انجینیر گلبدین حکمت یارمعروف مجاہد اور حزبِ اسلامی افغانستان (حکمت یار گروپ) کے صدر ہیں۔ اشتراکی سامراج کو شکست دینے اور سوویت یونین کے توڑنے میں ان کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ طالبان کے اقتدار کے بعد انھوں نے کش مکش سے اجتناب کیا اور ان کی توجہ مطالعے اور تصنیف وتالیف کی طرف مبذول رہی (نائن الیون کے بعد حزبِ اسلامی محدود پیمانے پر پھر سرگرمِ عمل ہوگئی)۔ ان کی گوشہ گیری کا ایک ثمر پشتو میں قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے۔ قرآن پلوشی جس کا اُردو ترجمہ پیش نظر ہے۔
اُردو میں تراجم و تشریحاتِ قرآن کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی مگر پشتو میں ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ حکمت یار صاحب نے پشتو میں قرآن کے ’دل کش اور دقیق ترجمے کی کمی کو پورا کرنے‘ کے مشکل کام کا بیڑا اُٹھایا۔ اس ’مشقت طلب کام‘ میں انھوں نے ہرلفظ کے دقیق ترجمے کے ساتھ آیات کی خوب صورت اور دل کش ادبی تراکیب کا بھی خیال رکھاہے۔ قرآنی تراکیب اور آیات کے تین تین ، چارچار متبادل ترجمے دے کر بتایا ہے کہ کون سا ترجمہ دقیق اور بہتر ہے اور کیوں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ممکنہ حد تک ہر لفظ کا نہایت ’امانت داری‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے الفاظ کی تعداد، آیت کے الفاظ کی تعداد کے برابر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں دی گئی فہرست کے مطابق انھوں نے عربی، فارسی اور اُردو کے تقریباً ۵۰تراجم و تشریحات اور کتب ِ لُغت سے استفادہ کیا ہے۔
اس تفسیر سے کہیں کہیں حکمت یار صاحب کے شخصی احوال کا بھی پتا چلتا ہے، مثلاً یہ کہ ۲۰سال قبل کی حفظ کردہ سورہ آلِ عمران نمازِ فجر میں تلاوت کرتے ہیں تو دورانِ تلاوت کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا ہے اور جواب کے لیے بہت سی تفاسیر دیکھتے ہیں۔ تلاوت کے دوران میرے سامنے ہرمرتبہ ’’سورت کے نئے نئے ابعاد اور ابواب کھلتے ہیں‘‘ ( جلداوّل،ص ۲۱۶)۔ اسی طرح ان کے نظریات کا بھی علم ہوتا ہے، مثلاً جہاد کی فرضیت کے قائل ہیں مگر ان کے نزدیک یہ جہاد انفرادی نہیں ایک ’’منظم اور تربیت یافتہ حزب اور جماعت کا کام ہے‘‘ نہ کہ افراد اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کا۔ ایک ایسے حزب کا جو تربیت یافتہ ہوکر کندن بن چکا ہو، جن کا اسلحہ ان کے ایمان کے تابع ہو، نہ کہ ان شدت پسند جذبات و احساسات کے تحت انتقام اور بدلہ لینے لگیں۔ (ایضاً، ص ۴۱۷)
اُردو ترجمہ ڈاکٹر عبدالصمد اور ان کے معاون محمد اسلام علوی کی دل چسپی وکاوش کا نتیجہ ہے۔ حکمت یار بعض مسائل پر دیگر مفسرین کا موقف بیان کرتے ہوئے کہیں ان سے اتفاق اور کہیں اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے سابقہ مفسرین سے استفادہ بھی کیا ہے، مگر وہ کہیں کسی کا نام نہیں لیتے۔ اُردو ترجمے میں تو تفہیم القرآن کا اثر نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبدالصمد نے لکھا ہے کہ میں حکمت یار کی بعض چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا، مثلاً اپنے موقف سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والوں پر سختی سے نکیر یا بعض وقتی اور علاقائی ایشو کو زیربحث لانا (جلداوّل،ص ۴) وغیرہ۔ قرآن کی کرنیں کی چار جلدیں (چہارم تا ہفتم) غالباً تاحال طبع نہیں ہوئیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخ اسلامی سے وابستہ، ڈاکٹر شکیل احمد اوج (یکم جنوری ۱۹۶۰ئ-۱۸ستمبر ۲۰۱۴ئ) عصری تہذیبی مسائل پر غوروفکر کرکے قلم اٹھاتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب تراجم، نسائیات، تعبیرات اور صاحبِ قرآن کے علاوہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا علمی و فکری مجلہ ششماہی التفسیر میں ملتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ اس مجلے کے ۲۳شمارے منصہ شہود پر آئے ہیں۔ زیرنظر خصوصی شمارہ اُردو کے مفسرینِ قرآن اور ان کی تفاسیر سے متعلق ہے۔
