مارچ ۱۹۹۴ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ’اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن‘ (جو اب ’کونسل‘ کہلاتا ہے) میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھار ت پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کرائی جائیں۔
بھارت کا قریبی دوست اور ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک اشتراکی روس (USSR: سوویت یونین) تمام انسانی ضابطوں کو روندتا ہوا، بھارت کے دفاع میں ہرحد کو پھلانگتا تھا اور جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا۔ لیکن جب دسمبر۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹ گیا تو روس کے نئے صدر بورس یلسن مغرب سے مدد کے طلب گار تھے۔ دراصل بھارتی قیادت کو خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح اب کی بار سلامتی کونسل میں روس اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ (م:۲۰۰۴ء)نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی (م: ۲۰۱۷ء)کے نام ایک پیغام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ تفصیل تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئی کہ راؤ نے ایران کو کیا درس دیا؟ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اس قرارداد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو خاصا سہارا دیا۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کیے، جن میں: ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملے کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظربندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔
لیکن ۲۰۱۴ءکے بعد سے ریڈ کراس کے عملے نے تو کشمیری قیدیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل یا فیصلے کے سلسلے میں آج تک کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی تھی یا روک رہی ہے، تو اسے آن ریکارڈ لانے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ ریڈکراس کے نمایندوں کے جیلوں میں جانے سے بے نوا قیدیوں کو راحت ملتی تھی کہ دُنیا میں کوئی تو ہے جو اُن کے بارے میں فکرمند ہوکر اُن کے دُکھ درد کو دوسروں کے سامنے پیش کرے گا۔ خاص طور پر جو افراد دُور دراز کی جیلوں میں قید کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کے لیے پہنچنا مشکل ہوتا تھا،یہ ریڈ کراس کا عملہ ہی خیرخبر پہنچانے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پُرس کی جاتی؟
بتایا جاتا ہے کہ نرسمہماراؤ کی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل (جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصے تک ترجمان بھی رہے) نے ہی ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور وزیراعظم راؤ کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان نے بتایا تھا:’’ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لا اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا‘‘۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔
جب بھی کسی عالمی فورم پر بھارت میں انسانی حقوق کی بُری صورتِ حال کا معاملہ اٹھتا ہے، تو مندوبین کے سامنے ایک ہی دفاعی موقف پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’انڈیا کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کے لیے ایک مضبوط نظامِ کار (میکانز م) موجود ہے‘‘۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اوّل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ممبر ہے، کا کہنا ہے:’’انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیرفعال ہوچکا ہے‘‘۔ دراصل بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔
’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ کاوجود کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی شکایت یا کیس کی شنوائی کی ہو۔ تاہم، دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ مگر گجرات کے شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزموں کو عدالت نے سزائیں دیں، اور اس پیش قدمی کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔
تاہم، بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی سخت زوال کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانب داری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس کے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔
’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر‘ (SAHRDC)کے سربراہ روی نیّر کے مطابق: ’’نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو (IB) اور خارجی خفیہ ادارہ ’را‘ (RAW)سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس وقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے‘‘۔ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران بھلا کس حد تک انصاف کر تے ہوں گے؟
۲۰۱۹ء میں، انڈین حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہو،جب کہ دیگر چارممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔
اس ترمیم میں یہ کہا گیا کہ ’’کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا‘‘۔ دوسری طرف کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکار کا تقرر واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کا تقرر انٹیلی جنس بیورو میں ان کی مدت کار کے دوران مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا خانہ زاد الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قدغن لگائی گئی۔
روی نیّر کا کہنا ہے کہ ’’اس پورے کمیشن کاڈھانچا ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارے کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ ادارہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اس کی کارگزاری کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے بھارت کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
۱۹۹۴ءسے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب مظلوم انسانوں کا کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاست دانوں کی دھوکے بازیوں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو نبھا نہ سکے۔
ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک خاص لائن لی جا رہی ہے اور اس کا ایک بہت واضح ثبوت بھارتی حکومت کی جانب سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرنا ہے، ہائی کمشنر وہاں نہیں بھجوانا ہے اور تجارت نہیں کرنی ہے۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، انڈین کارندے اجیت دوول کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ہی ۲۵ فروری ۲۰۲۱ء کو فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک فائر بندی معاہدہ سامنے آیا ۔ میری نظر میں فائر بندی کا یہ معاہدہ اس وقت جن حالات میں کیا گیا، اس کے لیے وہ ہرگز مناسب وقت نہ تھا۔یہ تجویز ہم نے ۲۰۱۵ء میں پیش کی تھی اور اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد اجیت دوول سے میری ملاقات بھی ہوئی تھی اور اُس وقت انھوں نے یہ تجویز رد کردی تھی۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ۲۰۱۵ء میں جس تجویز کو انھوں نے رَد کر دیا تھا ۲۰۲۱ء میں اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ۲۰۲۱ء میں بھارت، لداخ میں چین کے ساتھ بُری طرح اُلجھ چکا تھا اور مسلسل ہزیمت اُٹھا رہا تھا، اور سخت دبائو میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح پاکستان سے متصل دوسرے محاذ پر بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو۔ امرواقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری جانب سے بھی چین کو غلط تاثر بھیجا گیا۔ یوں بھارت، ہمارے تعلقات میں غلط فہمی پیدا کرنے اور اپنے اُوپر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہا۔ معلوم نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے اس سے فائدہ ملک کو کیسے پہنچایا؟
اب جو باتیں ہو رہی ہیں کہ کشمیر کو ۲۰ سال کے لیے فریز کر دینا چاہیے وغیرہ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کشمیر ڈپلومیسی کمزور ہوئی بلکہ دنیا بھر میں ہماری کریڈ بیلٹی بھی متاثر ہوئی۔ اب جب ہم دنیا میں کشمیر پر بات کرتے ہیں تو ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ عمل نواز شریف کے دور میں شروع ہو چکا تھا، جب انھوں نے نئی دہلی میں حُریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے دور میں ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۵ء کو ’اوفا معاہدہ‘ ہوا تھا، جس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی نواز صاحب کی یہ خواہش تھی کہ دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے، لیکن اُس وقت کی ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ہمیں یک طرفہ کوئی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ’برف پگھلانے‘ والی بے معنی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر مسئلۂ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر طے شدہ اُمور کے مطابق حل کرنے کی بات چیت کرنی چاہیے۔
کشمیر کا تنازع بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہمیں بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے ، خواہ وہ فرنٹ چینل پر ہو یا بیک ڈور چینل پر، اس میں صرف اور صرف کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے ۔ اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو مذاکرات کا آغاز کشمیر سے ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کی پالیسی کے تحت کشمیر سے تجارت اور سیاحت کے تعلق کو بحال کیا جائے، حُریت لیڈر شپ کو رہا کریں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو بھارت کو لینے چاہییں یا ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر لینے چاہییں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ شرکت کے لیے ترجیحاً گئے، جب کہ سمر قند میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ حالانکہ افغانستان ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو اس سے کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ اگر اس اجلاس میں شرکت بھی کرنا تھی تو ہمارے لیے اس موقعے پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ بہتر تھا کہ ہم اپنی شرکت کو ڈائون گریڈ کر دیتے اور منسٹر آف سٹیٹ کو بھجوادیتے۔ اُمید ہے کہ جولائی میں جو کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، اس میں ہمارے وزیر اعظم شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ کو بھجوایا جائے گا۔
