اخبار اُمت


چندماہ کے وقفے سے آزادکشمیر ایک بار پھر زوردار احتجاجی تحریک کے نعروں سے گونج اُٹھا۔اس بار اصل معاملہ بجلی اور آٹے میں رعایت (سبسڈی) کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے صدارتی آرڈی ننس کا تھا، جس کے تحت آزادکشمیر میں آزادیٔ اظہار پر زد پڑنے کا اندیشہ تھا۔ ’آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نے اس آرڈی ننس کو مستقبل میں احتجاج اور آزادئ اظہار پر پابندیوں کی پیش بندی قرار دے کر آزادکشمیر بھر میں عام ہڑتال اور آزادکشمیر کو پاکستان سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، اور ۵دسمبر کو آزادکشمیر کے طول وعرض سے ہزاروں افراد کے قافلے انٹری پوائنٹس کی طرف چل پڑے۔

اس بار حکومت آزادکشمیر نے ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کے مطالبات کو تسلیم کرکے احتجاج کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا۔حکومت نے صدارتی آرڈی ننس واپس لے کر دوسرے مطالبات کو بھی تسلیم کیا، جس کے بعد عوام کے قافلے واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔اپنی حساسیت،قومی منظر میں اپنی جدا گانہ اور منفرد حیثیت،۷۷ برس سے قائم ہونے والی اپنی شناخت کی مضبوط چھاپ، اوورسیز کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے باعث آزادکشمیر ایک دستی بم (گرنیڈ)ہے۔ مگر کچھ لوگ اس گرنیڈ سے فٹ بال کھیلنے کا شوق فرمانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں۔ابھی چند ہی ماہ پہلے بجلی اور آٹے کی سبسڈی کے نام پر ہونے والے پُرتشدد احتجاج پر سب سے مختصر اور جامع تبصرہ یہ تھا: ’لیسٹ بٹ ناٹ لاسٹ‘۔

آٹے اور بجلی کا تعلق معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات سے ہے تو آرڈی ننس کا تعلق عوام کے شعور کو محدود کرنے یا شعور کے اظہار کو زنجیر پہنانے سے ہے۔ یوں مختصر عرصے میں عوام کا ایک قوت اور سرعت کے ساتھ سراپا احتجاج ہونا بتا رہا ہے کہ معاملہ کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئے حساسیت اور ردعمل دکھانے کی صلاحیت کا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت نے کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرنا ہے جس کی پیش بندی کے طور پر لوگوں سے احتجاج اورفریاد کا حق چھینا جانا لازمی ہے۔حکومت آزادکشمیر نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرکے حالات کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا ہے۔

دُنیا بھر کی سیاست کی طرح آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات میں ایسی تبدیلی رُونما ہو چکی ہے، جو سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے پہلو بہ پہلو چلی آرہی ہے۔معاشرہ سوشل میڈیا کے باعث سیاست اور معاشرت میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی زد میں ہے۔ سری نگر میں دوعشروں سے سوشل میڈیا کے ساتھ در آنے والے رجحانات اپنا کرشمہ دکھاچکے ہیں۔ ان رجحانات کو طاقت سے دبادیا گیا ہے مگر سکون کی تہہ میں یہ جذبات اور رجحانات موج زن ہیں۔اب جدید ذرائع کے باعث پیدا ہونے والے یہ رجحانات آزادکشمیر میں اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسّی کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگلے مرحلے میں یعنی نوّے کی دہائی میں قوم پرست تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی اکثریت سیاسی پناہ کے لیے بیرون ملک چلی گئی۔ باقی جو روایتی جوڑ توڑ کی رسیا سیاسی جماعتیں بچ گئیں،  انھیں بدعنوانی کی ایسی فائلوں نے کھالیا جو لاٹھی پر رکھے مرے ہوئے سانپ کی طرح صرف ڈرانے کے کام آتی ہیں۔ ایک دوعشرے اس کامیاب’مینجمنٹ‘ کے باعث سکون اور سکوت میں گزر گئے۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی آمد کے اثرات نے خود آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دی اور یہاں کے عوامی رجحانات میں تبدیلی کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔

آزادکشمیر کی تمام قابل ذکر روایتی سیاسی جماعتوں کوحکومت کی ایک ٹوکری میں جمع کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں طاقت کا ایک خلا پیدا ہوتا جا رہا ہے اور اس خلا کو ایک غیر سیاسی قوت نے تیزی کے ساتھ پُر کرنا شروع کیا۔یہ قوت پہلے ’تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ تھی، مگر جب عوام اس کی جانب مائل ہونے لگے تو پھر اس کا نام ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ رکھ دیا گیا۔تب اس میں تاجروں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دوسرے طبقات بھی شامل ہونے لگے۔ صدارتی آرڈی ننس کا براہِ راست تاجر کمیونٹی سے تعلق نہیں۔ تاہم، پڑھے لکھے چند نوجوانوں سے خطرے کی گھنٹی بجاکر ہوشیار باش کردیا۔ ممکن ہے ایسے افراد کو انڈین قرار دے دیا جائے۔ تاہم، یہ معاملہ آٹے اور بجلی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اُوپر تلے ان دو احتجاجوں کی شدت، حدت، سنگینی،عوام کے موڈ اور مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کے لیے غور وفکر کا بہت سامان ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ باجوہ ’ڈاکٹرائن‘ کے تحت اسلام آباد کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کا انتظامی تیاپانچا کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اس کی شکل وصورت کیا ہوگی؟

اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں، مگر اس کی سب سے بدترین شکل جو بیان کی جا رہی ہے، وہ افواہ بھی ہوسکتی ہے یا پھر ذہن سازی کا افسوس ناک عمل بھی: آزاد کشمیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ یہ غلطی کی گئی تو یہ ایک تباہ کن ردعمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی:

  • اوّل:یہ کہ گذشتہ ۷۷ برس میں آزادکشمیر میں ایک قومی اورعلاقائی وحدت اورکشمیر ی یا ریاستی شناخت کا احسا س بہت گہرا ہو چکا ہے۔اس احساس کو اُجا گر کرنے میں آزادکشمیر کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کا گہر ا عمل دخل ہے، جس کے تحت آزادکشمیر کے خطے کا اپنا آئین، اپنا پرچم، اپنا صدر، وزیر اعظم اور سپریم کورٹ ہے۔آزادکشمیر کو متنازعہ رکھنے کی حکمت عملی نے یہاں کے عوام میں کشمیریت اور ریاستی ہونے کے جذبات کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ یہ جذبات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
  • دوم: آزادکشمیر کے لاکھوں لوگ بیرونی دنیا میں رہ رہے ہیں اور اس تعدا د میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کشمیر ی تارکین وطن نہ صرف زیادہ منظم بلکہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ ان میں ارکان پارلیمنٹ، بلدیاتی اداروں کے منتخب سربراہ اور کونسلر بھی ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سرگرم افراد بھی۔یہ لوگ باشعور بھی ہیں اور بااثر بھی۔ ان میں آزادکشمیر کا قوم پرست عنصر بھی شامل ہے اور عام لوگ بھی۔آزادکشمیر کے انتظامی مستقبل کے حوالے سے کسی غیر حکیمانہ فیصلے کے خلاف اس حلقے کی قوت میں اضافے کا باعث بنے گا۔

علامہ محمداقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہو تی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے ناواقف رہے تو وہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاریخ صرف فخر و مباہات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تاریخ سے درسِ بصیرت حاصل کرتے ہوئے آنے والے حالات کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ انڈیا کی تاریخ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتاسکیں کہ اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں نے کتنا اہم تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ اس خطۂ ارضی کو آزاد کرانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں نے ہی میرِ کارواں کا کردار ادا کیا ہے۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں ایک نمایاں نام ٹیپو سلطان کاہے۔ یہ وہ مجاہد ِآزادی ہے جس نے میدان جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کے لیے جان دے دی۔

