’قاضیِ شمشیر، پاکستانی سیاست اور مولانا مودودی، (فروری ۲۰۱۵ئ) سلیم منصور خالد صاحب کا اداریہ بڑا جامع اور پاکستان کی موجودہ حکومت کی سیاست کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ مولانا سیدمودودیؒ نے اس دور کے حالات کے بارے میں اپنی تقاریر اور تحریروں میں جو فرمایا، وہ آج حرف بہ حرف پورا ہورہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ملک پاکستان پر کوئی ایسی ناگہانی آفت آجائے جو اس ملک کی بقا میں حائل ہوجائے۔ ملک میں جو ہورہا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ملک کی حفاظت فرمائے۔
محترم عبدالغفار عزیز کا مقالہ ’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ، (بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑکٹا ہے) اس شمارے کی جان ہے۔ مقالہ بڑا جامع، معلوماتی اور موضوع کے اعتبار سے بڑا علمی اور قاری کی معلومات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ تمام اسلامی ممالک یک جا ہوکر غیرمسلم حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ ایسے اقدام سے باز آجائیں جو وہ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس کے بارے میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ کسی ملک کا مسلمان باشندہ کسی بھی حالت میں اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
’قاضیِ شمشیر‘ (فروری ۲۰۱۵ئ)کی پُرمعنی اصطلاح صرف سیّد مودودیؒ ہی ایجادکرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ اللہ کے ایسے بندے دنیاے فانی سے رخصت ہوجانے کے باوجود رہنمائی و قیادت کے مقام پر فائز رہتے ہیں۔ حقیقت میں سلیم منصورخالد کی مرتب کردہ یہ تحریر، پوری قوم کی سوچوں کو جھنجھوڑنے والی اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے فکری سرمایہ اور راہِ عمل ہے۔ موجودہ سیاسی حالات پر، اس سے زیادہ جامع تبصرہ (اور وہ بھی مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں) اور کیا ہوسکتا ہے؟
عبدالغفار عزیز کا ’مقالہ خصوصی‘ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ پر جامع تحریر ہے۔ اس مقالے میں اس حوالے سے عالمی سطح پر قانون سازی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کا جائزہ لینے اور عملی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی قانون سازی کے نتیجے میں آیندہ کوئی ایسی جسارت نہ کرسکے اور دنیا میں فساد نہ کھڑا کیا جاسکے۔ علمی و قانونی حلقوں کو اس حوالے سے عالمی قانون سازی کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
تین مقالے شمارہ فروری کی جان ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی تحریرات سے ترتیب دیا ہوا ’قاضیِ شمشیر، پاکستانی سیاست اور مولانا مودودی‘ ملک کے موجودہ حالات میں بروقت رہنمائی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے عبدالغفار عزیز کے مقالے میں موضوع کے تمام پہلوئوں کا جامع احاطہ کیا گیا ہے۔ تیسرا مقالہ ’عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات‘ ہے جس میں محترم مدیر نے سرمایہ داری کا جامع تجزیہ کرتے ہوئے جائزہ لیا ہے کہ اس نظام سے انسانیت نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور اکیسویں صدی میں اس کا کیا مستقبل ہے؟
’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ، بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑکٹا ہے‘(فروری ۲۰۱۵ئ) ایک جامع و مدلل تحریر ہے۔ فرانس جو امریکا کا اتحادی بن کر افغانستان میں آیا تھا، مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوکر سب سے پہلے راہِ فرار اختیار کرنے والا ملک ہے۔ اب ’کھسیانی بلّی کھمبانوچے‘ کے مصداق افغانستان میں اپنی شکست و ذلت کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔ شانِ رسالتؐ میں بے ادبی و گستاخی چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے جس ہستی سے رب تعالیٰ نے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کاوعدہ کیا ہو، کوئی اس شان کو گرانا یا کم کرنا چاہے تو یہ اس کی کم عقلی اور حماقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے عملاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ناموسِ رسالتؐ پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ، کیونکہ ایک ہی تو ہستی ہے کہ جسے مسلمان اپنے والدین، اولاد اور تمام انسانیت سے بڑھ کر عزیز جانتے ہیں۔
’غم اور پریشانی سے نجات‘ (فروری ۲۰۱۵ئ) میں لوگ روز مرہ زندگی میں جن مسائل سے دوچار ہیں، ذہنی دبائو اور جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے بارے میں عمدگی سے رہنمائی دی گئی ہے جس سے عزم و حوصلہ ملتا ہے۔ ’رسائل و مسائل‘ میں ’دینی و سیاسی جدوجہد: چند اصولی پہلو‘ کے تحت ڈاکٹر انیس احمدصاحب نے جدید ذہن جن شبہات سے دوچار ہے کی رہنمائی کرتے ہوئے معتدل راہ کی نشان دہی کی ہے۔
’رسائل و مسائل‘میں ’دینی و سیاسی جدوجہد: چند اصولی پہلو‘ (فروری ۲۰۱۵ئ) کے موضوع پر بہت موزوں اور مدلل جواب دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا رہتا ہے۔ اُمید ہے کہ اس کا مطالعہ ان کی ذہنی اُلجھن دُور کرنے کا باعث ہوگا۔