مارچ کے وسط سے صوبہ پنجاب میں صحت کے سرکاری اداروں کی نجکاری (پرائیویٹائزیشن) کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے آؤٹ ڈور کا بائیکاٹ کیا، ضلعی مقامات پر احتجاجی ریلیاں نکالیں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کیے ۔ ۲۰ مارچ کو ڈاکٹروں ، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف نے مل کر ’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ (GHA) کے قیام کا اعلان کیا اور لاہور میں گنگا رام ہسپتال سے لے کر محکمہ صحت کے دفاتر تک مارچ کیا ۔۷؍ اپریل کے بعد ’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ نے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا اور دھرنے کا آغاز کیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’’نج کاری کے عمل سے عامۃ الناس کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر آئیں گی‘‘،جب کہ گرینڈ الائنس کا موقف ہے کہ ’’نج کاری سے غریب اور کم وسیلہ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ حکومت کے حالیہ اقدامات سے پرائیویٹائز ہونے والے بنیادی مراکز صحت (BHUs) اور دیہی مراکز صحت (RHCs) کے روزانہ کی بنیاد پر صحت کی سہولت حاصل کرنے والے ایک لاکھ ۶۵ ہزار مریض اپنے صحت کے حق سے محروم ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر، نرسز اور دیگر طبّی عملہ کا روزگار معرضِ خطر میں پڑ جائے گا اور ہزاروں خاندان معاشی عدم استحکام کا شکار ہوں گے‘‘۔
’گرینڈ ہیلتھ الائنس‘ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کے دوران بھی احتجاجی مظاہرے کیے اور ۱۸؍ اپریل کو وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ کیا ۔ ۲۸؍اپریل کو ایک بڑا جلوس نکالا، جو وزیراعلیٰ ہائوس تک پہنچا۔ اسی رات پولیس نےاحتجاجی کیمپ پر کریک ڈاون کیا۔ لاٹھی چارج ہوا اور کیمپ میں سوئے ہوئے افراد پر تشدد کیا ، اور اس دوران احتجاج میں شریک خواتین تشدد کا شکار ہوئیں ۔ سوشل میڈیا پر پولیس تشدد کی تصاویر اور تفصیلات عوام تک پہنچیں ۔ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ڈاکٹروں اور دیگر مظاہرین پر مقدمات درج کیے گئے۔ بہت سے طبّی ملازمین کو ملازمتوں سے معطل کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہسپتالوں میں بائیکاٹ کا دائرہ مزید وسیع ہوا اور غریب عوام کو ہسپتالوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس دوران ۶؍۷ مئی کو پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اعلان کیا کہ وہ ’’ملک کے دفاعی تقاضوں کے پیش نظر اپنا احتجاج ملتوی کر رہے ہیں‘‘ اور ہسپتالوں میں تمام ملازمین بائیکات ختم کر کے اپنی خدمات پر واپس آگئے ۔ حکومتی عہدے داروں نے اس جذبے کو ’احتجاج ختم ہونے‘ کے دعوے سے جوڑ کر زیادتی کی۔ دوسری طرف طبّی ملازمین کے احتجاجی جذبات کا اظہار سوشل میڈیا اور اداروں میں جاری ہے ۔
ان حالات میں طبّی اداروں کی نجکاری کا پس منظر، اس کے مقاصد اور صحت عامہ پر اس کے اثرات کا مطالعہ اور تجزیہ بہت اہم اور ضروری ہے :
طبّی سہولتوں کی نج کاری کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ صحت کی سہولتوں کو حکومتی و ریاستی انتظام سے نکال کر پر ائیویٹ افراد یا کمپنیوں کو منتقل کر دیا جائے ۔ ان کمپنیوں میں این جی اوز اور منافع کے حصول کے لیے کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ بہت سے ممالک میں جہاں طبّی سہولتوں کی فراہمی حکومتی انتظام میں شامل تھی، ۱۹۸۰ء کے عشرے سے نج کاری کی طرف پیش رفت کا عمل جاری ہے۔ یہ عمل اس اُمید پر شروع کیا گیا تھاکہ منڈی کی مسابقت کے عمل اور نجی سیکٹر کے معاشی مفاد کے زیراثر طبّی سہولتوں کی فراہمی کا معیار بہتر ہوگا اور اخراجات میں کمی آئےگی، مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔
پنجاب میں طبّی سہولتوں کی نج کاری کا عمل ادارہ جاتی سطح پر تقریباً ایک عشرہ قبل پنجاب ’ہیلتھ مینجمنٹ فیسیلٹیز کمپنی‘ (PHMFC) کے قیام سے عمل میں آیا ۔ یہ کمپنی محکمہ صحت کے زیر سرپرستی ۱۹۸۴ء کے کمپنیز آرڈیننس کے سیکشن ۴۲ کے تحت قائم کی گئی۔ طبّی اداروں کی تعمیر، قیام، بہتری اور جدیدکاری اس کے مقاصد میں شامل تھی۔ بعد کے برسوں میں تقریباً ۷۰۰ بنیادی صحت یونٹ اور دیہی طبّی مراکز اس کمپنی کے انتظام میں دیے گئے۔
ایک نیم خود مختار ادارے کی طرح یہ کمپنی بنیادی صحت مراکز (BHUs ) کا انتظام چلاتی ہے۔ اسے ملاز مین کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کا اختیار ہے اور آلات اور ادویات بھی خود خریدتی ہے۔ اس کمپنی کی شہرت اور صحت مراکز کے انتظام کے حوالے سے اس کی کارکردگی پر مسلسل سوال اٹھتے رہتے ہیں ، ملازمین کی شکایات اور مہینوں ان کی تنخواہوں میں تاخیر کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔
اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو وسعت دینے سے پہلے اس تجربے کا تفصیلی اور آزادانہ تجزیہ اسمبلی کے ایوان میں اور میڈیا پہ کیا جاتا اور عوام کے علم میں حقائق کو لایا جاتا۔ تعجب ہے کہ اس ادارے کی ویب سایٹ انٹرنیٹ سے غائب ہے اور میڈیا اور عوام اس ادارے کی کارکردگی اور تفصیل جاننے سے محروم ہیں ۔ کمپنی کے سابقہ عہدےداروں نے نجی گفتگو میں اعتراف کیا ہے کمپنی اپنے سپرد کی گئی سہولتوں میں قابلِ ذکر بہتری لانے میں ناکام رہی ہے، اور عالمی سطح پر طے شدہ صحت کے اشاریوں جیسے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی، حاملہ ماؤںکی شرح اموات میں کمی اور دیگر حوالوں سے کوئی بہتری نہیں لاسکی ہے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت کی حالیہ نج کاری کی جو پالیسی دستاویز جاری کی گئی ہے، اس میں ان مراکز صحت کی تزئین نو کرنے کے بعد ’مریم نواز ہیلتھ کلینک‘ کے نام سے انھیں موسوم کیا گیا ہے ۔ کوئی بھی کوالیفائڈ ڈاکٹر کچھ تجربے کے ساتھ ان مراکز کا کنٹریکٹ حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ کلینک چلانے کے لیے ڈسپنسر، لیڈی ہیلتھ وزیٹر ، گارڈ اور صفائی کا عملہ بھرتی کرے گا ۔ ماہانہ بنیادوں پر دیکھے گئے مریضوں کی تعداد اور مہیا کی گئی خدمات کی بنیاد پر حکومت اسے معاوضہ دے گی ، مثلاً ماہانہ ۱۱۰۰ ؍عام مریض، ۳۰ ڈیلیوری کیسز، ۲۰۰ حفاظتی ٹیکے اور کچھ دیگر خدمات پر تقریباً ۹لاکھ روپے ملیں گے، جس میں عملے کی تنخواہیں، ادویہ، طبّی آلات وغیرہ کے علاوہ معمول کی دیکھ بھال کے اخراجات شامل ہیں۔
مزید برآں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ ، فیصل آباد اور ملتان کے بڑے ہسپتال بھی نج کاری کے عمل میں شامل ہو جائیں گے ۔ قابلِ ذکر ہسپتال جیسے لاہور کا جناح ہسپتال اور راولپنڈی کا ہولی فیملی ہسپتال نجکاری کے اشتہارات میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پنجاب کے سب سے قدیم لاہور کے میوہسپتال کا شعبہ پتھالوجی بھی اس آؤٹ سور سنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ ٹھیکیدار ہسپتال کا عملہ خود بھرتی کریں گے۔
مزید برآں محکمہ صحت کی ۳۰ ہزار خالی آسامیاں پُر کرنے کے بجائے سرے سے ختم کردی گئی ہیں۔ہسپتالوں کی سہولیات ختم ہونے کے بعد ضرورت مند شہریوں کو صحت کی سہولتوں کے لیے پورا مطلوب معاوضہ دینا ہو گا، اور حکومت صحت انشورنس کا نظام متعارف کرائے گی ۔
تاہم، اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ’ مثبت رپورٹیں‘ خدمات کی تیزی کے ساتھ فراہمی اور ’منافع بخش‘ ہونے کی بنیاد پر ہیں، جب کہ منفی رپورٹیں خدمات کی غیر مساوی فراہمی ، معیار کی پستی اور خدمات کے حصول میں مشکلات بیان کرتی ہیں ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی ریسرچ کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہے کہ زیر مطالعہ عمل کے کس پہلو کو اہمیت دیتی ہیں ۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے مؤقر ترین طبّی جریدے دی لانسٹ (The Lancet) مارچ ۲۰۲۴ء کے شمارے میں نج کاری کے حوالے سے ۱۳ تحقیقی رپورٹوں پر جامع تجزیہ شائع ہوا ہے۔ تحقیق کار نے نتائج اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس ریسرچ کے نتیجے میں جو نتائج تسلسل کے ساتھ سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ نج کاری کے نتیجے میں کبھی بھی طبّی خدمات کا معیار بہتر نہیں ہوا۔ آؤٹ سورسنگ اخراجات کو کم کر سکتی ہے، لیکن وہ بھی معیار کی پستی کی قیمت پر‘‘۔
