پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی


صنعتی انقلاب کے نتیجے میں روز افزوں متنوع صنعت گاہوں کے قیام اور نت نئے تیزرفتار ذرائع آمدورفت کی مسلسل ایجادات نے گذشتہ کئی عشروں سے ماحول کے تحفظ کو عالمی توجہ کا موضوع بنا دیا ہے، کیوں کہ ماحول کی آلودگی انسانی صحت اور زندگی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ وہ زمین جس پر انسان رہتا اور بستا ہے اس کے بعض حصوں پر غلاظتوں اور گندگی کا اتنا انبار ہے کہ انسانی زندگی اس کے تعفن سے اذیت میں مبتلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے جنگلوں اور پیڑوں کے غیرمتناسب استعمال بلکہ استحصال نے موسمی تغیرات کا رخ بدل دیا ہے۔ وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں صنعت گاہوں، کارخانوں اور کیمیاوی تجربہ گاہوں کے چھوڑے ہوئے فضلات اور بڑی چھوٹی موٹرگاڑیوں کی لمبی قطاروں کی کثافتوں سے اس حد تک زہرآلود ہوچکی ہے کہ انسان تنفس ، پھیپھڑے، جگر ، قلب اور جلد کی اَن گنت بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ جانور اور پرندے بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں اور نت نئی بیماریاں جغرافیائی حدود کو پار کررہی ہیں۔  

یہاں تک کہ اوزون پرت (Ozone layer) جو سورج کی شعاعوں کے مضر اثرات سے ہماری زمین کی فضا کی حفاظت کرتی ہے، اس میں سوراخ ہورہا ہے اور انسانی زندگی کے لیے خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ وہ پانی جسے انسان خود پیتا ہے اور اپنے مویشیوں کو پلاتا اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، اس میں کیمیاوی مادوں اور زہریلے فضلات کی آمیزش اس قدر ہورہی ہے کہ پانی کے جانداروں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم و جان میں بھی زہریلے اثرات منتقل ہورہے ہیں اور وہ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ کسی صنعتی شہر میں دن گزار کر جب آپ گھرلوٹیں تو اپنے لباس اور جسم پر اور اپنے منہ اور ناک میں کثافتوں کی سیاہی واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ 

قومی اور بین الاقوامی جنگوں میں آتشیں ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے علاوہ بڑے پیمانے پر کیمیاوی گیسوں، بارودی مواد اور لیزر کی شعاعوں کا استعمال بھی کیاجانے لگا ہے۔ یہ تباہ کن ہتھیار صرف اپنے نشانہ کو ہی برباد نہیں کرتے بلکہ ایک خاص فاصلے تک پائے جانے والے ہرجاندار اور مجموعی ماحول پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں، جو زمین کا نمو ختم کرکے اس میں زہر بھر دیتے ہیں اور درجۂ حرارت بڑھا کر ماحول کا توازن بگاڑ دیتے ہیں۔ 

اس صورتِ حال میں حکومتوں، عالمی تنظیموں، رفاہی انجمنوں، علمی اور تحقیقاتی اداروں کی تشویش بجا اور برملا ہے۔ ہر طرف سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ ماحول کا تحفظ کیا جائے، صاف ستھری فضا کو برقرار رکھنے کے لیے آلودگی پر قابو پایا جائے۔ معروضی غفلت کی وجہ سے انسان کو کسی چیز کی حفاظت کا احساس عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وجود اور صحت کو خطرہ لاحق ہو۔ آنکھ میں درد ہوتا ہے تو انسان آنکھ کی فکر کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں میں تکلیف ہوتی ہے تو انسان مالش اور معالج کی فکر کرتا ہے، ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اصلاح کی فکر اس وقت ہوتی ہے جب فساد نظر آنے لگتا ہے۔ ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کی فکر بھی انسان کو اس وقت ہورہی ہے جب ماحول میں فساد اور کثافت پھیل گئی ہے اور لوگ اس کی زہرناکی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 

خاتم المرسلینؐ کی تعلیمات کی ہمہ گیریت 

ذرا تصور کیجیے کہ آج سے چودہ سو برس پہلے جب نہ تو موٹر گاڑیوں کا وجود تھا اور نہ دیوہیکل کارخانے وجود میں آئے تھے۔ نہ جنگلات فنا ہورہے تھے اور نہ دریائوں میں زہر گھل رہا تھا۔ اور ماحول میں آلودگی تو آج کی طرح رچی بسی ہی نہ تھی۔ مگر چونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول تھے جن کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول مبعوث ہونے والا نہیں تھا۔ اس لیے قیامت تک آنے والے تمام حالات و تحدیات (چیلنجز) میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فراہمی ناگزیر تھی کیوں کہ ان ہدایات کے بغیر نہ دین مکمل ہوتا نہ ہرانسان کے لیے دین اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کے فریضے کی ادائیگی ممکن ہوتی جسے اللہ ربّ العزت نے ہر انسان کی دُنیا و آخرت میں کامیابی کا معیار مقرر فرمایا تھا (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس لیے  اللہ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو ماحول کو کثافت سے پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کی جامع تعلیم و تلقین فرمائی۔ اصولی ہدایات، مؤثر تعلیمات اور عملی اقدامات، تینوں طرح سے ماحول کی پاکیزگی کو یقینی بنایا۔ یہ کائنات انسانوں کے لیے خالقِ حقیقی کی صناعی کا خوب صورت تحفہ ہے اور اس کی تمام جاندار اور بے جان چیزیں انسانوں کے لیے ربّ العزت کی حسین نعمت ہیں۔ اس کائنات کی خوب صورتی اور تازگی کی حفاظت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف تعلیم دی بلکہ اسے فروغ دینے میں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت لگانے کی ضرورت کا احساس دلایا، اور فطرت کے عطیات کو فطری قوانین کے مطابق برتنے کی تلقین فرمائی، تاکہ انسان خود بھی ماحول کی پاکیزگی سے لطف اندوز ہوسکے اور دوسرے جانداروں کو بھی راحت پہنچا سکے اور ربِّ کریم کا شکر ادا کرے: 

مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۶ (المائدہ۵:۶) اللہ تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا ، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم شکرگزار بنو۔ 

خالقِ کائنات کے عطیات کا ادراک 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان و زمین، سمندر، پہاڑ، حیوانات، نباتات، پرندے، جنگلات، باغات، وادیوں اور آبادیوں، سب کچھ کو خالقِ کائنات کے متوازن نظام کا شاہکار قرار دیتے ہوئے ان کی تخلیق پر غور کرنے، ان میں کارفرما ربّ العزت کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تعلیم فرمائی۔ آپؐ نے انسانوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا: 

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ  ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴ (البقرہ۲:۱۶۴) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے بعد آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کی نفع رسانی کا سامان لیے سمندر میں چلتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعے زمین کو زندہ کردیتا ہے اور ہر طرح کی جاندار مخلوق کو زمین میں پھیلانے میں، اور ہوائوں کی گردش میں اور آسمانوں و زمین کے درمیان مسخر بادلوں میں عقل مند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ 

قرآن حکیم کی اس آیت میں دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق براہِ راست ماحولیات سے ہے:

۱- آسمان

۲- زمین

۳- دن اور رات یعنی وقت

۴-جہازرانی ۵-سمندر کے سینے پر چلنے والے سفینوں میں انسانوں کی نفع رسانی

۶-بارش ۷-زمین کی روئیدگی، کاشت کاری اور شجرکاری

۸-حیوانات کی زندگی

۹-ہوائوں کی گردش

۱۰- بادلوں کا فضا میں معلق ہونا۔
کثیرجہتی ماحولیاتی نظام کے اُن عجائبات اور ان کا انسان کے معاشرتی ماحول اور اس کی راحت رسانی کے تعلق کو، قرآن پاک میں بار بار مشاہدہ، مطالعہ اور سبق آموزی کے لیے انسانوں کے سامنے پیش کیا گیاہے۔ اس آیت میں بھی ان حکمتوں کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے کیوں کہ اس سے انسانی زیست کے ماحول کی تشکیل ہوتی ہے اور توازن برقرار رہتا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربّ العزت کا یہ سبق بھی انسانوں کو ذہن نشین کرایا ہے کہ کائنات کی ان ساری چیزوں کو خاص اہتمام ، انداز، توازن اور اعتدال کے ساتھ بنایا اور سنوارا جانا بامقصد ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مواقع پر کائنات کے نظم وتوازن اور اللہ کے مقرر کردہ معیار و مقدار پر غوروفکر کو حق تک رسائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: 

اِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۝۰ۭ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝۹۵ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۝۰ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۝۹۶ (الانعام ۶:۹۵-۹۶) بے شک دانے اور گٹھلی کو (زمین میں) پھاڑنے والا اللہ ہے۔ وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے۔ اور وہی مُردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہ کے کرشمے ہیں، تم کدھر بہکے جارہے ہو؟ رات کے پردہ سے وہی دن نکالتا ہے اور اسی نے رات کو وجۂ سکون بنایا ہے اور شمس و قمر کی گردش مقرر کی ہے۔ یہ اسی غالب اور علم رکھنے والے اللہ کے ٹھیرائے ہوئے قوانین ہیں۔ 

