ہمارا ملک بھی خوب ہے۔ یہاں وہ کام جو حب ِ وطن کا تقاضا ہیں، ان میں رکاوٹیں پڑتی ہیں اور جو حب ِ وطن کے منافی ہیں ان کو ہر طرح کی سرپرستی اور حمایت ملتی ہے۔
تعلیم کا شعبہ اجتماعی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ کوئی بھی غیرت مند ملک اپنی نئی نسل کو غیروں کے حوالے نہیں کرتا لیکن ہم نے ۶۵سال میں بھی غیروں کے اس نظامِ تعلیم کواپنا نہیں بنایا جو ’ہمارے آقا‘ ہمیں دے گئے تھے۔ اسے پاکستان کے مقاصد اور یہاں کے رہنے والوں کی آرزوئوں کے مطابق نہیں ڈھالا۔ پہلی تعلیمی کانفرنس میں آزادی کے تقاضوں کا کوئی لحاظ ملتا ہے۔ وزارت کا نام بھی وزارت تعلیم و تربیت تھا۔ لیکن ہم اُلٹی سمت میں چلتے رہے اور اپنے طالب علموں کو برطانیہ کی تاریخ پڑھاتے رہے۔
حالیہ ۱۸ویں ترمیم میں صوبوں کو جو خودمختاری دی گئی ہے اس کے مطابق تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ محب ِ وطن عناصر نے بہت کوشش کی کہ نصاب سازی مرکز کے سپرد رہے لیکن ان کی نہ سنی گئی اور اب خاص طور پر پاکستان کے صوبوں کے جو حالات ہیں، ان میں یہ اندیشہ ہے کہ ہرصوبے کے طالب علم اپنا اپنا نصاب پڑھیں گے ۔ ان کا اپنا نصاب ہوگا، اپنے قومی ہیرو ہوں گے۔ پاکستان اور اسلام معلوم نہیں کوئی جگہ پاسکیں یا نہیں گے اس لیے کہ ان کے خلاف لابیزکا دبائو، معاشرے کا انتشار اور اصحابِ اقتدار موجود ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں جو کمیشن بنایا گیا اس نے ایک بڑی تفصیلی رپورٹ پیش کی کہ مسلم ممالک کے لوگوں کے دل و دماغ کو کیسے بدلا جائے اور کیسے ان پر قابو پایا جائے۔ اس حوالے سے بہت تفصیل سے لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اس پر بہت سے مسلم ممالک میں بخوشی عمل کیا جارہا ہے۔
پاکستان تو امریکا کے پلان میں زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے یہاں یہ کام ہرسطح پر شروع ہوگیا۔ تعلیم کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے مقام دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بھی تعلیمی صورت حال اطمینان بخش نہیں، بلکہ غیراطمینان بخش ہے۔ لیکن پنجاب میں جو صورت حال ہے وہ نہایت خطرناک بلکہ alarming ہے جس پر پاکستان کا درد رکھنے والے اور اس کے مستقبل کے لیے فکرمند تشویش میں مبتلا ہیں کہ آخر یہ حکومت ملک کی نئی نسل کو کس منزل تک پہنچانا چاہتی ہے؟
باغیرت قومیں کم از کم اپنے تعلیمی اداروں کے لیے غیرملکی امداد قبول نہیں کرتیں۔لیکن ہم علاقے میں وڈیروں اور بہت سے صاحبانِ مال ہونے کے باوجود پرائمری سکول کی چار دیواریوں اور واش روم کے لیے بھی باہر ہاتھ پھیلاتے ہیں (ابھی بھی ۴۰ فی صد اداروں میں چار دیواری اور ٹائیلٹ نہیں ہیں۔ روزنامہ دنیا، ۲۴دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمیں امداد یا ڈالر دے کر جو چاہے ہم سے کروا لو، اپنے گلے پر چھری پھروا لو، بچوں کو قتل کروا لو، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی قتل کروا لو ع
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
صوبائی حکومت کو ان دنوں ایک انگریز مائیکل باربر اور ایک امریکی ماہر تعلیم ریمنڈ کی خدمات حاصل ہیں (معلوم نہیں کتنے مشاہرے اور مراعات پر)۔ پنجاب کے نظامِ تعلیم میں جو تبدیلیاں لائی جارہی ہیں وہ انھی مشیروں کی ہدایات پر لائی جارہی ہیں جن کی ہربات پر دینی اور قومی تقاضے پس پشت ڈال کر آمنا وصدقنا کہنا پنجاب حکومت کا شعار محسوس ہوتا ہے۔ یہ مشیر کھلے عام پریس کانفرنس میں شہبازشریف کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ (جنگ، ۲۳ نومبر ۲۰۱۲ء)
۱- ۲۲ جولائی کو مائیکل باربر اور ریمنڈ کے ساتھ بیٹھ کر وزیراعلیٰ پنجاب نے تعلیمی اصطلاحات کے روڈمیپ پر باہمی معاہدہ کیا۔(نیوز لیٹر ڈی ایس ڈی، ۲۲جولائی ۲۰۱۲ء)
۲- حکومت پنجاب کے ایک فیصلے کے تحت پہلی جماعت سے ہی انگریزی کو بطور ذریعۂ تعلیم لازمی کردیا گیا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ تجویز کتنی قابلِ عمل ہے۔ اس کے پیچھے جو ذہنیت کارفرما ہے، وہ مذمت کی مستحق ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ پرائمری کے بعد ہی تعلیم ترک کرنے والوں کی شرح (ڈراپ آئوٹ ریٹ) جو ۲۰۱۱ء میں ہی تشویش ناک تھی، ۲۰۱۲ء میں مزید تشویش ناک ہوگئی ہے۔ اس کا واضح سبب انگریزی کا لازمی کیا جانا ہے۔ آیندہ اضافے کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔
انگریزی کی تعلیم کا کوئی بھی مخالف نہیں لیکن انگریزی ذریعۂ تعلیم کا ہر صاحب ِ دانش اور محب ِ وطن مخالف ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ہم انگریزی کی تعلیم کے مخالف نہیں، انگریزی میں تعلیم کے مخالف ہیں۔ ہمارے حکمران اس معمولی بات کو نہیں سمجھتے کہ محض غیرملکی زبان اپنانے سے ترقی نہیں ہوجاتی۔ جرمنی جرمن،جاپان جاپانی اور چین چینی زبان میں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ ہم بھی اپنی قومی زبان اُردو میں ہی ترقی کریں گے نہ کہ غیرملکی زبان انگریزی میں۔ فنکشنل انگریزی کے لیے خصوصی کورس چلائے جاسکتے ہیں۔
۳- پنجاب حکومت کے ۳۱مئی ۲۰۱۲ء کے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے ۵۰۰میٹر کے اندر واقع بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ انھیں ’ماڈل پرائمری سکول‘ کا نام دیا گیا۔ نیز اب نیا جو بھی پرائمری اسکول کھولا جائے گا اس میں مخلوط تعلیم دی جائے گی، یعنی مخلوط تعلیم روزِ اوّل سے، جب کہ اس کی قباحتیں، اس کے نتائج، اس کے معاشرے پر اثرات، علاوہ خدا اور رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کے، ساری دنیا میں کھلی آنکھوں والے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے گئے گزرے حال میں بھی جو بچی کھچی اقدار رہ گئی ہیں، پنجاب حکومت ان کے بھی درپے ہے۔
۴- اب طالبات کے تعلیمی اداروں میں مرد اساتذہ کی تقرریوں کا اور مردانہ کالجوں میں خواتین اساتذہ کے تقرر کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اسے ناگزیر مجبوری کے اقدام کے بجاے معمول کی بات بنایا گیا ہے اور کالجوں میں ہی نہیں اسکولوں میں بھی اس پر عمل ہوگا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ سکول کے نویں دسویں کے طلبہ کو جب استانیاں تعلیم دیں گی تو ان کے ناپختہ ذہن ان کو کہاں کہاں لے جائیں گے۔
۵- نصاب پر بھی پوری توجہ ہے۔ ۲۰۱۲ء میں تیار ہونے والی درسی کتب میں سے قرآنی آیات اور سورتوں کو نکال دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی نبی اکرمؐ کی سیرت، حضرت خالد بن ولیدؓ کا اسوہ، جہاد پر مضامین، نام ور مسلم شخصیات کی خدمات کا تذکرہ بھی خارج از نصاب کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف گاندھی کو مسلم دوست راہ نما بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
۵- پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے زیراہتمام اداروں میں مطالعہ پاکستان یا اسلامیات کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ اس لیے اس فائونڈیشن کے تحت تعلیمی اداروں میں یا تو مذکورہ مضامین پڑھائے نہیں جاتے یا اگر پڑھائے جاتے ہیں تو بے دلی سے اور براے نام۔ توجہ ان مضامین پر ہوتی ہے جن کا امتحان فائونڈیشن لیتی ہے۔
۶- تعلیمی اداروں میں اخبارات کے تعاون سے میوزیکل شو اور ناچ گانے کے دیگر پروگرامات کے انعقاد میں اضافہ ہوا ہے۔ پھر ان کی متعلقہ اخبارات میں بھرپور تصویری اشاعت ہوتی ہے۔
۷- لڑکیوں کے کالجوں میں کیٹ واک بھی ہونے لگی ہے، یعنی نوجوان طالبات طرح طرح کے ڈیزائن کردہ ملبوسات ،جو ضروری نہیں کہ ساتر ہوں، بلکہ غیرساتر ہونا ضروری ہے، پہن کر مہمانوں کے سامنے اندازِ خاص سے گزرتی ہیں۔
ضروری ہوگیا ہے کہ ان اقدامات کی جو ایک خوف ناک مستقبل کی نشان دہی کر رہے ہیں، کھل کر مزاحمت کی جائے اور ان کو روکا جائے، لیکن ابھی تک تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کو کوئی مزاحمت پیش نہیں آئی ہے اور وہ اپنے امریکی و برطانوی مشیروں کے مشوروں سے یہاں کے نوجوانوں کو، یعنی پاکستان کے مستقبل کو تباہ کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا رہیں گے۔
ہمارے میڈیا کو بھی ان اقدامات کے خلاف مؤثر آواز اٹھانا چاہیے ( مگر ان کی اکثریت تو تہذیب و معاشرت بدلنے کے اس کام میں چار قدم آگے ہے)۔ پنجاب اسمبلی نے کالجوں میں رقص پر پابندی لگائی تو انھوں نے ایسا طوفان اُٹھایا کہ چند گھنٹوں میں ہی حکومت پنجاب نے گھٹنے ٹیک دیے اور اعلانِ برأت کردیا، جب کہ اسمبلی میں ان کی پارٹی نے حمایت میں ووٹ دیا تھا (آپ کسی غلط حکم کے خلاف کتنی ہی آواز اُٹھائیں، حکومت کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی)۔
آج ضرورت یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کو اغیار کی ریشہ دوانیوں سے پاک کیا جائے۔ پاکستان کی منزل کا شعور رکھنے والے مخلص تعلیمی ماہرین کے مشورے سے اور ان کی نگرانی میں پورے سسٹم کو اوورہال کیا جائے۔ نہ صرف پنجاب بلکہ دوسرے تین صوبوں میں بھی یہ اقدامات کیے جائیں۔
_______________
مضمون نگار ماہنامہ شاہراہِ تعلیم، لاہور کے مدیر ہیں