نرم مزاج اور بہت ادب اور لحاظ کرنے والے ہوں گے۔ اس کے برعکس جو فرشتے دوزخ کے لیے مقرر ہوں گے وہ جلّاد قسم کے فرشتے ہوں گے۔ ان کے ہاں رحم کا کوئی کام نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو تو اس کے دل میں رحم آجائے کہ مَیں ذرا اس کی آگ کو ہلکا کردوں۔ نہیں، ان فرشتوں کے ہاں رحم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح، مثلاً جو فرشتے لوگوں کو موت دینے کے لیے مقرر ہیں ان کے اندر یہ نفسیات اور یہ جذبات پیدا نہیں کیے گئے کہ کسی آدمی کی روح قبض کرتے وقت وہ یہ دیکھیں کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اس کی جوان بیوی ہے، یا اس کے جوان والدین ہیں، ان کا دل صدمے سے پھٹ جائے گا۔ ان فرشتوں کے ہاں ایسی کسی بات کا کوئی سوال نہیں۔ ان کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں کی روح قبض کرو، وہ فرشتہ جائے گا اور اس کی روح قبض کرے گا۔ اس کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہوگی کہ اس کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔
اس بات کو اس طرح فرمایا کہ: لّاَیَعْصُونَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ، ’’اللہ ان کو جس بات کا حکم دے وہ اس کی حکم عدولی کبھی نہیں کرتے‘‘۔ اگر اللہ کا حکم ہے کہ فلاں پر رحم نہ کھائو، اس پر سختی کرو تو وہ ایسا ہی کرے گا کیونکہ اس کے سپردکام ہی یہ کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا: وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ، ’’جو کچھ حکم اُن کو دیا جاتا ہے وہی کچھ وہ کرتے ہیں‘‘۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِبلیس بھی فرشتہ تھا تو یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ فرشتوں کی توفطرت ہی یہ ہے کہ ان کو جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا اُن کی فطرت ہی میں نہیں ہے لیکن ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ قرآنِ مجیدہی میںبیان کیا گیا ہے، اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلیس پہلے فرشتوں میں سے تھا۔
پھر فرمایا:
یاَیُّھَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (اس وقت کہا جائے گاکہ) اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔
جب کافروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اس وقت ان سے یہ بات فرمائی جائے گی ۔ یہ اس لیے کہ عُذر کرنے کے جتنے مواقع تھے وہ دنیا میں موت آنے سے یا خدا کا عذاب آنے سے پہلے پہلے تھے۔ اب اس کے بعد جب جزا کا دور شروع ہورہا ہے، اس وقت معذرت کا کوئی سوال نہیں۔ اب تمھیں اپنے اعمال کی جزا کا سامنا ہے۔ اب عُذرخواہی کا کوئی موقع نہیں۔
یایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لا یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (۶۶:۸)، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کردے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ جو فرمایا کہ توبۃ النصوح کرو، اس سے مراد ہے خالص توبہ، ایسی توبہ جو سچے دل کے ساتھ کی جائے۔ یہ لفظ نصیحت سے ماخوذ ہے جو عربی زبان میں خیرخواہی اور اِخلاص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (اُردو میں اس کا استعمال مختلف ہے)۔
نصوح وہ شخص ہے جو اپنا خیرخواہ ہے، اپنا بدخواہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سے کوئی قصور سرزد ہو، اور اس کے بعد وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتا، اُس سے معافی نہیں مانگتا، توبہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیںکہ وہ خود اپنا بدخواہ ہے۔ پہلے اس نے گناہ کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو اس نے اپنے ساتھ بدخواہی کی۔ دوسری طرف وہ اپنے رب کے سامنے توبہ بھی نہیں کرتا، ا س سے معافی بھی نہیں مانگتا، یہ اپنے ساتھ اس کی گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑی بدخواہی ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ کو خود خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص قصور کرتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے تو جس کا وہ قصور کرتا ہے وہ لامحالہ اس کو اس کے قصور کی سزا دے گا۔ اس طرح وہ شخص خود اپنی شامت کو بلاتا ہے۔ چنانچہ توبۃ النصوح کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص اپنا خیرخواہ ہو اور اپنی شامت نہ بلانا چاہتا ہو، بلکہ اپنی بھلائی چاہتا ہو،اس کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ خطا سرزد ہوجانے کے بعد اس پر نادم ہو، اور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے، اس سے معافی چاہے۔
