غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری اور قتل عام کے باوجود قاتل ہاتھوں میں رحم کے آثار ہیں اور نہ مظلوم لیکن پرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقلال میں کوئی جنبش۔ ایک طرف تیر کی برسات ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، تو دوسری جانب دل و جان کی قربانی میں کوئی تعطل نظر نہیں آرہا۔ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردینے والے بموں کے مقابلے میں اہل غزہ صرف نہتے ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی ہیں اور جبر اور صبر کا ایسا ٹکراؤ تاریخ نے اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ تمام تر جبر اور سفاکیت کے باوجود زخموں سے چور اہل غزہ کی مزاحمت بھی جاری ہے۔
ہنگری سے امریکا کی طرف سفر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے کہا: ’’دہشت گردوں ' کی کمر توڑ دی گئی ہے‘‘۔ اللہ کی شان کہ ۶؍ اپریل کی صبح جب نیتن یاہو نے یہ شیخی بگھاری اُدھر مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عثقلان عسکری کالونی کی طرف داغ دیے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا ہی میں غیر مؤثر کردیا، لیکن حفاظتی نظام کو پچھاڑتے ہوئے ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اُٹھی۔
بمباری اور قتل عام کے ساتھ اپریل ۲۰۲۵ء کے ابتدائی دس دنوں سے اہل غزہ کو نقل مکانی کے عذاب کا سامنا کرنے کا آغاز ہوا۔ ہرروز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ ’’اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کارروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جائو‘‘۔بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچ کر خیمے گاڑہی رہے ہوتے ہیں کہ نئی نقل مکانی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اہل غزہ عیدالفطر کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔اب تھکن کا یہ عالم ہے کہ ۶؍اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ: ’’اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے‘‘۔ پھر مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کردیا کہ ’’بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ میں رکھے گئے ہیں جن کو یہاں سے نہیں ہٹایا جائے گا اور اگر بزور قوت قیدی چھڑانے کی کو شش کی گئی تو اس کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ ’’اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتا اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتا اور یہ قیدی اس وقت اپنے عزیزوں کے درمیان ہوتے۔ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا‘‘۔
مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگارہے تھے:’’تمھاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی‘‘۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔سخت مشتعل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ فوج، جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے، لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کی بنا پر نیتن یاہو کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے پر پابندی کی قرارداد جس بُری طرح مسترد کی، اس نے اسرائیل کے جنگجو حکمرانوں کو مزید ’دلیر‘ کردیا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمایت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو ۶؍ اپریل کو بنفس نفیس امریکا پہنچا۔ درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں ’ٹرمپ غزہ‘ منصوبے کو آخری شکل دی گئی۔اسی دوران اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں نے غزہ امن پر بات چیت کی، لیکن آزاد صحافتی ذرائع بتارہے ہیں کہ اصل گفتگو ایران پرحملے کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کارروائی سے متحدہ عرب امارات کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکی و اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ 'ٹرمپ غزہ منصوبے کی تعمیر میں امارات کے کردارپر ہوئی۔
تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ۲۳ مارچ ۲۰۲۵ء کو غزہ میں پانچ ایمبولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں ۱۵ وردی پوش امدادی کارکن جان بحق ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شائع کردی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے پہلے لی تھی، جس میں ایمبولنسیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری سے ہرروز ۱۰۰ بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہورہے ہیں اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو No Go ایریابنادیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے بہت فخر سے کہا کہ ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر ر فح کے گرد گھیراؤ مکمل کرلیاہے اور اب مزاحمت کاروں کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔ہتھیار ڈالنے کی اسرائیلی خواہش تو شاید پوری نہ ہو، لیکن لگتاہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہے گی۔ گذشتہ ہفتے ہلال احمر غزہ کے سربراہ نے اپنے پیغام میں کہا:’’ غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہوچکی، ہر طرف موت نظر آرہی ہے‘‘۔ ' اسی کے ساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہوا: ’’غزہ آخری سانس لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا ۔خدا حافظ‘‘۔
اسرائیلی فوج بمباری کے لیے بنکر بسٹر بم استعمال کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے مورچوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور شہری علاقوں میں اس کے استعمال پر پابندی ہے، لیکن امریکا اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکا نے کنکریٹ کو چیر دینے والے یہ بم افغانستان میں بے دریغ استعمال کیے تھے۔ روایتی بم کسی سخت سطح سے ٹکراتے ہی پھٹ جاتے ہیں،جب کہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیرکر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں جس کی وجہ سے عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہوجاتے ہیں۔ مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری تراشے اسرائیلی فوج نے جاری کیے ہیں، اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گردو غبار اور دھوئیں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اُوپر فضامیں اُچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔
غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غرب اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبات کو کھنڈر بنادیا۔ بمباری اور فائرنگ سے درجنوں افرادجاں بحق ہوئے، زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیاگیا۔۶؍ اپریل کو غربِ اردن کے شہر ترمسعيّا پر فوجی سرپرستی میں قابضین (Settlers)نے حملہ کیا۔گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو آگ لگادی۔ اندھادھندفائرنگ سے امریکی شہریت کا حامل ایک ۱۴سالہ بچہ عمر محمد ربیع جاں بحق ہوگیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ حماس کی قید میں اسرائیل شہری عیدن الیگزنڈر کی رہائی کے لیے ساری ٹرمپ حکومت سرگرم ہے لیکن اس امریکی بچے کے بہیمانہ قتل پر کسی کو کچھ تشویش نہیں، حتیٰ کے CNN نے اس واقعے پر امریکی حکومت کے ردعمل کے لیے جب وزارت خارجہ وائٹ ہائوس کو برقی خطوط بھیجے تو وہ ای میل مکتوب الیہ نے متن پڑھے بغیر ہی حذف کردی۔امریکا کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے۔
اس حوالے سے برصغیر کی خواتین کا جرأت مندانہ کردار ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معروف آرکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ' اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی۔ یکم اپریل کو بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکا کے International Women of Courage انعام کو ٹھوکر ماردی۔ امامہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے لیے امریکا آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرخاجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے جواب میں امامہ نے لکھا:’’ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے میں اس ایوارڈ کو مسترد کر رہی ہوں‘‘۔
غزہ کے طول و عرض پر بمباری اور بحروبر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مصر کی ثالثی میں مزاحمت کاروں ' سے براہ راست مذاکرات بھی کررہاہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے KAN نیوز ایجنسی کو بتایا:’’ نیتن یاہو، آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے پر تیارہے۔اس دوران پائیدار امن مذاکرات کے لیے ۴۰ سے ۷۰دن حملے بند رہیں گے، جب کہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور ر فح سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پرقائم ہیں‘‘۔
گفتگو کے مثبت اشاروں سے پھوٹنے والی امید کی کرن ۱۴؍ اپریل کو اس وقت ختم ہو گئی جب مزاحمت کاروں کے ترجمان سمیع ابوظہری نے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ ’’اسرائیلی تجاویز کا متن ہمیں موصول ہوچکا ہے، جس کے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مزاحمت کاروں کو غیرمسلح ہونا ہوگا اور ہم یہ مطالبہ کروڑوں بار مسترد کرتے ہیں۔لیکن اگر اسرائیل امن معاہدہ کرکے غزہ سے اپنی فوج واپس بلالے تو اس کے سارے کے سارے قیدی بیک وقت رہا کردیے جائیں گے‘‘۔
ہفتہ ۱۲؍ اپریل کو جہاں امن مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا، وہیں اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے آخری انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شائع ہواہے، اس کے مطابق: ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ بھی اب اسرائیلی فوج کا سکیورٹی زون ہے۔ اہل غزہ کے لیے یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے‘‘۔
۹؍اپریل کو اسرائیل فضائیہ کے ایک ہزار سے زیادہ ریزرو افسران نے چیف آف ائر اسٹاف میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھاجس کی نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے: ’’شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہیے‘‘۔ اس خط پر نیتن یاہو کو سخت غصہ آگیا اور وزیردفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ :’’اس حرکت سے فوج میں بددلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا، لہٰذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً برطرف کردیا جائے‘‘۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا ریزرو دستے کا حصہ بنالیا جاتاہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دولاکھ فعال سپاہ کے شانہ بشانہ ۳لاکھ محفوظ سپاہی لڑائی میں شریک ہیں، جوایک ماہ محاذ پر گزار کر ۳۰ دن آرام کرتے ہیں۔
ابھی ان اسرائیلی باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے ۱۵۰سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیردفاع کے نام ایسا ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے غزہ خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بے مقصد جنگ سے اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیراعظم نے ۵۹؍اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے‘‘۔ شام کو میڈیکل کور کے سیکڑوں افسران نے اسی مضمون کا پیغام اپنی قیادت کو بھجوادیا۔ عبرانی چینل ۱۲ کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے:’’غزہ میں جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے‘‘۔
جمعہ ۱۱؍ اپریل کو فوج کے انتہائی اہم ۸۲۰۰؍انٹیلی جنس یونٹ کے ۲۵۰ ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط نے اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کردیا۔جدید ترین ٹکنالوجی سے مزین ۱۸ سے ۲۱ سال کے ۵ہزار نوخیز جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل ودماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان افسران نے کہا کہ طویل اور بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو تھکادیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کے لیے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کرکے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔یونٹ ۸۲۰۰ کے خط پر وزیراعظم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔
اس سے قبل ۱۴ فروری کو موساد کے سابق سربراہوں اور سیکڑوں سابق ایجنٹوں نے بھی جنگ بندی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور وزیراعظم کے نام کھلے خط میں انھوں نے قیدیوں کی رہائی کی خاطر فوری امن معاہدے کا مطالبہ کردیا: ’’لڑائی دوبارہ شروع کرکے نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں‘‘۔ اس خط پر موساد کے سابق سربراہ دانیال جاسم، ابراہیم حلوی اور تامر پاردو کے علاوہ۲۵۰سابق افسران کے دستخط ہیں۔
امریکی یونی ورسٹیوں میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونی و رسٹی میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکا بدری کا فیصلہ سنادیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُرتشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم، وزیرخارجہ مارکو روبیو کی دوصفحاتی یادداشت پر مشتمل ہے، جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیرخارجہ نےتحریر کیاکہ ' ۷ مارچ کو انھیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں کہ خلیل کے امریکا میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔یہود مخالف مظاہروں کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا: ’’میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔ فیصلہ سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کرکے کہا: ’’یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ حکومت نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے، جو میرے خاندان سے ایک ہزار میل دُور ہے‘‘۔ جواں سال محمود خلیل ۸مارچ سے نظر بند ہے۔پیر ۱۴دسمبر کو کولمبیا یونی ورسٹی کے ایک اور طالب علم محسن مہدوی کو ریاست ورمونٹ (Vermont) سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ شہریت کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ دوسری طرف غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے کورنیل یونی ورسٹی کی ایک ارب اور نارتھ ویسٹرن یونی ورسٹی کے لیے ۷۹کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل کردی ہے۔