مدیر نے اس احساس کے باوجود کہ اکثر مفسرین ایک دوسرے سے جزوی یا کُلی اختلاف رکھتے ہیں، اس بات کو ترجیح دی کہ اب تک ہونے والے تمام تفسیری کام پر نظر ڈالی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مَیں ان تمام حضرات کے تفسیری و تفہیمی کام کو ملت اسلامیہ کا مشترک علمی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کو اس علمی خزانے سے بغیر کسی تعصب کے، استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ اسی طرح قرآن فہمی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ کلامِ الٰہی سے وابستہ ہو جائیں۔
تفاسیر کے تجزیوں کے علاوہ تفسیری مباحث سے متعلق چند مضامین بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ’مولانا احمد رضا خاں بریلوی بحیثیت مترجم قرآن‘ (محمد امین)، ’ساختیاتی لسانیات، فہم معانی کا جدید منہج اور ترجمۂ قرآن پر اس کے اثرات‘ (ڈاکٹر حافظ عبدالقیوم)، ’تفسیر قرآن میں کتب سابقہ سے اخذ و استدلال کے اسالیب‘ (محمد خبیب، ڈاکٹر محمد عبداللہ) اور ’جماعتِ احمدیہ کا تراجمِ قرآنِ مجید اور تعلیم قرآن پر کیے گئے کام کا علمی و تحقیقی جائزہ‘ (محمد عمران، ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر)۔
مجلے کے آخر میں مفتی محمد اعظم سعیدی نے کنزالایمان (مولانا احمد رضا خاں بریلوی) پر پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کے تحقیقی مقالے کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا لب و لہجہ اور اسلوب حددرجہ طنزیہ بلکہ استہزائیہ ہے۔ اگر پروفیسر قادری کا مقالہ ایسا ہی بے کار تھا تو مفتی سعیدی نے اس پر ۱۹صفحات اور اپنے کئی گھنٹے کیوں ضائع کیے؟
اوج مرحوم نے اداریے میں اہل علم کو دعوت دی تھی کہ اگر وہ اپنے کسی پسندیدہ یا کسی غیرمعروف مفسر یا مترجم کی خدماتِ جلیلہ پر لکھنے کے خواہش مند ہوں تو التفسیر کے ایک نئے نمبر کے لیے وہ ان کی تحریر کے منتظر رہیں گے لیکن صدافسوس کہ وہ یہ خواہش لیے خالق حقیقی سے جاملے۔ (خالد ندیم)
مصنف کی یہ کتاب اسلام اور سائنس پر شائع شدہ لٹریچر میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔ ہر حدیث ِ نبویؐ کے تحت نبویؐ حکمت یا علماے اسلام کی حکمت اور پھر انسانی تجربے و مشاہدے سے اس کی توثیق کی گئی ہے، مثلاً: باب اوّل ’حفظانِ صحت کے زریں اصول‘ کے تحت ۴۷ ذیلی عنوانات ہیں۔ ۵۸واں ذیلی عنوان ہے: ’خواتین سے مصافحے کی ممانعت اور اس کی حکمت‘ ۔ حضرت میمونہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے ہم سے (کچھ عورتوں سے) قرآنِ پاک کے بیان کے مطابق بیعت لی۔ پھر ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!آپ ؐ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں فرماتے؟ آپؐ نے فرمایا: میں عورتوںسے مصافحہ نہیں کرتا‘‘۔(موطا امام مالک، حدیث ۲۸۳۵)
زیرنظر حدیث میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو انسانی بدن پر ہونے والی تحقیق میں منکشف ہوئے ہیں۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ انسانی جِلد کی سطح پر اَن گنت ایسے خلیات پائے جاتے ہیں جو لمس کے احساس کو دماغ تک منتقل کرتے ہیں اور دماغ اسے محفوظ کرلیتا ہے۔ یہ خلیات بالکل الیکٹرک سنسرز کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر چھونے کا عمل پُرلطف اور لذت سے لبریز ہو تو دماغ میں اس چھونے والے کی پوری شخصیت کا ایک تصور قائم ہوجاتا ہے اور اس کی طرف پُرکشش میلان ہونے لگتا ہے۔ اگر لمس کا یہ عمل مسلسل ہو تو دماغ پر ایک ہیجان اور تشویش سی چھا جاتی ہے جو بالآخر صنفِ مخالف سے ناروا اختلاط تک لے جاتی ہے۔ (روائع الاعجاز العلمی،ج۱،ص ۵۹-۶۰)
