جنوری ۲۰۱۳

فہرست مضامین

امریکا میں دہشت گردی عالمی ضمیر کے لیے چند سوال

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۱۳ | مقالہ خصوصی

Responsive image Responsive image

قرآن پاک نے انسانی جان کی حُرمت کو ایک ابدی اور عالمی اصول کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور اس سلسلے میں انسانوں کے درمیان مکمل مساوات کا بھی حکم دیاہے۔ مذہب، رنگ، نسل، قومیت، قبیلہ، برادری، رشتہ داری غرض کسی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین پر فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

قانون کی حکمرانی کا نفاذ، قانون کے باب میں مکمل مساوات اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا قیام ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر ایک پُرامن، صحت مند اور ترقی پذیر معاشرہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ دولت کی فراوانی، سامانِ عیش و عشرت کی ارزانی اور سیاسی، معاشی اور عسکری قوت کی چمک دمک سب اپنی جگہ، لیکن جمہوریت اور ترقی کا اصل پیمانہ انسانیت کا احترام ہے، مال و متاع کی فراوانی نہیں___ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انسان کو قدم قدم پر اِدراک ہوتا ہے،    لیکن جس طرح صحت سے محرومی کے بعد ہی صحت کی قدرو منزلت کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح معصوم جانوں کے اتلاف اور دلوں کو ہلا دینے والے اندوہ ناک واقعات کے بعد ہی زندگی اور امن کی اہمیت اور قیمت کا احساس ہوتا ہے اور انسان کو سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ظلم، دہشت گردی        اور سفاکیت کے ہاتھوں بہنے والے خون کے ہرقطرے سے جو آواز بلند ہو رہی ہے: بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَتْo(التکویر ۸۱:۹)، یعنی ’’کس قصور میں مجھے ذبح کیا گیا ہے‘‘۔ اس کا جواب بھی سوچ لے۔

امریکا میں دھشت گردی کا سنگین واقعہ

۱۴ دسمبر ۲۰۱۲ء کو امریکا کی ریاست کینیکٹی کٹ کے ایک چھوٹے مگر خوش حال شہر نیوٹائون کے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں ایک ۲۰ سالہ نوجوان ایڈم لانز  کے ہاتھوں ۲۰ کم سن بچوں اور بچیوں (۱۲لڑکیاں اور ۸لڑکے جن کی عمریں ۵ اور ۷سال کے درمیان تھیں) اور ان کے چھے اساتذہ کا بہیمانہ قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس نے امریکا ہی نہیں، پوری دنیا کے انسانوں کو اشک بار کردیا ہے اور سوچنے سمجھنے والے تمام ہی افراد کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا کردیا ہے کہ دنیا کے امیرترین اور خوش حال ترین ملک میں، جو مغربی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی شمار کیا جاتا ہے، ایسا  اندوہ ناک واقعہ کیسے رُونما ہوگیا ؟ایسا کیوں ہے کہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات طاقت اور ترقی کے نشے میں مست انسانوں کی آنکھیں کھولنے کا ذریعہ نہیں بن پارہے؟ ان واقعات کے آئینے میں آج کا انسان معاشرے اور تہذیب کے اصل بگاڑ، بیماری اور فساد کی حقیقی تصویر کیوں نہیں دیکھ رہا ہے؟ اور کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ انسان خود احتسابی کا راستہ اختیار کرے اور ان بنیادی اسباب کو  سمجھنے کی کوشش کرے جو بگاڑ کی اصل جڑ ہیں؟

اقبال نے بہت پہلے اس ضرورت کی طرف مغرب اور مشرق کے سوچنے والوں کو متوجہ اور متنبہ کیا تھا کہ:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کرنہ سکا

سینڈی ہک اسکول کے معصوم بچوں کو وحشیانہ دہشت گردی کا نشانہ بنانے والا نوجوان ایک متمول گھرانے کا فرد تھا جس نے پہلے اپنی ماں کے خودکار ہتھیاروں سے خود اس کو قتل کیا، اور پھر ننھے بچوں کے اس اسکول میں اس طرح گولیوںکی بارش کی کہ ایک ایک بچے کے جسم میں آٹھ سے دس گولیاں پیوست کردیں۔ ۲۶؍افراد کا خون بہاکر اس نے خود اپنے کو بھی مارلیا اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی ایک قیامت صغریٰ برپا کر کے اس خونیں کہانی کے باب کو مکمل کردیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جس بنگلے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا، وہ ڈھائی لاکھ ڈالر کی مالیت کا تھا اور زندگی کی ہرسہولت اس کو حاصل تھی۔ اس کی ماں کو اسلحہ جمع کرنے کا شوق تھا اور اس کے اسلحہ خانے سے اس کا یہ چشم و چراغ ایک خود کار رائفل، دو پستول اور سو سے زیادہ گولیاں لے کر اس خونیں کھیل پر نکلا تھا۔ یہ دہشت گردی بظاہر کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہ تھی۔ امریکی صدر، پالیسی سازوں، دانش وروں اور میڈیا سے لے کر عام افراد ششدر ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ اس نوجوان نے یہ اقدام کیوں کیا؟ بحث کا محور دو نکات بنے ہوئے ہیں: ۱- امریکی معاشرے میں اسلحے کی ریل پیل، اور ۲- مردو زن کا ذہنی انتشار جو کج روی کی طرف لے جائے۔

