سلطنت ِ روما کی داستانِ زوال میں ہرقوم کے لیے عبرت کا وافر سامان موجود ہے۔ ایک طرف عوام ناقابلِ برداشت مصائب و آلام میں گرفتار تھے اور دوسری طرف حکمران غفلت، بے وفائی، مفاد پرستی، ذاتی عیش و عشرت اور نام و نمود میں ایسے منہمک تھے، جیسے ملک و قوم کے اصل مسائل، مصائب اور مشکلات سے ان کو کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس المیے کو ایک ضرب المثل میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔
قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو صرف ۶۵سال کے عرصے میں خودغرض اور ناکام قیادتوں کے طفیل آج ایسی ہی کرب ناک صورت حال سے سابقہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت تو پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے۔ لیکن اس کو سہارا دینے اور بیساکھیاں فراہم کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی محاذ اور مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی کچھ کم مجرمانہ نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بڑی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود محض ’جمہوریت کے تسلسل‘ کے نام پر حقیقی اور جان دار حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرسکی اور عوام کے حقوق کے دفاع، دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی۔ پھر ایسی دینی قوتیں بھی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دی جاسکتیں جو کبھی اندر اور کبھی باہر، اور جب مرکز سے باہر ہوں تب بھی صوبے میں شریکِ کار اور جہاں ممکن ہوسکے وہاں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان۔
یہ منظر نامہ بڑا دل خراش اور عوام کو سیاسی قیادت سے مایوس کرنے والا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب مایوسی اور بے عملی، جو دراصل تباہی اور موت کا راستہ ہے، کے بادلوں کو چھانٹ کر تبدیلی، نئی زندگی اور مقصد کے حصول کے لیے نئی پُرعزم جدوجہد وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ مایوسی اور بے عملی تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں اور بیداری اور جدوجہد نئی صبح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک ایسے ہی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو بڑا تاریخی موقع ملا تھا۔ فوج کی قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات اور فوجی مداخلت کے بار بار کے تجربات کی ناکامی کی روشنی میں بڑی حد تک اپنی دل چسپیوں کو اپنے ہی دستور میں طے کردہ اور منصبی دائروں تک محدود رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ جو جسٹس محمد منیر کے چیف جسٹس بن جانے کے دور سے ہرآمر اور ظالم حکمران کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، پہلی بار بڑی حد تک آزاد ہوئی اور اس نے دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو ایک حد تک ادا کرنے کی کوشش مستعدی اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جس پر اسے عدالتی فعالیت (Judicial activism)، حتیٰ کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت تک کا نام دیا گیا اور ان حلقوں کی طرف سے دیا گیا جنھیں اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا اِدعا ہے۔ ان میں سے کچھ بائیں بازوسے وابستہ اورترقی پسند ہونے کے بھی مدعی ہیں، حالانکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ بنیادی حقوق اور دستور پر عمل درآمد، دونوں کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر ہے۔ دستور میں دفعہ ۱۸۴ شامل ہی اس لیے کی گئی ہے کہ جب دستوری حقوق کو پامال کیا جائے تو عدالت مداخلت کرے، خواہ یہ مداخلت اسے کسی ستم زدہ کی فریاد پر کرنی پڑے یا ازخود توجہ کی بنیاد پر اسے انجام دیا جائے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک سیاسی مسئلہ دستور کے طے کردہ اصول کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے اور عدالت کے دائرۂ کار میں آجاتا ہے۔ اسی طرح پریس کی جزوی آزادی بھی ایک نعمت تھی جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے اخفا میں رہنے کے امکانات کم ہوگئے اور وہ سیاسی منظرنامے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔
ان سارے مثبت پہلوئوں کو اس حکومت نے خیر اور اصلاح احوال کے لیے مددگار عناصر سمجھنے کے بجاے اپنا مخالف اور ان دونوں ہی اداروں کو عملاً گردن زدنی سمجھا، اور ایک منفی رویہ اختیار کیا جسے مزید تباہ کاری کا ذریعہ بنانے میں بڑا دخل خود ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی (جس کی بڑی وجہ دوست نوازی، اقربا پروری اور جیالا پرستی تھی)، وسیع تر پیمانے پر بدعنوانی (corruption) اور مفاد پرستی کی بلاروک ٹوک پرستش کا رہا جس کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ۵۰ سے زیادہ احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے اور توہین عدالت کی باربار کی وارننگ اور چند مواقع پر سزائوں کے باوجود اسی روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ انتظامی مشینری کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ معیشت کو اگر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف غلط پالیسیاں، توانائی کا فقدان، پیداوار میں کمی، تجارتی اور ادایگیوں کے خسارے میں بیش بہا اضافہ، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سیلاب اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور دل پسند عناصر کو لُوٹ مار کی کھلی چھوٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود نیب کے سربراہ کے بقول روزانہ کرپشن ۱۰ سے ۱۲؍ارب روپے کی ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کچھ زیادہ قومی دولت کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ ملک کے عوام اپنی ہی دولت سے محروم کیے جارہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ سارا کاروبارِ حکومت قرضوں پر چل رہا ہے جن کا حال یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۸ء تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا جو مجموعی بوجھ ملک و قوم پر تھا وہ ۶ ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جو ان پونے پانچ سالوں میں بڑھ کر اب ۱۴ٹریلین کی حدیں چھو رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی زبوں حالی ہے اور جان، مال اور آبرو کا تحفظ کسی بھی علاقے میں حاصل نہیں لیکن سب سے زیادہ بُرا حال صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور عروس البلاد کراچی کا ہے، جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ دسیوں افراد لقمۂ اجل نہ بن جاتے ہوں۔ کروڑوں روپے کا روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور اربوں کا روزانہ نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔ Conflict Monitoring Centre کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۲ء میں ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے ۱۳۴۶ واقعات میں ۲۴۹۳؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نیز صرف اس سال میں امریکی ڈرون حملوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۸۸ ہے (دی نیوز، ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ایک اور آزاد ادارہ (FAFEEN) حالات کو باقاعدگی سے مانٹیر کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف دسمبر ۲۰۱۲ء کے تیسرے ہفتے میں ملک میں لاقانونیت کے رپورٹ ہونے والے واقعات ۲۴۱ ہیں جن میں ۷۵؍افراد ہلاک ہوئے اور ۱۶۶ زخمی (ایکسپریس ٹربیون، ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ ملک کی سیاسی آزادی کی مخدوش صورت حال، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور پالیسی سازی پر فیصلہ کن اثراندازی نے محکومی اور غلامی کی ایک نئی مصیبت میں ملک کو جھونک دیا ہے۔ جمہوری حکومت کے کرنے کا پہلا کام مشرف دور میں اختیار کی جانے والی امریکی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا تھا، اور پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حکومت کے قیام کے چھے مہینے کے اندر واضح قرار داد کے ذریعے جنگ سے نکلنے، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کے راستے کو اختیار کرنا کا حکم دیا تھا، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کے مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور امریکی غلامی کے جال میں اور بھی پھنستی چلی گئی۔ آج یہ کیفیت ہے کہ ۴۵ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے ، ایک لاکھ سے زیادہ کے زخمی ہونے اور ۳۰ لاکھ کے اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے اور ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود پاکستان امریکا کا ناقابلِ اعتماد دوست اورعلاقے کے دگرگوں حالات کے باب میں اس کا شمار بطور ’مسئلہ‘ (problem) کیا جارہا ہے، ’حل‘ (solution) میں معاون کے طور پر نہیں ۔ جس طرح خارجہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی بھی بُری طرح ناکام رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
یہ وہ حالات ہیں جن کا تقاضا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ ہو اور جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ ان حالات میں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی رَٹ ناقابلِ فہم ہے۔ دستور میں پانچ سال کی مدت محض مدت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی ’عدت‘ کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کراسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کرسکے تو اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ۱۱ بار میعاد سے پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ۱۶مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰دن میں انتخاب لازمی ہیں۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نامناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰ جون سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ۶۰دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل کے طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ یہ صرف مزید تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ آمروں نے لگایا ہے اور آج بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہورہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اس لیے صحیح سیاسی لائحہ عمل وہی ہوسکتا ہے جو مندرجہ ذیل خطوط پر مرتب کیا جائے:
۱- اسمبلی کی مدت میں توسیع یا سال دو سال کے لیے عبوری انتظام کے فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا چاہیے۔اس پر غور بھی اپنے اندر بڑے خطرات رکھتا ہے۔ اس لیے یہ باب بالکل بند ہونا چاہیے۔