حضرت علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اس طرح توبہ و استغفار کر رہا ہے کہ جلدی جلدی اپنی زبان چلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’الٰہی مجھے معاف کر، الٰہی مجھے معاف کر‘‘۔ حضرت علیؓ نے اس سے فرمایا کہ یہ توبۂ کذابین ہے کیونکہ ایک آدمی، جس کو واقعی اپنے گناہ کا احساس ہو، اور وہ اپنے قصور کا اعتراف کر رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگے گا، نہ یہ کہ مارا مار زبان ہلاتا جائے۔ یہ تو توبۂ کذابین ہے۔ ایسے شخص کے دل میں نہ کوئی شرمندگی اور ندامت کا احساس ہے اور نہ وہ سچے دل سے توبہ کر رہا ہے۔اس طرح ایک آدمی کا لہجہ بتا دیتا ہے کہ وہ کس قسم کی توبہ کر رہا ہے۔
اس طرح جب نماز میں لوگ جلدی جلدی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے ہیں تواس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا عرض کر رہے ہیں اور کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں۔ بس چند الفاظ ہیں جو وہ بے سوچے سمجھے بولتے چلے جارہے ہیں۔ ایسے ہی توبۃ النصوح میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی کا لہجہ، اس کا چہرہ، اس کا اندازِ بیان، یہ ساری چیزیں یہ بتارہی ہوں کہ وہ واقعی اپنے خدا کے سامنے شرمندہ ہے اور اس سے معافی مانگ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بس کچھ لگے بندھے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرکے یہ سمجھ لے کہ اس نے سچ مچ توبہ کرلی ہے۔
اس کے بعد یہ جو بات فرمائی گئی کہ اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے تمھاری بُرائیاں دُور کرے گا، اس کے معنی یہ ہیں کہ توبہ کرنے سے آدمی کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ شرک جس سے بڑا تو کوئی گناہ نہیں ہے اس سے بھی آدمی سچے دل سے توبہ کرے اور توحید پر کاربند ہوجائے تو اگر اس نے ساری عمر بھی شرک کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے___ توبہ کرنے کے بعد اگر آدمی کو گھنٹہ بھر بھی زندہ رہنے کا موقع نہ ملا ہو، تب بھی جو کچھ اس نے کیا ہوگا وہ سب معاف ہوجائے گا۔ قرآن مجید میں توبہ کی یہ خاصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ آدمی کے سارے گناہوں کو ساقط کردیتی ہے۔اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کوئی ضد نہیں ہے کہ ضرور اُن کو سزا دے کر ہی چھوڑنا ہے۔ اگر ایک شخص کو اپنے غلط رویّے کا احساس ہوگیا ہے اور وہ آیندہ ٹھیک چلنے کا عہد کر رہا ہے تو جس وقت بھی وہ ایسا کرے گا، اسی وقت اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا کیونکہ اللہ سے بڑھ کر اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسی کے تو پیدا کیے ہوئے اور اُسی کے تو پالے ہوئے ہیں۔ وہی ان سے محبت نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ چنانچہ یہ فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرلو گے تو میں تمھاری تمام بُرائیاں تم سے دُور کردوں گا، ان کو تمھارے حساب سے ساقط کردوں گا، وہ تمھارے نامۂ اعمال میں موجود ہی نہیں رہیں گی بلکہ مٹادی جائیں گی۔
اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے (اور جن کی توبہ قبول ہوجائے گی)، اس روز اُن کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر اس بات کی جو تفصیلات ملتی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز میدانِ حشر میں کامل تاریکی ہوگی، روشنی صرف ان لوگوں کو ملے گی جن کے پاس ایمان اور ایمان کے مطابق ڈھالے ہوئے اعمال اور اخلاق ہوں گے۔ اُس روز سایہ بھی ملے گا تو اُن لوگوں کو جن کو اللہ اپنے سایے میں پناہ دے، اور روشنی بھی ملے گی تو ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کے پاس ایمان کا سرمایہ لے کر آئیں گے۔ وہی ایمان اُن کے لیے وہ نور بن جائے گا جس کے ذریعے سے وہ اپنے گردوپیش دیکھیں گے اور اپنا راستہ پائیں گے۔ جب ایک طرف اہلِ ایمان جنت میں جارہے ہوں گے تو دوسری طرف کفار اور مشرکین اور منافقین کامل تاریکی میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے جہنم کی طرف جارہے ہوں گے۔
احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ میدانِ حشر میں کسی آدمی کی روشنی کا انحصار وہاں اس بات پر ہوگا کہ کیسا کچھ مخلصانہ ایمان اور کیسا کچھ مخلصانہ عمل اس کے پاس تھا۔ نیز یہ کہ اُس نے دنیا میں اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کیا کچھ کام کیا تھا۔ اِسی پر اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ وہاں جاکر اس کو کیسی روشنی ملے گی، یعنی کتنی طاقت کا بلب اس کی ٹارچ میں لگا ہوا ہوگا اور یہاں دنیا میں اس نے اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے کتنی بجلی پیدا کی تھی جس کی طاقت کے مطابق اُتنا نور اس کو ملے گا۔
احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی شخص کا نور وہاں اتنا پھیلے گا کہ جیسے مدینہ سے صنعا تک کا فاصلہ ہے، یعنی ہزار میل کے لگ بھگ فاصلے تک اس کا نور پھیلے گا۔ گویا وہ کسی زبردست سرچ لائٹ کی طرح ہوگا جس کی روشنی دُور تک پھیلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی شخص ایسا ہوگا کہ اس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہیں جائے گا، لیکن بہرحال وہ نور سے محروم نہیں ہوگا۔ جس درجے کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے سرمایے کے ساتھ وہ میدانِ حشر میں پہنچے گا، اس کے پاس اسی درجے کا نور ہوگا، خواہ اپنے قدموں تک ہو اور خواہ ہزار میل تک ہو۔ پھر فرمایا کہ جب اہلِ ایمان کا نور اُن کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا تو وہ کہہ رہے ہوں گے:
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ، اے ہمارے رب ہمارے نور کو ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما۔
یعنی اگر یہاں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں کم نور ملا ہے تو اے پروردگار! ہمارے نور کو بڑھا دے، ہم سے درگزر فرما اور ہماری کوتاہیاں معاف کردے۔ گویا ہرآدمی یہ دیکھے گا کہ میرے پاس کتنا کم نور ہے اور مجھے کتنا زیادہ نور درکار ہے، اور اس کے لحاظ سے وہ اپنے رب سے اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی درخواست کرے گا، اور یہ بھی دعا کرے گا کہ: وَاغْفِرْلَنَا، ’’ہمیں بخش دے‘‘۔
یہ بات وہ اس وجہ سے کہے گا کہ اس کے نور میں جو کچھ بھی کمی ہے وہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ اس کے عمل میں کمی تھی۔ اسی لیے وہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرے گا کہ تو مجھ سے درگزر فرما اور اس کمی کی تلافی فرما کر میرے نور کو میرے لیے مکمل کردے۔
یاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۶۶:۹)، اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آئو۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
یہاں کفار کے ساتھ منافقین کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان دونوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں لازماً جہاد کو قتال کے معنی میں نہ لیا جائے۔ قتال اور چیز ہے اور جہاد اور چیز ہے۔ منافقین سے قتال اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ وہ حربی کافروں سے نہ جاکر مل جائیں، یعنی ان کافروں کے ساتھ جو برسرِ جنگ ہوں۔ چنانچہ جب تک قتال کی ضرورت نہ پیش آجائے۔ ان کے خلاف صرف جہاد کیا جائے گا۔
