۲۰۱۵ مارچ

فہرست مضامین

اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۱۵ مارچ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

اس وقت دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ آج دنیا میں ایک ارب ۳۰ کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے۹۰کروڑ مسلمان ۵۷ مسلم مملکتوں اور۴۰ کروڑ باقی دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں رہتے ہیں۔ وسط ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور براعظم افریقہ کے بڑے حصے پر مسلم آبادیوں کا ارتکاز ہے، تاہم مسلمان دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد ۳ کروڑ سے زائد اور شمالی امریکا میں ۷۰لاکھ ہے۔ یورپ اور امریکا میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔۵۷ مسلم ممالک دنیا کے ۲۳ فی صد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اہم ترین بری، بحری اور فضائی راستے مسلم دنیا ہی سے گزرتے ہیں۔ مسلم دنیا اور باقی دنیا کا    ایک دوسرے پر کافی انحصار ہے۔ مسلم ممالک میں وسائل کی فراوانی ہے لیکن وہ معاشی، اور صنعتی ترقی میں پس ماندہ ہیں۔ ان کے پاس بہت زیادہ مالیاتی وسائل ہیں لیکن ٹکنالوجی، انتظامیات اور پیداوار و ترقی کے جدید طریقوں کے استعمال میں وہ پیچھے ہیں۔ مسلم ممالک کی باہمی تجارت   ۱۳فی صد ہے ، جب کہ ۸۷ فی صد تجارت بقیہ دنیا کے ساتھ ہوتی ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے ۵ کا تعلق اعلیٰ ۲۵ کا تعلق وسط سے ہے ، جب کہ بقیہ ممالک کا تعلق نچلے گروہ سے ہے۔۱؎

مسلم دنیا کئی صدیوں تک تسلیم شدہ عالم گیر معاشی قوت کی حیثیت سے غالب رہی۔ معاشرتی برتری اور ٹکنالوجی میں ترقی صدیوں تک مسلم ممالک کا امتیازی نشان رہا ہے۔۲؎ البتہ گذشتہ ۳۰۰ برسوں میں معاشی زوال ہوا ہے اور ان کی معاشی طاقت میں کمی و اقع ہوئی ہے۔  مسلم دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر دوبارہ سنبھلنے کا تصور موجودہ دور میں برسرِکار ہوا ہے۔   اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا تنقیدی و فکری کام ہوا ہے کہ کیا خرابی پیدا ہوئی؟ اور مسلم دنیا کیسے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل کرسکتی ہے؟ اس مناسبت سے اپنی اخلاقی اور نظریاتی ساکھ اور بنیاد کی تلاش اس جدوجہد کاایک حصہ ہے۔۳؎

اسلام ایک آفاقی دین ہے اور امت مسلمہ ایک عالم گیربرادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے، اور یہی ایمان مسلم امہ کی عالم گیر حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ یہی توحید کائنات کی، انسانیت کی اور زندگی کی وحدت (Unity) اور قانون کے آفاقی ہونے پر دلیل ہے۔ اسلام کسی خاص قوم ، لسانی یا علاقائی نسلی گروہ یا کسی خاص سماجی و معاشی طبقے کا دین نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام ایک نیا دین  پیش کرنے کا دعوے دار نہیں ہے، بلکہ اس کے مطابق یہ رہنمائی ہے جو خالق نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے تخلیق انسان کے اول روز سے بہم پہنچائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا مذہب (دین) اسلام ہی تھا۔

مسلمان حضرت آدمؑ سے لے کرحضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام کے لغوی معنی ’امن‘اور ’سلامتی‘ کے ہیں۔ یہ اللہ کے واحد معبود ہونے او راس کی بندگی کرنے اور اس کے انبیا ؑپر ایمان لانے کا داعی ہے، جن کی زندگی اعلیٰ ترین نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت کے مطابق انسان کی مکمل سپردگی اور پیروی کا نام ہے۔ اسی طرح شریعت کچھ اقدار، اخلاقیات اور قوانین کے مجموعے کا نام ہے جو اسلامی طرزِ زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔

اسلام، ہر فرد کے اختیار کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ عقیدہ و مذہب کے معاملے میں کسی زورزبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔۴؎ یہ انسانیت کے لیے ثقافتی لحاظ سے اورحقیقی طور پر تکثیریت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اختلاف راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنااسلام کابنیادی اصول ہے۔ اسلام، انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں: ایمان، عبادت، شخصیت اور کردار ،فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہے۔ پھر اسلام غیرمذہبی معاملات کو بھی روحانیت کی مقدس چھتری کے تلے جمع کرتا ہے۔ یہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں لادینی اور دنیاوی پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کرتابلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں کواخلاقی و روحانی طور پر باہم مربوط کرتا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر اخلاقی اور نظریاتی فکر ہے، جو عقیدے، رنگ، نسل،  زبان اور علاقے سے بالاتر ہوکر انسان کو مخاطب کرتی ہے۔ یہ تکثیریت کو حقیقی اور قابل تکریم سمجھتا ہے۔ امت مسلمہ کے اندر بھی تنوع موجود ہے۔ اسلام کسی مصنوعی اتحاد اور زبردستی کی ہم آہنگی کا قائل نہیں ہے۔ یہ بقاے باہمی اور تعاون کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اسلامی طرزِ زندگی اور تمدن کا ایک اور پہلو، اس کا: مطلق ، کائناتی اور عالم گیر اقدار پر زور دینا ہے۔ یہ کچھ ایسے اداروں کا تعین کرتا ہے، جو اسلام کے مستقل ستون کی حیثیت سے کام کرتے ہیں،اور بدلے ہوئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق لچک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقدار کا تانا بانا انسانی فطرت اور کائنات کے حقائق کے مطابق بنتا ہے اور انسان کو وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ انسان بدلتے حالات کے تناظر میں اپنی اقدار اور اصولوں کا اطلاق کرے۔ اس کے لیے اسلام ایک خودکار نظامِ عمل فراہم کرتا ہے، تاہم انسانی حالات کی جزئی تفصیلات کے ضمن میں جامد قواعد و ضوابط سے احتراز کرتا ہے۔ یہ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی تصور کرتا ہے جو تمام مخلوقات میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ ہرفرد اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان صرف سماجی مشین کا اہم پُرزہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک معاشرہ ، ریاست، قوم اور انسانیت تمام ہی اہم ہیں اور ہرایک اپنا خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، آخرت میں ہر فرد کی جواب دہی انفرادی سطح پر ہی ہوگی۔   اس سے اسلامی نظام کے اندر فرد کی مرکزیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر فرد کو معاشرے اور   اس کے اداروں سے وابستہ کرتا ہے اور ان کے درمیان ایک متوازن تعلق قائم کرتا ہے۔

