علّامہ اقبالؒ کی وفات کو تقریباً ۹۰ برس ہونے کو ہیں۔ یہ ایک عجیب حیرت کی بات ہے کہ اپنی وفات سے بیس پچیس سال پہلے انھوں نے مسلم ممالک کے احوال کی جو تصویرکشی کی تھی، وہ آج کے حالات سے بالکل مشابہت رکھتی ہے ۔ خلافت عثمانیہ کا زوال ، مفادات کے اسیر بعض طاقت ور عربوں کی غداری ، سامراجی طاقتوں کے سامنے سہمے ہوئے مسلم حکمرانوں کی نااہلی ، مسلم ملکوں پر مغربی طاقتوں کا تسلط ان کے زمانے میں عالم اسلام کے خدو خال تھے۔
فلسطین ، لبنان ، شام ، عراق میں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اس پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ہمارے زمانے کی مسلم دُنیا کے چہرے کی شناخت ہے۔ ان کے دور میں عرب قوم پرستوں کی غداری سے خلافت اسلامیہ کے ٹکڑے ہوئے۔ آج اُن عرب قوم پرستوں کی مقتدر اولادوں کی غداری سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔
ترکوں کے دورِ حکومت میں مکہ کے گورنر کو ’شریف‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ شخص سادات میں سے ہوتا تھا۔ ۱۹۰۸ء میں شریف حسین بن علی [۱۸۵۴ء-۱۹۳۱ء] اس منصب پر فائز ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں اس نے ترکوں سے بغاوت کرکے اور برطانوی سامراجی قوت کو ساتھ لے کر انگریزوں کی شہہ پر حجاز کی بادشاہت کا اعلان کردیا ۔ شریف حسین کے چار بیٹے تھے۔ شریف حسین نے انگریزوں کی مدد سے ترکوں کو بے حد نقصان پہنچایا۔ حالانکہ یہ واحد قوم تھی جو مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ہر محاذ پر لڑرہی تھی۔ علّامہ اقبال نے خضر راہ نظم کہی تو عربوں کی غداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفےٰؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
شریف حسین، ہاشمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی دینِ مصطفےٰ ؐ کی عزت و حرمت بیچ رہا ہے، جب کہ سخت جان ترک مسلمان آج بھی اسلام کی خاطر جان کی بازی لگارہا ہے۔
حرم رُسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
شریف حسین کا ایک بیٹا امیر فیصل اوّل [۱۸۸۳ء-۱۹۳۳ء] جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا، انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنے میں اور ترکوں کا خون بہانے میں پیش پیش تھا۔ امیرفیصل اوّل کا دوسرا بھائی عبداللہ [۱۸۸۲ء-۱۹۵۱ء]جو بعد میں اردن کا بادشاہ بنا،وہ بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف لڑرہا تھا۔ ان دو کے علاوہ شریف حسین کے دوبیٹے علی اور زید تھے۔
عربوں کے برعکس ۱۹۱۱ءمیں اٹلی نے لیبیا پر حملہ کیا تو شیخ احمد شریف سنوسی [۱۸۷۳ء-۱۹۳۳ء ] نے ترکوں کی حمایت کے عوض خلیفہ کی طرف سے کوئی مالی اعانت بھی قبول نہیں کی۔ عظیم حریت پسند شہید عمر مختار ؒ [۱۸۵۸ء- ۱۹۳۱ء] سنوسی تحریک ہی کے پرور دہ اور تربیت یافتہ تھے۔
عالم اسلام کے دوسرے مسلمانوں کی طرح شیخ سنوسی بھی شریف حسین اور ان کی اولاد سے ناراض تھے۔ انھیں امیر فیصل سے زیادہ شکایت تھی، جنھوں نے ’لارنس آف عربیہ‘ [تھامس ایڈورڈ لارنس: ۱۸۸۸ء-۱۹۳۵ء]کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں۔ یہ غدار ابن غدار وہی اسلام دشمن عرب تھا، جس نے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کے لیے صہیونیوں سے سازباز کی تھی۔ علّامہ اقبال نے اس ہاشمی سے شیخ سنوسی کی نفرت کا تذکرہ بھی ایک شعر میں کیا تھا :
کیا خوب امیرِ فیصل کو سُنّوسی نے پیغام دیا
تُو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
شریف حسین کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے خاندان کی حکومت اردن میں قائم ہے۔ چوں کہ اس خاندان میں غداری کی روایت ایک صدی سے جاری رہی ہے، اس لیے اس کا ہر حکمران اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کے والد شاہ حسین (م: ۱۹۹۹ء) کے دورِ حکومت میں ۱۹۷۰ء کے دوران اُردن میں فلسطینیوں کے قتل عام نے اُن کے اعمال نامے میں سیاہی کا اضافہ کیا۔ فلسطینیوں کے اس قتل عام کو ’سیاہ ستمبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کی داستان بھی سرجھکا دینے کے لیے کافی بنیادیں رکھتی ہے۔ اسرائیل پر جب ایران نے میزائل داغے تو اُردن نے ان میزائلوں کو اپنے ملک کی حدود میں روک کر اسرائیل نوازی کا ثبوت فراہم کیا۔فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران جب حوثیوں نے آبی گزرگاہوں کو بند کردیا تو سعودی اور اُردنی بادشاہوں نے اسرائیل کو جانے والی سپلائی کے لیے زمینی راستے کھول کر، اسرائیل پہ پڑنے والا دبائو کم کردیا۔
شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعویٰ ۱۹۲۴ء میں کیا، جسے نجد کے حکمران عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن سعود [۱۸۷۵ء-۱۹۵۳ء] نے تسلیم نہیں کیا، اور ۱۹۲۵ ءمیں حجاز پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے بعد ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو حجاز کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا۔اس کے بعد وہ نجدوحجاز کے بادشاہ کہلائے اور ۲۳ستمبر ۱۹۳۲ء کو نجد و حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔ انگریزوں نے شریف حسین سے جس عرب سلطنت کے وعدے کیے تھے، اس کے ٹکڑے کیے گئے۔ اب انگریزوں نے شریف حسین کو دھوکا دے کر اس سے چھٹکارا پالیا اور اس کی جگہ شاہ عبدالعزیز ابن سعود کو نیا حلیف چُن لیا۔ آج تک آلِ سعود کا خاندان ہی سعودی عرب کا حکمران چلا آرہا ہے۔ دینی وابستگی کے اعتبار سے سلفیت سے نسبت ہے، مگرامریکا اور برطانیہ کے ساتھ ناقابلِ تصور حد تک دوستی و وابستگی ہے۔ کنگ عبدالعزیز نے جس طرح عہدِ رسالت اور خلافت راشدہ کی یاد گاروں کو مٹانے کے لیے اپنے اقتدار کا استعمال کیا، اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی۔ علّامہ اقبال نے ان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کریں :
تو ہم آں مے بگیر از ساغرِ دوست
کہ باشی تا ابد اندر برِ دوست
سجودے نیست اے عبدالعزیز ایں
بروبم از مژہ خاک درِ دوست
[تُو بھی حبیبِ ؐ خدا کے اسوہ سے استفادہ کر تاکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں رہو۔ اے عبدالعزیز جو میں کررہاہوں یہ سجدہ نہیں ہے۔ میں اپنی آنکھوں کی پلکوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کی مٹی جھاڑرہا ہوں۔]
اقبال اس کے بعد شاہ عبدالعزیز سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
تو سلطانِ حجازی من فقیرم
ولے درکشورِ معنی امیرم
جہانے کو ز تخمِ لااِلٰہ
رُست بیابنگر بآغوشِ ضمیرم
[تو حجاز کا بادشاہ ہے، میں گو ایک فقیر ہوں، مگر اقلیم معانی کا امیر ہوں۔ لااِلٰہ کے تخم سے جو دنیا پیدا ہوئی ہے، اگر اس دنیا کو دیکھنا ہو، تو میرے ضمیر کے اندر دیکھ لو۔ ]
علّامہ اقبال نے آج کے عربوں سے بار ہا مایوسی اور نا اُمیدی کا اظہار کیا ہے۔ جاوید نامہ میں انھوں نے ایک پُرسکون سمندر میں دو سرکش انسانوں کی روحوں کو دکھایا ہے، جو اس سمندر میں اسیر ہیں۔ ان میں سے ایک روح مصر کے فرعون کی ہے، جس نے حضرت موسٰی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر کو غرقِ آب کردیا۔ دوسری روح فیلڈمارشل ہربرٹ کچنر [۱۸۵۰ء- ۱۹۱۶ء]کی ہے، جو برطانیہ کا ایک درندہ صفت فوجی جرنیل تھا۔ اس نے ۱۸۹۸ءمیں خرطوم (سوڈان) پر قبضہ کیا اور شہر میں داخل ہوتے ہی مہدی سوڈانی (محمد احمد بن عبداللہ مہدی: ۱۸۴۵ء- ۱۸۸۵ء) کی لاش قبر سے نکال کراسے نذر آتش کردیا، جس پر مہدی سوڈانی کے پیروکار درویشوں نے اس درندے کو بددعا دی کہ تو نے ہمارے مرشد کی لاش کی بے حُرمتی کی، اللہ کرے تیری لاش کو خشکی اور سمندر میں کہیں امان نہ ملے۔ اٹھارہ سال بعد اس درندے کا جہاز جس میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کررہا تھا، سمندر میں غرق ہوا۔ اس کی لاش ہی پانی میں ڈوب گئی ۔ برطانیہ کے اس مایہ ناز فرزند کی لاش کو نکالنے کے لیے ماہر غوطہ خور لائے گئے، جنھوں نے بڑی کوششوں کے بعد اس کی لاش سمندر سے نکالی اور بندرگاہ کے ساحل پر رکھ دی۔ لاش ساحل پر رکھی ہوئی تھی کہ وہاں موجود گارڈ نے سوچا کہ لاش کی رپورٹ تیار کرنے میں بڑی پریشانی ہوگی، چنانچہ اس زحمت سے بچنے کے لیے اس نے کچنر کی لاش کو آگ لگادی اور اسے راکھ میں بدل دیا۔ مزید کسی زحمت سے بچنے کے لیے اس نے ٹھوکریں مار مار کر راکھ کو بکھیر کر اڑا دیا۔ قدرت کس طرح بڑے بڑے سرکشوں سے انتقام لیتی ہے!