منافقین کے ساتھ جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کا زور توڑا جائے گا۔ اُن کو ذلیل و خوار اور بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اُن کی بات نہ چلنے دی جائے گی، اور اگر اُن کی کوئی مالی یا اخلاقی طاقت ہے تو اس کو توڑا جائے گا۔ اگر معاشرے میں ان کی دولت و امارت اور ریاست و سیادت کے اثرات پائے جاتے ہیں تو وہ توڑے جائیں گے۔ غرض یہ ہے کہ منافقین کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد کی جائے گی تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں۔ اگر کسی معاشرے میں منافقین کا اثرورسوخ پایا جاتا ہو تو وہ اس معاشرے کو خراب کر کے رہتے ہیں۔ منافقین کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ ان کو بُرائی سے محبت اور بھلائی سے نفرت ہوتی ہے۔ اگر کہیں بھلائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہوتو منافقین کے حلقے میں ایک کہرام مچ جاتا ہے کہ کیا اب ہمارے ہوتے ہوئے اس معاشرے میں بھلائی بھی پھیلے گی! کیا اب لوگ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، مردوں عورتوں کے آزادانہ میل جول کو روکیں گے۔ کاروبار میں دیانت داری اور ایمان داری اختیار کریں گے۔ اس کے برعکس اگر کہیں برائی کا کوئی کام ہورہا ہو تو ان کو بڑی مسرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں ’روشن خیالی‘ عام ہورہی ہے، آرٹ سوسائٹیاں قائم ہورہی ہیں، مصوری اور موسیقی کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس طرح ان کے دل کھِل جاتے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں بُرائی کو پھیلانے اور بھلائی کو دبانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی بھلائی پنپ رہی ہو تو بیٹھ بیٹھ کر کانفرنسیں کریں گے، باہمی مشورے کریں گے کہ اس بھلائی کا کیسے سدّباب کیا جائے۔ آغاز ہی میں اس کی سرکوبی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ منافقین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس جہاد سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی ایسا رویّہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہو اور اُن کی ہمتیں بڑھیں۔ ان کے مقابلے میں اگر کوئی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تو اس سخت کارروائی سے اپنی نرم مزاجی کی بنا پر گریز نہ کیا جائے۔ جو وقت سختی کرنے کا ہے اس میں سختی ہی کرنی چاہیے۔ اس وقت اگر آدمی نرمی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلامی اخلاق نہیں ہے۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ جو مقام نرمی کرنے کا ہے وہاں نرمی کی جائے اور جو مقام سختی کرنے کا ہے وہاں سختی ہی کی جائے۔ جس مقام پر اللہ کے رسولؐ نے سختی کی ہے وہاں ہماری طرف سے نرمی کا مظاہرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ منافقین کے ساتھ سخت برتائو کرو وہاں نرمی کیسے برتی جاسکتی ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیرکردہ مسجد ’مسجدِضرار‘ کیسے گرا دی تھی اور منافقین کو کس طرح سے مسجدوں سے نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ منافقین کا زور توڑنے کے لیے جو سختی کرنی ضروری ہے اس میں کمی نہ کرو۔ منافقین کا انجام یہ ہے کہ: وَمَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ، ’’اُن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَo (۶۶:۱۰)، اللہ کافروں کے معاملے میں نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے کہ وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے اِن شوہروں سے خیانت کی، اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی نہ کام آسکے۔ دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جائو آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جائو۔