 امریکی معاشرے میں اسلحے کی فراوانی اس دہشت گردی کا سب سے اہم سبب قرار دیا جارہاہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ کے شوقین افراد کی بااثر تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کا کردار بھی بڑا مرکزی ہے جو ہرشہری کے اسلحہ رکھنے اور اسے آزادانہ لے کر گھومنے کے حق کو آزادیِ راے (دستوری ترمیم نمبر۱) کی طرح ایک بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ یہ یہودی لابی کی طرح کی ایک مضبوط لابی کا کردار ادا کرتی ہے جس کے اثر کو دو ڈھائی سو سال میں بھی کم نہیں کیا جاسکا، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی دو بار ہرشہری کے اسلحہ رکھنے کے اس حق کو تسلیم کیاہے اور اس پر ہرپابندی کا راستہ روکا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ۳۲کروڑ آبادی والے امریکا میں ۳۰ کروڑ کی تعداد میں مہلک ترین اسلحہ عام لوگوں کے پاس موجود ہے، اور تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق آبادی کے ہر۱۰۰؍افراد میں سے ۸۹ کے پاس اسلحہ موجود ہے۔ یوں امریکا دنیا کا سب سے زیادہ مہلک ہتھیاروں سے بھرا پڑا (weaponized) ملک ہے۔ چونکہ ایسے گھرانے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں کئی کئی ہتھیار ہیں، اس لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ عملاً آبادی کے ۴۰ فی صد گھرانے پوری طرح مسلح ہیں اور امریکا کی ۵۰ میں سے ۴۷ ریاستوں میں اسلحہ لے کر کھلے عام پھرنے کی آزادی بھی ہے۔ رائفل، بندوق اور پستول کے استعمال سے سال میں اوسطاً ایک لاکھ افراد زخمی ہوتے ہیں اور نجی دائرے میں استعمال ہونے والے اسلحے کے ذریعے مرنے والوں کی تعداد اوسطاً سالانہ ۱۲ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا نائن الیون میں جتنے افراد ہلاک ہوئے ان سے چار گنا زیادہ ہرسال امریکا میں عام انسانوں کے درمیان اسلحے کے استعمال سے ہلاک ہوتے ہیں۔ اور اگر اس تعداد کا موازنہ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کی ہلاکتوں سے کیا جائے تو ۱۲سال میں مارے جانے والے فوجیوں سے بھی یہ سالانہ اوسط چار گنا زیادہ ہے۔ نیز ترقی یافتہ ممالک میں اسلحے سے ہلاک ہونے والوں کا جو اوسط ہے، امریکا میں یہ شرح اس سے ۱۵گنا زیادہ ہے۔ امریکا کے ایک تحقیقی ادارے Brady Campaign To Prevent Gun Violence کے مطابق اسلحے کے آزادانہ استعمال سے صرف اِکّا دکّا افراد ہی کو لقمۂ اجل نہیں بنایا جاتا بلکہ بیک وقت متعدد افراد کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جسے multiple victim shooting اورmass-killing کہا جاتا ہے اور اس کی بہتات کا بھی یہ عالم ہے کہ ایسے اجتماعی قتل ہر۹ء۵ دن میں ایک بار وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ 

روزنامہ دی گارڈین نے نیوٹائون کے اس سکول میں کھیلی جانے والی خونیں ہولی پر اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکا کے اسلحے کے بارے میں رویے اور اس کے آزادانہ استعمال کے ذکر کو اس ملک کی پہلی خصوصیت قرار دیا ہے اور اجتماعی قتل و غارت گری کی اس روایت کا اس طرح ذکر کیا ہے:

درحقیقت جن تین باتوں میں امریکا واقعی مختلف ہے ان میں سے ایک گولی مارنے کی بڑھتی ہوئی لہر ہے۔ جمعہ کے دن ریاست کینیکٹی کٹ کے شہر نیوٹائون میں بڑے پیمانے پر گولی چلانے کے واقعے میں ۲۷؍افراد ہلاک ہوگئے جن میں ۲۰ کم عمر بچے تھے۔ اس سے کچھ ہی پہلے کولوریڈو کے سینما میں جو گولی چلائی گئی تھی، ۱۲ زندگیاں اس کی نذر ہوگئی تھیں۔ لیکن یہ سال اس طرح کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں جارجیا، اوہائیو، پٹس برگ، اوک لینڈ، اوکلوہاما، سی ایٹل، وسکنسن، مینا پولس اور ٹیکساس میں بڑے پیمانے پر ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ نیوٹائون کے واقعے سے صرف تین دن پہلے ایک نوجوان نے امریکا کے ایک شاپنگ سنٹر میں اندھادھند گولی چلائی جس میں خود کو مارنے سے پہلے دو افراد کو قتل کردیا۔ امریکی تاریخ کے گولی مارنے کے سب سے زیادہ مہلک ۱۲ واقعات میں سے چھے جن میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے، گذشتہ پانچ برسوں میں رُونما ہوئے۔(Americans and Gun: The Shots Heard Round the World  دی گارڈین، ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ء)

آزادیِ راے کی حدود

اس پس منظر میں نیوٹائون کے اسکول میں کی جانے والی ہلاکتوں نے ملک کو ہلا دیا ہے اور اسلحے کی فراہمی (جو اس وقت اسلحے کی دکانوں کے علاوہ اسپورٹس کی دکانوں، حتیٰ کہ سپرمارکیٹوں تک میں بہ آسانی مل جاتا ہے) کو کسی ضابطے میں لانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اسلحے کی لابی کی مزاحمت کے باوجود راے عامہ اور پارلیمنٹ کے مؤثر افراد اب اس سارے کاروبار کو قانون کی گرفت میں لانے کے بارے میں کم از کم سوچ بچار اور بحث و مباحثہ پر آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی اہم اور دُوررس نتائج کی بحث کا آغاز ہوگیا ہے، یعنی اس امر کو متعین کیا جائے کہ اسلحہ رکھنا ایک بنیادی حق ہے یا محض ایک سہولت، استحقاق اور ضرورت۔ نیز اس سلسلے میں اب یہ بنیادی بحث بھی ہورہی ہے کہ دستور کے دیے ہوئے ایک حق پر قانون اور مفادعامہ کی روشنی میں پابندی لگائی جاسکتی ہے یا  نہیں؟ آزادی راے کا حق جو دستور کی پہلی ترمیم کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اس کے بارے میں بھی یہی بحث ہوتی رہی ہے اور اس  بگ ٹٹ آزادی کا سہارا لے کر توہین رسالتؐ اور دین و مذہب کا تمسخر اُڑانے کی جسارت بھی کھلے عام کی جاتی رہی ہے۔ اس کا مسلسل اندھا دفاع کیا گیا ہے حالانکہ کچھ مقدس گائیں (Holy Cows) ہیں جن پر بات کرنا ممنوع بلکہ ’جرم‘ ہے، جیسے یہودیت، اسرائیل، ہالوکاسٹ اور سامیت مخالف  (Anti Semitism)۔لیکن یہی وہ عناصر جو اسلام، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دینی شخصیات کے بارے میں دریدہ دہنی اور تضحیک و تحقیر کو آزادیِ راے کا حصہ قرار دیتے ہیں، اب یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ایک دستوری حق کے استعمال کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے۔نیز ایک انفرادی حق کو اجتماعی مصالح سے مشروط اور محدود کیا جاسکتا ہے، اور کیا جانا چاہیے۔ نیویارک ٹائمز کا اداریہ اس سلسلے میں بڑا دل چسپ ہے:

