انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی بُرائی کی راہ پر چل پڑتی ہے؟ اگر عقیدۂ آخرت حقیقت ِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوتا اور اُس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھاکہ اس اقرار و انکار کے یہ نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجاے خود صحیح ہے۔
اس کے جواب میں بسااوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفۂ اخلاق اور دستورِعمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے۔ پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلقِ خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔
تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظاماتِ فکر کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیا جائے، کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراجِ تحسین اِن ’نیکوکار‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفاے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبطِ نفس، عفت، حق شناسی اور اداے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظرانداز کردینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابلِ عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی اُمیداور نقصان کے اندیشے کی بناپر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمان داری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہرنیکی اور اس کی ضد کا حسب ِ موقع ارتکاب کراسکتی ہے۔
اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانے کی انگریز قوم [مغرب] ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابلِ اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپایداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راست بازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجاے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں، تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمایندہ اور اپنے اجتماعی اُمور کا سربراہِ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
تاہم اگر کوئی منکرِ خداو آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے، تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیزگاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیرشعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمایے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کرسکتا۔(تفہیم القرآن، دوم، ص ۲۶۶-۲۶۷