سلمان آصف صدیقی


سادگی اس فطری ذوق کا عنوان ہے، جس کے نتیجے میں انسان کسی قدر اطمینان اور اعتماد کے ساتھ وہ دکھائی دیتا ہے جو وہ واقعتاً ہوتا ہے۔ سادگی کسی انسان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو کبر، حرص اور نمائش سے خود کو بچانے کی جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’سادگی ایمان کی دلیل ہے‘۔ اس کی برکت سے انسان تصنع، بناوٹ اور تکلفات سے خود کو پاک رکھتے ہوئے اپنے احساسِ جمال کی بہ آسانی تسکین کرتا ہے۔ 

سادگی بامعنی زندگی کی بہت اہم قدر ہے، جس کا مقصد اس مستقل ذمہ داری کو نبھاتے رہنا ہے کہ اپنی ضروریات کو مختصر اور محدود رکھا جائے اور خواہشات کی اندھی تقلید کے بجائے ان کو پرکھتے رہا جائے۔ سادگی کا تعلق انسان کے مزاج سے بھی ہے اور اس کے طرزِ زندگی سے بھی۔ جب انسان سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ نہ تو اپنے نام کے ساتھ القابات سننا چاہتا ہے، اور نہ اپنی تعریف ہی قبول کرتا ہے۔ ایسا انسان نہ تو کسی سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ کسی انسان کی نفاست اور وقار جب مادی سہاروں کے محتاج نہ رہیں تو سادگی جنم لیتی ہے۔ سادگی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت رکھائو اور رچائو ہے، جو انسان میں انکسار اور وضع داری کو فروغ دیتا ہے۔ 

سادگی کے راستے کی دیواریں 

سادگی کے راستے کی دیواریں اسراف، نمود، تصنع اور تکلّف ہیں: 

  • ’اسراف‘ کا مطلب ہے اعتدال یا میانہ روی چھوڑنا اور حد سے بڑھ جانا۔ اسراف بولنے، کھانے، سونے سے لے کر اپنے اُوپر خرچ کرنے تک، درحقیقت طرزِ زندگی کے بے شمار معاملات میں ہورہا ہے، یعنی لوگ کسی بھی معاملے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں، جس کا نہ تو کوئی جواز بنتا ہے اور نہ کوئی اجر۔  
  • ’نمود‘ سے مراد اپنی مالی حیثیت اور اپنی شان و شوکت کا غیر ضروری دکھاوا یا نمائش ہے۔ 
  • ’تصنّع‘ کسی بھی غیر ضروری اور غیرفطری طریقۂ کار یا بناوٹی انداز اختیار کرنے کا نام ہے۔ 
  • ’تکلّف‘ ایک خوب صورت اور معصوم جذبے کے تحت اس بلاجواز اہتمام اور معاملے کا نام ہے، جو غیرضروری مشکل کا باعث بنے۔ 

اس وقت مسلم معاشرے میں اسراف، نمود، تصنع اور تکلف سے مساجد اور مذہبی اداروں سے لے کر تعلیم یافتہ گھرانوں تک کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی ایک بھی خرابی کا شکار ہوجائے تو وہ آہستہ آہستہ باقی خرابیوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ اسے اپنا یہ خراب عمل بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور وہ اس کے حق میں جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسراف میں مبتلا لوگوں کے بارے میں قرآن نے خبردار کر دیا کہ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں اپنے کرتُوت اسی طرح خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔(یونس۱۰:۱۲) 

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مال کے حوالے سے مسلمان کی ذمہ داری صرف جائز کمانا ہی نہیں بلکہ اسے جائز خرچ کرنا بھی ہے۔ غور کیجیے کہ ربّ کریم نے اپنے کلامِ پاک میں انسانوں کو ان کا حق دینے اور فضول خرچی سے بچنے کا حکم ایک ساتھ دیا ہے۔ ان قرآنی آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم اپنا مال درست جگہ اور درست مقصد میں خرچ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو معاشرے میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے: 

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۝۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۝۲۷ (بنی اسرائیل  ۱۷: ۲۶-۲۷) رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین او ر مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔ 

