ڈاکٹر صلاح سلطان معروف عالم دین، نام وَر مصنف و داعی اور دبنگ مقرر ہیں۔ وہ ۲۰؍اگست ۱۹۵۹ء کو مصر میں پیدا ہوئے۔ مختلف موضوعات پر اب تک ان کی ۶۰ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مسلم دنیا میں اہلِ علم کی قدردانی ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد سے وہ اور ان کا نوجوان بیٹا جنرل سیسی کی قید میں ہیں۔
ڈاکٹرصلاح سلطان کا بنیادی تخصص اسلامی قانون ہے۔ وہ مصر، سعودیہ اور بحرین کی کئی اہم یونی ورسٹیوں میں تدریسی اور انتظامی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مختلف اداروں، اسلامی اور علمی تنظیموں میں بڑے عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ متعدد ٹی وی چینلوں پر دعوتی اور اصلاحی پروگرامات کرچکے ہیں۔ بحرین میں وزارتِ مذہبی اُمور کی اعلیٰ کمیٹی کے مشیر اور مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ اسی طرح قاہرہ یونی ورسٹی اور بحرین یونی ورسٹی میں بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ اوپن یونی ورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن بھی رہے ہیں۔ رابطہ علما جرمنی اور عالمی اتحاد علماء المسلمین کے رکن اور عالمی اتحاد علما کی فلسطین کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی اسیری کا ایک سال پورا ہونے پر ایک تفصیلی خط لکھا ہے۔ ایک ربانی عالم دین، جہد پیہم کا خوگر مخلص کارکن کیسا ہوتا ہے، یہ خط اس کا ایک پرتو ہے۔(ادارہ)
وَ مَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَ قَدْ ھَدٰنَا سُبُلَنَا ط وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا ط وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۱۲) اور ہم اللہ پر بھروسا کیوں نہ کریں، اس نے تو ہمیں ہمارے راستے دکھائے، تم ہمیں جو بھی تکلیف دو، ہم تو صبر سے جمے رہیں گے، اور بھروسا کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔
زندگی کے بہت سارے ماہ و سال مہربان رب کے فضل و کرم کے سایے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔ یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔ مسجدوں سے محرومی کہ جہاں میں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔ سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ بیوی اوراولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگرپارے ہیں۔ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔ ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی۔ اہلِ علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کر لگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہنچ گئے۔ صدق و صفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دُور ہوگئی۔ آسمان کی فضائوں میں پرواز کرنے والی، سرسبز و شاداب درختوں کے جمال میں کھو جانے والی، دریا اور سمندر کے صاف و شفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھڑی میں یہ سب کہاں میسر۔ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور کسی بیمار کی مزاج پُرسی کے موقعوں سے محرومی۔
جب مَیں جیلروں کی دسترس میں پہنچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ مَیں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قیدتنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ ’’لیمان میں رحمن کا عرفان حاصل ہوا‘‘ اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیاگیا، تو مَیں نے اسے یہ عنوان دیا کہ’’عقرب میں ہم اللہ سے اقرب (زیادہ قریب) ہوگئے‘‘۔ اللہ سے قریب تر ہونے کے لیے شاہِ کلید تو قرآنِ مجید ہے۔ پس مَیں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ مَیں پہلے نماز کی حالت میں قرآنِ مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہِ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھڑی میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر مَیں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجاے، فَفِروا الی اللّٰہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کر کے مہربان رب کے قریب پہنچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا، اللہ کی ناراضی اور جہنم کی آگ سے دُور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت و انابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردیے۔
بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی [بارآوری] بن گئی۔ قرآنِ مجید کی اُمیدافزا آیتوں کے سایے میں میرے شب و روز گزرنے لگے، جیسے ’’میرا دوست تو اللہ ہے،جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کو دوست بناتا ہے‘‘(اعراف ۷:۱۹۶)۔ ’’وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسا کرنا ہے‘‘ (التوبہ ۹:۵۱)۔ ’’پھر اللہ نے ان پرسکینت نازل کی اور جلدحاصل ہونے والی فتح سے نوازا‘‘ (الفتح۴۸:۱۸)۔’’اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا‘‘۔ (طلاق۶۵:۷)
میرے قلب و وجدان میں اعلیٰ و ارفع معانی گھر کرنے لگے، جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے کہ ہرحال میں وہ خیر سے مالا مال رہتا ہے۔ یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ جب اسے خوش حالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے باعث ِ خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطا کا یہ جملہ کہ ’’جو اللہ کے انعام و اِکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے، اسے آزمایش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے‘‘۔
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبرجمیل اور قناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں اور مَیں نے بھی کمرکس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیے کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی: قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ قرآنِ مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لیے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآنِ مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھے سال سے زیادہ تھے۔ اسی سال بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر،فقہ، اصولِ فقہ، لغت،ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفے میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔ اس سال جیل کے اندر میں نے قرآنِ مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقے، ایمان، اخلاق اورفقہ کے قواعد، اور فتویٰ و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے ۵۰دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلے نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوب صورت ترین ساعتیں عطا کیں۔ اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق و کردار، سوز و انابت، عجزوانکساری اور علم و بصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ رب ارض و سما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔ میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ انھیں میری اور میرے بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی۔ بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، مگر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے۔ مَیں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمایش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابلِ تعریف وستایش ہے، اور جس پراللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آزمایش کے دوران صلہ بھی بہت دیا۔ میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ میری بیٹی حنا کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینیرخالد کی شادی ہوگئی۔ میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکا کی سب سے اچھی یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی۔ میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی حنا نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی اور میرے خاندان میں حفاظ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جو ظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار ہیں اور جن کے دل شجاعت اور وفا کانشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لیے اس طرح نرم ہے کہ گویا مَیں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لیے اتنی سخت ہے، جیسے تیزدھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے باربار دُعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔ قید ہوتے ہی مَیں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس اُمید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعائوں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے،وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لیے بُرے انجام کی، اور صالحین کے لیے استقامت اور سرخ روئی کی دُعا کروں۔
جیل میں ہرشب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگنا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں۔ اللہ کی قسم جیل سے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا،وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا۔ مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت و تزکیے کے کیمپ، علمِ شریعت کے ورکشاپ، یورپ، امریکا، جاپان، پاکستان، ہندستان، ازبکستان اور دیارِ عرب، غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے، اللہ نے اس سے بھی محروم نہ رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا عمدہ پروگرام اپنے اُوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے۔ جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمایش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجاے صبرجمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انھوں نے میرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا۔ ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے ۲۴۰ دن ہوگئے۔ اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگیا ہے۔ اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوتِ ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ میں کئی بار اس کے منہ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں، آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے لیکن اب بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعائیں سنائی دیتی ہیں۔ میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں اور جب اس منزل سے اُتر کر نیچے آتا ہوں تو منہ میں جانے والا ہرلقمہ تلخ لگتا ہے۔ جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہرکھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں۔ حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روزبروز طاقت ور ہورہا ہے۔ آج محمد اس لیے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطلِ عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو! میرے بیٹو اور میری بیٹیو! میں تمھیں خوش خبری سناتا ہوں کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں۔ اللہ کی قسم! اس سال مَیں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمھارے لیے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی ۱۰ سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجائو اور ہمارے لیے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعائوں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پَر دینا بھی میرا تم پر حق ہے۔ فلسطین اور مسجداقصیٰ کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے۔ اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے۔ یہی میری نظربندی کا سبب ہے۔ میری کتابیں، میرے مضامین، میری تقریریں، میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدادوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ اور صفحات پر موجود ہیں۔ میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو۔ اگر تم میرے ہرپیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہنچاتے ہو ، قریہ قریہ، شہرشہر، تو سمجھو کہ تم میری دعائوں کے دائرے میں داخل ہوجائو گے۔ وہ دعائیں جو ہر روز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں، اپنے ہونہار شاگردوں کے لیے، ان کے لیے جو میرے علم و بصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے، دنیا میں عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو اپنے قول و عمل سے مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔
یاد رکھو! جن ظالموں نے مجھے قید کر کے تم سے دُور کر دیا ہے ، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رُوبرو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میر ی ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمھاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا:
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنَ قَرِیْبًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۵۱)اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب، کہو کہ کیا پتا کہ وہ قریب ہو ۔ (سہ روزہ دعوت، دہلی، ۷دسمبر ۲۰۱۴ئ)