اخبار اُمت


امریکی صدر ٹرمپ کے یک طرفہ غزہ قبضہ منصوبے کے جواب میں، ۵۷ رکنی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے ایک کثیرجہتی تعمیر نو منصوبہ منظور کیا، جس کی قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس نے بھی توثیق اور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح فرانس، جرمنی، اٹلی (یورپی یونین کے رکن ممالک) اور برطانیہ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔

ٹرمپ کے نام نہاد’غزہ رویرا‘ منصوبے کے برعکس، جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، او آئی سی کا تجویز کردہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، جب کہ ٹرمپ کے منصوبے میں ۲۴ لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی شامل ہے۔ او آئی سی کا کثیرالملکی منصوبہ غزہ کو تعمیرِ نو کے ذریعے بحال کرنے کا خواہاں ہے، بغیر کسی مقامی باشندے کی نقل مکانی کے۔

اسی طرح جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو کے حوالے سے امریکا، عرب ممالک اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں۔

قاہرہ سمٹ (۴ مارچ) میں عرب رہنماؤں نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ۵۳ بلین ڈالر کے مصری منصوبے پر اتفاق کیا، جس کا بنیادی نکتہ ۲۴ لاکھ فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکنا ہے۔ اس کے بعد، ۷مارچ کو جدہ، سعودی عرب میں منعقدہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے ہنگامی اجلاس میں اس عرب متبادل منصوبے کو باضابطہ طور پر منظور کیا گیا۔

یہ منصوبہ ایک آزاد تکنیکی کمیٹی کے ذریعے غزہ کا چھ ماہ تک انتظام سنبھالنے کے بعد اختیار منتقل کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔

’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے مطابق: تنظیم نے غزہ کی ’جلد بحالی اور تعمیرِ نو‘ کے منصوبے کو اپنایا اور بین الاقوامی برادری، مالیاتی اداروں اور خطے کے فنڈنگ ذرائع سے فوری امداد کی اپیل کی۔مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کے مطابق: ’’او آئی سی کے ہنگامی وزارتی اجلاس نے مصری منصوبے کو اپنا لیا ہے، جو اَب ’عرب-اسلامی منصوبہ‘ بن چکا ہے۔ اگلا قدم یہ ہوگا کہ اس منصوبے کو یورپی یونین اور دیگر عالمی قوتوں جیسے جاپان، روس اور چین کی منظوری حاصل ہو، تاکہ اسے بین الاقوامی منصوبہ بنایا جا سکے‘‘۔

علاوہ اَزیں، پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے زور دیا:’’او آئی سی کو اجتماعی طور پر فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کی مزاحمت کرنی چاہیے، چاہے وہ انسانی ہمدردی کے پردے میں ہو یا تعمیرِ نو کے بہانے۔ اور یہ کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو ’سرخ لکیر‘ تصور کیا جائے، کیونکہ یہ نسل کشی کے مترادف ہے اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے‘‘۔ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے ادارے UNRWA کے فلسطینیوں کی بحالی میں کردار کو بحال کرنے پر بھی زور دیا اور نشاندہی کی کہ اسرائیل پر یہ قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۲(۵) کے تحت فلسطینیوں کو انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنائے‘‘۔

’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے منظور کردہ منصوبے کا بنیادی مقصد تباہ حال غزہ کی تعمیرِ نو اور ’فلسطینی اتھارٹی‘ (PA) کے فعال کردار کے ذریعے وہاں امن و استحکام قائم کرنا ہے۔

اس منصوبے کے تحت، پانچ سال میں غزہ کی تعمیر نو کے تین مراحل مکمل کیے جائیں گے:

  • پہلے مرحلے میں چھ ماہ کے دوران تین ارب ڈالر کی لاگت سے ملبہ ہٹایا جائے گا اور غیرپھٹے بموں کو صاف کیا جائے گا۔
  • دوسرے مرحلے میں دو سال کے دوران ۲۰؍ ارب ڈالر کی لاگت سے مکانات اور بنیادی سہولیات بحال کی جائیں گی۔
  • تیسرے مرحلے میں مزید دو سال میں ۳۰؍ ارب ڈالر کی لاگت سے ایک ایئرپورٹ، دو بندرگاہیں اور ایک صنعتی زون تعمیر کیا جائے گا۔

عرب منصوبے کے تحت ایک ’انتظامی کمیٹی‘ قائم کی جائے گی، جو آزاد فلسطینی ماہرین پر مشتمل ہوگی اور عبوری مدت کے دوران غزہ کا انتظام سنبھالے گی، تاکہ فلسطینی اتھارٹی کو مکمل اختیار کی منتقلی ممکن ہو سکے۔

’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے طویل مدتی منصوبے کے مطابق، ۲۰۳۰ء تک غزہ میں لاکھوں نئے مکانات، ایئرپورٹ، صنعتی زون، ہوٹل اور پارک بنائے جائیں گے اور اسے ایک جدید، خودمختار فلسطینی علاقہ بنایا جائے گا، جہاں فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی ہوگی۔

’فلسطینی اتھارٹی‘ (PA) اور حماس نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ’’غزہ کو عبوری طور پر آزاد ماہرین کی کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے اور وہاں بین الاقوامی امن دستے تعینات کیے جائیں‘‘۔

تاہم، امریکا اور اسرائیل نے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے اس تعمیرِ نو منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، جو امریکی-اسرائیلی غزہ قبضہ پالیسی کے خلاف ایک کثیرالملکی مزاحمتی حکمت عملی کا نمونہ ہے۔

امریکا اور اسرائیل کی ہچکچاہٹ کے باوجود، صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وٹکوف نے بعد میں کہا کہ ’’یہ مصریوں کی جانب سے نیک نیتی پر مبنی پہلا قدم ہے‘‘۔

اُمید ہے کہ عالمی برادری جلد ہی ’اسلامی تعاون تنظیم‘ کے اس منصوبے کو ایک قابلِ عمل روڈمیپ کے طور پر تسلیم کرے گی۔لہٰذا، قاہرہ کو اپنی سفارتی کوششوں کو مزید مضبوط بنانا ہوگا اور ایک وسیع ورکنگ گروپ تشکیل دینا ہوگا، جس میں مصر، اُردن، امریکا، فلسطینی اتھارٹی، خلیجی ریاستیں، یورپی یونین اور دیگر عطیہ دہندگان شامل ہوں۔

فلسطینی قیادت کے اندر مجوزہ منصوبے پر اتفاق رائے کی شدید ضرورت کے پیش نظر، ایک مشترکہ امریکی-عرب کوشش بھی ضروری ہے، تاکہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہو سکے اور حماس کے ساتھ جنگ بندی کے بعد ایک دیرپا معاہدہ طے پاسکے، اور امن سفارتکاری کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جا سکے۔(ترجمہ: ادارہ)

نام نہاد جمہوریہ انڈیا کی نسل پرست اور فسطائی حکومت نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو حالیہ اقدامات کیے ہیں، انھوں نے انڈین سیکولرازم اور جمہوریت کے داغ دار چہرے کو اور زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔

کشمیر کے طول و عرض میں انڈین پولیس اور عسکری عہدے داروں کی نگرانی میں عملے نے درجنوں دکانوں پر چھاپے مار کر دینی و سماجی موضوعات پر بڑے پیمانے پہ کتب ضبط کرلی ہیں۔ اسی طرح کئی جگہوں پر جماعت اسلامی کے فعال کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سب کارروائیاں انڈیا نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے علاقے میں اختلاف رائےدبانے کے لیے کی ہیں۔

انڈیا کے اخبار دی وائر (۱۴فروری ۲۰۲۵ء) کے مطابق: ’’سری نگر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز لال چوک میں کتب کے ایک تاجر کے بقول: جمعرات (۱۳ فروری) کو ساڑھے تین بجے پولیس کا ایک گروہ ہماری دکان پر آن دھمکا اور اس کے افسر نے کہا: بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہیتا(BNSS)  ۲۰۲۳ء کی دفعہ ۱۲۶ کے تحت ہم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب ضبط کریں گے، اور اس کے بعد کچھ کہے سنے بغیر دکان پر دھاوا بول دیا‘‘۔

روزنامہ گارجین  لندن (۱۹فروری ۲۰۲۵ء) نے لکھا ہے: ’’سیّد مودودی بیسویں صدی کے جید عالم ہیں، جن کی تحریریں دُنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔ کتابوں کی دکانوں پر یہ چھاپے سری نگر سے شروع ہوئے اور پھر دوسرے بڑے چھوٹے قصبوں تک پھیل گئے۔ یہ کتب زیادہ تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے شائع کی ہیں۔ جماعت اسلامی برصغیر (پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش، جموں و کشمیر) کی سب سے بڑی دینی و سیاسی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے‘‘۔

ڈان نیوز (۲۰ فروری) کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے قصبوں سے مولانا مودودی کی کتب ضبط کرتے ہوئے پولیس نے کہا: ’’ابوالاعلیٰ کی تمام کتابوں کو ہم اس لیے ضبط کر رہے ہیں کہ ان پر پابندی ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ اس ممنوعہ لٹریچر کی تشہیر اور گردش کو روکنے کے لیے ہم سخت جانچ اور عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کتب کے خلاف سخت کارروائی کریں گے‘‘۔

یاد رہے فروری ۲۰۱۹ء میں نسل پرست اور دہشت گرد تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی تابع فرمان بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ پھر اسی سال ۵؍اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو مختلف انتظامی حصوں میں تقسیم کرکے جبروظلم کے تمام ریکارڈ مات کر دیئے تھے، جس کے بعد اس پورے علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شدت آگئی تھی۔

مقبوضہ کشمیر کے مختلف رہنمائوں، اخبار نویسوں، وکیلوں، یونی ورسٹی استادوں، ادیبوں اور دانش وروں نے مولانا مودودی کی کتب کی ضبطی اور ان پر پابندی کو غیرمنصفانہ، غیرآئینی قدم اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس فسطائی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ یہ کتب ایک سو سال سے نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دُنیا میں شائع ہورہی ہیں اور پڑھی جارہی ہیں۔ انڈین حکومت کا یہ قدم غیر مہذبانہ اور غیرمنصفانہ ہے۔

اخبار دی وائر کے مطابق:جماعت اسلامی کا دفاع کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعت ’پیپلزڈیموکریٹک پارٹی‘ (PDP) کی لیڈر التجامفتی نے الزام لگایا: ’’کتابوں کی یہ ضبطی، مطالعے کی آزادی پر حملہ ہے‘‘۔ نیشنل کانفرنس (NC)کے رکن پارلیمنٹ آغا سیّد روح اللہ مہدی کے بقول: ’’یہ جموں و کشمیر کے عوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ جس کے تحت مولانا مودودیؒ کی کتب ضبط کرلی گئی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب [انڈین] ریاست کشمیریوں کو یہ بتائے گی کہ وہ کیا پڑھیں، کیا سیکھیں اور کس پر ایمان و یقین رکھیں؟ یہ ناقابلِ تصور ہے، اسے فوراً منسوخ کیا جائے‘‘۔

اخبار دی ہندو کے مطابق سیّد روح اللہ مہدی نے مزید (ٹویٹر) ’ایکس‘ پر لکھا: ’’ریاست [انڈیا] کی جانب سے کشمیریوں کو ہراساں کرنے سے باز رہنا چاہیے اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہیے ،کیونکہ اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کی بھاری قیمت چکانا ہوگی‘‘۔

میرواعظ عمرفاروق نے اس کارروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اسلامی لٹریچر پر حکومت کا یہ کریک ڈائون نہایت قابلِ مذمت، حددرجہ افسوس ناک اور سخت مضحکہ خیز فعل ہے۔ اس طرح کتابوں کو ضبط کرکے اور خیالات پر پہرے بٹھا کر دھونس جمانا قطعی طور پر ایک بے معنی عمل ہے، خاص طور پر ایسے زمانے میں، جب کہ معلومات ’ورچول ہائی ویز‘ سے دُنیا بھر میں آسانی سے دستیاب ہیں‘‘۔ ’الجزیرہ‘ نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق: ’’عمر فاروق نے مزید کہا: ’’ضبط کی گئی کتابیں قانونی طور پر نئی دہلی سے شائع ہورہی ہیں اور جب پورے خطّے میں کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہیں تو ان پر کشمیر ہی میں پابندی کیوں؟‘‘

روزنامہ نوائے وقت کے مطابق ’’شمیم احمد نے کہا ہے: ’’مولانا مودودی کی یہ کتب لوگوں کے اخلاق سنوارنے اور ذمہ دار شہری بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان پر کریک ڈائون کرنا، ایک ناقابلِ فہم اور غیرمنطقی قدم ہے‘‘۔

اس افسوس ناک انڈین قدم پر وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان شفقت علی خاں نے کہا ہے: ’’یہ عمل اختلاف رائے کو کچلنے اور مقامی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے مسلسل اقدامات کی کڑی ہے۔ اپنی پسند کی کتب پڑھنے کی آزادی کشمیریوں کا حق ہے‘‘۔

مولانا مودودی کی کتب کے ساتھ سیّد علی گیلانی مرحوم کی کتب بھی ضبط کی گئی ہیں۔ اس پابندی اور ضبطی کے افسوس ناک واقعے کے علاوہ جو دوسرا حددرجہ اذیت ناک قدم مودی حکومت نے اُٹھایا ہے، وہ یہ کہ ۱۴فروری کو سیّد علی گیلانی مرحوم و مغفور کی رہائش گاہ میں ان کے ذاتی کمرے کو سربمہر کردیا گیا ہے، اور ان کے ذاتی کاغذات، مسودات ، خطوط اور ڈائریاں وغیرہ قبضے میں لے لی ہیں۔ یہ کارروائی اُس وقت کی گئی جب محترم گیلانی صاحب کی اہلیہ اپنی بیٹی سے ملنے نئی دہلی گئی ہوئی تھیں۔ یہ اقدام گھر کے کسی فرد کے نوٹس میں لائے اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ یہ تمام واقعات دُنیا بھر کے اہلِ دانش کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔

 گذشتہ شب (۲۴ فروری ۲۰۲۵ء) یوٹیوب پر محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک تازہ گفتگو سننے کا موقع ملا۔ یہ گفتگو فلسطین کی تحریک مزاحمت کے سلسلے میں تھی۔ اس گفتگو میں بھی مجھے وہی خلل نظر آیا، جو عام طور سے مسلمان دانش وروں کے یہاں پایا جاتا ہے۔ وہ بیانیہ تو اپنی سوچ اور مزاج کے مطابق بناتے ہیں، پھر قرآن کریم کی کسی آیت کے ٹکڑے یا حدیث کے کسی حصے کو حسب منشا چسپاں کرکے اپنے طبع زاد بیانیے کو قرآن و سنت کا بیانیہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔

غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ’’فلسطین کے باشندوں کو نیز پوری امت کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ اللہ سے لو لگانا چاہیے۔ اپنے اخلاق درست کرنے چاہئیں۔ علم کے میدان میں ترقی کرنی چاہیے۔ صہیونی غاصبوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ صہیونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اللہ تعالیٰ موجود ہ نظامِ عالم کو خود تبدیل نہ کردے‘‘۔

اپنی اس سوچ کو قرآنی قرار دینے کے لیے موصوف قرآن مجید سے دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ سے باہر نکال دیا گیا تو اللہ نے انھیں حکم دیا (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو)۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ جب تک جنگ جیتنے کا یقین یا غالب امکان نہ ہو، قرآن جنگ سے باز رہنے کا حکم دیتاہے، ورنہ وہ جنگ خود کشی ہے۔ ہمیں یہاں پر عرض کرنا ہے کہ قرآن مجید میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کی ہدایت نہیں فرمائی۔ قرآن کی ایک آیت میں یہ خبر تو دی گئی:’’ لوگوں سے کبھی کہا گیا تھا کہ ہاتھ روکو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو‘‘، لیکن پورے قرآن مجید میں کسی ایک بھی مقام پر اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے (كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ جنگ سے روک رکھو) کا حکم نہیں دیا گیا۔ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ والی آیت ملاحظہ فرمالیں کہ اس آیت میں بھی قتال سے بھاگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝۷۷(النساء۴:۷۷) تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو تو جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، کچھ اور مہلت کیوں نہ دی؟ کہہ دو اس دنیا کی متاع بہت قلیل ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے آخرت اس سے کہیں بڑھ کر ہے، اور تمھارے ساتھ ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔

 اصل میں كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ ایک وقتی پالیسی تھی، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے نکلنے کے بعد نہیں بلکہ مکہ میں رہتے ہوئے وہاں کے دعوتی مصالح کے تحت اختیار فرمائی تھی۔ قرآن مجید میں وہ بطور مستقل ہدایت کہیں مذکور نہیں ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ قاتلوا :جنگ کرو، کا حکم تو قرآن مجید میں متعدد مقام پر ہے، لیکن كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ  کا حکم کسی ایک مقام پر بھی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے اور بار بار کہنے کی ہے کہ قرآن مجید میں قتال کے سلسلے میں بہت اصولی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ جو جنگ کرے اس سے اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور زیادتی نہ کرو:

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰ (البقرہ۲:۱۹۰) اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں اور حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

 یعنی اسلام جنگ میں پہل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جنگ کی پہل کرنے والوں سے جنگ کرنے کی پُرزور تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک اور پہلو سامنے رہنا چاہیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا ہے کہ جب فتح یقینی ہو یا اس کا غالب گمان ہو تبھی جنگ کرو۔ قرآن تو بہت واضح، کھلے اور واشگاف الفاظ میں کمزور مظلوموں کو طرح طرح سے اس امر کے لیے آمادہ کرتا ہے کہ ’ظالم کتنا ہی زیادہ طاقت ور ہو تم اس کا مقابلہ کرو‘۔