گولی چلانے کے سابقہ واقعات کی طرح نیوٹائون میں گذشتہ جمعہ کو ۲۰بچوں اور    سات بالغوں کے قتل نے امریکا میں آتشیں اسلحے کے بارے میں قومی دُھن (fixation) کو ایک بار پھر بیدار کردیا ہے۔ اسلحے کی فی کس موجودگی کے لحاظ سے کوئی بھی ملک امریکا سے آگے نہیں ہے۔ ۳۰۰ ملین آتشیں ہتھیار عوام الناس کے پاس موجود ہیں۔ گویا کہ ہربالغ فرد کے لیے ایک ہتھیار دستیاب ہے۔ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین نے ۲۶ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بتایا ہے کہ جہاں زیادہ اسلحہ ہوتا ہے وہیں زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ امریکا کی صورت اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ امریکا میں قتل کی شرح دوسرے خوش حال ممالک کی شرح کے مقابلے میں، جن کے ہاں اسلحے کی نجی ملکیت کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین موجود ہیں، ۱۵گنا زیادہ ہے۔

اداریے میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے کے خونیں واقعات کے موقع پر بھی صدراوباما نے اسلحے کی ملکیت اور انھیں کھلے بندوں لیے پھرنے پر قانونی گرفت بڑھانے کے اعلانات کیے ہیں لیکن عملاً کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اس اداریے میں ایک سابق رکن کانگریس جوے اسکاربرو کی کے قلب ماہیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کڑوی گولی نگلنے کا اعلان کیا ہے:

وہ لوگ جو ہماری طرح یقین رکھتے ہیں کہ دوسری ترمیم امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا مطلق اختیار نہیں دیتی، ان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کا یہ موقف ہمدردی سے ان کی بات سننے والوں کو ان سے دُور کردے گا اور اس نقطۂ نظر کے کسی وقت رائج ہونے کا جلدی امکان نہیں ۔ ہمیں قانون کے پابند اور تحفظ کی ضرورت محسوس کرنے والے اسلحے کے مالکوں کی جائز تشویش کا احترام کرنا چاہیے، تاکہ لچک نہ رکھنے والے نظریاتی لوگوں کے ساتھ کوئی مشترک دائرہ تلاش کیا جاسکے۔ اسکاربرو نے اسلحے پر پابندی کے مخالفوں کے لیے چیلنج بہت اچھی طرح  پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اسلحے کی بحث میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرلیا ہے۔ اب وہ اسے حکومتی کنٹرول کے مقابلے میں فرد کے حقوق کے بجاے اسے عوام کے تحفظ کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک راے شماری نے یہ ظاہر کیا ہے کہ رائفل ایسوسی ایشن کے ممبران خود بھی ایسے اقدامات کے مخالف نہیں ہیں جن سے اسلحہ خریدنے اور بیچنے والے ان افراد کی جو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے ہوں، نگرانی کی جاسکے۔ دستور نے کوئی ایسے مطلق حقوق نہیں دیے ہیں کہ ان کی خاطر عوام کے تحفظ اور بہبود کے متعلق تشویش کو نظرانداز کردیا جائے۔(انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۹دسمبر ۲۰۱۲ء)

توقع ہے کہ جس طرح اسلحے کے حصول اور اس کی کسی نمایش (display) کی آزادی کے بارے میں اجتماعی مصالح اور انسانی معاشرے کی فلاح اور امن و آشتی کی ضمانت کے لیے ایک  بظاہر مطلق حق (absolute right)  کو قانون اور اخلاق کے ضابطہ کار کا پابند کرنے کی بات کی جارہی ہے، اسی طرح آزادیِ راے کے تحفظ کے ساتھ اس آزادی کے غیرذمہ دارانہ استعمال کو بھی کسی ضابطے کا پابند کرنے کا صحت مند راستہ اختیار کرنے پر غورو مباحثے کا آغاز کیا جائے گا۔

نفسیاتی امراض اور تشدد

دوسرا پہلو جس پر کھل کر بات کی جارہی ہے وہ اسلحے کا استعمال کرنے والوں، خاص طور پر وہ افراد جو قتل عام کے مرتکب ہورہے ہیں، ان کی ذہنی کیفیت اور اس کیفیت کو پیدا کرنے والے عوامل کا ادراک ہے جو ایسے مخبوط الحواس (deranged ) رویے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عمومی صحت ِ ذہنی (mental health) کے مسائل اور معاشرے میں صحت کی دیکھ بھال (health care) اور خصوصیت سے نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کی کمی پر توجہ مرکوز کرائی جارہی ہے۔ مائیک راجر نے (جو ایف بی آئی کا ایک سابق افسر اور اب ایوانِ نمایندگان کا رکن ہے) کہا ہے کہ اس وقت ہماری اصل ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ان لوگوں تک اسلحے کی رسائی کو روکیں جو ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ایک اور مشہور کالم نگار ٹموتھی اسٹینلے نے امریکا میں ( جسے آزادی اور دولت کی جنت کہا جاتا ہے) ذہنی امراض کی کثرت اور اس کے مناسب علاج کے باب میں کوتاہی کو حالات کی خرابی کا سبب قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں:

ذہنی صحت کے اداروں کے لیے کم وسائل کی فراہمی ہی ذہنی امراض کی خطرناک کثرت کا سبب ہے، خواہ وسائل کی فراہمی میں یہ غفلت غیرارادی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی طرف ضرور توجہ کرنا چاہیے ۔(دی گارڈین، ۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء، After the Newtown Shooting It is Time to Talk about Mental Health and Crime)

اس سلسلے میں کانگرس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ:

براہِ مہربانی صحت کے بہتر قوانین ترتیب دیجیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹک ٹک کرتے کسی بھی وقت پھٹ جانے والے بم کو غیرمؤثر کیا جاسکے اس سے قبل کہ بہت تاخیر ہوجائے۔ ایک خاندان کے لیے اس بات کو زیادہ آسان بنادیا جائے کہ    ممکنہ خطرے کے حامل افراد کا لازمی علاج کروایا جاسکے۔

واضح رہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد صحت کی سہولت سے محروم ہے اور صدراوباما کے سارے وعدوں اور دعوئوں کے باوجود اس سمت میں پیش رفت بے حد سُست ہے، بلکہ امریکا کے ایک بڑے علاقے میں اس کی مزاحمت ہورہی ہے۔