پُر سکون سمندر میں لارڈ کچنر کی روح تقریر کرتی ہے کہ ہم نے مصر کے آثار قدیمہ کی کھدائی کسی مادی منفعت کے لیے نہیں کی، بلکہ انگریز علم و حکمت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے اس قوم کا مقصد بلند ہوتا ہے۔ ہم نے یہ کھدائی اس لیے کی ہے تاکہ مصر کی قدیم تاریخ اور فرعون و موسٰی کی کش مکش کے تاریخی شواہد سامنے آسکیں۔ علم و حکمت کا مقصد ہی چھپی چیزوں سے پردہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہم نے اگر مصر کے فرعون کی قبر کھودی تو اس کا مقصد یہی تھا۔
لارڈکچنر کی یہ تقریر سن کر فرعون نے سوال کیا کہ ٹھیک ہے ہماری قبر کو تونے تاریخی شواہد معلوم کرنے کے لیے کھودا، مگر مہدی سوڈانی کی قبر کے اندر کیا تھا؟
قبرِ ما را علم و حکمت برکشود
لیکن اندر تربتِ مہدی چہ بُود؟
یہاں لارڈکچنر خاموش ہوجاتا ہے، کوئی جواب اُس سے نہیں بن پاتا۔
اس اثناء میں اس پرسکون سمندر میں ایک بجلی چمکتی ہے۔ پانی میں لہر اُٹھتی ہے اور جنت کے گلستان سے ایک خوشبو آتی ہے۔ مصری درویش مہدی سوڈانی نمودار ہوتے ہیں اور کچنر سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگر تمھاری آنکھوں میں روشنی ہو تو درویش کی خاک کا انتقام دیکھ۔ آسمان نے تمھیں قبر کے لیے جگہ بھی نہ دی۔ سمندر کے طوفان کا شور ہی تمھارا مقدر بنا۔ اس کے بعد مہدی سوڈانی کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے عربوں سے خطاب کرتے ہیں :
گفت اے روح عرب بیدار شو
چوں نیا گ خالقِ اعصار شو
اے فواد اے فیصل اے ابن سعود
تا کجا بر خویش پیچیدن چو دور
زندہ کن درسینہ آں سوزے کہ رمت
درجہاں باز آور آں روزے کہ رفت
خاک بطحا خالدے دیگر بزاے
نغمۂ توحید را دیگر سراے
اے نخیلِ دشت تو بالندہ تر
بر نخیزد از تو فاروقے دگر
اے جہانِ مومنانِ مشک فام
از تومی آید مرا بوے دوام
زندگی تاکجاے ذوق سیر
تا کجا تقدیرِ تو در دستِ غیر
بدمقامِ خود نیائی تابکے
استخوانم دریچے نالد چونے
از بلاترسی؟ حدیثِ بمصطفٰے است
مرد را روزِ بلا روزِ صفاست
[مہدی سوڈانی کا یہ خطاب طویل ہے، یہاں صرف نو اشعار دیئے گئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے:]
اے عرب کی روح بیدار ہوجاؤ، اگلے بزرگوں کی طرح نئے اَدوار پیدا کرو
اے فواد، اے فیصل، اے ابن سعود! ( مصر ، عراق اور حجاز کے حکمران) تم کب تک تفرقہ بازی کا شکار ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود رہو گے؟
اپنے سینے میں ایمان کی وہ آگ پیدا کرلو جو چلی گئی ہے۔ ان ایام کو دنیا میں پھر سے لاؤ جو چلے گئے ہیں۔
بطحا کی سرزمین سے ایک نیا خالد (خالد بن ولیدؓ) پیدا کرلو اور توحید کے نغمے کو دنیا میں دوبارہ گاؤ۔
تمھارے جنگل کا درخت اب بھی بہت سرسبز ہے۔ پھر کیوں کوئی دوسرا عمر فاروقؓ پیدا نہیں ہوتا؟
اے سیاہ فام مومنوں کی سرزمین (سوڈان)، مجھے تم سے ابدی خوشبو آتی ہے۔ بڑی اُمیدیں ہیں، تم کب تک غیر متحرک زندگی گزارتے رہوگے؟ تمھاری تقدیر کب تک دوسروں کے ہاتھ میں رہے گی؟
اے سیاہ فام مومنو، تم کب تک اپنے مقام سے غافل رہوگے؟ اس تصور سے میری ہڈیاں بانسری کی طرح فریاد کرتی ہیں۔ تم بلاؤں سے گھبراتے ہو، حالانکہ ہمارے پیغمبرؐ نے فرمایا ہے کہ مرد کے لیے مصیبت کا دن قلب کی صفائی کا دن ہوتا ہے۔ یعنی روزِ بلا تزکیۂ نفس کا دن ہوتا ہے۔
آج کے حالات میں عرب حکمرانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں ہوسکتا، جو مہدی سوڈانی نے انھیں دیا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک متحد اور طاقت ور ہوتے تو ہمارے فلسطینی مسلمان بھائی اس ظلم و سفاکیت کا شکار نہ ہوتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس نسل کشی کے دوران فلسطین کے اصل باشندوں کی جلاوطنی اور ’ابراہیم اکارڈ‘ کی باتیں ہورہی ہیں اور عرب اور مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