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: 

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙ وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَہَدٰى۝۳۠ۙ وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى۝۴۠ۙ  (الاعلٰی۸۷: ۱ - ۴) اپنے ربّ برتر کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے اندازہ مقرر کیا اور راہ دکھائی اور جس نے نباتات اُگائیں۔ 

کائنات کاتوازن نہ بگاڑو 

ربّ العزت نے جس طرح اپنی تخلیق میں تناسب، توازن اور اعتدال کا اہتمام رکھا ہے اس کا تاکیدی حکم ہے کہ بندے بھی اسی طرح اپنے عمل میں اعتدال و توازن رکھیں اور اللہ کے نظامِ تخلیق کا توازن نہ بگاڑیں۔ ربّ العزت کے مقرر کردہ اس توازن کی حکمت کو سمجھنا، اسے اپنی عملی سرگرمیوں کے لیے رہنما بنانا، اسے اپنی نفع رسانی سے جوڑنا، اس سے استفادہ کرنا، اس کا توازن برقرار رکھنا، اس میں خلل پیدا نہ کرنا، انسان کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی: 

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠  وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۝۶  وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۝۷ۙ  اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۝۸  وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ۝۹  وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ۝۱۰ۙ  فِيْہَا فَاكِہَۃٌ۝۰۠ۙ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ۝۱۱ۖ  وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ۝۱۲ۚ  فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۳ (الرحمٰن ۵۵:۵-۱۳)سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اسی نے بلند کیا اور توازن قائم فرمایا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا۔ اس میں ہرطرح کے پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں، جن کے پھل غلافوں میں ہیں، ہر طرح کے غلّے ہیں جن میں بھوسا بھی ہے اور دانہ بھی، تو اے جنِّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ 

آیت میں شمس و قمر کی گردش کا حساب ، پیڑ پودوں کی شادابی، آسمان کی بلندی، زمین کی تخلیق، غلّے اور پھل پھول کی پیدائش جیسی نعمتوں کو انسان کے سپرد کرنے کے ساتھ یہ ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ قدرت کے ایک متوازن نظام اورمعتدل انتظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام میں خلل ڈالنے اور اس حُسنِ انتظام میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عطیات سے اگر ربّ العزت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق استفادہ کیا جائے تو یہ اصلاح ہے اور اگر ان اصولوں سے انحراف کیا جائے تو یہ فساد کا باعث ہے۔ ربّ العزت صرف عطیات ہی عطا نہیں کرتے بلکہ طریقۂ استعمال کی ہدایات بھی دیتے ہیں۔ انسان ربّ العزت کے ان عطیات سے کماحقہٗ استفادہ صرف ربّ العزت کی ہدایات کے مطابق ہی کرسکتا ہے۔ 

ماحول کا فساد 

قرآن مجید میں صاف اور صریح لفظوں میں تاکید کی گئی ہے کہ ماحول میں فساد نہ کرو: وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ  اِصْلَاحِہَا (الاعراف ۷: ۵۶) ’’اور زمین میںاس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کرو‘‘۔فساد اور اصلاح قرآنِ کریم کی دو اہم اصطلاحیں ہیں جو بڑی معنی خیز ہیں۔ اصلاح کے معنی اللہ کی تخلیق کردہ فطری ترتیب، نظام اور توازن کے ہیں، یعنی ہرچیز کو اپنی فطری جگہ پر قائم رکھنا، اور فساد کے معنی اس فطری ترتیب اور توازن و نظم میں انتشار، خلل اور بگاڑ پیدا کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ربّ العزت نے کائنات میں ہر چیز اندازے، قرینے، اہتمام اور اعتدال کے ساتھ رکھی ہے۔ اس میں اپنی بے راہ روی اور بداعمالی سے خلل نہ ڈالو، بگاڑ نہ پیدا کرو۔ اس کا استعمال اپنی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرو۔ ماحول کے اس نظم و توازن کا فائدہ خود انسانوں کو ہوگا اور اگر وہ اس میں بگاڑ پیدا کرے گا تو اس کے نقصانات اور مضر اثرات بھی اسی کو بھگتنے پڑیں گے۔ اس طرح انسان اپنی تباہی کا آپ ہی ذمہ دار ہوگا، ارشاد خداوندی ہے: 

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱(الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ 

فساد کا ایک عمومی مطلب تو یہ ہے کہ انسانوں نے اپنے باغیانہ خیالات اور سرکشی اور باہم تنازع و تصادم کرکے زمین میں فساد برپا کرلیا ہے۔ مگر اس آیت کا اہم مصداق ماحول بھی ہے جس کے لیے خاص طور پر زمین کے ساتھ ساتھ بحریعنی دریا و سمندر کا تذکرہ کیا گیا ہے، یعنی ماحول میں آلودگی، فکروخیال اور اعمال کی گندگی، بداخلاقی اور کج روی کی وجہ سے بھی ہے اور ربّ العزت کے عطیات کے غلط استعمال اور استحصال اور ان میں انسانی کثافتوں کی آمیزش کی وجہ سے بھی ہے۔ ماحول کی آلودگی اسی وقت دُور ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے فکروعمل کا قبلہ درست کرے اور کائنات کے تعلق بارے اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائے۔ 

قرآن اور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اصولی تعلیم کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے متعلق متعین ہدایات بھی انسانوں کو دربارِ نبوت سے ملتی ہیں۔ ماقبل صنعتی عہد میں ماحول کی آلودگی ابتدائی اور سادہ شکل میں پائی جاتی تھی، مگر رسولؐ اللہ نے ماحول کی آلودگی بارے انسانی شعور کو بیدار کیا اور عملی اقدامات سے متعلق جامع اور واضح ہدایات فرمائیں۔یہ ہدایات آج بھی ماحولیات کے تحفظ اور پاکیزگی کے لیے رہنما خطوط اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

گندگی نہ پھیلاؤ 

ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ گندگی پھیلانے سے پرہیز کیا جائے، خاص طور پر پبلک مقامات کو گندگی سے بچایا جائے۔ رسولؐ اللہ  نے سایہ دار درخت کے نیچے، راستے میں اور مسجد میں گندگی پھیلانے سے منع فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوچیزوں سے پرہیز کرو ۔صحابہؓ نے پوچھا: وہ موجب ِ لعنت چیزیں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں کے راستے میں اور سایہ میں غلاظت کی جائے۔( صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن الاستنجاء بالیمین) 

پبلک مقام کی جامع شکل عہد نبویؐ میں مسجد تھی۔ چنانچہ آپؐ نے مسجد میں تھوکنے سے بھی منع فرمایا۔(سنن النسائی ، کتاب المساجد، باب البصاق فی المسجد) 

قربانی کے دنوں میں بڑی تعداد میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ سماجی شعور کی کمی کی وجہ سے قربانی کے فضلات سڑکوں پر اور نالیوں میں بکھرے نظر آتے ہیں، گندگی پھیلتی ہے، بیماری بڑھتی ہے۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ قربانی کے فضلات کو دفن کر دیا جائے۔ اگر اس ہدایت پر عمل درآمد ہو تو ماحول کی آلودگی سے بچا جاسکتا ہے۔ شریعت محمدیؐ نے ایسے ایندھن کے استعمال سے روکا ہے جس کا دھواں پڑوسی کے گھر میں جاتا ہو۔ فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے یہ حکم ایک اصول اور کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی روشنی میں آج کل کی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں کو ضابطہ کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ 

پاکی اور صفائی کا اہتمام کرو 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماحولیاتی تعلیم و تربیت کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ روح، جسم، لباس اور مکان کے ساتھ ماحول کی صفائی کا پورا اہتمام کیا جائے۔ مسلمانوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ صفائی کا خاص اہتمام کرنے والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اہل قباء کی یوں تعریف کی گئی:  

فِيْہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہَّرُوْا۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِيْنَ۝۱۰۸ (التوبہ ۹:۱۰۸) اس (قباء)میں وہ لوگ ہیں جو پاکی اور صفائی کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور اللہ پاک اور صاف لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا اور فرمایا: النَّظَافَۃُ تَدْعُوْ اِلَی الْاِیْمَانِ وَالْاِیْمَانُ مَعَ صَاحِبِہِ فِی الْجَنَّۃِ (معجم الاوسط للطبرانی، باب العین، باب المیم من اسمہ محمد، حدیث: ۷۴۵۰) ’’صفائی ایمان کی طرف لے جاتی ہے اور ایمان اپنے ساتھی کو جنّت میں لے جاتا ہے‘‘۔ 

ہرانسان جنّت میں جانےکا آرزومند ہے۔ ہرشخص جنّت کی نعمتیں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ایمان و عمل سے تیاری کرتا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انقلابی تعلیم پر غور کیجیے کہ اگر جنّت میں گھر بنانا چاہتے ہو تو پہلے اپنے ماحول کو پاک صاف کرکے جنّت نشان بنائو تاکہ تم صحیح معنوں میں جنّت کے حق دار بن سکو۔ 

قرآن و سنت کی اس صحت آفریں تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان اپنے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی فکر کرے۔ اپنے محلّہ اور بستی میں صفائی کی مہم چلائے اور گندگی جمع نہ ہونے دے ۔ وہ یہ بھی دیکھے کہ کہیں اس کی بے توجہی جراثیم کے پھیلنے اور فضائی آلودگی کا سبب تو نہیں بن گئی ہے۔اس کے گھر کے باہر ایسا کوڑا تو نہیں جمع رہتا ہے جو دوسروں کے لیے اذیت کا سبب بنے۔ اگر ایسا ہے تو پہلی توجہ صفائی ستھرائی پر دینی چاہیے۔ 

استعمال کرو، اسراف نہ کرو 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماحولیاتی تعلیم کا تیسرا اہم پہلو بقدرِ ضرورت استعمال کا نظریہ ہے جسے Conservationکہا جاتا ہے۔ دُنیا کی ہرچیز اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے استعمال کے لیے بنائی ہے، اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے: 

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا (الجاثیہ۴۵: ۱۳) اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمھارے (استعمال کے)لیے مسخر کردی ہیں۔ 

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: 

ہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ۝۰ۭ وَاِلَيْہِ النُّشُوْرُ۝۱۵(الملک۶۷: ۱۵) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنایا، اس کی راہوں میں چلو، اس کا دیا ہوا رزق کھائو اور اسی کی طرف تم کو اُٹھایا جانا ہے۔ 

اللہ ربّ العزت نے اپنی نعمتیں انسان کو استعمال کے لیے دی ہیں مگر ان کا استعمال، سلیقہ اور طریقہ سے ہونا چاہیے، بقدرِ ضرورت ہونا چاہیے۔ نہ تو بلاضرورت ہونا چاہیے اور نہ ضرورت سے زیادہ ہونا چاہیے۔ ماحول میں توازن برقرار رکھنے کے لیے استعمال نہ کہ اسراف کے لیے۔ اسراف سے بچنے کی حکیمانہ تعلیم ایک خوب صورت تناظر میں اس طرح دی گئی ہے: 

 وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَـوْمَ حَصَادِہٖ۝۰ۡۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱(الانعام ۶: ۱۴۱) وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اُگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں۔ کھائو ان کی پیداوار، جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اُن کی فصل کاٹو، اوراستعمال میں حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 

قرآن کریم میں مزید واضح لفظوں میں تاکید کی گئی ہے کہ: 

وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۳۱ (الاعراف۷:۳۱) اور کھائو، پیو مگر اسراف (استعمال میں حد سے گزرنا) نہ کرو کیوں کہ اللہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ 

’استعمال نہ کہ اسراف‘ کے اس بنیادی اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ماحولیات میں عدم توازن کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہو اور اس اصول کو موجودہ صورتِ حال میں مسلسل اپنانے سے ماحولیاتی آلودگی اور عدم توازن کا مسئلہ ایک معقول مدت میں حل بھی ہوسکتا ہے۔ پانی، جنگلات، حیوانات، پرندے، معدنیات، توانائی ، قدرتی وسائل اور خورونوش اور استعمال کی تمام ضروری اشیا میں بقدرِ ضرورت استعمال (Conservation) کا اصول تحفظ اور توازن کا ماحول پیدا کرے گا اور انسان جن پریشانیوں میں مبتلا ہے اس سے نکلنے کا راستہ پاسکے گا۔ اللہ کے اس حکم کے مخاطب حکومت، ادارے، عوام، معاشرہ اور فرد سب ہیں، اور ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرے۔ 

پانی کا تحفظ کرو 

پانی کو اللہ ربّ العزت کی عطا کردہ نعمتوں اور وسائل میں ایک بنیادی اور نہایت گراں قدر اہمیت حاصل ہے۔ انسانی زندگی بہت حد تک پانی پر منحصر ہے۔ اس کے استعمال میں عدم توازن اور اس میں آلودگی کی وجہ سے انسانی ماحول کو شدیدخطرات کا سامنا ہے۔ قرآن کے نقطۂ نظر سے پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ زندگی کی بنیاد بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱:۳۰) ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ 

دوسری جگہ ارشادہے: 

وَاللہُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ۝۰ۚ (النور۲۴:۴۵) اللہ نے ہر جان دار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ 

پانی کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھنا اور اس کے استعمال میں سلیقہ کا لحاظ رکھنا انسانوں کی ذمہ داری ہے، تاکہ اس سے زندگی بخشنے والی صلاحیت ختم نہ ہوجائے۔ پانی میں رہنے والے جاندار بھی زندہ رہ سکیں اور پانی استعمال کرنے والے انسان و حیوان اور نباتات بھی زندگی پاسکیں۔  

عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعدؓ کے پاس سے گزرے۔ اس وقت وہ وضو کر رہے تھے اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: یہ کیسی فضول خرچی ہے؟ حضرت سعدؓ نے پوچھا: کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟ رسولؐ اللہ نے جواب میں فرمایا: نَعَمْ وَاِنْ کُنْتَ عَلٰی نَھْرٍ جَارٍ ’’ہاں، اگرچہ تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ وضو کر رہے ہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الطہارۃ، باب ماجاء فی القصد فی الوضوء) 

خلاصہ یہ ہے کہ پانی کا استعمال بھی سلیقہ سے کیا جائے اور پانی کو آلودگی سے محفوظ بھی کیا جائے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے پانی میں غلاظت اور کثافت پھیلانے سے بھی منع فرمایا ہے: 

جابرؓ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اِنَّ  رَّسُوْلَ اللہِ نَھَی أَنْ یُبَالَ فِی الْمَاءِ الدَّائِمِ، ’’رسولؐ اللہ نے منع فرمایا ہے کہ ٹھیرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا جائے‘‘۔ (الصحیح المسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن البول فی الماء الراکد) 

حیوانات ماحول کی زینت ہیں 

حیوانات انسان ہی کی طرح اللہ کی مخلوق اور ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔ انسانوں کی ضرورت اور انسانی ماحول کی زینت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہماری خدمت اور نفع بخش استعمال کے لیے بنایا ہے۔ اس لیے ان کی نسلوں کا تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کرنا انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَا۝۰ۚ لَكُمْ فِيْہَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۵۠ وَلَكُمْ فِيْہَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَ۝۶۠  وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۷ۙ  وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِيْنَۃً۝۰ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸ (النحل ۱۶:۵-۸) اور جانوروں کو بھی اس نے پیدا کیا۔ ان میں تمھارے لیے پوشاک ہے اور بہت سے فائدے ہیں، اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ جب شام کو انھیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں تمھاری خوب صورتی ہے اور دُور دراز مقامات جہاں تم شدید محنت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے وہ تمھارے بوجھ کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بے شک تمھارا ربّ شفیق و مہربان ہے اور اسی نے گھوڑے ، خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان کی سواری کرو، وہ تمھارے لیے زینت اور رونق بھی ہیں۔ اور وہ پیدا کرتا ہے جس کی تم کو خبر نہیں ہے۔ 

یہ آیت وائلڈ لائف کنزرویشن یعنی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عظیم تحریک فراہم کرتی ہے۔ اس میں جانوروں کی تخلیق، ضرورت، مقصد اور ماحول کی ان سے زینت کے بہت سے گوشے روشن کردیئے گئے ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جس کی معیشت میں گلہ بانی مرکزی حیثیت رکھتی ہو، جانوروں کا صبح کو گھر سے نکلنا، چراگاہوں میں جانا اور شام کو واپس آنا ایسا خوش نما منظر پیش کرتا ہے جو انسانوں کی خوشی کا ذریعہ ہے۔ 

بلاوجہ درخت نہ کاٹو 

پیڑ پودے، جنگلات اور باغات ماحول کو سازگار بنانے اور موسم کو معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ماحول میں خوش گواری اور خوب صورتی پیدا کرتے ہیں۔ جن علاقوں میں پودے، درخت اور باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں وہاں انسان راحت اور مسرت محسوس کرتا ہے، اور جہاں پیڑ پودے نہیں ہوتے وہاں انسان گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے سیروتفریح کے لیے انسان ایسے مقامات کا انتخاب کرتا ہے جہاں کے مناظر دیدہ زیب اور فضا خوش گوار ہو۔ چنانچہ ماحولیات کا تقاضا ہے کہ پیڑپودے برباد نہ کیے جائیں ورنہ موسمی بلائیں دَر آئیں گی۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ بلاضرورت درختوں کو نہ کاٹا جائے۔ ہرے پیڑ انسان اور حیوانات دونوں کی راحت رسانی کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ حدودِ حرم مکہ میں پیڑوں کا کاٹنا اور جانوروں کا مارنا ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا: جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا تھا اسی طرح مَیں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں ۔ نہ تو یہاں پیڑوں کو کاٹا جائے اور نہ جانوروں کو ہلاک کیا جائے۔ ایندھن کی لکڑیاں اور جانوروں کاچارہ اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ (نورالدین علی بن احمد السمہودی، وفاء الوفا باخبار المصطفٰی، جلد۱،ص ۱۱۱، پوربند، گجرات) 