مغربی معاشرے کی اصل خرابی

جہاں تک امریکی آبادی اور خصوصیت سے نوجوانوں میں پائے جانے والے نفسیاتی امراض، جذباتی ہیجان اور تشدد کے رجحان کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے اور ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیوٹائون اسکول کے واقعے کے بعد اس مسئلے کی طرف توجہ وقت کی ایک ضرورت ہے لیکن مسئلہ صرف افراد کی ایک بڑی تعداد کی نفسیاتی الجھنوں کا نہیں، اس سے کہیں زیادہ بنیادی ہے اور اس کا تعلق مادیت پرستی اور یک رُخی انفرادیت پر مبنی معاشرے سے ہے جو ذہنی امراض اور معاشرتی انتشار کا اصل سبب ہے۔ جس معاشرے اور تہذیب میں اخلاق اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تعلق کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منقطع کردیا گیا ہو، جہاں خاندان کا نظام درہم برہم ہو، جہاں تعلیم کو تربیت اور سیرت سازی سے بے تعلق کردیا گیا ہو، جہاں نفس کی پرستش زندگی کا محور ہو، جہاں خیروشر کے ابدی پیمانے توڑ دیے گئے ہوں اور لذت اور ذاتی مفاد ساری تگ و دو کا محور ہوں وہاں انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں بگاڑ اور معاشرے میں فساد کا رُونما ہونا ایک فطری امر ہے۔ معاملہ محض طبی سہولتوں کی فراہمی اور نفسیاتی علاج کی فکر کرنے کا نہیں (یہ تو ہونا ہی چاہیے)، اصل مسئلہ فرد کے تصورِ حیات اور معاشرے کی اجتماعی اخلاقیات کا ہے جہاں تعلیم، کھیل، میڈیا، فلم، تفریح، ہر میدان میں لذت پرستی اور نفسانفسی عام ہو، اور ہرچیز کو روندتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کے لیے جدوجہد انسان کی معراج قرار پائے، وہاں انسانیت کی پامالی اور معاشرے میں تصادم اور تشدد کی فراوانی سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔

اقبال کو اس تہذیبی فساد کا پورا احساس تھا اور اس نے بہت پہلے تمام انسانوں کومتنبہ کردیا تھا کہ مادی تہذیب کا فطری ثمرہ کیا ہوگا:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات

ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

بے کاری و عریانی ومے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

نیوٹائون سکول کا واقعہ محض ایک منفرد واقعہ نہیں، امریکی اور مغربی معاشرے اور تہذیب کی اصل کیفیت کی عکاسی کرنے والا ایک آئینہ ہے۔ اہلِ نظر کا ایک گروہ پورے دُکھ اور کرب کے ساتھ نہ صرف اس واقعے پر آنسو بہارہا ہے بلکہ اصل خرابی اور بگاڑ کی جڑ کی طرف بھی متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی یہ آواز بظاہر صدا بہ صحرا ہی معلوم ہوتی ہے لیکن کم از کم یہ آوازیں اُٹھنا تو شروع ہوگئی ہیں۔

یونی ورسٹی کالج کا استاد مائیک کنگ بڑے دردبھرے انداز میں لکھتا ہے کہ:

امریکی کلچر ایک پُرتشدد کلچر ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک پُرتشدد کلچر چلا آرہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ’کیوں‘ کے جواب میں جزوی وضاحتوں کا ایک مجموعہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مَیں اسلحے پر کنٹرول اور ذہنی صحت پر آیندہ سطور میں بات کروں گا، لیکن یہ لوگ تشدد کے کلچر میں جس طرح ہمہ تن ڈوبے ہوئے ہیں، اس پر سنجیدہ بحث سے ہمیشہ پہلوتہی کی جاتی ہے۔ ایک بیمار معاشرہ بیمار افراد پیداکرتا ہے۔ جس معاشرے میں تشدد کی بہت سی قسموں کو بہادری کا نمونہ بناکر پیش کیا جاتا ہو، اس میں تشدد کے ایسے بہت سے مظاہرے سامنے آئیں گے، جو تشدد کی تعریف میں نہیں آتے۔ اس سے قاتل کے افعال کی توجیہہ نہیں ہوتی، نہ اس کے ارادے کے لیے عقلی بنیاد تلاش کی جاتی ہے، لیکن ان عناصر کا ایک دیانت دارانہ جائزہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے رویے پیدا ہوکر رہتے ہیں اور انھیں قانون سازی یا محض مسلسل ’علاج‘ کے ذریعے دبایا نہیں جاسکتا… اگر ہم یہ کر رہے ہوں، اور اس کے باوجود اس طرح کے سانحات برابر ہوتے رہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتے تھے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک ایسے مسئلے کو حل کرنا مشکل ہے جس کے اسباب تک بیش تر لوگ نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن مزید قانون سازی، نگرانی، علاج معالجہ اور مجرم قرار دینے سے نامناسب ضمنی اثرات پیدا ہوتے ہیں اور مسئلے کی صحیح تشخیص بھی نہیں ہوتی، اور نہ صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے ہی جو کچھ ضروری ہے اس کے لیے سنجیدگی سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔

جس طرح کسی مرض کے لیے کھائی جانے والی دوائوں کے ضمنی اثرات کو دُور کرنے کے لیے دوسری دوائیں دی جاتی ہیں، اسی طرح اسلحے پر کنٹرول اور علاج کے مطالبے علامات میں چھپی بیماری کی تشخیص میں ناکام ہیں۔ ہمارا ایک صحت مند حقیقی معنوں میں مستحکم اور منصفانہ معاشرے کا تصور کرنا اور اس کے لیے لڑنے کی اہلیت نہ رکھنا، اور ہمارا (knee jerk) جیسے ردعمل کی طرح حکومت سے مسئلہ حل کرنے کی توقع رکھنا، جیسے کہ کوئی سادہ حل موجود ہو، جیسے حکومت بجاے استحصال کرنے کے اس کو حل کرنا چاہے، جیسے کہ وہ اتنی صلاحیت رکھتی ہو کہ اسے حل کرے اور وہ اس کا حل رکھتی بھی ہو، (ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ) اس وقت تک قتل و غارت جاری رہے گی، جب تک کہ ہم اپنے نیک ارادوں کے ذریعے ریاست کی حمایت کردہ قتل و غارت برپا کرتے رہیں گے۔ (Misdiagnosing the Culture of Violence،کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء)

ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ محض اسلحے کے حصول اور اس کی نمایش کی آزادی کی تحدید اور ذہنی امراض کے علاج معالجے تک محدود نہیں۔ بگاڑ کے اسباب گہرے ہیں جن کا تعلق اصلاً عقیدہ، تصورِحیات، محرکاتِ عمل اور کامیاب اور ناکام زندگی کے تصورات سے متعلق ہے اور اصلاحِ احوال کے لیے جو بھی حکمت عملی وضع کی جائے، وہ اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب اس میں ان تمام پہلوئوں کا خاطرخواہ لحاظ کیا گیا ہو۔ اصلاحِ احوال اسی وقت ممکن ہے جب اصل اسباب کا ادراک ہو اور ان اسباب کو دُور کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ انداز میں ایک ہمہ گیر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

