اکتوبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اسلامی چھاترو شبر کی انتخابی کامیابی

ڈاکٹر محمد نورالامین | اکتوبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

حال ہی میں بنگلہ دیش میں کچھ ایسے حیرت انگیز واقعات پیش آئے ہیں جنھوں نے لوگوں کو دنگ کر دیا۔ کچھ لوگ اس سے مایوسی میں ہیں، جب کہ کچھ لوگ سیاسی اور سماجی زندگی میں زلزلے اور کچھ اپنے خیال کے مطابق اس میں تباہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ ہے بنگلہ دیش میں طلبہ و عوام کی بغاوت کے بعد بدعنوان اور فاشسٹ حسینہ حکومت کا تختہ اُلٹا دیا جانا اور اسلامی نظریۂ حیات کو فروغ دینے والی طلبہ تنظیم ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی بحالی، خاص طور پر ڈھاکا اور جہانگیر نگر یونی ورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی چھاتروشبر کی شاندار فتح۔ گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران اسلامی چھاترو شبر کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کا الزام، ریاستی جبر اور پارٹی دہشت گردی سے جڑا ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ یہاں تک کہ کچھ نام نہاد علما، جو یہ مانتے ہیں کہ اسلام کا دائرئہ کار صرف خانقاہوں اور مزاروں تک محدود ہے، نہ کہ سیاست یا ریاستی انتظام میں بھی، وہ بھی اس ظلم میں شامل تھے۔ شبر کی حالیہ فتح نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کیا اور نہ صرف طلبہ سیاست بلکہ قومی سیاست کو بھی متاثر کیا، جس سے بائیں اور دائیں بازو کے لوگوں کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ 

۱۹۴۷ء میں ہماری پہلی آزادی کے بعد مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع ہوئیں، لیکن موجودہ بنگلہ دیش اور اُس وقت مشرقی پاکستان میں اس کی سرگرمیاں ۱۹۵۰ء کے عشرے میں شروع ہوئیں۔ اس وقت علما کی ایک بڑی تعداد یہ تسلیم کرتی تھی کہ اسلام میں سیاست کا کوئی مقام نہیں اور مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اپنی دعوت اور پروگرام کے ذریعے ریاست اور معاشرے میں ایمان دار اور قابل لوگوں کو متعارف کروانے کے نام پر سیاست میں جو دخل اندازی کی ہے، وہ ایک غلط عقیدہ ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دستور سازی کے لیے برپا ہونے والی تحریک میں جماعت اسلامی کا کردار اہم تھا۔ اس سے پاکستان کے دونوں بازوئوں میں جماعت کئی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن گئی۔ اسی دوران پنجاب میں قادیانی مسئلہ اٹھا۔ قادیانی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس دوران فسادات پھوٹ پڑے اور لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علما کی ایکشن کمیٹی نے قادیانیوں کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن جدوجہد کا اعلان کیا، مگر پُرتشدد ڈائریکٹ ایکشن سے جماعت اسلامی نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ مگر دوسری طرف دلیل کے میدان میں مولانا مودودی نےقادیانی مسئلہ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا، جس میں انھوں نے قادیانیوں کے رہنما مرزاغلام احمد قادیانی کی متعدد تحریروں کے حوالوں سے ثابت کیا کہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور خود کو نبی کہتے ہیں، لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس مقالے کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن ملکی و غیر ملکی علما اور سربراہان مملکت کے احتجاج کے بعد یہ سزا معطل ہوئی اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے اسے منسوخ کر دیا۔ 

۱۹۵۸ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کے خود اپنے ہی بنگالی مخالفین کے ہاتھوں قتل کے بعد اکتوبر میں جنرل محمد ایوب خاں نے مارشل لا نافذ کردیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں مارشل لا ختم ہوا تو جماعت اسلامی نے سب سے پہلے خود کو بحال کیا اور اپنی سرگرمیاں جاری کیں۔ جماعت اسلامی اپنے قیام سے ہی ایک منظم، قانون پسند، اور عوام دوست تنظیم رہی ہے۔ اس کی کوئی خفیہ سرگرمیاں نہیں تھیں، اور اس کے کارکن ایمانداری اور وفاداری کے معیار پر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام تھے۔ 

جنوری ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خاں کی زیرقیادت پاکستانی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کے خلاف مشرقی پاکستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ حکومت اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی،اور جسٹس محبوب مرشد کی سربراہی میں مشرقی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی کو غیر قانونی قرار دیا۔ مگر مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے پابندی برقرا رکھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان بھر میں پابندی ختم کردی۔ 

