جنوری ۲۰۱۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جنوری ۲۰۱۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

پروفیسر نذیر احمد بھٹی ، بہاول پور

اس ماہ کے ترجمان میں پروفیسر خورشید احمد کے اشارات: ’غزہ میں اسرائیل کی جارحیت اور  مسئلہ فلسطین‘ کے علاوہ دیگر مضامین بھی بہت اہم اور قابلِ غوروفکر ہیں، مگر ’حکمت مودودی‘، ’اسلام: وجودِ پاکستان کے لیے ناگزیر‘ بہت ہی اہم اور قابلِ مطالعہ ہے۔سید مودودی نے صحیح تجزیہ کیا ہے کہ: ’’اگر مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس تمام دوسرے احساسات پر غالب نہ ہوتا، اگر مسلمان اس بات کو بھول نہ گئے ہوتے کہ ہم مدراسی ہیں، پنجابی ہیں، بنگالی ہیں، گجراتی ہیں، پٹھان ہیں اور سندھی ہیں اور صرف ایک تصور ان کے اُوپر غالب نہ ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی حیثیت سے اس سرزمین پر جینا چاہتے ہیں، تو پاکستان کبھی وجود میں نہیں آسکتا تھا بلکہ پاکستان کا تخیل سرے سے پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔

سید محمد عباس ، پشاور

’ترکی میں سیاسی تبدیلی اور معاشرتی انقلاب‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے عنوان سے ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون فکرانگیز اور چشم کشا ہے۔ یقینا ترکی کے اس ماڈل میں پاکستان کی تحریک اسلامی کے لیے غوروفکر کے متعدد پہلو ہیں۔ گذشتہ سال مجھے بھی ترکی کے تین شہروں، استنبول، انقرہ اور قونیہ میں مختلف تعلیمی اداروں کے مطالعاتی دورے کا موقع ملا۔ یہ وہ ادارے تھے جنھیں فتح اللہ گولن کی تحریک کے لوگ چلا رہے ہیں۔ ان اداروں سے اعلیٰ اخلاق و کردار اور بہترین صلاحیتوں کے حامل نوجوان نکل رہے ہیں جو اس وقت ترکی کی معاشی اور معاشرتی پیش رفت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پاکستان میں بھی ایسے تعلیمی اداروں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے جہاں سے ایسے نوجوانوں کی کھیپ نکلے جو اعلیٰ اخلاق و کردار کے جوہر کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے اسلامی جذبے سے بھی سرشار ہوں۔ اس پہلو پر تحریک نے ابھی تک کماحقہ ٗ توجہ نہیں دی مگر طویل المیعاد منصوبے کے تحت اسے ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی ضرورت ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کا حماس کے مجاہدوں کی طرف سے بھرپور جواب اور مصر میں صدر مُرسی کے خلاف اختیارات کے بارے میں پروپیگنڈے کی اصلیت جان کر معلومات میں اضافہ ہوا۔

حکمت مودودی کے زیرعنوان سقوطِ ڈھاکہ کی مناسبت سے مولانا مرحوم کی تقریر کا اقتباس پسند آیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے کچھ مزید کی بھی توقع تھی مگر… بلوچستان کے حالات کے پیش نظر، ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے المیے سے بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہے، مگر اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔

ڈاکٹر عارف جاوید ،چکوال

 ’سیاسی تبدیلی اور معاشرتی انقلاب: چند غورطلب پہلو‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) جامع اور عام فہم ہے۔   ساری باتوں کا نچوڑ یہی ہے کہ اصل معاملہ میدان میں ہے، یعنی فرد اور تحریک کا افراد اور مؤثر طبقات تک پہنچ کر دعوت دینا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دعوت جامع ہو اور یہ کہ ’آج کے تناظر‘ میں سوال رکھا جائے۔سفر کی طوالت اور منزل بظاہر دُور اور آخر ایسا کیوں؟ کا سوال اگرچہ غیرفطری نہیں لیکن جائزہ و احتساب میں خدمت ِ خلق کا ایمانی تقاضا خوب سمجھ آیا۔

محمد طارق ندیم ،سعودی عرب

’اقبال اور سیکولرزم‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) میں یہ کہنا کہ اقبال کے نزدیک ’’اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزا ہیں‘‘ (ص ۵۸)، درست نہیں۔ یہ صوفیانہ نقطۂ نظر کی ترجمانی ہے۔

ممتاز احمد ،اسلام آباد

ارشاد الرحمن صاحب کا مضمون: ’شام:اسد خاندان کا مجرمانہ دورِ حکومت‘ (نومبر ۲۰۱۲ء) نظر سے گزرا۔ مضمون میں تین باتیں قابلِ توجہ ہیں: ۱- مضمون نگار نے تمام تر انحصار اُن ذرائع پر کیا ہے جو اسد حکومت کے واضح مخالفین میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے کسی معروضی تجزیے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔۲-مضمون نگار نے بجاطور پر اپنے مضمون میں وہ ساری تفصیلات دی ہیں جن کا تعلق اسدحکومت کی بہیمانہ کارروائیوں اور  قتل و غارت کی کارروائیوں سے ہے لیکن اُنھوں نے اُن تفصیلات کا ذکر نہیں کیا جن کا تعلق اسدمخالف عناصر کی جانب سے قتل و غارت کی کارروائیوں سے ہے جن کے واضح ثبوت مہیا ہوچکے ہیں۔ ۳-مضمون نگار نے یہ تو بتادیا کہ اس حکومت کو روس اور ایران سے اسلحہ مل رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اسد مخالف عناصر کی پشت پر وہ  کون سی طاقتیں ہیں جو اُنھیں فنڈز، ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کر رہی ہیں اور اُن کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ دل چسپ بات نہیں ہے کہ پورے مضمون میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، قطر اور سعودی عرب کا ذکر تک نہیں کیا گیا جو اسدمخالف عناصر کی پشت پر کھڑے ہیں؟ واضح رہے کہ میں اس حکومت کا حامی نہیں ہوں۔


وضاحت: ’رسائل و مسائل‘ (دسمبر۲۰۱۲ء) میں خنزیر کی کھال کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ دباغت کے بعد اس کا استعمال جائز ہے۔ ہمارے ایک قاری ڈاکٹر ضیاء الرحمن قریشی (آزاد کشمیر) نے درست توجہ دلائی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ گائے کی جو مثال دی گئی ہے وہ قیاس مع الفارق ہے۔ اس لیے کہ اس کا اطلاق خنزیر کی کھال پر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ   فی نفسہٖ حرام ہے۔ اُمت کا اس پر اجماع ہے۔ (ادارہ)

احمد علی محمودی  ،حاصل پور

’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنس کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن ہدایات و رہنمائی کا اہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب  کے لیے ہی مفید ہوگی۔

محمد احتشام الدین ، لاہور

ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔


فقیر واصل واسطی ، لاہور

’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟

محمد اصغر ، پشاور

’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)

ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس  فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور   ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔

واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