پھر مسئلہ محض امریکا میں داخلی طور پر جان، مال اور آبرو کی بے توقیری تک محدود نہیں، عالمی سطح پر احترامِ انسانیت اور عدل و انصاف کے باب میں امریکا اور مغربی اقوام، جو آج کی کارفرما قوتیں ہیں، ان کا کردار بھی ہے۔جو مثال وہ خود دنیا کے سامنے قائم کر رہی ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں خود اُن کی سرزمین پر ان کے حکمران قوتوں کے اپنے ہی سپوت اگر قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، تو اس عالمی کردار کی موجودگی میں امریکا میں محض جھنڈے پست کرنے اور سوگ منانے سے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اور پھر معاملہ محض امریکا اور مغربی اقوام کا نہیں، دنیا کے بیش تر ممالک میں ان کی اپنی حکومتوں اور برسرِاقتدار قوتوں کے رویے کا بھی ہے۔ اگرچہ خود پاکستان کی سرزمین پر روز و شب خون خرابا ہو رہا ہے اور جس طرح سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی اس سے غیرمتعلق نہیں، بلکہ اس عالمی منظرنامے کا ایک حصہ ہے۔ ہرمعصوم انسان کا خون پوری انسانیت کا خون ہے اور ہربچے اور بوڑھے اور مردوزن پر جو گزر رہی ہے وہ ہم سب کا مشترک المیہ ہے۔ ہم پاکستان میں نیوٹائون کے معصوم بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت پر خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن خود ہمارے ملک کے گوشے گوشے میں خصوصیت سے پشاور، شمالی علاقہ جات، کوئٹہ، بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صرفِ نظر کیسے کرسکتے ہیں اور اس کا جو تعلق امریکا کی عالمی دہشت کے نام پر جنگ سے ہے ، اس کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ سب کچھ عالمی دہشت گردی کے ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ اس وقت جب ہم نیوٹائون سکول کے ۲۰بچوں کا نوحہ کر رہے ہیں، کیا ہم ان ۳۵بچوں کو بھول سکتے ہیں جو اسی سال نومبر میں صرف چند دن پہلے اسرائیل کی بم باری سے موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟ کیا ہم ان ۱۶۸ بچوں کو بھول سکتے ہیں جن کی امریکا کے ڈرون حملوں سے پاکستان میں ہلاکت کا اعتراف امریکی جامعات کررہی ہیں؟ گو ہماری اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والے معصوم بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اور کیا ان ۲۳۱ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو خود افغانستان میں اسی سال صرف چھے ماہ میں شہید کیے گئے ہیں؟ اور کیا ان ۹۲۱ بچوں کی ہلاکت کو بھی بھلایا جاسکتا ہے جو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکا کے حیوانی حملوں سے عراق میں شہید کیے گئے۔ یہ سب تو صرف اس سال کی خونیں داستان ہے۔ کینوس کو ذرا وسیع کیا جائے تو کیا ان ۶لاکھ بچوں کو بھلایا جاسکتا ہے جو عراق میں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ۱۹۹۰ء کے بعد سے اب تک جان کی بازی ہارگئے ہیں اور جن کی موت کو امریکا کی ایک سابق سیکرٹری خارجہ میڈلین آل برائٹ نے جنگ کی ناگزیر قیمت (inevitable cost of war) قرار دے کر چٹکیوں میں اڑا دیا تھا۔۱؎

امریکا کی دھشت گردی اور مغرب کے باضمیر دانش ور

عالمی میڈیا اور دانش وروں کے ایک گروہ نے جس طرح امریکی اسکول کے بچوں کا سوگ منانے کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کی حکمت عملی کو محض عسکری حکمت عملی تک محدود

نہ رکھنے اور ایک ہمہ جہتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے، اگر وہ صرف امریکا کے لیے درست ہے، تو کیا باقی تمام دنیا کے بارے میں اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیا تمام دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے اور خاص طور سے ان ممالک کو دہشت گردی کی آگ سے نکالنے کے لیے بھی ایک ہمہ جہتی اور حقیقت پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت نہیں جن کو خود امریکا کی مسلط کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کی وجہ سے ان انسان کش اور تباہ کن حالات میں دھکیل دیا گیا ہے۔ کیا شرفِ انسانیت صرف امریکی بچوں کے لیے خاص ہے اور پاکستانی، کشمیری، فلسطینی، یمنی،


۱-            ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہم نے یہاں مثال کے لیے صرف وہ اعداد و شمار دیے ہیں جو مغرب کے معتبر اداروں نے دیے ہیں۔ ملاحظہ ہو: بل کیونگلے(پروفیسر آف لا، لائے لوٹا یونی ورسٹی، نیو آرینز، یو ایس اے)، Remeber All the Childrens,             Mr. President  ،  کاؤنٹر پنچ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۲ء)

افغانی بچے اس شرف سے محروم ہیں اور وہ صرف استعماری قوتوں کے لیے خس و خاشاک کی مانند ہیں اور ان کے استعماری کھیل کے لیے صرف توپ کے چارے (canon-fodder) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب ہم نیوٹائون کے معصوم بچوں کا نوحہ کررہے ہیں تو دوسرے بچوں کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ اور اگر ہمارے ممالک کی قیادتیں خود اپنے بچوں کی ہلاکت پر بے چین نہیں ہوتیں اور ان پھول سی ہستیوں کو بچانے کے لیے ہاتھ پائوں نہیں مارتیں تو کیا ان کو اس قوم کا وفادار سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے جس پر سب سے پہلے پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اور خاص طور سے اس کی قیادتوں کو غور کرنا چاہیے اور اس باب میں عوام کو اپنی اپنی قیادت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ دیکھیے، خود عالمی برادری کی کچھ حساس روحیں اس تضاد کو کس طرح محسوس کررہی ہیں اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کاش یہ آواز مغرب سے پہلے خود مشرق سے اُٹھتی اور عالمِ اسلام، عرب دنیا اور پاکستان کی قوم، پارلیمنٹ اور قیادتیں اس آواز کو اُٹھاتیں اور اپنے عوام کے حقوق  کے لیے عملی اقدام کرتیں۔ ہم صرف چند اہلِ دل کے کرب کی کچھ جھلکیاں اپنی قوم اور اس کی قیادت کو شرم دلانے کے لیے پیش کرتے ہیں:

برطانیہ کے مشہور دانش ور اور دی گارڈین کے مضمون نگار جارج مون بیوٹ بڑے دردبھرے انداز میں اپنے مضمون میں امریکا اور مغربی اقوام کے دوغلے پن اور تضادات کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ مضمون کا عنوان ہی مغرب کی تہذیبی اور سیاسی قیادت پر ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے: In the US, Mass Child Killings are Tragedies, In Pakistan, Mere Bug Splats. (امریکا میں بچوں کے قتل عام ایسے ہیں، پاکستان میں محض مچھر مکھی مارنا)۔

وہ صدر اوباما کے ان الفاظ کو اپنے مضمون کا مرکزی خیال بناتا ہے جو موصوف نے نیوٹائون سکول کے بچوں کے سفاکانہ قتل پر چشم پُرنم کے ساتھ ادا کیے تھے، یعنی:

محض الفاظ تمھارے غم کا کوئی مداوا نہیں، نہ وہ تمھارے دلوں کے زخم بھر سکتے ہیں… ایسے المیے ختم ہونے چاہییں، اور انھیں ختم کرنے کے لیے ہمیں لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔

پھر وہ یہ چبھتا ہوا سوال اُٹھاتا ہے کہ:

اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا میں ایک پاگل نوجوان کے بچوں کو قتل کرنے پر جس چیز کا اطلاق ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق پاکستان میں ان بچوں کے قتل پر بھی ہوتا ہے، جو ایک اداس امریکن صدر کر رہا ہے۔ یہ بچے اتنے ہی اہم، اتنے ہی حقیقی، اور دنیا کی توجہ کا اتنا ہی استحقاق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے نہ صدارتی تقاریر ہیں، نہ صدارتی آنسو، نہ عالمی اخباروں کے صفحۂ اوّل پر ان کی تصاویر، نہ ان کے غم زدہ رشتے داروں کے انٹرویو ، نہ اس کا باریک بینی سے تجزیہ ہے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟

اگر اوباما کے ڈرون حملوں سے مرنے والوں کا ریاست کی طرف سے ذکر کیا جاتا ہے تو اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ جیسے انسانوں سے کم درجے کی چیز ہوں۔ وہ لوگ جو ڈرون کے پورے عمل کو چلاتے ہیں، رولنگ سٹون میگزین کی رپورٹ کے مطابق     اِن ہلاک شدگان کا تذکرہ یوں کرتے ہیں گویا محض مچھر مکھی مارنا ہو۔ اس لیے کہ ایک سبزدھندلے ویڈیو پر ان کے جسم کا عکس یہ تاثر دیتا ہے کہ کیڑا کچلا گیا ہے، یا ان کی اتنی وقعت ہے کہ جیسے بس ایک خس و خاشاک ہوں۔ ڈرون جنگ کا دفاع کرتے ہوئے اوباما کے دہشت گردی کے مشیر بروس رڈل نے کہا: آپ کو لان کو ہروقت کاٹنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی آپ کاٹنا بند کرتے ہیں تو گھاس کا دوبارہ اُگ آنا یقینی ہے۔

عراق میں جارج بش کی حکومت کی طرح اوباما انتظامیہ بھی شمال مغربی پاکستان میں  سی آئی اے کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں کو نہ تسلیم کرتی ہے، نہ اس کا ریکارڈ رکھتی ہے، لیکن اسٹین فورڈ اور نیویارک یونی ورسٹیوں کے قانون کے اسکولوں کی رپورٹ کے مطابق : اوباما کے پہلے تین برسوں میں ۲۵۹ حملے ہوئے جس کے لیے وہ ذمہ دار ہیں۔ اس میں ۲۹۷ اور ۵۶۹ کے درمیان شہری ہلاک ہوئے جن میں کم سے کم ۶۴بچے تھے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو قابلِ اعتماد رپورٹوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جن کا مکمل ثبوت نہیں رکھا گیا ہے۔

علاقے کے بچوں پر اس کے دور رس اثرات تباہ کن ہیں۔ بہت سے بچے اسکولوں سے  اُٹھا لیے گئے ہیں،اس خوف سے کہ کسی بھی قسم کے بڑے مجمعوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جب سے بش نے ڈرون حملوں کا آغاز کیا تھا اسکولوں پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ لیکن اوباما نے اس عمل کو بہت جوش و خروش سے پھیلا دیا ہے۔ بش کی ایک فاش غلطی سے ۶۹بچے مارے گئے۔ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جب بچے ڈرون کی آواز سنتے ہیں تو وہ دہشت سے چھپنے لگتے ہیں۔ ایک مقامی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ان کا خوف اور جو ہولناک مناظر وہ دیکھتے ہیں اس سے ان کے دماغ کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ ہیں کہ سکول نہیں جاسکتے، اور انھوں نے اپنے مستقبل کی ساری اُمیدوں کو ختم کردیا ہے۔ ان کے جسم ہی نہیں  ان کے خواب بھی بکھر گئے ہیں۔

کہنے کو اوباما بچوں کو جان بوجھ کر قتل نہیں کرتا لیکن اُس کے حکم پر جس طرح سے   ڈرون حملے کیے جاتے ہیں، ان کی ہلاکت اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ  ان اموات کے اس پر کیا جذباتی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے کہ نہ وہ، نہ اس کے افسر اس کو زیربحث لاتے ہیں۔ پاکستان میں سی آئی اے کے ذریعے ماوراے عدالت قتل سے متعلق تقریباً ہرچیز خفیہ رکھی جاتی ہے، لیکن آپ کو تاثر یہ ملتا ہے کہ جیسے انتظامیہ کے کسی فرد کی نیند تک خراب نہیں ہوئی۔

افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ان پاکستانی بچوں کے غم میں اور اس خونِ ناحق کی فراوانی پر امریکی قیادت اور ڈرون برسانے والوں کی نیندیں تو اُچاٹ نہ ہوئیں، لیکن کیا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی کسی کرب میں مبتلا ہوئی اور کیا ان معصوم بچوں کی اس دردناک پکار بِاَیِّ ذَنْبٍ م  قُتِلَتْ کی کوئی کسک اپنے مجرم ضمیر میں محسوس کی؟

جارج مون بیوٹ اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتا ہے جو ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتے ہیں:

عالمی میڈیا کا بیش تر حصہ جس نے نیوٹائون کے بچوں کو بجاطور پر یاد رکھا ہے لیکن اوباما نے جو قتل کیے ہیں ان کو نظرانداز کرتا ہے یا سرکاری بیان کو درست تسلیم کرتا ہے کہ جو مارے گئے وہ سب ’جنگ جُو‘ تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمال مغربی پاکستان کے بچے ہمارے بچوں کی طرح نہیں ہیں۔ ان کا کوئی نام نہیں ہے، نہ ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں، نہ پھول ہیں اور نہ ٹیڈی بیئر کی یادگاریں۔ جیسے کہ وہ کسی غیرانسانی دنیا کے کیڑے مکوڑے اور گھاس پھوس کی طرح ہوں۔ اوباما نے اتوار کو کہا: کیا ہم یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے بچوں کو سال بہ سال جس تشدد کا سامنا ہے وہ کسی نہ کسی طرح ہماری آزادی کی قیمت ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے۔ اسے اس کا اطلاق     اس تشدد پر بھی کرنا چاہیے جو پاکستان کے بچوں پر وہ کررہا ہے۔