اس تحقیق سے خواہ کوئی اتفاق نہ کرے لیکن انسانی تجربہ و مشاہدہ بہرحال اس صورتِ حال کی توثیق کرتے ہیں اور رسولؐ اللہ کے اس احتراز کی سائنسی توجیہہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسی طرح حفظانِ صحت ، تشخیص امراض، مظاہر قدرت، فلکیات اور جدید ایجادات کے عنوانات کے تحت احادیث اور سائنسی علوم کو زیربحث لایا گیا ہے۔
اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وحی خفی و جلی، یعنی حدیث و قرآن علمِ غیب، انسان کے اعمال اور مادی کائنات کی حقیقت واصلیت پر مبنی ہیں۔ سائنسی علم صرف مادی کائنات کی تشریح و توضیح، تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہے۔ اس کے نزدیک ماوراے مادہ و سائنس کی تعبیر و تشریح کوئی قطعی حقیقت نہیں رکھتی۔ پھر آج کی بیان کردہ حقیقت کل بدل بھی سکتی ہے، لہٰذا سائنس کی تشریح وتوضیح حدودِ مادہ کے اندر تو ’علم‘ کا مقام رکھتی ہے، ورنہ نہیں۔بقول مصنف: سائنس اور وحی کے مابین یہ کوئی نزاعی تحقیق نہیں ہے بلکہ حدیث نبویؐ میں سائنسی استدلال کو واضح کرنے کی ایک ابتدائی کوشش ہے۔ اہلِ فن کے لیے صلاے عام ہے کہ وہ اس میدان میں دادِ تحقیق دیں، تصحیح و اضافہ فرمائیں اور اپنے علمی جواہرپاروں سے اصحابِ ذوق کو فیض یاب کریں۔ (شہزادالحسن چشتی)
تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مصلحین پیدا کیے جنھوں نے انتشار و افتراق میں مبتلا اور بے راہ روی کے شکار مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر ایک دفعہ پھر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صراطِ مستقیم دکھایا۔ انیسویں صدی عیسوی میں جہاں برعظیم پاک و ہند میں تحریک مجاہدین کے بانی سیّداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر مسلمانوں میں حریت و آزادی کی روح پھونکی، وہاں محمد بن علی السنوسی (۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) نے سنوسی تحریک برپا کر کے عالمِ عرب میں بیداری کی لہر پیدا کردی۔
زیرنظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سنوسی تحریک نظریاتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے ایک جامع اور اپنے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ہمہ گیر اور عالم گیر اسلامی تحریک تھی۔ اس تحریک کا مقصد عالمِ اسلام کا مکمل روحانی ارتقا، یعنی اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سنوسی تحریک نے ’زاویوں‘ (خانقاہوں) کا نظام قائم کیا تھا۔ ہر ’زاویہ‘ بالعموم مسجد، سکول، مہمان خانہ، طلبہ کے اقامتی کمروں، مطبخ، تحریک کے وابستگان کی قیام گاہوں کے علاوہ ورکشاپ اور مویشی فارم پر مشتمل ہوتا تھا۔ تحریک کے زیراہتمام ایسے ’زاویوں‘ کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ذکروفکر، درس و تدریس کے ساتھ ان میں ہُنر سکھانے اورعسکری تربیت کا اہتمام بھی ہوتا تھا، تاکہ ان زاویوں کے فارغ التحصیل دعوت و تبلیغ و جہاد کے ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفیل رہیں۔ ان زاویوں کے سربراہ ’شیخ‘ کہلاتے جو زاویے کے انتظام و انصرام کے ساتھ پورے علاقے کے مفتی، مُصلح اور جج کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ اس تحریک نے ایک طرف سیاسی میدان میں اطالوی، فرانسیسی اور برطانوی سامراج کا مقابلہ کیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی بُرائیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور دین و دنیا کی دوئی ختم کرکے معاشرے میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنے کے لیے عظیم جدوجہد کی۔