مجموعی طور پر یہ ریسرچ واضح طور پر نج کاری کو چیلنج کرنے کی دلیل فراہم کرتی ہے اور یہ کہ نجکاری کے عمل کو آگے بڑھا نے کی بنیاد کمزور ہے ۔ نجکاری کے بعد کم وسیلہ اور غریب افراد کے لیے صحت کی سہولیات کا حصول مشکل ہوجاتا ہے ۔ ادارے زیادہ منافع بخش خدمات کو بڑھاتے ہیں اور جن مریضوں کے علاج سے ہسپتال کو کم منافع ہوتا ہے، ان کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف سے پہلے مرحلے پر آئوٹ سورس کیے گئے ۱۵۰ مراکز صحت کی کوئی سرکاری رپورٹ یا تجزیاتی مطالعہ سامنے نہیں آیا،لیکن واقفانِ حال کے حوالے سے ا ن مراکز کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ (EMR) میں جعلی اندراجات، کم تر معیار والے غیرکوالیفائیڈ سٹاف کی بھرتیاں ،حکومت کے طے کردہ معیار سے بہت کم تنخواہ ملنا اور دیگر مشاہدات شامل ہیں ۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے کنٹریکٹرز کو کم اور تاخیر سے معاوضوں کی ادائیگی کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے مرحلے کے ۱۵۰ طبّی مراکز کی کار کردگی اورہیلتھ کیئر پر اس کے اثرات کے جائزے کے بعد مزید پیش رفت کی جاتی لیکن بہت جلد بازی میں تقریباً ایک ہزار مزید طبّی مراکز اس پروگرام کے تحت ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں ۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ درج ذیل تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے اور اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات اُٹھائے:
۱- کسی بھی جمہوری معاشرے میں افراد کو رائے دینے اور احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ ڈاکٹر، نرسز، پیرا میڈیکل اور دیگر متعلقہ عملہ اگر سراپا احتجاج ہے تو ان کا موقف سنا جائے، ان کی شکایات کا نوٹس لیا جائے۔
۲- احتجاجی کیمپ اور طبّی عملہ کی ریلی پر پولیس تشدد کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داران کی جواب طلبی اور قرار واقعی سزا دی جائے ۔
۳- ’پنجاب ہیلتھ فیسیلٹیز مینجمنٹ کمپنی‘ (PHFMC) کی دس سال سے زائد عرصہ کی کارکردگی کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے اور اس کی رپورٹ عام کی جائے۔
۴- دنیا بھر میں صحت کی سہولیات کی نج کاری سے دو بڑے نتائج سامنے آئے ہیں: صحت کی خدمات کے معیار کی تنزلی اور کم وسیلہ لوگوں کی ان خدمات تک نارسائی۔ ان معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور حقائق کی بنیاد پر حکمت عملی کا تعین کیا جائے۔
۵- پنجاب ہیلتھ اصلاحات کے تحت پہلے مرحلے پر آؤٹ سورس کیے گئے ۱۵۰ طبّی مراکز کی کارکردگی ، مشکلات اور دیگر معلومات کا تجزیہ کر کے عوام کے سامنے رکھا جائے۔
۶- مزید نج کاری / آؤٹ سورسنگ سے پہلے ڈاکٹروں،نرسوں اور معاشرے کے نمائندہ طبقوں سے آراء لی جائیں اور انھیں شریکِ مشورہ کیا جائے۔
۷- سرکاری طبّی ادارے اگر معیاری کارکردگی نہیں دکھا رہے تو اس کے عوامل تلاش کر کے اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔
’دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے مطابق عوام کو معیاری صحت کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اداروں کی نج کاری کے ذریعے اس حکومتی ذمہ داری سے فرار اور پہلو تہی ملک کے کم وسیلہ اور غریب عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔نیز ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبّی عملہ روزگار کے مسائل سے دوچار ہوگا اور ہزاروں خاندان معاشی عدم استحکام سے دوچار ہوں گے۔