  ٹیپو سلطان کو شہید ہوئے دو صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے آج تک زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ انصاف رسانی اور رعایا پروری کے جو نمونے ان کے دور میں نظر آتے ہیں اس کی نظیر اور مثال یہاں بہت ہی کم ملتی ہے۔ میسور کی وادیوں میں ٹیپو سلطان نے ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء میں ایک ایسے وقت آنکھ کھولی، جب کہ غیرمنقسم انڈیا میں انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ مقامی حکمران بھی انگریزوں سے سمجھوتے کر کے ان کے باج گزار بن چکے تھے۔ لیکن ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے طوقِ غلامی کو پہننے سے انکار کر دیا اور اپنے والدحیدر علی کے ساتھ میدانِ کار زار میں ڈٹا رہا۔ٹیپو سلطان وہ پہلا شخص تھا، جس نے برطانوی سامراج کے اقتدار کو انڈیا سے ختم کرنے کے لیے بیرونی ممالک اپنے سفیر روانہ کیے۔ اس نے نپولین بوناپارٹ سے بھی ربط پیدا کیا۔ نپولین نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنی افواج کو روانہ کرے گا، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بیرونی مدد کے نہ ہونے اور دیسی راجاؤں کی جانب سے بھی کسی حمایت کے نہ ملنے کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انگریزوں سے بر سرِ پیکار رہا، اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان نے ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو شہادت پائی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے کہ’’آج سے انڈیا ہمارا ہے‘‘۔ انگریزوں کا یہ خواب ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد واقعی پورا ہوگیا اور وہ قابض ہوگئے۔

 ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ اور سابق گورنر اڈیشہ پروفیسر بشمیرناتھ نے ٹیپو سلطان کے دور حکومت پر ریسرچ کر کے ثابت کیا کہ ان کا دور ہرلحاظ سے قابلِ تحسین رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب Islam and Indian Culture میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ جب ٹیپو سلطان نے برہمنوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا تو تین ہزار برہمنوں نے خودکشی کرلی۔ جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی‘‘۔

گاندھی جی نے بھی ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کا ذکر اپنے اخبارYoung India میں، مؤرخہ ۲۳جنوری۱۹۳۰ء کو کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنّا، سری نواس اور رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے‘‘۔

’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ کی رپورٹوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے میسور کے مختلف علاقوں کے مندروں کو نہ صرف عطیات دیئے، بلکہ جاگیریں بھی عطا کیں۔ وہ ہندو مذہبی پیشواؤں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مرہٹہ افواج نے سری نگری کے مندر کو لوٹا تو اس کے گرو نے ٹیپو سلطان کو خط لکھا: ’’مرہٹہ فوج نے مندر کو لوٹ لیا اور مندر کے ہاتھی اور گھوڑے بھی لے کر چلے گئے ہیں‘‘۔ اس خط کے جواب میں مؤرخہ ۳۰ مارچ ۱۷۹۱ء کو ٹیپوسلطان نے لکھا کہ ’’ہم ان دشمنوں کو ضرور سزا دیں گے جو ہمارے ملک پر چڑھائی کرکے رعایا کو ستا رہے ہیں۔ آپ اور دوسرے برہمن ملک کے دشمنوں کی تباہی کے لیے خدا سے دعا کریں‘‘۔

 بعد میں ٹیپو سلطان نے مندر کی حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ راما شیام سندر نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارت ٹائمز میں ۱۶نومبر ۱۹۸۵ءکو شائع ہوا، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام خطوط اور فرمان آج بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کے جگت گرو کا بھی ٹیپو سلطان بڑا خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے خط میں جگت گرو کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک خط جو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں بھی اصل عبارت میں نقل کیا ہے اور پروفیسر بشمیر ناتھ پانڈے نے بھی اپنی کتاب اسلام اینڈ انڈین کلچر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

 ایسے مایہ ناز فرزند کے کردار کو آج انڈیا میں مسخ کرنے کی منظم، مسلسل اور ہمہ پہلو کوشش کی جارہی ہے۔ تاریخ کی سچائیوں کو جھٹلا کر من مانی تاریخ وضع کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم سلاطین کو نشانہ بنا کر ان پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے ذہن میں مسلم سلاطین کی نسبت سے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ بی این پانڈے نے اسی سچائی کو بیان کرتے ہوئے ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا: ’’انگریز مؤرخوں اور استادوں نے جو کچھ پڑھایا، اس کے اثرات ہم اب تک دور نہیں کرسکے ہیں۔ اسی تاریخ سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمے کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘‘۔

 ایک اور معروف انڈین مؤرخ این سی سکسینہ نے اپنی کتاب Muslim India میں اس تلخ حقیقت کو منظرعام پر لاتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بدقسمتی سے اب تک بھارت کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان پر فرقہ وارانہ رنگ چھایا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بھری ہوئی ہیں‘‘۔

غیر جانب دار مؤرخین کی ان آراء سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں نے جو تاریخ بیان کی اسی میں اور کئی چیزیں بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے شامل کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔

بی این پی کی حکومت کے تحت انڈیا میں مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل حکومتی سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم حکمرانوں کے تعلق سے حقیقت سے بعید باتیں بیان کرکے ملک کے ایک خاص طبقے میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تاریخ میں زہرگھولنے کا یہ عمل اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں شروع ہو چکا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کے نام پر دیومالائی قصوں اور کہانیوں کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ملک کی کئی یونی ورسٹیوں بشمول عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد سے پوسٹ گریجویشن سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ سے مسلم دورِ حکومت کو نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب بھارت کے عہد وسطیٰ کی مسلم تاریخ ایک قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ یہ حقائق کو جھٹلانے اور علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔

مسلمانوں کی آئندہ نسلیں یہ جان بھی نہ سکیں گی کہ مسلمانوں نے اس ملک پر کتنے طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی۔ پورے ایک ہزار سالہ دور حکومت کو بیک جنبش قلم حذف کر دینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ٹیپو سلطان ہو کہ سراج الدولہ، اورنگ زیب ہو کہ بہادر شاہ ظفر، یہ اس ملک کے حکمراں رہے ہیں اور انھوں نے اپنے دورِحکومت میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، ان سب کو فراموش کرنا ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل اہل ہند کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عہدحاضر کے انصاف پسند مؤرخین جن میں بیش تر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب تسلیم کی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ گڈوانی کی کتاب کی بنیاد پر ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔

یاد رہے گڈوانی نے اپنی کتاب میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کے واقعات کو قلم بند کر کے آنے والی نسلوں کو یہ بتا دیا کہ ایک حریت پسند اور مذہبی روادار شخصیت کے کردار کو تنگ نظر تاریخ دانوں نے کیسے داغ دار کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کی ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر، جب کہ انڈیا ’ہندوتوا‘ کے نام پر ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ ملک کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں انصاف پسند محققین کے ساتھ خود انڈین مسلم دانش وروں کو بھی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تاریخی واقعات یا مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو بیان کرکے ہم ’سلطان پدرم بود‘ کی ذہنیت اپنے پر مسلط کرلیں تو یہ بھی کوئی دانش مندی نہیں، مگر حقیقتِ حال کو بیان نہ کرنا بھی مجرمانہ فعل ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے نام سے جو نظم لکھی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں، یہ نئی نسل کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے :

تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول

صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول

باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں مشیرِ قانون ڈاکٹر آصف نذرل نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’عوامی لیگ کے خون میں فسطائی صفات پائی جاتی ہیں‘‘۔ گذشتہ دنوں بنگلہ اکیڈمی میں منعقدہ ایک نشست میں ان کا کہنا تھا کہ ’’نہ صرف حالیہ جولائی اور ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کا قتل عام، بلکہ ۱۹۷۱ء کے بعد بھی عوامی لیگ نے جے ایس ڈی اور سربہارا پارٹی کے کارکنوں سمیت ہزاروں شہریوں کےخون سے ہاتھ رنگے تھے۔ سیکٹر کمانڈر میجر جلیل کی گمشدگی اور سراج سکندر کے قتل میں بھی عوامی لیگ ملوث تھی۔ اس سے بے شک و شبہ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عوامی لیگ کے خون میں فسطائیت کا زہر موجود ہے‘‘۔

موجودہ عبوری حکومت سے منسلک کئی دیگر نمایاں افراد بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ ڈاکٹر آصف کا ’بے شک و شبہ‘ کا یہ دعویٰ نہایت اہم حقیقت ہے۔ قانونی نظام میں ’بے شک و شبہ‘ کی اصطلاح یقین کی آخری حد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس بات سے مجھے عوامی لیگ کی کئی بدمعاشیاں یاد آتی ہیں، جن کا میں خود شاہد ہوں۔ ڈاکٹر آصف نے ان واقعات کا ذکر کیا ہے، جو قیام بنگلہ دیش کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں انھیں ۱۹۷۱ء کی تحریک سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ عوامی لیگ کا جنم قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے کی بات ہے۔