۱۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کو چین کے شہرووہان میں’ کورونا وائرس‘ کی وبا پھوٹنے کی خبریں آئیں، جس نے اب تک تقریباً پوری دنیا کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ’کورونا وائرس‘ کو عالمی وبا قرار دیا جاچکا ہے، مگر بہت سے لوگ اب بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ان میں اچھے خاصے دین دار مسلمان شامل ہیں۔ بعض حضرات احتیاطی تدابیر کو توکّل کے منافی سمجھتے ہیں۔ نیز ان کا خیال ہے کہ بیماری کا علاج کرنے سے مسلمان دائرہ متوکل سے نکل جاتا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ اسلام کی نظروں میں ہمارے اس طرز عمل کی حیثیت کیا ہے؟ قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں طوفان ،آندھی، زلزلہ اور وبا جیسی آفات عذابِ الٰہی کی مختلف صورتیں ہیں، جو انسان کی سرکشی کا بدلہ ہوتی ہیں، یعنی یہ سزا انسان کے ہاتھ کی کمائی ہوتی ہے۔ عذاب یا آزمایش کا مقصد انسان کو رجوع الی اللہ کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور اپنے ربّ سے رجوع کرے۔ جیساکہ قرآن حکیم میں آیا ہے:
تاکہ خدا ان کو ان کے بعض عملوں کا مزہ چکھائے، عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔ (الروم، ۳۰: ۴۱)
اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا بھی دنیا کے عذاب کا مزہ چکھائیںگے شاید وہ باز آئیں۔ (السجدہ ۳۲:۳۱)
ہم نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا تاکہ وہ باز آئیں۔ (الزخرف ۴۳: ۴۸)
وبا کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بہت واضح اور روشن ہیں۔ اگر آج ’کورونا وائرس‘ کے پھوٹتے ہی ان احکام پر عمل کیا جاتاتو دنیا کتنی پریشانی سے بچ جاتی۔
۱۸ ھ میں شام میں وبا پھوٹی جو’ طاعون عمواس‘ کہلاتی ہے۔ اس وقت حضرت عمر ؓ شام کے سفر پر تھے۔ تبوک کے نزدیک’ سرغ‘ نام کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ ، حضرت شرحبیل ؓ بن حسنہ جیسے کبار صحابہ حاضر ہوئے۔ انھوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کی کہ ’’شام میں وبا پھوٹ پڑی ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ مخمصے میں پڑگئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو حکم دیا کہ ’’مہاجرین اولین کو بلایا جائے‘‘۔ جب وہ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے ان سے مشورہ کیا۔ انھوں نے الگ الگ رائیں دیں اور کسی ایک راے پر متفق نہ ہوسکے۔ ان میں سے بعض کی راے تھی کہ سفر جاری رکھا جائے اور بعض واپس لوٹ جانے کے حق میں تھے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں رخصت کیا اور انصار کو طلب کیا۔ انصار نے بھی الگ الگ رائیں دیں اور کسی راے پر متفق نہ ہوسکے۔ حضرت عمر ؓ نے انھیں بھی رخصت کیا اورحکم دیا کہ فتح مکہ میں جو مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انھیں بلایا جائے۔ جب وہ آئے تو انھوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ عرض کی کہ ’’بہتر ہے کہ آپ واپس لوٹ جائیں اور ان کو خطرے میں نہ ڈالیں‘‘۔
ان کی راے سن کر حضرت عمر ؓ نے اعلان کیا کہ ہم کل صبح واپس جارہے ہیں۔ صبح لوگ جمع ہوئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ آئے اور حضرت عمر ؓسے کہا کہ’’ امیرالمومنین آپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں ؟ـ‘‘جس کے جواب میں حضرت عمر ؓ نے کہا کہ’ ہاں، ہم اللہ کی ایک تقدیر سے اللہ کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مثال دی کہ ’’لوگ اپنے اونٹوں کو لے کر ایک وادی میں اُترتے ہیں، جس کا ایک کنارہ سر سبز و شاداب اور دوسرا خشک ہے۔ جو گروہ اپنے اونٹوں کو سر سبز شاداب حصے میں چرائے تو یہ تقدیر الٰہی سے ہے اور جو خشک و بنجر میں چرائے تو اس کا چرانا بھی تقدیر اِلٰہی ہی سے ہے؟ اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تشریف لائے، جو کہیں گئے ہوئے تھے اور اس موقعے پر موجو د نہ تھے۔ انھوں نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا کہ ’’اس بارے میں میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم موجود ہے۔ میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھیلی ہو اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو اور جب تم سنو کہ وبا پھیلی ہے تو اس علاقے میں مت جاؤ‘‘۔یہ حدیث سن کر حضرت عمر ؓ کو خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ چلو۔