اس تحریک نے اپنے دورِ عروج میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے ذہن و فکر، دل و دماغ کو متاثر کیا اور سیاسی و اجتماعی طور پر اسلامی تاریخ پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ یوں یہ تحریک بعد میں اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ بن گئی۔ انتہائی اہم موضوع پر اس تحقیقی کتاب کے مطالعے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شان دار تحریک (سنوسی تحریک) عروج کے بعد زوال کا شکار کیوں کر ہوئی؟ مصنف کو یہ تجزیہ پیش کرنا چاہیے تھا۔ مشکل اندازِ بیان اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں قابلِ توجہ ہیں۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
دین کا صحیح فہم حاصل ہونا باری تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن دین پر استقامت اور جذبۂ دینی میں دوام اس سے بھی عظیم الشان نعمت ہے۔ ۱۹۴۱ء میں دین کا درد رکھنے والے ۷۵؍ افراد نے قافلۂ اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن راستے کی دشواریوں، سختیوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت سے لوگ تھک تھک کر رفتہ رفتہ قافلے سے بچھڑتے اور پیچھے رہتے گئے۔ معدودے چند افراد ہی کو تادمِ آخر قافلے سے قدم ملا کر چلنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایسے صاحبانِ عزیمت میں میاں طفیل محمد سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اوّل روز سے کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کا جو عہد کیا تھا، تادمِ واپسیں اس سے سرمواِنحراف نہیں کیا۔ میاں صاحب جب جماعت اسلامی میں شامل ہو رہے تھے تو ایک شان دار کیریئر ان کا منتظر تھا، مگر انھوں نے ایک خندۂ استہزا سے اسے مسترد کر دیا، والد کی شدید ناراضی بھی قبول کرلی (بعدازاں ان کے والد میاں صاحب کے فیصلے سے بے حد خوش تھے اور وفات تک ازراہِ محبت انھی کے پاس مقیم رہے)۔
میاں صاحب کی آپ بیتی مشاہدات کئی برس پہلے پروفیسر سلیم منصور خالد کی توجہ سے شائع ہوئی تھی۔ بعدازاں ان کی شخصیت پر دو ایک کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ زیرنظر کتاب ان کی بیٹی کا اپنے قابلِ فخر والد کو ایک خراجِ عقیدت ہے۔ کتاب کا پورا نام ہے: اہلِ پاکستان کے لیے راہِ نجات، معمارِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی نظر میں۔
میاں صاحب کی وفات پر بہت سے تعزیتی بیانات، مضامین اور کالم چھپے تھے۔ اپنی طویل سیاسی زندگی میں انھوں نے تاریخِ پاکستان کے بعض نازک موقعوں پر حکمرانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کی کوشش کی۔ انھیں خطوط لکھے اور بیانات بھی جاری کیے۔ پروفیسر سمیّہ نے اس کتاب میں میاں صاحب کی ایسی تمام دستیاب تحریریں، خطوط، مصاحبے (انٹرویو) اور بیانات جمع کردیے ہیں جن سے ان کی شخصیت کی کتنی ہی جہتیں واضح ہوتی ہیں اور ان کے افکارو خیالات کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ کتاب میں متعدد تصاویر بھی شامل ہیں۔مؤلفہ کے اپنے دومضامین بھی شامل ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ ترتیب و تدوین اور بہتر ہوسکتی تھی۔(رفیع الدین ہاشمی)
غزل، اُردوشاعری کی ایک توانا صنف ہے جسے کہنے کے لیے اگر گہرا مشاہدہ اور طرزِنگارش مضبوط بنیادیں نہ رکھتا ہو تو غزل کی شکل بنتی ہی نہیں۔ میر، درد اور غالب سے ہوتا ہوا غزل کا سفر موجودہ عہد تک پہنچا تو اس میں گل و بلبل کی باتوں کے ساتھ ساتھ غمِ زندگی کے بکھیڑے بیان کرنے کا سانچا بھی بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اس کوشش میں بالعموم شاعری کی لطافت دم توڑ دیتی ہے۔
