اشرف اشراق فہیم


امریکا میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم، ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (AWT) نے ان افراد کے سلسلہ وار انٹرویو شائع کیے ہیں ،جنھوں نے عوامی لیگی فاشسٹ وزیراعظم حسینہ واجد کے ہاتھوں مجبور ہوکر حزبِ اختلاف کے اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف گواہیاں دیں، جن کی بنیاد پر حسینہ واجد کی عدلیہ نے ان کو عمر قید اور موت کی سزائیں سنائیں۔ 

جھوٹی گواہیوں پر سزائے موت 

’’میں سوچتا ہوں کہ جس کے خلاف میں نے گواہی دی، کیا وہ مجھے معاف کر دے گا؟ کیا  خدا مجھے معاف کر دے گا، جسے معاف کرنے کا حق صرف ایک انسان کو ہے؟‘‘ یہ بات ایک غریب، بوڑھے بنگالی مسلمان، مقبول حسین نے، جو بنگلہ دیش کے شمال مغربی ضلع رنگ پور نزد ڈھاکہ کا رہائشی ہے، مقامی بنگالی لہجے میں آنسو پونچھتے ہوئے کہی۔ 

مقبول حسین ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کے دوران، سابقہ مشرقی پاکستان میں رہتا تھا۔ وہ اپنے علاقے پر پاکستان کے آرمی ایکشن سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا کہ اس ایکشن میں اس کی والدہ ہلاک ہوگئی تھیں۔ 

جب خانہ جنگی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی راکھ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا، تو اس کے پچاس برس بعد بنگلہ دیشی حکومت نے مقبول حسین سے رابطہ کیا اور اسے اپنی ماں کے قتل کے مقدمے میں گواہی دینے کو کہا۔ اسے یہ گواہی حزبِ اختلاف کے ایک اہم بنگالی مسلم رہنما کے خلاف دینا تھی جو حسینہ کے بڑھتے ہوئے آمرانہ رخ کے خلاف لڑ رہا تھا۔ 

مقبول کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ اس کی ماں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ صرف اس سیاستدان کے خلاف گواہی دے سکتا تھا، جن کا نام اے ٹی اظہر الاسلام تھا، جو اس وقت ملک کی دوسری سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل (قائم مقام) تھے۔ مقبول کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس نے اظہرالاسلام یا کسی بنگالی شخص کو اپنی ماں کی موت کے ذمہ دار کی حیثیت سے نہیں دیکھا تھا، لیکن حسینہ واجد کی وردی میں ملبوس فورسز نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دہشت زدہ کر کے گواہی دینے پر مجبور کیا کہ ’’نوجوان مقبول نے اظہرالاسلام کو فوج کے ساتھ اس واقعے کے دوران موجود دیکھا تھا‘‘۔ اس کے علاوہ، حسینہ نے مقبول سے یہ گواہی دلوائی کہ ’’اظہر الاسلام، رنگ پور کے دھپ پارہ میں ایک اجتماعی قتل میں ملوث تھا‘‘۔ 

۲۰۱۴ء میں حسینہ واجد کی قائم کردہ ڈھاکہ میں ایک عدالت نے، جو پاکستان فوج کے ساتھیوں کے طور پر نامزد کرنے والوں کے مقدمات کی سماعت کے لیے بنائی گئی تھی، مقبول کی گواہی پر، اظہر کو سزائے موت سنا دی۔ اس کے بعد، اظہر بنگلہ دیش کی جیل کے سزائے موت کے خوفناک سیل میں قید رہے۔ اب، اگرچہ حسینہ واجد تو فرار ہوکر انڈیا چلی گئی ہے، لیکن اظہر اب بھی قید میں ہیں۔ 

تاہم، اظہر کی خوش نصیبی ہے کہ وہ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں زندہ رہے۔ حسینہ واجد نے ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۶ء کے درمیان ان کے چھ ساتھیوں کو پھانسی دی۔یہ سب مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)کی اتحادی جماعت اسلامی کے اعلیٰ رہنما تھے۔ ان کے علاوہ جماعت کے کئی بزرگ راہ نما جیل میں فوت ہوگئے۔ 

۵؍ اگست ۲۰۲۴ء کو انڈیا، —جو حسینہ واجد کے آمرانہ نظام کو مضبوط اور برقرار رکھنے میں اس کا سب سے بڑا حامی تھا،وہ اس کی حکومت تو نہ بچا سکا، مگر اسے اپنے ہاں لے آیا۔ اس انقلاب کے بعد مقبول حسین کیمرے پر نمودار ہوا اور اس نے واضح لفظوں میں کہا کہ میں کس طرح حسینہ حکومت کے دبائو پر ایک ایسے شخص کو تکلیف دینے کا حصہ بنا جسے میں بے گناہ سمجھتا ہوں۔ 

اخلاقی صدمے سے دوچار، مقبول اب خود اس شخص کی رہائی کے لیے منت سماجت کر رہا ہے جو اس کی گواہی کے نتیجے میں تقریباً پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا گیا تھا۔ 

عدالتی قتل کی مشین 

یہ کہانی ایک مقبول حسین پر ختم نہیں ہوجاتی ہے، دوسروں نے بھی سامنے آ کر عوام کو بتایا ہے کہ حسینہ واجد نے ان کے دُکھوں کو کس طرح اپوزیشن سیاستدانوں کو ناحق قتل کرنے کی کوشش —میں استعمال کیا۔ ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (اے ڈبلیو ٹی)، ایک امریکی انسانی حقوق کی تنظیم، نے اب تک پانچ افراد کے انٹرویو کیے ہیں، جن میں مقبول حسین بھی شامل ہے۔ 

عین الحق، جس کا اے ڈبلیو ٹی نے سب سے پہلے انٹرویو کیا۔ اس نے بتایا: ’’میں ایک مقامی چائے کے اسٹال پر بیٹھا تھا جب حسینہ کے پولیس افسران نے مجھے اٹھایا اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے میں گواہی دینے پر مجبور کیا‘‘۔ نظامی صاحب کو بعد میں عین الحق کی گواہی کی بنیاد پر پھانسی دی گئی۔عین الحق اب دعویٰ کرتا ہے کہ ’’۱۹۷۱ء میں، مَیں نے مطیع الرحمان نظامی کو ان واقعات میں ملوث ہوتے نہیں دیکھا جن میں حسینہ نے انھیں ملوث کیا، لیکن ریاستی دباؤ کی وجہ سے مجھے اپنی گواہی میں جھوٹ بولنا پڑا‘‘۔ 

مہتاب حوالدار اور الطاف حوالدار نے اے ڈبلیو ٹی کو بتایا کہ ’’حسینہ کی پولیس نے انھیں جماعت اسلامی کے ایک اور سینئر رہنما، دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت دینے کے لیے نشانہ بنایا۔ ایک پولیس افسر، ثناء اللہ، نے حوالدار کو بندوق کی نوک پر رکھا اور دھمکی دی کہ اگر تم لوگوں نے سعیدی کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تو تمھیں گنگا دریا میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ 

ان حوالداروں کو عدالت میں کیا کہنا تھا؟ اس کی تربیت دینے والوں میں ریاستی وزیر قمرالاسلام، بنگلہ دیش کے سب سے بااثر کمیونسٹ طلبہ تنظیم کے سابق اعلیٰ لیڈر کامریڈ غلام عارف ٹیپو، پراسیکیوٹر اور ہندو نسل پرست رہنما رانا داس گپتا، اور پراسیکیوٹر سے سیاست دان بننے والے بیرسٹر سمن (Sumon)شامل تھے۔ حوالداروں نے یہ حقائق اے ڈبلیو ٹی کو بتائے۔ 

مطلب یہ کہ انھیں جھوٹ بولنے پر مجبور کرنا کافی نہ تھا۔ عدالت کے سربراہ جج، نسیم نے حوالداروں کو یقین دلایا کہ ’’آپ کو جھوٹ بولنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دلاور سعیدی کو پھانسی دینے کی ذمہ داری میں خود لے رہا ہوں‘‘۔ 

حوالداروں کی گواہی نے سعیدی کو ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کے دوران ہندو اقلیت کے ساتھ عصمت دری، قتل، اور ظلم و ستم میں ملوث قرار دیا۔ اس بنیاد پر سعیدی کی سزائے موت کا فیصلہ ہوا، جو بعد میں ملک گیر احتجاج کے بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ 

حسینہ نے انصاف کے حق میں مظاہرہ کرنے والے ایک سو سے زائد افراد کا قتل عام کیا، جس پر اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء نے اس وحشت کو نسل کشی قرار دیا۔ 

اس معاملے کی ستم ظریفی یہ ہے کہ حسینہ کے ججوں کو ان افراد کی جھوٹی گواہی حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وجہ یہ کہ ان مقدمات کی سماعت کے لیے بنائے گئے قانون اور نام نہاد عدالت کو زیرمقدمہ افراد پر غیر مصدقہ خبروں کی رپورٹوں پر انحصار کر کے سزا دی جا سکتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں، یہ عدالت خاص طور پر ڈیزائن کی گئی تھی، بطور قتل کی مشین کے۔ 

بھارتی جبر اور حسینہ کی آمریت کی مزاحمت 

اس سانحے سے وابستہ پرودیپ کمار دیو اور سکھرنجن بالی کی کہانیاں بہت نمایاں ہیں۔ یہ دو بنگالی ہندو ہیں، جنھوں نے انڈیا اور اس کی ایجنٹ حسینہ کے سامنے سچ بولنے کی جرأت کی۔ بالی کی کہانی نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے گروہوں کی توجہ حاصل کی تھی، البتہ پرودیپ کمار دیو کی کہانی حال ہی میں ایلائنس فار وٹنس ٹرانسپیرنسی (اے ڈبلیو ٹی) کے ذریعے عوام کے سامنے آئی۔ 

اے ڈبلیو ٹی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں، پرودیپ کمار نے ریاستی سرپرستی میں اغوا، جبر، اور غیرقانونی پیش کشوں (ایک ملین بنگلہ دیشی ٹکہ، تقریباً  ۸ہزار۵ سو امریکی ڈالر) کی کہانی سنائی، جن کو اس نے مطیع الرحمان نظامی کے خلاف اپنی گواہی کے دن مسترد کر دیا تھا۔ اگرچہ حسینہ نے دیو (Dev)کو نظامی صاحب کے ’مبینہ جنگی جرائم‘ کے گواہ کے طور پر پیش کیا، مگر دیو نے عدالت کو بتایا کہ مجھے نظامی کے کسی غلط کام کا علم نہیں، جس کے بعد حسینہ کو دیو کو’ دشمن گواہ‘ قرار دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ 

اگرچہ دیو کی جرأت مندانہ کوششوں سے ملک کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم جماعت اسلامی کے مرکزی راہ نما مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت سے بچایا نہ جا سکا، لیکن ظالم ریاست کے خلاف دیو کا کھڑا ہونا، بھارتی بیانیہ کو توڑنے کا باعث بنا کہ حسینہ، نسل پرست ہندوؤں کی دوست تھی اور مطیع الرحمان نظامی جیسے لوگوں کی دشمن۔ پردیپ کمار دیو کی بہادری کو سکھرنجن بالی کے تجربے کو دیکھ کر بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ دیو کا سامنا کس بلا سے تھا؟ 

حسینہ نے سعیدی پر سکھرنجن بالی کے بھائی کے قتل کا الزام لگایا اور بالی کو اس واقعے کے گواہ کے طور پر پیش کیا۔ جب بالی نے اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کیا اور اس کے بجائے سعیدی کی بے گناہی کی گواہی دی تو حسینہ نے اسے عدالت کے سامنے سے جبری طور پر اٹھوا لیا۔ بالی بعد میں ایک بھارتی جیل میں پایا گیا، جو اس عدالتی قتل میں بھارت کی براہِ راست شرکت کو اُجاگر کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کے ناقد سیاست دانوں کو دبانے اور بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں میں ملوث چلاآرہا ہے۔ 

نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کی طرف سے حسینہ واجد کے دور میں جبری گمشدگیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے ۳۵۰۰ سے زائد جبری گمشدگیوں کے مقدمے رجسٹر کیے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں میں بھارت ملوث تھا۔ 

حسینہ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے نو ماہ بعد بھی، اظہرالاسلام جیل میں ہیں۔ اس عدالتی قتل کی مشین کے ذریعے سزائے موت سنائے گئے لوگ اب بھی ناجائز تیار کردہ ریاستی ریکارڈ اور کاغذات کے مطابق ’دشمن‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے زیر سرپرستی بنگلہ دیش کی قوم پرست تاریخ نے ۱۹۷۱ء کی خانہ جنگی کو ایک حساس مسئلہ بنا دیا ہے۔ جو کوئی بھی اس خانہ جنگی کے دوران متحدہ پاکستان کی حمایت کرتا ہوا سمجھا جاتا ہے، وہ خود بخود ’جنگی مجرم‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ 

دوسری طرف، بنگلہ دیش نے بھارت نواز قوتوں کو یکم مارچ ۱۹۷۱ء سے ۲۸ فروری ۱۹۷۲ء کے درمیان کیے گئے جرائم کے لیے مکمل استثنا دے رکھا ہے۔ درحقیقت حسینہ کے والد مجیب الرحمٰن کی طرف سے ۱۹۷۳ء میں نافذ کردہ عام معافی کے حکم سے مشرقی پاکستان میں بھارت نواز قوتوں کی طرف سے جنگ سے پہلے، دوران، اور بعد میں گرفتار کیے گئے غیر بنگالی شہریوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کی قانونی کارروائی روک دی گئی ہے۔ 

بھارتی پروپیگنڈا سے نجات کی ضرورت 

بی بی سی ، لندن کی طرف سے ۱۹۷۱ء میں جنوبی ایشیا کی صحافت کا ایک انتہائی ’بااثر‘ قرار دیا گیا مشہور ٹکڑا انتھونی ماسکارہانس کی رپورٹ ہے، جس نے خانہ جنگی کے دوران عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف موڑ دیا۔ اسی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ:پاکستانی فوج کی ’جوابی نسل کشی‘ شروع ہونے سے بہت پہلے پاکستان مخالف اور علیحدگی پسند قوتوں نے غیربنگالی اور بہاری نسل کشی شروع کر دی تھی، جس میں چند ہفتوں میں لاکھوں بہاریوں کا قتل عام کیا گیا۔ 

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے تو جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ہر شخص کو، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فریق سے ہو، انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن بنگلہ دیش میں انڈیا نواز قوتوں نے اس کے جواب میں مسلسل دعویٰ کیا کہ ’’۱۹۷۱ء میں جنگی جرائم کے لیے صرف پاکستان ذمہ دار تھا‘‘۔ 

اگرچہ انڈیا کی گماشتہ حسینہ واجد کو جولائی ۲۰۲۴ء کے انقلاب میں معزول کر دیا گیا، طویل خانہ جنگی کے غیر بنگالی شکاروں، خواہ وہ بہاری ہوں یا چکمہ، انصاف سے اب بھی محروم ہیں کیونکہ غالب بھارتی بیانیہ ’اچھا انڈیا، بُرا پاکستان‘ (Good India, Bad Pakistan)کے دائرے سے باہر نہیں دیکھ سکتا۔ جب تک اظہرالاسلام اور جنگ کے بیانیہ پر جاری لڑائی کے دیگر شکاروں کو پاکستانی حامی کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، کسی بھی بنگلہ دیشی حکومت کے لیے انصاف مہیا کرنا مشکل ہے۔(Asia Times، ۲۱؍اپریل ۲۰۲۵ء، ترجمہ: س م خ)