’اسراف‘ کی ایک شکل یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں آرام اور سہولت اپنی جائز حد سے تجاوز کرجائے اور زندگی پُرتعیش ہوجائے۔ قرآن نے اس حوالے سے واضح احکام دیے ہیں کہ حرام کیا ہے اور اس کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن ’اسراف‘ سے بچنے کا معاملہ انسان کے شعور پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ سیرتِ رسولؐ سے اصول اخذ کرتا رہے اور اپنے معاملات کا خود ہی جائزہ لیتے ہوئے خود کو حد کے اندر رکھنے کے لیے ان اصولوں کا انطباق کرے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’نازونعم کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم کی زندگی نہیں گزارا کرتے‘ (مسنداحمد، رقم:۲۲۱۰۵)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاذؓ، رسول ؐ اللہ کے تربیت یافتہ اور قریبی صحابی تھے اور ایک اہم سرکاری منصب پروہاں تعینات کیے گئے تھے۔ تعیشات جس طرح کسی عام انسان کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہیں، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے جلیل القدر صحابی پراثرانداز نہیں ہوسکتی تھیں۔ پھر اعلیٰ منصب کے شایانِ شان وسائلِ تعیش کا مہیا ہوجانا اور ان سے تمتع معاشرے کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بلکہ بہت سے عام لوگوں کے لیے بلاشبہ توقع کے عین مطابق ہوتی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ تعیش اگر حرام نہ بھی ہو تو بھی روحِ بندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سے خود کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ اس حدیث کی شرح میں مُلّا علی قاریؒ فرماتے ہیں: خواہشات کی تکمیل میں حد سے بڑھ کر کوشش کرنے اور لذتوں کا حریص و مشتاق رہنے سے منع کیا گیا ہے‘۔(مرقاۃ المفاتیح، ج۸، ص ۳۲۹۵) 

شیخ زین الدین مناویؒ فرماتے ہیں: ’’عیش و عشرت اگرچہ مباح چیزوں میں جائز ہے، لیکن یہ صفت، تعیش کے ساتھ انسان میں انسیت پیدا کرتی اور غفلت کی طرف مائل کردیتی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ رسولؐ اللہ کو ایک قیمتی لباس تحفے میں پیش کیا گیا، جو ۳۳؍اُونٹ اور ایک اُونٹنی کے عوض خریدا گیا تھا، اور آپؐ نے اسے ایک بار پہنا۔ لیکن رسول ؐ اللہ چونکہ معصوم ہیں اور مباح کی حدود سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے آپؐ پر ایسی چیزیں اثرانداز نہ ہوتی تھیں جن کے نتیجے میں غرور، تکبر، خوشامد یا ناپسندیدہ چیزوں کی طرف تجاوز کا احتمال ہو، جب کہ عام انسان اس قسم کے خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا‘‘۔ 

اس واقعے میں غور کرنے کے کئی پہلو ہیں: پہلا یہ کہ اتنا بیش قیمت لباس آپؐ نے خود نہیں خریدا تھا بلکہ آپؐ کو تحفے میں پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ رسول ؐ اللہ لوگوں کی دل جوئی کی خاطر تحفہ قبول فرما لیا کرتے تھے، لہٰذا ایسا قیمتی لباس بھی قبول کرلیا۔ تیسرا یہ کہ رسولؐ اللہ نے اپنے عمل سے یہ واضح کردیا کہ قیمتی لباس پہننا حرام نہیں ہے۔ چوتھا یہ کہ آپؐ نے اس لباس کو دوبارہ پہننا گوارا نہیں کیا۔ 

جب انسان دوسروں سے اپنے تعلق کو خوب صورت بنانے کے بجائے ان پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بے چین رہے، تو اسراف اور نمود کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ اسی طرح جب انسان اپنے اندر اخلاص کو زندہ رکھنے کے بجائے دوسروں پر اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے متفکر ہوجائے تو تصنع اور تکلف پیدا ہوتا ہے۔ ساکھ بہت اہم اور قیمتی چیز ہے، لیکن اسے ہمارے طرزِزندگی کا مقصود نہیں بننا چاہیے۔ حقیقی ساکھ ظاہری اور مادی سازوسامان سے نہیں بلکہ انسان کے ایمان، اخلاق اور کھرے معاملات کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوتی ہے۔ 

خود کو حد سے اندر رکھنے یعنی ’اسراف‘ سے بچنے اور سادگی اختیار کرنے کی ذمہ داری مسلمان پر زندگی کے ہرمعاملے میں ہے۔ ’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی انسان کھانے کے معاملے میں اس سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ سونے کے معاملے میں اپنی نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے۔ بولنے میں غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے یا ہرمسئلے پر ہرگھڑی کچھ نہ کچھ بولنے کی ضرور کوشش میں رہے، اور کسی مجلس میں بلاوجہ بولنے اور ہربات پر رائے زنی کی کوشش کرے تو یہ سب اسراف ہی کی صورتیں ہیں۔ 

مسلم معاشرے میں پائے جانے والے ’اسراف‘ کے دو عمومی اسباب ہیں: 

  • پہلا، اپنے نفس کے مرغوبات کو نہ پہچان سکنا اور بلاسوچے سمجھے اس کی پیروی کرنا ہے۔ یعنی اس کی خوش نودی کے لیے کسی کام کو اس کی اصولی حد سے اس طرح بڑھ کر کرنا کہ اس کے نتیجے میں کسی اور چیز کا اصولی مقام زندگی میں کم ہونے لگے۔ 
  • دوسرا، علم نافع اور شعور کی کمی، یعنی اس بات کا تعین ہی نہ کرپانا کہ کسی جائز کام کی انجام دہی کی بھی جائز حد کیا ہوسکتی ہے اور اس حد سے آگے نکل جانے کے کیا نقصانات نفس، معاشرے اور ماحولیات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ 

صحابہ کرامؓ ’اسراف‘ کے حوالے سے کس قدر حساس اور محتاط تھے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ اپنے بیٹے کے پاس آئے۔ ان کے سامنے پکا ہوا گوشت سجا ہوا تھا۔ انھوں نے یہ دیکھ کر سوال کیا: ’یہ کیا ہے؟‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’مجھے گوشت کھانے کی خواہش تھی تو میں نے خرید لیا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تمھارا جس چیز کو دل چاہے گا تو کیا تم اسے ضرور کھائو گے؟ انسان کے اسراف کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہروہ چیز کھائے جس کی اس کو چاہت ہو‘‘۔(کنزالعمال، رقم: ۳۵۹۱۹) 

’اسراف‘ نمود، تصنع اور تکلف کا شکار ہونے کے باعث سادگی لوگوں کے لیے ایک ناگوار معاملہ بن گیا ہے۔ ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا جذبہ اور روح پامال ہورہی ہے۔ انسانی تعلق کی پاکیزگی متاثر ہورہی ہے اور اپنائیت کا احساس دشوار تر ہوتاجارہا ہے۔ مسلمانوں کی توانائیاں، وقت، مال اور صلاحیتیں، اسراف، نمود، تصنع اور تکلف میں ضائع ہورہی ہیں اور زندگی پیچیدہ اور بے معنی بنتی چلی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معاملات ریاکاری، حرص، طمع اور حسد کو فروغ دینے کا باعث بنے ہیں اور جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اخلاقی، نفسیاتی اور ایمانی صحت کی خرابی کی شکل میں قدم قدم پر ظاہر ہورہا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اس حوالے سے مسلمانوں کو بہت واضح تنبیہ کی گئی ہے: 

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۝۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۝۰ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّـمَّاكَسَبُوْا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۶۴  (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دُکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ 

’اسراف‘ کا شکار ہونے والے انسان کو حُب ِ مال ، حُب ِ جاہ ، ریاکاری میں مبتلا ہونے اور اخلاص سے محروم ہوجانے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے اور پھر اسے اپنے ’اَسراف‘ پر دوسروں سے تعریفیں سننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ریاکاری سے مراد وہ نیکی ہے، جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے۔ حُب ِ مال اور ریاکاری کوئی چھوٹے مسئلے نہیں ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق:’’مومن کے ایمان کو برباد کرنے اور اس کی تمام نیکیوں کو کھا جانے والے مسائل ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، رقم: ۲۳۷۶، صحیح مسلم، رقم: ۴۹۷۲) 

’اسراف‘ کے نتیجے میں اخلاص سے محرومی کیا نقصان کرسکتی ہے، اس کا اندازہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے ہوتا ہے جس کا مفہوم ہے: جو شخص اس علم کو، جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، اس لیے سیکھتا ہے کہ اس سے دُنیا کا سازوسامان حاصل کرے، تو وہ قیامت کے دن جنّت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا (سنن ابی داؤد، رقم: ۳۶۶۴، صحیح بخاری، رقم: ۶۴۹۹) 

ایک اور موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے، تو اللہ قیامت کے دن اسے رُسوا کر دے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے تو اللہ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردے گا‘‘۔ 

وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۝۳۸ (النساء۴:۳۸) اور (وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں) جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روزِ آخر پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بُری رفاقت میسر آئی۔ 

سادگی بے بسی اور مجبوری کا سودا یا سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی رضا اور شعور کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحابؓ ایسے تھے، جنھیں اللہ نے بہت مال و دولت سے نوازا تھا، لیکن مال دار ہونے کے باوجود ان کا طرزِ زندگی پُرتعیش نہیں تھا۔ ان کا رہن سہن، خوراک اور لباس وغیرہ بہت سادہ تھے۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے مال کے ذریعے آسائشوں کا حصول نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعے اپنی زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ کو بڑھایا۔ ان کے مال کا ایک قلیل حصہ ان کی جائز ضروریات پر صرف ہوا،اور بڑا حصہ خیر کے کاموں میں لگا۔ 

سادگی چونکہ انسان کا ایک فطری وصف ہے، لہٰذا اس کو اختیار کرنے کی صلاحیت صرف اللہ کے ماننے والوں تک موقوف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سادگی کی یہ جھلک ہمیں بعض فطرت پسند غیرمسلموں میں نظر آتی ہے۔ البتہ ایمان کے نتیجے میں جو سادگی کا حُسن و معیار قائم ہوسکتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ عہد ِ حاضر کے معاشرے اس وقت اپنے طرزِ زندگی سے سادگی کا مظاہرہ کرنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اختیاری سادگی کا کوئی تصور بھی نہیں رکھتے۔ 

ایک مسلمان جو کچھ بھی اپناتا اور اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسی توجیہ ہونی چاہیے کہ وہ خدا کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اگر مسلمانوں میں اپنے عمل کی جواب دہی کا یہ احساس پیدا ہوجائے تو سادگی اس کے فطری نتیجے کے طور پر رواج پائے گی۔ جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجانے کا نتیجہ نفاق کی صورت میں نکلتا ہے اور انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے۔ اس کے طرزِ زندگی سے لے کر مراسمِ عبودیت تک سب کچھ دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں: 

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَخَادِعُھُمْ۝۰ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲ۡۙ (النساء۴:۱۴۲) یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے۔ جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین! 

جدید معاشروں کی سرگرمیاں پانچ وسائل سے متعین ہوتی ہیں: جدید سائنس، ٹکنالوجی، سرمایہ، انسانی عقل اور خواہشاتِ نفس۔ جدید مغربی تہذیب کے یہی پانچ بڑے خدا ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ انسان اپنے ہرمسئلے کے حل کے لیے انھی پانچ خدائوں کی طرف دیکھتا ہے ۔ان کے ہاں کوئی مسئلہ اسی وقت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جب یہ پانچ خدا اس کا حل دینے میں ناکام ہوجائیں۔ ایسی صورت میں جدید معاشرہ شدید خوف، گھبراہٹ اور مایوسی کاشکار ہوجاتا ہے۔

ایمان لانے والے فردکا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھلے مقصد کے لیے ان وسائل کو اپنے ایمانی نقطۂ نظر کے تحت دیکھے اور دین کی شرائط بندگی پر بروئے کارلائے۔ لیکن اس قابل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان پانچ وسائل کی پوشیدہ قباحتوں سے بخوبی واقف ہو اور ان کے امکانی شر سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے نفس کی نگرانی اورتزکیہ کرتا رہے۔ ایمانی تناظر میں مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب مسلمان کا بھروسا، اعتبار، یقین اور اُمیدیں ان پانچ اسباب پر قائم ہوجائیں اور وہ ان اسباب کے نفسیاتی، معاشرتی اور ماحولیاتی نقصانات سے لاعلم رہتے ہوئے ان کا استعمال کرتا رہے۔

چونکہ جدید مغربی تہذیب کی ترقی کی بنیاد خدائے واحد اور روح کے انکار کو قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا اس کا تصورِ مسئلہ بھی مادی ہے اور اس کی تشخیص کے اسباب اور حل کی نوعیت بھی مادی ہے۔ وہ مسائل جو غیرمادی یاروحانی نوعیت کے ہیں،ان کی شناخت جدید سائنس نہیں کرپاتی اور اگر کسی وجہ سے وہ عیاں ہو بھی جائیں تو انھیں توجہ کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ جدید سائنس، مادی دنیا کے حوالے سے اپنی دانست میں جو مفروضے اوراندازے قائم کرتی ہے اور انکشافات اورایجادات ممکن بناتی ہے، وہ عموماً انسان کی مادی خواہشات ہی کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کی زندگی کی معنویت کا نہیں۔زندگی کی معنویت کا تعین کرنے والا نظام، الہامی ہدایت سے استفادہ کرکے ہی ممکن ہے۔

انسان کی زندگی کا بامعنی ہونا، اس کی زندگی میں آسایشوں کے ہونے سے کہیں زیادہ ضروری اوراہم ہے۔ جدید سائنس اور ٹکنالوجی نے کائنات میں فساد پیدا کرنے کے علاوہ انسان کو سرمایہ دارانہ نظام کی غلام گردشوں میں اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان کی ذمہ داری یہ تھی (اور یہ ہے) کہ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کی بنائی ہوئی دُنیا کااسیر بننے کے بجائے اس فساد کی نشان دہی کرے، جو ہوس کے نتیجے میں سائنس اور ٹکنالوجی نے پیدا کررکھا ہے اور جس سے مغربی دنیا کا عام آدمی ابھی تک ناواقف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنے ضعف ِ علم و ایمان کے باعث اس فرق کو نہیں  پہچان پایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے، غالب مغربی تہذیب کے علمی اورعملی انکارکے بجائے اس کی مرعوبیت اورغلامی کا بُری طرح شکار ہیں اور ترجیحات کی لگ بھگ اُسی ترتیب میں اپنے معاملاتِ زندگی طے کر رہے ہیں، جو خدائے واحد کے انکار کرنےوالوں نے بنائی ہے۔

محض سرمایے کی محبت اور اس میں اضافے کی فکر اور اس سے اپنی توقعات کا وابستہ ہوجانا، مسلمان کے ایمان کے لیے انتہائی مہلک ہے۔مال اسی صورت میں اللہ کا فضل ہے، جب تک مسلمان کا دل اس کی محبت سے خالی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک بڑا فتنہ ہے۔ مسلمان کے پاس جتنی بھی دولت آجائے، اس کی اپنے مستقبل سے بے فکری کی بنیاد، سرمایے پر بھروسا یا انحصار نہیں بلکہ اللہ کی رزّاقی پریقین ہونا چاہیے۔ اسی طرح مسلمان کو تنگدستی میں بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے سرمایے کی تمنا کرنے کے بجائے اللہ کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے حصے کی کوششیں کرنی چاہییں۔

عقل اللہ کی دی ہوئی انتہائی اہم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ عقل کے تین بڑےامتیازات ہیں: پہلا یہ کہ عقل، حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا حقیقت تک پہنچنا اس کی روشن مثال ہے۔ دوسرا یہ کہ عقل ، علم نافع کی روشنی میں نفس کے میلانات اورداعیات کا محاسبہ کرتی ہے۔ تیسرا یہ کہ عقل، معاملاتِ زندگی کو سمجھنے اورمسائل کو حل کرنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔

انسان کی فطرت اسے فوری فائدے کی طرف للچاتی ہے اورعقل یہیں دھوکا کھاجاتی ہے۔ وہ بڑی تمکنت کے ساتھ چندروزہ زندگی کے فائدے کو ہمیشہ کی زندگی کے فائدے پر فوقیت دے کر یہ سمجھتی ہے کہ اس نے بڑا کمال کیا ہے۔ پھر غالب تہذیب کا تصورِ کامیابی اس کے ایمانی تصورِ کامیابی پر غالب آجاتا ہے۔ عقل کا دوسرا بڑا مسئلہ اس کا گھمنڈ اور اپنی استعداد پرناز ہے۔ عقل کی یہ ترنگ اسے وحی سے بے نیاز کردیتی ہے۔ انسان اس صورت میں اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ خیر اور حق کا تعین خود کرسکتا ہے۔ اس کا اپنی عقل پر یہ ایمان پیدا ہوجاتا ہےکہ میری عقل ہرمسئلے کا حل دے سکتی ہے۔ مجرد عقل کے ساتھ گمراہ ہونے کی بہت بڑی مثال ابوجہل کی ہے، جس کو اس کی قوم نے عقل میں بلند ہونے کی وجہ سے ابوالحکم کا خطاب دے رکھا تھا۔