عوامی لیگی ارکان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان اسمبلی کے نائب اسپیکر شاہد علی پٹواری کا قتل تو میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے، لیکن خود میں نے اپنی جوانی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کو کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہاکیاں، ڈنڈے اور آہنی سریے اٹھائے دہشت پھیلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ تب اسے ’مشرقی پاکستان چھاترو لیگ‘ (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس لیگ: EPSL)کہا جاتا تھا۔ ان دنوں ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ وہاں پر این ایس ایف کو سپورٹ کرتی تھی جو کالجوں اور جامعات میں پھیلی ہوئی ایسی ہی ایک اور بدمعاش جماعت تھی۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مشرقی پاکستان چھاترو یونین (ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین:EPSU، ایک اتحادی کی طرح) این ایس ایف اور دوسری طلبہ تنظیموں سے نپٹنے میں مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی مدد کرتی تھی۔

۱۹۶۹ء کے شروع میں ایوب خان کے خلاف ایک بڑی مہم شروع ہو ئی۔ اگرچہ مشرقی پاکستان چھاترا یونین اور مشرقی پاکستان چھاترو لیگ اولین صفوں میں تھیں، لیکن حزب اختلاف کی دیگر تمام جماعتیں بشمول روایتی مسلم لیگ (تب کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی)، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی، دیگر چھوٹی جماعتیں اور عوامی لیگ بھی اس میں شامل تھیں۔ میں اپنے آبائی شہر میں اس تحریک کے جلسوں کا حصہ بنا کرتا تھا، لیکن وہاں چھاترو لیگ اور چھاترو یونین کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں سے متفق نہیں تھا۔ ایک نعرہ ’لگائو لگائو، آگ لگائو‘ بھی تھا۔ یہ تحریک آج کل کی تعریف کے مطابق بظاہر پُرتشدد تو نہیں تھی لیکن پُرامن بھی نہ تھی۔ ایوب مخالف تحریک کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری صفوں میں موجود کئی نامعلوم اور گمنام لوگ مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کے اہم رہنما بن گئے۔

اس کے بعد جنرل یحییٰ خان کی حکومت آئی، جو مشرقی پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش دے گئی۔ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات صاف شفاف تھے لیکن ایسا نہیں ہے۔ عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان میں موجود مارشل لا حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۷۰ء میں پوری انتخابی مہم کے دوران عوامی لیگ کے غنڈے خوف کی فضا پیدا کرکے حزبِ اختلاف کی ریلیوں اور جلسوں کو خراب کرتے رہے۔ ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کر کے دو افراد کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید مودودی اس جلسے سے خطاب کرنے والے تھے، لیکن عوامی لیگ سے وابستہ کارکنوں اور طلبہ نے باقاعدہ میدان پر ہلہ بول دیا۔ حکومت اور عوامی لیگ دونوں اس جارحیت میں شامل تھے۔ ایک خاموش مددگار، دوسرا حملہ آور، یہی صورتِ حال پوری انتخابی مہم کے دوران جاری رہی۔

وقت کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کا فسطائی کردار اور واضح ہوتا گیا۔ انتخابات کے روز ۷دسمبر۱۹۷۰ء کو مشرقی پاکستان کے کئی علاقوں میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے دیگر جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی مراکز میں بھی بطورِ پولنگ ایجنٹ بیٹھے تک نہ دیا۔ یک طرفہ من مانی کے انتخابات جیتنے کے بعد مزید ماردھاڑ کی گئی۔ اگرچہ یکم مارچ ۱۹۷۱ءکو جو ظلم کی سیاہ رات شروع ہوئی، اس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ہے لیکن عوامی لیگ کے بنگالی بدمعاشوں نے جس طرح صورتِ حال کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس اور مسلح افواج کے غیر بنگالی اہلکار اور ان کے بیوی بچّے آسان ہدف تھے اور صوبے کے مختلف علاقوں میں ایسے کئی افراد کو بے دردی سے ذبح کیا گیا۔ جنسی بے حُرمتی کی گئی، لاشوں کے ٹکڑے کیے گئے۔ بہت سی جگہوں پر بہاری بھی ہدف قرار پائے۔ تباہ حال شہری انتظامیہ مکمل ناکام ہو گئی اور ملک خانہ جنگی کے حوالے کر دیا گیا۔

۲۵مارچ کو فوج نے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع کیا تو یہ خانہ جنگی، ’جنگ آزادی‘ میں بدل دی گئی۔ بہت سے بہاری خاندان اس نسل کشی کا نشانہ بن گئے جو مارچ ۱۹۷۱ء میں شروع ہوئی اور نو مہینے کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی جاری رہی۔ ایسی کئی لرزہ خیز کہانیاں ہمیں عظمت اشرف کی کتاب Refugee  اور قطب الدین عزیز کی کتاب Blood and Tears میں  ملتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشیرقانون ڈاکٹر آصف نذرل قیامِ بنگلہ دیش سے پہلے اور فوراً بعد عوامی لیگ کی غنڈا گردی سے واقف ہیں یا نہیں۔

اسی پس منظر میں ہم اس سلوک کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جس کا ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کے بعد کچھ بنگالی بولنے والوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان لوگوں میں نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین کا نام نمایاں ہے۔ مولوی فرید احمد جو ایک بڑے عالم اور رکن پارلیمنٹ بھی تھے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سنگسار کر دیے گئے۔ پروفیسر سجاد حسین کو مُردہ سمجھ کر گلستان سینما ہال کے سامنے پھینک دیا گیا، لیکن وہ بچ گئے اور انھوں نے اپنی کتاب The Waste of Time بھی لکھی۔

عوامی لیگ اور اس کے حامیوں نے بنگلہ دیش کی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ میں نے یونی ورسٹی کی سطح پر تیس سال تک تاریخ پڑھائی ہے لیکن میں نے کسی علاقے کی تاریخ میں ایسی تحریف اور حقائق کی پامالی نہیں دیکھی جو ہمیں بنگلہ دیش کی تاریخ میں ملتی ہے۔ اس لیے پُرزور تجویز پیش کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت تاریخ کے نصاب کو اَزسرِ نو مرتب کرے۔ حال ہی میں عوامی لیگ کے نام نہاد طلبہ ونگ چھاترو لیگ پر پابندی لگائی گئی ہے، لیکن اگر اس کی خاطر خواہ وجوہات پیش نہ کی گئیں تو یہ قدم الٹا نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ایسا نصاب جو منطقی و عقلی بنیادوں پر بنگلہ دیش چھاترو لیگ اور اس کی پیش رو مشرقی پاکستان چھاترو لیگ کی تاریخ پیش کرے، ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال عوامی لیگ کے مستقبل کا ہے، قدرتی طور پر حالات اس انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ شیخ حسینہ کی حکومت اپنے فسطائی رویے کے خلاف ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کے باعث رخصت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو تمام ’فسطائی خصوصیات‘ کا مظاہرہ کرنے پر قصوروار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کی فی الحال ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کا کیا کیا جائے؟ کیا اس پر باقاعدہ پابندی لگا دی جائے؟ اگرچہ ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے عوامی لیگ پر پابندی کی مخالفت کی ہے، حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ جیسے فاشسٹ اور کرپٹ ٹولے کو بنگلہ دیشی سیاست میں واپسی کا کوئی حق حاصل نہیں۔

چنانچہ اس صورتِ حال میں عوامی لیگ کا مستقبل کیا ہونا چاہیے؟

ہم اپنے تاریخی شعور سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دنیا کے دوسرے ممالک نے فسطائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ جرمنی نے جنگ کے بعد ہٹلر کی ’نازی پارٹی‘ پر پابندی لگا دی تھی۔ اٹلی نے بھی اپنی ’نیشنلسٹ فاشسٹ پارٹی‘ کے ساتھ یہی کیا تھا۔ ان ممالک نے تعلیمی اصلاحات، عدالتی فعالیت اور قانونی طریقوں سے آمریت کی واپسی کا دروازہ بھی بند کردیا۔ بنگلہ دیش کا المیہ یہ ہے کہ ’جولائی اگست ۲۰۲۴ء کے طلبہ انقلاب‘ کے بعد عبوری حکومت کے چند سرکردہ رہنماؤں کا موقف یہ تھا کہ ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین درکار ہے، چنانچہ انہوں نے اسی دستور کے ساتھ جڑے رہنے کا فیصلہ کیا، جسے استعمال کر کے عوامی لیگ نے اپنی فسطائی حکومت قائم کی تھی۔ انھیں یہ احساس نہیں ہو سکا کہ یہ آئین خود ’غیر آئینی‘ ہے۔