دسمبر ۱۹۷۰ء میں عوامی لیگ نے پورے انتخابی عمل پر قبضہ جماکر من مانا نتیجہ لیا۔ سول نافرمانی کی، پُرتشدد بغاوت کی، انڈیا نے اس کی مدد کی، اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ اس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شنگھو سمیت تمام مذہبی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ پھر ۱۹۷۵ء میں آئین کی چوتھی ترمیم کے ذریعے انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے کر صرف ایک جماعت’ بکسال‘ ( BKSAL) قائم کی جو ’بنگلہ دیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘ کا مخفف ہے، اور اپنے آپ کو اس کا تاحیات صدر قرار دیا۔ انھوں نے دوجماعتی اور دو سرکاری اخبارات کے علاوہ تمام اخبارات کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔  دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد بھی جماعت سمیت تمام اسلامی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو راکھی باہنی نے بغیر کسی مقدمہ کے قتل کیا۔ اسی دوران ۱۵؍ اگست ۱۹۷۵ء کو شیخ مجیب ایک فوجی بغاوت میں مارے گئے۔  ان کے زوال کے بعد دیگر جماعتوں نے نئے سرے سے رجسٹریشن کے بعد اپنا کام شروع کیا۔ فروری ۱۹۷۷ء میں اسلامی چھاترو شبر قائم ہوئی اور ایمان داری، قابلیت، اور حُبِ وطن کی بنیاد پر ایک معاشرتی ڈھانچا کی تعمیر کے لیے طلبہ میں کام شروع کیا۔ ۱۹۷۹ء میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے بھی نئے سرے سے کام شروع کیا۔ لیکن ان کا کام کبھی آسان نہیں رہا۔ شروع سے ہی انھیں سرکاری سرپرستی میں دائیں اور بائیں بازو کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ جماعت اسلامی اورشبر کے کارکنوں پر قتل، عصمت دری، آتش زنی، اور دہشت گردی کے ہزاروں نہایت بیہودہ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھر اور کاروبار کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔ ۱۹۹۲ء میں نہایت گھنائونے الزامات سب سے پہلے راجشاہی یونی ورسٹی میں پھیلائے گئے۔ اس وقت میرے ایک ساتھی جناب شفیق الرحمٰن حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ انھوں نے راج شاہی میں اس الزام کو سراسر جھوٹا افسانہ قرار دیا اور افسوس کا اظہار کیا۔ 

ہماری یونی ورسٹیوں میں ’اسلامی چھاتروشبر ‘پرپابندی تھی۔ ان کے لیے وہاں کوئی انسانی حقوق نہیں تھے۔ ساٹھ کے عشرے میں مَیں خود ڈھاکا یونی ورسٹی کا طالب علم تھا، لیکن ’اسلامی چھاترو شنگھو‘ کی سرگرمیوں میں حصہ لینا مشکل تھا۔ شہید محمد عبدالمالک میرے جونیئر بھائی تھے، جنھیں اگست ۱۹۶۹ء میں شہید کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کا ایک واقعہ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں، مَیں نے ڈھاکہ کالج انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا۔ اس وقت پرنسپل جلال الدین احمد تھے۔ میں اس وقت پاجامہ پہنتا تھا، وہ ہمیں انگریزی کی کلاس پڑھاتے تھے۔ ایک دن کلاس میں مجھ سے پوچھ بیٹھے: ’تم مولوی ہو؟‘ میں نے کہا:’’نہیں سر‘‘۔ انھوں نے صاف کہا:’’یاد رکھو! میرے کالج میں مُلّامولوی کی کوئی جگہ نہیں‘‘۔ حالات کی سنگینی کا آپ اس سے اندازہ لگائیں! 

اب سے پندرہ برس پہلے شیخ حسینہ نے اقتدار میں آتے ہی جماعت اسلامی اور چھاتروشبر کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے جماعت اسلامی اورشبر سمیت اسلامی جماعتوں کے خلاف لاکھوں کتابچے چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کیے گئے۔ جماعت اسلامی اور شبر کے مرکزی دفتر سے لے کر گراس روٹ تک تمام دفتروں کو بند کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاتروشبر کے رہنما خاندان سے دُور خفیہ ٹھکانوں پر رہ کر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں طلبہ کلاسز یا امتحانات نہیں دے سکتے تھے۔ مختلف مسلم ممالک کی حکومتوں اور ان کی یوتھ تنظیموں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ شبر کے طلبہ سے تعاون نہ کریں۔ بنگلہ دیش کے سفارت کاروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر خطوط بھیجیں۔ مجھے ان خطوط کی کاپی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے ایک بڑے پڑوسی ملک نے اس سلسلے میں ان ظالمانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کی۔ 

اب تبدیل شدہ حالات میں وہ واویلا کر رہے ہیں کہ ’بنگلہ دیش پاکستان بن گیا ہے‘۔ اس واویلا میں ہمارے کچھ صحافی، سیاسی، اور ثقافتی رہنما بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس مہم میں بدنامِ زمانہ مصنفہ اور بھارت کی سرپرستی میں پلنے والی تسلیمہ نسرین بھی نظر آتی ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ملک کے لوگ کردار اور اخلاقیات کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