۲- جنوری میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے، دستور کے مطابق، صرف انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانب دار اور سب کے مشورے سے عبوری حکومتیں قائم کی جائیں جو ملک کو نئی سمت دینے کے لیے نہیں ،صرف جلد از جلد آزادانہ طور پر شفاف انتخابات منعقد کرانے کے لیے ہوں۔ جو انتخابی اصلاحات ازبس ضروری ہیں، وہ باہم مشورے سے کسی تاخیر کے بغیر کردی جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن جو الحمدللہ قابلِ بھروسا ہے، اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرے اور عدلیہ اور فوج کی ضروری مدد سے انتخابی عمل کو مکمل کرے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں اور دستور کی دفعہ ۶۲ اور ۶۳ کا خود بھی احترام کریں اور وہ راستہ اختیار کریں کہ ان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے والے افراد کی اُمیدواری کے مرحلے ہی پر تطہیر ہوسکے۔ انتخابی قواعد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، انتظامیہ مکمل طور پر غیر جانب دار ہو اور عدلیہ اس بارے میں پوری طرح چوکس رہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار اس سلسلے میں سب سے اہم ہے۔
۳- فوج کی یا خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ یہ نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ خود فوج کے۔ البتہ دستور کے تحت انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن جس حد تک فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں سے مدد لینا چاہے، اس کا دیانت داری سے اہتمام کیا جائے، اور پولنگ کے دن امن و امان کے قیام اور پولنگ اسٹیشنوں کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کے لیے واضح اور کھلاکردار ادا کرے۔
۴- سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا منشور، پروگرام واضح کریں، وہ ٹیم لائیں جو اس پروگرام پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، تاکہ محض برادری اور جنبہ داری کی بنیاد پر سیاسی نقشہ نہ بنے بلکہ اصول، پروگرام، کردار اور صلاحیت اصل معیار بنیں۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں دیانت اور غیرجانب داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کے لیے جو ضابطہ اخلاق اختیار کیا جائے اس میں اس پہلو کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے۔ الیکشن مہم کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ کار مرتب کیا ہے، اس پر اگر ٹھیک ٹھیک عمل ہو تو میڈیا کی اور اُمیدواروں کی گھرگھر جاکر ووٹروں سے رابطے کی مہم کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی جس میں بڑا خیر ہے۔ اس طرح دولت کی اس نمایش کو ختم کیا جاسکتا ہے جو سیاسی بدعنوانی کا عنوان بن چکی ہے۔
۵- ترقی پذیر ممالک میں اور خاص طور پر پاکستان میں بیرونی ممالک اور ان کی پروردہ این جی اوز کا کردار روزافزوں ہے۔ ان کے عمل دخل کے بارے میں صحیح پالیسی بنانے اور پھر مناسب اقدام کرنا ضروری ہیں۔ بیرونی سرمایہ اور بیرونی کارپرداز اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میدان میں بھی ہرقسم کی مداخلت اور اثراندازی کو آہنی ہاتھوں کے ساتھ روکنے کا انتظام ضروری ہے۔
۶- ہم قوم اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں سے آخری بات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر، ذاتیات اور مفادات سے بالا ہوکر اپنا فرض اداکریں۔ ووٹ ایک امانت ہے اور ایک ذمہ داری۔ اگر ہم ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور اپنی ذمہ داری کو خود ادا نہیں کرتے تو پھر غلط لوگوں کے مسلط ہوجانے کا گلہ کس کام کا۔ یہ سب خود ہمارا کیا دھرا ہے کہ اچھے لوگ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور طالع آزما اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور اپنے دین و ایمان، نظریاتی شناخت، آزادی اور خودمختاری کے تحفظ اور سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی اور انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ تبدیلی کے لیے پہلا قدم خود اپنے کو تبدیل کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہے۔
اس وقت ملک جن نازک حالات سے دوچار ہے، ان میں ضرورت ہے کہ اہلِ خیر زیادہ سے زیادہ متحد ہوں۔ اچھے، دیانت دار لوگوں، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان تعاون ہو اور اچھے لوگ اپنی قوتوں کو بٹ جانے سے روکیں۔ اس کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ نہیں۔ تعاون اور اشتراک کے ہزار طریقے ہیں۔ تعاونِ باہمی کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں تاکہ قوم کے بہترین عناصر ایک دوسرے کا سہارا بن کر مفاد پرستوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا سکیں۔ آنے والے چند مہینے بڑے فیصلہ کن ہیں اور فیصلے کا انحصار ہماری اپنی سعی و کاوش اور جدوجہد پر ہوگا۔ منزل اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک تعین کیجیے اور پھر ان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سرگرم ہوجایئے۔ تبدیلی اور اصلاح کا بس یہی راستہ ہے کہ ’’جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں، مینااسی کا ہے‘‘۔ آپ یہ راستہ اختیار کریں، پھر اللہ کی مدد بھی آپ کے ساتھ ہوگی کہ اس کا وعدہ ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط (العنکبوت ۲۹:۶۹)،جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی طرف ضرور ہدایت دیں گے۔