انقلاب نے اس کے جواز پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا ملکوں کو چلانے کے لیے آئین ضروری بھی ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی باقاعدہ دستور کے بغیر چل رہے ہیں۔ ان کا کام شہریوں کے درمیان اتفاق رائے سے چلتا ہے۔ فرانسیسی مفکر ژاں ژاک رُوسو (م:۱۷۷۸ء)نے اس اتفاق رائے کو ’اجتماعی امنگ‘ کا نام دیا ہے۔ کیا بنگلہ دیشیوں کے ہاں اس وقت ایک اجتماعی امنگ موجود ہے؟ اس کا جواب ہے: ’’بالکل موجود ہے‘‘۔ طلبہ نے انصاف کی بالادستی کے لیے اپنی تحریک کچھ مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔ لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ حکومت ان مطالبات پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں، تو انہوں نے حکومت کی رخصتی کو ہی اپنا واحد مطالبہ بنا لیا۔ ساری قوم طلبہ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور انقلاب کامیاب ہو گیا۔ یہ کامیابی انقلابِ فرانس سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی۔ اتفاق سے فرانس کا انقلاب بھی جولائی اگست ۱۷۸۹ء میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک اجتماعی امنگ موجود نہیں؟ طلبہ کے تمام ابتدائی مطالبات کو نئے دستور کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اجتماعی امنگ پوری آبادی کی اُمنگوں کا نام نہیں اور نہ یہ اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ پوری آبادی کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک بڑی اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے‘‘۔

چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کے ’ادارہ برائے انسانی حقوق‘ (UNHR)کے سربراہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انصاف کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے، اس میں تمام ہلاک شدگان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کو شامل ہونا چاہیے‘‘۔ کیا ان کا اشارہ عوامی لیگ کے ارکان کی جانب ہے، جن میں سے کچھ واقعی جولائی اگست میں تشدد کا نشانہ بنے؟ کیا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی تکثیریت کے نام پر عوامی لیگ کے غنڈوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے؟ اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال کو سب سے زیادہ ہیجان خیز قرار دیا ہے۔ یقیناً ایسی صورتِ حال کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، لیکن عوامی لیگ کی فسطائیت کا بندوبست کیے بغیر موجودہ انتظامیہ کبھی بنگلہ دیش کو مستحکم نہیں کر سکے گی۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں فسطائیت کے خلاف کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے مکمل ہوا ہے؟

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ’’فسطائیت عوامی لیگ کے خون میں شامل ہے‘‘۔ تو کیا ہمیں عوامی لیگ سے اس لیے کوئی امتیازی سلوک کرنا چاہیے کہ یہ تحریک ایک زمانے میں بہت مقبول رہی ہے؟ یہاں ایک دفعہ پھر ہم جرمنی کی مثال لیتے ہیں۔ ہٹلر جمہوری طریقے سے کھلے عام، پاپولر ووٹ لے کر اقتدار میں آیا تھا اور اسی نے پہلی جنگ ِ عظیم کے تباہ شدہ جرمنی کو مکمل طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ پھر اس نے بڑی محنت سے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمنی کو ایک طاقتورملک بنا دیا۔ انھی حیران کن اور قابلِ رشک کامیابیوں نے اس کے دماغ میں وہ ہوا بھر دی کہ اس نے نہ صرف جرمنی میں اپنی آمریت قائم کر لی، بلکہ وہ باقی دنیا کو بھی اپنے زیر نگیں لانا چاہتا تھا۔ تاہم، دنیا نے ان کامیابیوں کے باوجود ہٹلر کو معاف نہیں کیا۔

اس وقت سب سے بڑا کام اجتماعی امنگ اور ایک مقبول رہنما کی اُمنگوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا ہے۔ رُوسو کے بقول احتساب، انسانی وقار کا احترام، شفافیت اور سیاسی شمولیت اس اجتماعی امنگ کے اظہار کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی لیگ نے اپنی عمر کے تقریباً ستّر برسوں میں ان خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے؟ جواب ہے: ’’ہرگز نہیں، بلکہ اسی میں ناکامی کے باعث طلبہ اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اجتماعی اُمنگوں کو بروئے کار لانے کے لیے پوری کوشش کرے‘‘۔

اس امر کے بڑے واضح ثبوت موجود ہیں کہ راندۂ درگاہ عوامی لیگ کے بدمعاش، موجودہ حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’’آزادی رائے کی جمہوری روایت کا احترام کیا جائے‘‘ لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوری روایات کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ یہ صورتِ حال موجودہ حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہمارے شعور کے مطابق عوامی لیگ پر پابندی لگانا جمہوری روایات کا تقاضا ہے۔ ملک میں انصاف کی حکمرانی اور عوامی لیگ کی آمریت کے خلاف جانیں دینے والوں کا احترام کرتے ہوئے حکومت کو ایسا قدم اٹھانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

غزہ ۴۰ ملین ٹن ملبے کا ڈھیر ہے۔ ۱۰۰ بڑے ٹرالر اگر اس ملبے کو ہٹانے پر لگائے جائیں تو انھیں ۱۵ سال لگیں گے۔ غزہ کی پٹی میں چاروں طرف اسرائیلی جارحیت کے سبب تباہی و بربادی اور موت کا راج ہے۔ تاہم، اسرائیل اور اس کے حواری ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد اپنی وحشت، درندگی اور خون آشام صہیونیت کے دفاع میں ایک بار پھردنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی تحریک مزاحمت کے پاس غزہ کی ریت اُڑاتی سر زمین پر ’مشرق وسطیٰ کے سنگاپور‘ کی تعمیر کا پورا موقع موجود تھا، جو اس نے اپنی نااہلی کی بدولت کھو دیا ہے۔

فی الحقیقت یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، جسے اسرائیل اور اس کے حواری اپنی پروپیگنڈا مشین کے زور پر چند عشروں، خصوصاً اوسلو مذاکرات کے بعد سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اسرائیل ابتدا ہی سے اقتصادی طور پر ’مضبوط غزہ‘ کے خلاف تھا اور ہمیشہ سے اس کی کوشش رہی کہ غزہ کو اقتصادی طور پر تباہ حال رکھے۔ کبھی اس قابل نہ ہو نے دے کہ یہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیش خیمہ اور نقطۂ آغاز بن سکے ۔ مکار اسرائیلی پالیسی ساز ایک طرف عالمی برادری کے سامنےیہ راگ الاپتے رہے کہ غزہ ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘بن سکتا ہے ، تو دوسری طرف اپنی نجی محفلوں میں برملا اعتراف کرتے اور خوشیاں مناتے رہے کہ ہماری سازشوں کے نتیجے میں غزہ مالی بحرانوں کی دلدل میں دھنسے چلے جارہا ہے اور ہمیشہ اسی دلدل میں غرق رہے گا۔

کیا اسرائیل کے ہوتے ہوئے غزہ فی الواقع مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا تھا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ۷؍ اکتوبر سے قبل کی اسرائیلی پالیسی کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، جب غزہ میں حماس انتظامیہ کا وجود ہی نہیں تھا۔

مشرق وسطیٰ میں سنگاپور کے قصے کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب جنوری ۱۹۸۸ ءمیں امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا ، جس کا عنوان تھا: ’ریاست غزہ، جو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بن سکتا ہے‘۔ مضمون نگار مارٹن گوتھرمین نے اپنے مضمون میں یہ تصور دیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں ایک علیحدہ آزاد اور مستقل ریاست قائم کر دی جائے۔ مصنّف کےخیال میں مجوزہ ریاست کے پاس ممکنہ طور پر وہ سارے امکانات ا ور وسائل موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بناسکتے ہیں۔ گوتھرمین وہ پہلے فردہیں جنھوں نے غزہ کو ’سنگاپور‘سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ، سنگاپور کی ڈٹو کاپی بن سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیلی قبضہ کے زیر سایہ ان کا یہ خیال ایک ایسا خواب تھا جسے دور کی کوڑی ہی کہا جاسکتا ہے۔

صورت حال یہ تھی کہ غزہ اُس وقت عملاً اسرائیلی ظالمانہ قبضہ کے تحت جی رہا تھا اور فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی انتظامیہ کے مابین مذاکراتی عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار تھا۔ ۱۹۹۱ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں پر اس وقت عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا، جب اس نے وہ عمومی پاس منسوخ کر دیا جو مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کو اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں آنے جانے کے لیے نسبتاً آزادی فراہم کرتا تھا۔ اب ہر فرد کو خوب چھان پھٹک کے بعد ہرمرتبہ نیا پاس حاصل کرنا ہوتا۔

