جنوری ۲۰۱۳

فہرست مضامین

مصری تاریخ کا پہلا جمہوری دستور

عبد الغفار عزیز | جنوری ۲۰۱۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ماں اپنے جوان بیٹے کے سرہانے کھڑی اس کے ساتھ ہونے والا اپنا آخری مکالمہ دہرا رہی تھی: ’’خالد دفتر سے آتے ہی ہمیں خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلنے لگا تو میں نے پوچھا اتنی کیا جلدی ہے۔۔؟ کہاں جارہے ہو۔۔؟ جاتے جاتے مسکراتے ہوئے شوخی سے کہنے لگا: ’’ماں تم مجھے شادی کرنے کا کہتی رہتی ہو، آج میں خود ہی حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں‘‘۔ پھر کہنے لگا کل رات صدر محمد مرسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوانِ صدر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے بہت توڑ پھوڑ کی تھی___ آج اخوان کی طرف سے صدر کی حمایت میں، ایوانِ صدر کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے، میں بھی وہیں جارہا ہوں۔ رات گئے اچانک معلوم ہوا کہ اپوزیشن نے نہ صرف دوبارہ ہنگامہ کیا ہے بلکہ اخوان کے مظاہرے پر حملہ کرتے ہوئے کئی افراد کو شہید و زخمی کردیا ہے۔ میرا خالد بھی زخمی ہوگیا تھا اور گذشتہ تین روز سے بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں داخل تھا۔ آج جب وہ چلاگیا ہے تو مجھے بار بار اس کا وہی جملہ سنائی دے رہا ہے ’’ماں! حوروں سے منگنی کرنے جارہا ہوں۔  ماں! حوروں سے___ ‘‘ شہید کا غم زدہ باپ اور بھائی بھی قریب کھڑے تھے۔ والد نے ہاتھ میں خالد کا پیشہ ورانہ شناختی کارڈ تھام رکھا تھا۔ وہ وزارتِ داخلہ میں قانونی مشیر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ کارڈ پر تفصیلات درج تھیں: خالد طٰہٰ عبد المنعم رکن پروفیشنل کلب۔ کارڈ نمبر ۳۳۸۰۔ کارآمد: ۲۰۱۲ء کے اختتام تک۔ چند سال پہلے بننے والے اس کارڈ کا اندراج کرنے والوں کو کیا معلوم تھا کہ ۲۰۱۲ء کا اختتام صرف کارڈ کی مدت ختم ہونے کی نہیں، خود خالد طٰہٰ کی مہلت حیات کا اختتام بھی ہوگا۔ خالد ٹھیک ۱۲/۱۲/۱۲ کو ’حوروں سے منگنی‘ کرنے چلا گیا وہ یقینا وہاں خوش و خرم ہوگا۔

احتجاج، مظاہرے، اعتراضات، تنقید ۔۔۔ یقینا اس حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔۔ لیکن دنگا فساد، گالم گلوچ اور قتل و غارت بے دلیل لوگوں کے ہتھیار ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد اس کی باقیات کو عوامی نمایندگی کے ہر پلیٹ فارم پر ناکامی ہوئی۔ اب وہ جلاؤ گھیراؤ کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بظاہر تو حالیہ بحران کا آغاز ۲۲ نومبر سے ہوا جب صدر محمد مرسی نے دستوری اعلان کے ذریعے استثنائی اختیارات حاصل کرلیے۔ یہ اختیارات دستور کی منظوری تک کی مختصر، محدود اور متعین مدت کے لیے تھے۔اس اعلان کو فرعونیت، نئی آمریت اور نہ جانے کیا کیا نام دیے گئے، لیکن دو اسرائیلی ذرائع کچھ اور خبر دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اُمور کے اسرائیلی ماہر بنحاس عنباری نے غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک روسی   ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے (Russia Today) پر کہا: ’’صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملہ، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا‘‘۔ سننے والوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔ ہرایک نے اپنی اپنی تاویل کی۔ چند روز بعد ایک معروف اسرائیلی ویب سائٹ نے اصل راز سے پردہ اُٹھادیا کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ۴ نومبر ۲۰۱۲ء کو حسنی مبارک کے سابق وزیرخارجہ عمروموسیٰ نے مقبوضہ فلسطین کا ایک خفیہ دورہ کیا تھا، جس میں وہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیپی لیفنی سے ملے۔ لیفنی نے انھیں اسرائیلی قیادت کا پیغام پہنچایا: ’’صدر مرسی کو اندرونی سیاسی خلفشار میں الجھایا جائے‘‘۔ عمروموسیٰ اس ۱۰۰ رکنی دستوری کونسل کے رکن تھے جو دستوری مسودہ تیار کررہی تھی۔ انھوں نے مصر واپس آتے ہی دستور کی بعض شقوں پر اعتراض جڑدیا۔ اتفاق سے یہ وہی شقیں تھیں جو خود موصوف ہی نے تجویز کی تھیں۔ پھر کونسل کے سربراہ بیرسٹر غریانی سے ’توتو مَیں مَیں‘ کرتے ہوئے دستوری کونسل سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس استعفے اور معترض علیہ شقوں کو بنیاد بناکر ملک میں ایک مناقشت شروع کردی۔ اسی اثنا میں غزہ پر حملہ شروع ہوگیا۔ لیکن صدر مرسی نے کسی اندرونی سیاسی تنازے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، پوری قوت سے اہل غزہ کا ساتھ دیا اور بالآخر آٹھ روز کی جنگ کے بعد اسرائیل کو خود، فلسطینی شرطیں مانتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔

انھی دنوں قاہرہ کے ایک بڑے بنگلے میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، جس میں حسنی مبارک کی باقیات میں سے اس کی وفادار جج تہانی الجبالی، جوڈیشل کلب کے صدر احمد الزند، حسنی مبارک کے وزیر خارجہ عمروموسیٰ اور محمد البرادعی جیسے افراد شریک ہوئے۔ انھوں نے منصوبہ تیار کیا کہ دستوری عدالت کے ذریعے دستور ساز کونسل کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی طرح ایوان بالا، یعنی سینیٹ کو بھی توڑ دیا جائے۔ باقی رہ جائے گا صدارتی عہدہ تو اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا جائے۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی صدر محمد مرسی تک پہنچ گئی۔ دستوری مسودہ تقریباً تیار تھا، جو ۱۰دسمبر سے پہلے پہلے صدر کو پیش کیا جانا تھا اور پھر ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ہونا تھا۔ صدرمرسی نے احتیاطی پیش رفت کرتے ہوئے ۲۲نومبر کا مشہور عالم (اپوزیشن کے بقول فرعونیت پر مبنی) صدارتی آرڈی ننس جاری کیا۔ اس کے چار نکات اہم ترین تھے: lدستور کی منظوری تک سینیٹ کو نہیں توڑا جاسکتا، نہ دستوری کونسل ہی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔l حسنی مبارک اور  اس کے آلۂ کاروں پر انقلابی تحریک کے دوران شہید کیے جانے والے افراد کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے گی l حسنی مبارک کے متعین کردہ اٹارنی جنرل عبد المجید محمود کو برطرف کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے حسنی مبارک اور اس کے آلۂ کاروں کی جان بچانے کے لیے مقدمے کی قانونی بنیاد ہی کھوکھلی رکھی۔ lدستور منظور ہونے تک صدر کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

’خفیہ اجلاس‘ میں شریک افراد، تمام اسلام بیزار قوتوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس صدارتی اعلان کی مخالفت اور تنقید کا طوفان برپا کردیا۔ پہلے ہی روز سے مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا آغاز کردیا۔ خالد طٰہٰ جیسے ۱۱نوجوان شہید کردیے۔ اخوان کے ہیڈ کوارٹر سمیت مختلف شہروں میں اخوان اور اس کی سیاسی پارٹی، حریت و عدالت کے ۴۸ دفاتر نذر آتش کردیے اور پورے ملک کو انتشار کا شکار کردیا۔

اخوان نے کسی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ الشہادۃ أسمی امانینا، ’’شہادت ہماری بلند ترین آرزو ہے‘‘، جیسے نعروں کی آغوش میں پلے خالد طٰہٰ جیسے لاکھوں نوجوان بھی تشدد پر اُتر آتے، تو ملک ایک ہمہ گیر خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اخوان نے کمال صبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے تشدد کا جواب پُرامن لیکن عظیم الشان مظاہروں سے دیا۔ مظاہروں کا ایک روز تو ایسا بھی تھا کہ خود مغربی ذرائع کے مطابق، ۱۵ ملین، یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد نے بیک وقت مختلف شہروں میں مظاہرے کرتے ہوئے دستور اور صدر مملکت کی تائید و حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے اسے تقریباً نظر انداز کیا۔

صدر مرسی نے بھی بیک وقت دوٹوک موقف، لیکن لچکدار رویے کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے ایک طرف تو دستوری عمل کو تیز تر کرنے کا کہا۔ ۱۰ دسمبر کا انتظار کیے بغیر ہی مسودہ مکمل کرنے کا کہا جس کے نتیجے میں دستوری کونسل نے ایک ایک شق پر ووٹنگ کرتے ہوئے ۲۳۶ شقوں پر مشتمل دستوری مسودہ، ۳۰ نومبر کو صدر کی خدمت میں پیش کردیا۔ انھوں نے دستوری تقاضے کے مطابق ۱۵دسمبر کو اس پر ریفرنڈم کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد قانونی طور پر کسی کے لیے اسے منسوخ یا معطل کرنا ممکن نہ تھا۔ ساتھ ہی صدر نے اپوزیشن، جج حضرات، دستوری ماہرین اور اہم دانشوروں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ بعض نمایاں اپوزیشن لیڈروں سمیت ۵۰ کے لگ بھگ دستوری ماہرین نے دعوت قبول کی، لیکن ’خفیہ ملاقات‘ میں شریک تمام افراد نے دعوت مسترد کردی۔ صدر مرسی نے خیر سگالی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کا افتتاح کرنے کے بعد کہا: اب آپ سب سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین باہم مشورے سے جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس کی صدارت نائب صدر جسٹس محمود مکی کے سپرد کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ طویل مشاورت کے بعد مجلس نے اتفاق راے سے فیصلہ کیا کہ ۲۲ نومبر کا صدارتی فرمان منسوخ کردیا جائے، ریفرنڈم اپنے مقرہ وقت پر ہو، صدارتی فرمان کی روح برقرار رہے اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تبدیلیاں برقرار رہیں۔ ریفرنڈم کا فیصلہ مخالفت میں آئے تو صدر مملکت نئی دستوری کونسل تشکیل دیں جو دوبارہ چھے ماہ کا عرصہ لیتے ہوئے نیا دستوری مسودہ تیار کرے۔ فرعونیت کا طعنہ دینے والوں نے دیکھا کہ اگرچہ صدر اپنا صدارتی فرمان منسوخ کرنے کے حق میں نہیں تھے، خود اخوان کے بعض رہنماؤں نے بھی یہ بیان دیا تھا، لیکن جب مذاکراتی مجلس نے منسوخی کا فیصلہ کرلیا تو صدر نے و أمرھم شوری بینہم کہتے ہوئے اسے منظور کرلیا۔

اپوزیشن نے ماردھاڑ کی سیاست پھر بھی بدستور جاری رکھی، لیکن یہ صرف اپوزیشن کی پالیسی نہیں تھی۔ اخوان، صدر مرسی بلکہ اسلام اور شریعت نبوی کے تمام اندرونی و بیرونی مخالفین یک جان ہوگئے تھے۔ سیپی لیفنی کی بات تو میڈیا میں آگئی، مزید نہ جانے کس کس دشمن نے جلتی پر تیل ڈالا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی خوب خوب حق نمک ادا کیا۔ ایسی ایسی خبریں گھڑیں اور دنیا بھر میں پھیلائیں کہ صفحہء ہستی پر جن کا وجود تک نہ تھا۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک میں یہ خبریں بلا تحقیق شائع ہوئیں اور ایک جھوٹ، اربوں جھوٹ کی شکل اختیار کرتے ہوئے، جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے والوں کے نامہء اعمال میں ثبت ہوگئے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی کو دیکھ لیجیے کہ کیا کیا نشر فرمایا: ’’صدر مرسی مسجد میں محصور‘‘۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کہا گیا: ’’مصر میں فوج سڑکوں پر آگئی‘‘۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ جب قصر صدارت کے باہر اخوان کے نو افراد شہید کردیے گئے، تو حامی اور مخالفین دونوں سے میدان خالی کرواتے ہوئے قصر صدارت کے باہر صدارتی گارڈز کے چار ٹینک اور تین بکتر بند گاڑیاں کھڑی کردی گئیں۔ اسی ایک واقعے کو ’’فوج آگئی‘‘ کی سرخی دے کر گویا اپنی کسی خواہش کا اظہار کیا جارہا تھا۔ ایک سرخی تھی: ’’مصر میں اسلامی دستور کے خلاف ہنگامے، کئی ہلاک، اپوزیشن کا احتجاج‘‘۔ گویا اسلامی دستور کے خلاف احتجاج میں اپوزیشن کے کارکنان ہلاک کردیے گئے جس پر مزید احتجاج ہورہا ہے، حالانکہ قتل کیے جانے والے تمام افراد اخوان ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ اخوان نے سب کے نام پتے اور تنظیمی تعلق اور تعارف شائع کیا۔ اخوان نے ہی ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے۔ قاتلوں نے قتل بھی کیے اور پھر ’خون کا بدلہ لیں گے‘ کہتے ہوئے مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا۔ اس ابلاغیاتی یلغار کی تفصیل طویل ہوسکتی ہے لیکن صرف مزید جھلکیوں سے ہی اس کی شدت و دنائت کا اندازہ لگا لیجیے: ’’اخوان نے نہر سویز فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ ،’’اسلام پسندوں نے اہرامِ مصر کو مزار قرار دیتے ہوئے انھیں ڈھانے کا مطالبہ کردیا‘‘، ’’نئے دستور میں فوت شدہ بیوی کے ساتھ، تدفین سے پہلے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت کا فیصلہ‘‘، ’’صحراے سینا فلسطینیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘‘، ’’لونڈیاں رکھ سکنے کا قانون بنایا جارہا ہے، ’’دستور میں ہولو کاسٹ کی نفی‘‘۔

الزامات و تحریفات کا یہ سلسلہ ریفرنڈم کے آخری روز تک جاری رہا۔ اخوان کے مرشد عام ہر جمعرات کو اخوان کے نام ہفت روزہ پیغام جاری کرتے ہیں۔ عموماً دعوتی و تربیتی موضوعات زیر بحث ہوتے ہیں۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کو مرشد عام نے مصر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ بیان کیں جن میں مصر کا ذکر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ قرآن کریم میں ۲۴مقامات پر مصر کا ذکر کیا گیا ہے، کہیں صراحتاً اور کہیں کنایتاً۔ پھر انھوںنے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث بیان کیں جن میں مصر اور اہل مصر کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے    انھوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی نصیحت میںاہل مصر کو روے زمین کے بہترین سپاہی فرمایا ہے۔ گویا یہ لوگ فطرتاً تیار فوجیں ہیں جنھیں صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن جب قیادت ہی فاسد تھی تو اس کے سپاہیوں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس وقت مصر کو بھی حکیمانہ قیادت کی ضرورت ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی بہتر رہنمائی اور تربیت کی ‘‘۔ جمعرات ۲۰ دسمبر کی شام یہ بیان جاری ہوا اور پھر ریفرنڈم سے ایک روز قبل جمعہ ۲۱دسمبر سے ہر طرف پروپیگنڈا شروع ہوگیا: ’’مصری فوج کی قیادت فاسد ہے: مرشد عام‘‘۔

الحمد للہ گذشتہ ہر بحران کی طرح اس مرتبہ بھی دشمن کی سازشیں مصر کی منتخب قیادت کے لیے سرخروئی کا ذریعہ بنیں۔ دیگر کئی اُمور کے علاوہ ایک خیر یہ برآمد ہوا کہ عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سلفی تحریک ’النور‘ اور اخوان سے علیحدہ ہوکر الگ پارٹی (الوسط) بنانے والوں سمیت، تمام محب وطن عناصر نئے دستور کے پشتیبان بن گئے۔ اگرچہ مسیحیوں کی اکثریت نے حسنی مبارک کی باقیات کا ساتھ دیا، لیکن ان کی بڑی تعداد نے بھی دستور کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح دونوں مرحلوں کے نتائج ملا کر ۶۴ فی صد ووٹروں نے ملک کا پہلا جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اس دستور کی تیاری کے لیے چھے ماہ کی مدت طے کی گئی تھی۔ ۱۰۰ رکنی منتخب دستوری کونسل میں معاشرے کے تمام طبقات اور نقطہ ہاے نظر کی نمایندگی تھی۔ عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ۴۰ ہزار تجاویز موصول ہوئیں۔ کونسل کو مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے سب کا جائزہ لیا گیا۔ ان کمیٹیوں اور کونسل کے ۶۰۰ اجلاس ہوئے۔ مصر کے سابق دستور اور دساتیر عالم سے استفادہ کیا گیا اور ایک ایسا دستور پیش کیا گیا جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ (ان شاء اللہ)

دستور کے حق اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے لیکن تجزیہ کریں تو کہیں کوئی سنجیدہ اور حقیقی اعتراض نظر نہیں آتا۔ کوئی اعتراض ہوتا بھی تو یہ ایک فطری امر ہوتا۔ بہرحال یہ دستور  کوئی وحی تو نہیں، ایک انسانی کاوش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ دستور پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی دستور ہے، جب کہ مصر میں قبطی مسیحیوں کی    بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ قبطی آبادی ۱۰فی صد ہے۔ اگر ۹۰ فی صد آبادی والے ملک کا دستور اسلامی ہو تو اس پر اعتراض بے جا ہے، لیکن دستور ساز کونسل، اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث میں الجھی ہی نہیں ہے۔ ملک کو خودمختاری، تعمیر و ترقی، خوش حالی اور کامیابی کی جانب لے جانے والا ایک دستور تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام اہداف اسلامی تعلیمات پر عمل کا منطقی نتیجہ ہیں۔

اسلام کے حوالے سے جو چند بنیادی نکات اس میں شامل ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ شق (۱) میں پہلے صرف مصر کی عرب شناخت کا ذکر تھا، اب لکھا گیا ہے کہ ’’عرب جمہوریہ مصر ایک آزاد، خودمختار، متحدہ اور ناقابلِ تقسیم ریاست ہے، اس کا نظام جمہوری ہوگا۔ ’’مصری عوام اُمت عربی و اسلامی کا اہم جزو ہیں جنھیں وادی نیل اور براعظم افریقا سے اپنی نسبت اور ایشیا تک اپنی وسعت پر فخر ہے۔ وہ تہذیب انسانی کی تعمیر میں مثبت شرکت چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ عربی کے ساتھ اُمت اسلامیہ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔شق (۲) ’’ریاست کا مذہب اسلام اور سرکاری زبان عربی ہے۔ شریعت اسلامی قانون سازی کا بنیادی مصدر ہے‘‘۔ جس شق پر سب سے زیادہ اعتراض کیا اور اودھم مچایا گیا وہ شق ۴ ہے جس میں تاریخی جامعہ الازھر کو باقاعدہ سرکاری اور دستوری حیثیت دیتے ہوئے ایک خود مختار ادارے کا مقام دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ’’اسلامی شریعت سے متعلق معاملات میں جامعۃ الازھر کی اعلیٰ علما کونسل سے راے لی جائے گی‘‘۔ پاکستان میں تو الحمد للہ اسلامی نظریاتی کونسل کی صورت میں ایک مستقل بالذات قومی ادارہ رہنمائی کرتا ہے۔ مصر میں جامعۃ الازھر کی علما کونسل سے راے لینے پر آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ اسی ضمن میں شق ۲۱۹ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں شریعت اسلامی کے اصول و مبادی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ’’اسلامی شریعت کے کلی دلائل، فقہی اور اصولی قواعد اور مذاہب اہل سنت و الجماعت کے معتبر مصادر ہیں‘‘۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ شق مبہم ہے، جب کہ دستور وضع کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی شریعت کے مآخذ متعین کردیے ہیں۔ لفظ ’مذاہب اہل سنت و الجماعت‘ پر اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مصر میں شیعہ آبادی براے نام سے بھی کم ہے، اس لیے یہ تعین کردیا گیا۔

ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ دستور میں خواتین کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ دستور کے دیباچے میں ہی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’فرد کی عزت و تکریم ریاست کی عزت و تکریم ہے۔ اُس ریاست کا کوئی عزت و مقام نہیں، جس میں خواتین کی تکریم نہیں کی جاتی۔ خواتین مردوں کی مثل ہیں اور وہ تمام قومی ذمہ داریوں اور حقوق میں برابر کی شریک ہیں‘‘۔ یہی نہیں دستور میں کئی مقامات پر مصری شہری کے حقوق، اس کی آزادیوں، اس کی حفاظت، اس کی کفالت اور اس کی ترقی و بہتری کے لیے جامع شقیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر جگہ ’تمام شہری‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس میں یقینا مرد و زن دونوں شامل ہیں، لیکن نہ جانے کیوں خواتین کا نام الگ سے لکھنے پر اصرار ہے۔

نئے مصری دستور کے مطابق ریاست ان تمام شہریوں کی کفالت کرے گی جو خود کوئی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ دستور میں خاندان کی بہبود و بہتری کے لیے خصوصی شقیں شامل کی گئیں ہیں۔ ایک جمیل و جامع عبارت شق ۱۰ میں لکھی گئی ہے: ’’خاندان معاشرے کی بنیاد ہے۔ دین، اخلاق اور قومی وابستگی اس کے اہم عناصر ہیں۔ ریاست اور معاشرہ مصری خاندان کی بنیادی ساخت، اس کی مضبوطی، استحکام اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔ ریاست بچے اور ماں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرے گی اور خاتون خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں اور عمومی سرگرمیوں میں توافق پیدا کرے گی۔ ریاست ملک کی بیواؤں، مطلقہ خواتین اور اپنے خاندان کی کفیل خواتین کی حفاظت و دیکھ بھال کا خصوصی اہتمام کرے گی‘‘۔ اس شق پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک اسی بات کی اہمیت دیکھ لیجیے کہ’ریاست اور معاشرہ‘ مل کر استحکام خاندان اور اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں گے۔

مصر کے پہلے جمہوری دستور کا ایک انقلابی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اجیر کی اجرت کو پیداوار سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ مالک تو پیداوار کے آسمانوں کو جا چھوئے اور کارکن محدود تنخواہ کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ اسی طرح یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مزدور کی کم ازکم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہ کا تعین ریاست کیا کرے گی، تاکہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہ ہوتا چلا جائے۔

جمہوری اقدار کی ترویج کے ضمن میں وہ تمام شقیں ملاحظہ کرلیجیے، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آیندہ کوئی سربراہ تاحیات نہیں رہ سکے گا،زیادہ سے زیادہ دو بار منتخب ہوسکے گا۔ صدر مرسی چاہتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہو، لیکن دستوری کونسل نے صدارتی نظام ہی کو باقی رکھا ہے، البتہ صدر کے اختیارات ۴۰ فی صد کم کردیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفعہ ۲۰۲ ملاحظہ کیجیے، لکھا ہے: ’’صدر مملکت مجلس شوریٰ (سینیٹ) کی منظوری کے بعد خود مختار اداروں اور نگران ایجنسیوں کے سربراہ مقرر کرے گا۔ یہ تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی، جس کی ایک بار تجدید ہوسکے گی۔ ان سربراہوں کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کی منظوری کے بغیر معزول بھی نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ ۱۹۵۳ء  سے ۱۹۷۰ء تک جمال عبد الناصر، ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۱ء تک انور السادات، اور ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک   حسنی مبارک کے ظالمانہ، کرپٹ اور شخصی اقتدار کی ہوش ربا داستانیں دیکھیں، اور ہاتھ آئے اختیارات کو ایک ضابطے میں ڈھالنے والے حافظ قرآن، پی ایچ ڈی انجینیر اور تحریک اسلامی کے تربیت یافتہ صدرِ مملکت کو دیکھیں، تو اصل فرق اور احتجاج کی وجوہات واضح ہوجائیں گی۔

تمام تر ماردھاڑ اور قتل و غارت کے باوجود عوام کی اکثریت نے مصر کا پہلا حقیقی جمہوری دستور منظور کرلیا۔ اب نئے دستور کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر قومی اسمبلی کے انتخابات ہونا ہیں جس کے بعد اکثریتی پارٹی حکومت تشکیل دے گی۔ صدر محمد مرسی نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد خیرسگالی کا ایک اور پیغام دیا ہے۔ صدرِ مملکت سینیٹ میں ۹۰؍ارکان کو خود نامزد کرتا ہے۔ صدرمرسی نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ان کا تقرر کر دیا ہے۔ تقریباً ۷۵فی صد ارکان دیگر پارٹیوں سے لیے گئے ہیں۔ ملک کے اہم قانونی ماہرین، قبطی مسیحیوں اور خواتین کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔ اب فوری طور پر اپوزیشن کے پاس مخالفت کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں۔ اللہ کرے کہ صدارتی الیکشن اور دستوری ریفرنڈم میں اکٹھے رہنے والے سب محب وطن قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یک جا رہ سکیں، لیکن ایسا نہ بھی ہوسکا تو ملک بہرصورت جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ نئے دستور میں دستوری عدالت کے ۱۹ ججوں کی تعداد کم کر کے ۱۱ کردی گئی ہے۔ ۱۱ بھی دنیا کی دستوری عدالتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تعداد کم ہونے سے صدر مرسی اور جمہوریت کے کھلے دشمن تہانی جبالی جیسے افراد سے نجات مل گئی ہے۔ اب تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