اسلامی اخلاقیات زندگی سے فرار کا راستہ نہیں دکھاتیں بلکہ بھرپور زندگی گزارنے کے نظریے پر قائم ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو اور سرگرمیاں اخلاقی نظم و ضبط کے ذریعے پاکیزہ زندگی گزارنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ انفرادی تقویٰ اور اجتماعی اخلاقیات مل کر بھرپور زندگی کو فروغ دیتی ہیں، انفرادی اور معاشرتی بہبود میں اضافہ کرتی ہیں اور تمام لوگوں کے لیے فلاح کا باعث بنتی ہیں۔ اسلام میں ’دولت‘ ایک گالی نہیں۔ اگر اخلاقی اقدار اور امکانات کو پیش نظر رکھا جائے تو پیدایش دولت دراصل ایک پسندیدہ قدر ہے۔ ایک اچھی زندگی انسانی جستجو کابڑا ہدف ہے، فلاحِ دنیا اور فلاحِ آخرت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے، اور یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ یہی وہ روحانیت ہے جو دنیاوی زندگی کے تمام پہلوئوں اور سرگرمیوں کو اخلاقی دائرہ کار میں لاکر اس طرح چھا جاتی ہے، کہ وہ انسان کو بیک وقت نہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل بنادیتی ہے،بلکہ ایک ایسامعاشرہ تشکیل دیتی ہے جس میں تمام لوگوں کی خواہشات عادلانہ طریقے پر پوری ہوتی ہیں۔

شخصی آزادی، حقوقِ ملکیت، کاروبار، منڈی کی میکانیت اور دولت کی منصفانہ تقسیم، اسلامی معاشی نظام کے اہم حصے ہیں، تاہم مختلف سطحوں پر بہت سی اخلاقی بندشیں ہیں، مثلاً: انفرادی تحرک، ذاتی رجحان، سماجی طور طریقے، آجر اور اجیر کے رویے اور فرد اور ریاست کے باہمی تعلقات۔   اس نظام میں خاص طورپر نگرانی، رہنمائی اور ضروری قانون سازی کے دائرے میں ریاست اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ آزادی،معاشی مواقع کی فراہمی اور ملکیت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔

اسلام ضروریات کی فراہمی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دیناچاہتا ہے، جس میں معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی ہو۔ اوّلین طور پر ذاتی جدوجہد کے ذریعے اور محنت کا پھل ملنے کے رجحان کی بنیاد پر۔ لیکن ایک ایسے دوستانہ ماحول میں کہ جو لوگ پیچھے رہ جائیں یا ان کا تعلق محروم طبقات سے ہو، ان کی اس طرح سے مدد کی جائے کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں اور معاشرے کے فعال شریک بن جائیں۔ اسلام پیدایش دولت کی ایسی سرگرمیوں پر زور دیتا ہے۔ اس کا ہدف ایسا عادلانہ اور مساویانہ معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔ اسی صورت میں ایسا کیا جانا ممکن ہے کہ جب معاشرہ ایسا طریق کار وضع کرے کہ معاشرے کے محروم طبقات کو مؤثر مدد حاصل ہوسکے۔ یہ خاندان کے ادارے، معاشرے کے دوسرے اداروں اور ریاست کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسلام معاشی طرز عمل میں آزادی کوذمہ داری کے ساتھ اور استعداد کار کو عدل کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ’عدل‘ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ایک سب سے اہم قدر ہے اور انبیاعلیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں بھی ایک مقصد عدل کا قیام ہے (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اللہ کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے انسانوں او رکائنات کے ساتھ عدل پر مبنی تعلق تک وسیع ہے۔

اسلام کا معاشی نظریہ

بنیادی خصوصیات

اسلام کے معاشی نظریے کی بنیادی خصوصیات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

۱- زندگی ایک مربوط اکائی ہے۔ انسان کی شخصیت کی طرح، عوامی ثقافت بھی ناقابل تقسیم ہے۔ پورا سماجی عمل ایک نامیاتی اکائی (organic unity)ہے۔ معاشی زندگی اور نظام کو ہم علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ تخصیص کار اور تقسیم کار بہت اہم سہی، لیکن تمام چیزوں کو آپس میں مربوط ہونا چاہیے، تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وسیع تر اکائی بن سکے۔ معاشی نظریے کی بنیاد: ایمان، زندگی کے بارے میں نظریے اور عوام کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے پر ہے کہ ایک باہم مربوط فکر کے ذریعے ہی انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔

۲-  اسلام کا تصورِ جہاں (World View) توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی ہے۔   مرد اور عورت دونوں کی دنیا میں حیثیت اللہ کے خلیفہ (vicegerent) کی ہے۔ اسے اختیار کی آزادی، خواہش، علم اور محدود حد تک حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ اس کے کردار، مقام اور فرضِ منصبی کو استخلاف کہا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کی مرضی کو پورا کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا،عدل قائم کرنا، احسان کو فروغ دینا اور اس کے ذریعے حیات طیبہ کا انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے بلند معیار قائم کرنا۔

امام غزالی علیہ الرحمہ مقاصد شریعت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’شریعت کا مقصد تمام انسانوں کی بھلائی ہے، جو انسان کے ایمان،اس کے نفس، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کے تحفظ سے وابستہ ہے‘‘۔۵؎

۳- ’تقویٰ‘ کے بعد اسلامی نظام کی اہم ترین قدر ’عدل‘ اور اس کے ساتھ ’احسان‘ ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ’عدل‘ سے مراد ہر فرد کو اس کا حق بہم پہنچانا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں فقہا اور مفکرین ’عدل‘ کو اسلامی زندگی، معاشرے کی خاص صفت اور قانونی و سماجی اور معاشی عمل کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیتے ہیں۔

امام ابو یوسفؒ (م:۷۹۸ئ) نے خلیفہ ہارون الرشید (م:۸۰۹ئ)کو معیشت کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے اور نا انصافی کے خاتمے کے نتیجے میں ترقی کی رفتار تیز تر ہوگی‘‘۔ امام ابوالحسن علی الماوردیؒ (م: ۱۰۵۸ئ) نے فرمایا کہ: ’’جامع اور مختلف پہلوؤں سے انصاف کے نتیجے میں یک جہتی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، قانون کی عمل داری ہوتی ہے،ملک ترقی کرتا ہے، دولت بڑھتی ہے، آبادی میں افزایش ہوتی ہے، ملک کی سلامتی مضبوط ہوتی ہے، اور نا انصافی سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں جو دنیا کے لوگوں کے ضمیر اور شعور کو تباہ کرتی ہو‘‘۔    امام ابن تیمیہؒ (م: ۱۳۲۸ئ) عدل کو توحید کا لازمی نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ہر چیز میں انصاف، اور ہر ایک کے لیے انصاف ہر ایک کاحق ہے،اور نا انصافی کسی چیز میں کسی بھی فرد کے لیے کسی طور پر جائز نہیں ہے ،چاہے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم، حتیٰ کہ ایک ظالم شخص کے معاملے میں بھی نہیں‘‘۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ئ) علی الاعلان کہتے ہیں کہ: ’’عدل کے بغیر ترقی جائزنہیں ہے اور ظلم ترقی کا خاتمہ کرتا ہے،اور جایداد میں کمی ناانصافی اور ظلم کا لازمی نتیجہ ہے‘‘۔۶؎  پس، عدل اسلامی نظام کی روح اور سانس کادرجہ رکھتا ہے۔

۴-  سماجی تبدیلی اور انسانی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے اسلامی منصوبہ منفرد ہے۔ یہ منصوبہ ایسے طریق کار پر مبنی ہے جو اٹھارھویں صدی کے بعد یورپ اور امریکا میں ابھرنے والے معاشی و سیاسی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔

موجودہ مغرب میںاس کے لیے جو طریق کار، اور حکمت عملی سامنے آئی ہے وہ اس تصور پر مبنی ہے کہ انسانوں میںانقلابی تبدیلی لانے کے لیے سماجی اداروں اور ماحول کو تبدیل کیا جائے۔ اسی لیے ان کے ہاں تمام زور بیرونی ڈھانچے کی تشکیل نو پر ہے۔ اس نظام کی ناکامی کی وجہ انسان کو، مرد ہو یا عورت، ان کے عقائد، محرکات، اقدار اور ذمہ داریوں کو ہدف بنانے کو نظرانداز کرنا ہے۔ یہ تمام انسانوں کے اندر تبدیلی لانے کے عمل کو نظر انداز کرتا ہے اور بیرونی عناصر میں تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، تاہم جس چیز کی ضرورت ہے وہ مکمل تبدیلی اور انقلاب ہے۔ یہ تبدیلی لوگوں کے اندر بھی ہو اور ان کے سماجی و معاشی ماحول میں بھی۔ مسئلہ صرف ڈھانچا جاتی تبدیلی کا نہیں ہے، تاہم ڈھانچا جاتی تبدیلی بھی اپنی جگہ ضروری ہے۔ نقطۂ آغاز انسانوں کے دل و روح، ان کا حقیقت کا ادراک اور زندگی میں خود ان کا مقصد اور مقام ہونا چاہیے۔

سماجی تبدیلی کی بنیادیں

سماجی تبدیلی کے لیے اسلامی نقطۂ نظر کے حوالے سے کلیدی نکات حسب ذیل ہیں:

(الف) سماجی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کے عمل کا نتیجہ نہیں ہوتی، اگرچہ زندگی میں بہت سی رکاوٹوں اور بندشوں کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تبدیلی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے تحریک حاصل کرتی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ تبدیلی با مقصد ہونی چاہیے، یعنی آئیڈیل کی طرف پیش قدمی۔

(ب)  عوام ہی انقلاب کا فعال کردار ہیں۔ دنیا کی تمام دوسری قوتیں اللہ کے نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی تابع فرمان ہیں۔ اللہ تعالی کی طرف سے کائنات کے لیے جو انتظامات کیے گئے ہیں اور جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ انسان ہی ہے جو خود اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا ذمہ دار ہے۔

(ج) تبدیلی کی ضرورت صرف ماحول ہی میں نہیں ہے بلکہ مردوں اور عورتوں کے دل و روح کے اندر ، ان کے رویوں اور محرکات میں، اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے خارج کی دنیا میں ہے، اس کو مقاصد کی تکمیل کے لیے مجتمع کرنے کے عزم میں موجود ہے۔

(د)  زندگی بہت سے باہمی رشتوں کا تانا بانا ہے۔ انقلاب کا مطلب ان رشتوں میں کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ ہے۔ اس لیے یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں  عدم توازن پیدا ہو۔ تاہم، اسلامی سماجی تبدیلی کے نتیجے میں اس طرح کا ٹکرائو اور عدم توازن اپنی  کم از کم سطح پر ہوگا، اور منصوبہ بندی کے ساتھ اور باہم مربوط انداز میں چلائی گئی مہم کے نتیجے میں، توازن کے ایک مقام سے دوسرے اونچے مقام کا حصول اور عدم توازن سے توازن کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے تبدیلی کو متوازن، بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے، نیزجدت اور اختراع کے ساتھ مربوط بھی ہونا چاہیے۔ یہ منفرد اسلامی طریقہ ارتقائی راستے سے انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جائے گا۔

۵-  انسانی زندگی میں ذاتی مفاد کا حصول ایک فطری قوتِ محرکہ ہے۔ لیکن ذاتی مفاد کو نیکی اور عدل کے وسیع تر تصور کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ محنت کا صلہ اور کوشش میں ناکامی پر نقصان، انسانی معاشرے اور معیشت کے لیے بہترین فریم ورک فراہم کرتا ہے۔۷؎ اسلام اس کی اہمیت اور اسے معاشی و سماجی کوششوں کا اولین اصول تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام نے جدوجہد کے لیے ایک اخلاقی دائرہ کار بھی تشکیل دیا ہے، جو کچھ اقدار کے اپنانے اور کچھ اقدار سے پرہیز پر مبنی ہے، اور بتاتا ہے کہ کیا چیز درست اور جائز ہے اور کیا چیز اخلاقی، روحانی ، سماجی حوالے سے قابل اعتراض ہے۔ حلال و حرام کا تصور انسان کی تمام جدوجہد کے لیے اخلاقی میزان کا کام کرتا ہے۔ اعتدال اور اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا اس اسکیم کا لازمی جزو ہے۔

صلہ (انعام) کے تصور کو دنیاوی صلے کے ساتھ ساتھ اُخروی صلے کے ساتھ مربوط کرکے اسے وسعت دی گئی ہے۔ ذاتی فائدے کے فطری تصور کو رد کیے بغیر یہ اچھے اور عادلانہ رویے کے لیے ایک مضبوط قوتِ محرکہ ہے۔ ذاتی ملکیت اور ذاتی کاروبار کو ناقابل تنسیخ حقوق اور معاشی سرگرمی کے فطری طریقے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اخلاقی اور قانونی ضابطوں کے ذریعے اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات پختہ کرکے، کہ مال و جایداد اپنی ہر شکل میں مادی، انسانی، مشینی قوت اور دماغی قوت کی صورت میں، انسان کے پاس ایک امانت ہے، مال و جایداد کے تصور کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور یہ ذہن نشین کرا دیا ہے کہ امانت ہونے کی وجہ سے ملکیت کے حقوق اخلاقی حدود کے ساتھ مشروط ہیں اور ان کو مقاصد شریعت کی تکمیل سے مربوط کرتے ہیں۔

۶- معاشی سرگرمی، تعاون اور مقابلے کے عمل کے ذریعے فروغ پاتی ہے۔ منڈی کی سرگرمی، نجی ملکیت، کاروبار کی آزادی، منافع اور صلہ، قوتِ محرکہ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ الہامی ہدایت اور تاریخ کی گواہی اس بات پر شاہد ہے کہ تجارت، اشیا کی پیدایش میںاضافہ، اشیا و خدمات کا  لین دین، مناسب منافع کا حصول، طلب و رسد کی قوتوں کے ذریعے قیمتوں کا تعین، منڈی میں لین دین کاتحفظ اور معاہدوں کی تکمیل کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، اسلامی معاشی نظام کے ستون ہیں۔ جدوجہد، اختراع و تخلیق، تقسیم کار، ٹکنالوجی اور مہارتوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ تعاون، ہمدردی، عدل، انفاق اور یک جہتی پر تمام بڑے مسلم مفکرین نے زور دیا ہے۔