۱۹۹۳ء میں اسرائیلی انتظامیہ نے مغربی کنارے اور غزہ کے باسیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کردیں، تاہم یہی وہ برس تھا جب غزہ اور سنگاپور کا نام ایک بار پھر شد و مد سے لیا جانے لگا۔ لیکن اس بار ’مشرق وسطیٰ کے سنگا پور‘ کی یہ اصطلاح مشرق وسطیٰ میں نہیں، اوسلو معاہدے کے مذاکرات کاروں کے مابین سننے کو مل رہی تھی۔ فلسطینی سیاسی رہنما مرحوم شفیق الحوت اپنی ڈائری میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی سے اپنے استعفا کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوسلومعاہدے کے نتائج اور مضمرات سے میں متفق نہیں تھا، لہٰذا میں نے استعفا دینے اور صدر یاسر عرفات کو ان کے منافق مشیروں کے نرغے میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ وہ غزہ کی ریت اور مغربی کنارے کے ٹیلوں پر ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ تعمیر کرتے رہیں‘‘۔ یوں شفیق الحوت اور ان جیسی سوچ رکھنے والے دیگر لوگ استعفا دے کر ایک طرف ہوگئے اور ستمبر ۱۹۹۳ء میں صدر یاسر عرفات کی زیر صدارت فلسطینی انتظامیہ نے امریکی صدر کلنٹن اور اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کی موجودگی میں اوسلو معاہدے پر دستخط کر دیے۔

غزہ اریحا معاہدہ

۱۹۹۴ء میں طے پانے والی مفاہمتی یادداشتوں میں جہاں دیگر بہت سے امور پر بات کی گئی تھی، وہیں اسرائیل نے اپنی سخت نگرانی اور کنٹرول میں غزہ کے لیے بندرگاہ اور ایئرپورٹ کے قیام کی اجازت دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اسے گویا غزہ کو سنگاپور بنانے کی طرف اولین عملی قدم کہا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۹۶ء میں غزہ ایئرپورٹ کی تعمیر کا آغاز ہوا،جسے عرب اور مغربی ممالک مل کر اسپانسر کر رہے تھے۔ دسمبر ۱۹۹۸ء میں امریکی صدر بل کلنٹن اپنی زوجہ ہیلری اور دیگر ہمراہیوں کے ساتھ اسی غزہ ایئرپورٹ پر اُترے جہاں صدریاسر عرفات نے ان کے ساتھ مل کر غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاحی فیتہ کاٹا۔ تاہم، غزہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بنے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسرائیلیوں کو اس کا وجود کھٹکنے لگا اور ۲۰۰۱ء میں انھوں نے بمباری کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا۔

غزہ کی بندرگاہ کا نصیب بھی غزہ ایئرپورٹ سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۰ء میں اس پر ابتدائی کام کا آغاز ہوا اور تین ماہ بعد ہی ستمبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی ٹینکوں اور بلڈوزروں نے اب تک تعمیر ہونے والی اس کی مرکز ی عمارت اور اس کے ساتھ بننے والی دیگر عمارتوں کو اُڑا کر ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔

اسی پر بس نہیں بلکہ اور بھی بدترین حالات ابھی غزہ کے تابناک مستقبل کی گھات میں بیٹھے تھے۔ جون ۲۰۰۴ء میں اسرائیلی کابینہ نے یک طرفہ طور پر غزہ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیست‘ نے بھی اس پلان کی منظوری دے دی۔ سازشی پلان کے مطابق غزہ کی پٹی میں واقع ۲۱؍ اسرائیلی نوآبادیوں کوخالی کردیا گیا،جب کہ مغربی کنارے میں آباد صرف چار نوآباد یہودی بستیاں خالی کی گئیں۔یوں غزہ صہیونی وجود سے مکمل طور پر خالی ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی بری، بحری، اور فضائی ناکہ بندی اور محاصرے کو شدیدتر کردیا۔

یہ امریکا میں صدر بش کا دورِ صدارت تھا اور وہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو بھی اس وقت ایک ایسے الیکشن کی ضرورت تھی، جس سے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے ان کی اپنی منتخب کردہ سیاسی قیادت سامنے آتی ۔چنانچہ غزہ سے آخری صہیونی نوآباد کار کے نکلنے کے ٹھیک چار ماہ بعد، جنوری ۲۰۰۶ء میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں ’فلسطینی قانون ساز اسمبلی‘ 'کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں نمایاں ترین دو پارٹیاں تھیں: تحریک الفتح اور حماس۔ حماس نے قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ان انتخابات کو مشرق وسطیٰ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا تھا ۔ بعدازاں قانون ساز اسمبلی نے فلسطین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم فلسطین کے منصب کے لیے اسماعیل ھنیہ شہید کو منتخب کرلیا اور وہ فلسطینی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ امریکی و صہیونی انتظامیہ دونوں کے لیے شدید صدمے کا باعث تھا۔ انھیں ہر گز توقع نہیں تھی کہ حماس یہ انتخابات جیت جائے گی اور اپنا وزیر اعظم منتخب کر لے گی۔ چنانچہ حماس حکومت کے خلاف بیک ڈور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔

 پینٹاگون کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے حماس کی جیت کے بعد وہاں کی صورتِ حال کو ’ہولناک صدمہ‘ سے تعبیر کیا۔پینٹا گون میں ہر کوئی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرا رہا تھا اور سبھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ فلسطینی قانون ساز اسمبلی کےانتخابات اور ان کے نتیجے میں نمائندہ فلسطینی انتظامیہ کے قیام کی تجویز آخر پیش کس نے کی تھی؟

حماس کے زیر انتظام غزہ کی اصل مشکلات کا آغاز اس چار ملکی کمیٹی کے اجلاس کے بعد شروع ہوا، جس نے حماس کے سامنے شرمناک اسرائیلی شرائط پیش کرنا شروع کیں۔ شرط یہ تھی کہ ’’حماس مسلح مزاحمت ترک کرے، اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کرے، اور غیر منتخب تحریک فتح کی جانب سے اب تک اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو من و عن تسلیم کرے‘‘۔

دوسری طرف تحریک الفتح کی طرف سے بھی نومنتخب حماس حکومت کو منتقلیٔ اقتدار کے سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا ۔منتخب اسمبلی وجود میں آنے اور منتخب وزیر اعظم کے منصب سنبھال لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے منصب داروں کو اقتدار منتقل کردیا جاتا، اور مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا، مگر تحریک الفتح کی طرف سے منتقلیٔ اقتدار کے اس عمل میں ہر آن رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ آخرکار ۲۰۰۷ء میں حماس کو اس مسئلے سے خود ہی نبٹنا پڑا، اور غزہ کا مکمل انتظام و انصرام ا س نے سنبھال لیا۔ غزہ کے مکمل محاصرے کا عمل تو اسرائیل نے حماس کے الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا، لیکن جولائی ۲۰۰۷ء میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول مکمل طور پر سنبھالنے کے بعد یہ محاصرہ شدید تر کر دیا گیا۔

 ستمبر ۲۰۰۷ء میں صہیونی حکومت نے غزہ کو ’دشمن سرزمین‘ قرار دے دیا، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اب غزہ کو خوفناک اقتصادی نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اسرائیل نے یکے بعد دیگرے وہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں، جن کا بنیادی مقصد غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا اور پیداواری صلاحیت کو محدود تر کرنا،صنعت و تجارت کو تباہ کرنا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اہل غزہ غربت اور بدحالی سے تنگ آ کر خود حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے نقش قدم پر چل نکلیں، جو نسبتاً خوشحالی سے بہرہ مند تھے اور اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ دراصل اہل غزہ کو حماس کو ووٹ دینے کی اجتماعی سزا دی گئی تھی۔

عائد کردہ اقتصادی پابندیوں میں غزہ میں آنے والے سامان کی نقل و حمل، اس کی مقدار اور حجم کو محدود کرنا، ایندھن اور بجلی کی سپلائی محدود کرنا، اور غزہ آنے جانے والے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ ظالمانہ اسرائیلی پالیسی اور اس کے پیچھے کار فرما سوچ اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آگئی، جب ۲ نومبر ۲۰۰۸ء کو تل ابیب میں امریکی سفارت خانے نے اپنی وزارتِ خارجہ کو ایک برقیہ بھیجا، جو بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عام ہوا۔ برقیے کے مطابق اسرائیلی انتظامیہ نے ایک سے زائد مرتبہ امریکی سفارت خانے کے اقتصادی امور کے انچارج سے کہا تھا کہ ’’غزہ کی ناکہ بندی کی یہ پالیسی ہمارے جامع معاشی منصوبہ کا حصہ ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ غزہ کی معیشت ہمیشہ دیوالیہ پن کے کنارے پر رہے، مگر مکمل طور پر تباہ نہ ہو‘‘۔