حضرت عمر ؓ مدینہ واپس آئے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کو خط لکھا کہ ’’آپ سے ضروری کام ہے، مدینہ واپس آئیں‘‘۔مگر حضرت ابو عبیدہ ؓ بھانپ گئے کہ حضرت عمر ؓ انھیں شام سے نکالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے فوجیوں کا ساتھ نہ چھوڑنے کا عذر پیش کرتے ہوئے اس حکم کی تعمیل نہیں کی اور لکھا کہ ’’میں ان حالات میں فوجیوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا معذور سمجھیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے دوسرا خط ارسال کیا کہ ’’آپ نشیبی علاقے میں ہیں۔ فوج کو پہاڑوں پر لے جائیں‘‘۔ حضرت ابو عبیدہؓ حکم کی تعمیل کرنے ہی جارہے تھے کہ ان پر وبا کا حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ انھوں نے وفات سے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو اپنا جانشین بنایا مگر طاعون نے پہلے حضرت معاذ بن جبل ؓ کے فرزند اور پھر انھیں بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ دونوںاللہ کو پیارے ہوگئے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضرت عمر و بن عاصؓ کو اپنا قائم مقام نامزد کیا۔ انھوں نے امیر ہوتے ہی مسلمانوں کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ ’’وبا جب پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ تم لوگ الگ الگ ہوکر پہاڑوں میں چھپ جاؤ اور جانیں بچاؤ‘‘۔ یہ سن کر لوگ بھاگ بھاگ کر پہاڑوں میں جاکر چھپ گئے۔ چنانچہ بیماری کا زور کم پڑا اور کچھ دنوں کے اندر بالکل ختم ہوگیا۔
’طاعون عمواس ‘کی وبا مہینوں پھیلتی رہی۔ اکابرین صحابہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ ، حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ ، حضرت سہیل بن عمروؓ، حضرت عتبہ بن سہیلؓ سمیت سیکڑوں اعیان واشراف وبا میں انتقال کرگئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی اولاد میں سے ۴۰؍ افراد جاں بحق ہوگئے۔ حارث بن ہشامؓ کے خاندان کے ستّر افراد میں سے صرف چار زندہ بچ گئے۔ مؤرخین کے مطابق اس وبا میں ۲۵ ہزار مسلمان شہید ہوگئے۔
حضرت عمروبن عاصؓ کی طرف سے لوگوں کو منتشر ہونے کا حکم دینا،طبی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی چیز کو ہم آجIsolation یا Social Distancing کہتے ہیں۔
ارشاد نبویؐ ہے کہ جہاں وبا ہو وہاں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ وبا والے علاقے سے اگر لوگ باہر جائیں تو ایک تو علاقے میں افراتفری مچ جائے گی۔ تندرست لوگ وبا سے متاثر لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور ان کی خبرگیری نہیں ہوگی۔ دوسرے یہ کہ وبا کے مقام سے بھاگنے والے لوگوں میں متاثرین بھی ہوں گے، جن کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی وبا کی گرفت میں آئیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’کوئی بیمار کسی تندرست شخص کے پاس ہرگز نہ جائے‘۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ممرض (مرض پیدا کرنے والا مریض) تندرست کے پاس واردنہ ہو‘ ۔ ایک اور حدیث میں وباوالے علاقے سے نکلنے والے شخص کے بھاگنے کو میدان جہاد سے فرار قرار دیا گیا ہے۔ اما م غزالی ؒکے بیان کے مطابق: ’’وبا والے شہر کی متعفن ہوا سانس کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور دل، پھیپھڑوں اور اندورنی جسم کے پردوں پر مضر اثرات ڈالتی ہے۔ اس لیے وبا والے شہر سے نکلنے والے شخص کے بارے میں احتمال یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر بیماری سے متاثرہو‘‘۔ اس لیے طاعون زدہ شہر کے لوگوں کو حدیث میں تاکید کی گئی ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرکے اسی شہر میں قیام کریں۔ اگر وہ وبا کی زد میں آکر فوت ہوجائیں تو انھیں شہید کا درجہ ملے گا۔
