کچھ عرصہ سے عرب اور دیگر مسلم معاشروں میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیاں بہت تاخیر سے ہو رہی ہیں۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور کئی خاندانوں میں نظر آ رہا ہے۔
شادی نہ کرنے کا یہ رجحان سنجیدہ سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ بنیادی طور پر اسلامی روایات سے دُوری کا نتیجہ ہے، جو بیٹیوں کی شادی کی ترغیب اور شادی میں تاخیر اور سُست روی سے خبردار کرتی ہیں۔
یہ رجحان پہلے عرب اور دیگر اسلامی معاشروں میں نہیں تھا، مگر مغربی سوسائٹی میں کافی پہلے سے اسے فروغ حاصل رہا ہے، جہاں نہ صرف یہ کہ ان کی آبادی میں بچوں کا تناسب کم ہے، بلکہ شادیاں اور ولادتیں نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اب ورک فورس کے لیے تارکین وطن کو اپنے ملک میں بسانا پڑ رہا ہے۔
تجرد (کنوار پن/عنوسہ) کے کئی سماجی اسباب ہیں، جن کی بنا پر اسے مختلف معانی دیے جاسکتے ہیں: رہائشی علاقہ، طرزِ زندگی (لائف اسٹائل)، کلچر، رسوم و روایات وغیرہ۔ اصطلاحاً العنوسه سے مراد وہ عورت ہے جس کی عمر شادی کے لیے موزوں عمر سے تجاوز کر گئی ہو۔
شادی کو آسان بنانا نہ صرف بنیادی انسانی ضرورت ہے بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔ معاشرے کا یہ کام ہونا چاہیے کہ ان تمام رکاوٹوں کو دُور کرے، جو اس میں آڑے آتی ہیں۔ ایسا کرنا عبادت و احکاماتِ اسلام کی اطاعت ہے۔ ساتھ ہی یہ عصمت کی حفاظت اور شرم و حیا کے حصار کو قائم رکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔
شادی کے نتیجے میں بہت سارے فوائد مرتب ہوتے ہیں، مثلاً امت کی تعداد میں اضافہ، مرد و عورت کی حرمت کی حفاظت، خاندان کی بنیاد، جو معاشرے کی تشکیل کا پہلا جز ہے۔ اسی لیے شریعت اسے آسان بنانے پر زور دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ روم میں فرمایا ہے: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سےتمھارے جوڑ بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔(الروم۳۰: ۲۱)
سورۂ نور ہی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’تم میں سے جو لوگ مجرّد (غیر شادی شدہ) ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا‘‘۔(النور۲۴: ۳۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ’’اے نوجوانو، تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہیں نیچی رکھنے اور شرم و حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے ‘‘۔(بخاری، مسلم)
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: ’’بہترین اور برکت والا نکاح وہ ہے، جس میں خرچہ کم ہو‘‘۔
ایک صحابیؓ جو شادی کا ارادہ رکھتے تھے، ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جاؤ اور لوہے کی انگوٹھی بھی ہے تو لے کے آؤ (مہر کے لیے)‘‘۔ (بخاری)
ابی العجفاء السلمی کہتے ہیں، ہم سے عمر فاروقؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’عورتوں کے مہر میں مبالغہ (غلو) نہ کرو، کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزّت یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کا ذریعہ ہوتا تو نبی (صلی الله علیہ وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار ہوتے۔ نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے اپنی بیویوں یا بیٹیوں کو کبھی بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر نہیں دیا‘‘۔
مسلم معاشروں میں شادی کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جنھوں نے غیر شادی شدہ نوجوانوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ مصر میں نیشنل سینٹر فار سوشل اینڈ کریمنل اسٹڈیز کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ پہلو سامنے آیا ہے کہ مصر میں ایک تہائی لڑکیاں ایسی ہیں جن کی عمر ۳۰برس سے زائد ہے اور وہ غیر شادی شدہ ہیں۔ اور اب تو زیادہ تر عرب ممالک کا یہی حال ہے۔
اس صورتِ حال کے کئی اسباب ہیں:
۱- سوسائٹی اور اس کے عناصرِ ترکیبی یعنی افراد، خاندان اور اداروں میں اسلامی اقدار کی قبولیت کتنی ہے؟ یہ ایک اہم وجہ ہوگی اگر روایات اوّلیت رکھتی ہوں اور دینی روح ثانوی حیثیت رکھتی ہو۔
۲- معاشرے کے بُرے رسوم و رواج کی تقلید کرنا، جیسے شادیوں پردکھاوے کی غرض سے بے جا اخراجات اور فضول خرچی، بہت سی فضول تقریبات، یا پھر یہ کہ بڑی بہن کی شادی سے پہلے چھوٹی کی نہیں ہوگی۔
۳- مناسب روزگار کے مواقع کی عدم موجودگی اور نوجوانوں کے درمیان بے روزگاری کا پھیلاؤ جو انھیں گھریلو اور ازدواجی اخراجات کی فراہمی سے عاجز کردیتے ہیں۔
۴- کیریرازم ، یعنی اچھی ملازمت کی طلب اور انتظار تاکہ زیادہ آمدن ہو سکے۔ اسی کے پیچھے توانائیاں لگا دینا اور زیادہ سے زیادہ کی ہوس رکھنا۔
۵- بعض ولی حضرات کا لڑکی کا مہر بہت زیادہ مقرر کرنا۔
۶- لڑکیوں اور اکثر پڑھی لکھی لڑکیوں کا شوہرکی خوبیوں کے حوالے سے مبالغہ آمیز شرائط عائد کرنا اور پھر ان جملہ صفات کا مدتوں انتظار کرتے رہنا۔
۷- کچھ خاندانوں کی خراب ساکھ جس کی وجہ سے ان کے بچوں اور بچیوں سے کوئی رشتۂ اَزدواج میں منسلک ہونا نہیں چاہتا۔
۸- اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دینی رجحانات و خیالات میں کمزوری، جس کی وجہ سے وہ حلال ترک کر کے حرام اختیار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے نکاح ان کے نزدیک ایسا مسئلہ بن جاتا ہے، جس میں ان کو کوئی جلدی نہیں ہوتی۔
۹- بڑے پیمانے پر نوجوان لڑکوں کا بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے لیے منتقل ہونا، جو انھیں وہیں پر قیام اور وہاں کی مقامی خواتین سے شادی کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ان سے شادی کرنے کے کم اخراجات کی وجہ سے یا کچھ دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے، جیسے وہاں کی شہریت پانے کی وجہ سے، جہاں انھوں نے شادی کی ہو۔
۱۰- بعض لڑکیوں کا تعلیم کو شادی پر ترجیح دینا، جس کی وجہ سے وہ تعلیم مکمل کرنے تک شادی سے رُکی رہتی ہیں۔
۱۱- والدین کا اپنی بیٹیوں پر جبر اور ان کی شادیوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر یا بلا وجہ رکاوٹ ڈالنا، یا ان فوائد کے حصول کی خاطر جو وہ ان سے حاصل کرتے ہیں، شادی میں تاخیر کرنا۔
۱۲- میڈیا کے اثرات جومرد اور عورت کے درمیان مساوات کا دعوے دار ہے۔ یہ چیز بھی عورتوں کو مردوں کے سامنے چیلنج کرنے پر اُبھارتی اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور ان سے شادی کرنے سے انکار پر آمادہ کرتی ہے۔
تجرد یا شادیوں میں تاخیر یا نہ ہونے کے اثرات افراد اور معاشروں پر اس کے رواج کی بناپر مختلف طریقوں سے پڑتے ہیں۔ بعض لڑکیوں کے نزدیک یہ ایک بھیانک خواب ہوتا ہے، جو ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتا ہے، جب کہ بعض اسے ذاتی پسند یا تقدیر سمجھتی ہیں جس سے فرار ممکن نہیں۔
اگرچہ عرب اور دیگر مسلم معاشروں میں یہ تناسب اب بھی مغرب سے کم تر ہے لیکن بہرحال اس کے منفی اثرات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
یہ مسئلہ ہر ایک کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے، چاہے وہ گھر ہو، معاشرہ ہو یا حتیٰ کہ ادارے۔ اسلام اور شریعت نے ایسے مسائل کے حل کے لیے چودہ صدیاں قبل بنیادی اصول فراہم کیے ہیں، لیکن لوگوں کا اسلامی تعلیمات سے دُور ہونا ان مظاہر کے پھیلنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کہتے ہیں: شادی پہلے سب سے آسان چیزوں میں سے تھی، لیکن اس کے بعد خصوصاً ہمارے زمانے میں لوگوں نے اللہ کی آسان کردہ چیزوں کو مشکل بنا دیا، اور جسے اللہ نے وسیع کیا، اسے تنگ کر دیا، اور خود پر ایسی سختیاں عائد کیں جو اللہ نے عائد نہیں کیں تھیں، جس کے نتیجے میں نوجوان لڑکوں میں تجرد اور لڑکیوں میں کنوار پن دیکھنے کو ملتا ہے‘‘۔
اسلام نے اس طرح کے رجحانات کے حل کے سلسلے میں کئی بنیادیں اوراصول وضع کیے ہیں، جومسلمانوں کو اس کے خطرات سے محفوظ کرتے ہیں:
۱- اُمت کی دینی اور اعتقادی اساس کو بحال کرتے ہوئے اور لوگوں کے قلوب میں ربّ پر اس انداز سے توکّل کا بیج بونا کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کی فراوانی پر قادر ہے اور انھیں رزق دیتا ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین لوگوں کی مدد کرنے کی ضمانت اللّٰہ نے دی ہے: ایک جو اس کی راہ میں جہاد کو نکلے، دوسرا وہ جو قرض کوادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، اور تیسرا وہ جو پاکدامنی کے لیے نکاح کرے‘‘۔ (ترمذی)
۲- اخلاقی تعمیر نو: اس کا مطلب ہے لوگوں کے دلوں میں صحیح تصورات کے بیج بونا، خاص طور پر نوجوانوں اور اُبھرتی ہوئی نسلوں میں، تاکہ ان میں طہارت اور عفت کی حفاظت کی محبت پیدا کی جائے۔
۳- ہر چیز میں اعتدال اور توازن کی ترغیب دینا، خاص طور پر مہر میں، تاکہ یہ کسی کی استطاعت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا‘‘ (النور۲۴:۳۲)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک، عورت کے لیے ایک نعمت یہ ہے کہ اس کی منگنی، اس کا مہر، اور اس کی زچگی آسان ہو‘‘۔ (صحیح الجامع)
۴- مناسب شریکِ حیات کا انتخاب کرتے وقت اخلاق اور دین کو دولت پر ترجیح دینا چاہیے۔ اگر نیک اخلاق اور دین کا التزام موجود ہو، تو یہی حقیقی کامیابی اور فائدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو، تو اس سے نکاح کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر فتنہ اور فساد پھیل جائے گا‘‘۔ (ترمذی)
۵- مسلم ممالک میں معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ معاشی حالات بہتر ہوں اور باعزت روزگار کے مواقع فراہم ہوں اور شادی کے ذریعے نئے خاندان قائم کیے جاسکیں۔
۶- مہر کو کم کرنا اوراس کی ادائیگی کو آسان بنانا، اور اس میں مبالغہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسلام میں خاندان اور معاشرت کے فائدے کے لیے اس کی ترغیب دی گئی ہے، جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک آدمی اپنی بیوی کے مہر سے اس قدر بوجھل ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں اس کے خلاف عداوت پیدا ہو جائے‘‘۔ (ابن ماجہ)
۷- میڈیا کو اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا چاہیے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی کرنے کی ترغیب دینے کا ذریعہ بننا چاہیے، نہ کہ حوصلہ شکنی کا ذریعہ۔
۸- ہاؤسنگ کے بحران اور محدود ملازمت کے مواقع کے حل کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکیں اور نوجوانوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے۔
۹- شادی میں مالی معاونت اور سہولت کے منصوبوں، دعوتی فورمز، مساجد اور سیمینارز کو فعال کرنا، خاص طور پر شادی سے ہچکچاہٹ اور تجرد پسندی کے اس دور میں۔
۱۰- رسم و رواج پر نظر ثانی کرنا اور ان غلط معاشرتی عادات کو ترک کرنا جو شادی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جیسے برادری و قوم کا تعصب اور والدین کا ملازمت کرنے والی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر کرنا۔
۱۱- اس پر توجہ دینے کے لیے خاص سیمینار اور نشستیں منعقد کرنا سماجی اداروں اور خصوصاً یونی ورسٹیوں کی ذمہ داری ہے۔
۱۲- افراد میں شادی کے بعض معیارات میں تبدیلی کرنا، جہاں خوب صورتی ایک نوجوان کے لیے دلھن کی تلاش میں واحد معیار نہ ہو، اور نہ ایک نوجوان کی خوب صورتی اور دولت ہی لڑکی کے لیے بنیادی مقاصد ہوں۔
اس تجرد یا کنوار پن کی روش عرب اور اسلامی معاشروں کی بنیادوں کے لیے سنجیدہ خطرہ بن چکی ہے، جیسا کہ مختلف تحقیقات اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے، اسلام شادی کے قابل ہر نوجوان کو شادی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سورۃ النور کی آیت ۳۲کی تشریح کرتے ہوئے ابن عباسؓ نے کہا: ’’اللہ نے نکاح کا حکم دیا، اس کی ترغیب دی، اور انھیں اپنے آزاد اور غلاموں کی شادی کرنے کا کہا، اور اس بارے میں انھیں خوش حالی کا وعدہ دیا ہے‘‘۔