اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

کلامِ اقبالؒ اور پیامِ سیّد مودودیؒ

سعید احمد | اکتوبر ۲۰۲۵ | فکر اسلامی

Responsive image Responsive image

عجب واعظ کی دِیں داری ہے یاربّ! 
عداوت ہے اُسے سارے جہاں سے 

اگر آپ نے جمعہ کی امامت کے لیے کسی دوسرے گروہ کا انتخاب کرنا چاہا تو لامحالہ اس کے لیے آپ کو علما ہی کے طبقے کی طرف رجوع کرنا ہوگا، اور باستثناء چند اس طبقے کے سوادِاعظم کا جو حال ہے اُسے بیان کرنا گویا اپنی ٹانگ کھولنا اور آپ ہی لاجوں مرنا ہے۔ ان حضرات کو اگر آپ نے عام فہم زبان میں من مانے خطبے دینے کا موقع دیا تو یقین جانیے کہ آئے دن مسجدوں میں سرپھٹول ہوگی۔ اس لیے کہ ان میں کا ہرشخص اپنا ایک الگ مشرب رکھتا ہےاور اپنے مشرب میں وہ اتنا سخت ہے کہ دوسرے مشرب والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرنا اس کے نزدیک گناہ سے کم نہیں۔ پھر اللہ نے اس کی زبان میں ایک ڈنک رکھ دیا ہے جس سے دلوں کو زخمی کیے بغیر وہ کوئی بات نہیں کرسکتا۔ وہ جس ماحول سے تعلیم و تربیت پا کر آتا ہے اور جس ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے، وہاں دین کے مہمات اور قوم کے مصالح کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تمام دلچسپیاں سمٹ کر چند چھوٹی چھوٹی نزاعی باتوں میں جمع ہوگئی ہیں۔ اس لیے لامحالہ جب وہ زبان کھولے گا انھی مسائل پر کھولے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کے گھر میں گالم گلوچ اور جوتی پیزار ہوگی اور آخرکار ہرمشرب کے مسلمان اپنے جمعے الگ الگ قائم کرنے لگیں گے۔ یہ تو مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کا حال ہوا۔ رہے نئے تعلیم یافتہ حضرات جو ان مسائل سے دل چسپی نہیں رکھتے، تو ان پر ایک دوسری مصیبت نازل ہوگی۔ وہ ہرجمعہ کو رسولؐ اللہ کے منبر پر سے وہ وہ موضوع اور ضعیف روایتیں اور لاطائل کہانیاں اور احکامِ اسلامی کی غلط تعبیریں سنیں گے جن کو سُن کر غیرمسلموں کا مسلمان ہونا تو درکنار، ذی ہوش مسلمانوں کا مسلمان رہنا بھی مشکل ہے۔(تفہیمات، دوم، ص ۴۲۰-۴۲۱) 


بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے  

’’اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں‘‘۔ یعنی انھیں یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو ربّ قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ان کو یہ وہابیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر، نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف، نہ اُن شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراجِ تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علمِ غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے۔ بیماروں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں ، اور منہ مانگی مرادیں بَر آتی ہیں۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص ۶۲۰-۶۲۱) 


کس طرح ہوا کند ترا نشترِ تحقیق 
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک 

ہم جو ریسرچ چاہتے ہیں اور جس غرض کے لیے چاہتے ہیں وہ ہے ٹھیک ٹھیک اسلام کے مطابق علوم و فنون کی تحقیقات کی جائے اور تحقیقات کر کے اسلام کے نظامِ فکروعمل کو باقاعدگی کے ساتھ مرتب کیا جائے۔ اس سلسلہ میں چند مقاصد پیش نظر ہیں اور انھی مقاصد کی تحصیل کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں: 

۱- سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دُنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی تعصّب کا سوال نہیں ہے لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کر کے جو فلسفۂ حیات اہل مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کر کے جو طرزِفکر اورکائنات کے متعلق جو تصوّر اور انسان کے بارے میں جو خیال انھوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اُوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انھوں نے اُٹھائی ہے، وہ ساری کی ساری اَز اوّل تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انھوں نے مرتب کیے ہیں، جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophy) انھوں نے گھڑا ہے وہ موجب فتنہ و فساد ہے، وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے، خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔  

یہ پہلا ضروری کام ہے جس کے ذریعے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکروفلسفے کا جو سحر ہے وہ ختم ہوجائے گا جس کے بغیر مسلمانوں کو ان کی ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اور جب تک وہ اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں، اس وقت تک آپ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ مقلّد کی زندگی چھوڑ کر مجتہد کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس و قت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کر کے اہل مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے، جب تک کہ اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح کریں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفۂ زندگی اور نظامِ حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح لیکن ان کو مرتب کر کے جو فلسفۂ حیات بنایا گیا ہے وہ فی الحقیقت بالکل غلط ہے۔ 

۲- اس کے آگے جو دوسرا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ اسی طرح اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ درکار ہے، جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے، مگریہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے، وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا مگر کائنات کی حقیقت اور انسان کی حقیقت، نیز اس کے مآل کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے، اور ظاہر ہے اس کے بغیر یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ آپ کی یونی ورسٹیوں اورکالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات کے جو علوم پڑھائے جاتے ہیں یا دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو تبدیل کیا جاسکے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جاسکے۔(ماہنامہ تجلّی، دیوبند، جون ۱۹۷۱ء) 


کُشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے 
نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے 

اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انھیں سنادو، شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔(البقرہ ۲:۱۸۶) 

یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کرسکتے ہو، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دُور ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے، مجھ سے عرض معروض کرسکتا ہے، حتیٰ کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے اِلٰہ اور ربّ قرار دے رکھا ہے ، ان کے پاس تو تمھیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمھاری شنوائی کرسکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمھاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کرسکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں روائے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہِ راست ہروقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتا ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمھیں دے رہا ہوں، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رجوع کرو، مجھ پر بھروسا کرو اور میری بندگی و اطاعت میں آجائو۔  

پھر فرمایا: اے نبیؐ !تمھارے ذریعے سے یہ حقیقت ِ حال معلوم کرکے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس صحیح رویے کی طرف آجائیں، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، ص ۱۴۴)