ایڈم سمتھ (م: ۱۷۹۰ئ) سے سات صدیاں قبل علامہ شمس الدین سرخسیؒ (م: ۱۰۹۰ئ) لکھتے ہیں: ’’کسان کو اپنے لباس کے لیے جولاہے کے کام کی ضرورت ہے اورجولاہے کو اپنی خوراک اور کپڑوں کے لیے کسان کے کام کی ضرورت ہے… ان میں سے ہر ایک اپنے کام کے ذریعے دوسرے کی مدد کرتا ہے‘‘۔ علامہ سرخسیؒ سے ایک صدی بعد دوسرے عالم جعفردمشقیؒ (م:۱۱۷۵ئ) اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مدت عمر قلیل ہونے کی وجہ سے کوئی فرد بھی تمام صنعتوں میں اپنے آپ کو نہیں کھپا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، تو وہ کسی بھی صنعت میں اپنے آپ کو ماہر نہیں بناسکے گا۔ تمام صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ تعمیر کے لیے بڑھئی کی ضرورت ہے اور بڑھئی کو لوہار کی ضرورت ہے، لوہار کو کان کن کی ضرورت ہے اور تمام صنعتوں کے لیے جگہ اور عمارت کی ضرورت ہے۔ اسی لیے لوگوں کو مجبوراً اپنی ضرورت کے لیے شہروں میں یک جا ہونا پڑتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں‘‘۔

علامہ ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ئ) نے ایڈم سمتھ سے تین صدیاں قبل تقسیمِ کار، معاشی ترقی میں تخصص اور انسانی ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بہت واضح ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکیں۔ انھیں اس مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ضروریات جو کہ افراد کا ایک گروہ مل کر باہمی تعاون سے پوراکرسکتا ہے، ان ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہیں جو وہ انفرادی طور پر پورا کرسکنے کے قابل ہیں‘‘۔ وہ اس بات کی سائنسی وجوہ بیان کرتے ہیں کہ تجارت کے نتیجے میں ترقی کو کیسے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ترقی کاانحصار ستاروں یا سونے چاندی کی کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار معاشی سرگرمی اور تقسیم کار کے اصول پر ہوتا ہے جو بذات خود منڈی کی وسعت اور اوزاروں (مشینوں) پر منحصر ہے ، جب کہ اوزاروں (مشینوں) کے لیے بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ بچت کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ بچت ہے‘‘۔ منڈی کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں میں پھیلائو آتا ہے، آمدنیاں بڑھتی ہیں، سائنس اور ٹکنالوجی میںاضافہ ہوتاہے اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے‘‘۔۸؎

منڈی کی میکانیت: اسلامی نقطۂ نظر

۷-  منڈی کی میکا نیت اسلامی معاشی نظریے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں اسلام نے چند بنیادی اقدامات تجویز کیے ہیں، جن کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ منڈیاں، ذاتی مفاد اور نفع اندوزی کی خواہش جیسی صورت حال کو جنم نہ دے دیں، جو سماجی لحاظ سے نقصان دہ ہو اور عدل اور راست بازی (fair play) کے تقاضوں کے خلاف ہو۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں:

  •    ذاتی تحرک کی سطح پر اخلاقی ضوابط، حلال و حرام کی قیود،’ حسبہ‘ کے ادارے کا قیام، سماجی دبائو اور خصوصی قانونی ضابطوں کی تشکیل۔
  •   سماجی و معاشی اکائی کے طور پر ’خاندان‘ کا ادارہ جو سماجی تحفظ اور یک جہتی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
  •   معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے اخلاقی، سماجی اور قانونی اقدامات،  آمدنی کی عادلانہ پالیسی کے لیے رہنما خطوط کا تعین۔
  •   سماجی تحفظ کاایک پھیلا ہوا انتظام: نجی دائرے میں صدقات و خیرات کی صورت میں اور ریاست کی سطح پر ضرورت مند لوگوں کے لیے زکوٰۃ سے سرکاری امداد کا نظام۔
  •  ’وقف‘ کے ادارے کے قیام کے لیے رضاکارانہ تنظیموں کے جال، مارکیٹ کے ذریعے ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ غیر تجارتی بنیادوں پر اشیا کی فراہمی، اسلامی معاشی اسکیم کا ایک لازمی جزو ہے۔
  •   پیداکار کے طور پر نہیںبلکہ ضروریات زندگی کی رسد میں منڈی کی ناکامی کی صورت میں جائزہ کاری، ضابطوں کا نفاذ اور عوام کی امداد کے پروگرامات، تاکہ معاشرے کا ہر فرد مذہبی، لسانی، صنفی ، قومیت یا عمر کے امتیازات سے بالاتر ہوکر معاشی زندگی میں متحرک طور پر حصہ لے۔
  •   اسلام وسائل کے ضیاع، ختم ہوتے قدرتی وسائل کے بے جا نقصان اور معاشی سرگرمی کے ماحولیاتی پہلو کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند ہے۔ اس کا اچھی زندگی کانظریہ اعتدال،توازن اور بندگی پر مبنی ہے اور ہر انسان کی معاشی زندگی کے دنیاوی اور ذاتی پہلوئوں کو مساوی طور پر اہمیت دیتا ہے ۔ اسلام کامعاشی نظام جزوی نہیں بلکہ ہمہ جہت ہے۔ ایک طرف تو یہ انسان کے لیے، انفرادی آزادی، انتخاب کی آزادی، نجی ملکیت اور کاروبار،منافع کے محرک اور لامحدود جدوجہد اور اس کے صلے کو یقینی بناتا ہے، اور دوسری طرف زندگی کی مختلف سطحوں پر مؤثر اخلاقی ضابطوں کا نظام فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ دائرے کے علاوہ سرکاری انتظامی ٹیم کے ذریعے ایسے ادارے قائم کرتا ہے، جن کے ذریعے معاشرے میں معاشی ترقی اور سماجی انصاف قائم ہوسکے۔ حتیٰ کہ خیرات کے تصور کو اس نے انقلابی طور پر قانونی ذمہ داری کا حصہ بنا دیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں : وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰:۲۴-۲۵) ’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ اسلام نے دوسرے نظاموں کی طرح تقسیم دولت میں عدل اور سماجی تحفظ کو رضاکارانہ ضمیمے کی حیثیت نہیں دی بلکہ اس کو نظام کا تشکیلی جزو بنادیا ہے۔

غربت و استحصال سے تحفظ

اسلام میں سرمایے کے رضاکارانہ اور لازمی انتقال کے ذریعے غربت اور استحصال سے تحفظ کا نظام موجود ہے۔۹؎

  •   آمدنی کے کچھ ذرائع کی ممانعت اسلامی معاشی نظام کا ایک اور اہم جزو ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم حرمت سود (الربا) ہے۔ اس کے علاوہ جوا، سٹہ بازی، دھوکا دہی، استحصال اور دولت کا زبردستی حاصل کرناشامل ہے۔ کاروباری اخلاق کا ایک جامع ضابطہ تشکیل دیاگیا ہے  تاکہ دیانت داری اور معاملات کے شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی اور مالیاتی معاملات میں ذمہ داری کو یقینی بنایاجاسکے۔

حرمت سود کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام سرمایے کے استعمال پر کسی قسم کے صلے کاقائل نہیں۔ اسلام سرمایے کی پیداواریت کو تسلیم کرتا ہے اوراس کی حقیقی پیداواریت کے تناسب سے اس کے صلے کا قائل ہے۔ البتہ جس منصوبے میں سرمایہ لگایا گیا ہے اس کے اصل منافع کے علی الرغم ایک یقینی، مقررہ اور پہلے سے طے شدہ منافع کامخالف ہے۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اصل منافع میں سرمایہ دار اورآجر دونوں حصہ لینے کاحق رکھتے ہیں۔ وہ مقررہ منافع کے بجاے اصل ہونے والے منافع میں سے منافع لیں گے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام قرض کی بنیاد پر معیشت کے قیام کے بجاے شراکت کی بنیادپر، خطرے میں حصے داری اور ذمے داری میں شرکت کی بنیاد پر معیشت کے قیام کاخواہاں ہے۔ اس کے معیشت کے منتظمین اور معاشی و مالیاتی تنظیموں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسلامی اصولوں پر قائم معیشت کارخ زری منافعوں کے بجاے حقیقی طور پر اثاثوں کی تخلیق کی طرف ہوگا۔ بلاشبہہ ایسی معیشت زیادہ مستحکم و زیادہ مادی ترقی کی طرف مائل، زیادہ مبنی بر مساوات اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے شراکتی ہوگی۔