اس کے باوجود عرب ممالک کا تل ابیب سے تعاون جاری ہے۔ اپریل کے مہینے میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے شرکت کی۔ خلیج یونان پر ہونے والی اس مشق میں امریکا، انڈیا ، فرانس، اٹلی اور پولینڈ شریک ِ کار تھے، اور غزہ میں اسی طرح شہیدوں کے بے گوروکفن لاشے پڑے رہے۔ جھلستی دُھوپ میں اہل غزہ کو گھروں سے نکال کر جبری طور پر بکھیرا جاتا رہا۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن اس حوالےسے ان کی ترجیح اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر ۲۰جنوری ۲۰۲۵ء کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ۸دسمبر ۲۰۲۴ء کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر سٹیووٹکوف نے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت بُرا دن ہوگا۔ دوسرے دن اسی پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔
اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان میں امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا، وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔ دوسری طرف شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ شام میں جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور ’جبل حرمون‘ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان ’جبل حرمون‘ کو ’جبل الشیخ‘ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن ۱۳ دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے ’جبل حرمون‘ میں تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی۔
۱۰مربع کلومیٹر کا یہ شام کا نہایت اہم دفاعی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے، وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام ’قنیطرہ‘ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھاکہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد ’قینطرہ‘ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دیں، قدیم درخت گرادیئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے ۱۰ ۱۰ میٹر بلندی پر واقع یہ خوب صورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ مزاحمت کار منظم ہوں گے۔
شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اُردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیبات پر کنکریٹ کے مضبوط مورچے (بنکر) تباہ کرنے کے لیے بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ ۱۴ دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں ۶۱ مقامات پر میزائل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے، ان کے دھماکے اتنا شدید تھے کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے ۳ درجہ شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمدالشرع المعروف ابومحمد الجولانی نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابلِ مذمت ہیں لیکن ہمارا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ بشار اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے، جب کہ متعصب عناصر شام میں تبدیلیٔ اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔ رہبر انقلابِ ایران علی خامنہ ای صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا 'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکا میں تیار گئی اور شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے۔
بلاشبہ اسد خاندان کے ۵۳سال کے جبر سے نجات پر عام شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت خانوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دُوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا ہے۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں ان کے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذاکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔
موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے، جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے، لیکن ۱۳ دسمبر کو غروبِ آفتاب سے ۱۴ دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصرہسپتال پر بمباری سے ۳۶ بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (فلسطین اتھارٹی)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنادینے، شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیرِزمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔
جہاں فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے لیے کمزور ہی سہی، لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز، شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارک باد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا :نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین ۷۰ برسوں میں نہ کرسکی‘‘۔
یہ اظہارِ بیان مغربی قیادتوں میں گہرے تعصب اور انسانیت کشی کی دلیل پیش کرتا ہے۔
۱۷دسمبر ۲۰۲۲ء کو تیونس کے عام انتخابات میں صرف ۸فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک تیونس، بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقا میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو ’مغرب العربی‘ کہا کرتے تھے، جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ’بربری ساحل‘ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ علمی سطح پر مسجد و جامعہ الزيتونہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ، دُنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے اور یہ بھی تیونس میں ہے۔