متعدی بیماری کے مریض سے دور رہنے میں بھی اسوہ رسولؐ موجود ہے۔ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک شخص جذامی تھا ،جو بیعت کرنے کے لیے آرہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سنا تو کہلا بھیجا کہ ’’تم وہیں سے واپس لوٹ جاؤ، ہم نے تمھاری بیعت قبول کرلی‘‘۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: ’’مجذوم سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی سے گفتگو فرمائی تو جذامی اور آپؐ کے درمیان ایک یا دونیزے کا فاصلہ تھا۔ ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کا ثمرہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے دوران مسلمانوں نے عالم اسلام کے مختلف شہروں میں جذامیوں کے لیے نہ صرف علیحدہ ہسپتال قائم کیے تھے بلکہ انھیں شہر سے باہر علیحدہ بستیوں میں بسایا جاتا تھا ۔ ان بستیوں کو ’الحارہ‘ کہاجاتا تھا۔ ان میں بنیادی اور ضروری سہولیات میسر ہوتی تھیں۔
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’جس علاقے میں وبا پھوٹی ہو وہاں مت جاؤ‘‘۔ ایک مرفوع روایت میں آیا ہے کہ ’’وبا میں گھسے رہنا ہلاکت ہے‘‘۔ امام غزالی ؒ کا بیان ہے کہ ’’جو لوگ ابھی شہر میں داخل نہیں ہوئے ہیں، ان کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ باہر رہیں، کیوں کہ ابھی تک متعفن اور زہریلی ہوا ان پر اثر انداز نہیں ہوئی ہے‘‘۔ اما م موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر شہر میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ ہو، تو مریضوں کی اعانت کے لیے کچھ لوگوں کا شہر میں جانا مستحب قرار پاسکتا ہے‘‘۔ اس سے طبی عملے اور ان کے معاونین کی کارکردگی کا لائق تحسین ہونا معلوم ہوتا ہے۔
آفات و آلام اور بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازمی اور مستحسن ہے۔ قرآن حکیم نے مسلمانوں کو اپنا بچاؤکرنے کا حکم دیا ہے ، نمازِ خوف میں ہتھیاروں سے لیس رہنے کی تاکید کی ہے۔ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار درست اور گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مریض اور مسافر کے لیے یا پانی نہ ملنے کی صورت تیمم کی اجازت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دشمنوں کی تعاقب سے بچنے کے لیے حکم دیا کہ ’’میرے بندوں کو رات میں لے کر چل‘‘۔ اس حکم میں ایک مصلحت یہ تھی کہ دشمن کو پتا نہ لگے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نظروں سے بچنے کے لیے غار ثور میں پناہ لی تھی۔
اسباب کو کلی طور پر ترک کرنا تو کل نہیں ہے۔ آپ ؐ سے ایک شخص نے اونٹ کھلا چھوڑنے اور اللہ پر توکل کرنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اونٹ کے پاؤں میں دونا لگاؤ اور توکل کرو‘‘۔
بیماری اور علاج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ڈاکٹروں اور معالجوں کے لیے وافر ذخیرہ موجود ہے۔ چنانچہ ’الطب النبوی ‘ کے عنوانات سے علماے اسلام نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ امام ابن قیم نے سیرت کی مشہور کتاب زادالمعاد میں طب نبویؐ پر شان دار مواد جمع کیا ہے، جس میں کم و بیش ایسی دواؤں کا تذکرہ ہے۔ عہد رسالت میں حارث بن کلدہ عربوں کے مشہور طبیب تھے۔ انھوں نے’ خبدی شاپور ‘کے مدرسے میں طب کا علم حاصل کیا تھا۔ حضرت سعد بن وقاصؓ بیمار ہوئے تو آپ ؐ نے حارث بن کلدہ کو طلب فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفانہ ہو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’حارث سے علاج کراؤ‘‘۔ آپؐ نے حضرت سعد بن معاذ کی فصدکھلوائی۔ حضرت سعد بن زرارہ کو داغ لگوایا۔ حضرت علی ؓ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے تو ان سے فرمایا کہ ’’کھجوریں نہ کھاؤ‘‘۔
آپؐ ہر شب سرمہ لگایا کرتے تھے۔ ہر ماہ پچھنے لگواتے تھے اور ہر سال سنا کاجلاب لیا کرتے تھے۔ زخم پر مٹی لگاتے تھے۔ پھنسی یا پھوڑے پر مہندی لگاتے تھے۔ سردرد میں آپؐ نے مہندی کالیپ کرایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حفظان صحت کے بہترین اصول و آداب موجود ہیں۔ آپؐ نے گھروں اور صحنوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا۔ راستوں سے تکلیف دہ اور گندی چیزوں کے ہٹانے کی تاکید کی ۔ آپؐ ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے۔ امّت کو بھی مسواک کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں ہاتھوں کی صفائی کا حکم آیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی چھینک آتی تو آپ اپنے ہاتھ یا کپڑے سے منہ ڈھانک لیتے اور آواز دھیمی کرلیتے‘‘۔
آج پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ ہاتھوں کو صابن سے دھویا کریں اور چھینکتے وقت کہنی یا کپڑے سے منہ کو ڈھکیں۔ ایک حالیہ تجزیے میں آیا ہے کہ چھینکتے وقت جو چھوٹے قطرات منہ سے نکلتے ہیں وہ آٹھ میٹر کی دوری تک دوسرے شخص کو متاثر کرسکتے ہیں۔ سنت رسولؐ میں دنیا کے لیے کتنی بہترین رہنمائی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جیسی اہم عبادت میں بھی احوال و ظروف کا خیال فرمایا ہے۔ آپؐ کافرمان ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اس کو ہلکی نماز پڑھانی چاہیے، کیوںکہ ان میں کمزور ، ناتواں ، بیمار اور کام والے ہوتے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ اسے طویل کردوں ۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں تخفیف کردیتا ہوں کیونکہ مجھے وہ صدمہ معلوم ہے جو بچے کی ماں کو اس کے رونے سے ہوگا‘‘۔ آپؐ جب آسمان کے افق پر ابر دیکھتے تو کام چھوڑ دیتے اور اگر نماز میں ہوتے تو نماز کو مختصر پڑھ لیتے اور پھر دعا کرتے: ’اے اللہ، میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘۔
سفر میں تاریک یا بارش والی رات مؤذن کو یہ منادی کرنے کا حکم دیتے کہ تم لوگ اپنی رہایش گاہ ہی میں نماز پڑھ لو۔ آپؐ نے مرض یا خوف کو نماز جمعہ کے لیے نہ آنے کا عذر قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دن، جب بارش ہورہی تھی، مؤذن کو حکم دیا کہ اذان میں اشھد اَن محمد الرّسول اللہ کہنے کے بعدیہ کہو: صلوافی بیوتکم (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو)۔ لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ’’ایسا ہی اس ذات مقدس نے فرمایا ہے جو مجھ سے بہتر تھی(یعنی نبیؐ)۔ جمعہ فرض ہے اور مجھے یہ بات پسند نہ آئی کہ تمھیں گھروں سے بلالوںاور تم کیچڑ اور پھسلنے کی جگہوں سے گزر کر مسجد پہنچو‘‘۔
وباؤں کے بارے میں مؤرخین نے جو تفصیلات اپنی تواریخ میں درج کی ہیں، ان سے بھی بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بعض علما نے طاعون کے موضوع پر مستقل کتابیں اور رسالے تحریر کیے ہیں۔ ایک تصنیف شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے تحریر کی ہے، جس میں انھوں نے اس ’طاعون ‘کے بارے میں جو مصر میں ۷۴۹ ھ میں پھوٹا تھا اور پھر ۸۳۳ ھ میں بھی نمودار ہوا تھا، لکھا ہے کہ قاہرہ میں جب وبا پھوٹی تو ۴۰ سے کم افراد فوت ہوئے۔ پھر لوگوں نے اجتماعی دعا اور تین دن روزہ رکھنے کا اِرادہ کیا۔ چنانچہ وہ صحرا کی طرف نکلے اور اجتماعی دعا کی۔ اجتماعی دعا کرنے کے بعد جب لوگ شہر کی طرف واپس آئے تو ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا اور روزانہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ گئی۔ اضافہ کی وجہ یہ تھی کہ اجتماعی دعا میں جب لوگ جمع ہوئے تو تندرست اور بیمار لوگوں کا اختلاط ہوا، جس سے بیماری دوسرے لوگوں کو بھی لگ گئی تھی۔ مصر کی وبا کا تذکرہ ابن کثیرؒ نے بھی کیا ہے۔
اُوپر جس طاعون کا ذکر کیا گیا، وہی طاعون ہے جو یورپ میں ۱۳۴۸ ء میں بھی پھوٹا تھا اور جس نے نہ صرف پورے یورپ کو بلکہ مشرق وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ مؤرخین کے بیان کے مطابق یورپ کی نصف آبادی اسی طاعون میں ہلاک ہوئی تھی اور۰ ۱۳۵ ء یعنی دوسال تک وبا کا زور رہا ۔ یورپ میں اسے Black Death کا نام دیا گیا ۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے پھوٹنے کا تذکرہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒاور دوسرے مؤرخین نے کیا ہے۔ دمشق میں اس کی ہولناکیوں کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے تفصیل دی ہے۔ یورپ کی ’کالی وبا‘ نے مشرق وسطیٰ میں جو تباہی مچائی تھی، اس کا ذکر ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ’’اس وبا سے دمشق میں روزانہ دو ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے تھے اور قاہرہ اور مصر میں روزانہ ۲۴،۲۴ ہزار لوگ دنیا سے رخصت ہوتے تھے‘‘۔