دی گارڈین کے ایک اور کالم نگار گلین گرین ورلڈ نے اپنے مضمون New Town Kids vs Yemenis and Pakistanis: What Explains the Disparate Reaction? میں اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا ہے:

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہی لوگ جو نیوٹائون میں ہلاک ہونے والے بچوں پر صدمے اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، وہ اسی تشدد سے یمنی اور پاکستانی بچوں کو ہلاک کیے جانے کی کھلی حمایت تو نہیں کرتے لیکن مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی دیکھیے: پیر کے دن تین سال قبل صدر اوباما کے جنوبی یمن کے المجالہ قصبے پر کروز میزائل اور کلسٹر بم حملے سے ۱۴ خواتین اور ۲۱ بچے ہلاک ہوئے، یعنی اس روز نیوٹائون میں دیوانے نے جتنے بچے مارے اس سے ایک زیادہ۔ امریکا میں اس قتلِ عام کو اس توجہ کا ذرا سا حصہ بھی نہیں ملا جو نیوٹائون کے واقعے کو ملا، اور نہ اس پر کوئی اعتراض، احتجاج یا واویلا ہوا (بس چند بڑے مسلم ممالک میں کچھ غصہ اور توجہ اس کے حصے میں آئی)۔

اس سوال کا جواب ملنا چاہیے کہ بچوں اور دوسرے معصوموں کے قتل پرردِعمل میں اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ امریکا کا میڈیا نیوٹائون میں قتل ہونے والے بچوں کی تفصیلات گہرائی میں جاکر آخری جزئیات سمیت مسلسل فراہم کرتا ہے لیکن جو بچے امریکا کی اپنی حکومت دوسرے علاقوں میں قتل کر رہی ہے اس سے وہ یکسر بے نیاز ہے۔

گلین گرین ورلڈ جرمن رسالے Der Spiegel میں امریکی ڈرون پائلٹ بران ڈون برائینٹ کا ایک مکالمہ نقل کرتا ہے جسے پڑھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے لیکن اس سے سامراجی فوج کے خون آشام سورمائوں کا ذہن سامنے آتا ہے۔ بران نے ڈرون سے میزائل داغا اور آگ کا  ایک شعلہ بلند ہوا، بلڈنگ زمین بوس ہوئی اور ایک ننھا بچہ جس کی ایک جھلک دکھائی دی تھی، موت کی آغوش میں جاپہنچا۔ اس نے پاس بیٹھے ہوئے اپنے ساتھی سے پوچھا: ’’کیا ہم نے ایک بچے کو ہلاک کردیا ہے؟‘‘ ساتھی نے جواب دیا: ’’ہاں میرا خیال ہے کہ مرنے والا ایک بچہ تھا‘‘۔ ڈرون سے میزائل چلانے والے ابھی اس فکر میں غلطاں و پیچاں تھے کہ امریکا کی ملٹری کمانڈ سنٹر کے ایک افسر نے مداخلت کی اور کہا:No, That was a dog  (نہیں، وہ ایک کتا تھا)۔ جس پر ویڈیو پر اس منظر کو دیکھنے والے ایک اور سورما نے گرہ لگائی کہ A dog on two legs (دو ٹانگوں والا کتا)۔

گلین گرین والڈ اس ذہنیت اور اس کے نتیجے میں رُونما ہونے والی تباہی اور امریکا بے زاری کے طوفان کو دو اور دو چار کی طرح مغربی اقوام کی قیادت کے سامنے رکھنے کی جسارت کرتا ہے:

مسلمانوں کے بچوں کو محض کتا سمجھنا امریکا کی جارحیت اور گذشتہ عشرے میں فوجی اقدامات میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں انسانیت کی تذلیل کا اظہار ہے۔ ایک فوجی سلطنت کے شہری اپنے فوجیوں کی ذہنیت کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اوباما کا دفاع کرنے والے ترقی پسندوں کو سنیے جب وہ تمغے سجائے،سگار پیتے فوجیوں کی طرح کہتے ہیں کہ جنگ دوزخ ہے اور ضمنی نقصان (collateral damage)کا جواز پیش کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دشمن اور ان کو انسان نہ سمجھنے کی مہم ہے جو اپنا زہریلا سر نکال رہی ہے۔ ایک دوسرا مسئلہ بھی ردعمل کے مختلف ہونے سے سامنے آیا ہے: کس کے ذریعے ہورہا ہے، اور کون قصوروار ہے؟ نیوٹائون میں گولی مارنے کے واقعے پر غم و غصے کا اظہار آسان ہے اس لیے کہ ہم میں سے بہت کم پر اس کی ذمہ داری آتی ہے۔ گو کہ ہم ایسے اقدامات کرسکتے ہیں کہ اس کے اثرات کم ہوں اور آیندہ ایسے واقعات کا امکان کم ہوجائے۔ لیکن ہم بہت کم ایسا کرسکے کہ نفسیاتی مریضوں کو روک سکیں۔ غم و غصہ آسان ہے، اس لیے کہ ہمیں اپنے آپ کو یہ بتانا آسان ہے کہ گولی مارنے والے کا ہم سے اور ہمارے افعال سے کوئی تعلق نہیں۔                             (بقیہ ص ۱۰۵)

(بقیہ مقالہ خصوصی ، ص ۲۹)

اس کے برعکس مسلم دنیا میں بچوں اور بے گناہ لوگوں کو مسلسل قتل کرنے والا تشدد درست ہے۔ ہم میں سے بہت سے اس شخص کے لیے جو اس کا ذمہ دار ہے، طاقت فراہم کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں۔ امریکی شہری اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں، اس کو ممکن بناتے ہیں، اور اب اوباما کے تحت اگر ہم اس کی حمایت تو نہیں کرتے لیکن اس پر خاموش رہتے ہیں۔ ہمیشہ یہ زیادہ ہی مشکل ہوتا ہے کہ جن ہلاکتوں کے وقوع پذیر ہونے میں ہمارا حصہ ہے، ہم ان کو تسلیم کریں، بہ نسبت اس پر احتجاج کرنے کے، جب کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔یہ بھی ردعمل میں اختلاف کی وضاحت میں ایک اہم عنصر ہے ۔