یوں محسوس ہوتاہے کہ ہماری کشمیر پالیسی ابہام سے دوچار ہے یا پھر واضح طور پر ہم امریکا کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اس اجلاس میں شرکت بھی امریکی دبائو کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔ حکومت ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پیش کش کی جائے یا نہیں ؟ لیکن وزیر خارجہ کی خواہش تھی جس کا انھوں نے گذشتہ برس جون میں اپنی گفتگو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارت سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں اور ہمیں نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔ یقینا امریکا کا دبائو ہے کہ ہم بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم چین سے بھی کچھ فاصلہ پیدا کریں ۔ ایران او ر سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے سے امریکا اور اسرائیل کو تشویش لاحق ہے۔ فیفا عالمی فٹ بال کپ میں قطر حکومت نے آٹھ بھارتی جاسوس پکڑے ہیں جو کہ ریٹائرڈ نیوی افسر تھے اور موساد کے لیے کام کر رہے تھے ۔ قطر میں اٹلی کے تعاون سے سب میرین بن رہی ہیں۔ ان چیزوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنا مستقبل بینی پر مبنی وژن واضح رکھنا چاہیے۔
۱۴ جنوری ۲۰۲۲ء کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تیار کردہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پیش کی گئی تھی، جس میں بہت سے بنیادی تضادات تھے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ یہ امریکی اثرات کے تحت بنائی گئی ہے ۔ یہ ان لوگوں نے بنائی تھی جو خاص طور اس ایجنڈے کے لیے لائے گئے تھے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں شامل نہیں ہوں گے یا ہم نیوٹرل ہیں، تو یہ باتیں سفارت کاری کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ آپ کسی کیمپ میں شامل نہ ہوں لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی بھارت سے اس قسم کی لفاظی سنی ہے جس کا ہم اظہار کرتے رہتے ہیں؟
چین سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ چین کو ہم سے کچھ شکایات بھی ہیں ، مثلاً ایک طرف سی پیک اور دوسری جانب ہمارا امریکا کی طرف جھکائو کچھ زیادہ لگ رہا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تقریباًپانچ مرتبہ امریکا سے ہو آئے ہیں اور اس دوران صرف ایک مرتبہ ان کی انٹنی بیکر سے ملاقات ہوسکی، جب کہ باقی اسفار میں وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے چھوٹے افسروں سے مل کر آگئے۔ اس سے ہماری ریاست کی مزید تحقیر ہوئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی صورتِ حال ہے کہ آپ واشنگٹن میں موجود ہیں، مگر آپ کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ بھی نہیں ملتی اور آپ ایک کونسلر کی سطح کے افسر سے مل کر آ جاتے ہیں۔
پھر بیرونی دُنیا میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ’ہم کشمیر کو بھلا چکے ہیں اور کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے ، اگرچہ اس کااظہار نہیں کیا جاتا‘۔ تاہم، میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ہم کشمیر پالیسی کو بدل چکے ہیں، البتہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طریقے سے کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ باقی بہت سے اُمور پر معاملات کا عمل شروع ہو جائے ۔ پچھلے ۷۵سال سے کشمیر پر ہمارے قومی موقف کے حوالے سے کسی بھی حکومت یا کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہے کہ قومی کشمیر پالیسی کو تبدیل کردے۔
البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم نے عملی سطح پر کشمیر کو کئی حوالوں سے بھلا دیا ہے ۔ کشمیر پالیسی میں پسپائی نظر آتی ہے اور تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اس لیے جب ہم کشمیر پر بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔
پی ڈی ایم حکومت کے تحت کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئرمین کون ہے؟ اس کا نام شاید لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جس کا کوئی سٹیٹس ہی نہیں ہے۔ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصراللہ خاں تھے، جو ایک نامور سیاست دان تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس مسئلے کو ڈائون گریڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں وکشمیر پر اپنے قومی موقف اور نقطۂ نظر کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے اس نیم دلانہ رویے سے خود اہلِ کشمیر کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لیے منجمد کرکے چین، افغانستان، وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان پاکستان کو ایک کوریڈور بنا دیا جائے۔ اس طرح سے ہم بہت سے معاشی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقائق کی دُنیا میں یہ ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بے اعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تو بذریعہ سڑک بطور راہداری، انسانی بنیادوں پر امداد بھی نہیں بھجواسکتے کہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے کام وہاں ہو سکتے ہیں جب دو طرفہ تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور باہمی اعتماد پایا جاتا ہو۔
کسی ملک کی خارجہ پالیسی، اس کے نظریاتی، جغرافیائی، اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی تقاضوں کی مجسم صورت ہوتی ہے، جو اس کے قومی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اپنے تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) اہداف کا تحفظ اور دفاع کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر، اس بدلتی ہوئی گلوبلائزڈ دنیا میں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسٹرے ٹیجک خودمختاری کے تصور کو اپنانے کی پُرجوش خواہش ہے۔ یہ خواہش اور اُمنگ کسی ریاست کی صلاحیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے اور اپنی ترجیحی خارجہ پالیسی کو اپنانے کی دلیل ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس پاکستان دیگر غیر ملکی ریاستوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
نظریاتی طور پر، خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا تعین اس ملک کے اہل حل و عقد کے انتخاب کا جوہر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا انتخاب بین الاقوامی نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی ان اہم بنیادوں (پیرامیٹرز)پر مرکوز ہے: نظریہ، سلامتی، ڈیٹرنس، امن، جغرافیائی سیاست، اقتصادیات، تجارت اور موسمیاتی سفارت کاری۔ تاہم، قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔
سات عشروں سے، کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے۔ ہمارے سویلین اور فوجی اداروں نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی حمایت کے غیر متزلزل عزم کو قومی میثاق (چارٹر) کا درجہ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون رہے گا۔ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح، موجودہ حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک کشمیری عوام کی بلاامتیاز اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔
بلاشبہہ خارجہ پالیسی اور سلامتی کا ستون دوسرے ستونوں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے تاکہ ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطۂ نظر کو آگے بڑھایا جاسکے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی (NSP) میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’روایتی اور غیر روایتی خطرات اور مواقع مل کر مجموعی قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں‘‘۔ اس ضمن میں باضابطہ طور پر معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کا مرکز قرار دینا ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ اس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جس کے حصول کے لیے وہ طویل عرصے سے کوشاں ہے۔
پاکستان عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا پرجوش حامی نظر آتا ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں کی مخالفت کے بجائے ان کو زیادہ سے زیادہ حمایتی بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ چین کے ساتھ ہمارے تزویراتی تعلقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے باوجود، پاکستان چین، امریکا اور روس کے ساتھ دوطرفہ دوستی کے قابل عمل اور پائیدار رشتوں کو جوڑنے کی عملی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’پاکستان روس تیل معاہدے‘ کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا نہ ہونا اچھی علامت ہے۔ گلوبلائزڈ دنیا کے اس دور میں، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے تصور سے جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد اسٹرے ٹیجک خود مختاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی کلب (EUC) میں GSP+ جوں کی توں صورتِ حال کو بحال کرنا پالیسی کی ترجیحی لائن ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے بیش تر رکن ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے وسیع ثقافتی اور دفاعی تعلقات ہیں، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔
۲۰۲۱ء میں، چین اور پاکستان نے اپنے دوطرفہ تعلقات کے ۷۰سال مکمل کر لیے۔ ایک وژن اور آئیڈیلزم ان تعلقات میں گہرے رشتے کی رہنمائی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف باہمی مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اس شراکت داری کو مزید وسعت دینے کی بھرپور خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے،جب کہ چین پاکستان کو قابلِ اعتماد بھائی کہتا ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ درحقیقت علاقائی رابطے کا فریم ورک ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اسٹرے ٹیجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے، پاکستان نے کم از کم ڈیٹرنس کی پالیسی اپنائے رکھی جسے بعدازاں ۲۰۰۱ء میں انڈیا کے ’کولڈ سٹارٹ نظریے‘ کی وجہ سے مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی جوہری حکمت عملی، جنوبی ایشیائی خطے میں تزویراتی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہے۔ اگرچہ نسل پرست نریندرا مودی کی خارجہ پالیسی خطے میں اسٹرے ٹیجک امن کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے، لیکن پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں مصروف ہے، لیکن یہ ادارے ایک بے رُخی کا رویہ اپناتے نظر آرہے ہیں۔
’سندھ طاس معاہدے‘ (IWT )میں طے شدہ شرائط کو برقرار رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نمایاں ترین ضرورت ہے۔ لیکن ’سندھ طاس معاہدے‘ کے مقابلے میں تسلط پسندانہ اور غیر قانونی بھارتی پالیسی جس میں بھارت کی بدتہذیبی اور انسانیت دشمنی بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے متنازعہ تعلقات کا سبب بنی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پُرامن تعلقات برقرار رکھنا پاکستان کی حکومت کی ترجیح رہی ہے اور پاکستان، طالبان کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
ماہ مئی میں افغانستان کے حوالے سےدو اہم اقدامات ہوئے، جن کے ہمارے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے ۔یکم اور ۲ مئی ۲۰۲۳ ء کو دوحہ، قطر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کے بارے میں ایک عالمی کا نفرنس منعقد ہوئی، اور ۵مئی تا ۸ مئی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا باقاعدہ دورہ ہوا۔ اسی دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئےجس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ سہ فریقی مذاکرات کا یہ سلسلہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامی افغانستان کا دوبارہ احیاء اس وقت ہوا جب تحریک طالبان افغانستان کے رضا کار کابل میں داخل ہو ئے اورڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔ ۲۹ فروری۲۰۲۰ ء کو ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکا اور تحریک طالبان کے نمایندوں کے درمیان دوحہ میں ہی ایک تاریخی معاہدۂ امن طے پایا تھا، جس کو اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ایک سال کے عرصے میں افغانستان میں قائم کردہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، تمام غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی اور طالبان پھر سے برسرِاقتدار آجائیں گے۔
گذشتہ ۲۰ ماہ کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی ہے۔ اپنی فوج،پولیس اور تمام صوبوں اور اضلاع میں حکومتی ڈھانچا قائم ہو چکا ہے۔ ملک میں امن و امان ہے، شاہراہیں کھلی ہو ئی ہیں۔دن اور رات کے کسی بھی وقت، آپ کسی بھی سڑک پر بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں ۔باہر سڑک پر آپ کو کوئی بھی اسلحہ بردار نظر نہیں آئے گا۔داخلی امن و امان کے ساتھ اقتصادی بحالی پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان،ایران،ازبکستان وغیرہ سے آنے والے ٹرک کسی بھی شہر کی طرف بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ تمام پھاٹکوں، سڑکوں کی بندشوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سرحدی راہداریوں پر محصول چونگی کی ادائیگی کے بعد اسی پرچی پر آپ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اور پھر پورے راستے میں کوئی آپ سے زور زبردستی راہداری کے نام پر پیسے یا رشوت وصول نہیں کرسکتا۔حکومتی ادارے اپنی فیس ،ٹیکس وغیرہ کم شرح پر لازماًوصول کرتے ہیں، مثلاً بجلی کا بل، پارکنگ فیس وغیرہ۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی ادائیگی نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ سے جہاں لوگوں کا حکومت پر اعتماد پیدا ہوا ہے، وہاں حکومتی وسائل اور آمدن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہرمعاملے میں حکومت بچت اور وسائل کے درست استعمال پر کاربند ہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’افغانستان نے خود انحصاری کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے‘‘۔
افغان حکومت نے اپنے تمام ائرپورٹوں کو مقامی اوربین الاقوامی پروازوں کے لیے فعال رکھا ہے۔ بنکاری کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے اور افغان کرنسی مستحکم ہے۔ ملک سے باہر زرمبادلہ کی ترسیل پر پابندی ہے۔ ہر ہفتہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مخصوص رقم امریکی ڈالروں کی صورت میں افغانستان کو دی جاتی ہے، جسے افغان کرنسی میں تبدیل کرکے شعبۂ تعلیم و صحت و دیگر مفاد عامہ کے اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین کو اب ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔میونسپل سروسز عوام کو میسر ہیں۔ اور چھ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایاجاچکا ہے۔داعش کے سہولت کاروں کا تعاقب جاری ہے۔سابقہ شمالی اتحاد کے مسلح گروہوں کو بھی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود امارت اسلامی افغانستان کو کئی داخلی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کا حل ضروری ہے۔
داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اب تک عبوری حکومت کام کر رہی ہے، جسے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ دستور،آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ مقننہ کا کوئی وجود نہیں ۔تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ امیر ہبت اللہ کی قیادت میں معاملات دیکھ رہی ہےاور پالیسی سازی بھی کرتی ہے،لیکن اس کو سرکاری اور رسمی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے کام پر پابندی اور طالبات پرپابندی کو سخت گیر فیصلے قرار دیا جا رہا ہے، جس کو ملکی اور عالمی دونوں سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تادمِ تحریر امارت اسلامی ان فیصلوں پر کار بند ہے۔ عالمی سطح پر بھی امارت اسلامی افغانستان کو مزاحمت کا سامنا ہے، اور ابھی تک کسی بھی ملک بشمول پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس پر کئی نوعیت کی پابندیاں اور سفارتی دباؤ ہے۔
اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر افغانستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے اور انسانی ہمدردی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے باوجود افغانستان کو اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم میں اب تک حق نمایندگی سے محروم رکھا ہے۔یکم مئی ۲۰۲۳ء کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں بھی امارت اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، جو ایک امتیازی نوعیت کا اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ بظاہر طالبات کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندیوں کے تناظر میں ہے، لیکن ان پابندیوں سے پہلے بھی اقوام متحدہ نے افغانستان کو نمایندگی سے محروم رکھا تھا۔
دوحہ کانفرنس میں اگرچہ امریکا، روس، چین ،جرمنی اور پاکستان کےنمایندے موجود تھے۔ لیکن افغانستان کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس ایک بے معنی مشق تک محدود رہی، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔
کانفرنس سے واپسی پر چینی وزیر خارجہ کن گینگ اسلام آباد پہنچے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان کےوزرائے خارجہ سے سے مل کر سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیا۔افغان وزیرخارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل تھی اور انھوں نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی، جس کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پاکستانی سفیر نے درخواست دی تھی۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے، ان کی سفارتی سطح کی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ ان کے تمام بیانات ،انٹرویو اور تقاریرکسی بھی کہنہ مشق سیاستدان اور اُمور خارجہ پر دسترس رکھنے والے سفارت کار سے کم نہیں ۔ان کے بیانات میں جھول اور ابہام شامل نہیں ہوتا۔وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے بیانات مثبت اور واضح رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات کی نوید سنائی ہے۔ اس سے پہلے افغان زعما،پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر کابل میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے خلاف بیان داغنا ضروری سمجھتے تھے، جس پر پاکستانی قوم کو افسوس اور صدمہ پہنچتا تھا۔
اس پانچ روزہ دورے میں جہاں کئی اہم سفارتی ،تجارتی اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر مفید تبادلۂ خیال ہوا، وہاں مجموعی طور پر باہمی خیرسگالی کے جذبات پائے گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کا رویہ بھی مثبت رہا۔یاد رہے کہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کا مجموعی طور پر اور بلاول زرداری کا خاص طور پر افغانستان کے بارے میں موقف مثبت نہیں تھا۔تحریک طالبان کے خلاف ان کے پے دَر پے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ایسے بیانات امریکی پالیسی کے زیراثر نظر آتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی افغان امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے لگتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے وزیر کو اچھی بریفنگ دی تھی اور چینی وزیر خارجہ کی موجودگی نے بھی اس رویے کی تبدیلی میں کردار ادا کیا، جو اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کی بحالی اور تعمیر نو کے کام میں پورا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں چین کو مشرقی ترکستان کے صوبوں میں جاری مسلم مزاحمتی تحریک (ETIM) سے بھی خطرات لاحق ہیں جس کے ازالے کے لیے وہ کوشاں ہے۔
گذشتہ سال بھی اس طرح کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی تھی، جس میں تینوں ممالک کے باہمی تجارتی امور،امن و سلامتی، دہشت گردی کے اسباب اور منشیات کا قلع قمع جیسے اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔امیر خان متقی کے ہمراہ وزیر تجارت نورالدین عزیزی بھی شریک تھے، جن کاتعلق پنج شیر سے ہے۔ مُلّا امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں پاکستانی سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات شامل ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں میں مسلسل سیکورٹی فورسز،افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا جا نی و مالی نقصان ہو رہا ہے، جس پر پوری قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہےاور امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوسکیں،البتہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ امارت اسلامی نے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا اور آیندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی قومی و صوبائی سیاست دانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، جن میں امیرجماعت ا سلامی پاکستان سراج الحق ،جمعیت العلماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام کی ضرورت پر بات ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے اسلام آباد کے تھنک ٹینک ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی ایک بڑی مجلس سے بھی خطاب کیا، جس میں سفارت کار اور اہم شخصیات شریک تھیں۔
بدقسمتی سے ان دو اہم اجتماعات میں جو مسئلہ زیر غور نہ آسکا وہ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنا اور ان کو اقوام عالم کی صف میں اپنا مقام دینا ہے، جس سے مسلسل محرومی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ملت افغان کے ساتھ زیادتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دوحہ کانفرنس کے حوالے سے شروع میں میڈیا میں یہ بات آئی کہ شاید اس موقعے پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو، تو سوشل میڈیا پر اس تجویز کی فوراً مخالفت شروع ہو گئی اور خواتین کے حوالے سے امارت اسلامی کی پالیسی کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے‘‘، حالانکہ افغان امور سےوابستہ اکثر لوگ اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہیں۔
ــــــــــــــــــــــ اسی طرح ۱۷مئی کو افغانستان میں اُس وقت ایک اہم تبدیلی رُونما ہو ئی، جب سن رسیدہ افغان وزیر اعظم مولانا محمدحسن اخوند کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے فارغ کر کے نسبتاً جواں سال نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔یہ تقرر تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہبت اللہ کے حکم سے ہوا۔مولوی عبدالکبیر صاحب، طالبان کے پہلے دور میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجداب کے برس بھی عید الفطر کے موقعے پر اُداس اور ویران رہی، اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جبر کی طاقت کے خیال میں ’’کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت پھیلنے اور اندیشۂ نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے مجبوراً کشمیریوں نے عید الفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے۔ ایسے ہی کئی اجتماعات کی وڈیو کلپس میڈیا میں گردش کرتی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہاں سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے۔ یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے:
خودی کا سرِ نہاں لااِلٰہ الااللہ
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
چناب ویلی کی یہ سرگرمی جس انداز سے اس بار زبان زدِعام ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ رسمِ وفا پورے جموں وکشمیر کے قصبوں، دیہات اور شہروں تک وسیع ہوجائے گی، اور آیندہ مزاحمت میں یہی رنگ نمایاں دکھائی دے گا۔چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہو کر صوفی منش عوام اور مجاہد صفت قوم نے اپنے محسن اور فکری رہنما اقبال کو دوبارہ پکار ا ہے، اور اقبال نے مظلوموں اور مقہوروں کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اس طرح ان کی قیامت خیز تنہائی میں وہ اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔
یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں:
تنم گُلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیرازاست
میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمین حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں۔
پھر وہ کشمیریوں کی حالت ِ زار پر اپنی افسردگی کا اظہا ریوں کرتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
آہ یہ قومِ نجیب وچرب ودست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں میں برپا انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی فرد کا بھرپور کردار ہے تو یہ نام اقبال ہی کا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے اور یہ انقلاب عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ڈوگرہ درندگی سے نکل کر وہ فاشسٹ ہندستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کے ہاتھوں برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں موجزن اورشعلہ بار ہوا۔
اقبال کشمیریوں کی فکری رہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔انھی کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحا ت پر مجبور کیا، جن میں کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا۔ اقبال، کشمیر کومسلم امت کی تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
پھر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو تحقیق کاروں کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب آزادی و انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت اور جذبۂ حُریت دکھائی دینے لگا ہے۔ان مناسبتوں کے پس منظر میں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور گہرا ہے۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ ودمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔یہ مُردہ ضمیر اور بے حس وحرکت جسموں کو اُٹھا کر معرکہ زن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے رہنمائی کا اعتراف آیت اللہ علی خامنہ ای نے۱۹۸۶ء میں کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘‘۔
اور ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو تاجکستان کے طول و عرض میں آزادی کی راہ پر چلنے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
اے خوابیدہ کلی تو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ۔
اس روز بی بی سی،لندن نے ’سیر بین‘ پروگرام کا آغاز دوشنبے میں انھی لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے کہیں زیادہ سخت ہے، جب ان کے لیے ایک اور ’گلانسی کمیشن‘ (۱۹۳۲ء)کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے۔ مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں ہے،جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی دیوار میں شگاف ڈالا جا سکے۔المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور ہرن، بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔
کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔یہ کشمیر کی وادیِ لولاب کا فرزند ہوتاہے، جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اُوٹ میں جنّت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں، تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اس دور کے علّامہ محمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے ،اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے تھے۔
علّامہ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑا بھی اُٹھایا۔انھوں نے لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا،لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر لکھنے اور بولنے کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:
پنجۂ ظلم وجہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
یوں اقبال کی رہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل ہندستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکارتک پہنچنے لگی ہے۔شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دباؤ پرڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے ’گلانسی کمیشن‘ جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حُریت اور انقلاب کے شعلوں کومسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلے ہی عشرے میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔
آج کشمیری ایک بار پھر ۱۹۳۰ءکے زما نے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے قید ہوچکے ہیں۔آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہو چکے ہیں۔اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی پُراثر اور دل دوز منظر کشی بھارت کےThe Wire ٹی وی کی میزبان عارفہ خانم شیروانی صاحبہ نے اس سال جنوری میں اپنے دورۂ سری نگر میں کی تھی۔
جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘اکثر لوگ تو جواب دینے سے پہلو بچاکر اور نگاہیں جھکا کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے تھے، مگر انھی لوگوں میں ایک واجبی سے حلیے والے ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تو تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنا رہے تھے۔عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ’’ ۵؍اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو اس شہری کا جواب تھا: ’’ٹھیک ہیں، سب ٹھیک ہے۔حالات اچھے ہیں‘‘۔شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا پن محسوس ہوا،تو انھوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا:’’کیا بتاؤں، اب کہنے کو کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے، وہ رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کاا ظہا رکرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کرانھوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیاراستہ اور اپنی قیادت کے لیے اپنا فکری رہنما ڈھونڈ لیا ہے۔ ۵؍اگست کے بعد ظلم کے سیاہ بادلوں میں انھوں نے روشنی کا ایک طاقت ور استعارہ تلاش کر لیا ہے:
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
کلامِ اقبال کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی انداز ہ ہورہا ہے۔اب کی بار کشمیر کواقبال کی ضروت بیداری کے لیے نہیں، بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔
چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مفاہمت، مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مخالفت کے ایک طویل دورانیے نے بڑے پیمانے پر عدم استحکام اور عدم تحفظ کو جنم دیا، جس کا اثر پورے خطے پر پڑا تھا۔ الحمدللہ، یہ پیش رفت دو روایتی حریفوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام اور خطے سے باہر تعاون اور اشتراک کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔
’سعودی، ایران معاہدہ‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لیے مثبت نقطۂ نظر کو سامنے لاتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی یہ بحالی، توانائی اور تجارتی تعاون کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے گی، جو خود پاکستان کی معیشت کے فروغ کا باعث ہوگا۔ پاکستان کے تاریخی اور روایتی طور پر ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات رہے ہیں، جب کہ سعودی عرب دینی اور اقتصادی طور پر ایک اہم ملک ہے جس میں پاکستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ معاہدہ علاقائی امن و استحکام کی جانب ایک قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا تعمیری کردار، قیامِ پاکستان کے بعد سے قائم ہے اور اس نے خطے کے ممالک کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوششوں کی مسلسل حمایت کی ہے۔ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) کا مقصد ایک بڑی اور ایک دوسرے کے تعاون پر منحصر مارکیٹ تیار کرنا ہے۔ اس طرح بلاشبہہ چین، تجارتی اہداف کے ساتھ ساتھ اپنے عالمی اور سیاسی مفادات کو بھی فروغ دے گا۔ بی آر آئی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے چین کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے دیگر ۱۹ ممالک کے ساتھ بی آر آئی پر دستخط کیے ہیں۔
’چین پاک اقتصادی راہداری‘ ( CPEC) کے فریم ورک کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور چین کو بہت کچھ معاونت دے سکتا ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری اور بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ کوریڈور ۲۰۱۵ء میں شروع کیا تھا جس کی مالیت تقریباً ۶۲ بلین ڈالر ہے، اور اس منصوبے میں تقریباً ۲۶بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس وقت جاری ہے اور مکمل ہونے پر یہ چین پاکستان کو مغربی چین سے گوادر پورٹ تک قدرتی گیس اور خام تیل کی نقل و حمل کا راستہ فراہم کرے گا۔ شمالی پاکستان میں شاہراہ قراقرم (KKH)کی تزئین و آرائش ہو چکی ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں اور مستقبل قریب میں اسے مزید جدید بنایا جائے گا اور وسعت دی جائے گی۔
پاکستان میں گوادر بندرگاہ کا تزویراتی (strategic) محل وقوع چین اور پاکستان دونوں کے لیے عظیم اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی امکانات پیش کرتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ، آبنائے ہرمز کی گزرگاہ پر واقع ہے، جو دنیا میں تیل کی ایک تہائی کھیپ کو سنبھالتی ہے، اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات میں گیم چینجر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین ’پاکستان اقتصادی راہداری، میں گوادر کا مقصد چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحرہند سے جوڑنا ہے۔ پاکستان کا گوادر فری زون منصوبہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکتا ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ ٹیکس مراعات، کاروباری اداروں کو وہاں صنعت کاری کرنے کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ صنعت کاری کے مرکز (Hub) کے طور پر گوادر کی صلاحیت چینی اور مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، جو اپنے صنعتی اور تجارتی اہداف کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔
ایران، بھارت اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرے ٹیجک طور پر متوازن بنا رہا ہے کیونکہ وہ خطے میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ بھارت، چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرکے علاقے میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن یہ غیر یقینی ہے کہ بھارت ایران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے گا کیونکہ امریکا کے ساتھ بھارت کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ بی آر آئی میں ایران کی شمولیت کے اس فیصلے سے ایران کا کردار کیا ہوگا؟ یہ توجہ طلب پہلو ہے۔ تاہم، پاکستان کی گوادر پورٹ میں چین کی سرمایہ کاری، چابہار میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔ بہر حال، چابہار کو گوادر سے جوڑنے والی ایک شاہراہ اور قدرتی گیس کی پائپ لائن کی تعمیر ایران کو گوادر کے راستے پاکستان اور چین کو قدرتی گیس برآمد کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، جس سے پاکستان اور ایران کے درمیان کثیر جہتی تعاون کے مواقع موجود ہیں۔
چین کا ۲۰۲۱ء میں ایران کے ساتھ ۲۵ سالہ اسٹرے ٹیجک تجارت اور سرمایہ کاری کا معاہدہ، جس کی مالیت ۳۰۰ بلین ڈالر ہے، یہ اس کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI)کا حصہ ہے۔ اس اقدام کو چابہار گہرے پانی کی سمندری بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری کو چیلنج کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر اس معاہدے میں سعودی عرب کی شمولیت سے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آیند پیش رفت ہے۔ معاہدے کے تحت توانائی کی فراہمی کے لیے پاکستان کے راستے کی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد ممکنہ طور پر ایران سے تیل اور گیس رعایتی شرح پر حاصل کرے گا، جب کہ چین، ایرانی تیل سے کم از کم ۱۲ فی صد کی رعایت پر فائدہ اٹھائے گا۔
سعودی ایران تعلقات کی خوش گواری، پاکستان کے لیے سعودی عرب کے دباؤ کے بغیر ایرانی تیل اور گیس حاصل کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ سی پیک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری بشمول گوادر میں ایک بڑی آئل ریفائنری کا قیام خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، سی پیک منصوبے کے تحت ڈبل ٹریک ریلوے اور پائپ لائنیں، جو اس وقت زیر تعمیر ہیں، مشرق وسطیٰ اور چین کے درمیان سامان کی آمدورفت کے لیے ایک نیا چینل بنائیں گی، جس سے مخصوص جغرافیائی صورتِ حال میں باہم اقتصادی اور سیاسی انحصار میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان ان ممالک کے درمیان راستوں کو جوڑ کر اور سستے نرخوں پر تجارت کر کے نمایاں آمدنی حاصل کر سکتا ہے، جس سے اس کی معیشت کو نمایاں فروغ حاصل ہو گا۔
گوادر پورٹ شہر کی ترقی پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے اور عرب ممالک سے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ جدید نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچا ہے اور اعلیٰ ترین سہولیات دنیا بھر کے سیاحوں کو خاص کر مشرق وسطیٰ کے سیاحوں کو راغب کر سکتا ہے۔ مزید برآں، گوادر اسپیشل اکنامک زونز اور ری ایکسپورٹ زونز کی جاری ترقی سے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی گوادر کے آئل ٹرمینل سٹی میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں۔ سابقہ حکومت نے ۲۰۱۹ء میں پیٹرو کیمیکلز میں ۱۰بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور بعد میں آئل ریفائنری کی تعمیر کے لیے ۵ بلین ڈالر کے مشترکہ منصوبے کی تیاری کی جارہی تھی۔
آخر میں، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون سے فائدہ اٹھانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ BRI میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، پاکستان اس نئی پیش رفت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے اور امید ہے کہ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گی۔ مگر اس سب کچھ کے لیے ملک میں امن اور خارجہ پالیسی میں توازن اور معاملات میں شفافیت ضروری ہے۔
مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔
اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔
اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔
یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔
یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔
۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔
ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔
دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔
یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔
آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔
بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔
مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔
تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔
چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔
پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔
۲۳مارچ ۲۰۲۳ء کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں بھارتی وزیر داخلہ امت شا نے ’ماتادا دیوی‘ کے مندر کا افتتاح کیا، کہ آزاد کشمیر سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ’’کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں‘‘۔ امت شا نے کہا کہ ’’یہ سب دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں مذکورہ کوریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ’’اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔
لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو آسان بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سرینگر۔مظفر آباد بس سروس اور پھر ۲۰۰۸ء میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام نے خاصا بہتر محسوس کیا تھا، مگر ۲۰۱۴ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سمت میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئیں تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔ ویسے تو پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے کا طرف دار ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واہگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے، مگر وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کے اطراف میں راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے نہیں دیکھے گئے۔
آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے ۲۲۱کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بودھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے صرف ۱۰کلومیٹر دُور ہے۔
چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کے ایک طبقے کو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور ’’۱۹۴۷ءتک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو یاتری اس علاقے میں آتے تھے۔ دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی لوگ بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَزسرنو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ کہلوانے کا خبط سوار ہے۔
چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب گزیٹئر آف کشمیر اینڈ لداخ مرتب کیا تواُس نے اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعے سے ۴۰۰گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہٰذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ ’’اس علاقے میں ایک عالی شان مندر واقع تھا اور وہاں ۱۹۴۷ءتک جوق در جوق یاتری آتے تھے، ایک لغو بات اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کا قریہ قریہ گھوم کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی، کسی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی میں ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو اَدھورا چھوڑ دیا گیا تھا، اور بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقینا تعمیر کرایا ہوتا۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بودھ مت کے عروج کے دوران ایک یونی ورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بودھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ[۶۰۲ء-۶۶۴ء] نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونی ورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بودھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ اس دور میں یہاں ہر سال ۵۰ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانش گاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔
شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بود ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بودھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوؤں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ نویسوں کے بقول انھوں نے بدھ بھکشوؤں کو مکالمے میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوؤں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردیں۔ یہی کچھ اس شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بودھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بودھ بادشاہ تھا۔ اشوکا [۳۰۴ ق م- ۲۳۲ ق م]کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بودھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بودھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بودھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ پھر ۶۳ء میں دوبارہ بودھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجا کنشک کے عہد حکمرانی [۱۲۷ء-۱۵۰ء]میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بودھ کونسل منعقد ہوئی اور بودھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جس کے پیروکار چین اور کوریا میں فی الوقت پائے جاتے ہیں۔
جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی اُبھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کیا جاسکے۔
بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیا میں ہے۔ ایک باضابطہ منصوبے کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ نام نہاد اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادیٔ نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں۔ ایسی روشن خیالی کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے!
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ کہتے ہیں:’’میں بوجھل دل کے ساتھ [اسرائیلی وزیراعظم] نتن یاہوکے ہمراہ سیکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سدِ جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔
کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ’ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘
یائر لاپیڈ کے فکر انگیز موقف کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں: پہلا یہ کہ اسرائیل کیا واقعتاً اپنی سدِجارحیت کی حیثیت کھو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امریکا کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟
ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔
یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکا کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے،جب کہ مغربی ممالک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔لیکن اب یہ ممالک بھی سمجھ چکے ہیں کہ امریکا، مشرق وسطیٰ سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز ۲۰۱۲ء میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ارتکاز مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ ۲۰۱۲ء سے صدر اوباما نے Pivot to Asia پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں خاص طور پر اس وقت تیزی آئی، جب فروری ۲۰۲۲ء میں روس- یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔
دکھائی دیتا ہے کہ عرب دُنیا کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہاں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے میں نہیں جتنی واشنگٹن نے ۲۰۰۳ءمیں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی تھی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔
اب ہم پہلے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سدِجارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقت ور ضرور ہے، جتنا وہ مئی ۲۰۲۱ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت تھا۔دراصل یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا، مگر اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیونکہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر ابھر رہا ہے۔
حزب اللہ، اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری جانب حالات معمول پر لانے کے شوروغل میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی(اسلامی تعاون تنظیم)، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اس تبدیلی کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، مسلم اور مغربی ممالک خاموش نہ رہ سکے۔
قبلۂ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ ردعمل بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔یاد رہے کہ اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ۹۰ فلسطینی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہادت پاچکے ہیں، مگر مزاحمت میں کچھ کمی نہیں آرہی۔
اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ بدحواسی میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح فخریہ انداز سے امریکا خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔
عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کا نیا آہنگ اور نغمہ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر ۶؍ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔
چین، اب مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے لیے محال ہے کہ اس جال سے جلد نکل آئے کیونکہ امریکانے اسرائیل نوازی کی رفتار میں کچھ ٹھیرائو پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں خود امریکا سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں فاشزم (فسطائیت)اپنی تمام وحشیانہ خصوصیات کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت اور بنیادی شہری حقوق کی جگہ اب صرف قبرستان کا سا ماحول ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو حکومت کے لیے کافی وقت، طاقت اور مواقع ملے، مگر انھوں نے عوام کے خلاف مجرمانہ عزائم کا مظاہرہ کیا اور بھارتی سرپرستی میں فاشسٹ حکمرانوں کی بدترین شکل بن کر اُبھریں۔ ان کی حکومت سفاکیت، آمریت، بدعنوانی اور بدانتظامی کا ’منفرد نمونہ‘ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام ۱۴ سال کی طویل حکمرانی کے دوران ایسے ریاستی جرائم کا قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ ریاستی ادارے عوام کو دبانے اور جبر پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔
حسینہ واجد، عوام، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی دشمن کے طور پر پوری طرح جم کر کھڑی ہیں۔ اس لیے عوام اس حکومت سے مایوس ہیں۔ خود شیخ حسینہ کو اپنے جرائم اور عوام کے غصے کا پوری طرح اندازہ ہے۔ لہٰذا، لوگوں کے خلاف انھوں نےایک مخصوص حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ لوگوں کے ووٹ کے اختیار کو چھین کر ان کو بے اختیار بنانا یہ کلیدی حکمت عملی ہے۔ جس کے لیے انتخابی عمل کا مکمل اختیار سنبھال لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر ڈاکا ڈال کر خود کو منتخب کروا سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی اور ڈکیتی ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں بھی ہوئی۔ یوں بنگلہ دیش کے عوام اپنے نمایندے خود منتخب کرنے کے آئینی حقوق سے محروم ہوگئے ہیں۔
l ووٹوں پر ڈاکا:آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو روکنے کے لیے حسینہ واجد نے نگراں حکومت (CTG) فارمولے کو ختم کر دیا ہے۔ یہ فارمولا پروفیسر غلام اعظم نے پیش کیا تھا، جس کی ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے توثیق کی تھی۔ یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے انتخابات اقتدار میں آنے والی پارٹی منعقد کراتی تھی۔ اس طرح حکمران پارٹی اپنے حق میں انتخابات میں دھاندلی کے تمام مواقع سے لطف اندوز ہوتی تھی۔لیکن جب حسینہ واجد ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسے ختم کردیا۔ اس اقدام نے حسینہ کے لیے انتخابی دھاندلی کی راہیں کھول دیں۔
حسینہ واجد سمجھتی ہیں کہ کسی بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ان کی جیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پچھلے انتخابات میں، وہ دو حلقوں میں اپوزیشن کے دو عام نمایندوں سے بھی شکست کھا گئی تھیں۔ تب سے، وہ زبردست انتخابی فوبیا کا شکار ہیں۔ الیکشن کمیشن اسے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ ملک کی پولیس اور عدلیہ خاموش تماشائی ہیں۔
انتخابی دھاندلی کی تاریخ میں حسینہ نے مصر کے ابوالفتح السیسی اور شام کے بشار الاسد جیسے سفاک آمروں کے ریکارڈ کو بھی مات دے دی ہے ۔ ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو، اس کی پولیس نے الیکشن کے دن سے ایک رات پہلے جگہ جگہ ووٹ ڈالے۔ چونکہ پولیس خود ایک ادارہ ہونے کے ناتے اس جرم میں شریک تھی، اس لیے اس طرح کی بھیانک ڈکیتی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انتخاب کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے والے حقیقی ووٹروں سے کہا گیا کہ وہ گھر واپس چلے جائیں کیونکہ ان کے ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ یہ حسینہ کے تکبر اور عوام کے خلاف دھوکا دہی کا عالم تھا۔ اس طرح کی لوٹ مار کے ذریعے، ۳۰۰ میں سے ۲۹۳ پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ درحقیقت اس طرح وہ تمام ۳۰۰ پارلیمانی نشستیں آسانی سے لے سکتی تھیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں تو ۱۵۳ نشستوں پر عوامی لیگ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ یہاں تک کہ ۱۰ فی صد ووٹروں سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ حسینہ کا طرز انتخاب ہے۔ ایسی انتخابی دھاندلی کی توثیق سے بچنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے ۲۰۱۴ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
l اداروں کی تباہی:شیخ حسینہ نے۲۰۰۸ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد جمہوریت کے بنیادی ادارے اور انتخابی نظام کو بآسانی تباہ کر دیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ پُرامن احتجاج کرنے پر بھی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ حفاظت ِ اسلام پارٹی کے سیکڑوں اسلام پسندوں کو ۵ مئی ۲۰۱۳ء کو ڈھاکہ میں ایک پُرامن احتجاجی ریلی منعقد کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ شیخ حسینہ نے عدلیہ پر بھی کامیابی سے تسلط حاصل کر لیا ہے۔ وہ چاہے تو کسی کو پھانسی دے سکتی ہے یا جیل بھیج سکتی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دے دی ۔
فوج اور پولیس کے اہلکاروں کا مقام ان کے پرائیویٹ ملازموں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ صرف اس کی حکمرانی کا تحفظ کرتے ہیں، نہ کہ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے آئینی حقوق کا تحفظ۔ میڈیا اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔ حسینہ واجد نے اپنی حکومت پر کسی بھی طرح تنقید کرنے والے کو جیل میں ڈالنے کے لیے ’ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس کی حکومت پر تنقید کو ’ریاست مخالف عمل‘ قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا انھیں گرفتار کر کے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارتی فاشسٹ وزیراعظم مودی کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے پر مشرقی ضلع برہمن باڑیا میں پولیس کے ہاتھوں ۱۶؍ افراد ہلاک ہوگئے ۔ اس قتل کے جرم میں نہ کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ سزا ہی دی گئی اور اس قتل عام کی خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔
l ریاست __ دہشت گردی کا ادارہ:بنگلہ دیش کی ریاست جو فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیتی ہے، اسے RAB (The Rapid Action Batalion ) کہتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لوگوں کو حسینہ کی فاشسٹ حکمرانی کے تابع رکھنے اور خاموش رہنے کے لیے دہشت زدہ کر رہے ہیں ۔ وہ سیکڑوں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ حکومت مخالف سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور ہیں۔ RAB بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے رات کی تاریکی میں لوگوں کو اغوا کرتا ہے۔ پورا ملک ایسے ڈیتھ اسکواڈز کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ وہ ڈھاکہ چھاؤنی کے اندر دہشت ناک ٹارچر سیل چلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا حکومتی سرپرستی میں ایک اداراتی عمل بن چکا ہے۔ کچھ بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورکس جیسے ڈوئچے ویلے ، الجزیرہ، نیٹرو نیوز نے حکومتی سرپرستی پر مبنی ایسے اداروں پر دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔
اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں جھوٹے مقدمات درج ہیں۔ اس لیے گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ زیر زمین چلے جانے یا ملک چھوڑ کر غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلینے پر مجبور ہیں۔ گرفتار ہونے والے برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہتے ہیں۔
l حسینہ: ہندستان کی وائسرائے:حسینہ نہ صرف فاشسٹ، بدعنوان اور اسلام دشمن ٹھگ کی سی بدترین شکل ہے، بلکہ انھوں نے بنگلہ دیش کو بھی ہندستان کی ایک کالونی بنا دیا ہے۔ اس نے سات مشرقی ریاستوں تک رسائی کے لیے ہندستان کو مفت گزرگاہ فراہم کردی ہے، اور بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک رسائی دی ہے۔ ملک کی مارکیٹوں پر ہندستان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی دکانوں اور گھروں میں زیادہ تر سامان ہندستان کا بنا ہوا دستیاب ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں، بسیں، ٹرک، سکوٹر اور سائیکل بھارت سے آتے ہیں۔ چونکہ تقریباً ۱۰ ملین بنگلہ دیشی بیرون ملک مقیم ہیں، اس لیے ایک بنگلہ دیشی کی فی کس آمدنی اور قوت خرید ایک ہندستانی سے زیادہ ہے۔ ہندستان مسابقت سے پاک زیرقبضہ مارکیٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ بنگلہ دیش میں ہندستانی سامان کی مارکیٹ ہندستانی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار اور اڑیسہ کی مشترکہ مارکیٹ سے بڑی ہے۔ ایسے ہندستانی اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے حسینہ دہلی کے حکمران گروہ کی وائسرائے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس لیے بھارت اس حکمرانی کا ہر ممکن اقدام سے تحفظ کر رہا ہے۔ ان حالات میں حسینہ کے خلاف کھڑے ہونا درحقیقت ہندستانی سامراجیت کے خلاف لڑنا ہے۔
حسینہ کو ۲۰۰۸ء میں دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے امریکا، برطانیہ اور بھارت کی مشترکہ سازش کے ذریعے۱۸کروڑکی آبادی والے ملک میں اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو غیرمنصفانہ عدالتی کارروائیوں اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا تو ان سازشی طاقتوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب اسے بھارت، چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بھارتی، چینی اور روسی کمپنیاں حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر کک بیک کے طور پر دیتی ہیں۔
اگلا پارلیمانی الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہے۔ حسینہ واجد عوام کے ووٹوں پر ایک اور ڈاکا ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ اس موقع کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اپنے بے شمار قاتلانہ جرائم کی سزا سے نہیں بچ سکتی۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے ۱۸کروڑ عوام کے لیے یہ واقعی ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ دشمن نما حکمران کو کب تک برداشت کریں گے؟
یہ مختصر مضمون اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہےکہ دُنیا کی طاقتوں نے اہلِ فلسطین پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی تھی اوربالخصوص مسلم ممالک کی حکمران قیادتوں نے اس ضمن میں ظالم طاقتوں کے خلاف بظاہر احتجاجی مگر فی نفسہٖ اعانتِ مجرمانہ کا رویہ اختیار کیا تھا، اسے اللہ کے بھروسے پر فلسطینیوںنے اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ناکام بنا کر مسلسل آگے بڑھنے کا راستہ بنایا۔ یہی ماڈل اہل کشمیر کو اپنانا ہے، جس پر بلاشبہہ وہ کام تو کر رہے ہیں، مگربہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان، جس کی یہ ذمہ داری تھی اس کی حکومتیں اس میدان میں اپنی قرار واقعی ذمہ داری ادا نہیں کرسکیں۔ اس لیے لازم ہے کہ کشمیری بھائی اپنی عملی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ابلاغی محاذ پر سرگرم ہوں۔ (ادارہ)
دُنیا بھر میں فلسطینی اور فلسطینیوں کے حامی کس کے خلاف لڑرہے ہیں، اور اسرائیل کے حامی کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ جملہ واضح کر رہا ہے: ’’ہمیں یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال نے غزہ کے بچوں کے بنائے ہوئے آرٹ کے فن پاروں کو نمایش سے ہٹا دیا ہے‘‘۔
یہ اسرائیل کے حامی وکیلوں کے گروپ ’یوکے لائرز فار اسرائیل‘ کے ہوم پیج پر شائع ہونے والی ایک خبر کا خلاصہ ہے۔ یہ اس گروپ کا ہی کارنامہ قرار دیا جارہا ہے کہ جس نے مغربی لندن کے ایک ہسپتال کی انتظامیہ کو غزہ کے پناہ گزین بچوں کے تخلیق کردہ آرٹ کے چند فن پاروں کو ہسپتال سے ہٹانے کے لیے کامیابی سے قائل کیا۔
بچوں کے فن پاروں کو ہٹانے کی اپنی مہم کے پیچھے چھپی منطق کی وضاحت کرتے ہوئے، اس گروپ کے ترجمان نے کہا: ’’ہسپتال میں یہودی مریض اس نمایش سے اپنے آپ کو ہدف اور تنقید کا نشانہ سمجھتے تھے‘‘۔ یاد رہے، آرٹ کے چند فن پاروں میں مشرقی یروشلم میں گنبد صخرا کی نمایندگی، فلسطینی پرچم اور دیگر علامتیں تھیں جن سے شاید ہی کسی کو نشانہ بنایا جاسکتا ہو۔ وکلا گروپ کے مذکورہ بالا مضمون میں بعدازاں ترمیم کرکے اس کا جارحانہ خلاصہ ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ اب بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سب لوگوں کو میسر ہے۔
یہ کہانی جتنی مضحکہ خیز لگتی ہے، حقیقت میں یہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے دُنیابھر میں شروع کی گئی فلسطین مخالف مہم کا نچوڑ بھی ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے، وہ بین الاقوامی قانون میں تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ اسرائیل نواز کیمپ فلسطینیوں کی ہرچیز کے مکمل خاتمے کے لیے لڑ رہا ہے۔
آج کچھ لوگ اسے فلسطینیوں کی ثقافتی نسل کشی یا فلسطینیوں کی نسل کشی کہتے ہیں، جب کہ فلسطینی، اسرائیل کے قیام ہی سے اس اسرائیلی طرزِ عمل سے واقف ہیں۔ درحقیقت اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے جنگ کی حدود کو دُنیا کے کسی بھی حصے میں، خاص طور پر مغربی نصف کرہ تک پھیلا دیا ہے۔ اسرائیل اور یوکے لائرز اور ان کے اتحادیوں کا غیرانسانی سلوک واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، تاہم صرف یہ گروپ نہیں جو اس الزام کا مستحق ہو۔ یہ وکلا اسرائیلی نوآبادیاتی ثقافت کا تسلسل ہیں جوفلسطینی عوام کے وجود کو سیاسی، صہیونی اور نوآبادیاتی نقطۂ نظر کے ساتھ دیکھتے ہیں، جس میں پناہ گزین معصوم بچوں کا فن بھی شامل ہے، اور اسے اسرائیل کے ’وجود کے لیے خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔
کسی ملک کے وجود اور کم عمر معصوم بچوں کے فن کے درمیان تعلق مضحکہ خیز لگتا ہے، مگر یہ دیکھا جاسکتا ہے___ لیکن اس کی اپنی ہی عجیب منطق ہے۔ جب تک ان پناہ گزین بچوں میں خود کو فلسطینی کے طور پر پہچاننے کے لیے خود آگاہی ہے، جب تک وہ ایک فلسطینی کے طور پر شمار ہوتے رہیں گے، ان کی پہچان کا کوئی انکار نہیں کرسکے گا۔ اسی مثال کو دیکھیے کہ لندن کے ایک ہسپتال میں مریض اور عملے کے لیے اسرائیل کے مقابلے میں یہ اجتماعی فلسطینی شناخت بھلانا ممکن نہیں۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے فتح کا مطلب دو بالکل مختلف چیزیں ہیں جنھیں یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطینیوں کے لیے فتح کا مطلب فلسطینی عوام کی آزادی اور وہاں سب بسنے والوں کے لیے برابری ہے، مگر اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے مٹانے کے ذریعے ہی فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان فلسطینیوں کے وجود کو مٹادینے میں اسرائیل اپنی کامیابی دیکھتا ہے، جو جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اعتبار سے فلسطینی شناخت کا حصہ ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ چیلسیا اور ویسٹ منسٹر ہسپتال اب فلسطینیوں کی شناخت مٹانے کے اس المناک عمل میں سرگرمی سے شریکِ کار ہیں۔ بالکل اُس طریقے سے جیسے ورجن ایئرلائنز ۲۰۱۸ء میں دبائو کے سامنے جھکی اور جب اس نے اپنے مینو سے ’فلسطینی پکوان‘ ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مذکورہ کمپنی کی یہ حرکت فلسطینی- اسرائیلی تنازعے کا ایک عجیب واقعہ لگتی تھی، حالانکہ حقیقت میں یہ کہانی اس تنازعے کی اصل نمایندگی کرتی تھی۔
اسرائیل کے لیے ، فلسطین کی جنگ تین بنیادی اُمور کے گرد گھومتی ہے: زمین کا حصول، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، اور تاریخ کو دوبارہ لکھنا۔
پہلا کام تو ۱۹۴۷ء کے بعد نسلی قتل و غارت (cleansing) اور فلسطین کی نوآبادیاتی محکومی کے عمل کے ذریعے حاصل کیاجاچکا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ انتہاپسند حکومت صرف اس عمل کو حتمی شکل دینے کی اُمید کر رہی ہے۔ دوسرا کام تسلسل کے ساتھ نسلی تطہیر سے زیادہ ہمہ پہلو ہے، اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کے بارے میں آگاہی اور ان کی اجتماعی شناخت کو ثقافتی نسل کشی کے ذریعے شناخت سے محروم کرنا ہے ۔تیسرے یہ کہ اسرائیل نے کئی برسوں کی جارحیت کے نتیجے میں تاریخ کو دوبارہ لکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اب اس کام کے برعکس فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں نے استقامت سے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت کے ذریعے اسے چیلنج کرنا شروع کیا ہے۔
فلسطینیوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے عروج سے بہت زیادہ فائدہ پہنچاہے، جس نے اسرائیلیوں کے سیاسی اور تاریخی بیانیے کی مرکزیت کو ختم کرنے میں حصہ ڈالا ہے۔ کئی عشروں سے اسرائیل اور فلسطین کی تشکیل کے بارے میں عام فہم مرکزی دھارے کو بڑی حد تک اسرائیل کی طرف سے منظور شدہ بیانیہ کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ جو لوگ اس بیانیہ سے منحرف ہوئے ان پر حملے کیے جاتے اور ان کے تشخص کو مجروح کردیا جاتا اور ہمیشہ ’سامی دشمنی‘ کا الزام لگایا جاتا۔ اگرچہ اب بھی یہ ہتھکنڈے اسرائیل کے ناقدین پر چلائے جارہے ہیں، لیکن اب ان کے نتائج اتنے مؤثر نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے یوکے لائرز کی ’خوشی‘ کو بے نقاب کرنے والی ایک ٹویٹ کو ٹویٹر پر آن کی آن میں۲۰ لاکھ لوگوں نے پڑھا اور پھر دُنیا بھر میں لاکھوں مشتعل برطانوی اور سوشل میڈیا صارفین نے ایک مقامی کہانی کو فلسطین اور اسرائیل پر دُنیا بھر میں سب سے زیادہ زیربحث موضوع میں تبدیل کردیا۔ اس طرح بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے وکلا کی ’خوشی‘ میں حصہ نہیں لیا، جس کے نتیجے میں گروپ کو اپنے مضمون پر نظرثانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں کو فلسطین اور اسرائیل پر ایک بالکل نئے موضوع سے متعارف کرایا گیا: ’ثقافت کو مٹانا‘۔ اس طرح لائرز گروپ کی’فتح‘ ایک مکمل شرمندگی اور پسپائی میں بدل گئی ہے۔
فلسطینی موقف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سوشل میڈیا کے اثرات کی بدولت، اب اسرائیل کی ابتدائی فتوحات کے برعکس اثر ہورہا ہے۔ ایک اور حالیہ مثال ہارورڈ کینیڈی اسکول میں ہیومن رائٹس واچ کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کو فیلوشپ کی پیش کش واپس لینے کا فیصلہ تھا۔ جنوری میں کینتھ روتھ کی فیلوشپ اس کی اسرائیل پر ماضی کی تنقید کی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھی۔ ایک بڑی مہم، جو چھوٹی متبادل میڈیا تنظیموں کی طرف سے شروع کی گئی تھی، اس کے نتیجے میں روتھ کو دنوں میں بحال کردیا گیا۔ یہ اور دیگر معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل پر تنقید کرنا اب کسی کیریئر اور مستقبل کا اختتام نہیں بن رہا، جیساکہ ماضی میں اکثر ہوتا تھا۔
اسرائیل فلسطین پر اپنے قبضے کو کنٹرول کرنے کے لیے پرانے حربے استعمال کرر ہا ہے مگر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں یہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہ روایتی ہتھکنڈے آج کی دُنیا میں کام نہیں کرتے، جہاں معلومات تک رسائی کی مرکزیت ختم کردی گئی ہے اور جہاں کوئی بھی سنسرشپ گفتگو کو کنٹرول نہیں کرسکتی۔
فلسطینیوں کے لیے یہ نئی حقیقت دُنیا بھر میں اپنی حمایت کا دائرہ وسیع کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اسرائیل کے لیے، مشن ایک غیر یقینی ہے،خاص طور پر جب ابتدائی فتوحات، گھنٹوں کے اندر، ذلّت آمیز شکست میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔(عرب نیوز، ۶مارچ ۲۰۲۳ء)
ترکیہ کے گیارہ صوبوں میں جس طرح زلزلے نے قہر برپا کیا، اسی پیمانے پر شمالی شام کے چھ صوبوں کا ۶۰ہزار مربع کلومیٹر علاقہ بھی اس کی زد میںآگیا۔ مگر بین الاقوامی برادری جس تیزی کے ساتھ ترکیہ میں مدد لے کر پہنچی، شاید ہی کسی کو ان شامی علاقوں کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے یا ان کی اشک شوئی کرنے کی توفیق ہوئی۔ ترکیہ کے حتائی صوبے کے سرحدی قصبہ ریحانلی سے صرف ۱۲ کلومیٹر دُور بال الحوا کراسنگ پوائنٹ پر ۴۲سالہ شامی شہری محمد شیخ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی قسمت پررو رہا ہے۔ وہ ۱۲سال قبل حلب یا الیپو سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ترکیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا اور اب اپنے رشتہ داروں کی خیریت جاننے اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مدد کرنے کے لیے واپس جا رہا تھا۔ وہ شکوہ کر رہا تھا: ’’ہماری زندگیاں تو پہلے ہی پچھلے ۱۲برسوں سے جنگ و شورش کی نذر ہوگئی تھیں۔ پھر کورونا وبا نے ہمیں نشانہ بنایا۔ اس میں جوں ہی کمی آگئی تو ہیضہ اور خشک سالی نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب زلزلے نے توہماری زندگیاں برباد کرکے رکھ دی ہیں‘‘۔
رومی دورِ حکومت کی کئی ہزار سالہ پرانی سڑک ، جس نے تاریخ کے کئی اَدوار دیکھے ہیں، اس پر اقوام متحدہ کے ٹرکوں کا ایک کاروان امدادی سامان لے کر رواں تھا۔ ترکیہ کی سرحد کے پار شام کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’امدادی ٹیموں، نیزبھاری اوزاروں اور سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم کو اپنے ہاتھوں سے ملبہ کو ہٹا کر زندہ بچنے والوں کو نکالنا پڑا‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے سے اب تک صرف ۶ہزار لاشیں نکالی جا سکی تھیں، جن میں شام کے حاکم بشار کے مخالفین کے زیرقبضہ شمال مغرب میں ۴ہزار۴سو لاشیں ملی تھیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق۲ہزار ۷سو ۶۲ سے زائد عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ‘، جس کے ترکیہ میں دفاتر ہیں ، نے کہا کہ خطے میں ۴۵ فی صد انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ سے لوگ شکایت کر رہے تھے۔ اس کی جانب سے پہلا امدادی ٹرک چار دن بعد تباہ شدہ شہر دیر الزور پہنچا، تو مکینوں نے اقوام متحدہ کے جھنڈوں کو اُلٹا لٹکا کر احتجاج درج کروایا۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شام کے صدر بشار الاسد نے ۱۰ فروری کو حزب اختلاف کے زیرقبضہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے کا اعلان تو کیا تھا، مگر یہ امدادی سامان نو دن بعد بھی نہیں پہنچا تھا۔ ان کے وزیروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے امداد تو روانہ کی تھی ، مگر عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابومحمدالجولانی نے ان امدادی رضاکارگروپوں میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کرنے میں کافی وقت صرف کردیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ شامی حکومت شاید امدادی ٹیموں کی آڑ میں انٹیلی جنس اور کمانڈو اہل کار بھیج رہی ہے۔
’وائٹ ہیلمٹس‘ نام سے شامی شہری دفاع گروپ کے لیے کام کرنے والی رضاکار سورمر تمر نے مجھے بتایا: ’’زلزلہ آنے کے کئی روز بعد تک ملبوں سے انسانی ہاتھ نمودار ہوکر ہاتھ ہلاہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے۔ منجمد کرنے والی سردی کے دوران بھی ملبو ں سے انسانی چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ہولناک یادیں اور آوازیں مجھے ساری زندگی پریشان کرتی رہیں گی۔پھر جب ہم ان تباہ حالوں میں سے کسی کا ہاتھ پکڑتے تھے تو وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو خوف ہوتا تھا کہ اگر انھوں نے ہاتھ چھوڑا تو ہم ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جا ئیں گے ‘‘۔
اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تمر نے کہا:’’سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو ایسے کئی ہاتھ چھوڑنے پڑے، کیونکہ ملبہ ہٹانے اور ان کو نکالنے کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ ہم آگے بڑھ کر دیکھتے تھے کہ ننگے ہاتھوں سے کون سا ملبہ ہٹایا جاسکتا ہے او ر کون سی جان بچائی جاسکتی ہے۔ اور پھر دو دن بعد ان ملبوں سے انسانی آوازیںآنا بند ہوگئیں‘‘۔اُس وقت تک علاقے میں کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں ان تمام مرنے والوں سے معافی مانگتی ہوں، جنھیں ہم بچانے میں ناکام رہے‘‘۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’صرف پہلے ۷۲گھنٹوں میں پانچ فی صد علاقے میں ریسکیو کا کام ہوسکا‘‘۔
زلزلے کے بعد پہلے ۷۲گھنٹوں ہی میں کسی زندہ وجود کو ملبہ سے نکالنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ’وائٹ ہیلمٹس‘ کے سربراہ رائد صالح نے بتایا: ’’ہم نے بے بسی کے ساتھ بہت جدوجہد کی کہ زندہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مگر مناسب آلات کی کمی ہماری اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ تھی، لیکن قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی۔ تاہم، اقوام متحدہ کا غفلت برتنا بہت صدمہ خیز ہے۔ ان علاقوں میں ہزاروں شامی خاندان منفی درجہ حرارت میں سڑکوں پر یا ایسے خیموں میں زندگی گزار رہے تھے ، جن میں کمبل ، بستر یا گرمی کا کوئی انتظام نہیں تھا‘‘۔ مغربی ادلب صوبہ کے گاؤں امرین کے ندال مصطفےٰ بتا رہے تھے: ’’اپنی پوری فیملی کے ساتھ پہلے تین دن ہم نے کھلی سڑک پر گزارے۔ باب الحوا کی سرحد کے اس پار، ادلب صوبے میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد آباد ہیں، جن میں ۲۸ لاکھ ایسے افراد ہیں ، جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں‘‘۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۱ءسے اب تک شام کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ۵۳ لاکھ ہے۔ تقریباً ڈ یڑھ کروڑ شامی شہری جنگ اور سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ترکیہ کا یہی متاثرہ جنوبی علاقہ ان کے لیے ایک ڈھال تھا، مگر زلزلہ کی وجہ سے ترکیہ کے اس خطے کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ ترکیہ میں ۳۵ لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں میں سے ۱۷ لا کھ زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں رہتے ہیں۔
امدادی اداروں کے مطابق اگرچہ کئی عرب ممالک اور بین الاقوامی انسانی امداد کے کئی اداروں نے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امداد پہنچائی تھی، مگر یہ امداد اپوزیشن کے زیراثر شمال مغربی شام تک نہیں پہنچ سکی، جہاں ۸۵ فی صد متاثرہ افراد رہ رہے ہیں۔ رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ نے الزام لگایا کہ ۹۰ فی صد امداد حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی ترسیل کے لیے شام میں چار بارڈر کراسنگ کی منظوری دی تھی۔ مگر اب لے دے کے صرف باب الحوا ہی قانونی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں واحد سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے۔
زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی، کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں جھڑپوں کے دوران دونوں نے ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ سیریئن ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس میں اس جنگ کی نگرانی کرنے والے کارکن ابو مصطفےٰ الخطابی کا کہنا تھا کہ اسد فورسزکی بیس ۴۶ سے گولہ باری شروع ہوئی اور انھوں نے مغربی حلب کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ عطریب قصبہ ،کفر اما ، کفر تال اور کفر نو دیہاتوں میں بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ یاد رہے کہ عطریب اور اس کے نواح میں زلزلے کے نتیجے میں ۲۳۵؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور متعدد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں اس طرح کی مسلح جھڑپوں سے ابتدائی امدادی کام بھی نہیں ہوسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شامی زلزلے کے دوران ملبے میں دب کر مارے گئے اور کئی روز تک ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے، ان کا خون بین الاقوامی برادری اور شامی متحارب گروپوں کے ہاتھوں پر ہے۔