کالی وبا کے زمانے ۱۳۴۸ء-۱۳۵۰ ء میں طاعون کے موضوع پر یورپ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں دو بہترین شاہکار مسلمان حکمانے تحریر کیے ہیں۔ اہل یونان نے طاعون کو بالکل نظر انداز کردیا تھا مگر حکماے اسلام نے چیچک ، خسرہ اور طاعون کے بارے میں اپنی نادر اختراعات اور گراں قدر خیالات سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا کارنامہ انجام دیا۔ شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا کو پہلی دفعہ سوجھا کہ بعض بیماریاں ایک بیمار سے دوسرے شخص کو لگتی ہیں۔ انھوں نے اس کے لیے ایک تجربہ کیا اور ایک شخص کو چالیس دنوں کے لیے دوسرے لوگوں سے علیحدہ (Isolation) رکھا۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بیماری قابو میں رہی۔ اسے انھوں نے ’اربعینہ ‘ کا نام دیا۔ بعد میں یہ طریقہ مسلمانوں میں عام ہوگیا۔ اٹلی کے وینس سے کچھ تاجر جب مسلمان ملکوں میں آئے، تو وہ ’اربعینہ‘ سے واقف ہوگئے۔ انھوں نے متعدی بیماری کو قابو کرنے کے لیے یہی اربعینہ (چالیس) اپنے ملک میں آزمایا اور اسے ’قرنطینہ‘ کا نام دیا، جو اربعینہ کا ترجمہ ہے ۔ شیخ الرئیس کا یہی اربعینہ آج ’قرنطینہ ‘کے نام سے پوری دنیا میں معروف اور رائج ہے۔
اوپر جن دو مسلمان حکما کے شاہکاروں کا ذکر آیا تھا، ان میں غرناطہ کے نامور حکیم اور مؤرخ لسان الدین ابن الخطیب (م: ۷۷۶ھ /۱۳۷۴ء) ہیں۔ جنھوں نے ان لوگوں کو جویہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ بیماریاں اڑکر لگتی ہیں: جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ وبائی امراض کے تعدیہ کا وجود تجربے ، مطالعہ، حواسِ خمسہ کی شہادتوںاور معتبر اطلاعات سے ثابت ہے۔ وبا کی حقیقت اس وقت واضح ہوجاتی ہے جب کوئی محقق یہ دیکھتا ہے کہ مریض کو چھونے والا خود بھی اسی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے،جب کہ دُور رہنے والا شخص اس سے محفوظ رہتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ مرض بیماروں کے کپڑوں ، برتنوں اور زیوروں، کان کے آویزوں کے استعمال اور ایک گھر کے آدمیوں سے دوسرے لوگوں کو لگ گیا۔ مزید برآں طاعون زدہ علاقے سے آئے لوگ جب غیر متاثرہ بندرگاہ پر پہنچے تو وہاں بھی یہ بیماری پھیل گئی‘‘۔
وبا کے بارے میں دوسری اہم تحریر اسپین کے ابن خائمہ (م: ۷۷۱ھ ؍۱۳۶۹ء) کی ہے۔ انھوں نے طاعون کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے، جسے میکس میر ہوف (۱۸۷۴ء-۱۹۴۵ء) نے ان تمام رسالوں سے حددرجہ فائق قرار دیا ہے، جو چودھویں اور سولھویں صدی کے درمیان یورپ میں تحریر کیے گئے۔ ابن خائمہؔ نے رسالے میں لکھا ہے کہ ’’میرے طویل تجربے کا نتیجہ ہے کہ اگر کوئی کسی طاعون زدہ مریض کے ساتھ ربط رکھتا ہے، تو اسے فوراً طاعون لاحق ہوجاتا ہے اور اس میں بھی وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو پہلے مریض میں ہیں۔ اگر پہلے مریض کے تھوک میں خون آتا ہے تو دوسرے کو بھی تھوک میں خون آئے گا۔ اگر پہلے مریض کو پھوڑے نکل آئے ہوں، تو دوسرے مریض کو بھی انھی جگہوں پر پھوڑے نکل آئیں گے۔ اگر پہلے مریض کو ناسور نکل آیا ہے، تو دوسرے مریض کو بھی ناسور ہوگا اور اسی طرح دوسرا مریض بھی اس بیماری کو دوسروں تک منتقل کرے گا‘‘۔
مضمون کے خاتمے پر ۱۱۷ سالہ پرانا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ۱۹۰۳ ء میں ڈوگرہ راج کے دوران ایک شخص راولپنڈی سے کوہالہ اور اوڑی میں تعینات اہلکاروں کو چکمہ دے کر وادیِ کشمیر میں داخل ہوا۔ یہ شخص بیماری سے متاثر تھا۔ اس کے ورود سے یہ بیماری وادیِ کشمیر میں بھی پھیل گئی۔
خلاصۂ تحریرہے کہ ’کورونا وائرس‘ کی وبا کے بارے میں آج جو احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، وہ اسلام ہی کی دین ہیں۔ طہارت و نظافت ، بدن کی صفائی ، چھینکتے وقت منہ کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھکنا، ہاتھوں کو بار بار دھونا، ملاقاتی سے کم از کم ایک میٹر دور رہنا، متاثرہ افراد سے بے تکلف ربط نہ رکھنا، دوسرے لوگوں سے سماجی دوری بنائے رکھنا ، قرنطینہ سازی ، میل جول کم کرکے گھروں میں رہنا، متاثر افراد کا دوسری جگہوں پر نہ جانا اور لوگوں سے نہ ملنا، گھروں میں توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار اور عبادات میں مشغول رہنا: یہ سب اسلام ہی کی تعلیمات ہیں، جن پر عمل کرکے پوری انسانیت اس بیماری سے نجات پاسکتی ہے۔