ماہرالقادریؒ


علامہ اقبال کی شاعری اور ان کی شخصیت سے بدوِ شعورہی سے متاثر تھا۔ یہ واقعہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ تاثر طویل مدت گزرنے کے بعد آج بھی دل پر نقش ہے۔ جب اقبال کی یہ غزل  ؎

کبھی اے حقیقتِ منتظر ، نظر آ لباسِ مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں ، مری جبینِ نیاز میں

میری نظر سے گزری تو ایسا محسوس ہوا جیسے میں فکرو سخن کی نئی دنیا میں آ گیا ہوں۔ یہ آہنگ ہی دوسرے شعرا کی صدائوں سے ممتاز اور یہ لَے ہی دوسروں کی لَے سے نرالی ہے۔ اس کے بعد اقبال کا کلام جس رسالے اور اخبار میں نظر آ جاتا ، شوق وعقیدت کے ساتھ پڑھتا !

شاعری کے آغاز کے بعد دوسرا دور وہ آیا کہ میرا کلام پرچوں میں چھپنے لگا۔ روزنامہ سیاست لاہور سے نکلتا تھا۔ اس اخبار کی اچھی خاصی شہرت اور مقبولیت تھی۔ سیّد حبیب جلال پوری اس کے ایڈیٹر تھے۔ میری غزلیں سیاست اخبار میں شائع ہوتی تھیں۔ میں نے سیّد حبیب جلال پوری کو خط لکھا کہ: ’’ڈاکٹر صاحب کا پتا مطلوب ہے اور ہاں، یہ بھی لکھیے کہ ان کو خط لکھا جائے، تو کیا  وہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے؟‘‘ میرے خط کے جواب میں انھوں نے اقبال کا پتا لکھا، محلے کا نام غالباً’قلعہ گوجر سنگھ‘ تھا [سیّد حبیب نے ’انارکلی‘ یا ’میکلوڈ روڈ لکھا ہوگا۔ ادارہ]، اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ علامہ اقبال کا جواب دینا نہ دینا تو مکتوب کی نوعیت پر منحصر ہے ۔

گائوں کی سادہ زندگی تھی۔ ’رائٹنگ پیڈ ‘ وغیرہ کے تکلفات سے وہاں کی معاشرت یکسر ناآشنا تھی۔ میں نے اللہ کا نام لے کر جوابی کارڈ لکھ دیا جس میں علامہ مرحوم سے درخواست کی کہ آپ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اقبال نے ہاتھ کے ہاتھ جواب دیا، افسوس ہے وہ تحریر میری غفلت اور بے پروائی کے سبب ضائع ہو گئی ۔ چھے سات سطروں کا خط تھا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا: ’’ شاعری کے لیے کسی تلمذ کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ زبان کی درستی کے لیے اس کی ضرورت پیش آتی ہے اور آپ خود یوپی کے رہنے والے ہیں‘‘۔ 

میری جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس جواب سے شاید دل شکستہ ہو جاتا مگر اقبال کے اس جوا ب کو پڑھ کر میرے قلب نے ذرا برابر ناگواری محسوس نہیں کی۔ دل مطمئن تھا کہ اُن کے کلام سے کسی واسطے کے بغیر استفادہ کرتا رہوں گا اور عقیدت ومحبت کی دنیا میں بُعد ِ مکانی نامعتبر ہے کہ اصل اعتبار تو قرب روحانی کا ہے۔

میں سوچتا تھا کہ علامہ اقبال ہمارے نواح میں تشریف لے آئیں تو ان کے دیکھنے کا ارمان پورا کر لوں۔ یہ تمنا دل ہی دل میں پرورش پاتی رہی یہاں تک کہ میں چار پانچ سال حیدر آباد دکن   رہ کر بجنور چلا آیا۔ بجنور سے اخبار مدینہ  نکلنا شروع ہوا تھا۔ اس کی ادارت سے میں متعلق تھا۔ ملک نصراللہ خاں عزیز مدیر مسئول تھے۔ انھی دنوں ۱۹۳۳ء میں میرا بدایوں جانا ہوا ۔ مولانا عبدالقدیر بدایونی مرحوم نے فرمایا کہ: ’’دہلی میں بڑے پیمانے پر’ مسلم کانفرنس ‘ ہو رہی ہے۔ اس میں علامہ اقبال بھی آ رہے ہیں، چلو تم بھی چلو !‘‘ اقبال کی آمد کی خبر سن کر میں دہلی چلنے کے لیے فوراً تیار ہوگیا۔