  •   اسلام کا عالم گیریت کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے، تاہم اس کا عالم گیریت کا تصور کسی قوم کی اجارہ داری کے بجاے ’توحید‘ سے منسوب ہے۔ توحید میں انسانیت کی وحدت مضمر ہے۔ امت مسلمہ فکری اور تاریخی لحاظ سے ایک عالم گیر برادری ہے۔ انسانی تاریخ میں عالم گیریت کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے ہوا۔ پوری دنیا کو ایک عالم گیر بستی میں تبدیل کرنے کی حالیہ تبدیلیاں ایسے شان دار مواقع پیش کرتی ہیں، بشرطیکہ یہ عمل صحیح اور عادلانہ ہو۔ اسلام کا واسطہ عالم گیریت کے طور طریقوں کی نوعیت، سمت، سماجی و اخلاقی نتائج سے ہے۔ آج کی عالم گیریت بذاتِ خود کوئی پریشانی کامعاملہ نہیں ہے۔حقیقتاً یہ انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ یہ عمل منصفانہ ہو اور اس کے پردے کے پیچھے طاقت ور قومیں، کمزوروں کااستحصال کرتے ہوئے ان پر اپنی بالادستی قائم نہ کریں۔

میں یہاں پر علامہ ابن خلدونؒ کے تجویز کردہ سماجی و معاشی تنظیم کے بین الاداراتی متحرک ماڈل کاخلاصہ پیش کروں گا، جو انھوں نے اپنے وقت کے حکمران کو پیش کیا تھا۔ آج کے زمانے میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔وہ کہتے ہیں:

  •                خلیفہ (الملک) کے بغیر شریعت کانفاذ نہیں ہوسکتا۔
  •                خلیفہ، عوام (الرجال) کے بغیر قوت حاصل نہیں کرسکتا ۔
  •                دولت (المال) کے بغیر عوام زندہ نہیں رہ سکتے ۔
  •                ترقی (العمارۃ) کے بغیر دولت حاصل نہیں کی جاسکتی ۔
  •                عدل (العدل) کے بغیر ترقی حاصل نہیں ہوسکتی ۔
  •                عدل وہ میزان(المیزان) ہے، جس پر اللہ تعالیٰ انسانوں کا حساب لے گا۔
  •                اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ عدل کو قائم کرے۔۱۰؎

عالمی معیشت و معاشرت کے لیے عادلانہ ماڈل

یورپی و امریکی سرمایہ داری کی بین الاقوامی پہنچ ، اور عالم گیر نظام سرمایہ داری ایک حقیقت ہے۔ قضیہ یہ نہیں ہے کہ ان مختلف ممالک اور علاقوں کے درمیان کوئی سنجیدہ اختلافات ہیں جو سرمایہ داری کے راستے پر گامزن خیال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال کرنا بھی غیرحقیقی اور دورازکارہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس چھتری کے نیچے آنے کے خواہش مند ہیں۔ بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی تناظر میں بہت سے یورپی ممالک اور فکری و سیاسی قوتیں غیر مشروط اور مکمل طور پر نظام سرمایہ داری کے تحت آنے پر ناخوش ہوں گی۔ جاپان اس کی ایک مثال ہے۔ مغرب ان کو اپنے کیمپ میں شمار کرتا ہے، جب کہ جاپانی گذشتہ دو عشروں سے اس پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ وہ مغربی اثر سے باہر رہیں۔

سرمایہ داری کا مستقبل

۱۹۸۰ء کے عشرے میں شروع ہونے والے معاشی جمود سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے تجربے کے بارے میں شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورت حال کے سایے بڑھتے جارہے ہیں۔ اشتراکیت کے خاتمے کے بعد روس پورے جوش و خروش سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھا۔ لیکن اس باب میں بھی وہ اپنے آپ کو ناکام پاتا ہے۔ چین نے ایک ملک میں دونظام اپنانے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مشرقی ایشیاکی معیشتیں۹۸-۱۹۹۷ء کے بحران کے بعد سے سکڑچکی ہیں اور ان کے خیالات بدل چکے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے اپنے تحفظات ہیں۔ مجموعی تصویر دھندلی اور شکوک پیدا کرنے والی ہے۔

میرے خیال میں عالم گیر معیشت اور معاشرت اتنے شکستہ اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ معیشت کا کوئی ایک ماڈل ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ حقائق کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے غیرمغربی دنیا کے لوگوں کی سوچ اس بات کو لازم کرتی ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ایک سے زائد نظاموں (کثرتی نظاموں) پر مشتمل دنیا کا ایسامنظر پیش کیا جاسکے کہ جس کے نتیجے میں ایسا کھلا معاشرہ وجود میں آئے، جہاں خیالات، ٹکنالوجی، اشیا و خدمات، مالیات اور انسانوں کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ عمل کامیاب بنانا مقصود ہو تو اسے بالکل شفاف اور باہمی برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس کی بنیاد اصلاً مفادات طاقت وری اور بالاتری پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معاملات کو عدل اور راست بازی کی بنیاد پر چلایا جانا چاہیے۔ بالاتری پر مبنی نظام تب تک ہی چل سکتا ہے جب تک طاقت کا توازن خراب نہیں ہوتا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ طاقت کے توازن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۱۱؎ حقیقتاً تاریخ درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔    ہم نے اپنی زندگی ہی میں اس طرح کی کئی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ پس، سبق یہی ہے متعلقہ مفکرین اس بات پر غور کریں کہ ایک بالاتر نظام کے بجاے یہ دنیا ایسی حقیقی کثرتی دنیا ہو، جس میں اندرونی تبدیلیوں کے باوجود ، تعاون اور مقابلے کی قوتیں کام کر رہی ہوں۔

میری یہ سوچی سمجھی راے ہے کہ مسلم دنیا کبھی خوشی کے ساتھ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گی۔ بلاشبہہ ہم مفید تعاون کے لیے خیالات و تجربات کے تعامل کے لیے آمادہ ہیں۔ سرمایہ داری میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو عالم گیر ہیں اور وہ دوسرے نظاموں کے اندر بھی موجود ہیں۔ لیکن اس میں بہت کچھ وہ ہے جو خصوصی طور پر اس کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی کی استعماری قوتوں کے ساتھ اس کا تعلق اور موجودہ دور میں صرف واحد سوپرپاور کے ساتھ اس کا تعلق ہونا، غیر مغربی دنیا میں اس کے داخلے کو مشکوک اور غیر متوازن بنادیتا ہے۔ مفادات ، تمنائوں اور اقدار کا فرق، اس کے عالم گیر نظام بننے کی راہ میں نہ صرف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، بلکہ اس نظام کے پسندیدگی کے حوالے سے بہت سے سوالات پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