جنگ میں بہت سی وہ چیزیں اختیار کی جاتی ہیں جو غیراخلاقی اور غیر انسانی ہوتی ہیں تاکہ دشمن پر قابو پایا جاسکے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں بھی دشمن کے درختوں کو بلاضرورت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ 

پیڑ پودے لگاؤ 

ماحول میں ہریالی، موسم کی سازگاری اور انسانوں اور جانوروں کی نفع رسانی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیڑ پودوں کو لگانے کی اہمیت کا احساس دلایا۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

مَا مِنْ مُسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا ، فَأَكَلَ مِنْهُ إنْسَانٌ أوْ دَابَةٌ ، إلّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ  (صحيح البخاری، كتاب الأدب،  باب رحمة الناس والبهائم - حدیث: ۵۶۷۳) جو مسلمان کوئی پیڑ لگاتا ہے یا کاشتکاری کرتا ہے اور اس پیڑ پودے سے انسان، پرندے یا جانور کھاتے ہیں تو یہ پیڑ لگانے والے کے لیے صدقہ ہے۔ 

شجرکاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی ہے کہ قیامت تک اس کام کو کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:  

اِنْ قَامَتْ السَّاعَۃُ وَ بِیَدِ اَحَدِکُمْ فَسِیْلَۃً فَاِنِ اسْتَطَاعَ اَنْ لَا یَقُوْمَ حَتّٰی یَغْرِسَھَا فَلْیَفْعَلُ (احمد بن حنبل، المسند، جلد۳، ص ۱۹۱) اگر قیامت کا وقت آجائے اور تم میں سے کسی شخص کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور قیامت کے برپا ہونے سے پہلے وہ اسے لگاسکتا ہو تو اسے ضرور لگا دینا چاہیے۔ 

شجرکاری کے ذریعے ماحول کا تحفظ کرنے کی اہمیت بارے اس سے بڑی بات نہیں کہی جاسکتی کہ قیامت برپا ہونے میں چند لمحات بھی باقی ہوں تو بھی اگر انسان ایک درخت بھی لگانے کی مہلت بھی پائے تو اسے اس کو لگا دینا اس کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ جب کسی شخص کو اگلے لمحے دُنیا سے رخصت ہونے کا خیال آتا ہے تو وہ تعمیروترقی کے سارے کام بھول جاتا ہے، اور بس اپنی نجات کے لیے فکرمند ہوتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی کہ مرتے وقت تک ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا بھی آخرت میں سرخرو ہونے کا ذریعہ ہے۔ یہ انقلابی تعلیم آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انسانیت کو مل سکتی ہے۔ 

عملی مثال 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا کے عام قائدین کی طرح محض لوگوں کو زبانی تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں، خود اس کی صداقت پر عمل کرکے دکھاتے ہیں۔ چنانچہ ہم متعدد مواقع پر دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے پیڑ لگاتے ہیں اور وہ پیڑ برگ و بار بھی لاتا ہے۔ 

مدینہ سے کوئی ۲۰میل کی دُوری پر وادیٔ عقیق ہے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی جسے حمی النقیع کہا جاتا ہے۔ اس چراگاہ میں آپؐ نے پیڑپودے لگوائے، سبزیاں لگوائیں۔ کچھ عرصہ بعد اس وادی میں اتنی ہریالی ہوگئی کہ گھوڑے پر سوار ہوکرانسان ان پیڑوں کی چھائوں میں غائب ہوسکتا تھا۔ اس ہریالی کے باعث یہ صرف گھوڑوں کی چراگاہ نہ رہی بلکہ انسانوں کی سیرگاہ بھی بن گئی۔ اس سیرگاہ کی حدودرسولؐ اللہ نے اس طرح مقرر فرمائی کہ ایک شخص کو کھجور کے پیڑ پر چڑھ کر بلند آواز لگانے کو کہا۔ آواز کی گونج جہاں تک سنائی دی وہاں تک اس کی حدود مقرر ہوئیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ علمی اور عملی مثالیں ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں آج کے دانش مندوں ، رفاہی اداروں اور ماہرین علوم کے لیے بصیرت اور مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ 

ذمہ داری اور جواب دہی 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسان کے اندر ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس پیدا کیا ہے۔ آپؐ نے زمین و آسمان کی نفع بخش چیزوں اور ماحول کی ساری نعمتوں کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اگر اس ذمہ داری کو پورا نہ کیا تو دُنیا میں چاہے حکومت اور معاشرہ بازپُرس نہ کرے مگر قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور جواب دینا ہوگا۔ 

قرآن کریم میں ہے: ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَـوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ۝۸ۧ (التکاثر۱۰۲ :۸) ’’روزِقیامت ان نعمتوں کے بارے میں تم سے ضرور سوال کیا جائے گا‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی بقدرِ ضرورت استعمال کے اصول پر عمل پیرا ہوکر مکمل حفاظت کی جائے اور اسراف، فسادوبگاڑ سے بچاجائے۔ 

رسول ، اللہ کا فرستادہ اور اس کانمایندہ ہوتا ہے۔رسول کے مخاطب انسان ہوتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتا اور بستا ہے، بھرپور سماجی اور اجتماعی زندگی گزارتا ہے اور صالح انسانی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، ان کی مشکلات کو حل کرتا ہے ان کا غم خوارہوتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت کرتا ہے اور ان کی تطہیر و تعمیر کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ ایک طرف تو رسول کا تعلق اللہ سے گہرا اور مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف انسانوں سے اس کا رشتہ اٹوٹ اور بے لوث ہوتا ہے۔ منصبِ رسالتؐ کے یہ بنیادی پہلو ہیںاوریہی کارِ پیغمبری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی ہدایت کے لیے انسان کے بجاے فرشتے کو رسول بناکر کیوں نہ بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا  :

قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور بستے ہوتے تب ہم ضرور ان کی ہدایت کے لیے آسمان سے فرشتے نازل کرتے۔

گویا انسانوں کی مشکلات ، نفسیات ، مزاج، ضروریات اور دکھ درد کو زیادہ بہتر طور پر انسانوں کا نمایندہ ہی سمجھ سکتا ہے اور ان کا بہتر مداواکر سکتا ہے ۔ اس لیے فرشتے کے مقابلے میں انسان کو رسول بناکر بھیجنا زیادہ مناسب تھا۔ چنانچہ تمام رسول انسانوں ہی کے درمیان سے اٹھے اور انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مامور ہوئے ۔ خاص طور پر آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی دکھ درد کو نہ صرف گہرائی سے سمجھتے تھے، بلکہ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے اور اُن کے شریک غم رہتے تھے۔ وہ انسانی مشکلات کے حل سے اتنی گہری دل چسپی رکھتے تھے کہ قرآن پاک نے ان کو رحمۃ للعالمینؐ کا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے :

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبۃ ۹:۱۲۸) بے شک تمھارے پاس ایک رسول تمھارے ہی درمیان سے آیا ہے ، تمھاری تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے ، وہ تمھاری بھلائی کا حریص ہے اور مومنوں پر مہربان اور شفیق ہے۔

نبوت سے پھلے انسانی خدمت

رسول اکرم ؐ منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے بھی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کے لیے مشہور تھے ۔ بارِ نبوت کو اٹھانے میں اس صلاحیت اور خصوصیت نے آپ کو بڑی مدد پہنچائی ، بلکہ یہ کہا جائے کہ قدرت نے کارِ نبوت کو انجام دینے کے لیے آپؐ کا انتخاب کرنے سے پہلے آپؐ  کے اندر انسانی خدمت کا جذبہ اور ملکہ کامل طور پر پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ جب آپؐ  پر قرآنی آیات نازل ہوئیںتو اس وقت آپؐ  غار حرا میں غور و فکر میں تھے۔ فرشتے سے پہلی ملاقات اور پہلی وحی کے نزول کے بعد آپؐ  سردی سے کانپتے ہوئے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایاکہ مجھے چادر اڑھائو، مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ پھر آپؐ  نے پورا ماجرہ سنایا۔ یہ سن کر حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

ہرگز نہیں اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے دنوں میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔(بخاری)

یعنی آپ انسانوں کی جتنی بے لوث خدمت کرتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا، بلکہ ان کی سعادت کے لیے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔

نبوت کے بعد انسانی خدمت

نبوت کے بعد رسولؐ اللہ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوگئی ۔ ایک انسانوں کی خدمت کی اور دوسری ان کی ہدایت اور سعی نجات کی۔ نبوت سے پہلے صرف انسانی خدمت آپ کی پہچان تھی، نبوت کے بعد خدمت اور ہدایت دونوں آپ کی پہچان بن گئیں۔

خدا پرستی اور انسانی خدمت

رسولؐ پاک نے صرف انسانوں کی روحانی مشکلات حل کرنے اور اخلاقی برائیوں کی اصلاح کا بیڑا ہی نہیں اٹھایا، بلکہ انسان کی سماجی اور معاشی مشکلات کو دور کرنے کی بھی سعی کی، اور انسانی معاشرے کے رنج و غم کو سکھ اور مسرت میں تبدیل کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ انسانی سماج میں طاقت ور اور کمزور ، امیر و غریب ، مختار اور محتاج دونوں طرح کے لوگ رہتے ہیں اور دونوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ رسولؐ پاک ہرفرد کی اصلاح کرتے ہیں اور دونوں کو کامیابی کی راہ دکھاتے ہیں۔ اگر رسول انسانوں کی روحانی دنیا آباد کرے اور مادی دنیا کو اجڑ جانے دے، اخلاقی حالت کو درست کرے اور سماجی زندگی کو الجھنوں میں مبتلارہنے دے، عبادت پر زور دے اور سماجی حقوق کو نظر انداز کردے تو یہ مذہب ناقص ہوگا اور اس کی انسانوں کو چنداں ضرورت نہ ہوگی۔ چنانچہ رسولؐ پاک نے دونوں ضروریات کی تکمیل کے لیے مذہب کا ایک کامل نمونہ پیش کیا جس نے اپنے دامن میں اللہ کی عبادت اور انسانوں کی خدمت دونوں کو یکساں جگہ دی۔ قرآن نے وضاحت کی:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۷۷) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا چہرہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو ، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی ایمان لائے اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر۔ مال دے اس کی محبت پر رشتہ داروں کو، یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافروں کو، مانگنے والوں کو، اور گردن چھڑانے میں، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے، اور پورا کرے اپنے عہد و پیمان کو جب کہ عہد کرے۔ مقابلہ، سختی اور تکلیف میں صبر کرے، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

اس آیت میں تفصیل سے نیکی اور دین داری کا تصور بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں ایمانیات پر زور ہے، عبادات کی تلقین ہے، اخلاقی اصولوں کا تذکرہ ہے ، وہاں انسانوں کی خدمت، ان کے دکھ درد میںشرکت اور ان کی حاجت روائی کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ مذہب کی روح ہے، اس کا خمیر اور جوہر ہے۔ اگر مذہب سے ایمانیات اور عبادات کو خارج کردیا جائے تو مذہب ثقافت و رواج پر مبنی سماجی تنظیم یا کلچرل انجمن بن کر رہ جائے گا، اور اگر انسانی خدمت کو نظراندازکردیاجائے اور ان کی مشکلات کا مداوا نہ کیا جائے تو مذہب بے جان رسموںکا ڈھانچا بن جائے گا یا مابعد الطبیعات کا پیچیدہ فلسفہ۔

مشرکین کا انسانی خدمت سے انکار

مشرکین مکہ نے جو دھرم اپنا رکھا تھا، وہ انھی پیچیدگیوں کا شکار تھا ۔ ان کی اخلاقی اور سماجی زندگی کی تصویر کشی قرآن میں متعدد مقامات پر بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے :

کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰)  ہرگز نہیں ، تم یتیموں کی عزت نہیں کرتے، اورمحتاجوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے اور مردے کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہواور مال و دولت سے جی بھرکے محبت کرتے ہو۔

یعنی انسانوں کی محبت کی جگہ مشرکوں کے دل میں مال کی محبت نے جڑ پکڑ لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نہ وہ خود ناداروں پر مال خرچ کرتے تھے اور نہ دوسروں کو محتاجوں کی خبر گیری کے لیے کہتے تھے، یہ سماج انسانوں پر مبنی توتھا مگر روح انسانیت سے خالی تھا اور شیخ سعدی کے اس حکمت آمیز شعر کا مصداق تھا:

تو گر محبت دیگراں بے غمی

نہ شاید کہ نامت دہندآدمی

(تم اگر دوسروں کی محبت سے بے نیاز ہو تو تم کو آدمی کا نام نہیں دیا جانا چاہیے )۔

رسولؐ پاک نے اس جاہلی معاشرے میں حقیقی خدا پرستی اور سچی انسانی خدمت کی تحریک برپا کی تو مشرکوں نے جہاں اس بات کی مخالفت کی کہ ان گنت دیوتائوں کی جگہ صرف ایک  خداے وحدہٗ لاشریک کی پرستش کی جائے وہاں اس بات کی بھی مخالفت کی کہ غریبوں اور ناداروں پر اپنا مال خرچ کیا جائے اور بغیر کسی معاوضے اور صلے کے ان کی خدمت کی جائے۔ وہ مال داری اور ناداری کو مقدرات سمجھتے تھے اور ناداروں کی حالت سدھارنے کی کوشش کو نادانی اور گمراہی سے تعبیر کرتے تھے۔ قرآن پاک میں رسولؐ کریم کی خدمت انسانی کے مطالبے اور جواب میں مشرکین کے غیر انسانی رویے کا ان لفظوں میں تذکرہ کیا گیا ہے :

وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَائُ اللّٰہُ اَطْعَمَہُ اِِنْ اَنْتُمْ اِِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o (یٰٓس ۳۶:۴۷) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافرمومنوں سے کہتے ہیں: ہم کیوں کھلائیں ایسے لوگوں کو کہ اگراللہ چاہتا تو ان کو خود کھلاتا تم لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔

اھلِ کتاب کی استحصالی ذھنیت

یہودیوں اور عیسائیوں بالخصوص ان کے مذہبی راہنمائوں کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔ ان کی اکثریت نے انسانی خدمت کے بجاے مذہب کو انسانوں کے استحصال کا ذریعہ بنالیا تھا۔ ان کی سرمایہ دارانہ اور استحصالی ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمo (التوبۃ ۹: ۳۴) اے مومنو! بہت سے احبار اور رہبان (یہود و نصاریٰ کے مذہبی پیشوا) لوگوں کے مال غلط طریقے سے کھاتے ہیں،اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جولوگ جمع کرکے رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنادو۔

لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا ، ان مذہبی پیشوائوں کا وہ کارنامہ تھا جو ان کو مشرکوں کی خصوصیات کے مشابہ بنا دیتا تھا۔ اہل کتاب میں بلاشبہہ ایسے لوگ بھی تھے جو راست باز تھے مگر ان کی تعداد بہت کم تھی، اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا رویہ خد اپرستی اور انسان دوستی کے مخالف تھا، حالاـنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مذکورہ دونوں باتوں کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا تھااورعہد بھی لیا تھا ۔ ارشاد ہے:

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ o (البقرہ ۲:۸۳) اور یادکرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہدلیا تھا کہ تم لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اور والدین، رشتہ داروں، اور مسکینوں سے اچھاسلوک کرنا ، لوگوں سے بھلی بات کرنا اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم اس عہد سے پھر گئے اور تم ابھی تک برگشتہ ہو۔

بنی اسرائیل میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ مگر یہ استحصالی ذہنیت خاص طور پر یہود کی تھی جنھوں نے سرمایہ داری ، سود خوری اور ذخیرہ اندوزی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی ؑ کوپھر وہی حکم دے کر بھیجا کہ اللہ کی توحید اور انسانوں کی خدمت کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی قوم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ انجیل میں متعدد مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے۔

انجیل میں زرپرستوں اور خدمت گاروں کے انجام کا حال تمثیلی طور پر اس طرح بیان کیا گیا ہے : ’’سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے اور بھیڑوں کو اپنے دائیں اور بکریوں کو اپنے بائیں کھڑا کرے گا۔ اس وقت بادشاہ اپنے دائیں والوں سے کہے گا: آئو میرے باپ کے مبارک لوگو! جو بادشاہی بناے عالم سے تمھارے لیے تیار کی گئی ہے، اسے میراث میں لے لو، کیونکہ میں بھوکا تھا،  تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی پلایا، میں پردیسی تھا، تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا، میں ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا پہنایا، میں بیمار تھا، تم نے میری خبرگیری کی، میں قید میں تھا،     تم میرے پاس آئے۔ تب راست باز جواب میں کہیں گے، اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا ، کپڑا پہنایا۔ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں کہے گا: میں تجھ سے سچ کہتاہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھر وہ بائیں جانب مڑے گا اور کہے گا:     اے ملعونو! میرے سامنے سے ہمیشہ کے لیے آگ میں چلے جائوجو ابلیس اور اس کے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ کیونکہ میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا، پیاسا تھا، تم نے مجھے پانی نہ پلایا اور پردیسی تھا تم نے مجھے گھر میں نہ اتارا ، ننگا تھا، تم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا ، بیمار اور قید میں تھا، تم نے میری خبر نہ لی۔(عہدنامہ جدید)