در اصل اسرائیل چاہتا تھا کہ غزہ کی معیشت کام تو کرتی رہے مگر اپنی صلاحیت کے ادنیٰ ترین درجے پر، تاکہ کوئی بڑا انسانی بحران پیدا نہ ہو۔ غزہ پر بھوک مسلط رکھنے کی اس پالیسی کی کچھ تفصیلات جون ۲۰۰۹ء میں اسرائیلی اخبار ہاریٹس' نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیں۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے والی غذائی اجناس میں موجود کیلوریز تک کا حساب کتاب رکھتی تھی۔

بدترین پہلو اس پالیسی کا یہ تھا کہ غزہ میں بس اس قدر غذا فلسطینی باشندوں کے لیے داخل ہونے دی جائے جس سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح اسرائیل نے غزہ کی معیشت کو تباہ کیا۔ ایک طرف اس کی پیداواری صلاحیت کو محدود اور ختم کیا اور دوسری طرف غزہ کے باشندوں کی زندگی کو اجیرن کیا۔ سروسز سیکٹر اس سے پہلے ہی اسرائیلی پابندیوں اور عقوبتوں کی نذر تھا ۔

۲۰۱۵ءمیں ایک رپورٹ نشر ہوئی تھی، جس کا عنوان ’فلسطینی و اسرائیلی اقتصادی تعلقات‘ تھا۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء سے ایک برس قبل ہی فلسطینی معیشت کو تباہ کیا جا چکا تھا۔۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’آنے والے آٹھ برسوں میں خصوصاً ۲۰۲۰ء تک اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ‘‘۔

اس تباہ کن صورتِ حال کا سبب اسرائیل ہمیشہ یہی بتاتاآیا ہے کہ ’حماس‘ غزہ کی معیشت کو ترقی دینے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں رکھتی اور غزہ کے باشندے حماس حکومت کے زیرانتظام خوش حال زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقتاً غزہ کی لب ِگور معیشت کو اسرائیلی مکار کاریگروں نے کچھ اس طرح سے انجینئر کیا تھا کہ غزہ گھٹنوں کے بل جھک جائے اور اس کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے، اور اس کے ساتھ ہی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے۔ اسی سیاق وسباق میں القدس بلدیہ کے اسرائیلی نائب چیئرمین میرون بینیفیستی کا وہ بیان قابل توجہ ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ :’’غزہ کی معیشت کو کمزور کرنا فلسطینی معیشت کو کمزور کرنے کی کنجی ہے اور اسی طرح فلسطینی ریاست اور قیادت کو عمومی طور پر کمزور تر کیا جا سکتا ہے‘‘۔

اسرائیل کی طرف سے آخری برسوں میں اٹھائے گئے اس سلسلے کے تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اٹھانے اور اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی اس کی نہ کوئی نیت تھی، اور نہ کوئی ارادہ تھا کہ غزہ کی معاشی صورت حال بہتر ہوسکے۔ مزاحمت نہ ہو تو غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا سنگاپور‘ بنادیں، یہ محض اس کا ایک پروپیگنڈا ٹول اور جھوٹا خواب تھا، جو اسرائیل کبھی اوسلو مذاکرات کی ٹیبل پر اور کبھی اقوام متحدہ کے ایوانوں میں فلسطینی باشندوں اور دنیا کو دکھاتا رہا تھا۔

جولائی ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے صہیونی وزیر دفاع افیغدور لیبرمین اپنے ایک بیان میں اسی تاریخی سفید جھوٹ کو پھر دُہرا رہے تھے کہ ’’اسرائیل غزہ کو مشرق وسطیٰ کا سنگاپور بننے میں اس کی مدد کر سکتا ہے شرط بس یہ ہے کہ غزہ کے لوگ مزاحمت سے دست کش ہو کر حماس حکومت کا خاتمہ کردیں‘‘۔

اسرائیلی دانش ور ماہر لسانیات تانیہ رائنہارٹ کے مطابق اسرائیل اگر مغربی کنارے کو ضم کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی صورت بھی غزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔دراصل اسرائیل کامقصد ہے بھی یہی۔ اس لیے کہ غزہ کو اگر آزاد چھوڑدیا گیا تو وہ عالم عرب سے براہِ راست تعلقات قائم کرلے گا اور یوں وہ صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن جائے گا۔ اسرائیلیوں کا پختہ خیال ہے کہ غزہ کو کسمپرسی کی حالت میں رکھ کر وہ در اصل اس ممکنہ مزاحمتی تحریک سے نبٹ رہے ہیں، جو مغربی کنارے کے مکمل انضمام کے نتیجے میں پھوٹنے کا احتمال ہے ۔

اسرائیل نے غزہ کو موجودہ حالت میں محصور رکھ کر جھکانے کے جو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں نمایاں ترین اس کی اقتصادی ناکہ بندی کرنا، جغرافیائی طور پر تنہا رکھنا اور مادی طور پر تباہ حال رکھنا شامل ہیں ۔

’ طوفان الاقصیٰ ‘سے قبل غزہ میں بے روزگاری کی شرح ۵۰ فی صد تھی اور ان نوجوانوں میں  جن کی عمریں ۱۵ سے ۲۹سال ہیں، بے روزگاری کی یہ شرح ۶۲ فی صد تھی۔ غزہ کی ۸۰فی صدآبادی کا ، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے عالمی خیراتی اداروں کی امداد پر تکیہ تھا۔ ۲۳ لاکھ سے زیادہ بنی آدم ایک ایسی محصور جگہ میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے، جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے اوّلین روز سے ہی اسرائیلی ناسور کا اصل ہدف یہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور یہاں کے باشندوں کو ہجرت کرجانے پر مجبور کردے، یا انھیں اتنا دبا لیا جائے کہ ان طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا تا اَبد خطرہ باقی نہ رہے۔ غزہ کی موجودہ جنگ اسی کا تسلسل ہے۔

جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات شہاب نامہ کے مطالعے سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کو جاننے اور پرکھنے کاموقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب رائے عامہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ریاض صاحب کو پاکستان کے چار وزرائے اعظم: میاں محمد نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دو اَدوار میں انھی کو پریس سیکرٹری کے لیے منتخب کیا۔

خبروں کے مرکز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین عشروں تک میرے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک وہ پاکستان ہائی کمیشن میں ’پریس منسٹر‘ رہے۔چونکہ بھارتی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبروں کو کور کرنا، اور انڈیا میں چاہے کہیں تشدد کا واقعہ ہو، بم دھماکا یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہوتا ہے اور اس شکل میں پاکستانی ہائی کمیشن کا وجود اور پریس منسٹر توانتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے: ’’یہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی طلب ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔ اس لیے اس فرد کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری تھا۔

مئی ۱۹۹۵ء کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد ہ سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ اُنھوں نے مجھے ہدایت دی کہ پاکستانی صدر سردارفاروق خان لغاری کے ہمراہ آنے والے میڈیا وفد پر نظررکھوں اور اگر پاکستانی وفد کوئی بریفنگ دیتا ہے تو ان کے مندرجہات سے فوراً ان کو مطلع کروں۔ دہلی میں ان دنوں روزنامہ جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو عبدالوحید حسینی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔پھر کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر The Nation کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی صاحب بہت شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کی پیش کش کر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرر کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار ’جموں و کشمیر حُریت کانفرنس‘ کے لیڈروں سے پاکستان ہائی کمیشن میں اس وقت کے سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ یوں ۲۰۰۲ء تک میرا دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر ڈیلی ٹائمز اورفرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ بعد میں کئی برس تک پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا تھا۔ مگر ۲۰۱۱ء میں صاحب ِ طرز کالم نگار اور دانش ور ہارون الرشید صاحب نےروزنامہ دُنیا  میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کو پھر سے استوار کروایا۔

جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا تو مَیں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد ’اے آر وائی ٹی وی‘ کے لیے اور پشپندر کلوستے ’آج ٹی وی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے، جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔ اس طرح ۱۹۹۵ء سے ہی مجھے پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبارات لینے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطورِ سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر خدمات کی جو چھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ بعد میں اس کو کسی حدتک منظورمیمن نے نبھایا۔