سورۂ بقرہ میں طالوت کی فتح اور جالوت کی شکست کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا جس کا بنیادی پیغام یہ ہے جب دشمن کو دیکھ کر بہتوں کے حوصلے پست ہوجائیں، تو بھی ایمان والے اس یقین سے سرشار رہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے چھوٹی فوج بڑی فوج کو شکست دے سکتی ہے:

فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَوَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝۰ۙ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْيَـوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ۝۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللہِ۝۰ۙ كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۲۴۹ (البقرہ ۲:۲۴۹) پھر جب طالوت اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان پر ثابت قدم رہے دریا پار کر گئے تو یہ لوگ بولے کہ اب ہم میں تو جالوت اور اس کی فوجوں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جو لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ بالآخر انھیں اللہ سے ملنا ہے انھوں نے للکارا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں رہی ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئی ہیں، اللہ تو ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے۔

 سورۂ مائدہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ تفصیلی مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، اس کا پیغام بھی یہ ہے کہ اللہ کے مومن بندے دشمن کی بڑی طاقت کو دیکھ کر حوصلہ نہیں ہارتے:

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْہَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ۝۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْہَا۝۰ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۝۲۲  قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْہِمُ الْبَابَ۝۰ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ۝۰ۥۚ وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۳ (المائدہ ۵:۲۲-۲۳) وہ بولے کہ اے موسی! اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں۔ ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے۔ دو شخصوں نے جو تھے تو انھی ڈرنے والوں ہی میں سے، پر خدا کا ان پر فضل تھا، للکارا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے پھاٹک میں گھس جاؤ۔ جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔

 سورۂ انفال میں جنگ بدر کا نقشہ کھینچا گیا کہ بظاہر فتح کے امکانات معدوم تھے، اس وجہ سے بعض لوگوں کو تو لگ رہا تھا کہ خودکشی کے راستے پر انھیں لے جایا جارہا ہے:

كَـمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ۝۰۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِہُوْنَ۝۵ۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝۶ۭ  (انفال۸:-۵-۶) اسی طرح کی بات اس وقت ظاہر ہوئی جب تمھارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی۔ وہ تم سے امرِ حق میں جھگڑتے رہے باوجود یکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا، معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں۔

 سورۂ آل عمران میں جنگ احد کے واقعے کی تفصیل ہے، اس میں بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ لوگوں کی کثرتِ تعداد سے ایمان والے ذرا نہیں ڈرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دین کے دشمنوں سے ڈرانا شیطان کا کام ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۝۰ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۝۱۷۴ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۝۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۷۳-۱۷۵) یہ وہ ہیں کہ جن کو لوگوں نے سنایا کہ دشمن نے تمھارے لیے بڑی طاقت اکٹھی کی ہے تو اس سے ڈرو تو اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ سو یہ لوگ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے، ان کو ذرا گزند نہ پہنچی، اور یہ اللہ کی خوشنودی کے طالب ہوئے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنے رفیقوں کے ڈراوے دے رہا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔

 سورۂ احزاب میں قبائل کے متحدہ لشکر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دشمن بہت بڑی قوت کے ساتھ آیا تھا:

اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللہِ الظُّنُوْنَا۝۱۰ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۝۱۱ (احزاب۳۳:۱۰-۱۱) یاد کرو، جب کہ وہ تم پر آچڑھے، تمھارے اُوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت اہل ایمان امتحان میں ڈالے گئے اور بالکل ہلا دیے گئے۔

پھر سورۂ توبہ میں بتایا گیا کہ تبوک کے لیے جب نکلنے کا حکم ہوا تو وہ بڑی مشکل گھڑی تھی:

لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْہُ فِيْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۱۷ (التوبہ۹:۱۱۷) اللہ نے نبی اور ان مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہوچکے تھے۔ پھر اللہ نے ان پر رحمت کی نگاہ کی۔ بے شک وہ ان پر نہایت مہربان اور رحیم ہے۔

 سورۂ انفال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ تعداد کے بڑے فرق سے قطع نظر قتال پر اُبھاریں:

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵(انفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنین کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تمھارے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر بھاری ہوں گے۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ بصیرت سے محروم ہیں۔

 غرض یہ کہ قرآن مجید میں تاریخِ اسلام کے متعدد مواقع کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور ان مواقع کا ذکر کیا گیا ہے جب اہلِ اسلام کے مقابلے میں دشمن کی تعداد اور مادی قوت خوف ناک حد تک زیادہ تھی۔ لیکن کہیں بھی كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ہر موقعے پر قاتلوھم کی تاکید کی گئی۔ اس لیے محترم جاوید احمد صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے وہ شوق سے پیش کریں، لیکن قرآن مجید کے ساتھ ظلم نہ کریں۔ قرآن مجید ظلم سے روکتا ہے، لیکن ظالموں سے ڈرنا اور ان کے ظلم کو قبول کرلینا نہیں سکھاتا ہے۔ ظالم کتنا ہی طاقت ور ہو وہ اللہ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی نصرت کے آگے کسی طاقت ور ظالم کی نہیں چلنے والی ہے۔

آخر میں استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے اس ایمان افروز بیان کو ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو انھوں نے طالوت اور جالوت کے واقعے کی تفسیر میں تحریر کیا ہے :

وہ حقیقی شجاعت جو خدا کی راہ میں موت کو زندگی سے بھی زیادہ عزیز و محبوب بنا دیتی ہے وہ مومن کے اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے کہ خدا کی راہ میں قتل ہونے والے مرتے نہیں ہیں بلکہ حقیقی زندگی اور اپنے رب کی ملاقات سے مشرف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ہمت چھوڑ بیٹھنے والے ساتھیوں کو اُبھارا کہ فلسطینیوں کی کثرتِ تعداد سے مرعوب ہو کر ہمت نہ ہارو اصل شے تعداد نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی نصرت ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ نہایت قلیل التعداد گروہ محض اللہ کے حکم اور اس کی تائید سے دَل با دل فوجوں [بہت بڑی فوج] پر غالب آگیا ہے۔ خدا کی تائید حاصل کرنے کے لیے جو چیز مطلوب ہے وہ صبر و استقامت اور عزم و ہمت ہے نہ کہ تعداد کی کثرت و قلت۔(تدبر قرآن، ج ۱ ص ۵۷۸)

’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں۔ بھلا کون ہے جو ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرنا چاہے گا؟ آخرکار جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ وار رپورٹر ہیں، آپ ہی بتائیں: کیا آپ کو جنگ پسند ہے؟‘‘ یہ سوال ۲۰۱۸ء میں اطالوی صحافی فرانسسکو بوری کو انٹرویو میں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے منصوبہ ساز اور حماس کے شہید سربراہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ ان کا یہ انٹرویو شہ سرخیوں کی زینت بنا، جسے سیاسی حل کی طرف پیش قدمی کی کوشش قرار دیا گیا۔

 یحییٰ سنواراسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ بحری ، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کا خاتمہ چاہتے تھے، جس نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا تھا۔ کیا کرۂ ارض پر ایسا کوئی دوسرا مقام ہے، جس کی ۲۳ لاکھ انسانوں پر مشتمل آبادی مسلسل ۱۸ سال سے محاصرے کی حالت میں ہے؟ زراعت، تجارت اور ماہی گیری، سب تباہ کر دیئے گئے۔ صرف چار گھنٹے کے لیے بجلی فراہم کی جاتی، ۶۲فی صد آبادی کو خوراک کے لیے امداد کی ضرورت تھی، جب کہ بے روزگاری کی شرح ۴۶فی صد پر پہنچ چکی تھی ۔ اس ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لیے تمام بااثرعرب ممالک نے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا۔ جمہوریہ ترکیہ کے ادارے نے ۲۰۱۰ء میں فریڈم فلوٹیلا بھیجا، جس پر اسرائیل نے حملہ کرکے ۹؍ افراد کو شہید کردیا ۔

۲۰۰۸ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء کی غزہ اسرائیل جنگیں اسی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے ہوئی تھیں۔ ۲۰۱۷ءمیں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالنے والے یحییٰ سنوار ناکہ بندی کے خاتمے کے بدلے جنگ بندی پر آمادہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور ہمارے مفاد میں تو ہرگز بھی نہیں‘‘۔ انھوں نے نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مارچ ۲۰۱۸ء میں ’گریٹ مارچ آف ریٹرن‘ ' کے نام سے ہر جمعے کے بعد مظاہروں کا اعلان کیا۔ فلسطینی ہزاروں کی تعداد میں جمعہ کی نماز کے بعد غزہ کی سرحد پر مظاہرہ کرتے۔ اسرائیل نے ان پرامن مظاہرین کو بھی نہ بخشا۔ ۳۰ مارچ ۲۰۱۸ءسے ۲۷ دسمبر ۲۰۱۹ء تک پونے دو سال تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں اسرائیل نے ۲۲۳ فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ، اور ایک سال مکمل ہونے پر بتایا گیا تھا کہ شہداء میں ۴۱ بچے بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ۲۹ ہزار سے زیادہ تھی ۔

ماہرین نے ان پُرامن مظاہروں اور یحیٰی سنوار کے بیان کو پالیسی شفٹ قرار دیا تھا ۔ شاید عرب ممالک ، مسلم دُنیا اور بین الاقوامی برادری غزہ اور اہل غزہ کو بالکل فراموش کرچکے تھے۔ عرب حکمران ناکہ بندی تو کیا ختم کراتے، اب ان کی دلچسپی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں تھی۔ فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے ۲۰۲۰ء میں نام نہاد ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط نے دو ریاستی حل کی اُمید کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مراکش اور سوڈان نے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کرکے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ اس سے پہلے۲۰۱۸ء میں امریکا، مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرچکا تھا۔ دو ریاستی حل ٹھیک ہے یا غلط؟ اب اس بحث کی گنجائش بھی نہ بچی تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے ساتھ ہی دو ریاستی حل ماضی کا قصہ بن جانا تھا، اس کے شواہد ہم آگے پیش کردیں گے۔

یہ طویل تمہید ہمیں حماس ، فلسطین اور دو ریاستی حل سے متعلق، نہایت قابل احترام دانش ور کے بیان کی وجہ سے باندھنا پڑی، جو مختلف سوشل میڈیا صفحات پر زیر بحث ہے۔ کسی مسئلے پر افراد کی آراء میں اختلاف کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ محترم دانش ور نے حماس کے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے اقدام پر قرآن و سنت اور تاریخ کے تعلق سے جو بات کی، اس کا بہتر جواب تو علما، اسکالرز اور مؤرخین ہی دے سکتے ہیں۔ ہم یہاں ان کی گفتگو کے کم از کم چار ایسے مقامات کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو ہمارے علم کی حد تک درست بات نہیں ہے۔یہاں وہی الفاظ نقل کیے جارہے ہیں، جو محترم صاحب ِدانش دوست نے ادا کیے:

            ۱-         ’کیا سعودی عرب سے پوچھ کر(حماس نے ۷؍اکتوبر کا) حملہ کیا تھا؟ تین دن بعد فیصلہ ہونے والا تھا۔ دو ریاستیں بن جاتیں اب تک ، اناؤنس ہوجاتیں ، امریکا ضامن تھا اس کا‘۔

             ۲-        ’جہاں اسرائیلی یرغمالی رکھے گئے وہاں [اسرائیل کی طرف سے] بمباری غلطی سے بھی نہیں ہوئی، صرف تین کی اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ عین اس وقت یہ لوگ ان کو زبردستی اسپتال کی بیسمنٹ [تہہ خانے] میں لے گئے تھے۔ ان [یعنی اسرائیل]کو سب معلوم تھا کہ کیا کہاں ہے؟‘

             ۳-        ’حماس کے ۷؍اکتوبر کے اقدام کے پیچھے ایران تھا‘۔

             ۴-        ’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا۔ انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش عدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یٰسین تمام پیش کشوں کے باوجود کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے والے ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے بعد دو ریاستی حل کے نعرے کی زبانی کلامی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ ’طوفان الاقصیٰ‘ سے دو ہفتے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ۲۲ ستمبر ۲۰۲۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشرق وسطیٰ کا جو نقشہ ساری دنیا کو دکھایا تھا، اس میں فلسطینی ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا۔ نقشے میں بیت المقدس کے مشرقی علاقے، غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اسی تقریر میں قاتل نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا: ’اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ طے پانے کے قریب ہے‘۔

 نیتن یاہو نے مصر، اردن اور ۲۰۲۰ء میں دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیلی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاضرین سے کہا تھا: ’’غور کیجیے سعودی عرب کے ساتھ امن کا کیا نتیجہ نکلے گا؟‘‘۔ ساتھ ہی اس نقشے کی دوسری جانب ایک تصویر پر اسرائیل کے ارد گرد وسیع سبز علاقے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’امن کے نتیجے میں پورا مشرق وسطیٰ تبدیل ہو جائے گا‘‘۔اس سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل پر مشتمل ایک علاقائی راہداری بنے گی، جو ایشیا کو یورپ سے ملائے گی‘‘۔

نیتن یاہو نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان جس معاہدے کی بات کی تھی، اس میں دو ریاستوں کی کوئی بات نہیں تھی، سوائے ’معاہدہ ابراہیمی‘ کے، اور جس پر امارات، بحرین ، مراکش اور سوڈان تو پہلے ہی دستخط کرچکے تھے۔ اگر سعودی عرب بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے جارہا تھا، جس کے لیے آج بھی سخت دباؤ ہے تو پھر کون سی اور کہاں کی دو ریاستیں؟ یوں فلسطین کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا تھا۔ جس طرح ۱۹۴۸ء کے بعد سے آج تک فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جاری ہے، غزہ اور مغربی کنارے سے یہ عمل بھی جلد یا بدیر مکمل کرلیا جاتا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے برابر میں بیٹھ کر اسی منصوبے کا تو اعلان کیا ہے یعنی ’فلسطینیوں سے خالی غزہ!‘___ معترض دانش ور صاحب وہ بات نہ کہیں، جس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کوئی معاہدہ ہونا تھا تو وہ ’معاہدہ ابراہیمی‘ ہی تھا، جس کا ذکر نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا اور اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

 سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سخت بیان بازی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر چین کے سخت ردعمل نے ’دو ریاستی حل‘ کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے کہ جس کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ۲۲ ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔ [تاہم، اپنے جائز تصور کے مطابق مسلم اُمہ کو بھی دو ریاستی حل قبول نہیں کہ اس میں غاصب ریاست کو زبردستی تحفظ دیا جارہا ہے۔ادارہ]

یہ بات بھی ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ریاست کے نام پر ایک انچ بھی نہیں دینا چاہتا۔ ان کا ایجنڈا فلسطینیوں سے غزہ مکمل خالی ہے اور ٹرمپ نے نتین یاہو کے ساتھ بیٹھ کر یہی اعلان بھی کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ موصوف کی یہ بات بھی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کہ ’’صرف تین یرغمالی اسرائیل کی قید میں مارے گئے اور اسرائیل نے غلطی سے بھی ان مقامات پر بمباری نہیں کی جہاں یرغمالیوں کو رکھا گیا تھا‘‘۔ حقیقتاً اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مارے گئے یرغمالیوں کی تعداد کم از کم ۳۳ ہے۔ ۲۰ فروری ۲۰۲۵ءکو حماس نے بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چار یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرتے ہوئے اسرائیلی خاندانوں کے نام پیغام میں کہا تھا: ’’ہم آپ کے بچوں کو زندہ واپس بھیجنا چاہتے تھے، مگر آپ کی فوج اور حکومتی رہنماؤں نے انھیں قتل کرنا پسند کیا۔ چارمزید مغویوں کی لاشیں اسرائیل کو آئندہ ہفتے واپس کی جائیں گی‘‘۔

دانش ور صاحب نے فرمایا ہے: ’’۷؍اکتوبر کے حملے کے پیچھے ایران تھا‘‘۔ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے۱۶ نومبر۲۰۲۳ء کو یہ خبر دی تھی کہ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ سے ملاقات میں واضح پیغام دیا :’’آپ نے ہمیں ۷؍ اکتوبر کے حملوں سے باخبر نہیں کیا تھا اور ہم آپ کی طرف سے جنگ میں داخل نہیں ہوں گے‘‘۔

رائٹرز نے حماس اور ایرانی اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہنیہ کو آگاہ کیا: ’’ہم آپ کی سیاسی اور اخلاقی حمایت تو جاری رکھیں گے، مگر براہِ راست مداخلت نہیں کریں گے‘‘۔حماس نے رائٹرز کی اس رپورٹ کی تردید کی تھی، مگر ایرانی وزیرخارجہ نے اس دوران یہ بات کئی بار کہی کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ اسرائیل حماس کی لڑائی پورے خطے میں پھیل جائے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ایران امریکا کو آگاہ کرچکا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ حماس، ایران تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے‘‘۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ایران یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ ’’اسے ۷؍اکتوبر کے حملے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور امریکا بھی ایران کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے‘‘۔

 ایران اور حماس کے تعلقات پر امریکی جریدے Foreign Policy میں شائع مضمون The 7 Reasons Iram Won't Fight for Hamas میں بتایا گیا ہے: ’’یہ سمجھنا غلط ہے کہ حماس اور حزب اللہ ایران کی پراکسیز ہیں ، تاہم یہ ایران کے نان اسٹیٹ اتحادی ہیں ۔ ماسکو اور بیجنگ میں ایران کے اسٹرے ٹیجک پارٹنرز نے حماس کی مکمل حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس کے مطابق ایران کے اعلیٰ عہدے داران ۷؍اکتوبر کے حملے سے واقف نہیں تھے۔ Foreign Policy کے مطابق:

 There is no top-down relationship between Tehran and Hamas. Even as Hamas aligns its actions with Iran, its approaches could diverge,  as they notably did during the Syrian civil war when Hamas supported the Sunni anti-Assad rebels. American and Israeli intelligence has suggested that Iran’s top officials were not aware of the Hamas operation.