توحید کو عیسائیوں نے تثلیث میں تبدیل کردیا لیکن عیسائیوں کے ایک طبقے نے انسانی خدمت کے اس فریضے کو اپنا شعار بنایا، اور اس روایت کو آگے بڑھایا، بلکہ اس کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی، جب کہ یہودتوحید کی دعوت اور انسانی خدمت دونوں سے بے گانہ رہے۔

رسولؐ کریم کی انسانی خدمت کی تحریک

نبی کریمؐ نے مسلمانوں کوجو تعلیم دی اس کا مرکزی نکتہ یہ تھا: ’’بھوکوں کو کھانا کھلائو، بیماروں کی خبرگیری کرو، اور قیدیوں کو رہا کرائو‘‘۔(بخاری)

حضرت رسالت مآبؐ نے انسانوں کی محبت کو اللہ کی محبت سے تعبیر کیا، مخلوق کی خدمت کو اللہ تک پہنچنے کا راستہ قرار دیا، اور جہنم سے آزادی اور جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میںیہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت رکھتی ہے ۔ اگر انسانوں کی خدمت نہ کی جائے تو اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ ایسی گھاٹی ہے جسے پار کیے بغیر  رضوانِ الٰہی کی بلندی تک پہنچا نہیں جاسکتا۔ قرآن پاک نے وضاحت کی:

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّـتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o (البلد ۹۰:۱۱-۱۸) اس نے دشوارگزار گھاٹی پار نہ کی، تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی، کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقہ کے دن کسی رشتہ دار یتیم یا خاک نشیں مسکین کو کھانا کھلانا، پھر ان لوگوں میں شامل ہونا جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور انسانوں پر رحم کرنے کی تلقین کی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسولؐ اللہ کی ایک حدیث نقل کی ہے ، آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہوگا اور اس طرح جواب طلب کرے گا: ’’اے آدم کی اولاد! میں بیمار تھا مگر تونے میری عیادت نہیں کی، بندہ کہے گا: اے پروردگار! میں کس طرح تیری عیادت کرتا، جب کہ تو رب العالمین ہے، اللہ کہے گا: تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے   مگر تونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانامانگا مگر تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا، بندہ کہے گا : اے پروردگار! میںتجھے کھانا کس طرح کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو یہ کھانا میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ بندہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں تجھے پانی کس طرح پلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے اللہ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے پانی مانگا مگر تونے اسے پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تواسے میرے پاس پاتا‘‘۔(مسلم)

یہ حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ تمثیلی تعلیم خدمتِ خلق سے ملتی جلتی ہے۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمدؐ کی انسانی خدمت کی تعلیم ایک ہی بحررحمت کی دو موجیں ہیں جو زمان ومکان کے فاصلہ سے ابھری ہیں، وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی مصیبت اور ضرورت کو نظر انداز کرکے کوئی شخص اللہ کی رضا حاصل نہیں کرسکتااور نہ روحانیت کا علَم بردار ہوسکتا ہے۔ روحانیت اور خدمت یک جان دو قالب ہیں ۔ ان کو جدا کرکے مذہب کی نمایندگی نہیں کی جاسکتی ۔ اسی لیے قرآن میں جہاں جہاں صلوٰۃ کا حکم ہے، وہاں زکوٰۃ کا بھی حکم ملتا ہے ۔ جہاں اللہ کی بندگی کامطالبہ ہے، وہاں انسانوں کی راحت رسانی کا بھی تقاضا ہے۔

مشرکانہ اور عیسائی عقیدے کے برخلاف اسلامی عقیدے میں خدا مجرد ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں اور ازواج و اولاد نہیں۔ مگر رسولؐ اللہ نے پوری انسانیت کو اللہ کے کنبے سے تعبیر کیا ہے، جناب رسول کریمؐ نے فرمایا:

مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ بندہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے۔ (مشکوٰۃ)

یعنی انسانوں سے محبت اور ان کی خدمت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار بندوں کی خدمت کی شکل میں ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ کے محبوب بندوں کی علامت یہ بیان کی گئی ہے:

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o  اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o  اِِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا o (الدھر ۷۶:۸-۱۰) وہ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو، (ان کا کہنا ہے کہ) ہم تم کو اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری ، ہم تو اپنے رب سے اداسی والے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں

رسولؐ اللہ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوںگے جیسے یہ دونوں انگلیاں۔(بخاری)

یہ تعلیم انسانی خدمت کے محرک اور مقصد کو واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندوں کی خدمت سے گزرتا ہے۔ جو اس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اسے یہ راستہ اختیار کرنا ہوگا، ورنہ وہ منزل سے دور ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے نبی کریمؐ نے اللہ کی رضا کے لیے جان و مال قربان کرنے والوں کے مساوی درجہ انسانی خدمت گزاروں کا بیان فرمایا ہے ۔

انسانی خدمت بہی جھاد ھے

جہاد کا بنیادی مقصد ظالموں کو ظلم سے روکنا اور کمزوروں اور محتاجوں کی حفاظت کرنا ہے۔ جہاد کی اجازت قرآن نے ان الفاظ میں دی ہے :

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ o (الحج ۲۲:۳۹) اجازت دی گئی ان لوگوں کو جنگ کی جن سے کفار لڑتے ہیں کیونکہ ان (مسلمانوں) پر ظلم ڈھایا گیا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ۔

دوسری جگہ فرمایا گیا:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاوَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا o (النسائ۴:۷۵) اور تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان کمزور اور مغلوب مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو فریاد کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں اس آبادی سے نکال یہاں کے لوگ ظالم ہیںاور اپنے پاس سے ہمارا کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے مددگار بھیج دے۔

جہاد کا مذکورہ مقصد انسانیت کی حفاظت ہے ، اس لیے اس پر بڑا اجر مقرر کیاگیا ہے ۔ کمزوروں اور ناداروں کی خدمت بھی اسی مقصد کی تکمیل کرتی ہے بلکہ نسبتاً مثبت اوراحسن طریقے سے کرتی ہے۔ اس لیے رسولؐ پاک نے انسانی خدمت انجام دینے والوں کو بھی مجاہد ہی کی طرح اہمیت دی ہے اور ان کو اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے :

بیوائوں اور مسکین کی خدمت کرنے والامجاہد فی سبیل اللہ کے مانند ہے، راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس نمازی کی طرح ہے جو مسلسل نماز پڑھتا ہے اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔(بخاری و مسلم)

انسانی خدمت کے عناصر سیرت کی روشنی میں

رسول کریمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے جہاں انسانی خدمت کے میدان و اطراف کا پتا چلتا ہے، وہاں انسانی خدمت میں کار فرما عوامل اور عناصر ترکیبی کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ اگر ان عناصر کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو انسانی خدمت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ وہ عناصر ہیں اکرام ، انصاف اور ایثار۔

  • اکرام کا مطلب ہے کہ انسان کے ہر فرد اور ہر گروہ کو خواہ وہ کسی طبقے، کسی علاقے، کسی رنگ اور کسی نسل اور کسی بھی ذات و برادری سے تعلق رکھتا ہو، محترم سمجھنا اور عزت دینا، اسے کم تر اور حقیر نہ سمجھنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو محترم بنایا ہے۔ قرآن پاک میںجگہ جگہ اس ہدایت کو دہرایا گیا ہے:

وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) اور ہم نے آدم کی اولاد کو محترم بنایا ہے اور خشکی اور دریا میں سواری عطا کی ہے اور ہم نے اس کوپاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور جن مخلوقات کو ہم نے پیدا کیا ہے، ان میں سے بیش تر پر اسے فضیلت بخشی ہے۔

ایک دوسری جگہ فرمایا گیا :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین ۹۵:۴) بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیداکیا ہے۔

یہ اکرام و احترام انسانو ں کے کسی مخصوص طبقے کو نہیںبخشا گیا، بلکہ پورے بنی نوع انسان کو عطاکیا گیا ہے ۔اس لیے خدمت انجام دینے والے فرد اور گروہ کو انسانی خدمت سے پہلے انسانوںکی عزت و احترام کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ بہت سے لوگ محتاجوں کی مددتو کرتے ہیں مگر ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مال دیتے ہیں مگر دل میں جگہ نہیں دیتے۔

قرآن نے مشرکوں کو اسی انسانی احترام کی تعلیم دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تم لوگ یتیموں کا احترام نہیں کرتے‘‘۔ یتیم، سماج کی سب سے قابل رحم یونٹ ہے۔ اگر اس کا احترام تمھارے اندر نہیں ہے تو سمجھ لو کہ انسانی خدمت کا جذبہ بھی نہیںہے۔ علامہ اقبال نے اسی روح کو شعری پیکر میں اس طرح ڈھالاہے:

آدمیت احترام آدمی

باخبر شو از مقام آدمی

(آدمی کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہوجائو کہ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے )۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ خیرات کرتے ہیں ، کارخیر میں حصہ لیتے ہیں، ان میں احساس برتری پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہ خود کو مختاراور لینے والے کو محتاج سمجھتے ہیں۔ مختار و محتاج کی یہ نفسیات اکرام کا جذبہ باقی نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے نبیؐ نے یہ تعلیم دی کہ تم سب دراصل محتاج ہو اور مختار صرف اللہ ذوالجلال ہے۔ اس لیے اپنی احتیاج آپس کے تعاون سے دور کرو۔ قرآن میں فرمایا گیا:

وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ (محمد ۴۷:۳۸) اللہ غنی ہے اور تم سب محتاج ہو۔

رسول کریمؐ نے مسلمانوں کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات خاموشی سے محتاجوں کو دیا جائے ، اس کی تشہیر نہ کی جائے، بلکہ اس حد تک اخفا کیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ اس حکم کی روح بھی دراصل یہ ہے کہ صدقہ قبول کرنے والوں کی عزت نفس محفوظ رہے اور ان کی غیرت کو ٹھیس نہ لگے ۔ یہ انسانی اکرام و احترام کا انتہائی     اعلیٰ مرتبہ ہے اور خدمت خلق کی روح ہے۔

  • یہاں خدمت کا ایک دوسرا عنصر آکر مل جاتا ہے اور وہ انصاف ہے، یعنی سماج کے پچھڑے ہوئے، پس ماندہ اور کمزور لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا خدمت کا حصہ ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق موجود ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ مال دار ناداروں کا حق ادا کریں ۔ یہ احسان نہیں انصاف ہوگا، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰: ۲۴- ۲۵)  ان کے مالوں میں مقررہ حق ہے، سائل اور محروم کا۔

رسول پاکؐ نے اہل ثروت سے فرمایا:

تم کوجو رزق دیاجاتا ہے اور اللہ کی طرف سے تمھاری جو مدد کی جاتی ہے، وہ تمھارے کمزور طبقات کی بدولت ہے۔(بخاری و ترمذی)

یعنی دولت تمھارا استحقاق نہیں، بلکہ اللہ کا عطا کردہ عطیہ اور امانت ہے۔ کوئی انسان اگر غریب اور محتاج ہے تو یہ اس کا دائمی مقدر نہیں، اسی طرح اگر کوئی انسان مال دار اور مختار ہے تو یہ اس کا   پیدایشی حق نہیں۔ رسول پاکؐ نے محتاجوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم مال داروں کے پاس جائو اور ان سے اپنا حق مانگو، بلکہ مال داروں پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ ناداروں کو ان کا حق پہنچائیں:

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۸) قرابت داروں، مسکینوں اور مسافر کو اس کاحق ادا کرو، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔

نادار اگر مال داروں کی خدمت قبول کرتے ہیں تومال داروں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنا حق قبول کیا اور مال داروں کا فریضہ ادا ہوا۔ مسجد نبوی میں رمضان المبارک میں اہل خیرحضرات مسلمانوں کو روزہ افطار کی دعوت دیتے ہیں، ان کو اپنے دسترخوان پر لے جاتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ بھی سیرتِ نبویؐ کا فیضان ہے ۔

  • انسانی خدمت کا تیسرا عنصر ایثار ہے، یعنی صرف حق ادا کرنا مطلوب نہیں،بلکہ دوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا، دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف پر مقدم سمجھنا اور اپنے کام کو مؤخر کرکے دوسرے کی حاجت روائی کرنا، انسانی خدمت کا اعلیٰ اور ارفع مقام ہے۔ جس کی تعبیر قرآن کریم نے اس طرح کی ہے:

وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (الحشر ۵۹:۹) وہ دوسروں کواپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود فاقہ سے ہوں، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا سمجھو کہ وہی کامیاب ہیں۔

رسول کریمؐ کی پوری زندگی خدمت خلق کے اسی اعلیٰ مرتبے کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے صحابہ کرام میں یہی روح جاری و ساری نظر آتی ہے۔ بعدکی صدیوں میں بھی ہم اس کا اثرمسلم سماج میں محسوس کرتے ہیں۔

حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک خاتون رسولؐ اللہ کے لیے ایک چادر   بُن کر لائیں اورکہنے لگیں کہ یہ چادر میں اپنے ہاتھ سے تیار کرکے آپ کے لیے لائی ہوں۔   رسولؐ اللہ نے اس چادر کو قبول فرمالیا اور اس وقت آپؐ کو اس کی ضرورت تھی۔ آپؐ نے اسے    اپنا تہبند بنالیا اور ہمارے درمیان تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا: کیا خوب چادر ہے مجھے عنایت کردیجیے۔ نبیؐ نے منظور کرلیا۔ تھوڑی دیر آپؐ  مجلس میں تشریف فرما رہے پھر واپس ہوئے تو چادر لپیٹ کر اس شخص کو بھجوادیا۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو نے اچھا نہیںکیا۔ نبیؐ کو اس کی ضرورت تھی اس لیے اسے پہنے ہوئے تھے۔ تم نے یہ جان کر کہ نبیؐ مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، وہ چادر بھی مانگ لی۔ اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے پہننے کے لیے یہ چادرنہیں مانگی ،بلکہ اسے اپنا کفن بنانے کے لیے مانگی ہے۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جناب رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں پریشان حال اوربھوکا ہوں۔ یہ سن کر جناب رسالت مآبؐ نے بعض ازواجِ مطہرات کو اطلاع دی کہ اگر کچھ کھانے کو موجود ہو تو بھیجیں۔ جواب ملا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپؐ  نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہراتؓ کے یہاں معلوم کیا مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملا تو آپؐ  نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کوئی ہے جو آج رات اسے اپنا مہمان بنالے؟ ایک انصاری نے کہاکہ میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ صحابی اس مہمان کو ساتھ لے کر گھر آئے اور اہلیہ سے کہا کہ کچھ ہے جس سے رسول پاکؐ کے مہمان کی ضیافت کروں۔ اہلیہ نے جواب دیاکہ بچوں کا کھانا ہے، شوہر نے کہا کہ ان کو کسی طرح بہلا کر سلا دینا، اور جب مہمان کھانے بیٹھیں تو چراغ بجھا دینا اور یہ تاثر دینا کے ہم ان کے ساتھ کھارہے ہیں، چنانچہ پروگرام کے مطابق   سب کھانے بیٹھے، مہمان نے کھانا کھالیا اور ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب صبح رسولؐ اللہ کے پاس گئے تو آپؐ  نے فرمایا : ’’ تم دونوں میاں بیوی نے رات جومہمان نوازی کی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو بھاگئی‘‘۔(بخاری)

ایثار کی یہ روشن مثال شاید سیرت رسولؐہی کے دامن میں مل سکے گی، دنیا کے دوسرے خدمت گاروں کے یہاں اس طرح کی مثالیں مشکل سے مل سکیں گی۔ انسانی خدمت کی یہ اعلیٰ مثال ہے جو ہر عہد اور ہر قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ خدمت خلق کا حقیقی اور کامل تصور اسی وقت ابھرتا ہے، جب کہ اس میں مذکورہ تینوں عناصر موجود ہوں۔

انسانی خدمت کا تسلسل اور تنظیم

رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کے معروف طریقوں میں دو اہم اور نادر اضافے فرمائے۔ ایک تو انسانی خدمت کو بعد از مرگ باقی رکھنا اور دوسرے خدمت کو ادارتی شکل دینا۔ تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ وقتی طور پر انسانی خدمت کرنے کے ساتھ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے خدمت کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہے، اس کے لیے جناب رسالت مآب نے صدقہ جاریہ کا تصور دیا، آپ نے فرمایا:

جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمالِ خیر کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سواے تین اعمال کے، ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے، ایسا علم جس سے استفادہ باقی رہے، صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔(مسلم)

صدقہ جاریہ میں عام طور پر اجتماعی اور سماجی استفادے کی چیزیں شامل ہیں، مثلاً نل لگوانا، کنواں کھدوانا، تالاب بنوانا، سراے بنوانا، سڑکیں اور پل بنوانا، مسافر خانہ تعمیر کرنا وغیرہ ۔     قابلِ استفادہ علم میں درس گاہ کھولنا، لائبریری بنانا، کتابیں لکھنا یا شائع کرنا، اسکالر شپ وغیرہ کا انتظام کرنا شامل ہے۔ یہ ایسی خدمت ہے کہ اگر انسان مرجائے تب بھی اس کا فیض جاری رہتا ہے اور وہ اپنی فیض رسانی کے حوالے سے زندہ رہتا ہے۔ ہر باشعور انسان چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کانام باقی رہے۔ رسول پاکؐ نے انسان کی اس آرزو کو انسانی خدمت سے وابستہ کرکے ایک تعمیری جہت عطا کی ہے ۔

رسول پاکؐ نے انسانی خدمت کو ادارتی شکل دینے کے لیے وقف کا تصور دیا۔ وقف کا مطلب یہ ہے کہ اصل جایداد باقی رہے اور اس کی آمدنی سے خدمت رسانی کے کام ہوتے رہیں۔ مثلاً مکان، دُکان، فیکٹری، زمین ، باغ وغیرہ وقف کیا جائے تو یہ جایداد نہ تو ہبہ ہوگی اور نہ بیچی جاسکے گی، بلکہ اس کے منافع اور آمدنی سے وہ خدمت انجام پاتی رہے گی جس کے لیے وہ جایداد وقف کی گئی ہے ۔ انسانی خدمت کی تاریخ میں یہ ایک نیا تصور تھا جو جناب رسالت مآب نے انسانی دنیا کو عطا کیا ۔ اس کی تقلید دوسرے مذاہب اور تہذیبوں نے بھی کی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عمرؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا کہ مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپؐ  اس کے بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپؐ  نے فرمایا:

اگر تم چاہو تو اس کی اصل کو باقی رکھو اور پیدا وار کو صدقہ کردو ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو صدقہ کردیا، اس شرط کے ساتھ کہ نہ وہ فروخت کی جائے گی ،نہ ہبہ کی جائے گی اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اور اس کی منفعت فقیروں، رشتہ داروں، غلاموں کی آزادی، مہمانوں اور مسافروں کے لیے وقف ہوگی اور اس کے متولی کے لیے اس سے معروف کے مطابق اجرت لینا جائز ہوگا۔ (بخاری)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو رومہ نامی کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا دوسرا کنواں نہ تھا۔ آپؐ  نے فرمایا کون ہے جو رومہ کنویں کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا اور اس کے صلے میں اسے جنت کی بھلائی حاصل ہوگی؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں خود بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتا تھا اور سارے مسلمان بھی ڈول ڈال کر پانی نکالتے تھے۔ (ترمذی)

وقف کے مزید واقعات نبی ؐ کی حیاتِ مبارکہ میں ملتے ہیں ۔ حاصل یہ ہے کہ جناب نبیؐ نے وقف کا تصور دے کر مسلم سماج کو ایک تعمیری اور فلاحی سماج میں تبدیل کردیا اور حق یہ ہے کہ آج بے شمار تعلیمی ، مذہبی ، سماجی اور رفاہی ادارے وقف کی جایداد کی آمدنی سے چل رہے ہیں اور اس نے خدمتِ خلق کے میدان میں انتہائی اہم اور مؤثر رول ادا کیا ہے ، اور اس کا سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

رسول کریمؐ کی انسانی خدمت کی تعلیمات اوراسوۂ حسنہ نے مسلم معاشرے میں جہاں انفرادی طور پر زکوٰۃ و صدقات اور انفاق کاجذبہ پیدا کیا، وہاں اجتماعی کفالت کے اداروں کی تنظیم اور تشکیل کی تحریک فراہم کی۔ اوقاف اس کی نمایاں مثال ہے۔ اوقاف کے علاوہ انسانی خدمت کے دیگر اداروں میں یتیم خانوں کا قیام سنت نبوی کی اہم عملی تعبیر ہے۔ اسلام سے پہلے بھی یتیم تھے اور انفرادی طور پر ان کی دیکھ بھال ہوتی ہوگی ، مگر یتیموں کی نگہداشت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اداروں کا تصور نہ تھا ، نبی کریمؐ نے یتیموں کی نگہداشت کی جو مسلسل تلقین فرمائی اور اسے انسانیت اور اسلام کا اہم فریضہ بتایا، اس کے سبب سے مسلم حکومتوں نے یتیم خانوں کے قیام پر پوری توجہ دی اور غیر حکومتی سطح پر بھی اہلِ خیر مسلمانوں نے بڑے بڑے یتیم خانے بنوائے۔

علامہ سید سلمان ندوی کے بقول : ’’آج دنیا کے شہر شہر میں یتیم خانے قائم ہیں مگر اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا محمدؐ سے پہلے بھی یہ بدقسمت گروہ اس نعمت سے آشنا تھا تو تاریخ کی زبان سے جواب نفی میں ملے گا، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس مظلوم فرقے کی دادر سی کی ، عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانے کی بنیاد پڑی، اور اس کی حکومت دنیا کی پہلی حکومت ہے جس نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا ، اور عرب ، مصر، شام، عراق، ہندستان جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کی بنیادیں ڈالیں ساتھ ساتھ ان مظلوموں کے لیے بھی امن و راحت کے گھر بنائے،   ان کے لیے وظیفے مقرر کیے، مکتب قائم کیے، جایدادیں وقف کیں‘‘۔ (سیرت النبیؐ، ج ۶)

موجودہ عہد میں انسانی خدمت کے لیے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں سوشل ورک کے شعبے قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں سماجی خدمت کا کورس پڑھایا جاتا ہے ، اور سوشل ورکر کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ سوشل ورک کی تعلیم لوگوں میں مالی منفعت کے حصول کا جذبہ اسی طرح پیداکررہی ہے جس طرح دیگر عصری تعلیم کا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ سوشل ورک کی ڈگری لے کر طلبہ خدمت سے زیادہ ملازمت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر مقررہ وقت کے علاوہ بھی ان کو کام کرنا پڑے تو اس اضافی ڈیوٹی کے معاوضے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ فرصت کے دنوں میں انسانی خدمت کی انجام دہی سے کتراتے ہیں۔ رسول پاکؐنے انسانی خدمت کی جو تعلیم دی ہے، وہ مقصد زندگی کا حصہ ہے۔ اس کے لیے وقت اور عمر کی قید نہیں بلکہ اس کا ر خیر کو کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرنا ہے اور اللہ سے قبولیت کی دعا کرتے رہنا ہے ۔ یہ خدمت ملازمت سے دور اور مالی منفعت سے بلند ہے۔

اس عہد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عالمی ، ملکی اور مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی طرح سماجی خدمت کی تنظیمیں بھی وجود میں آئی ہیں۔ ان میں بعض تنظیمیں مخصوص میدان میں کام کرتی ہیں، مثلاً بعض بیماروں کی خدمت کے لیے ، بعض آسمانی اور حادثاتی مصائب میں راحت رسانی کے لیے، بعض معذوروں کی مدد کے لیے اور بعض یتیموں کی پرورش کے لیے ، جب کہ بہت سی تنظیمیں عمومی انسانی خدمت کے لیے ہیں۔ عیسائی تنظیمیں خاص طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیش پیش ہیں ، اور ان کی پشت پناہی امریکا اور یورپ کی حکومتیں کرتی ہیں۔

مسلمانوں نے بھی انسانی خدمت کے لیے بہت سی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پرقائم کی ہیں ، ان تنظیموں کا فیض آفت زدہ، پریشان حال لوگوں تک پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کی انسانی خدمت کی پیش رفت کو روکنے کے لیے امریکا اور یورپی ممالک نے ان رفاہی تنظیموں کی آمدنی اور امداد پر روک لگانی شروع کردی ہے۔ جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی امداد دنیا میں دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے، مگر یہ ایک فرضی عذر ہے، اصل محرک یہ ہے کہ مسلمانوں کی تنظیمیں اگر انسانی خدمت کے کاموں کو اسی اخلاص اور ایثار سے انجام دیتی رہیں گی ، تو عیسائی مشنریز کا کام مشکل ہوجائے گا اور اسلام کی پیش رفت جاری رہے گی۔ چنانچہ بہت سے رفاہی ادارے آج امریکا کے قہر کا شکار ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں سماجی خدمت کی دو تنظیمیں الرشید ٹرسٹ اور الاختر ٹرسٹ کے دفاتر میں چھاپے مارے گئے اور انھیں بند کردیا گیا۔ سعودی عرب اور کویت کے متعدد رفاہی اداروں اور تنظیموں نے تعلیمی، رفاہی اور راحت رسانی کے لیے امدادبند کردی۔ بھارت میں ہندو اور عیسائی تنظیمیں بیرونی ممالک سے بڑی رقمیں وصول کرتی ہیں اور مسلمانوں کے لیے راستے اگر بند نہیں تو تنگ ضرورہیں۔ ان حالات میں بڑی حکمت اور بصیرت سے انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چراغ مصطفوی آندھیوں کی زد میں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو ازسرنو سوچنا ہوگا اور راہ عمل متعین کرنی ہوگی۔ انسانی خدمت اور راحت رسانی کا کام چھوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ  یہ اللہ کی رضا کے حصول کا معتبر ذریعہ ہے، البتہ اس کی حکمت عملی بدلتے ہوئے حالات کو سامنے  رکھ کر طے کی جانی چاہیے ۔