تاہم ثمر حسنین نے ۵۴ غزلوں پر مشتمل اپنے اس انتخاب میں جہاں رنگِ تغزل کو محفوظ رکھا ہے، وہیں غمِ ہستی اور آشوبِ عصر کو کامیابی سے ہم قدم بنایا ہے۔ ثمرحسنین کی شاعری میں اچھائی اور بُرائی کی کش مکش کا رنگ نمایاں ہے، لیکن یہ رنگ وعظ کا روپ نہیں دھارتا بلکہ آہستگی سے دل میں سچا پیغام اُتار دیتا ہے۔ اگرچہ اس تبصرے میں اشعار پیش کرنے کی گنجایش بہت کم ہے، تاہم یہ دو مصرعے مجموعی طور پر کلام کے تیور سمجھا سکتے ہیں، جیسے :’’ امیرشہر تو سب سے بڑا بھکاری ہے‘‘، اور ’’لحد پر صرف کتبہ رہ گیا‘‘۔ (سلیم منصور خالد)
oلازوال نصیحتیں ، عاصم نعمانی۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت:۲۶۰ روپے۔[عاصم نعمانی (مولانا محمد سلطان) سیّدمودودی کے معاون خصوصی اور مرکز جماعت اسلامی میں شعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔ اُمت مسلمہ کے شان دار علمی ورثے سے تعمیر سیرت و کردار کے پیش نظر انھوں نے عربی مجموعے الوصایا الخالدہ کا لازوال نصیحتیں کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ اخلاقی و معاشرتی ہدایات پر مشتمل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کے ساتھ ساتھ خلفاے راشدین کے خطابات و نصائح بالخصوص حضرت علیؓ کے ادب پارے اور دیگر مختصر اور جامع اقوال کو یک جا کیا گیا ہے۔ ادارے نے اس کتاب کا نیا اڈیشن اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے، نیز معیاری اسلامی کتب کے تراجم پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ذاتی تزکیہ و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر تذکیر کے لیے مفید انتخاب ہے۔]
o قرآن کا نظا م خاندان، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مادیت اور معاشرتی انحطاط سے خاندان کا ادارہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ خاندان کے تحفظ اور اسلامی خطوط پر تربیت کے لیے اس کتابچے میں خاندانی نظام کے حوالے سے قرآن کی تعلیمات جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ حقوق و فرائض کے علاوہ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت، تین طلاق اور قتلِ اولاد، نیز اولڈ ایج ہوم کی شرعی حیثیت جیسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ خاندان سے متعلق اسلامی تعلیمات پر مصنف کی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔]
o اختلاف، ادب اور محبت ، سیّدثمراحمد۔ ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعات سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۳۵ روپے۔[مذہبی اختلاف کی حقیقت و نوعیت ، اہلِ علم کی روش، اور عصرِحاضر میں مسلمانوں کا رویہ کیسا ہو__ مثالوں اور واقعات سے اختصار کے ساتھ صحیح رویے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اختلافِ راے اُمت کے لیے کیسے رحمت ہے۔ حاصلِ کتاب یہ ہے کہ اختلاف کو ادب اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ مسئلے کو سمجھنے اور عمل کی تحریک پر مبنی ایک مختصر اور مؤثر تحریر۔ مدرسین قرآن و داعیانِ دین کے لیے مفید نکات۔ حوالوں کا اہتمام مزید مطالعے کی ترغیب کا باعث ہوگا۔]
o بوڑھے بادشاہ کی کہانی ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔[ڈائرکٹر ادارہ حافظ محمد ادریس کے قلم سے ’جنت کے پھول سیریز‘ کے تحت بچوں کے لیے بامقصد اور کردار سازی پر مبنی کہانیوں کی اشاعت کا آغاز کیاگیا ہے۔ زیرتبصرہ کہانی بہادر شاہ ظفر اور دیگر پانچ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جنگ ِ آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں اور انگریزوں کے مظالم کا تذکرہ ہے۔ نیز یہ کہ مسلمان کن اسباب کی بناپر زوال کا شکار ہوئے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔]