مصر کے ، شہید محمد یوسف ھواشؒ امام حسن البنا ؒکے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور انھیں سیّدقطب شہید ؒکے ساتھ پھانسی دی گئی۔ یوسف ھواش ۱۹۲۳ء میں ڈیلٹا کے ضلع الغربیہ کے گائوں کفرالحمام میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔ طنطا کے ٹیکنیکل اسکول سے ڈپلومہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز پٹرولیم کوآپریٹو سوسائٹی میں پمپس کے نگران کے طور پر کیا۔ بعدازاں شبراویشی کمپنی میں کام کیا۔ محمد یوسف ھواش۱۹۴۵ء میں ٹیکنیکل اسکول طنطا کی تعلیم کے دوران ہی اخوان کی دعوت سے روشناس ہوگئے کیونکہ طنطا اس وقت بہی الخولی کی وجہ سے اخوان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
یوسف ھواش قاہرہ منتقل ہوئے تو اخوان کی تنظیم میں شامل ہوگئے اور خاص افراد میں شمار کیے جانے لگے۔ ان کی شادی فاطمہ عبدالہادی سے ہوئی جو شہید امام حسن البنا کا جنازہ اُٹھانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔ المنشیہ کے حادثے کے بعد یوسف ھواش کا نام بھی گرفتاری کے لیے شامل کرلیا گیا مگر وہ روپوش ہوگئے۔ بالآخر ۴؍اگست ۱۹۵۵ء کو گرفتار کرلیے گئے، جب کہ وہ گرفتار شدگان کے خاندانوں کے اُمور کی دیکھ بھال کے لیے نوجوانوں کو منظم کرچکے تھے۔ یوسف ھواش کو تنظیم کے لیےمالی وسائل فراہم کرنے کے جرم میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران وہ بیمار پڑگئے اور انھوں نے بیماری کے ایام سیّد قطب کے ساتھ طرہ ہسپتال میں گزارے ۔ ۱۹۶۴ء کے آخر میں انھیں رہا کردیا گیا مگر ۱۹۶۵ء کی اخوانی قیادت میں ان کا نام بھی ڈال دیا گیا حالانکہ وہ قائد نہیں تھے۔ پھر بدترین تعذیب و تشدد کے بعد محمد دجوی کی سربراہی میں یوسف ھواش اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو عمل درآمد کردیا گیا۔ اس روز پھانسی پانے والے تینوں شہدا سیّد قطب، محمدیوسف ھواش اور عبدالفتاح اسماعیل نے اپنے قاتل سے معافی مانگنے سے انکار کیا مگر پھانسی کو قبول کرلیا۔
یوسف ھواش کی رُودادِ زندگی میں، یہ منظر بڑا واضح اور نمایاں نظر آتا ہے جب ان کی باہمت بیوہ ، محترمہ فاطمہ بنت عبدالہادی ا پنی ثابت قدمی کی ایمان افروز داستان سناتے ہوئے،ہمت اور استقامت کی ایک مضبوط چٹان اور صبر و استقامت کا پہاڑ نظر آتی ہیں۔ فاطمہ بنت محمد عبدالہادی نے ۱۹۶۶ء میں، صدر جمال عبد الناصر کے زمانے میں ،اپنے خاوند کی قید سے لے کر،سزائے موت تک کے حالات و واقعات اورحوادث کا تذکرہ، اپنی آنکھوں سے کوئی آ نسو بہائے بغیر،بڑی بہادری سے کیا۔
اس عظیم خاتون سے ہماری ملاقات ان کے ایک عام اور سادہ سے گھر میں ہوئی۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود انھوں نے ہمارا استقبال روشن چہرے کے ساتھ کیا۔ ان کانورانی چہرہ جھریوں کے باوجود ان کی عظمت، عزیمت اور بے نیازی کو ظاہر کر رہا تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ ہمیں پچاس برسوں پر پھیلے اپنے ماضی کے ایسے دور میں لے گئیں جس میں خوش گوار یادوں کے پھول اور کلیاں بھی تھیں اورسخت آزمائشوں ،امتحانوں کے تلخ اور ناخوشگوار کانٹے بھی تھے ۔
انھوں نے بتایا: ’’شہید محمد یوسف ھواش بڑے پُرعزم اور عالی ہمت شخص تھے۔اخوان المسلمون کے کارکن ہونے کے جرم میں ان پر قید و بند کی مصیبتیں آئیں اور ان پر ظلم اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے، آخرکار ان کو اور ان کے ایک ساتھی عبدالفتاح اسماعیل کو عالم اسلام کے عظیم رہنما سیدقطب کے ہمراہ سزائے موت دے دی گئی ۔ انھوں نےتختۂ دار کو چوما اوراپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کرتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئے‘‘۔
شہید محمد یوسف ھواش کی بیوہ فاطمہ بنت محمدعبدالہادی ایک عظیم خاتون ہیں کہ جنھوں نے دعوتِ دین کے کام کو، صدر جمال عبدالناصر کی حکومت کے زمانے سے ہی، اپنے شہید خاوند کی سزائے موت کے بعد اپنے خاوند کےمشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔اپنے خاوند کی جدائی پر ، اپنی آنکھوں سے آنسو بہائے بغیر، اپنے سینے میں ایک دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دعوت و تربیت کے عظیم کا م کو جاری رکھا۔ اس عظیم خاتون نے اپنے شہید خاوند کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ ، نہ صرف صدر ناصر کے ظالمانہ نظامِ حکومت کی وحشیانہ کارروائیوں کو بے نقاب کیا، بلکہ مصائب، آلام، تکلیفوں اور اذیتوں کے باوجود،بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھا اور بڑے بے مثال طریقے سے ان کی پرورش اور تربیت کی۔ ان سے کی گئی گفتگو پیش ہے:
سوال:آپ کا تعارف، اپنے شہید خاوند کے ساتھ کیسے ہوا اور بد ترین حالات میں آپ دونوں کی زندگی کیسے گزری؟
جواب میرا ایک بھائی، شیخ حسن البنا ؒکے ایک دینی درس میں شریک ہوتا تھا۔ یوسف ھواش ؒبھی ان کے ساتھ اس درس میں شریک ہوتے تھے۔میرا بھائی جب بھی یوسف ھواشؒ کو دیکھتا تو دل ہی دل میں کہتاکہ ’’اے فاطمہ! میری دلی تمنا ہے کہ تیری شادی اس جیسے نوجوان سے ہو۔ ادھر محمد یوسف ھواش ؒبھی، مرشدعام سیّدحسن البناؒ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ میری شادی کے لیے ایسی لڑکی تلاش کریں، جو میری مشکلات میں میرا سہارا بنے، تو امام حسن البنا ؒنے میری طرف اشارہ کر دیا۔پہلے تو میں نے انکار کردیا کیونکہ محمدیوسف ؒکی تعلیمی اہلیت صرف ایک ’ڈپلومہ‘ تھی، لیکن جب میرے بھائی نے مجھے یقین دلایا کہ یہ نوجوان میرا بہت خیال رکھے گا، تو میں نے اس رشتے کو قبول کرلیا۔
پھر ہماری شادی ۱۹۵۳ء میں اسی روز ہوئی جس دن انوارالسادات کی شادی ہوئی، جو بعد میں مصر کے صدر بنے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہماری شادی کےبعد شروع کے دنوں میں بہت سی مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ میرے شہید خاوند نے مجھے مشکل اور سخت ترین حالات میں صبر کرنا سکھادیا تھا۔شادی سے پہلے منگنی کی تقریب میں یوسف کسی اخوانی بھائی سے باتیں کر رہے تھے توجذبات کی شدت سے ان پر غشی طاری ہوگئی اور ان کے منہ سے خون بہنے لگا۔ مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ یوسف تو پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ دینے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا جانے لگا یہاں تک کہ کچھ اخوانی بھائی بھی ہمارے گھر آئے اور میرے بھائی سے اس بارے میں بات کی۔ بھائی میرے پاس آیا اور اس نے اخوانی بھائیوں کا نقطۂ نظر میرے سامنے رکھا۔لیکن اب میں ،اپنا اور یوسف کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کرچکی تھی اور اسےاپنے شوہر کے طور پر منتخب کرچکی تھی ،اس لیے میں نے اپنے عزیزوں کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ میرے لیے اب واپسی نا ممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی پوری زندگی اس کی خدمت کرنا اور نگہداشت کرنا پڑے تو میں کروں گی۔
ہماری شادی کے بعدمیرے شہید خاوند نے مجھے اس مرض کا سبب یہ بتایا کہ ہماری قید کے دوران جیل خانہ کو پانی سے بھر دیا جاتا تھا اور اس میں ’اخوان‘قیدیوں کو رکھا جاتا تھا، جس کے نتیجے میں ان کے پھیپھڑوں میں یہ مرض پیدا ہو گیا۔ہماری شادی کے بعد جلد ہی میرے خاوند کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ہمیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد جب میں ایک مرتبہ بہن نعیمہ الہضیبی ؒ سے ملنے ان کے گھر گئی تو میں نے ان کے ہاں تقریباً ایک مہینہ گزارا۔وہاں سے میں جب واپس آئی تو میرے آنے کے فوراً بعد حکومتی ایجنسیوں کے لوگ میرے گھر آ گئے۔ان کے ساتھ شراب کے نشے میں مد ہوش کچھ افراد بھی تھے جو میرے گھر کا دروازہ توڑنے میں مصروف ہو گئے۔یہ لوگ حملہ آوروں کی طرح میرے گھر میں داخل ہوئے۔ میری بیٹی سمیہ کی عمر اس وقت صرف دو سال تھی۔ وہ یہ صورت حال دیکھ کر ڈر گئی۔ ایک سرکاری افسر نے بڑی بے دردی کے ساتھ ،اس حال میں کہ میں حاملہ تھی ،مجھے بڑے زور سے دھکا دیا اور میں ایک دیوار سے جاٹکرائی۔پھر انھوں نے میرے گھر کی الماریوں کی تلاشی لینا شروع کردی۔ الماری میں کچھ اخوانی بھائیوں کی تصویریں تھیں، لیکن ان پر ان لوگوں کی نظر نہیں پڑی، اللہ نے ان کی نظروں پر پردہ ڈال دیا اور ان کو جیسے اندھا کر دیا۔ان کو ان تصویروں کا کچھ پتا نہ چلا۔ ان لوگوں نے اس موقع پر جو کچھ چاہا گھر سےچوری کر لیا۔
میرے شہید خاوند نے ۱۹۵۷ء میں معرکہ ’لیمان طرہ‘ میں اخوانی بھائیوں کے قتل عام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔یہ معرکہ اخوان کے جوانوں اور حکومتی ایجنسیوں کے اہل کاروں کے درمیان ہوا تھا۔ یہ خوں ریزی اور قتل و غارت گری کی ایک وحشت ناک کارروائی تھی۔اس واقعہ میں اخوان کے اکیس جوان شہید ہوئے اوراتنے ہی شدید زخمی ہوئے، اور معرکے کی ہولناک اور وحشت ناک کارروائی کی وجہ سے زخمیوں میں سے چھ افراد اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے۔ شہید محمدیوسف ؒاس واقعے کی یادوں کو روزانہ ایک کاغذ پر لکھتے ،اور پھر اس کاغذ کو انتہائی خفیہ طریقے سے جیل سے باہر بھیج دیا جاتا۔بعد میں یہ یاد داشتیں شہید محمد یوسف کی ڈائری کے عنوان سے شائع ہوئیں۔
مجھے یہ بات بھی یاد آتی ہے کہ ایک مرتبہ جب بہن زینب الغزالی ؒ نے مجھے یہ بتایا کہ انھوں نے شہید محمد یوسفؒ کو تفتیشی ادارے کے ایک دفتر میں، اپنی کہنیوں اور گھٹنوں کے بل چل کر جاتے ہوئے دیکھا ہے، تو مجھے یوں لگا کہ میرا دل بس اب پھٹ جانے کو ہے۔شہید محمد یوسف کی دونوں ٹانگیں فوج کے تربیت یافتہ کتوں کی چیر پھاڑ کی وجہ سے بہت بُری طرح زخمی تھیں، جب کہ تشدد،اذیت اور تعذیب کی اس حالت میں ان پر پانچ ماہ گزر چکے تھے۔
جیل میں میری صحت بُری طرح سے بگڑگئی یہاں تک کہ وہ مجھے سخت فوجی پہرے میں ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے،اور اسی دوران ہماری رہائی کا حکم آ گیا۔اس دوران میری والدہ محترمہ وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کی خبر مجھ سےاب تک چھپائی گئی تھی۔ مجھ پر اس سے پہلے جو گزر چکی تھی، میرے لیے یہ اس سے بھی بڑا صدمہ تھا۔مگر چونکہ اس معاملے میں اللہ کی مشیت اور اس کی رضا کام کر رہی تھی اور اللہ نےپچھلے سات مہینوں میں مجھے سخت مشکلات میں صبر کرنا سکھادیا تھا، اس لیے میں نے صبر کیا۔ایک بات مجھے یہ بھی یاد آتی ہے کہ ہماری قید کے دوران ایک بہن نے مجھ سے میرے بیٹے کا نام پوچھا تا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کا وہی نام رکھ سکیں۔اسی دوران ایک افسر اس کے پاس آیا اوراس سے پوچھا کہ ’’تو اپنے بیٹے کا کیا نام رکھے گی؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’احمد جہاد‘ ، تو اس افسر نے اسے دھکا دیا اور گالیاں بھی دیں۔پھر ہماری اس بہن نے اپنے بیٹے کا نام ’عادل‘ رکھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس موقعے پر میرا بیٹا احمد ، اپنے باپ کی ٹانگ پر بیٹھا ہوا ان سے یہ پوچھ رہا تھا:’’ ابا جان، کیا صدر ناصر آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے؟‘‘ تو محمدیوسف نے اس کو جوا ب دیا: الموازین مقلوبۃ و ستظل مقلوبۃ حتٰی یوم القیامۃ [عدل و انصاف کے ترازو اُلٹ دیے گئے ہیں اور قیامت تک اُلٹے ہی رہیں گے]۔ جب محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ سیّدقطبؒ اور عبدالفتاح اسماعیلؒ کے ساتھ ہی اُن کو ’سزائے موت‘ دے دی جائے گی تو ہم نے ان کو ’الوداع‘ کہا۔
اس سے اگلے روز ۲۹؍ اگست ۱۹۶۶ءکی صبح ، اخبارات نے سیّد قطبؒ کی سزائے موت کی خبر شا ئع کی۔اس موقع پر میں نہیں روئی، بالکل نہیں روئی اور اپنے اللہ سے اجر اور صبر کی دُعا کی۔ شہید کا ایک بھائی ’طوسون‘ہمارے پاس آیا تو وہ رو رہا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہے اور انتظار کرے،کیونکہ سرکاری حکام شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کریں گے اور میرے گھر میں کوئی مرد موجود نہیں ہے۔میرے پاس اس وقت سب اخوانی بہنیں جمع تھیں۔ جب میں تحقیقاتی ادارے کے مرکزی دفتر گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے خاوندکی سزائے موت کی خبر اپنے ہاتھوں سے لکھوں، تو اس وقت میں بہت روئی۔ یوسف کی سزائے موت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں بہت روئی،یہاں تک کہ وہاں موجود افسر بھی رو پڑا اور اس نے کہا کہ’’ بہن! مت رو، سچی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ آج کے دن زمین کے اندر جانے والے ہیں، وہ ان لوگوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں جو اس زمین کی پشت پر چل پھر رہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر تعزیت کی کوئی مجلس نہ ہوئی اور نہ شہید کا جسد خاکی ہمارے حوالے کیا گیا،اور آج تک ہمیں یہ بھی پتا نہیں چلا کہ شہید محمدیوسفؒ کو کہاں دفن کیا گیا؟