رائے ریاض جب دہلی وارد ہوئے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان وفود کا تانتا لگارہتا تھا۔ رائے صاحب پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن، وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کے لیے کام کرنے والے چند صحافیوں کو بھی ضرور بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: بیرونِ ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے اہل کار۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تو وہ خود پس منظر  میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں میٹنگیں ہوتی تھیں، جن کے ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سیّدجماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو شرکت کرنے کے لیے آتے تھے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ یوں ہمیں خاصی بیک گرائونڈ انفارمیشن حاصل ہوجاتی تھی۔

رائے ریاض جب دہلی آئے تو منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ انھوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گرائونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر اور دانش وَر جناب افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔

رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں: کس طرح صدر جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے پر بضد تھے ، اور کس طرح وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے اس کوشش کو ناکام بنایا؟ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات تب وسیع ہوگئے جب پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی صاحب نے فوراً مسترد کر دیا۔ انھی دنوں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دبائو میں تھے۔اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملا، اورفوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد سے کہا: ’’آج کل بائیں بازو والے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ روموں میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں‘‘۔ بس یہ اشارہ تھا اور اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکا کے عراق پر حملہ اوربھارتی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلے کےخلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ واجپائی نے فوراً پارلیمنٹ میں بیان دیا:’’ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ اس طرح انھوں نے امریکا سے معذرت کی۔

سری لنکا میں تقرر کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجروں کے لیے کھولنے کی بڑی جدوجہد کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگوفیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بدمزہ، خراب اور کھٹے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے ’مہربانوں‘ نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی،جو ائرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی فروٹ مارکیٹ حصول سے قبل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ ’’پاکستانی خربوزے کی قیمت۱۰ لاکھ ڈالر‘‘۔ یہ اس ہیروئن کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔

رائے ریاض نے دہلی میںقائداعظم محمدعلی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے پاکستان جانے سے قبل Times of India کے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:  مہاتما گاندھی، بھنگیوں کے محلے میںرہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔  دہلی میں ۱۹۳۰ء سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھیرتے تھے۔ پھر ’جناح ہائوس‘ سے چندمیٹر دُوری پر ’برلا ہائوس‘ ان کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ ’جناح ہائوس‘ میں اس وقت نیدرلینڈ کے سفیررہتے تھے اور ’برلا ہائوس‘ میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو گوڈسے نے ہلاک کیا تھا۔ جب ڈالمیا نے ’جناح ہائوس‘ کا قبضہ لیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلےاس پورے بنگلے کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر اتنی ’احتیاطوں‘ کے بعد بھی، وہ اس مکان میں منتقل نہیں ہوئے اور اس کو کرایہ پر دے دیا۔

مصنف نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا بھی ذکر کیا ہے، جو ویسے تو اکثر دہلی وارد ہوتےتھے، اور جمعیت العلماء ہند ان کی میزبانی کرتی تھی۔ مجھے بھی ان سے واسطہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں ہی پڑا۔ ۴جولائی۱۹۹۵ء کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیرمعروف تنظیم ’الفاران‘ نے اغوا کرلیا۔ ۲۲ یا ۲۳ جولائی کے آس پاس حُریت لیڈر جناب سیّدعلی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع ’کشمیر ہائوس‘ میں ٹھیرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس دہشت پسندانہ کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے مضطرب تھے۔ فلسطین کے برعکس کشمیرکےحوالے سے مغربی دُنیا میں ایک روایتی نرمی پائی جاتی تھی۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں گیلانی صاحب سے ملنے کشمیر ہائوس پہنچا۔ انھوں نے اغوا کی اس واردات کے حوالے سے سخت دُکھ کا اظہار کیا۔ اسی دن ہندستان ٹائمز میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خبر چھپی تھی، کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ’حرکت الانصار‘ میں ان کی پہنچ ہے، اور جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انھوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

محترم گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سیکرٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ ’’مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ملاقات کا وقت لیا جائے، کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے‘‘۔ عاصمی صاحب پہلی بار دہلی آئے تھے۔انھوں نے میری معاونت چاہی۔ خیرمعلوم ہوا کہ مولانا کنشکا ہوٹل میں ٹھیرے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ چیک آئوٹ کرکے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آکر جمعیت کے دفتر میں ٹھیرے ہیں۔ عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے وقت لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے۔ میں ایک روز نماز کے وقت جمعیت کے دفتر پہنچا اور جونہی انھوں نے نماز ختم کی تو میں ان کے سامنے پہنچا اور گزارش کی  کہ ’’کشمیری لیڈرگیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں‘‘۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں ، مگر ان کا رویہ ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنا بتایا کہ ’’مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جارہے ہیں‘‘۔ ان کی واپسی کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کردیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز ۱۷؍اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔

۲۰۱۳ء میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکہ آرا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظرعام پر آئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ ’را‘ کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی، تو دہلی سے انھیں جواب تھا: ’’جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دُنیا میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس لیے ان کے اغواکا طول دینا بھارت کے مفاد میں ہے‘‘۔ لیوی اوراسکاٹ کے مطابق بعد میں ’’جب اغواکار تنگ آگئے، تو انھوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں بیچا۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑاگیا، تو الزام بھارتی فوج کے سر آجائے گا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیندسُلا کر نامعلوم مقام پر زمین میں دبا دیا گیا۔ مگر  تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑچکا تھا اور مغربی دُنیا نے آزادی کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی شان دار خدمات انجام دیں اور اپنے دورۂ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے؟ یہ معلوم کرنا کسی صحافی کا کام ہے۔

کتاب رائے عامہ  کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔انھوں نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیلانگ کے ساتھ ان کا رویہ ان کی شخصیت کے بالکل برعکس اور جواب غیرموزوں تھا۔ بلاشبہ اس نے ان کے صبر کا امتحان لیا تھا، مگر کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتاتھا۔ ۲۰۱۶ء میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے اس رویے کی شکایت کرتے تھے۔ چند کمیوں کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے، جس کو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جس کو طاقت کی راہداریوں تک رسائی تھی اور جس نے کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (ناشر: ’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘، لاہور۔ فون: 0300-0515101)

میں یحییٰ ہوں، ایک پناہ گزیں کا بیٹا، جس نے اجنبیت کو ایک عارضی وطن بنالیا اور خواب کو ایک ابدی معرکے میں بدل دیا۔ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اس وقت میری زندگی کا ہر لمحہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ گلیوں کے درمیان گزرنے والا بچپن، پھر جیل کے طویل سال، پھر خون کا ہر قطرہ، جو اس زمین کی مٹی پر بہایا گیا۔

میں خان یونس کے کیمپ میں ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطین محض ایک یاد تھی جو تار تار کردی گئی تھی، محض کچھ نقشے تھے جو سیاست دانوں کی میزوں پر فراموش حالت میں پڑے تھے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے اپنی زندگی کو آگ اور راکھ کے بیچ میں گزارا، اور بہت پہلے یہ جان لیا کہ غاصبوں کے سائے میں زندگی گزارنے کا مطلب ایک ہمیشہ کی جیل میں رہنا ہے۔ میں نے کم سنی کے دور میں ہی یہ جان لیا تھا کہ اس سرزمین پر زندگی گزارنا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔ جو بھی یہاں پیدا ہوگا اسے اپنے دل کے اندر ناقابلِ شکست ہتھیار اٹھانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی کا راستہ طویل ہے۔

آپ سب لوگوں کے نام میری وصیت اس لڑکے سے شروع ہوتی ہے، جس نے غاصب پر پہلا پتھر پھینکا اور جس نے یہ سیکھا کہ پتھر ہی وہ پہلے الفاظ ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی بات اس دنیا کو سناسکتے ہیں، جو دُنیا ہمارے زخموں کو دیکھ رہی ہے مگر خاموش تماشائی ہے۔ میں نے   غزہ کی سڑکوں پر یہ سیکھا کہ انسان کو اس کی عمر کے ماہ و سال سے نہیں ناپا جاتا ہے، بلکہ اس سے ناپا جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے کیا پیش کرتا ہے۔ میری زندگی اسی سے عبارت تھی، جیل اور جنگیں، تکلیف اور اُمید۔

میں نے سب سے پہلے ۱۹۸۸ء میں جیل میں قدم رکھا اور اسی قید کے دوران مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن الحمدللہ، میں نے ڈر کو قریب تک پھٹکنے نہیں دیا۔ ان تاریک کوٹھڑیوں کے اندر، مَیں ہر دیوار میں کھڑکی دیکھتا تھا، جس سے دُور کا روشن اُفق دکھائی دیتا تھا۔ ہر سلاخ میں سے روشنی پھوٹتے دیکھتا تھا، جو آزادی کا راستہ روشن کرتی تھی۔ جیل میں رہتے ہوئے میں نے سیکھا کہ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں ہے بلکہ وہ ایک بہت مؤثر اور قیمتی ہتھیار ہے، کڑوا مشروب ، جیسے کوئی سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے پی لے۔