واجب الاحترام دانش ور نے اسی موضوع پر اپنی اگلی پوڈ کاسٹ میں یہ بھی کہا: ’’حماس نے عرب سرپرستی کو چھوڑ کر جو ایرانی سرپرستی کو قبول کیا، تو یہ سخت ناعاقبت اندیشی کا فیصلہ تھا، انھیں اپنے بانی شیخ احمد یٰسین کے نقش قدم پر رہنا چاہیے تھا۔ شیخ احمد یاسین کبھی ایران کی طرف نہیں بڑھے‘‘۔ ہماری رائے میں اگر موصوف ’سرپرستی‘ کے بجائے ’تعاون‘ کا لفظ استعمال کرتے تو یہ زیادہ مناسب تھا۔ پھر یہ بات بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ حماس کے سربراہ شیخ احمد یاسین نے ۱۹۹۸ء میں ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔ ایران اور حماس کے درمیان تعلقات ۱۹۹۲ء میں قائم ہوگئے تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایران، ’الفتح‘ کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔ حماس نے ۱۹۹۹ء میں، جب کہ شیخ احمد یاسین حیات تھے اپنا سیاسی بیورو اردن سے ایران کے قریب ترین اتحادی ملک شام میں منتقل کرلیا تھا ۔ یہ فیصلہ اُردن کی جانب سے تنظیم کے خلاف پابندی ،خالد مشعل اور موسیٰ ابو مرزوق جیسے سینئر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دفاتر کی بندش کے بعد کیا گیا ۔ مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حماس اپنے فیصلوں میں آزاد رہی ہے۔ اسی لیے جب شام میں بشار الاسد نے مارچ ۲۰۱۱ء میں اپنے ہی عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، تو حماس نے ایران سے تعلقات کی خرابی کا خطرہ مول لیتے ہوئے فروری ۲۰۱۲ء میں قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ غزہ میں حماس کی منتخب حکومت کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بشار کے خلاف شامی عوام کی حمایت کا اعلان کیا اور اس طرح ایران کو ناراض کیا ۔ حماس کا سیاسی دفتر قطر میں ہے۔ کیا قطر عرب ملک نہیں ہے؟ محترم دانش ور صاحب نے اپنی گفتگو میں ۱۹۹۳ء میں ہونے والے معاہدے کا بھی ذکر کیا اور ایڈورڈ سعید کے کردار کی تعریف کی ہے، حالانکہ ایڈورڈ سعید کا ’اوسلو معاہدے‘ پر تبصرہ یہ تھا:

"It is an instrument of Palestinian surrender, a Palestinian Versailles".

 ہمیں اسرائیلی پالیسی اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی کارکردگی پر حماس کے Foreign Policy  چیف اسامہ حمدان کا یہ تجزیہ بالکل درست نظر آتا ہے: Abbas had given Israel everything but on other hand has received nothing in return. (عباس نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو وہ چاہتا تھا، مگر دوسری جانب کچھ بھی وصول نہ کیا)

اس تحریر کا مقصد قارئین کو بھارت یا پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی اپیل کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے ضمیر، انسانی ہمدردی، اور اخلاقی حِس کو مخاطب کرنا ہے۔

حقِ خودارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کی توثیق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں کی گئی اور متعدد بین الاقوامی تنازعات کے حل میں اسے کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔

  • حقِ خودارادیت کا تاریخی ارتقاء: یہ تصورِ حکومت فرانسیسی انقلاب کی بنیاد تھا۔ ۱۹۱۶ء میں امریکی صدر ولسن نے کہا تھا کہ خودارادیت محض ایک جملہ نہیں بلکہ عمل کا ایک لازمی اصول ہے اور اسے اپنے مشہور ۱۴ نکاتی چارٹر میں شامل کیا تھا، جس سے خودارادیت کے اصول کو نمایاں حیثیت ملی۔

۱۴؍اگست ۱۹۴۱ء کے اٹلانٹک چارٹر میں، جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے جاری کیا، تمام افراد یا قوموں کا اپنی حکومت کے انتخاب کا حق تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو خودمختار حقوق واپس دیے جائیں، جن سے زبردستی یہ حقوق چھین لیے گئے تھے۔

آخر کار، ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کے قیام نے خودارادیت کے اصول کو ایک نئی جہت دی اور اسے ان مقاصد میں شامل کیا گیا جنھیں اقوام متحدہ نے حاصل کرنے کا ہدف قرار دیا تھا، ساتھ ہی تمام اقوام کے مساوی حقوق کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۱.۲ میں مقاصد میں سے ایک درج ہے: ’’قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، جو مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے احترام پر مبنی ہو‘‘۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادیں: ۱۹۵۲ء سے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے خودارادیت کے حق کو تسلیم کرنے والی متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ان میں دو سب سے اہم قراردادیں ۱۴ دسمبر ۱۹۶۰ء کی قرارداد ۱۵۱۴ (XV) اور۲۴؍ اکتوبر ۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵(XXV) ہیں۔

۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، خودارادیت کے حق کو تقریباً مکمل طور پر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ قرارداد ۱۵۱۴ کا عنوان ہے: ’نوآبادیاتی ملکوں اور قوموں کو آزادی دینے کا اعلامیہ‘۔ اس میں اصول کا یہ بیان شامل ہے: ’’تمام قوموں کو خودارادیت (Self-determination)کا حق حاصل ہے؛ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

۱۹۷۰ء کی قرارداد ۲۶۲۵نے ایک دستاویز منظور کی جس کا عنوان تھا:’دوستانہ تعلقات اور ریاستوں کے درمیان تعاون سے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا اعلامیہ‘۔ ایک حصہ، جس کا عنوان ہے:’قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت کا اصول‘، اعلامیہ میں کہا گیا: ’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج قوموں کے مساوی حقوق اور خودارادیت (Self-determination) کے اصول کے تحت، تمام قوموں کو حق حاصل ہے کہ وہ بیرونی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کریں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آگے بڑھائیں، اور ہر ریاست کا فرض ہے کہ اس حق کا احترام کرے، جیسا کہ چارٹر کی دفعات میں مقرر کیا گیا ہے‘‘۔

  • بین الاقوامی معاہدے : ۱۹۶۶ء میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICCPR) اور ’اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے‘ (ICESCR) کو منظور کیا۔ دونوں معاہدوں کے آرٹیکل ۱ میں بیان کیا گیا ہے:

’’۱.۱تمام قوموں کو خودارادیت کا حق حاصل ہے۔ اس حق کے تحت وہ آزادانہ طور پر اپنا سیاسی درجہ طے کرتی ہیں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آزادانہ طور پر آگے بڑھاتی ہیں‘‘۔

یہ معاہدے ۱۹۷۶ء میں نافذ ہوئے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے برعکس، بین الاقوامی قانون کے تحت توثیق کرنے والی ریاستیں ان کی پابند ہیں، بشرطیکہ توثیق کے وقت کوئی تحفظات پیش نہ کیے گئے ہوں۔ بھارت نے ان دونوں معاہدوں کی توثیق ۱۰؍ اپریل ۱۹۷۹ء کو کی تھی۔

  • بین الاقوامی عدالت انصاف : بین الاقوامی عدالت انصاف نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے عمل پر کئی قراردادوں پر غور کرتے ہوئے نوٹ کیا:’’اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج غیرخودمختار علاقوں کے متعلق بین الاقوامی قانون کی بعد کی ترقی نے خودارادیت  (Self-determination) کے اصول کو ان سب پر لاگو کر دیا‘‘۔یہ رائے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے (De-colonization) کے عمل کے لیے خودارادیت کو بنیادی اصول کے طور پر قائم کرتی ہے۔
  • خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر: جموں و کشمیر کے مخصوص معاملے پر خودارادیت کے اصول کے اطلاق کو اقوام متحدہ نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ جب ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تو انڈیا اور پاکستان دونوں نے اس اصول کی حمایت کی اور عالمی برادری کے سامنے اسے قبول کرنے کا عہد کیا۔ چونکہ انڈیا اور پاکستان کے خودمختار ریاستیں بننے کے وقت جموں و کشمیر ان میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا، اس لیے دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کشمیری عوام کو غیر جانبدار حالات میں اور کسی بھی جانب سے دباؤ کے بغیر خودارادیت کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

یہ خیال کہ جموں و کشمیر کی حیثیت کا تنازعہ صرف عوام کی مرضی کے مطابق طے ہو سکتا ہے، جو آزاد اور غیر جانب دار استصواب رائے کے جمہوری طریقۂ کار سے معلوم ہو، پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کسی اختلاف کے بغیر اس کی حمایت کی اور اسے امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر جمہوری ریاستوں نے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

  • کشمیر اور امریکا کا کردار: جب  ۱۹۴۷ء- ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر پیدا ہوا، تو امریکا نے یہ موقف اپنایا کہ: کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کشمیری عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کے مطابق طے کی جانی چاہیے‘‘۔ امریکا نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر۴۷ کی سرپرستی کی، جو ۲۱؍ اپریل ۱۹۴۸ء کو منظور کی گئی، اور جو اس حقِ خود ارادیت کے غیر متنازعہ اور متفقہ اصول پر مبنی تھی۔

اس قرارداد کے بعد، امریکا ’اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان‘ (UNCIP) کے ایک اہم رکن کے طور پر اس موقف پر قائم رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی فارمولا کمیشن کی ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادوں میں شامل کیا گیا۔

امریکا اور برطانیہ نے روایتی طور پر استصواب رائے (Plebiscite)کے معاہدے کو مسئلہ حل کرنے کا واحد راستہ سمجھا ہے۔ انھوں نے سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کی سرپرستی کی، جن میں استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کی وابستگی اس وقت ظاہر ہوئی جب امریکی صدر ہیری ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ذاتی اپیل کی کہ غیر مسلح ہونے کے تنازعے کو استصواب رائے کے منتظم، ایک ممتاز امریکی جنگی ہیرو، ایڈمرل چیسٹر نمٹز کے ذریعے ثالثی کے لیے پیش کیا جائے۔ انڈیا نے اس اپیل کو مسترد کر دیا اور بعد میں کسی امریکی کے استصواب رائے کے منتظم کے طور پر کام کرنے پر اعتراض کیا۔ ایک اور امریکی سینیٹر فرینک گراہم نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے طور پر برصغیر کا دورہ کیا تاکہ استصواب رائے سے قبل کشمیر کو غیر مسلح کرنے پر بات چیت کریں۔ انڈیا نے ان کی تجاویز کو بھی مسترد کر دیا۔ یہ معاملہ صرف اس وقت متنازعہ ہوا جب انڈیا کو احساس ہوا کہ وہ استصوابِ رائے کے نتیجے میں تائید حاصل نہیں کرسکتا۔

  • کشمیر میں استصواب رائے پر اتفاقِ رائـے: اقوام متحدہ میں دیے گئے بیانات میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی امور پر اختلافات تھے، لیکن استصواب رائے کی تجویز پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات ۲۸ جنوری ۱۹۴۸ء کو بلجیم کے سفیر فرنانڈ فاین لینگن ہووین، جو سلامتی کونسل کے صدر تھے، کے بیان سے واضح ہے۔ انھوں نے کہا:

… ہمارے پاس موجود دستاویزات فریقین کے درمیان درج ذیل تین نکات پر اتفاق ظاہر کرتی ہیں:

                        ۱-         یہ سوال کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت میں شامل ہوگی یا پاکستان میں، استصواب رائے کے ذریعے طے کیا جائے گا۔

                        ۲-         یہ استصواب رائے ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے جو مکمل غیر جانبداری کو یقینی بنائیں۔

                        ۳-         لہٰذا، یہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقد کیا جائے گا۔

  • اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان: اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان (UNCIP) نے، جو سلامتی کونسل نے قائم کیا تھا، انڈیا اور پاکستان کے ساتھ قریبی اور مسلسل مشاورت کے ذریعے تصفیے کی ٹھوس شرائط طے کیں۔ یہ شرائط دو قراردادوں میں واضح کی گئیں جو ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵جنوری ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئیں۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ تین میں معاہدے میں کہا گیا:

انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق طے کی جائے گی، اور اس مقصد کے لیے جنگ بندی معاہدے کی منظوری پر، دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مشاورت کرنے پر متفق ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور مساوی حالات کا تعین کیا جا سکے جن کے ذریعے آزادانہ اظہار رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔

۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد میں یہ حکم دیا گیا کہ جموں و کشمیر ریاست میں تمام حکام استصواب رائے کے منتظم کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کشمیری عوام کی آزادانہ رائے شماری کے لیے بنیادی حالات کو یقینی بنایا جا سکے، جس میں اظہار رائے اور اجتماع کے بنیادی سیاسی حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

چونکہ دونوں حکومتوں نے کمیشن کی تجاویز کو رسمی طور پر قبول کر لیا تھا، اور یہ ایک بین الاقوامی معاہدے کے طور پر اتنی ہی پابند تھیں جتنی کہ ایک معاہدہ۔ فوری طور پر جنگ بندی نافذ کی گئی۔ کمیشن نے انڈیا اور پاکستانی افواج کو ریاست سے اس طرح نکالنے کے لیے منصوبہ بندی پر بات چیت شروع کی کہ کسی بھی فریق کو نقصان نہ ہو اور استصواب رائے کی آزادی کو خطرہ نہ ہو۔ اس دوران امریکی ایڈمرل چیسٹر نمٹز کو استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر نامزد کیا گیا۔

  • استصواب رائے: انڈیا کی پیش کردہ تجویز: انڈیا کے مندوب سرگوپال سوامی آئینگر کے ۱۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ میں دیے گئے بیان میں یہ واضح کیا: ’’یہ سوال … کیا کشمیر ، انڈیا سے الحاق واپس لے، اور پاکستان سے الحاق کرے یا آزاد رہتے ہوئے اقوام متحدہ کا رکن بننے کا حق حاصل کرے ___ یہ سب ہم نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیری عوام کے فیصلے سے طے ہو‘‘۔

مہاتما گاندھی نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی حکومت کی پوزیشن ان الفاظ میں بیان کی: ’’اگر کشمیری عوام پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی۔ انھیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے‘‘۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ۲ جنوری ۱۹۵۲ء کو اعلان کیا:’’ہم نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے اور قابلِ احترام وعدہ کیا ہے کہ ہم نے مسئلے کے حتمی حل کو کشمیری عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔

  • استصواب رائے کے انتظامات: یہ بات واضح ہے کہ آج بھی استصواب رائے کے انعقاد کے طریقۂ کار میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کشمیر کے لیے امن منصوبے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کی گئی بات چیت کے دوران یہ مکمل طور پر طے کر دیا گیا تھا۔ دونوں طرف کی افواج کی مرحلہ وار واپسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے استصواب رائے کے منتظم کا تقرر، ان کے اختیار میں انتخابی عمل کے ادارے کا قیام، اور اختیارات کا استعمال۔ یہ تمام امور فریقین کے علم میں ہیں۔ اگر ایک قابلِ اعتماد طریقے سے امن کا عمل شروع کیا جائے، تو محض معمولی تفصیلات پر بات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ مسئلے کے اندرونی مسائل نہیں، بلکہ حل کو نافذ کرنے کی خواہش اور عزم کی کمی ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر طویل تعطل پیدا کیا ہے۔ یہ تعطل کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ بیان اذیت اور انڈیا و پاکستان دونوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بنا ہے۔

جب ہم کشمیر سے افواج کی واپسی کی بات کر رہے ہیں، تو بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ اس نے ان قراردادوں کے تحت اپنی افواج کشمیر سے واپس نہیں بلائیں۔ یہ ہراعتبار سے غلط بات ہے۔

پروفیسر جوزف کوربل، جو ’اقوامِ متحدہ کمیشن برائے بھارت و پاکستان‘ کے پہلے چیئرمین تھے، انھوں نے اس سوال کا جواب اپنے مضمون ’نہرو، اقوامِ متحدہ اور کشمیر‘ میں دیا ہے، جو ۴مارچ ۱۹۵۷ء کو دی نیو لیڈر  میں شائع ہوا۔ جوزف کوربل لکھتے ہیں:

بھارتی مندوب کے مطابق: ’پاکستان نے اقوامِ متحدہ کمیشن کی قرارداد کے اس حصے پر عمل درآمد روک دیا جو استصوابِ رائے سے متعلق ہے، کیونکہ اس نے کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے کی تجویز پر عمل نہیں کیا‘۔ یہ سچ نہیں ہے۔ پاکستان سے اس وقت تک یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی افواج کشمیر سےواپس بلائے جب تک بھارت کے ساتھ افواج کی بیک وقت واپسی کے لیے کوئی متفقہ منصوبہ نہ ہو۔

  • خود ارادیت کے حق کے عوامل: اقوام متحدہ کے دو مطالعات نے خودارادیت کے حق کے لیے درکار عوامل کو درج کیا: ۱- ایک شناخت شدہ علاقہ ہونا چاہیے۔۲- خود حکمرانی کی تاریخ موجود ہو۔ ۳- عوام اپنے اردگرد کے لوگوں سے مختلف ہوں۔ ۴- عوام میں خود حکمرانی کی صلاحیت موجود ہو۔ ۵- عوام کو یہ حق خود حاصل کرنا چاہیے۔

ان تمام عوامل کے مطابق کشمیریوں کا خودارادیت کے حق کا دعویٰ غیرمعمولی طور پر مضبوط ہے۔ اس علاقے کی خود حکمرانی کی ایک طویل تاریخ ہے، جو نوآبادیاتی دور سے پہلے کی ہے۔ کشمیر نے کامیابی سے اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی، جب اسے تیسری صدی قبل مسیح میں سکندراعظم کے دور میں اور ۱۶ویں اور ۱۷ویں صدی کے مغل دور میں زیر کیا گیا۔ کشمیر کی حدود کئی صدیوں سے واضح طور پر متعین ہیں اور دنیا کے نقشوں پر بھی واضح طور پر دکھائی گئی ہیں۔ کشمیر کا رقبہ تقریباً ۸۶ہزار مربع میل پر محیط ہے، جو برطانیہ سے کچھ بڑا اور بیلجیم، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ کے مجموعی رقبے سے تین گنا بڑا ہے۔

کشمیری عوام کشمیری زبان بولتے ہیں، جو ہندی یا اردو سے مختلف ہے۔ ان کی ثقافت بھی ہر لحاظ سے علاقے کی دیگر ثقافتوں سے منفرد ہے - لوک کہانیاں، لباس، روایات، کھانے پینے کی اشیاء، یہاں تک کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء جیسے برتن، زیورات، خاص کشمیری انداز رکھتے ہیں۔ خاص طور پر کپڑے، کڑھائی اور قالین کشمیری ڈیزائن کے لیے مشہور ہیں۔

  • تنازعہ کشمیر کی نمایاں خصوصیات: کشمیر کی صورت حال میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اسے دنیا بھر میں موجود دیگر انسانی حقوق کی افسوس ناک خلاف ورزیوں کے سبب منفرد بناتی ہیں:

             ۱-        یہ ایک ایسے علاقے میں موجود ہے جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے تحت ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق، اس علاقے کی حیثیت عوام کے آزادانہ ووٹ کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں طے کی جانی ہے۔

            ۲-         یہ ایک ایسی حکومت کی جانب سے جبر کی نمائندگی کرتا ہے جو علیحدگی پسند یا علیحدگی کی تحریک کے خلاف نہیں بلکہ غیر ملکی قبضے کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ قبضہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت ختم ہونے کی توقع تھی۔ کشمیریوں کو ’علیحدگی پسند‘ کہنا درست نہیں کیونکہ وہ کسی ایسے ملک سے الگ نہیں ہو رہے کہ جس کے ساتھ وہ کبھی شامل ہی نہیں ہوئے۔

            ۳-         اقوام متحدہ نے اس معاملے کو نظرانداز کیا ہے۔ اس بے پروائی نے انڈیا کو مکمل استثنیٰ کا احساس دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے اصولوں کے اطلاق میں متعصبانہ رویہ رکھتی ہے۔

            ۴-         یہ اقوام متحدہ کے غیر فعال ہونے کا ایک افسوس ناک کیس ہے، جو ایک ایسی صورت حال کو حل کرنے سے قاصر ہے، جس پر اس نے متعدد قراردادیں منظور کیں اور اپنی موجودگی قائم کی۔ انڈیا اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گروپ (UNMOGIP) اقوام متحدہ کے سب سے پرانے امن مشنوں میں سے ایک ہے۔ یہ فورس کشمیر میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تعینات ہے۔

            ۵-         کشمیر واحد بین الاقوامی تنازع ہے جس کا حل خود فریقین – انڈیا اور پاکستان – نے تجویز کیا۔ یہ حل کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کریں، انڈیا کی طرف سے تجویز کیا گیا، پاکستان نے اس کی حمایت کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے قبول کیا۔

            ۶-         کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جو تین ایٹمی ممالک – انڈیا، پاکستان اور چین – کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

  • کشمیر کی صورتِ حال: بین الاقوامی برادری نے بھارت کے کشمیر پر قبضے کو بغیر کسی مداخلت کے چھوڑ دیا ہے، حالانکہ اس قبضے کی قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ تاہم، کسی بھی مرحلے پر کشمیری عوام نے اس قبضے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی مخالفت کی تاریخ مشرقی یورپ کے ان ممالک کی مخالفت سے کسی طور کم نہیں جن پر کمیونسٹ روسی سلطنت کا غلبہ تھا۔ لیکن جہاں مشرقی یورپ کی عوامی بغاوت کو بین الاقوامی میڈیا نے اُجاگر کیا، وہیں کشمیر کی بغاوت دنیا کی نظر سے اوجھل رہی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (UNHCHR) نے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو ’کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال‘ پر رپورٹس جاری کیں۔ ان رپورٹس میں انڈین قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلی دستاویزات شامل ہیں۔ یہ ایک اہم قدم تھا جس سے کشمیری عوام پر انڈین فوج کے مظالم بین الاقوامی سطح پر سامنے آئے۔

رپورٹ میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف جمہوری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات درج ہیں۔ اس میں متعدد ایسے مواقع کی تفصیلات دی گئی ہیں جہاں سخت قوانین کے استعمال نے انڈین فوج کو مکمل استثنیٰ فراہم کیا۔ رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ اور انصاف تک رسائی کا فقدان جموں و کشمیر میں کلیدی چیلنجز ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ ’’کشمیر میں جبری گمشدگیوں کے لیے استثنیٰ برقرار ہے کیونکہ شکایات کی تحقیقات یا وادیٔ کشمیر اور جموں کے علاقوں میں مبینہ اجتماعی قبروں کے مقامات کی قابل اعتماد تفتیش کی طرف بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔

  • تنازعہ کشمیر کا انڈیا اور پاکستان پر اثر: اس مسئلے کے مسلسل موجود رہنے نے انڈیا اور پاکستان دونوں کو کمزور کیا ہے۔ یہ صورتِ حال گذشتہ صدی میں بھی ایک حقیقت تھی اور اکیسویں صدی کے ابھرتے ہوئے ماحول میں بھی یہی حقیقت برقرار ہے۔ امریکا، انڈیا کی اقتصادی ترقی پر خوشی کا اظہار کرتا ہے، جو انڈیا کو ایک طاقت کے طور پر اپنا مناسب کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ لیکن ایک سلگتے ہوئے مسئلے کے ساتھ یہ کردار محدود ہوسکتا ہے۔

انڈیا اپنے آپ کو عالمی برادری میں بڑا دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ایک ملک متنازعہ سرحدوں کے ساتھ اپنی ساکھ اور اثر و رسوخ برقرار نہیں رکھ سکتا۔درحقیقت، کچھ باشعور مبصرین پہلے ہی بھارتی متوسط طبقے میں بڑھتی ہوئی اس آگاہی کو محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا مستقل طور پر پایا جانا انڈیا کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح خود انڈیا میں ہمیشہ ایسے معقول عناصر موجود رہے ہیں، جنھوں نے کشمیر پر انڈیا کے جارحانہ رویے کے اخلاقی اور عملی پہلو پر سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم، انھیں باہر سے بہت کم حمایت ملی ہے، جس کی وجہ سے وہ دبے رہے ہیں۔

انڈیا کی پالیسیوں کی ظاہری ناکامی، کشمیر میں قائم کی گئی شکست خوردہ حکومت اور وہاں ہونے والے نقصانات، جنھیں کشمیری عوام کو دبانے کے لیے زبردست قوت کے استعمال کے باوجود برداشت کرنا پڑا۔ – یہ سب چیزیں انڈیا میں، یہاں تک کہ اس کی فوج میں، مزید لوگوں کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ یہ فائدہ مند نہیں ہے۔ لیکن یہ تعمیری رجحان اس وقت ختم ہو جائے گا اگر دنیا کی طاقتیں بھارت کی ہٹ دھرمی کو برداشت کرتی نظر آئیں اور خود انڈیا میں صحت مند رائے عامہ کو نظرانداز کریں۔

  • دوطرفہ مذاکرات ___ کوئی حل نہیں: جنوبی ایشیا کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اُمید وابستہ کرنا: کشمیر تنازع کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، حقیقت پسندانہ نہیں۔

اس کے ساتھ ہی، آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان تین طرفہ مذاکرات ہی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا واحد راستہ ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی قیادت اس حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ جموں و کشمیر کے عوام کی مکمل اور فعال شرکت کے بغیر کشمیر تنازع کا کوئی حل ممکن نہیں۔

  • لائن آف کنٹرول کی حقیقت: ایک غلط سمت متعین کرنے والی نشانی لائن آف کنٹرول (LoC) کے ’تقدس‘ کی بات ہے۔ یہ لائن اس وقت تک موجود ہے جب تک کہ وہ بین الاقوامی معاہدہ، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی مکمل حمایت کے ساتھ طے پایا تھا، مکمل طور پر عمل میں نہیں آتا۔ یہ لائن اصل میں ریاست کی غیر عسکری حیثیت اور اس کے مستقبل کے تعین کے لیے غیر جانب دارانہ کنٹرول کے تحت استصوابِ رائے کے انعقاد کے لیے ایک ’عارضی جنگ بندی لائن‘ کے طور پر رسمی شکل دی گئی تھی۔جب تک یہ لائن ریاست پر مسلط رہے گی، یہ وہاں کے لوگوں پر موت کا بھاری بوجھ ڈالتی رہے گی۔ یہ لوگوں کے گھروں کو تقسیم کر چکی ہے، اس نے خاندانوں کو جدا کر دیا ہے اور بدترین بات یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے ایک دیوار کا کام کرتی رہی ہے۔
  • آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵- اے کا خاتمہ: یہ حقیقت ہے کہ آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ -اے کا خاتمہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق پر حملہ اور جارحیت کا عمل تھا۔ ایسے اقدامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۹۱ (۱۹۵۱ء)، ۱۲۲ (۲۴جنوری ۱۹۵۷ء)،۱۲۳ (۲۱ فروری ۱۹۵۷ء) اور ۱۲۶ (۲دسمبر ۱۹۵۷ء) کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ان قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۲۲ واضح کرتی ہے کہ ’’آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی جنرل کونسل کی سفارش پر ایک آئینی اسمبلی کا انعقاد اور اس اسمبلی کے ذریعے ریاست کی مستقبل کی شکل اور الحاق کے بارے میں کیے گئے یا کیے جانے والے کسی بھی اقدام کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق ریاست کا فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا‘‘۔

  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان : اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس نے ۸؍ اگست ۲۰۱۹ء کو پریس بریفنگ میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کے یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا:’’اقوام متحدہ کا اس خطے (جموں و کشمیر) پر موقف اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے مطابق ہے‘‘۔
  • ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کے انڈین اقدامات: ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے انڈین حکومت نے اپنے غیر قانونی قبضے کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو کچلنے کے لیے نئے جابرانہ اقدامات کیے ہیں۔ پہلے، انھوں نے انڈین دستور کے آرٹیکل ۳۷۰  اور ۳۵ -اے کو منسوخ کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے قانونی قبضے کی کسی بھی سابقہ شناخت کے نشانات کو مٹا دیا۔ انھوں نے مکمل فوجی لاک ڈاؤن نافذ کیا اور مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ مسلط کر دیا۔ ان احتجاجوں اور مزاحمت کو روکنے کے لیے جو ان اقدامات کے نتیجے میں متوقع تھے، ایک بے رحم مہم کے تحت انھوں نے سیاست دانوں، صحافیوں، اور سول سوسائٹی کے افراد کو گرفتار کر کے ہر قسم کی مخالفت کو دبانے کی کوشش کی۔
  • جموں و کشمیر کی حیثیت بدلنے کی کوشش: اس کے بعد، انڈین حکومت نے ایک منصوبہ بند سامراجی منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد کشمیر تنازع کی سیاسی نوعیت کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنا ہے۔ اس میں آبادیاتی تبدیلیاں، سیاسی اور انتظامی حربے شامل ہیں۔ حال ہی میں نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے ان تبدیلیوں کو مستحکم کیا گیا، جن کے تحت جموں و کشمیر سے باہر کے لوگوں کو یہاں کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ یہ پہلا قدم تھا تاکہ انھیں زمین خریدنے اور مقامی ملازمتوں کے لیے مقابلہ کرنے کا حق دیا جا سکے۔ ان یکطرفہ تبدیلیوں کے ذریعے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ اس بین الاقوامی تنازع کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہیں۔
  • انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: انڈیا کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے تازہ ترین اقدامات سیاسی طور پر جانب دار ہیں اور کشمیری عوام کی پُرامن آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) کو بارہا انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے، انھیں گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جو انڈین  فوج کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تازہ ترین شکار خرم پرویز ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر معروف انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے محافظین کے لیے خصوصی نمائندہ مس ماری لاولر نے ۲۳ نومبر ۲۰۲۱ء کو کہا: ’’وہ (خرم پرویز) دہشت گرد نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں‘‘۔اسی قانون کے تحت دیگر متاثرین میں محمد یاسین ملک (چیئرمین، جے کے ایل ایف)، شبیر احمد شاہ (۳۵ سال سے زائد قید میں رہے)، مسرت عالم، آسیہ اندرابی، مسز صوفی فہمیدہ، اور مسز ناہید نسرین شامل ہیں۔

  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت: یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سات عشرے گزر چکے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کے لیے طے شدہ اصولی حل آج تک نافذ العمل نہیں ہو سکا۔ وقت کا گزرنا یا حقائق سے فرار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں کبھی غیر مؤثر نہیں ہو سکتیں یا تبدیل شدہ حالات کے سبب ختم نہیں ہو سکتیں۔ وقت کا گزرنا کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت جیسے ناقابل تنسیخ اصول کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر وقت گزرنے سے عالمی معاہدے ختم ہو جائیں، تو اقوام متحدہ کے چارٹر کو بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہیے، جیسا کہ کشمیر پر قراردادوں کے ساتھ ہوا۔

۱۹۹۵ءمیں بین الاقوامی کمیشن برائے انصاف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو کبھی ختم نہیں کیا گیا اور انڈیا اور پاکستان کو تجویز دی کہ وہ ایک ایسا حل تلاش کریں جس کی ریاست کے عوام ریفرنڈم میں منظوری دیں۔

  • نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ : سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل کے لیے نقطۂ آغاز کیا ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے:۱- اقوام متحدہ کا چارٹر، جو اپنے پہلے آرٹیکل میں ’برابر حقوق اور عوام کے حقِ خود ارادیت کے اصولوں کے احترام‘ کی بات کرتا ہے۔۲- انڈیا اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی معاہدے۔
    • سب سے پہلے، اس خیال کی انصاف اور معقولیت ناقابلِ انکار ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا مستقل حل عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور عوام کی مرضی کو جانچنے کا واحد طریقہ غیرجانب دارانہ رائے شماری ہے۔
    • دوسرا، کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے کوئی ناقابل عبور رکاوٹیں موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ نے دنیا کے مشکل ترین حالات میں بھی انتخابی عمل کو اپنی نگرانی میں کامیابی سے انجام دیا ہے، جیسا کہ نمیبیا اور مشرقی تیمور کی مثالیں ہیں۔ یہ ممالک بالترتیب سات دہائیوں اور ۲۷  برسوں کے قبضے کے بعد آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
    • تیسرا، اقوام متحدہ کے نمائندے سر اوون ڈکسن نے سات عشرے قبل تصور پیش کیا تھا کہ ریفرنڈم کو اس طرح علاقائی بنایا جا سکتا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں کو اپنی مرضی کے خلاف نتائج قبول نہ کرنے پڑیں۔
  • اقوام متحدہ کی ذمہ داری: کشمیری عوام اقوام متحدہ سے اب بھی امید رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی سنگین صورتِ حال سلامتی کونسل کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا انحصار مستقل ارکان کے رویے اور پالیسیوں پر ہے، لیکن انھیں اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مسئلے کے حل میں ناکامی پورے جنوبی ایشیائی خطے میں شدید بدامنی پیدا کر سکتی ہے اور ممکنہ طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کا باعث بن سکتی ہے، جس کے عالمی سطح پر ناقابلِ تصور نتائج ہوں گے، کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کشمیری عوام ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوتریس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۹۱ کے تحت کشمیر کی صورتِ حال میں مداخلت کریں۔ کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظم، جانتے بوجھتے اور انڈین حکومت کی سرپرستی میں کی جارہی ہیں۔ انڈیا نے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو قانونی حیثیت دی ہوئی ہے، اور اپنی قابض افواج کو گولی مارنے اور کشمیری عوام پر ظلم کرنے کا مکمل اختیار دے رکھا ہے۔

  • حل کی طرف پیش رفت: تنازع کو پاکستان اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کی قیادت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ انڈین حکومت ایک غیر متشدد ماحول پیدا کرے۔ یہ درج ذیل اقدامات کے ذریعے ممکن ہے:

۱- شہری آبادی کے خلاف تمام فوجی اور نیم فوجی کارروائیوں کا فوری خاتمہ۔

۲- شہروں اور دیہاتوں سے فوج کی واپسی۔

۳- بنکرز، واچ ٹاورز اور رکاوٹوں کا خاتمہ۔

۴- سیاسی قیدیوں کی رہائی۔

۵- آبادیاتی تبدیلی کے لیے بنائے گئے ڈومیسائل قانون کو منسوخ کرنا۔

۶- جابرانہ قوانین کو ختم کرنا۔

۷- پُرامن اجتماع، مظاہروں اور تنظیم سازی کے حقوق بحال کرنا۔

۸- حریت قیادت کو بیرون ملک سفر کی اجازت دینا۔

۹-کشمیری قیادت کو جموں و کشمیر کے دورے کے لیے ویزا دینا تاکہ امن عمل شروع کیا جاسکے۔

  • کیا کرنے کی ضرورت ہـے؟  : کشمیر کا حل فوری اور ناگزیر ہے۔ اس کی آبادی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت دنیا کے دیگر تنازعات سے زیادہ ہے۔ کشمیری عوام کے دُکھ درد ہیٹی کے عوام کے مصائب سے کم نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا کا ایٹمی بحران کوریا کے مقابلے میں کم خطرناک نہیں ہے۔ انڈین قابض افواج کی طرف سے کشمیری عوام پر کیے جانے والے اجتماعی جنسی تشدد بوسنیا سے کم ذلت آمیز نہیں ہیں۔

انڈیا کی بڑھتی ہوئی ضد اور بین الاقوامی وعدوں کو نظر انداز کرنے کے پیش نظر، حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے کی وکالت کے لیے اپنی پالیسی کو اَزسرنو مؤثر بنانا ہوگا۔ اگر پاکستان اس معاملے پر کسی مضبوط اور مؤثر حکمت عملی کے بغیر سست روی کا مظاہرہ کرے گا تو اس کے نتیجے میں انڈیا صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتا رہے گا۔

پاکستان کی موجودہ داخلی سیاست اہلِ کشمیر کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وہ اپنی کامیابی صرف ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کشمیر کے مسئلے پر مکمل اتفاق رائے کے ساتھ نظر آئے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کمزوری انڈیا کے شدت پسند قوم پرست میڈیا کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگی۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے پر کانفرنسز اور سیمینار منعقد کرے تاکہ اس مسئلے پر تفصیل سے بحث ہو اور ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جا سکے جو تین فریقین: بھارت، پاکستان، اور آل پارٹیز حریت کانفرنس (APHC) کے درمیان فعال اور مؤثر مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔ اس سے کم کسی بھی کوشش سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکامی ہوگی، جو خطے کو ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے ۱۴ جون ۲۰۱۸ء اور ۸جولائی ۲۰۱۹ء کو جاری کی گئی رپورٹس، جن میں ’کشمیر کی صورتِ حال‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت پاکستان کو انسانی حقوق کونسل کے او آئی سی ارکان پر زور دینا چاہیے کہ وہ ان رپورٹس کی حمایت کریں اور آئندہ جنیوا میں جون-جولائی ۲۰۲۵ء اور ستمبر-اکتوبر ۲۰۲۵ء کے دوران ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن کے قیام کے لیے مشترکہ او آئی سی قرارداد پیش کریں۔

ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن، چیئرمین ’جینوسائیڈ واچ‘، کی ۱۲ جنوری ۲۰۲۲ء کو امریکی کانگریس میں دی گئی گواہی اور ۱۹جنوری ۲۰۲۲ء کو کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے بیان کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی تیاری ہو رہی ہے، جو کشمیر اور آسام سے شروع ہو رہی ہے‘‘۔

حکومت پاکستان کو ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو قائل کرنا چاہیے کہ وہ کشمیری تارکینِ وطن کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں، جیسے طلبہ، اسکالرز، کارکنان، صحافی اور کاروباری افراد۔ او آئی سی کے رکن ممالک ان ہنر مند اور پیشہ ور کشمیریوں کے لیے ویزا، ملازمتوں، اور نقل مکانی کی سہولت کو ادارہ جاتی انداز میں یقینی بنائیں، جن کے لیے مودی کے انڈیا میں رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔

او آئی سی کو انڈیا مقبوضہ کشمیر کے مستحق طلبہ کے لیے اپنے تمام رکن ممالک میں اسکالرشپ پروگرام شروع کرنا چاہیے۔

آخر میں، یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ کئی اہم دارالحکومتوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ’جنرل پرویز مشرف فارمولا‘ پر عمل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن ایک نکتے کے علاوہ، یعنی فوجوں کی واپسی (کشمیر کو غیر فوجی بنانا تاکہ تنازعے کا حل نکل سکے)، دیگر تمام نکات یا تو سراسر جھوٹ ہیں یا انڈین موقف کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ’مشرف فارمولا‘ ایک مکمل فریب (absolute fallacy) ہے۔

یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے رکن ممالک مسئلہ کشمیر کا واحد حل – حقِ خودارادیت کا وہ اَدھورا وعدہ، جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسلسل قراردادوں نے دی ہے – کے حل کی طرف توجہ دیں گے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکی قوانین کے مطابق ہر ۳۰ سال بعد امریکی خفیہ (کلاسیفائیڈ) دستاویزات، عوام کے لیے کھول (یعنی ڈی کلاسیفائی) دی جاتی ہیں۔ ان میں مختلف امریکی سفارت کاروں کے خفیہ مراسلے، ٹیلی گرامز وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے سے بہت سے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ایسے ہی انکشافات کشمیر تنازع کے حوالے سے امریکی ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس سے سامنے آئے ہیں۔

ان کے مطابق تقسیم کے بعد پہلے ڈیڑھ سال تک امریکا، کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے حق میں تھا، تب بھارت میں موجود امریکی سفیر بھی واشنگٹن یہی رپورٹیں بھیجتے تھے کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے رائے لینے کا مطالبہ جائز اور منصفانہ ہے، تاہم بتدریج اپنی مصلحتوں کی بنا پر امریکا اس سے پیچھے ہٹتا گیا۔ امریکیوں نے تب بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو پس پشت ڈال دیا۔

۱۹۵۶ء میں انڈیا میں امریکی سفیر نے اسٹیٹ آفس کو خط لکھا کہ بھارت کسی بھی صورت میں استصواب رائے نہیں کرائے گا اور جنگ کے بغیر اس سے یہ بات نہیں منوائی جاسکتی۔

یہ رپورٹ ممتاز کشمیری اخبار کشمیر ٹائمز نے چند دن قبل شائع کی ہے۔ اس میں ’کشمیر، لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘ کی جانب سے امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کے ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس کےمطالعے کے بعد اخذ کردہ نتائج کا حوالہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ابتدا میں امریکا نے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا انسانی حقوق اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے پر زور دیا کرتا تھا۔ تاہم، جیسے جیسے سرد جنگ کا آغاز ہوا، ایشیا میں اس کے اسٹرے ٹیجک مفادات امریکی خارجہ پالیسی پر غالب آنے لگے، جس کے نتیجے میں کشمیر کے معاملے پر اس کے موقف میں نمایاں تبدیلی آئی۔

۱۹۴۸ء میں امریکا نے کشمیر میں رائے شماری کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستان میں امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کی جانب سے کی گئی بات چیت میں پاکستان کی غیر جانب دار انتظامیہ اور بعد میں رائے شماری کی تجویز کو ’منصفانہ اور جائز‘ قرار دیا گیا۔

امریکا نے بھارت کو آزاد جموں و کشمیر کا تصور پیش بھی کیا اور یہ تجویز سامنے آئی کہ استصواب رائے دو مرحلوں میں ہو۔ کشمیریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں، الگ ملک بناکر؟ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کے ممکنہ سوال پر استصواب رائے ہو۔ امریکی سفارت کاروں نے اس تجویز پر سینئر بھارتی افسران سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔

  • سرد جنگ نے سب کچھ بدل ڈالا:جیسے جیسے سرد جنگ کی شدت بڑھی، امریکی خارجہ پالیسی میں اشتراکی روسی سلطنت کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کو ترجیح دی جانے لگی، جس نے عالمی تنازعات، بشمول کشمیر پر اس کے مؤقف کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ کشمیر چونکہ چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان واقع تھا، اس لیے اس خطے کی اسٹرے ٹیجک اہمیت بڑھ گئی۔

۱۹۵۰ء کے عشرے کے اوائل تک امریکی نقطۂ نظر میں واضح تبدیلی آچکی تھی۔ امریکی سفارت کاروں اور بھارتی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے شماری کی حمایت سے بتدریج دوری اختیار کی گئی۔ ۱۹۵۱ء میں بھارت میں امریکی سفیر لوئے ہینڈرسن کی خط کتابت میں بھارت کی رائے شماری کرانے میں ہچکچاہٹ پر امریکی مایوسی کا اظہار کیا گیا، لیکن ساتھ ہی بھارتی اعتراضات کے حوالے سے زیادہ مفاہمتی رویہ بھی اپنایا گیا۔

  • امریکا کی کشمیر کی آزادی کی مخالفت:دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اقتصادی عوامل نے امریکی پالیسی پر اثر ڈالنا شروع کیا۔ کشمیر کے معدنی وسائل پر بات چیت کے دوران امریکی سفارت کاروں نے ایک خودمختار و آزاد کشمیر کے امکانات پر غور کیا۔ ایک کثیرالقومی ترقیاتی کارپوریشن کی تجاویز سامنے آئیں، جس میں امریکا، برطانیہ، بھارت اور پاکستان شامل ہوں تاکہ کشمیر کے وسائل کا انتظام کیا جا سکے۔ مگر یہ منصوبہ بالآخر ناقابلِ عمل ثابت ہوا۔

۱۹۵۰ء میں امریکی وزیرخارجہ کو ایک یادداشت میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر کشمیر الگ ملک ہوا تو اس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو جائے گا، یوں امریکا، کشمیر کی آزادی کا مخالف ہوگیا۔

۱۹۵۰ء کے عشرے میں امریکا نے کشمیر کے معاملے پر محتاط موقف اختیار کیا۔ بھارتی اور پاکستانی ریاستوں کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ اندرونی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں مایوسی کا احساس موجود تھا، اور امریکی سفارت کار اکثر کسی معاہدے کی عملیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔

۱۹۵۰ء کے عشرے کے وسط تک امریکا نے کشمیر میں فعال طور پر حل تلاش کرنے سے دستبرداری اختیار کرنا شروع کی، جیسا کہ ۱۹۵۶ء کے ایک ٹیلیگرام میں کہا گیا کہ ’’جنگ کے بغیر کوئی دباؤ بھارتی حکومت کو وادیٔ کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرےگا‘‘۔ دراصل یہ جوں کی توں صورتِ حال قبول کرنے کی علامت تھی۔

۱۹۵۷ء میں ان دستاویزات کا اختتام ہوتا ہے۔ سرد جنگ یعنی کولڈ وار نے نہ صرف امریکی خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا بلکہ کشمیر جیسے غیر حل شدہ تنازعات کو بھی چھوڑا۔ آخر کار امریکی اسٹرے ٹیجک مفادات غالب آئے اور حقِ خودارادیت و بین الاقوامی اصول پیچھے رہ گئے۔

  • پنڈت نہرو کا خط اور دھوکا دہی کا اعتراف:مئی ۱۹۴۸ء میں سونمرگ سے اندرا گاندھی نے اپنے والد وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھا، جس میں انھوں نے ذکر کیاکہ کشمیر میں صرف شیخ عبداللہ صاحب ہی رائے شماری جیتنے کے بارے میں پُراعتماد ہیں۔ ’’دراصل اندرا کو خطرہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر استصواب رائے ہوا تو کشمیری، انڈیا کے خلاف رائے دے کر پاکستان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے‘‘۔پنڈت نہرو نے جواب دیا: یہ وعدہ بین الاقوامی رائے عامہ کو دھوکا دینے اور وقت حاصل کرنے کے لیے تھا اور یہ کہ ’’کشمیری لوگ آسانی سے مطمئن ہونے والے ہیں۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی کے تحت اپنی قسمت پر راضی ہو جائیں گے‘‘۔ نہرو کا یہ خط ان کے خطوط کے مجموعہ جات میں شامل ہے، جو شائع ہوچکے ہیں۔

ہمارے ہاں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب بھارت نے خود اقوام متحدہ جا کر استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا؟ پنڈت نہرو کے خطوط اور دیگر دستاویزات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت دانستہ طور پر اقوام متحدہ گیا تھا۔

جب بھارت نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی، تو یہ خدشہ تھا کہ اگر بھارت ایسا نہ کرتا تو پاکستان خود اقوامِ متحدہ سے رجوع کرسکتا تھا یا اقوامِ متحدہ قرارداد منظور کرسکتی تھی جو عمل درآمد کے طریقۂ کار کا تقاضا کرتی۔

کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت درخواست دی، جو پُرامن حل پر زور دیتا ہے اور عمل درآمد کے لیے لازمی طریقۂ کار فراہم نہیں کرتا۔ چونکہ پاکستان نے رائے شماری پر اتفاق کیا تھا، اس لیے اقوامِ متحدہ نے عمل درآمد کا کوئی مخصوص طریقۂ کار وضع نہیں کیا۔

اس حوالے سے قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق خان کا کہنا ہے: یہ انڈین پروپیگنڈا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کم اہم ہے اور کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام متحدہ کے منشور کے بابِ ششم کے تحت تھیں اور اس وجہ سے کم اہمیت کی حامل تھیں، یا اس وجہ سے کم وزن ہیں کہ سلامتی کونسل نے تنفیذ کا کوئی نظام وضع نہیں کیا۔ بھارتی پروپیگنڈا کے زیر اثر لوگوں کا یہ دعویٰ بین الاقوامی قانون اور تعلقات، دونوں کے لحاظ سے غلط ہے۔

اس لیے بابِ ششم کی قراردادیں ہوں یا بابِ ہفتم کی، دونوں کا وزن یکساں ہے۔  ان میں فرق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جب انڈیا نے یہ قراردادیں نہ صرف اقوامِ متحدہ میں تسلیم کیں، بلکہ باقاعدہ ان پر عمل کا اعلان کیا اور پھر اپنے آئین میں بھی دفعہ ۳۷۰ ڈال کر اسے آئینی حیثیت بھی دے دی، تو پھر یہ سوال ہی بے معنی ہے کہ کیا یہ قراردادیں اس پر لازم تھیں یا نہیں؟ ان کاموں کے بعد وہ اس پر لازم ہوگئیں۔اس لیے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو کمزور قرار دینا درست نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون میں انھی قراردادوں پر تو پاکستان کا، بلکہ کشمیر کا، پورا مقدمہ قائم ہے۔

جب مہاراجا ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی مبینہ درخواست کی، تو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اس الحاق کو قبول کرتے ہوئے مہاراجا کو ایک خط لکھا: ’’یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں قانون اور نظم بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کردیا جائے، ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی رائے سے طے کیا جائے‘‘۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ نے کسی عمل درآمد کے طریق کار کو وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہرو صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا رائے شماری کرانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھیں صرف کشمیر کی وادی اور جموں چاہیے تھا، انھیں باغ، پلندری، میرپور، مظفرآباد وغیرہ کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شیخ عبداللہ کا ان علاقوں میں کوئی اثرورسوخ نہیں ہے اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہمیشہ کی سردردی مول لینے کے مترادف ہوگا۔

  • کشمیری قوم پرستوں کی غلط فہمیاں:جب آزاد جموں و کشمیر کے کچھ نام نہاد قوم پرست دانش وَر کتابیں لکھنا شروع کرتے ہیں، تو وہ آزاد کشمیر کے آزاد ملک ہونے کا خواب دکھاتے ہیں اور غلط طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’دنیا آزاد کشمیر کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار تھی‘‘۔

اس طرح پاکستان کو اس بات کا موردِ الزام ٹھیراتے ہیں کہ اس نے رائے شماری نہیں کروائی۔ یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ ان کے یہ دعوے قطعی طور پر غلط ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات صاف بتا رہی ہیں کہ امریکی یہ نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آئے۔

کشمیری قوم پرستوں کی بیان کی گئی کہانیوں کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قبائلیوں اور بعد میں پاکستانی فوج نے مداخلت نہ کی ہوتی تو مہاراجا کے وزیراعظم مہر چند مہاجن اور ان کے نائب رام لال بٹرا میرپور، پونچھ اور مظفرآباد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ جموں کی طرح مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال کر پاکستان دھکیل دیا جائے۔

  • جموں میں قتلِ عام :جموں میں ہونے والے قتل عام کے بارے میں جاننے کے لیے پھر ممتاز کشمیری صحافی اور کشمیر ٹائمز کے بانی وید بھیسن کی لکھی کتب پڑھنی چاہییں۔ وید بھیسن کے بقول جب وہ بلراج پوری اور اوم صراف جموں میں مہاراجا کی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام پر احتجاج کرنے مہاراجا کے محل پہنچے تو انھیں وزیراعظم مہر چند مہاجن کے پاس لے جایا گیا، جس نے انھیں کہاکہ بطور ہندو انھیں ریاست میں اقتدار تک پہنچنے کے راستے ڈھونڈنے ہوں گے۔ جب وید بھیسن اور دیگر نے حیرت سے پوچھا کہ کشمیر تو مسلم اکثریتی علاقہ ہے، یہاں ہندو حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ اس پر مہاجن نے کھڑکی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ’ایسے‘۔ نیچے کھائیوں میں چند مسلم گجروں کی لاشیں پڑی تھیں جو صبح محل دودھ پہنچانے آئے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ مہاجن کے منصوبے کی وجہ سے جموں کی مسلم اکثریتی آبادی جو ۷۰ فی صد کے قریب تھی، قتل عام کے بعد آدھی رہ گئی۔ یہی سب کچھ مہاجن مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ وغیرہ میں کرنا چاہتا تھا، مگر قبائلی دستوں اور پھر پاکستانی فوج کی مداخلت کی وجہ سے آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں۔ اس نکتے کا ادراک بیش تر کشمیری قوم پرست نہیں کرتے۔

ان حقائق کو پیش کرتے ہوئے معروف کشمیری دانش ور اور صحافی جناب افتخار گیلانی کی مشاورت اور رہنمائی بہت کام آئی۔ انھوں نے کشمیر ٹائمز کی خصوصی رپورٹ کی طرف رہنمائی کی، نہرو کے خط کی تفصیل فراہم کی اور بعض دیگر حقائق بھی آشکار کیے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع کئی منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔ یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھی۔رات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی اور ساتھ ہی نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندے، سٹیو ویٹکوف نقشوں کے پلندے میں اُلجھے ہوئے تھے۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار، اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے۔

لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ ان کواختیار تھا کہ —امریکی صدر بائیڈن نے گذشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مُہرثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بار بار پوزیشن بدلنے کے سبب بات منزل پہ نہ پہنچتی۔

مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پُرسکون تھی۔ اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رُک جاتا۔

مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراونڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آئے ہیں۔ اس طرح ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اُتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ نہیں ہورہا۔ منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات اُلٹے جا رہے تھے، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن سب بے سود۔

ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ سے جنھوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، مسلسل رابطے میں تھے۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ پیش رفت سے دور تھے۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید معاملات لٹکانے سےکام نہیں چلے گا۔ اس چیز نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتے کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اعصاب شکن مذاکرات ۹۶ گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے اشارہ مل گیا اور دو گھنٹے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر معاہدے کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا، مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کو طے تھا اور نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹا کھانے کےلیے پر تول رہے تھے۔ امریکی نمائندے کی سرزنش کے بعد، یعنی معاہدہ کے اعلان کے ۲۴گھنٹے کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیزفائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل دے دی۔

ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو تل ابیب میں واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کر ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیزفائر کےمذاکرات میں تاخیر کرنے کی کوشش کرتےہیں، تو ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اگلے چار سال وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ ہی سے ڈیل کرنا ہے۔ یاد دلایا گیا کہ اسرائیلی کی سیکیورٹی کی صورت حال مضبوط ہے۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے۔ شام اور لبنان کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا سیز فائر میں دیر نہیں کی جاسکتی۔

اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی، جب حماس نے یہ کہہ کر یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کردی کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر قتل۔ اسرائیلی فوج کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔ اس موقعے پر امریکی ثالث نے مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔

اسرائیل-حماس جنگ بندی معاہدہ کی تفصیلات

پہلا مرحلہ (۶ہفتے)

  •  
    • قیدیوں کا تبادلہ: جس میں
    • حماس: ۳۳ ،اسرائیلی قیدیوں (عورتیں، بچّے، ۵۰ سال سے زائد عمر کے شہری) کو رہا کرے گا، جب کہ
    • اسرائیل: فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو رہا کرے گا، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہیں، جو  ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد گرفتار کیے گئے۔
  •  اسرائیلی فوج کا انخلا:
    • غزہ کی سرحد کے اندر ۷۰۰میٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھیں گے (نیٹزریم کوریڈور کے علاوہ)۔
    • ۵۰ویں دن تک فلادلفیہ کوریڈور سے مکمل انخلاء۔
  • نسانی امداد:
    • روزانہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کی اجازت۔
    • شہریوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت۔
    • زخمی فلسطینیوں کی طبّی امداد اور علاج معالجے کے لیے بیرونِ ملک جانے کا راستہ۔
    • رفاہ کراسنگ مصر کے ساتھ سات دن بعد دوبارہ کھولی جائے گی۔

دوسرا مرحلہ،

  •  شرائط:
    • حماس باقی تمام قیدیوں کو رہا کرے گا (زیادہ تر مرد فوجی)۔
    • اسرائیل غزہ سے ’مکمل انخلا‘ کرے گا۔

تیسرا مرحلہ

  • اہم تجاویز:
    • قیدیوں کی لاشوں کے تبادلے۔ ۳  سے ۵  سالہ بین الاقوامی تعمیر نو منصوبہ۔

حکمرانی کا منصوبہ:

  • فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی زیر قیادت عبوری انتظامیہ۔
  • عرب ممالک کی مختصر مدتی سیکیورٹی فورسز، فلسطینی ریاست کے راستے کی شرط کے ساتھ۔
  • حکمرانی اور ریاست کے راستے پر اختلافات باقی ہیں۔

 ثالثی کی ضمانتیں:

  • مصر، قطر، اور امریکا کی
  • مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ضمانتیں۔
  • چھ ہفتوں کے اندر تمام مراحل کے نفاذ کو یقینی بنانے کا ہدف۔

یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ تمام اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی ابتدا بھی تھی۔

دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ہآرٹز میں لکھا ہے: بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی ۱۵۰ دن سے زیادہ ڈیوٹی کرچکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سیکڑوں دنوں پر محیط ہے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے۲ لاکھ ۹۵ ہزار ریزرو فوجی ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونی ورسٹی میں فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ اور آئی ڈی ایف انٹیلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہش مند ہیں۔ انھوں نے کہا: ’خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں‘۔

جنگ کے آغاز سے اب تک۷۵ہزار کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے ۵۹ہزار صرف ۲۰۲۴ء کے دوران بند ہوئے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو ۴۰ہزار سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گذشتہ برسوں کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں ۱۴۵ فی صد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق: ۲۰۲۴ء میں ۲۱ فوجیوں نے اپنی جان لے لی۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیرحل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں:’’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے‘‘۔ یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا المیہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق: غزہ میں صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات برسوں میں کم از کم ۱۰؍ ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔

بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کےمقصد سے جنگ شروع کی تھی، مگر وہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حماس کے جتنے عسکری اسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے۔

فلسطین کے ممتاز مزاحمتی شاعر محمود درویش [۱۹۴۱ء- ۲۰۰۸ء] نے اپنے اردگرد پھیلے رنج و اَلم کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

جنگ ختم ہو جائے گی اور رہنما ہاتھ ملائیں گے، لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرتی رہے گی، وہ لڑکی اپنے محبوب شوہر کا انتظار کرے گی، اور وہ بچے اپنے بہادر باپ کا انتظار کرتے رہیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کس نے وطن بیچا، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ قیمت کس نے چکائی۔

غزہ میں جنگ ر ک سکتی ہے، لیکن اس کے چھوڑے گئے زخم نسلوں تک رستے رہیں گے۔ جنگ بندی، ایک ایسا لفظ ہے جو زخموں کے لیے مرہم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ان گہرے زخموں کو بھرنے کے لیے ناکافی ہے جن کا تصور بھی مشکل ہے۔ یہ جنگ بندی رحم کا عمل نہیں بلکہ بڑھتے ہوئے عالمی غصے کے دباؤ کو کم کرنے کی ایک مجبوری ہے۔ مہینوں کی بے رحمانہ بمباری کے بعد، جب غزہ کو راکھ اور ملبے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہزاروں افراد، بشمول بچوں کا خون اس کی ریت اور منوں وزنی عمارتی ملبے میں شامل ہوگیا، سوال یہ ہے: اس درندگی کا حساب کون دے گا؟

نیتن یاہو، وہ شخص جس کا نام تاریخ میں ایک ہولناک جنگی مجرم کے طور پر لکھا جائے گا، اسرائیل کی جنگی مشین کا سرغنہ ہے۔ یہ کوئی بے بس جنگی مجرم نہیں، بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس نے جنگ کو سیاسی آلے اور اپنی ڈگمگاتی قیادت اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے ہنرمندی سے استعمال کیا ہے۔ اس نے اپنے عوام کے خوف اور دنیا کی بے حسی کو ہتھیار بنا کر جدید دور کی سب سے سفاکانہ فوجی مہمات میں سے ایک کو انجام دیا۔

غزہ کی تباہی محض ’ضمنی نقصان‘ نہیں تھی بلکہ یہ جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ خاص طور پر ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، پناہ گزین کیمپوں کو مٹی میں ملا دیا گیا، اور پورے خاندانوں کو موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ اسرائیل نے ’درست نشانے‘ کا دعویٰ کیا، لیکن پیچھے بے انتہا تباہی چھوڑی۔ شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا، اور محاصرہ، جس نے غزہ کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا، یہ سب منظم جنگی جرائم ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت، اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو بین الاقوامی قوانین کی بے حُرمتی کے ساتھ، واضح کر چکی ہے کہ کوئی فلسطینی زندگی محفوظ نہیں، چاہے وہ کتنی ہی کم عمر یا معصوم کیوں نہ ہو۔

لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ نیتن یاہو نے اکیلے یہ سب نہیں کیا۔ اس کے بموں پر Made in USA کی مہر تھی۔ وہ ایف-۱۶طیارے جو غزہ کے محلوں کو زمین بوس کر گئے، امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کیے گئے۔ امریکا، جو سفارت کاری کا بہانہ کرتا ہے، عشروں سے اسرائیل کو سزا سے بچانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے غزہ میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیں، اور بار بار اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کا راگ الاپتی رہی۔

غزہ کے زندہ رہنے کے حق کو چھین لیا گیا۔ ان ہزاروں فلسطینی بچوں کا کیا جرم ہے کہ جو کبھی بڑے نہیں ہو سکیں گے، جن کے خاندانوں کی زندگیاں امریکی بموں نے ختم کر دیں؟ اسرائیل کے لیے امریکا کی خفیہ اور علانیہ حمایت ایک زبردست اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر اسرائیل کو جواب دہی سے بچانے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنے کے ذریعے، امریکا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انصاف اور انسانیت سے اسے کچھ علاقہ نہیں۔

یہ جنگ صرف اسرائیل کی بے رحمی یا امریکا کی شراکت داری کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ اس نے پورے عالمی نظام کے دیوالیہ پن کو بھی بے نقاب کیا۔ نام نہاد بین الاقوامی ادارے، جو انصاف کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، غزہ کے راکھ میں تبدیل ہونے پر محض تماشائی بنے رہے۔ اقوام متحدہ، جو امن کی محافظ ہونے پر فخر کرتی ہے، ’تشویش‘ کے بیانات جاری کرنے تک محدود رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت، جو بظاہر جواب دہی کی علامت ہے، فیصلہ کن کارروائی نہ کرسکی۔

اور پھر وہ ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، غزہ کی تکالیف دیکھ کر خاموش رہے، یا دوسرے لفظوں میں بدتر، شریکِ جرم بنے۔ ان کی منافقت تاریخ اور انسانیت کے سامنے بے نقاب ہو گئی ہے۔

لیکن شاید سب سے بڑی غداری مسلم حکمران طبقوں کی جانب سے ہوئی۔ وہ جو اپنے آپ کو اسلام کا محافظ سمجھتے ہیں اور امت کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، سب سے بڑے منافق ثابت ہوئے۔ خلیجی راجواڑوں سے لے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں ہلکان حکمرانوں تک، جو خانگی اقتدار کی بھیک کے لیے غزہ پر حملے کو خاموشی سے سراہتے رہے۔ ان کے اقدامات فلسطینیوں ہی نہیں بلکہ ان تمام اصولوں سے سنگین بے وفائی ہے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی منافقانہ خاموشی، ان کی مجرمانہ شراکت، ان کی بزدلی کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔

اس سب کچھ کے باوجود آج غزہ کے کھنڈرات میں اُمید کی چمک موجود ہے۔ یہ فلسطینی عوام کے عزم اور ان کے ناقابلِ یقین حوصلے میں ہے، جسے انھوں نے بدترین اور انسانیت سوز مظالم کے باوجود برقرار رکھا ہے۔ یہ ان عام لوگوں کی آوازوں میں ایک طاقت ور ترین آواز ہے جنھوں نے دنیا بھر میں رنگ و نسل اور مذہب و طبقہ کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک جہتی کے لیے مارچ کیا اور غزہ کی تکالیف کو بھلانے سے انکار کیا۔

جب ہتھیار خاموش ہو جائیں، تو ہماری اُمید کا مرکز یہ ہدف ہے کہ جنگ بندی مزید تباہی سے پہلے کا ایک وقفہ نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے واجب احتساب کا آغاز ہو۔ احتساب جنگی مجرموں جیسے نیتن یاہو کا، سہولت کاروں جیسے بائیڈن کا، اور ہر اس ادارے اور رہنما کا، جنھوں نے غزہ سے منہ موڑ لیا۔

ہم اس خطے میں دائمی امن کے لیے دُعاگو ہیں، لیکن امن قبروں اور راکھ پر تعمیر نہیں ہوسکتا۔ یہ انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کی عزت بحال کرنی چاہیے جنھیں طویل عرصے سے محروم رکھا گیا، اور ان لوگوں کو جواب دہ ٹھیرانا چاہیے جنھوں نے اس ڈراؤنے خواب کو تقویت دی۔ غزہ کے قبرستان اس قیمت کی خوفناک یاد دہانی کے لیے پکارتے، جھنجوڑتے رہیں گے، جو دُنیا میں دھن، دھونس اور اقتدار کے بھوکوں نے فلسطین کو چکانے دی۔

جب غزہ کی محصور فلسطینی سرزمین پر برستی گولیاں عارضی طور پر خاموش ہوئیں، ماہرین اور میڈیا ماہرین نے ترکیہ کے شہر استنبول میں جمع ہو کر فلسطینی موقف اور مقدمے کو تشکیل دینے کے لیے ایک واضح اپیل کی۔ چوتھے فلسطینی انٹرنیشنل میڈیا اینڈ کمیونیکیشن فورم یعنی ’تواصُل‘ نے اُمید اور عزم کی علامت کے طور پر کام کیا، جس کا مقصد یہ امر یقینی بنانا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی تباہی عالمی سطح پر گفتگو کا اَٹوٹ حصہ بنی رہے۔

اس فورم نے دنیا بھر سے آوازوں کو اکٹھا کیا تاکہ فلسطینی موقف کو اُجاگر کیا جا سکے اور ان غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے، جو ان کی جدوجہد کی حقیقت کو دھندلا دیتی ہیں۔ ۱۸-۱۹ جنوری کو ’فلسطینی موقف: ایک نیا دور‘ کے موضوع کے تحت منعقدہ اس کانفرنس میں ۵۰ سے زائد ممالک سے ۷۵۰ سے زیادہ شرکاء نے شرکت کی، جن میں صحافی، مصنّفین، مدیران، نشریاتی ماہرین، فوٹوگرافر، فن کار اور ماہرینِ تعلیم شامل تھے۔ غزہ میں تباہی اور انسانی بحران کے پس منظر میں اس کانفرنس نے روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا دونوں کا استعمال کرتے ہوئے، فلسطینی موقف فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

افتتاحی تقریب کے دوران، ’تواصُل‘ کے سیکریٹری جنرل احمد الشیخ نے فلسطینیوں کی حالت زار  کی درست نمائندگی کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے فلسطینیوں کو درپیش خوفناک حالات، – عشروں کے منظم جبر سے لے کر خوراک کی قلت، مسلسل بمباری اور نقل مکانی کی فوری ہولناکیوں تک – کی وضاحت کی۔ انھوں نے ان مظالم کو ’اسرائیلی نسل کشی‘ قرار دینے سے گریز نہیں کیا اور میڈیا ماہرین پر زور دیا کہ وہ سچائی کو اُجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

الشیخ نے کہا:’’ہمیں فلسطینی مقصد کو روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے حمایت فراہم کرنی چاہیے۔ یہ ایک نئے دور میں انتہائی اہم ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینیوں کے عزم و استقلال کو سراہا، جو شدید مشکلات کے باوجود اپنے حقوق اور شناخت کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ کانفرنس کا ایک سنجیدہ لمحہ ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا تھا، جو اس خونیں جنگ کی رپورٹنگ کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یاد رہے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اب تک غزہ میں ۲۲۰ سے زائد میڈیا پروفیشنلز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جو ان خطرات کی خوفناک یاد دہانی ہے، جن کا سامنا ان افراد کو ہوتا ہے جو مظالم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کانفرنس میں ان صحافیوں کی تصاویر کی ایک جذباتی نمائش شامل تھی، جن میں سے کئی کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے متحرک کیا گیا، تاکہ ان کی آوازیں اور کہانیاں طاقت ور انداز میں گونج سکیں۔

  • کانفرنس سے حاصل کردہ سبق : فلسطینی صحافیوں کے اذیت ناک حالات سننا بذاتِ خود ایک سبق تھا کہ وہ اس جنگ کی کوریج کے دوران کس قدر بڑے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، – خاص طور پر جب اسرائیلی قابض فوج صحافیوں کو براہِ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ کچھ صحافیوں نے اپنے ایسے ساتھیوں کی کہانیاں بیان کیں، جو اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یہ واقعات انتہائی دل دہلا دینے والے تھے، مگر ان واقعات کو بیان کرنے والوں کے جذبات حیرت انگیز طور پر مختلف تھے۔ ان کی آنکھوں میں موت کا کوئی خوف نظر نہیں آیا، بلکہ ایک غیرمتزلزل عزم دکھائی دیا، کہ وہ خطرات کے باوجود سچائی کو بیان کرتے رہیں گے۔ کانفرنس نے عرب اور بین الاقوامی صحافیوں کی اپنے فلسطینی ساتھیوں کے لیے ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی، اور اس نئے دور میں فلسطینی بیانیے کی حمایت اور اسے بلند کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا۔

کانفرنس مباحث کے دوران ۱۲ خصوصی ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا، جن میں فلسطینی بیانیے کے نئے دور کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بحث کی گئی۔ ایک خاص طور پر مفید ورکشاپ بعنوان ’فلسطینی بیانیے کی ترقی میں جدید ڈیجیٹل ٹکنالوجیز کا استعمال‘ تمام صحافیوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ ایک اور سیشن میں ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکا اور لاطینی امریکا میں غزہ کی کوریج پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس میں فلسطینی صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو درپیش چیلنجوں، ان کے حقوق اور اسرائیلی قبضے کے تحت درپیش رکاوٹوں کو بھی اُجاگر کیا گیا۔

  • تواصُل فورم: یہ فورم ایک دہائی پر محیط جدوجہد کے ذریعے فلسطینی آواز کو بلند کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران، اس نے متعدد اقدامات کیے، جن میں خصوصی میڈیا سیمینار، ورکشاپس اور مشاورتی نشستیں شامل ہیں، جو فلسطینی مسائل پر رپورٹنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ترتیب دی گئیں۔ ’تواصُل‘ کی دو سالہ آن لائن مہمات اسرائیلی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے دنیا بھر کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور سرگرم کارکنوں کو شامل کرتی ہیں۔ یہ تنظیم فلسطینی صحافیوں کو پیشہ ورانہ میڈیا تربیت بھی فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے بیانیے کو پیش کر سکیں اور عوامی رائے پر اثر ڈال سکیں۔

 تنظیم کے چیلنجوں اور کامیابیوں پر ’تواصُل‘ کے ڈائرکٹر بلال خلیل نے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا:’’گذشتہ گیارہ برسوں سے ہم صحافیوں اور اداروں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مسئلے کو درست طور پر اُجاگر کریں‘‘۔انھوں نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ: دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس، بشمول بھارت، فلسطین کے بارے میں سچائی کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے۔ انھوں نے غزہ اور فلسطینی مسئلے پر مستقل اور درست رپورٹنگ کرنے والے آئوٹ لیٹس کی تعریف کی۔ فلسطینی جدوجہد کے تسلسل کے بارے میں انھوں نے کہا کہ فلسطین پر قبضہ ۷۷ سال سے جاری ہے، اور فلسطینی عوام کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصے کی مزاحمت کا مظہر ہے۔ انھوں نے خاص طور پرکہا:’’فلسطینی مسئلہ صرف ایک انسانی بحران نہیں، جہاں ایک قوم کو زبردستی بے گھر کیا گیا اور وہ مدد کی محتاج ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کی جدوجہد ہے جو اپنی زمین پر آزادی اور عزّت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔

 انھوں نے مزید کہا: ’’جب وہ اپنی آزادی حاصل کر لیں گے، تو وہ دنیا بھر میں ضرورت مندوں کی مدد کریں گے۔ لہٰذا، میں بین الاقوامی میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں، اور اُن بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے فریم ورک کی حمایت کریں، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں‘‘۔

  • مجوزہ اقدامات : کانفرنس کے اختتام پر کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا، جن میں شامل ہیں: • غزہ میں ۲۲۰ نوجوان صحافیوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام، • ۲۰ صحافیوں کو صحافتی آلات کی فراہمی، • شراکت دار تنظیموں کے ساتھ مشترکہ تربیتی سیشن، اور • فلسطینی بیانیے کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے علاقائی اجلاس۔ • فلسطین کے لیے ’میڈیا کریٹیویٹی ایوارڈ‘ کا اجراءکیا گیا ہے۔ اس کے جیتنے والے کو پہلا انعام ۱۰ہزارڈالر، دوسرا انعام ۵ہزار ڈالر اور تیسرا انعام ۳ہزار ڈالر کا اعلان ۔
  • یک جہتی اور انسانی روح کی طاقت:استنبول میں طے شدہ گفتگو، حکمت عملیاں، اور تعاون دنیا بھر میں اثر ڈالنے کی توقع رکھتے ہیں، تاکہ میڈیا پروفیشنلز کو غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور ایک مستند فلسطینی بیانیہ پیش کرنے کے لیے بااختیار بنایا جا سکے۔

جو لوگ اس روح پرور اور انسانیت دوست کانفرنس میں شریک ہوئے، ان کے لیے یہ صرف ایک کانفرنس نہیں تھی، بلکہ یک جہتی کی طاقت اور انسانی روح کی پائیداری کا ایک عالمی ثبوت تھی۔ شرکا کے انہماک اور شوق و جذبے کو دیکھ کر ایک صحافی نے برملا کہا: ’’ہم صرف کہانیاں نہیں سنا رہے؛ ہم ایک ایسی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں جو کبھی فراموش نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

شام ،جسے ’سوریا’ یا ’سوریہ‘ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ بعض ماہرینِ بشریات کہتے ہیں: ’’شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی‘‘۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بازنطینی، اُموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اس علاقے کو ۶۳۶ء میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں فتح کیا۔ خلافت راشدہ کے بعد اُموی خلافت قائم ہوئی جو ۱۳۲ سال چلی۔ اس نے دمشق کو اپنا دارالحکومت بنایا۔صلیبی جنگوں کے دور میں اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبی فوجوں کو ’حطین‘ کے مقام پر ۱۱۸۷ ء میں شکستِ فاش دی۔ سلطان صلاح الدینؒ کا دارالسلطنت بھی دمشق تھا۔عثمانی دورِحکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی، جو شام سے گزرتی تھی ۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔

  • تاریخی پس منظر: پہلی جنگ عظیم [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء]کے دوران برطانیہ، فرانس اور قیصری روس نے مل کر ’سایکس پیکو‘  (Sykes-Picot) خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت شام کو فرانس کے حوالے کر دیا گیا اور فلسطین کو برطانیہ کے،جب کہ ۱۹۱۷ء میں روس میں سوشلسٹ انقلاب آنے پر روس نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمےپر اس سامراجی معاہدے پر عمل شروع ہوا اور فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر شام کے عربوں نے امیرفیصل کی سرکردگی میں ایک کانفرنس منعقد کر کے وہاں عرب حکومت قائم کرلی تھی، لیکن فرانس نے اس کو نہیں مانا اور ۸مارچ۱۹۲۰ء کو فوج کشی کر کے شام پر قبضہ کر لیا۔

دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو (Gouraud) شہر میں واقع سلطان صلاح الدینؒ کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر کہا: ’’صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں‘‘۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ؒکے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح اکتوبر ۱۹۱۸ء میں برطانوی قائد جنرل النبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا:’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یورپ کو تو وہ سب یاد ہے، جب کہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم [۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء] میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دے دی اور ۷؍اپریل۱۹۴۶ء کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لےلیا، جو آج تک شام اور علاقے کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’جمہوریہ لبنان ‘ کا نام دیتے ہوئے اسے عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا، اور جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ، مارونی عیسائی ہو گا۔ لبنانی صدر جمہوریہ کے پاس فرانس اور امریکا کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔

شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (۶۳فی صد) سُنّی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروپ یہ ہیں: علوی (۱۰فی صد)، عیسائی (۱۰فی صد)، کرد (۹ فی صد)، دروز (۳ فی صد)، اسماعیلی (۱ فی صد)، دوسری اقلیتیں (۲ فی صد)۔ شام کے ۷۴ فی صد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔

اس علاقے کو بعد میں منگول و تاتار وحشی حملہ آوروں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں ۱۲۸۰ء میں شکست دی۔ پھر تیمورلنگ نے بھی ۱۴۰۰ء-۱۴۰۱ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہزیمت سے دوچار کرکے اگست۱۵۱۶ء میں قبضہ کیا، جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا۔ اسی دوران فرانس اور برطانیہ گٹھ جوڑ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا۔

آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دورحکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی ۱۸۴۰ء سے لے کر۱۹۱۴ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے لگائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالج اور یونی ورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں برتری حاصل ہوگئی۔

باقاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے: هاشم الاتاسی کی حکومت(دسمبر۱۹۳۶ء) اور شکری القوتلی کی حکومت(۱۹۴۳ء)۔ ۱۹۴۶ء میں آزادی کے بعد شام میں اُوپر تلے فوجی انقلاب آئے، جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب (مارچ۱۹۴۹ء)، شامی الحناوی کا انقلاب(۱۹۴۹ء)، شیشکلی کے دو انقلاب (دسمبر۱۹۴۹ء /۱۹۵۱ء) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب(۱۹۵۴)۔ غرض اس عرصے میں شام میں آٹھ فوجی انقلاب ہوئے، جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔

  • بعث پارٹی کا دورِ حکومت:اس دوران مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی عرب قومیت کی تحریک کو بہت عوامی تائید ملی، جس کے نتیجے میں ۱۹۵۸ء میں مصر اور شام کا سیاسی اتحاد ہوگیا اور ایک نیا ملک ’ الجمہوریۃ العربیۃ المتحدۃ‘ (متحدہ عرب جمہوریہ/  یونائٹڈ عرب ریپبلک) وجود میں آیا۔ لیکن ۱۹۶۱ء میں ایک اور فوجی انقلاب شام میں آیا اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد الیکشن ہوا اور ناظم القدسی کی صدارت میں نئی حکومت بنی۔ لیکن یہ حکومت لمبے عرصے نہیں چلی بلکہ ۸مارچ۱۹۶۳ء کو ’بعث پارٹی‘ [ماسکو نواز سوشلسٹ پارٹی]سے متاثر فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ تب سے شام پر کسی نہ کسی شکل میں ’بعث پارٹی‘ کی حکومت ۸دسمبر ۲۰۲۴ء تک رہی۔ ’بعث پارٹی‘ ہی کے کچھ دوسرے فوجی افسر ۱۹۶۶ء میں ایک اور فوجی انقلاب لائے۔ پھر جلد ہی ’بعث پارٹی‘ کے کچھ دوسرے فوجی افسروں نے ۱۹۷۰ء میں ’تحریکِ تصحیح‘ کے نام سے ایک اور فوجی انقلاب برپا کیا، جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیردفاع اور فضائیہ کے کمانڈر حافظ الاسد صدر بنے۔ ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ان کا بڑا بیٹا بشار الاسد صدر بنا اور ۸دسمبر۲۰۲۴ء تک برسرِاقتدار رہا۔اکتوبر ۱۹۷۳ء میں حافظ الاسد نے مصری صدر انوار السادات کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کو امریکا کی مکمل فوجی تائید کی وجہ سے ان کو کوئی زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ۱۹۷۵ء میں حافظ الاسد نے لبنان میں امریکا کے کہنے پر فوجی مداخلت کی اور اپنے پرانے ساتھیوں (فتح اور سنی ملیشیا) کو شکست دے کر ہارے ہوئے عیسائی ملیشیا (کتائب وغیرہ) کو دوبارہ لبنان کی سیاست پر حاوی کر دیا۔ اسد کی فوج نے سنی ملیشیا (عرب لبنان فوج) کی کمر توڑ دی اور اس کے قائد احمدالخطیب کو گرفتار کر کے شام لے گئی، جس کے بعد سے اس کا کوئی اَتہ پتہ نہیں۔ شامی فوج لبنان میں ۲۰۰۵ء تک رہی اوربالآخر پورے ملک کی مخالفت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبوری ہوئی۔

شام میں ۱۹۷۹ء میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبران کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا، جو بشار الاسد کے فرار تک جاری رہا۔

حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی سفاکیت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بےلگام مسلح ملیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے غیرمعمولی مظالم میں جون ۱۹۸۰ میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے، جب ۱۲۰۰جیل بندسیاسی مخالفین کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فروری ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا، جس کے دوران۲۰ ہزار سے ۴۰ ہزار لوگ طیاروں سے گولہ باری کرکے قتل کیے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا، کیونکہ وہاں کے عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لیے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیورٹی سسٹم بنایا تھا، جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لیے درجنوں ملیشیا بنائی گئی تھیں۔ جن میں سب سے خطرناک ’شِبّیحہ ‘ تھی، جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھر جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ ان ساری ملیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا، جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔

  • حالیہ کش مکش کا آغاز:شام کی موجودہ کش مکش ۱۸مارچ۲۰۱۱ء کو شروع ہوئی، جب پورے عالم عربی میں ’عرب بہار‘ (الربیع العربی) کےنام سے انسانی و سیاسی حقوق کی بازیابی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پہنچے اور تیونس اور مصر میں کچھ عرصے کے لیے نئی حکومتیں بھی بنیں، لیکن جلد ہی بعض عرب حکومتوں، اسرائیل اور امریکا کی کوششوں سے ان کو ناکام بنا دیا گیا۔ شام میں ۲۰۱۱ء میں درعا شہر کے واقعات کے بعد یہ تحریک شروع ہوئی، جب دیواروں پر نعرے لکھنے والے نوجوانوں کے خلاف اسد حکومت نے سخت کارروائی شروع کی۔ سختی کے ساتھ تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ جلد ہی مختلف مسلح تحریکوں نے شام کو اپنی جولان گاہ بنا لیا، جن میں دولت اسلامیہ(ISIS) بھی شامل تھی۔ کئی نیم آزاد علاقے وجود میں آئے اور بشارالاسد کی حکومت ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئی۔ اس دوران دو لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی ہوئے، ۷۰ لاکھ شامی ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور بڑے بڑے شہر، قصبات اور گاؤں بمباری سے کھنڈر بن گئے۔

اس طاقت ور عوامی تحریک کے باوجودایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی فاشسٹ حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قزاخستان)میں کئی میٹنگیں ہوئیں، جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے، جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔

اس صورتِ حال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکا اور اس کا حلیف ’کردی اتحاد‘، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ’ھیئۃ تحریر الشام‘ (پرانا نام ’جبہۃ تحریر الشام‘) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قابض ہوگئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں ۲۰۱۶ سے باغیوں اور اسد حکومت میں سے کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

موجودہ تحریک ۲۷نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی، جہاں ایک بڑے علاقے پر ’ہیئۃ تحریر الشام‘ کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے ۲۱ دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا۔ ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انھوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے ۸دسمبرکی صبح کو دمشق پر قبضہ کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔

حالات میں تبدیلی مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا۔ ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھا،اور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں ۲۸نومبر۲۰۲۴ء کو بشارالاسد، روسی صدر پوٹین سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے ماسکو گیا، لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا۔ بالآخر بشارالاسد ۸دسمبرکی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے یہی کہتا رہا کہ روسی فوجی مدد آ رہی ہے۔

موجودہ تحریک کی ابتدا ایک سال قبل شروع ہوئی، جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور ان کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او آئی سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکمران اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ’ھیئۃ تحریر الشام‘ نے تقریباً ۲۲  چھوٹے چھوٹےمسلح گروہوں سے بات چیت شروع کی، جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔

  • نئی حکومت کو درپیش چیلنج:ہم نے تحریک کے فوجی قائد ابومحمد الجولانی (احمدالشرع) کےشروع کے تین ویڈیو دیکھے۔ پہلے میں وہ دمشق میں داخل ہونے کے بعد ایک میدان میں سجدہ کر رہے ہیں۔ دوسرے میں دمشق بلکہ شام کی سب سے اہم عبادت گاہ مسجد اموی میں جا کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں، اور تیسرے میں ایک بڑے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں، جب کہ وہاں صوفے موجود ہیں ۔ ہر جگہ وہ ایک ہی لباس پہنے تھے۔ شہروں میں داخل ہونے والی فوج کو حکم تھا کہ گولیاں نہ چلائیں، سرکاری دفتروں کے اندر نہ جائیں، دوسری طرف تمام سرکاری عملے کو بشار کے وزیراعظم جلالی سمیت یہ حکم تھا کہ آپ حسب سابق کام کرتے رہیں۔ چند دن بعد ادلب کے علاقے میں ’ھیئۃ تحریر الشام‘ کی برسوں سے چلنے والی حکومت کے وزیراعظم محمدالبشیراور ان کے ساتھیوں نے حکومت کا نظام یکم مارچ ۲۰۲۵ء تک کے لیے سنبھال لیا ۔ اس عرصے میں نیا آئین بنایا جائے گا، الیکشن ہو گا اور باقاعدہ حکومت بنے گی۔

اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے اسٹرے ٹیجک علاقے جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا، نیز شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز، بحری بیڑہ پر حملہ کر کے تقریباً ۸۰ فی صد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گئی ہے بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّعمل دینے کے لائق نہیں رہ گئی، اور نہ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں۔

نئی حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں: ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تضادات دوبارہ اُبھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھa اس کے لیے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک تباہ حال اور معاشی طور پر غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ پھر سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس دولت اور اسلحے کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کرا سکتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں یعنی بشمول بعث پارٹی ، بشارالاسد کے لوگوں اور علویوں، سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی’ ہیئۃ تحریر الشام‘ کو ’ دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے نکالا جاسکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔

ساری عرب حکومتیں اس نئی حکومت میں مذہبی عناصر کے غلبے سے خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی، جیسے کہ وہ پہلے تیونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں، لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔

۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کے موقع پر شام میں بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ عدل و انصاف اور آزادی ہی تھا۔ یہ پُرامن مظاہرے تھے اور مظاہرین انتقالِ اقتدار کی روایت کو فروغ دینے اور معاشی آزادروی کا مطالبہ کررہے تھے ۔چنانچہ نہتے مظاہرین کے خلاف باقاعدہ آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ مظاہرین کو جیلوں میں ٹھونسنےکی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ مظاہرین کی گرفتاریاں جہاں اور بہت سے الزامات میں کی گئیں، وہاں ایک اہم ترین الزام جس کی سزا بھی انتہائی سخت تھی ،یہ تھا کہ قیدی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔گرفتار ہونے والوں کو کہیں دہشت گرد قرار دیا گیا اور کہیں غیر ملکی تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ حالات یہ تھے کہ اگر کوئی مظاہرے میں شریک ہوتا یا اخبار میں بیان دیتا، تو حکومتی آلہ کار اسے منظر عام سے غائب کر دیتے، پھر قیدی یا تو جان سے مار دیا جاتا یا کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا۔ جیلوں اور گرفتاریوں کے بارے میں شامیوں کا تجربہ بہت بھیانک تھا۔ تدمر اور صید نایا کی جیلوں میں جو بھی گیا، اس کا چہرہ ۲۰،۳۰ برس تک پھر کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

اخوان المسلمون سے تعلق کے جرم میں جو قید ہوتا، اس کے لیے نہ کوئی عدالتی شنوائی تھی، نہ اس کی اہل خانہ سے ملاقات ہو سکتی تھی، اور نہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی کا پتا چلتا تھا۔ اب تک دسیوں ہزار شامی باشندے ایسے ہیں جن کی کسی کو کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں، انھیں پھانسی دی گئی یا وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟

۲۰۱۲ء کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکمرانوں کا جبر جوں جوں بڑھا، نوجوان انقلابی مظاہرین میں مسلح جدوجہد اور تصادم کا نظریہ اُبھرا اور اُن فوجی جوانوں کے زیر اثر تیزی سے مقبول ہوا جو مسلح افواج سے یہ کہہ کر الگ ہو گئے تھے کہ ہم اپنے ہی لوگوں پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔

اب تک انقلابیوں کی سرگرمیاں مقامی نوعیت کی تھیں اور صرف اپنی گرفتاری اور ظالموں کے ہاتھوں اپنے آپ کو موت سے بچانےکے لیے تھیں۔ گویا ان کی سرگرمیوں کا کوئی متعین نظریاتی رُخ نہیں تھا۔ انقلابیوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے قصبوں ،محلوں اور دیہاتوں کو بشارحکومت سے آزاد کروانا شروع کیا۔ جو علاقہ آزاد ہو جاتا، وہ دوسرے آزاد علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے معاملات چلانا شروع کر دیتا۔ بشار حکومت نے جب دیکھا کہ لوگ اسلحہ اٹھانے لگے ہیں اور مسلح جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں، تو اس نے شام کے چند اہم علاقوں، دمشق، حمص، حماۃ کو چھوڑ کر باقی علاقوں ادلب ،حلب وغیرہ سے فوجی بندوبست ہٹالیا۔

انقلابی نوجوانوں میں روز بروز یہ یقین پختہ تر ہو رہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں سے چھٹکارا صرف مسلح جدوجہد اور لڑائی سے ہی ممکن ہے،سیاسی دباؤ اور ڈپلومیسی کوئی حل نہیں ۔

۲۰۱۲ء میں انقلابیوں اور حکومتی افواج کے درمیان حمص میں پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی، جس میں بشار الاسد کی توپ اور ٹینک بردار اور ازکار رفتہ بھاری روسی اسلحہ سے لیس حکومتی افواج کو منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجتاً، بشار الاسد نے ۲۰۱۳ء میں باقاعدہ طور پر لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اورایران و روس سے فوجی مدد مانگی ۔یوں شامی حکومت غیر ملکی فوجی مدد کےسبب انقلابیوں کو حمص شہر سے نکالنے اور انھیں شہر کے شمالی مضافاتی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوسکی۔

اب شام کی زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ دارالحکومت دمشق کا کچھ علاقہ جیسے غوطہ اور حماۃ کا کچھ علاقہ اور درعا کے کچھ حصےانقلابیوں کے کنٹرول میں تھے، جب کہ ان شہروں کے باقی حصوں پر حکومتی فوجی دستوں کا کنٹرول تھا۔ ملک کے دیگر تمام شہر یا تو مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں یا مکمل طور پر انقلابیوں کے کنٹرول میں جاچکے تھے۔حزب اللہ کی مداخلت کے بعد تنظیم القاعدہ اور تنظیم الدولۃ اسلامیۃ فی العراق والشام(داعش) کو بھی شام کے مسلح انقلابی گروپوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔

۲۰۱۴ء کے اختتام پر شام میں تین طرح کے مسلح گروپ برسرِپیکار تھے : ایران کے  حمایت یافتہ مسلح گروپ اور حکومتی فوجی دستے ، القاعدہ اور داعش کے نظریات کے حامل گروپ اور مسلح تنظیمیں، اورمقامی شامی مسلح گروپ جن کا مطمح نظر صرف اور صرف بشار حکومت کا خاتمہ تھا۔

۲۰۱۵ء کے آغاز میں ایک اور مسلح گروپ ’قسد‘ کا بھی اضافہ ہو گیا جو امریکی سرپرستی میں بیک وقت بشار الاسد حکومت، تنظیم القاعدہ و داعش کے نظریات کے حامل مسلح گروپوں ،اور مقامی انقلابی مسلح گروپوں، سبھی کے خلاف لڑرہا تھا۔ یہ بنیادی طور پر کرد مسلح گروپ پر مشتمل تھا۔

۲۰۱۵ء میں روس براہِ راست اس کش مکش میں شریک ہو گیا۔ اس کی فضائی بمباری، اور کمانڈو دستوں نے انقلابی مسلح گروپوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ۔ یوں بشار حکومت کو نہ صرف کچھ سانس لینے کا موقع ملا بلکہ اسے یہ حوصلہ بھی ہوا کہ وہ انقلابیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر دست درازی کرے۔

۲۰۱۳ء میں ہی تنظیم الدولۃ الاسلامیۃ اور جبھۃ النصرۃ کے قائد محمد الشرع الجولانی کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے اور یہ معاملہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے پاس گیا۔ انھوں نے محمد الجولانی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صرف اسی کے گروپ کو شامی حدود میں کارروائیوں کا مجاز قرار دیا۔

۲۰۱۶ء میں بشار حکومت نے ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے حلب شہر کو انقلابی مسلح گروپوں سے چھڑوا لیا تھا۔ عالمی برادری ۲۰۱۲ء میں جنیوا میں شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے کہہ چکی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ سامنے آئی جس میں جنیوا اعلان پر عمل درآمد کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی بات کی گئی تھی۔  اسی دوران وسطی ایشیائی ریاست کے دارالحکومت آستانہ میں علاقائی قوتوں ایران، ترکی اور روس کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ آستانہ مذاکرات کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں بشار حکومت کے علاوہ انقلابی مسلح گروپوں کو بھی باقاعدہ فریق کے طور پر شریک کیا گیا تھا ۔آستانہ مذاکرات کے دوران میں مختلف جنگی محاذوں پر فوجی کارروائیوں میں کمی کا بشار حکومت نے یوں فائدہ اٹھایا کہ فوج نے حمص کے انقلابیوں پر حملہ کر کے حمص شہر کو زیر کنٹرول لے لیا۔ اسی طرح دارالحکومت دمشق سے متصل غوطہ اور قلمون کے علاقوں پر بھی اپنا کھویا ہوا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔

  ۲۰۱۹ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک ’عالمی فوجی اتحاد‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد داعش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگی کارروائی کرنا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار حکومت نے بھی انقلابی مسلح گروپوں کے خلاف اور حزب اللہ اور روس کی مدد سے مسلح کارروائی تیز کر دی۔ عالمی اتحاد کی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰۱۹ء میں شام سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ ترکی نے بھی اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ موجود علاقوں پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے اسے کرد مسلح گروہ کے وجود سے پاک کر دیا۔

ابو محمد الجولانی – آپریشن ردع  العدوان کے روح رواں

ابو محمد الجولانی کا تعلق اسرائیل کےزیر قبضہ شامی علاقہ گولان ہائیٹس سے ہے ۔انھوں نے عراق میں القاعدہ کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ برسوں امریکی قیدی رہے ۔القاعدہ کے نظم سے مشورہ کرکے ۲۰۱۸ء میں شام میں ’جبھۃ النصرۃ‘قائم کی پھر اس کانام تبدیل کرکے ’جبھۃ فتح الشام‘ رکھا اور بالآخر اب ان کی تنظیم کا نام ’ھئیۃ تحریر الشام‘ہے۔ادلب کے علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۹ء میں یہاں ’حکومت انقاذ‘ قائم کی اور ’جامعہ ادلب الحرۃ‘ کی بنیاد رکھی ۔ ۲۰۲۰ء  کے بعد ’ھئیۃ تحریر الشام‘ نے ابو محمد جولانی کی سربراہی میں علاقے میں موجود دیگر مسلح تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم یا ختم کر دیا اور عملاً انھیں ایک ہی اسٹرےٹیجک کمان میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ’ادارہ امن العام‘ (پولیس فورس) قائم کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ادلب میں اعلیٰ معیار کے ایک ’آرمی ٹریننگ کالج‘ کی بنیاد رکھی، جہاں ساری مسلح تنظیموں کے ارکان تربیت حاصل کرنے لگے۔ اب تک اس کالج نے ۴۰۰ فوجی افسران کو تربیت دی ہے۔ یہی فوجی افسر حالیہ آپریشن ’ردع العدوان‘ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ نئے اسلحے کے حصول اور ترقی و ارتقاء پر بھی توجہ دی گئی، خصوصاً ڈرون فورس ’شاہین‘ تشکیل دی گئی۔ حالیہ برسوں میں، ’ھئیۃ تحریر الشام‘ کے قائد ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے تعلقات ختم کر دیے ہیں، سخت گیر عہدے داروں کو نکال باہر کیا ہے، اور تنوع اور مذہبی رواداری کو اپنانے کا وعدہ کیا ہے۔

آپریشن: ’ردع العدوان ‘

۸ دسمبر۲۰۲۴ء کو شام میں ایک غیر متوقع جنگی پیش رفت پر مبنی انقلاب نے ۱۹۷۰ء سے جاری اسدخاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔اس اچانک حملے کے دوران شامی انقلابی اپوزیشن فورسز نے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تیز رفتار پیش قدمی کی اور محض گیارہ دنوں میں دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی عوام مسجدوں میں نماز کے لیے جمع ہو گئے اور چوراہوں پر جشن منایا، ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے، اور بشار الاسد کے خلاف نعرے بازی کی۔ کچھ علاقوں میں جشن کے طور پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔فوجی اور پولیس افسران اپنی وردیاں چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔

اس سے ایک دن پہلے، اپوزیشن فورسز نے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر قبضہ کر لیا تھا۔ حلب اور حماۃ کے شہر پہلے ہی اپوزیشن فورسز کے قبضہ میں آچکے تھے۔ اس موقع پر عوامی جذبات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ بشار حکومت نے جو خوف اور دہشت مسلط کررکھی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ ہربڑے شہر میں قائم جیل کے دروازے ٹوٹ چکے ہیں اور جرمِ بے گناہی میں ماخوذ ہزاروں شامی قیدی رہا کیا جاچکے ہیں۔

صورتِ حال کے بارے میں اخوان المسلمون شام کے تازہ ترین بیان کو یہاں درج کیا جارہا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۝۰۠  ،ہم جماعت اخوان المسلمون شام ،ایک بار پھر اپنی قوم کو اس فتح و نصرت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ایک ایسے روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں جہاں آزادی اور شرفِ انسانی کی قدر ہو،نیز اس موقع پر زور دینا چاہتے ہیں:

۱- مجرم بشار الاسد کے آمرانہ نظام کی برطرفی بہت مشکل سے اور بے حساب قربانیاں دے کر حاصل ہوئی ہے۔ہمارے ذمے ہے کہ عدل اور قانون کی بالادستی پر مبنی ریاست قائم کرنے کے لیے یک آواز ہو جائیں۔ ملک کی تعمیرِ نو اس طرح کریں جہاں سارے شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

۲- ہم ،سیّد محمد بشیر کی قیادت میں قائم موجودہ عبوری حکومت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں اورشامی ریاست کی تعمیرِ نو کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں کھپادینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، اور ریاست کے قانون ساز ،انتظامی اور عدالتی اداروں کی تعمیر و تشکیل کے لیے ہرطرح کا تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں ۔

۳- جماعت اخوان المسلمون شام یہ سمجھتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت بنانے کا کہا گیا تھا، وہ قرارداد غیرمؤثر ہو چکی ہے کہ بشار الاسد کا نظام زمین بوس ہوچکا ہے۔ تاہم، ملک شام کے لیے نئے دستور اور آزادانہ نئے انتخابات کی ضرورت برقرار ہے ۔

۴- اخوان المسلمون اس موقع پر تجویز کرتی ہے کہ عبوری دور میں دستوری تضادات سے بچنے کے لیے اور جب تک کہ نئے دستور کی تشکیل کے لیے دستورساز اسمبلی وجود میں نہیں آجاتی، ۱۹۵۰ء کے دستور کو نافذ العمل قرار دیا جائے۔ دستور بنانے کے بعد قانون ساز اسمبلی اور صدارت کے لیے نئے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کروایاجائے۔

۵- سابقہ بعث پارٹی کے نظام میں شریک ان تمام لوگوں پر جن کے ہاتھ شامیوں کے خون سے آلودہ ہیں ،خواہ وہ لوگ شام میں موجود ہیں یا شام سے باہر ان مجرموں کوگرفتار کیا جائے ، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں۔

۶-ایک وزارت برائے لاپتا افراد وشہدا قائم کی جائے جو ان افراد کے حالات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرے جو لاپتہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کرے اور جو لوگ متاثرین ہیں ان کی دادرسی کرے اور ان کے خاندانوں اور وارثوں کو ان کا شرعی اور قانونی حق اور عوضانہ دلائے۔

۷-اسی طرح ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو صرف اور صرف شام کے لوٹے ہوئے اور یہاں سے لے جائے گئے مال و دولت کا سراغ لگانے اور شامی قوم کو اس کے اثاثے واپس دلانے کے لیے مختص ہو۔

۸-ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان تمام ظالمانہ ایمرجنسی قوانین کی تصحیح کرے جن کے ذریعے شامی باشندوں کی آزادیوں کی پامالی کی گئی اور نظریاتی وابستگی کو ان کا جرم بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ہر قسم کے مقدمات کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور یکسر موقوف کرے۔

۹- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں شام کے باشندوں کی سیکیورٹی ،اورامن عامہ کو یقینی بنا سکے اور اسی طرح ملک کی مسلح افواج کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ مسلح افواج وطن کی سرحدوں کی مؤثر حفاظت کر سکیں۔

۱۰- ایسے بین الاقوامی تعلقات قائم کیے جائیں جن کی بنیاد باہمی خیرخواہی اور منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو اور کسی بھی ملک کو داخلی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دینا ہی ریاستوں کے استحکام اور استقرار کی بنیاد ہے۔

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن اس حوالےسے ان کی ترجیح اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر ۲۰جنوری ۲۰۲۵ء کو ان کے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ۸دسمبر ۲۰۲۴ء کو مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے مشیر سٹیووٹکوف نے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر حلف اٹھانے سے پہلے قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت بُرا دن ہوگا۔ دوسرے دن اسی پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔

اہل غزہ اس وقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان میں امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جن کی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جس کی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا، وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔ دوسری طرف شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ شام میں جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کے لیے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور ’جبل حرمون‘ پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان ’جبل حرمون‘ کو ’جبل الشیخ‘ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس وقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردے گا۔ لیکن ۱۳ دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے ’جبل حرمون‘ میں تعینات سپاہیوں کے لیے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدایت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی۔

۱۰مربع کلومیٹر کا یہ شام کا نہایت اہم دفاعی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے، وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہِ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام ’قنیطرہ‘ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے۔ خیال تھاکہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد ’قینطرہ‘ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں اُدھیڑ کر رکھ دیں، قدیم درخت گرادیئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے ۱۰ ۱۰ میٹر بلندی پر واقع یہ خوب صورت صحت افزا مقام انسانی حیات کے لیے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ مزاحمت کار منظم ہوں گے۔

شہری سہولتوں کو تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اُردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ شام کی عسکری تنصیبات پر کنکریٹ کے مضبوط مورچے (بنکر) تباہ کرنے کے لیے بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ ۱۴ دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں ۶۱ مقامات پر میزائل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے، ان کے دھماکے اتنا شدید تھے کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے ۳  درجہ شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔حملے میں فوجی تنصیبات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمدالشرع المعروف ابومحمد الجولانی نے کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابلِ مذمت ہیں لیکن ہمارا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ بشار اقتدار کا خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے، جب کہ متعصب عناصر شام میں تبدیلیٔ اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔ رہبر انقلابِ ایران علی خامنہ ای صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا 'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکا میں تیار گئی اور شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا ہے، لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے۔

بلاشبہ اسد خاندان کے ۵۳سال کے جبر سے نجات پر عام شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت خانوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دُوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا ہے۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں ان کے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، ان کے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے ربّ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ مذاکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔

 گذشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہوں گے۔

موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائیں گے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے، جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کے لیے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے، لیکن ۱۳ دسمبر کو غروبِ آفتاب سے ۱۴ دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصرہسپتال پر بمباری سے ۳۶ بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اُردن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اب مقتدرہ فلسطین (فلسطین اتھارٹی)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمایت میں کمی اہل غزہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کا ڈھیر بنادینے،  شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیرِزمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔

جہاں فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے لیے کمزور ہی سہی، لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہیں مستکبرین بھی یک جان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز، شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارک باد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا :نیتن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین ۷۰ برسوں میں نہ کرسکی‘‘۔

یہ اظہارِ بیان مغربی قیادتوں میں گہرے تعصب اور انسانیت کشی کی دلیل پیش کرتا ہے۔