1 اشاریہ شمس الاسلام مع فہرست مخطوطات، مرتب: ڈاکٹر صاحب زادہ انواراحمد بگوی۔ ناشر:مکتبہ حزب الانصار، جامعہ مسجد بگویہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا (لاہور میں الفیصل، اُردوبازار، لاہور سے دستیاب ہے)۔ صفحات:۴۱۱۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔ 2 اشاریہ السیرۃ عالمی، مرتب: محمد سعیدشیخ۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ 3 سیرت ایوارڈ یافتہ اُردو کتب سیرت، مرتبین: حافظ محمد عارف گھانچی،محمد جنید انور۔ کتب خانہ سیرت، کھتری مسجد، ٹھٹھہ بس سٹاپ،لی مارکیٹ، کراچی۔ فون: ۲۸۳۴۲۴۹-۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔ 4 پاکستان میں اُردو سیرت نگاری، ایک تعارفی مطالعہ، سیّد عزیز الرحمن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے،۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۳۔ قیمت: ۱۵۰روپے۔
علمی تحقیق کے لیے اشاریہ (index) ایک مفید بلکہ ناگزیر معاون (tool) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اشاریہ کئی قسموں کا ہوتا ہے ۔اُردو میں اشاریہ سازی کی روایت بہت قدیم نہیں ہے۔ اس کی طرف زیادہ توجہ حالیہ برسوں میں ہوئی ہے۔ ایک تو علمی کتابوں میں اشاریے کی ضرورت کا احساس بڑھنے لگاہے۔ دوسرے رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی نے قریبی زمانے میں خاصی پیش رفت کی ہے اور یہ زیادہ تر جامعاتی تحقیق اور امتحانی مقالات کی مرہونِ منت ہے۔فی الوقت چار اشاریے ہمارے پیش نظر ہیں:
زیرنظر اشاریے کے شروع میں بگوی صاحب نے ایک عالمانہ اور مختصر مگر جامع مقدمہ بھی شامل کیا ہے۔ انھوں نے اشاریہ بڑی کاوش، محنت اور توجہ کے ساتھ بلکہ کہناچاہیے کہ ڈوب کر تیار کیا ہے۔ اس کا اندازہ حسب ذیل وضاحت سے ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انڈیکس کے لیے کسی پروفیشنل (ماہرانڈیکس) کی خدمات کے بجاے راقم نے رسالے کی ہرجلد اور ہرشمارہ خود دیکھا۔ مضامین کو ان کے موضوعات کے مطابق یک جا کیا۔ شذرات عام طور پر بلاعنوان چھپتے رہتے ہیں، ان میں ہرشذرے کو اس کے موضوع کے تحت الگ کیا۔ بعض سادہ اور مختصر سی معلومات جن کا تعلق اہم تحریکوں، نظریوں اور شخصیتوں سے تھا، ان کو اہتمام سے الگ کر کے متعلقہ موضوع کے تحت درج کیا۔ اس میں ہرصفحے اور مضمون کو بغور دیکھا گیا ہے۔ جہاں عنوان ناکافی پایا، وہاں بریکٹ میں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ اس دِقّت نظر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اشاریہ علمی، تحقیقی اور تحریکی کاموں کے لیے ایک نہایت مفید رہنما بن گیا ہے‘‘۔
جون ۱۹۲۵ء میں شمس الاسلام کے اجرا سے قبل بھیرہ ہی سے مئی ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۵ء تک ماہ نامہ ضیاے حقیقت شائع ہوتا رہا۔ اس کے دستیاب (معدودے چند) شماروں کا اشاریہ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ ہر اندراج یا ہرحوالہ چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ تحریر (نظم یا نثر) کا عنوان، مصنف یا مؤلف کا نام، شمارے کا ماہ سال اور تحریر کا صفحہ اوّل و آخر۔ مجموعی طور پر اشاریہ موضوعاتی ہے مگر اسے رسالے کے اشاعتی اَدوار کو چار پانچ حصوں میں تقسیم کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر چاروں اَدوار کایک جا اشاریہ مرتب کیا جاتا تو قاری کواور زیادہ سہولت ہوتی اور وہ ایک ہی موضوع پر حوالوں کو چار مقامات پر دیکھنے کے بجاے ایک ہی جگہ دیکھ لیتا۔ آخری حصے میں اُن مخطوطات اور قدیم قلمی مسودات کی فہرست بھی شامل ہے جو بھیرہ کے کتب خانۂ عزیزیہ بگویہ حزب الانصار میں محفوظ ہیں۔ ہمارے خیال میں زیرنظر اشاریہ تحقیقی اعتبار سے ایک اہم دستاویز ہے اور حوالے کی یہ کتاب مرتب کر کے ڈاکٹر انوار احمد بگوی صاحب نے ایک بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔
محمدمظفر عالم جاوید صدیقی کے تحقیقی مقالے اُردو میں میلاد النبیؐ کے تعارف میں مؤلف کی ’محنت، کاوش اور تگ و دو‘ اور ان کی تحقیق کے ’اعلیٰ معیار‘ کی تعریف کی گئی ہے (ص ۱۶۸-۱۶۹)۔ غالباً سیّد عزیز الرحمن صاحب کی نظر سے ماہنامہ نعت لاہور کا شمارہ اکتوبر ۲۰۰۰ء نہیں گزرا جس میں ڈاکٹر محمد سلطان شاہ نے بہ دلائل اور بہ ثبوت بتایا تھا کہ یہ مقالہ ’سرقے‘ کی ایک عمدہ مثال ہے۔ مظفرعالم نے جن کتابوں سے جہاں جہاں چوری کی، شاہ صاحب نے نام اور عنوانات اور صفحات کے تعین کے ساتھ ان کی نشان دہی کرنے کے بعد قرار دیا تھا کہ: ’’یہ مقالہ سرقہ و بددیانتی کے ارتکاب کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘ ہے (ص ۶۴) ___ بہرحال یہ معلومات افزا کتاب موضوعاتِ سیرت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت معاون ثابت ہوگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مقالات سیرتِ طیبہ، مرتبہ: جامعہ سلفیہ بنارس، بھارت۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۴۶۴۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کی سیرتِ طیبہ کا موضوع ایک ایسا بحربے کراں ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں۔ ۱۴سوسال سے غواص اس کے اندر جاتے ہیں اور اپنی پسند کے سیپ اور موتی نکال کے لاتے ہیں ، جن میں سے یقینا کچھ آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
۱۴۱۲ہجری میں بنگلور میں جامعہ سلفیہ نے سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے اُردو مقالات (یعنی انگریزی اور عربی کے علاوہ) وہاں سے شائع کیے گئے اور اب کتاب سراے نے پاکستان میں شائع کیے ہیں۔یہ ۳۷ مقالات کا مجموعہ ہے، آخر میں کچھ منظومات بھی ہیں۔ مقالات مختصر اور جامع ہیں اور تدوین کاروں نے بڑی محنت سے ذیلی سرخیاں لگائی ہیں۔
دوسرا پہلو مضامین کی وسعت اور ان کا تنوع ہے۔ میں صرف اشارے کروں گا۔ اتباع اور اطاعت رسولؐ کے موضوع پر چار مقالات ہیں۔ اخلاق نبویؐ پر دو، دعوت پر چار، سیرت کی اہم کتابوں: ابن جوزی کی الوفاباحوال المصطفٰی، سلیمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمینؐ، شبلی نعمانی کیسیرت النبیؐ، مصطفی سباعی کی دروس وعبر، علامہ مقریزی کی امتاع الاسماع کے تعارف اور جائزے ہیں۔ سرسیّد، طٰہٰ حسین اور محمد بن عبدالوہاب اور سلف میں سے بعض پر سیرت نگار کی حیثیت سے مضمون ہیں۔ سیرت کے حوالے سے: حقوقِ نسواں، اولاد کی تربیت، طبقاتی کش مکش کا حل، اور حقوقِ انسانی جیسے موضوعات ہیں۔ دو اہم موضوعات بشریت اور علمِ غیب کچھ زیادہ ہی اختصار سے نبٹا دیے گئے ہیں۔ سیرت کے واقعات، یعنی صلح حدیبیہ، معجزات، آپؐ کی تعلیم اور عمل میں تزکیۂ نفس ، تدبیر اور تنظیم، حب ِ رسولؐ، شاید مَیں مکمل احاطہ نہیں کرسکا۔آخر میں شامل چار منظومات میں سے دو نعتیں ہیں اور دو میں کانفرنس کا ذکر ہے۔
ان مقالات کو تعلیمی اداروں کے مجلات ، اخبارات کے خصوصی نمبروں اور رسائل و جرائد میں نقل کیا جاسکتا ہے۔مشتاقانِ سیرت اسے حاصل کریں تو مایوس نہیں ہوں گے۔(مسلم سجاد)
عالمی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے اثرات، محمود احمد شرقاوی، ترجمہ: صہیب عالم، نجم السحر ثاقب۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۲۔ قیمت: درج نہیں۔
اسلام جزیرئہ عرب سے نکلا تو اس نے ایک طرف روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا اور دوسری طرف شکوہِ فارس کو پارہ پارہ کردیا۔ سلطنت ِ اسلامی کی سرحدیں بحراوقیانوس سے لے کر چین کے صوبہ سنکیانگ (کاشغر) تک پھیل چکی تھیں۔ اس کے نتیجے میں تمام مفتوحہ علاقوں پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے وسیع اثرات مرتب ہوئے۔ زیرنظر کتاب میں محمود علی شرقاوی نے انھی اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
ابتدا میں مصنف نے اسلام میں علم کی اہمیت ، مسلمانوں کے طرزِ تعلیم اور مراکز تعلیم (مساجد، مکاتب، مدارس، علما کی مجالس اور کتب خانوں) پر تفصیلی بحث کی ہے۔ بعدازاں مغربی اور عجمی تہذیب و ثقافت کے خدوخال بیان کرکے ان پر اسلامی فتوحات کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور عالمی ثقافت کے فروغ میں مسلم علما کی مساعی کو سراہا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مسلم علما جس مفتوحہ علاقے میں گئے، وہاں کے علوم و فنون کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور اس مقصد کے لیے تراجم کو اہمیت دی گئی اور عربی تراجم کے ذریعے مختلف علوم سے کماحقہٗ فائدہ اُٹھایا۔ اسی طرح اسلامی علوم کو بھی دوسری زبانوں میں منتقل کرکے وہاں کے باشندوں کو اسلام کی حقیقی روح سے آگاہ کیاگیا۔
تہذیب و ثقافت کے مختلف عناصر اور شعبوں (ادب، فلسفہ، طب، شفاخانے، علمِ کیمیا، علمِ طبیعیات، علمِ فلکیات، علمِ ریاضیات، علمِ نباتات، علمِ حیوان، علمِ جغرافیہ، علمِاجتماعیات، ایجادات اور فنون و کاریگر) کی مناسبت سے ذیلی عنوانات قائم کر کے مصنف نے ان علوم کی ترویج و ترقی پر مسلم تہذیب و ثقافت کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ مسلمانوں کی سائنسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اندلس، سسلی اور مشرق میں علوم کے مراکز قائم کیے جن میں جابر بن حیان، ابن الہیثم اور ابوالقاسم زہراوی جیسے لوگوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اندلس کی یونی ورسٹیوں میں یورپی طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔آخری باب میں مصنف نے اسلام کے سیاسی نظام، قوانین، حدود، ریاست، خلافت اور معاشیات پر بحث کی ہے۔
کتاب عربی زبان میں تھی۔ ترجمہ رواں اور اسلوب نہایت عمدہ ہے۔ کہیں ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ مجموعی طور پر کتاب نہایت معلومات افزا ہے، اور عبرت خیز بھی۔ اس کے مطالعے سے اقبال کا مصرع شدت سے یاد آتا ہے: ع تھے تو آبا وہ تمھارے ہی مگر تم کیا ہو۔(قاسم محمود احمد)
Tears for Pakistan [پاکستان کے لیے آنسو]،اقبال سیّد حسین۔ ملنے کا پتا: گلی ۱۴، کرشن نگر، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۷۹۲۴۵۲-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۳۶۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔
اقبال سیّد حسین نے اس کتاب میں پاکستان کے حوالے سے اپنے گہرے احساسات قلم بند کیے ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کا طویل عرصہ بیرونِ ملک گزارا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ حق دار ہے۔
۱۹۷۷ء سے اب تک انگریزی زبان میں اُن کی ۱۲ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ۵۳۶صفحات پر پھیلے ہوئے ۲۶ مضامین کی اس کتاب میں مصنف کم و بیش ہر اُس پہلو کی نشان دہی کرتا ہے جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے یا پاکستان کو زوال کی طرف لے جا رہا ہے ۔ اُن کی واضح راے یہ ہے کہ تعلیم سے دُوری نے پاکستانی قوم کے لیے بے انتہا مسائل کھڑے کیے ہیں۔ اُنھوں نے غیرملکی مفکرین دانش وروں اور قائدین کی آرا بھی فراخ دلی سے درج کی ہیں۔
اقبال سیّد حسین نے خلیل جبران سے لے کر ولیم بلیک اور نوم چومسکی اور کیرن آرمسٹرانگ تک، اور قرآن کریم سے لے کر روزمرہ پاکستانی اخبارات تک سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ چند مضامین یا پیراگراف ایسے ہیں کہ جنھیں مصنف نے دیگر دانش وروں کی تحریروں میں اہم سمجھا اور شکریے کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا۔ یونانی فلسفہ اور جدید مفکرین کی آرا سے وہ دل کھول کر استفادہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان میں ’رہنمائی‘ موجود ہے۔ مُلّا، آرتھوڈوکسی اور قدامت پرستی پر بھی اپنے نقطۂ نظر سے کھل کر تنقید کی ہے۔
مصنف نے کئی درجن تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ ان میں دکھایا گیا ہے کہ کوڑے کے ڈھیر پر سے بچے خوراک تلاش کر رہے ہیں یا وہ عورتیں جن کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا، یا وہ معصوم بچے جو زندگی کی گاڑی دھکیلنے کے عمل میں ۶،۷ سال کی عمر ہی سے شریک ہوچکے ہیں۔
آج پاکستان اور اسلام اور اسلامی تحریکات کے حوالے سے جس قدر ہرزہ سرائی ہورہی ہے، خصوصاً انگریزی زبان میں شائع شدہ کتابیں اور مضامین اور تجزیے جس طرح وطن عزیز کو بدنام کررہے ہیں، ان حالات میں اقبال حسین کے مضامین اور کتابیں کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ قومیت، علاقائیت اور دولت پرستی نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور اُس کے احکامات نہ تسلیم کرنے نے پاکستان کو بے وقعت کیا ہے۔ اُمید ہے پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خوب صورت تحفہ ثابت ہوگی۔ (محمد ایوب منیر)