دہلی پہنچ کر ہم مولانا مظہر الدین مرحوم مدیر الامان  کے یہاں ٹھیرے۔ صبح سویرے جلسہ گاہ پہنچے۔ نئی دہلی کے ایک ہوٹل میں یہ اجتماع تھا اور سر محمد یعقوب جو ان دنوں مرکزی اسمبلی کے ڈپٹی پریذیڈنٹ تھے، اس اجتماع کے کنونیر تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کہ علی برادران تو نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد ہی کانگریس سے علاحدہ ہو چکے تھے ، بعض مسلم اکابر تذبذب کی حالت میں تھے کہ کیا کریں کیا نہ کریں ۔ پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی ۔ مسلم لیگ برسوں کی بنی بنائی موجود تھی مگر بے روح اور جامد تھی اور اس دور کے مسلم عوام میں مقبول نہ تھی۔

اس اجتماع میں اکثریت غالب مسلمان وزیروں ، سروں اور خان بہادروں کی تھی مگرمیری نگاہیں اقبال کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ میں نے انھی کو دیکھنے کے لیے یہ شدّرِحال [یعنی: سفر کے لیے تکلیف اُٹھانا، کمربستہ ہو جانا]کیا تھا۔ دفعتاً ہوٹل کے برآمدے میں حرکت سی محسوس کی گئی ، جیسے کسی نے بجلی کے تار کو چھیڑدیا ہو۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اقبال چلے آ رہے ہیں۔ رسالوں میں بارہا ان کے  فوٹو دیکھے تھے، اس لیے پہچاننے میں ذرا بھی توقف نہیں ہوا۔ وہ ان کا بادامی رنگ کا کوٹ ، وہ   ان کی شکن آلود سی پتلون ، اَبرووں سے متانت و وقار نمایاں اور چہرے پر عالمانہ تفکر کا ظہور۔     اس جلسے میں وزرا تھے، نواب اور خان بہادر تھے مگر مجھے کسی سے دل چسپی نہ تھی، میری دل چسپی اور توجہ کا مرکز اقبال کی شخصیت تھی۔

پہلے اجلاس کے بعد کھانا کھانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے وقفہ ہوا۔ قریب ہی سر محمد یعقوب مرحوم کی کوٹھی تھی، وہاں کھانے کا انتظام تھا۔ اتفاق بلکہ حُسنِ اتفاق کہ مجھے جو نشست ملی، وہ اقبال کی نشست کے بالکل سامنے تھی ! اس فرصت کو میں نے غنیمت جانا  ع

کبھی کبھی تو یہ لمحے نصیب ہوتے ہیں!

دو اڑھائی بجے دوسرا سیشن شروع ہوا اور تلاوتِ قرآن کے بعد صدر صاحب جو کرسی پر بیٹھے ، تو ایک صاحب نے کرسی کھینچ لی اور صدر چاروں شانے چت زمین پر دراز ہو گئے۔ جلسہ گاہ میں خاصہ ہنگامہ ہو گیا۔ دلّی کے کوئی متمول لیڈر تھے، غالباً عبداللہ آٹے والے۔ انھوں نے اپنے کسی حریف کے دو چار گھونسے بھی رسید کیے ! بڑی مشکل سے یہ ہنگامہ فرو ہوا۔ بعض لوگوں نے تقریریں کر کے حاضرین کی اسلامی غیرت سے اپیل کی کہ ہندواخبارات اس ہنگامے کو کس کس طرح اُچھالیں گے اور پڑھنے والے ہم مسلمانوں کے اس اجتماع کے بارے میں کیا راے قائم کریں گے۔

گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے انتشار اور افرا تفری کے بعد جلسے کی کارروائی تو شروع ہو گئی مگر   آخر وقت تک بد مزگی باقی رہی۔ چہروں سے خشونت کے ساتھ ندامت کی بھی تراوش ہو رہی تھی۔

عصر کے قریب یہ اجلاس ختم ہوا۔ مولانا عبدالقدیر بدایونی مرحوم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اقبال کے دیکھنے کے لالچ اور ان سے ملنے کو شوق میں دلّی چلا آیا ہوں۔ اس کا نفرنس کے مقاصد سے مجھے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ انھوں نے موٹر کار منگوائی اور مجھے لے کر مولوی محمد شفیع داؤدی ممبراسمبلی کی قیام گاہ پر پہنچے ۔ اقبال جلسہ گاہ سے اُٹھ کر وہیں تشریف لے گئے تھے۔

اگر میں یہ کہوں کہ مولانا مرحوم نے اقبال سے میرا تعارف کرایا، تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی۔ علامہ اقبال سے میرا تعارف اور وہ بھی اس زمانے میں جب میں کسی تعارف کے قابل ہی نہیں تھا___ مگر علامہ اقبال کی عالی ظرفی دیکھیے ۔ مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے:

’’جب میں حیدر آباد گیا تو آپ سے ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک حیدر آباد دکن نہیں گیا تھا، آپ کی تشریف آوری کے بعد وہاں پہلی بار جانا ہوا۔

اُس کے بعد چائے نوشی ہوئی۔ اقبال کے ساتھ اس ہم نشینی اور چائے نوشی پر میں نے محسوس کیا کہ جذبۂ فخرومسرت مجھے پھیلا رہا ہے۔ باتوں باتوں میں ایک صاحب نے اقبال سے پوچھا کہ آج کی کانفرنس میں جو ہنگامہ برپا ہوا، اس کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

علامہ اقبال نے چائے کی پیالی اُٹھاتے ہوئے جواب دیا : ’’ترکی کی پارلیمنٹ میں تو پستول چل جاتے ہیں‘‘۔ پھر کسی کو اجلاس کے بارے میں کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ علامہ اقبال اعتدال پسند مسلمانوں کے جلسوں کی صدارت بھی کیا کرتے تھے۔ اُن کی سیاست کانگریس کی ہنگامہ آرا سیاست کے مقابلے میں معتدل اور نرم سیاست تھی۔ اُسی نشست میں دو صاحبوں نے علامہ اقبال سے ایک ہی تاریخ میں دو مختلف مقامات پر جلسوں کی صدارت کی درخواست کی ، ان میں ایک مولوی صاحب فرخ آباد کے رہنے والے تھے۔

دونوں دعوت دینے والوں کا اصرار تھا کہ علامہ ہمارے یہاں جائیں ، اس پر بحث ہونے لگی۔ تیسرے صاحب نے اقبال سے کہا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں، فرمایا:’’یہ دونوں اس کافیصلہ کر لیں ___ رہا میرا معاملہ تو میں تو کھڑا کھیل فرخ آبادی کھیلنے کو پسند کرتا ہوں ‘‘ ۔

اس پر سب مسکرا دیے ، مگر مزاحیہ جملے نے فیصلہ بھی سُنا دیا کہ علامہ اقبال کا رجحان کس مقام اور شہر کی طرف ہے۔

علامہ اقبال سے میری یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی ___آہ !

روے گُل ، سیر نہ دیدم و بہار آخر شد      

اس کے بعد نا جانے کتنے بڑے بڑے آدمیوں سے یہاں تک کہ باد شاہوں تک سے  ملا ہوں، مگر اقبال کے ساتھ جو چند لمحے گزرے ہیں، اس کے نقش کسی ملاقات سے دب نہیں سکے۔[ہفت روزہ شہاب، لاہور، ’اقبال نمبر‘، ۲۴؍اپریل ۱۹۶۰ء]