یہ اس ذہنیت کا تقاضا ہے کہ مدمقابل کو شرفِ انسانیت سے محروم (dehumanization) کردیا جائے اور پھر اسے نرم نوالہ بناکر نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جائے اور اسے انسانیت کی خدمت قرار دیا جائے۔ امریکا میں جو بھی دہشت گردی ہو، اس میں ساری ذمہ داری دہشت گردوں پر ہے، اور امریکا دنیا بھر میں جو بھی دہشت گردی کرے، اس میں ساری ذمہ داری ان پر ہے جو  اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ ہے وہ مہذب کھیل جو نیوٹائون کے معصوم بچوں کی ہلاکت کے دل خراش واقعے کے بعد پوری انسانیت کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کر رہا ہے۔

گلین ورلڈ اس جنگی حکمت عملی کو یوں بیان کرتا ہے:

ہرجنگ، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ تقاضا کرتی ہے کہ تشدد کے اہداف کے انسان نہ ہونے کی مہم مسلسل چلائی جائے۔ بہت کم آبادیاں ایسی مسلسل ہلاکتوں  کی روادار ہوں گی، اگر انھیں، جو لوگ ہلاک ہورہے ہیں، ان کے انسان ہونے کے احساس کا سامنا ہو۔ مقتولوں کے انسان ہونے کو چھپانا چاہیے اور اس کی تردید کرنا چاہیے۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے ان کی حکومت کو زندگی کے چراغ مسلسل بجھانے کا جواز دیا جاسکے یا نظرانداز کیا جاسکے۔ یہ وہ کلیدی نکتہ ہے جس کا اظہار MSNBC کی رپورٹر ایشلے بن فیلڈ نے ۲۰۰۳ء میں عراق سے واپسی پر اپنی تنزلی اور برخاستگی سے پہلے غیرمعمولی جرأت مندانہ تقریر میں کیا کہ امریکا کا میڈیا امریکا کے تشدد کی رپورٹنگ اس طرح کرتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کی شناخت اور ان کے انجام کو چھپاتا ہے۔

تشدد اور حقوق کے کم کرنے کا اطلاق بش اور اوباما دونوں کی انتظامیہ نے خاص طور پر صرف مسلمانوں پر کیا ہے۔ لہٰذا یہ مسلمان ہیں جن کی ایک منصوبے کے تحت انسانیت کے لحاظ سے تذلیل کی گئی۔ امریکا کے عوام عملاً ہرگز نہیں سنتے کہ ان کی حکومت کے تشدد سے مسلمان ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کو کبھی اس طرح بیان نہیں کیا جاتا۔ نیویارک ٹائمز اپنے صفحہ اوّل پر کبھی بھی ان کی عمریں اور نام مؤثر طور پر نمایاں کر کے نہیں دکھاتا۔ ان کے جنازے کبھی نہیں دکھائے جاتے۔ اوباما کبھی آنسوئوں بھری تقاریر نہیں کرتا کہ کس طرح مسلمانوں کے بچوں کی آیندہ پوری زندگی باقی تھی: ان کی تعلیم، روزگار، شادیاں اور ان کے بچے۔ شرفِ انسانیت سے محروم کرنے سے (dehumanistion) ان کا انسان ہونا نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے،اسی لیے ہمیں اس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔(دی گارڈین، ۱۹ دسمبر ۲۰۱۲ء)

نیوٹائون اسکول کے بچوں کی ہلاکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ اندوہناک واقعہ دہشت گردوں کے تمام واقعات کی حقیقت کو سمجھنے اور دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے مطلوبہ حکمت عملی اختیار کرنے کے باب میں سب کے لیے چشم کشا ثابت ہونا چاہیے، اور جس طرح امریکا میں دہشت گردی کو قابو میں کرکے اور تشدد کے طرزِ زندگی سے نجات پانے کے لیے نئی  حکمت عملی کے خطوطِ کار سوچے جارہے ہیں، اسی طرح ساری دنیا کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین ضروری ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے ہمارا مسئلہ دوگونہ ہے___ ایک طرف امریکا اور مغربی اقوام کی یورش اور ان کے اپنے سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے مطابق ہمارے وسائل پر قبضے ہیں ۔ امن، انصاف اور خودمختاری سے محروم رکھنے کی سیاسی، معاشی اور عسکری لشکرکشی ہے تو دوسری طرف اپنوں کی غفلت یا دشمن سے معاونت۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت جب ہماری مظلومی پر کچھ غیر بھی آنسو بہارہے ہیں، ہمارے اپنے ملکوں کی قیادتیں خوابِ خرگوش میں مگن ہیں یا دوسروں کی آلۂ کار بن رہی ہیں۔ 

ٹوم میک نامرا نے جو فرانس کے ESC Renus School of Business میں پروفیسر ہے اور فرانس کی نیشنل ملٹری اکیڈمی میں بھی پڑھا رہا ہے، کاؤنٹرپنچ میں اپنے ایک مضمون میں اس استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ جب دنیا میں یہ کچھ ہورہا ہے اور امریکا اپنے بچوں کی ہلاکت پر چلّا رہا ہے، عالمِ عرب کیوں سو رہا ہے؟ اس کے مضمون کا عنوان ہی بول رہا ہے: کیا عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں؟

عراق، فلسطین اور یمن کے حالات پر نگاہ ڈال کر وہ ان الفاظ میں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ہماری غیرت کو بیدار کرنے کی جسارت کرتا ہے:

نیوٹائون پر جو تکلیف اور اذیت گزری اسے عرب دنیا کے لیے ہزارگنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ امریکی پالیسی اور اقدامات کی وجہ سے لاکھوں نہیں تو ہزاروں معصوم بچے ہلاک ہوئے (یعنی قتل کیے گئے)۔ ان بچوں کی اموات کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف (شدید ترین نوعیت کے) جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا ہمیں صدمہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اس پر غصہ آنا چاہیے جو ہمیں مجبور کرے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کریں، لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں پہلے یہ یقین ہو، کہ عرب بھی اپنے بچوں کے لیے روتے ہیں۔(Do Arabs Cry for Their Children Too? by Tom Mcnamara, Renus, France، کاؤنٹرپنچ، ۱۸دسمبر۲۰۱۲ء)

سوال صرف عربوں کا نہیں ہمارا اپنا بھی ہے۔ کیا پاکستانی قیادت، پارلیمنٹ اور قوم اپنی    ذمہ داری ادا کر رہے ہیں؟ اور کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی، ظلم اور ناانصافی ہو، اس پر آواز اُٹھائی جائے۔ لیکن سب سے پہلے ہمارے گھر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا جائے۔ اگر ہماری قیادتیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہیں تو ایسی قیادتوں سے جلد از جلد نجات حاصل کی جائے، اور اپنی آزادی، عزت، اپنے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی زندگی اور آبرو کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجایا جائے۔ کیا تاریخ کی اس صدا پر ہم لبیک کہنے کو تیار ہیں کہ ___  اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ ؟