نظام سرمایہ داری دنیا کے مختلف ممالک کے لیے کبھی بھی فائدہ مند نہیں رہا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے تجربات تو بہت تلخ ہیں۔ یورپ اور امریکا میں نظام سرمایہ داری کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں اور دنیا کی آدھی آبادی غربت کا شکار ہے۔ معروف سرمایہ دارانہ ممالک میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ قرضوں کا پہاڑ نہ صرف ترقی پذیر دنیا کے لوگوں کی کمرتوڑ رہا ہے بلکہ پوری دنیا کے لوگ اس سے پریشان ہیں۔ مالیاتی عدم استحکام کا جن بوتل میں بند نہیں کیا جاسکا۔ بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی ناہمواریاں انسانیت کے جسم کا رستا ہوا ناسور ہیں۔ سرمایہ داری کو ابھی اپنا گھر درست کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، قبل اس کے کہ یہ بقیہ انسانیت کی توجہ کا مرکز بن سکے۔

اسی لیے اس تحریر کا مقصد موجودہ یا کلاسیکی سرمایہ داری کے مقدمے پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار عالم گیر نظام کا وژن پیش کرنا ہے۔ نظام سرمایہ داری کو ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہر مفہوم کے لحاظ سے ذمہ دار ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو اخلاقی پہلو معدوم ہیں ان کے ساتھ سرمایہ داری کے مستقبل کے بہتر بننے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے ذمہ دار  عالمی نظام کے وژن کی ضرورت ہے، جہاں مختلف اعتقادات اور ثقافتوں پر مبنی دوسرے معاشی متبادلات کے لیے بھی یکساں مواقع موجود ہوں۔

جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے، اسے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان باہمی انحصار کی اہمیت کا ادراک ہے۔ مکالمہ، مشترکہ معاشی کاروبار، بڑھتی ہوئی تجارت، نظریات، اشیا اور انسانوں کا تبادلہ مستقبل کے تعاون کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ عدل کے تقاضے پورے کیے بغیر اور ایسا سیاسی اور انتظامی ڈھانچا تشکیل دیے بغیر دنیا کی ریاستوں، معیشتوں اور لوگوں کے درمیان حقیقی عدل  قائم کرنے کی خواہش اور پُرامن، خوش حال اور عالمی انسانی معاشرے کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔

ہم نے اسلامی تناظر میں، عالم گیر سرمایہ داری کے چیلنج کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور کچھ ایسے پہلوئوں کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو سرمایہ داری کو بطور چیلنج درپیش ہوں گے۔ اگر سرمایہ داری واقعی ایک ’ذمہ دار نظام‘ (Responsible System) بن جاتا ہے تو بہت سے سماجی و معاشی نظاموں کے باہمی طور پر مل جل کر رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امتحان اس بات میں پوشیدہ ہے کہ نظام سرمایہ داری کس حد تک صرف ایک نظام نہیں بلکہ ایک   ذمہ دار عالم گیر نظام بننے کے لیے تیار ہے؟ بصورت دیگر نظام سرمایہ داری یورپ و امریکا کی بالادستی کے لیے ایک وسیلہ بنا رہے گا اور دوسری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو نہیں جیت سکے گا۔ مزید برآں اس کے نتیجے میں مغربی دنیا کے اندر سے بھی پھوٹ اور چیلنجوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

مستقبل کا معاشی نظام

مسلم دنیا سیاسی و معاشی طور پر کمزور ہوسکتی ہے، لیکن مسلم مفکرین اور عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ اسلامی معاشی نظام اقدار پر مبنی ہے او راس کے اپنے بنیادی اصول اور ادارے ہیں۔ یہ اپنے نظام کے اندر فطری معیشت کے ایسے اہم عناصر رکھتا ہے، جو اپنی مثال آپ ہیں، مثلاً انفرادی آزادی،حقوق ملکیت، منڈی کی میکانیت، منافع کا محرک اور دولت پیدا کرنے اور وسائل تقسیم اور فرد اور اجتماع کی بہبود کے لیے قانونی اور اداراتی انتظامات۔

اسلامی نظامِ معیشت منفرد تو ہے مگر خود مختار نہیں۔ یہ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب کاایک جزو ہے اور مسلم علاقوں میں ایک ایسے عالم گیر اور کھلے معاشرے کاخواہش مند ہے، جس کا یہ خود بھی ایک حصہ ہو۔ اس سے ایک ایسا عالمی معاشرہ تشکیل پائے گا، جہاں مختلف ثقافتیں اور نظام بقاے باہمی کے اصول پر موجود ہوں۔ اگر سرمایہ داری کی کچھ اہم اقدار اور اسلامی نظام میں کچھ یکسانیت موجود ہے تو دوسری جانب اسلامی عقائد اور ثقافت کے منفرد اصولوں کی بنا پر بہت سے نمایاں اختلافات بھی ہیں۔ اسلامی معاشی نظام اپنی ثقافت اور تہذیب کے تناظر میں روبہ عمل آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ماہرینِ معیشت، نظام سرمایہ داری کی کسی قسم کو اپنی دنیا میں برتر قوت نہیں دیکھنا چاہتے۔ سطحی رعایتیں یا مذہب و ثقافت پر مبنی اقدامات بنیادی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتے۔

عالم گیر میدان کش مکش میں مقابلہ کرنے والوں کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تمام مذاہب اور تہذیبوں میں کچھ اقدار یکساں نوعیت کی ہیں، جو باہمی تعلق، تعاون اور میل ملاپ کے لیے بنیاد فراہم کرسکتی ہیں۔ دنیا پر حاوی ہونے کا ایک ہی نظامِ سرمایہ داری کا نظریہ، تکثیریت (Pluralism) پر مبنی ایک ایسی دنیا کی نفی ہے، جو کسی کی بھی بالاتری اور برسرپیکار تہذیبوں کے درمیان ٹکرائو سے آزاد ہو۔ میرے جیسے لوگوں کو جو بات اچھی لگتی ہے اور حوصلہ دیتی ہے، وہ ایک ایسی دنیا کاتصو رہے جس میں تمام شرکا کو یہ اعتماد حاصل ہوکہ وہ اپنی اقدار کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے ایک عالم گیر نظام کے باہم شراکت کار ہیں۔ موجود عالم گیر سرمایہ داری کاالمیہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں رہنے والے لوگوں کااعتماد حاصل کیے بغیر: باہمی اقدار اور رضامندی اور غیر رضامندی کی حدود کے بغیر،ایسی راہوں کو اختیار کیے بغیر جو معاشی ناہمواری کو کم کرسکیں، مفادات اور معاملات میں مطابقت پیدا کرسکیں، اور ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیے بغیر جس کے اپنے ادارے تمام لوگوں کے لیے آزادی، شراکت اور بہبود کو یقینی بناسکیں،بالادستی چاہتا ہے۔   حتیٰ کہ عالم گیر سرمایہ داری کا بڑا علَم بردار، جارج سوروس اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود اور پرامن،خوش حال اور عادلانہ عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے منڈی کی میکانیت،انفرادی آزادی او رجمہوری اقدار ناگزیر ہیں اور مارکیٹ فنڈامنٹلزم (Market Fundamentalism) معاشی ترقی، مالیاتی وسائل، تکنیکی مہارتوں اور سیاسی قوت میں تفاوت صحت مند عالم گیریت کی راہ میں معاون نہیں بلکہ رکاوٹیں ہیں۔۱۲؎