یہاں جو چیز ذہن نشین کرائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کے لیے یہ بات ذرّہ برابر بھی نافع نہیں ہے کہ اس کا رشتہ داری کا تعلق اللہ کے کسی نبی ؑسے یا کسی دوسرے نیک بندے سے ہے۔ یہاں جو چیز بھی نافع ہے وہ انسان کا اپنا عمل اور اس کا اپنا ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان اور عمل سے خالی ہو، اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بن جائے، تو اس کے بعد وہ صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہے، یا کسی نبی سے اس کی رشتہ داری ہے۔ اس گرفت سے نبی کی بیویاں بھی نہیں بچ سکتیں۔ اس چیز کو قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کا ذکر ہے، اور سورئہ ہود میں حضرت نوحؑ کے بیٹے کا ذکر ہے۔ وہاں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایاگیا ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو طوفان میں ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تو کشتی کنارے پر جالگنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ تو میرے بیٹے کو بچا لے کیوں کہ وہ میرے اہل میں سے ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ بجاے اس کے کہ اُن کی دعا قبول کر کے ان کے بیٹے کو بچالیا جاتا، اس بات پر سرزنش فرمائی گئی کہ وہ تیرا اہل نہیں ہے، وہ ایک بگڑا ہوا کام ہے، اُس کے لیے بخشش نہیں ہے، کیونکہ یہ موقع فیصلے کا ہے۔ جو موقع کفر اور ایمان کے فیصلے کا ہو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا رشتہ دار ہے۔
سورئہ بقرہ میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ ۲:۱۲۴)، ’’میں تمھیں تمام دنیا کے انسانوں کا امام بناتا ہوں‘‘۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط (۲:۱۲۴)، ’’میری نسل کے متعلق کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا کہ: لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ o (۲:۱۲۴)، ’’میرا عہد ظالموں سے نہیں ہے‘‘۔تمھاری اولاد ہے تو ہو، لیکن جو ظالم ہوگا اس کے لیے میرا عہد نہیں۔
قریشِ مکہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔ عرب میں قریش کی پیری اور مشیخت چل ہی اس بل پر رہی تھی کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی اولاد ہیں۔ لیکن سورئہ بقرہ میں دراصل قریش کو یہ سنایا گیا ہے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ تمھاری نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارے لیے فخر اور عزت کا کوئی مقام پیدا نہیں کرتی، جب تک کہ تم خود ایمان پر قائم نہ ہوجائو۔
اسی طرح اہلِ کتاب، یعنی یہود اور نصاریٰ، حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاؑ کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ فخر تھا کہ ہم انبیا کی اولاد ہیں۔ ان سے صاف طور پر فرما دیا گیا کہ: تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک اُمت تھی جو گزر گئی جو کچھ اُس نے کمایا وہ اس کے لیے ہے اور جو کچھ تم کمائو گے وہ تمھارے لیے ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کی کمائی کا کوئی فائدہ تمھیں پہنچے۔ تمھیں جو کچھ بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ اپنی کمائی کا ہوگا۔
احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے خاندان والوں کو پکار پکار کر فرمایا کہ ’’اے فاطمہؓ بنت محمدؐ ،اپنی عاقبت کی فکر کرلے، میں تیرے کسی کام نہیں آئوں گا‘‘۔ اپنی پھوپھی کو مخاطب کر کے فرمایا: اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اپنی عاقبت کی فکر کرو، میں تمھارے کسی کام نہیں آسکوں گا۔
اسی مضمون کو یہاں بیان کیا گیا کہ نوح اور لوط علیہما السلام دونوں کی بیویاں اگرچہ نبی ؑکی بیویاں تھیں لیکن چونکہ اُنھوں نے خیانت کی اس لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ان کو کوئی چیز بچانے والی نہ تھی۔ خیانت سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے نعوذباللہ کوئی بدکاری کی تھی۔ نہیں، بلکہ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کی بیویاں ہوکر، نبی کے گھر میں بیٹھ کر نبی کے مشن کی مخالفت کرتی تھیں۔ لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی کافر قوم سے ملی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم اس بستی سے نکل جائو، تو صاف طور پر ہدایت کردی کہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جانا۔ اور وہ اس طرح اپنی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی جس طرح ساری قوم مبتلا ہوئی۔ حضرت نوحؑ کی بیوی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس نے ساری عمر اُن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا اور نبی ؑکے اُس مشن کی مخالفت کی جس کے لیے انھوں نے اپنی ساری زندگی کھپا دی تھی۔
