نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن اس حوالےسے ان کی ترجیح اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر ۲۰جنوری ۲۰۲۵ء کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ۸دسمبر ۲۰۲۴ء کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر سٹیووٹکوف نے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت بُرا دن ہوگا۔ دوسرے دن اسی پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔
اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان میں امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا، وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔ دوسری طرف شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ شام میں جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور ’جبل حرمون‘ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان ’جبل حرمون‘ کو ’جبل الشیخ‘ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن ۱۳ دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے ’جبل حرمون‘ میں تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی۔
۱۰مربع کلومیٹر کا یہ شام کا نہایت اہم دفاعی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے، وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام ’قنیطرہ‘ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھاکہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد ’قینطرہ‘ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دیں، قدیم درخت گرادیئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے ۱۰ ۱۰ میٹر بلندی پر واقع یہ خوب صورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ مزاحمت کار منظم ہوں گے۔
شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اُردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیبات پر کنکریٹ کے مضبوط مورچے (بنکر) تباہ کرنے کے لیے بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ ۱۴ دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں ۶۱ مقامات پر میزائل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے، ان کے دھماکے اتنا شدید تھے کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے ۳ درجہ شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمدالشرع المعروف ابومحمد الجولانی نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابلِ مذمت ہیں لیکن ہمارا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں‘‘۔
شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ بشار اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے، جب کہ متعصب عناصر شام میں تبدیلیٔ اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔ رہبر انقلابِ ایران علی خامنہ ای صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا 'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکا میں تیار گئی اور شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے۔
بلاشبہ اسد خاندان کے ۵۳سال کے جبر سے نجات پر عام شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت خانوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دُوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا ہے۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں ان کے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذاکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔
موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے، جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے، لیکن ۱۳ دسمبر کو غروبِ آفتاب سے ۱۴ دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصرہسپتال پر بمباری سے ۳۶ بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (فلسطین اتھارٹی)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنادینے، شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیرِزمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔
جہاں فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے لیے کمزور ہی سہی، لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز، شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارک باد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا :نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین ۷۰ برسوں میں نہ کرسکی‘‘۔
یہ اظہارِ بیان مغربی قیادتوں میں گہرے تعصب اور انسانیت کشی کی دلیل پیش کرتا ہے۔
۱۷دسمبر ۲۰۲۲ء کو تیونس کے عام انتخابات میں صرف ۸فی صد ووٹ ڈالے گئے۔ سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک تیونس، بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقا میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو ’مغرب العربی‘ کہا کرتے تھے، جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ’بربری ساحل‘ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ علمی سطح پر مسجد و جامعہ الزيتونہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ، دُنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے اور یہ بھی تیونس میں ہے۔
۲۴ دسمبر ۲۰۱۰ءکوبےر وزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے بطور احتجاج خود کو نذر آتش کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں کے صدر زین العابدین بن علی (م:۲۰۱۹ء)نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کی کوشش کی۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر۲۳ سال تک مطلق العنانیت سے منسوب خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ءکو سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر ان کے مغر بی سرپرستوں نے اپنے پٹے ہوئے مہرے سے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے اخوان المسلمون کی فکر سے متاثر ’حرکۃ النہضۃ‘ (تاسیس:۱۹۸۱ء) کے سربراہ راشد الغنوشی (پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء)کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی، جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ جناب غنوشی کا کہنا تھا:’’تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے، جو عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو‘‘۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال ۲۳؍اکتوبر کومتناسب نمایندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب ۹۰ فی صد رہا۔ النہضہ نے ۴۱ فی صد ووٹ لے کر ۲۱۷ کے ایوان میں ۹۰ نشستیں حاصل کیں، جب کہ اس کی مخالف سیکولر جماعت پی ڈی پی کو صرف ۱۷ نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ری پبلک المعروف موتمر ۳۰ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے، ’’یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے، جس میں قیدیوں کے حقوق تک کی بھی ضمانت دی گئی اور تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جس کے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادیٔ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا‘‘۔
آئین منظور ہوتے ہی جنوری ۲۰۱۳ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی، جس کی نگرانی میں ۲۶؍اکتوبر کو ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ لیکن ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ’ندائے تیونس‘ ۸۶ نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی اور ۶۹ سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد ۲۰۱۹ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے، جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی، لیکن ۵۲ نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ۵۰ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور ان کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی ’انقلابِ یاسمین‘ کی کامیابی کے بعد تیونس میں تین پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شان دار رہے۔
عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ’ربیع العربی‘(Arab Spring) کے آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے۔ تب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے، وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے کے لیے ان کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔
’ربیع العربی‘ صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی، جب کہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں فرقہ وارانہ محاذآرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کیے، لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔
مارچ ۲۰۲۰ء میں وارد ہونے والے کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔اب جمہوریت دشمنوں کی جانب سے حکومت کے خلاف الزام تراشی اور انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا،اور تیونسی سیاست دانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کی ۱۰سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ’’پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی، تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈی ننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے‘‘۔
فوج کی ایماپر حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اس کا رُخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیراؤ کرکے حکومت سے استعفا کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ءکو پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ ’’اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی، تو مسلح افواج روایتی تنبیہہ کے بغیر گولی چلائے گی‘‘۔
ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیش کش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردیں گے۔ لیکن اس پیش کش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ ساتھ ہی صدر قیس نے منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانے والا دستور بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا، اور نئے آئین کی تدوین کے لیے 'قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا اعلان ہوا جس کے مطابق: ’’حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائے گا اور انھیں فروخت کے لیے پُرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوگی‘‘۔
نئے دستور کا مسودہ سامنے آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن ’الاتحاد العام التونسي للشغل‘(UGTT) نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بڑی طاقتوں کے ایما پر تحریر کی جانے والی یہ دستاویزِ غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے ۲۰۱۱ء میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی اُمنگوں کا ترجمان ہے اور اس کی منسوخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ اس کے باوجود حکومت نے ۲۶ جولائی کو ریفرنڈم کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف ۳۰فی صد رہا ۔
نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس طرح ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہِ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ۲۵ فی صد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’۹۰ لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے ۸ لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‘‘۔ ’النہضہ‘ سمیت پانچ جماعتی ’محاذِ نجات‘ (Salvation Front)نے انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفا اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ تاہم، الغنوشی صاحب نے جمہوریت کے آبگینے کو حفاظت سے بحال کرنے کے لیے صدرقیس کو پیش کش کی ہے کہ اگر وہ عوامی اُمنگوں کا احترام کریں تو انھیں صدر برقراررکھا جاسکتا ہے۔
یاد رہے ، صدر قیس کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کے لیے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ المدرسہ الوطنیہ للمھندسين تیونس (National School of Engineers) میں ارضیات کی پروفیسر نجلہ ابومحی الدین رمضان، درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ النہضہ نے اپنے دورِحکومت میں انھیں ’تعلیمی کمیشن‘ کی سربراہ بنایا تھا۔
’النہضہ‘ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس طرح رعونت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر تو کھل کر قیس کے پشت پناہ ہیں، جب کہ مغرب کچھ کھلے میں، اور کچھ چھپے میں ان کا پشتی بان ہے۔
آئین پر ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماؤں کے لیے نرم چارہ بنا رہے ہیں۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی اُمنگوں پر شب خون سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کے لیے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جس کا قبلہ واشنگٹن یا بریسلز ہو۔