۲۴ دسمبر ۲۰۱۰ءکوبےر وزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے بطور احتجاج خود کو نذر آتش کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں کے صدر زین العابدین بن علی (م:۲۰۱۹ء)نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کی کوشش کی۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر۲۳ سال تک مطلق العنانیت سے منسوب خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ءکو سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر ان کے مغر بی سرپرستوں نے اپنے پٹے ہوئے مہرے سے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ’حرکۃ النہضۃ‘ (تاسیس:۱۹۸۱ء) کے سربراہ راشد الغنوشی (پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء)کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی، جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ جناب غنوشی کا کہنا تھا:’’تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے، جو عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو‘‘۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال ۲۳؍اکتوبر کومتناسب نمایندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب ۹۰ فی صد رہا۔ النہضہ نے ۴۱ فی صد ووٹ لے کر ۲۱۷ کے ایوان میں ۹۰ نشستیں حاصل کیں، جب کہ اس کی مخالف سیکولر جماعت پی ڈی پی کو صرف ۱۷ نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ری پبلک المعروف موتمر ۳۰ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے، ’’یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے، جس میں قیدیوں کے حقوق تک کی بھی ضمانت دی گئی اور تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جس کے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادیٔ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا‘‘۔
آئین منظور ہوتے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی، جس کی نگرانی میں ۲۶؍اکتوبر کو ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ’ندائے تیونس‘ ۸۶ نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی اور ۶۹ سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد ۲۰۱۹ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے، جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی، لیکن ۵۲ نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ۵۰ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور ان کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی ’انقلابِ یاسمین‘ کی کامیابی کے بعد تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شان دار رہے۔
عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ’ربیع العربی‘(Arab Spring) کے آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے۔ تب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے، وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے کے لیے ان کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔
’ربیع العربی‘ صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی، جب کہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذآرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کیے، لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔
مارچ ۲۰۲۰ء میں وارد ہونے والے کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔اب جمہوریت دشمنوں کی جانب سے حکومت کے خلاف الزام تراشی اور انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا،اور تیونسی سیاست دانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کی ۱۰سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ’’پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی، تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈی ننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے‘‘۔
فوج کی ایماپر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اس کا رُخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیراؤ کرکے حکومت سے استعفا کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ءکو پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ ’’اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی، تو مسلح افواج روایتی تنبیہہ کے بغیر گولی چلائے گی‘‘۔
ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیش کش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردیں گے۔ لیکن اس پیش کش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ ساتھ ہی صدر قیس نے منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانے والا دستور بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا، اور نئے آئین کی تدوین کے لیے 'قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق: ’’حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائے گا اور انھیں فروخت کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوگی‘‘۔
نئے دستور کا مسودہ سامنے آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن ’الاتحاد العام التونسي للشغل‘(UGTT) نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بڑی طاقتوں کے ایما پر تحریر کی جانے والی یہ دستاویزِ غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے ۲۰۱۱ء میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہے اور اس کی منسوخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اس کے باوجود حکومت نے ۲۶ جولائی کو ریفرنڈم کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف ۳۰فی صد رہا ۔
نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس طرح ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہِ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ۲۵ فی صد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’۹۰ لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ۸ لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‘‘۔ ’النہضہ‘ سمیت پانچ جماعتی ’محاذِ نجات‘ (Salvation Front)نے انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفا اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ تاہم، الغنوشی صاحب نے جمہوریت کے آبگینے کو حفاظت سے بحال کرنے کے لیے صدرقیس کو پیش کش کی ہے کہ اگر وہ عوامی اُمنگوں کا احترام کریں تو انھیں صدر برقراررکھا جاسکتا ہے۔
یاد رہے ، صدر قیس کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کے لیے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ المدرسہ الوطنیہ للمھندسين تیونس (National School of Engineers) میں ارضیات کی پروفیسر نجلہ ابومحی الدین رمضان، درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ النہضہ نے اپنے دورِحکومت میں انھیں ’تعلیمی کمیشن‘ کی سربراہ بنایا تھا۔
’النہضہ‘ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس طرح رعونت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر تو کھل کر قیس کے پشت پناہ ہیں، جب کہ مغرب کچھ کھلے میں، اور کچھ چھپے میں ان کا پشتی بان ہے۔
آئین پر ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماؤں کے لیے نرم چارہ بنا رہے ہیں۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی اُمنگوں پر شب خون سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کے لیے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جس کا قبلہ واشنگٹن یا بریسلز ہو۔