آزادانہ تجارت بہت اچھی بات ہے، لیکن اسے استحصال کے بجاے شائستہ اور مناسب تجارت بننا چاہیے۔ ترقی ایک بہت پسندیدہ ہدف ہے، لیکن یہ ترقی سب کے لیے ہو۔ دولت  خوش حالی کا ذریعہ ضرور ہے، لیکن یہ خوش حالی تمام لوگوں اور علاقوں کے لیے ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر اخلاقی پہلوئوں کی برتری قائم ہو اور استعداد کار کے ساتھ ساتھ عدل کو عالم گیر نظام کابنیادی پتھر بنایا جائے۔

  •  خلاصہ بحث: سرمایہ داری کلی طور پر ذاتی مفاد کے محرک پر مبنی ہے، جس کا اظہار زیادہ سے زیادہ افادہ ، زیادہ سے زیادہ منافع اور زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی صورت میں ہوتا ہے۔ منڈی ہی پوری معیشت کی راہیں متعین کرتی ہے۔ اشتراکیت نے ساری توجہ پیداوار کے طریقوں اوران کو کنٹرول کرنے پر مرکوز کردی تھی۔ اس طرح منڈی پر حاکمانہ معیشت کو برتری حاصل ہوگئی تھی۔ دونوں نظام چند حقیقی عناصر رکھنے کے باوجود یک طرفہ ہونے کی وجہ سے غلط راہ پر چلے اور بعض اوقات بہت روشن ہونے کے باوجود ناکام ہوئے۔

اسلام انسان اور طریق پیداوار دونوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور ان کو متوازن اور   ہم آہنگ بناتا ہے۔ اصل مرکزِ توجہ انسان کو بناتا ہے اور ان کی خوش حالی اس کا اصل مقصد ہے۔ ذاتی مفاد، نجی ملکیت اور کاروبار اور محرک منافع کا پوری طرح تحفظ کرتا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت کو سب سے بڑا کردار حاصل ہے۔ اسلام منڈی سے بلند ہوکر تمام سطحوں پر اخلاقی اصولوں،اقدار اور احکام پر توجہ کرتا ہے جو کہ انسانی محرک ،اداروںاور عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فرد اور اجتماع کی بھلائی میں اشیا (Public Goods) میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے ذاتی مفاد کو اعتدال پر لانے کی بھی اسے فکر ہے۔

اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل کے لیے اسلام ایسے سماجی و معاشی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے افراد اور معاشرے کی اخلاقی تربیت و تشکیل اور قانونی اداروں کا قیام عمل میں لاتا ہے۔ انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور معاشی عمل کے لیے لامحدود مواقع کی فراہمی، اخلاقی اقدار، اخلاقی قوانین اور عدالتی و قانونی دائرۂ کار کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ ریاست جابرانہ یا آمرانہ انداز اختیار کیے بغیر اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تمام معاشی سرگرمیاں زندگی کے مقصدِ اعلیٰ کے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ثقافت اور معاشرے کے تناظر میں عمل میں لائی جاتی ہیں۔

اس حوالے سے پروفیسر ڈننگ جان  کی تین C کے ساتھ۱۳؎ مزید چار C کا اضافہ کرتے ہوئے اور ان کی معنویت کو وسیع تناظر میں پیش کیا جارہا ہے(یعنی حسب ذیل نکات کا پہلا حرف ’C‘ ہے)۔اسلامی نظام کی محرک قوتیں درج ذیل ہیں:

۱- ذمہ داری، لگن (Commitment): ایمان کی بنیاد پر قائم احساس ذمہ داری اور توحید (اللہ کی وحدانیت) پر مبنی تصورِ دنیا (World view) ، انسانیت کی وحدت اور مساوات، اس احساس ذمہ داری میں شرکت، کمیونٹی اور معاشرے کو مضبوط بنانے والی قوت ہے۔

۲-  کردار (Character):  تمام مردوں اور عورتوں میں جو معاشرے کی تعمیر کے لیے بنیادی اکائیاں ہیں، ایک متوازن شخصیت کا ارتقا اسلام کے تصورِ تقویٰ، یعنی اخلاقی نظم و ضبط، اللہ اور عوام کے سامنے احتساب کے مضبوط احساس کی بنیاد پر۔

۳- تخلیق (Creativity): علم، ذاتی فائدے، تکنیکی جدت اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت، نیز اچھے کاموں میں شرکت اور زندگی میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کا جذبہ۔

۴-مقابلہ، مسابقت (Competetion):  آزادی، مواقع، جدوجہد اور مسلسل کوشش کے ذریعے ان مادی اور انسانی وسائل کو بروے کار لاکر ذاتی، معاشرتی، دنیاوی او راخلاقی مقاصد کے لیے مقابلہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن (البقرہ ۲:۱۴۸) خیر اورنیکی کے کاموں میںصحت مندانہ مسابقت کے اصول پر زور دیتا ہے۔

۵-  تعاون (Cooperation ): مقابلے کی قوتوں کی تقویت اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے، نقصان پہنچانے والا بننے سے روکنے کے لیے تعاون۔ مقابلہ اور تعاون دونوں مل جل کر اتفاق باہمی، معاشرے اور انسانیت کے لیے اتفاق و اتحاد کا باعث بنتے اور جدت و ترقی کے لامحدود مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مقابلے و تعاون کے لیے جو ادارہ سب سے بنیادی اہمیت اور انفرادیت کا حامل ہے، وہ خاندان ہے۔ مزید برآں معاشرہ مقامی، قومی، علاقائی اور عالم گیر    سطح کے اداروں کے ایک جال کے ذریعے ہر انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بین الانسانی رشتوں، اعلیٰ ترین معاشی و سماجی شراکت کاایک ماڈل پیش کریں۔ رسول کریمؐ نے پوری انسانیت کو عیال اللّٰہ (اللہ کا کنبہ) فرمایا۔

۶- شفقت، ھمدردی (Compassion):اسلامی تناظر میں شفقت و ہمدردی  اور عدل و احسان کا حسین امتزاج ہے۔ عدل کا مطلب تمام معاملات میں انصاف ہے اور اس سے مراد ہر ایک کو اس کا حق دینا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کااحترام اور ان حقوق کو پورا کرنا ہے۔ ’احسان‘ کا درجہ ’عدل‘ سے بھی اوپر ہے۔ اس سے مراد فیاضی، فضیلت، بہت اچھے طریقے سے کسی کام کو سرانجام دینا، رحم، محبت اور قربانی کے جذبے اور عمل میں ترقی ہے۔ یہاں تک حکم ہے کہ جو انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے اس سے بڑھ کر دوسروں کے لیے پسند کرے۔ یہ برابری کی وہ سطح ہے کہ جس پر باہم معاملات کرنے (reciprocity) سے بھی بڑھ جانا، یعنی دوسروں سے ہم وہ توقع کریں جو وہ ہم سے توقع کرتے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہرشخص دوسرے کی بہتری کے لیے اپنے حقوق کی قربانی دے دے۔ اطالوی ماہرمعاشیات ولفریڈو پاریٹو (م: ۱۹۲۳ئ)کا نظریہ انسانی چنائو (choice) کے اونچے درجے کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یوں ’عدل‘ کے ساتھ ’احسان‘ مل کر اسلام کے حقیقی شفقت کے نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔

۷- بقاے باھمی (Coexistence): اس کا مطلب ہے آزادی، برداشت، باہمی احترام اور مل جل کر رہنے کا عہد۔ یہ صحیح تکثیریت (plurality) ہے جہاں اپنی پسندیدگی کی قربانی دیے بغیر اور صحیح بات کے ساتھ اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہوئے اختلاف (diversty) کو قبول کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے ’تکثیریت‘ دیانت داری کے ساتھ ہو اور اس سے ایسا باہمی میل جول وجود میں آتا ہے جو بغیر کسی کو نیچا دکھائے، برتری جتلائے یا آمرانہ طور پر اپنی بات منوائے۔ یہ نمونہ افراد، گروہوں، قوموں، ریاستوں، علاقوں، آبادیوں، اور مذاہب اور نظریات سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کا فطری نتیجہ مکالمہ ہے نہ کہ زبردستی یا بے جا مداخلت۔ صحیح اختلافات اور تنوع اس     فریم ورک کا مقصد ہیں۔ جس میں بہت سی لچک ہوسکتی ہے اور باہمی طور پر اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر کچھ لو اور دو (Give and Take) ہوسکتا ہے۔ بقاے باہمی کا یہ بھی تصور ہے کہ معاشرے میں ایسے مؤثر طریقے ہوں جو آپس میں مل جل کر رہنے اور اختلافات اور جھگڑوں کو  حل کرنے کے قابل ہوں اور تمام اختلافات کے باوجود باہم مل کر رہنے کا عہد ہو۔ یہی عدل اور آزادی کے ساتھ امن کا ایک ماڈل ہوسکتا ہے۔

یہ تمام حکمت عملیاں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اسلامی تناظر میں دونوں پالیسیاں بیک وقت اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ایک کو دوسرے کا حصہ بناکر اخلاقی اقدار، زری و مالی ترغیب، مادی انعام اور سزا، ایثار، قربانی،ہمدردی، روایت و رسم ، عوامی آرا، معاشرتی ادارے، قانون اور ریاست تمام اپنا لازمی لیکن محدود کردار ادا کرتے ہیں۔ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین اپنی ذات کے اندر سے نافذ کرنے والے عمل مسلم معاشرے کے بنیادی ستون ہیں۔ صرف جامع اور باہم،   زیادہ مربوط طریقے سے ہی ایک عادلانہ و باہم مربوط اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والا معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

آزاد نظریے کے مغربی نمونے میں مرکزی ہدف آزادی ہے اور اس معاشرت کی ہر شے اسی کے گرد گردش کرتی اور اس سے نکلتی ہے۔ اسلامی نظریے میںآزادی ، عدل، یکجہتی اس کے اہم ترین کردار ہیں۔ ’عدل‘ کے معنی توازن اور مطابقت کے بھی ہیں۔ ان تینوں کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور یہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور ان کے باہم ملنے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر انسانی ذہانت (human genius) حقیقی طور پر بارآور ہوتی ہے۔ یہ چیز اسلامی نظریے کو منفرد بناتی ہے۔

اسلام دوسرے الہامی مذاہب کی طرح ایک اور بہت ہی اہم پہلو کو اپنے طریق کار (strategy) کی کہکشاں میں شامل کرتا ہے ،اور وہ یہ کہ آخری انعام تو آنے والی زندگی میں ملنے والا ہے۔ مادی دولت مندی، سماجی بھلائی، روحانی مسرت اور ہمیشہ کی سلامتی، کامیابی و فلاح کے ماڈل کے متفرق پہلو ہیں۔روحانی اور مادی پہلو ایک ہی تصورِحیات کے دو رُخ ہیں۔ زندگی ایک نامیاتی کل ہے۔ موت زندگی کااختتام نہیں، بلکہ زندگی کے ایک نئے دور کے نقطۂ آغاز کو ظاہر کرتی ہے۔ زندگی اور زندگی بعد الموت ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں۔ دنیا میں انسان کی حیثیت اور ہرمرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ اور کائنات کے ساتھ تعلق بہت منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ بامقصد انسانی منزل کے کلی نظریے میں لادینی (سیکولرازم) اور تقدیس ایک دوسرے میں گم ہوجاتے ہیں۔ ماورا کی حدود انسانی پہنچ میں آ جاتی ہیں۔ یہ چیز نظام کو یکتا (منفرد) بناتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کا کسی دوسرے ’ازم، (Ism) کے ساتھ موازنہ کیا جائے اور اس میں سے کسی اور نظام کو تلاش کیا جائے، تاہم یہ ممکن ہے کہ مختلف ازم اور اسلام اکٹھے رہ سکتے ہیں اور اپنی حیثیت برقرار  رکھ سکتے ہیں۔ آپس میں مقابلہ و تعاون کرسکتے ہیں اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے کام کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات

۱-            ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ۲۰۰۰‘ اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ص ۱۵۶-۱۶۰۔

۲-            ابراہام ادووچ، The Islamic Middle East 700-1900، ڈارون پریس، ۱۹۸۱ئ، تھامس آرنلڈ، اور الفریڈ گولیوم The Legacy of Islam، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۳۱ئ، ص ۱۰۰-۱۰۶۔

۳-            محمدعمر چھاپرا، Islam and the Economic Challenge، دی اسلامک فائونڈیشن،لسٹر، ۱۹۹۲ئ۔ محمدعمرچھاپرا: Future of Economics ، ۲۰۰۰ئ۔ محمدنجات اللہ صدیقی، Muslim Economic Thinking، دی اسلامک فائونڈیشن ، لسٹر، ۱۹۸۱ئ۔ پروفیسر خورشیداحمد، Islamic Approach to Development،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، ۱۹۹۴ئ۔

۴-            البقرہ ۲: ۲۵۶، ۲:۳۸،۳۹، مریم ۱۹:۱۳، المائدہ ۵:۴۸۔

۵-            ابوحامد الغزالی، المصطفٰی، بحوالہ محمد عمر چھاپرا، Future of Economics، ص۱۱۸۔

۶-            محمد عمر چھاپرا، اسلامک اکنامک تھاٹ اینڈ دی نیوگلوبل اکانومی، Islmic Economic Studies، ستمبر ۲۰۰۱ئ، ص ۸۔

۷-            لسٹر تھرو، The Future of Capitalism، نکولس بریلی، لندن، ۱۹۸۶ئ، ص ۳۰۔

۸-            محمد عمر چھاپرا، اسلامک اکنامک تھاٹ اینڈ دی نیوگلوبل اکانومی، ، ص ۷۔

۹-            آغا خان فائونڈیشن، Philanthrophy in Pakistan، ۱۹۸۸ئ، ص ۴۶۔

۱۰-         محمدعمر چھاپرا، Future of Economics،ص۱۴۷، ۱۴۸۔

۱۱-         پال کینیڈی، The Rise and Fall of Great Power،  ۱۹۸۷ئ، ص ۶۸۹۔

۱۲-         جارج سوروس، The Crisis of Global Capitalism، ناشر: لٹل برائون کمپنی، لندن، ۱۹۹۸ئ۔

۱۳-         ڈننگ جان: The Moral Imperatives of Global Capitalism، پہلا باب۔