پھر یہ جو فرمایا کہ: وَّقِیْلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ، ’’دوزخ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جائو‘‘۔ یہ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ کے الفاظ غیرضروری نہیں ہیں بلکہ ان میں واضح طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں، اُسی طرح سے تم بھی چلی جائو۔ دوسرے لوگوں سے اللہ کی کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے، اور تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو جہنم میں دھکیلا جا رہا ہو لیکن تمھیں اس وجہ سے بچالیا جائے، جب کہ تم نبی ؑ کی بیویاں ہو۔ نہیں، بلکہ جس طرح دوسرے لوگ جہنم میں جارہے ہیں اسی طرح تم بھی جہنم میں داخل ہوجائو۔ [العیاذ باللّٰہ]
وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَم اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo (۶۶:۱۱)، اور اہلِ ایمان کے معاملے میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے، جب کہ اُس نے دعا کی:’’اے میرے رب، میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے بچا لے، اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے‘‘۔
اُوپر پہلے کافروں کی مثال دی گئی تھی، اب یہاں ایمان لانے والوں کے لیے مثال دی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی کو پیش کرتا ہے، جب کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ’’خدایا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے، اور ظالم قوم سے نجات عطا فرما‘‘۔
فرعون جیسا دشمنِ دین اور دشمنِ خدا تھا، اس پر قرآنِ مجید میں نہایت سخت الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ہے اور اس کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ حضرت آسیہ فرعون کے گھر میں تھیں لیکن چونکہ ایمان لائی ہوئی تھیں اور اُس قوم کے عمل سے بیزار تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی مثال دیتا ہے کہ ان کو دیکھو کہ وہ کس گھر میں تھیں۔ لیکن ان کے لیے فرعون کی بیوی ہونا کسی نقصان کا مُوجب نہیں ہوا کیونکہ وہ ایمان لائی ہوئی تھیں۔ اس طرح اس بات کی پوری طرح صراحت کردی گئی کہ اگر کوئی عورت غلط راستے پر جائے تو نبی ؑ کی بیوی ہوتے ہوئے بھی سزا سے نہیں بچ سکتی لیکن اس کے برعکس ایک عورت کسی بدترین کافر اور دشمنِ خدا کے گھر میں رہتے ہوئے بھی مبتلاے عذاب نہیں ہوسکتی۔ مزیدبرآں ایمان کی وجہ سے اور اپنے عمل کی وجہ سے وہ ظالموں کے عمل سے بھی محفوظ رہے گی۔
پھر ارشاد فرمایا گیا:
وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o (۶۶:۱۲)، اور [اللہ] عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اُس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اُس نے اپنے رب کے ارشادات اور اُس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی۔
حضرت مریم علیہا السلام کو یہاں کس وجہ سے بطورِ مثال پیش کیا گیا ہے؟ حضرت مریم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شدید آزمایش میں ڈالا تھا جس میں دنیا کی کسی دوسری عورت کو نہیں ڈالا گیا۔ حضرت مریم ؑکا قصہ سورۂ آلِ عمران میں بھی گزرچکا ہے، اور سورئہ مریم ؑمیں بھی بیان ہوا ہے۔اس میں جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی والدہ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ جوانی کی عمر کو اس حال میں پہنچیں کہ ان کی زندگی نہایت پاکیزہ تھی۔ ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتی تھیں۔ غیرشادی شدہ اور کنواری تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اُن کے بطن سے حضرت عیسٰی ؑکو پیدا کرے۔
یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کے رحم پر اپنی خاص روح پھونکی۔ بغیر اس کے کہ ان کی شادی ہو، اُن کے ہاں اولاد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک روح ان کے اندر پھونک دی اس طرح حضرت عیسٰی ؑپیدا ہوئے۔
سورئہ مریمؑ میں یہ قصہ آتا ہے کہ جس وقت وہ حاملہ ہوئیں تو ان کی جان اِس وجہ سے گھلی جاتی تھی کہ میں یہاں اس عبادت گاہ کے اندر رات دن عبادت میں مشغول ہوں۔ کنواری لڑکی ہوں، شادی میری ہوئی نہیں ہے۔ اب یکایک میرا حمل ظاہر ہوا تو مجھ پر کیا گزرے گی، اور میری قوم کیا کہے گی۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے باخبر کردیا تھاکہ ہم تمھیں ایک عظیم آزمایش میں ڈالنے والے ہیں۔ تمھارے بطن سے ایک لڑکا پیدا کریں گے جو ایسا اور ایسا ہوگا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی، میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِسی طرح ہوگا۔ اللہ کی طرف سے جب یہ فیصلہ اُن کو سنایا گیا تو انھوں نے سرتسلیم خم کردیا۔یہ نہیں کہا کہ میں اپنے آپ کو اس آزمایش میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوں، بلکہ عرض کیا کہ اگر میرے رب نے مجھے اس آزمایش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو مجھے منظور ہے۔
اس کے بعد سورئہ مریم ؑمیں یہ سارا قصہ آیا ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ حمل کے آثار ظاہرہو رہے ہیں تو وہ اپنا ٹھکانا چھوڑ کر نکل گئیں اور بیت المقدس میں جاکر پناہ ڈھونڈ لی۔ وہاں جب ان پر زچگی کا وقت آیا تو اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا، بالکل تن تنہا تھیں، نہ کوئی پانی پلانے والا تھا اور نہ کوئی غذا دینے والا۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پانی کا یہ انتظام کیا کہ ایک چشمہ جاری کیا، اور ان کے بالکل سر کے اُوپر جو کھجور کا درخت اُگا ہوا تھا، اس کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ اس درخت کو ہلائو، تمھارے لیے تازہ کھجوریں گریں گی۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایک مومنہ عورت کو اتنا بڑا مقام صرف اس وجہ سے ملا کہ اُس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے submit کردیا۔ وہ اللہ کی رضا کے سامنے بالکل سپرانداز ہوگئیں کہ میرا رب مجھ سے جو کام لینا چاہتا ہے میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ یہ وہ چیز تھی جو اُن کے لیے اتنے بلند مرتبے پر پہنچنے کا باعث بنی۔
اس سے پہلے آغاز میں جو مضمون گزرا ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہراتؓ کی بعض غلطیوں پر تنبیہہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انھیں بتایا کہ یہ تین قسم کی عورتیں تمھارے سامنے بطور مثال ہیں۔ دو عورتیں نبی ؑ کی بیویاں تھیں لیکن غلط راستے پر گامزن ہوگئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی ؑ کی بیوی ہونا اُن کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوا۔ دوسری طرف ایک عورت جو بدترین دشمنِ دین کے گھر میں تھیں لیکن جب انھوں نے ایمان اور عملِ صالح کا راستہ اختیار کیا تو ان کے لیے جنت میں مکان بنایا گیا۔ ان تین عورتوں کے ساتھ ایک یہ حضرت مریمؑ ہیں جنھوں نے اللہ کی مرضی کے آگے سرجھکا دیا اور سخت ترین آزمایش سے گزرتے ہوئے بھی اُن کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اس کا ثمر اُن کو یہ ملا کہ اُن کو وہ مقام حاصل ہوا جو دنیا کی کسی عورت کو حاصل نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگرچہ اس سارے بیان میں بعض عورتوں کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے لیکن اس لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ایمان اور عملِ صالح کے نتائج دونوں کے حق میں ایک جیسے ہیں۔ عورتوں کی طرح یہ اصول مردوں کے لیے بھی ہے کہ کسی نبی ؑ یا کسی اور برگزیدہ ہستی کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ اور تعلق بجاے خود نافع نہیں ہے، بلکہ دراصل جو چیز فیصلہ کن ہے وہ آدمی کا اپنا ایمان اور اس کا اپنا عمل ہے۔(کیسٹ سے تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)