ابلیس نے جب آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تو اس کی بنیاد عقل کی ایک منطق تھی کہ ’’مَیں جو آگ سے بنا ہوں، اس گارے سے بنی مخلوق کے آگے کیوں سر جھکا دوں‘‘۔ ابلیس نے اللہ کی اطاعت کو محض عقل کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ دین کے تناظر میں عقل، منصف نہیں ہے۔ بلکہ بندگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو، جس میں عقل بھی شامل ہے، اللہ کا مطیع بنالے۔ سجدہ اسی بات کا علامتی اعتراف ہے کہ انسان اپنی عقل کو اللہ کے علم، حکمت، دانائی اورقدرت کے سامنے کچھ نہیں سمجھتا۔ اپنی عقل کے بھرپور استعمال کے باوجود اس کا اصل بھروسا اور یقین اللہ کے علم و حکمت پر ہے۔

یہی اس کا تصورِ عقل مندی ہے۔ بندۂ مومن کی عقل، اللہ کی اطاعت کرنے میں حیل وحجت نہیں کرتی۔ درحقیقت اسی عقل کو عقلِ سلیم کہتے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب میں عقل کا بہت بڑا مصرف، نفسانی خواہشات کی تکمیل کے راستے تلاش کرنا اور ان پر چلتے رہنا ہے۔ ایمانی مناسبت سے عقل کا ایک بہت اہم مصرف ان خواہشات کا تجزیہ اور محاسبہ ہے۔ انسان کا اگر ہرلمحہ تزکیہ ہوتا رہے اور اسے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجائے تو اس کی خواہشات بہت نفیس اور پاکیزہ ہوجاتی ہیں۔

انسان کی بے پناہ خواہشات اسے نفس کی غلامی میں دھکیل دیتی ہیں۔ انسان کی خواہشات چپکے چپکے اس کا اِلٰہ بن جاتی ہیں۔ جھوٹے ربّ اور جھوٹے الٰہ کا فرق سمجھنا بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اگر انسان غیرمشروط طورپر اپنے دل کی خواہشات کے پیچھے چل رہا ہو یا اس کی پیروی کر رہا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ خواہشات اس کا الٰہ ہیں۔ اور اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس کی عقل سارے مسائل حل کردے گی تو اس کا مطلب ہے کہ عقل کو ربّ کادرجہ مل گیا ہے۔ ربّ اور الٰہ کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ مسلمان خود کو جھوٹے خدائوں کے پھندے سے نکال سکے۔ جدید مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام ان پانچ جھوٹے خدائوں کے گٹھ جوڑ کی کہانی ہے۔ جس نے اللہ کی نشانیوں کو نظر سے اوجھل کرکے سارے عالم کو بُت کدہ نما بنا دیا ہے۔انھی جھوٹے خدائوں نے آج مسلمانوں کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔

اس وقت کرونا وائرس کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اسے دنیا کچھ وقت کے لیے تو سمجھ ہی نہیں پائی کہ یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کو کیسے سنبھالنا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہ آنے والی کیفیت ، گھبراہٹ اور شدید خوف کا باعث بن گئی۔ ایسا خوف جو انسان کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہو،وہ ایمان کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ایمان کو مزید کمزور تر کر دیتا ہے۔ خوف کی ایسی صورتِ حال پیداہوجائے تو پھر اللہ کے سوا دنیا کی کوئی طاقت اسے انسان سے نہیں نکال سکتی۔ وہ لوگ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، انھیں بے خوف اور بے غم رکھنے کے لیے اللہ، فرشتوں کو خصوصی احکامات کے ساتھ نازل کرتا ہے:

جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو نہ غم کرو ، اور خوش ہوجائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۰-۳۲)

جب انسان ایک اللہ کو چھوڑتا ہے تو اسے بہت سارے خدا بھی کافی نہیں ہوتے۔ مغربی نفسیات میں ’ذہن کا مادّے پر تصرف‘ کے عنوان سے ایک پورا نقطۂ نظر موجود ہے۔ جو بتاتا ہے کہ ’’اگرآپ کو چوٹ لگ جائے لیکن آپ کو ذہنی طور پر اس بات کا یقین دلوا دیا جائے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے تو وہ واقعی کچھ بھی نہیں ہوتا‘‘۔ اسی طرح ’مصنوعی دوا‘(placebo medicine) کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ ’’ذہن کی کیفیت اوردل کے یقین کی اہمیت کسی مرض کے علاج میں دوا سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔مراد یہ ہے کہ اللہ کے نہ ماننے والے اس نظریے تک پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اللہ کو نہ ماننے والوں کے لیے اللہ کو ماننے کا بہت بڑا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

خوف اور گھبراہٹ کا تسلسل اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ آپ کسی معاملے، مسئلے یا خطرے کو بہت بڑا جان لیں اور اپنے وجود کی گہرائیوں میں اس کی بڑائی کو محسوس کرنا شروع کردیں۔ خوف کی یہ صورت فرد کی ایمانی اور نفسیاتی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ ایک بندۂ مومن کو ہرلمحہ اس بات کا احساس اور یقین ہونا چاہیے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ وہ کارسازضرور میری مشکل حل کر دے گا۔ مومن کے لیے صرف ایک ہی خوف جائز ہے اوروہ ہے روزِ آخرت اپنے عمل کی جواب دہی کا خوف۔ اسلام لانے اور اللہ کو اپنے معبود ہونے کا اقرار کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اب دل میں کسی کی ایسی بڑائی اور عظمت قبول نہیں کی جاسکتی، جس سے اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کی عظمت پر حرف آئے۔ خوف کا شدت اختیار کرجانا دراصل بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کے تعطل کا سبب بن جاتاہے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب دل صرف اور صرف اللہ کا ہوگیا ہے۔ اس میں کسی اور کے آنے کی گنجایش اللہ کے دیے ہوئے احکامات کی تعمیل کے حوالے سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

ایک عالمی ادارے Worldmeters کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ انسان ایک دن میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک ماہ میں تقریباً ۴۵لاکھ اور تین ماہ میں تقریباً ایک کروڑ ۳۵ لاکھ انسان اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، جب کہ کرونا وائرس سے گذشتہ آٹھ ماہ، یعنی فروری سے ستمبر۲۰۲۰ء کے دوران تقریباً ۹لاکھ ۴۲ ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لاکھوں لوگ روزانہ مر کر کہاں جارہے ہیں؟ ان کا کیا بن رہا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ زمان و مکان اور جسم و عمر کی قید سے باہر نکل جاتے ہیں اور درحقیقت واپس بلا لیے جاتے ہیں۔

ان لاکھوں مرنے والوں میں سے بہت بڑی تعداد کو اپنی موت سے چند منٹ پہلے تک بھی یہ پتا نہیں تھا کہ یہ ان کے اس دُنیا میں آخری لمحات ہیں۔ عقیدے اور ایمان کے تناظر میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کسی وائرس یا بیماری سے کیسے بچا جائے؟ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اپنی موت کی تیاری کیسے کی جائے؟ جب کہ ربِّ کریم نے موت سے ہمکنار کرنے کا ایک اور ذریعہ بھی انسان کو دکھا دیا ہے۔

اس وقت دُنیا بھر کے سات ارب انسان اپنے آپ کو کورونا وائرس سے اور اس کی اگلی لہر سے بچانے میں مصروف اور خوف زدہ ہیں۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا کیا ہوگا؟ کافر اور مومن کی نفسیات میں ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ کافر موت سے ڈرتا اورمومن جواب دہی سے۔ کافر موت کا ذکر نہیں سننا چاہتا اور مومن اپنی موت کو یاد رکھنے کے لیے اس کا روزانہ ذکرکرتا ہے۔اس کے لیے کسی بھی جنازے میں شرکت اپنے دل کے زنگ کی صفائی، ایمان کی تجدید، اور جواب دہی کی فکر کے احساس کو تازہ کرنے کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اسی لیے جنازوں میں شرکت کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اورنمازِ جنازہ کے بعد تدفین کے لیے قبرستان میں موجودگی پراور بھی زیادہ زور دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے مسلمان میں اپنی ایمانی کمزوری کے باعث موت کا خوف طاری ہوگیا ہے۔ اور اس خوف نے زندگی سے تقویٰ اور احساسِ ذمہ داری کو شدید صد مہ پہنچایا ہے۔