حماس کے سربراہ (۲۹؍اکتوبر ۱۹۶۲ء، خان یونس۔ ۱۶؍اکتوبر ۲۰۲۴ء شہید) ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی

تمھارے لیے میری وصیت ہے کہ جیلوں سے خوف نہ کھاؤ، جیل تو آزادی کی منزل تک لے جانے والے ہماری طویل جدوجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ جیل نے مجھے سکھایا ہے کہ آزادی محض ایک حق نہیں جو چھین لیا گیا، وہ تو ایک آئیڈیا ہے جو تکلیف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور صبر سے اس کی دھار تیز کی جاتی ہے۔ جب ۲۰۱۱ءمیں ’احرار کی وفاداری‘ نامی سودے کے تحت میں جیل سے نکلا تو میں پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ جب میں باہر نکلا تو میری شخصیت میں زیادہ اعتماد پیدا ہوچکا تھا اور اس جدوجہد پر میرا یقین کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ ایک وقتی کش مکش نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قسمت ہے، جس کی لاج ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک رکھیں گے۔

میری وصیت ہے کہ بندوق کو مضبوطی سے تھامے رہو، اس عظمت کے ساتھ، جس پر کوئی سودا نہ ہو، اور اس خواب کے ساتھ جو کبھی موت کا منہ نہ دیکھے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم مزاحمت سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے قضیے کو کبھی ختم نہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے کردیں۔ لیکن میں آپ سے کہتا ہوں: جو تمھارا حق ہے اس پر کمزوری دکھانے کے لیے مذاکرات نہ کرنا۔ وہ تمھارے ہتھیاروں سے زیادہ تمھاری استقامت سے خائف ہیں۔ مزاحمت محض ہتھیار نہیں، جو ہم اُٹھائے ہوئے ہیں۔ مزاحمت تو فلسطین کے لیے ہماری محبت ہے جو ہماری ہر سانس کے ساتھ تازہ ہوتی ہے۔ مزاحمت تو ہمارا یہ ارادہ ہے کہ حصار و ظلم کے باوجود ہمیں زندہ رہنا ہے۔

میری وصیت ہے: تم ہمیشہ شہیدوں کے خون کے لیے وفادار رہنا اور اس راہ پر چلتے رہنا۔  یہ کبھی نہ سوچنا کہ جانے والے ہمارے لیے کانٹے چھوڑ گئے ہیں، نہیں بلکہ یہ یقین رکھنا کہ انھوں نے اپنے لہو سے ہمارے لیے آزادی کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ سیاست دانوں کے مفادات کی خاطر اور ڈپلومیسی کے کھیلوں میں آکر ان قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دو۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں نے جس عظیم جہاد کا آغاز کیا، اسے تکمیل تک پہنچائیں اور اس راہ سے ذرہ برابر نہ ہٹیں، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت چکانی پڑے۔ غزہ استقامت کا مرکز اور فلسطین کا سدا دھڑکتا دل پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا، چاہے یہ وسیع و عریض سرزمین ہمارے لیے کتنی ہی تنگ ہوجائے۔

 جب میں نے ۲۰۱۷ء میں غزہ میں حماس کی قیادت سنبھالی تو وہ محض قیادت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اُس مزاحمت کا تسلسل تھا جو پتھر سے شروع ہوئی تھی اور بندوق سے جاری رہی۔ حصار میں گھری میری قوم کا درد مجھے روز بے چین کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آزادی کی طرف اُٹھنے والا ہمارا ہر قدم قیمت چاہتا ہے۔ لیکن میں تم سے کہے دیتا ہوں: ہار مان لینے کی قیمت اس سے بہت بڑی ہوگی۔ اس لیے اس زمین سے چمٹے رہو جس طرح جڑیں مٹی سے جڑی رہتی ہیں۔ جو قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اسے کوئی آندھی اکھاڑ نہیں پاتی ہے۔

طوفان اقصٰی کے معرکے کے دوران، میں کسی جماعت یا تحریک کا قائد نہیں، میں تو ہر اس فلسطینی کی آواز ہوں جو آزادی کا خواب اپنے دل میں سجائے ہے۔ میرے ایمان نے مجھے یہ راہ دکھائی ہے کہ مزاحمت محض ایک اختیاری راستہ نہیں بلکہ یہ ایک فریضہ ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ معرکہ، فلسطینی کش مکش کی کتاب میں ایک نیا ورق بن جائے۔ تمام مزاحمتی گروپ یک جان ہوجائیں، سب ایک خندق کے رفیق بن جائیں اور اس دشمن کا سامنا کریں، جس نے کبھی بچے اور بوڑھے کا یا پتھر اور پیڑ کا فرق روا نہیں رکھا۔

میں نے کوئی ذاتی ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ اجتماعی وراثت چھوڑ رہا ہوں۔ ہر اس فلسطینی کے لیے جس نے آزادی کاخواب دیکھا، ہر اس ماں کے لیے جس نے اپنے شہید بچے کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا، ہر اس باپ کے لیے جس نے اپنی بچی کو مکار دشمن کی گولی کھاکر تڑپتے دیکھا اور غم کی شدت سے رو پڑا۔

میری وصیت ہے: اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ ظلم و زیادتی کے خلاف مزاحمت کا راستہ ہی زندگی ہے۔ یہ محض ایک گولی نہیں ہے جو چلادی جائے، بلکہ یہ تو ایک زندگی ہے جسے عزّت و عظمت کے ساتھ ہم جی رہے ہیں۔ جیل اور حصار نے مجھے سکھایا ہے کہ یہ معرکہ طویل ہے اور راستہ دشوار ، لیکن میں نے یہ بھی سیکھا کہ جو قومیں ہار ماننے سے انکار کردیتی ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے کرشمے تخلیق کرتی ہیں۔

دُنیا سے توقع مت رکھنا کہ وہ تمھارے ساتھ انصاف کرے گی۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دنیا کس طرح ہمارے رنج و اَلم کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھتی رہی ہے۔ انصاف کا انتظار مت کرو، بلکہ تم خود انصاف بن جاؤ۔ اپنے دلوں میں فلسطین کا خواب سجاکر رکھو۔ ہر زخم کو ہتھیار بنادو اور ہر آنسو کو امید میں بدل دو۔

یہ میری وصیت ہے: اپنے ہتھیار دشمن اور دشمن کے حلیفوں کے حوالے مت کرنا، اپنے ہاتھ سے پتھر نہ چھوڑنا، اپنے شہیدوں کو نہ بھول جانا اور اس خواب پر کوئی سودا نہ کرنا، جو تمھارا حق ہے۔ ان شاء اللہ! ہم یہاں باقی رہیں گے، اپنی سرزمین میں، اپنے دلوں میں اور اپنے بچوں کے مستقبل میں۔

میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ فلسطین کا ہرحال میں تحفظ کرنا۔ اُس سرزمین کا جس سے میں نے موت کی حد تک عشق کیا ہے، اُس خواب کا جس کو میں اپنے کندھوں پر اٹھائے رہا، اُس پہاڑ کی طرح جو جھکتا نہیں ہے۔ اور اگر میں گرجاؤں تو تم لوگ میرے ساتھ مت گرجانا، بلکہ میرے ہاتھ سے پرچم تھام لینا جو کسی دن زمین پر نہیں رہا۔ میرے خون سے ایک پُل تعمیر کرنا جو اس طاقت ور نسل کی راہ گزر بنے جو ہماری راکھ سے پیدا ہوگی۔

جب طوفان دوبارہ برپا ہو اور میں تمھارے درمیان نہ رہوں تو سمجھ لینا کہ میں آزادی کی موجوں کا ایک قطرہ تھا اور میں اسی کے لیے زندہ رہا تاکہ تمھیں سفر کی تکمیل کرتے دیکھوں۔ یاد رکھو، ہم خبروں میں زخمیوں اور شہیدوں پر مشتمل درج کیے جانے والے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ غاصبوں کے حلق کا کانٹا بنے رہو، ایسا طوفان بن جاؤ جو پلٹنا نہیں جانتا اور اس وقت تک پُرسکون نہ بیٹھنا، جب تک دنیا یہ نہ جان لے کہ ہم حق پر ہیں!

۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو غزہ میں جنگ کا ایک سال ہوا۔ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف سے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا،لیکن وہ اپنے مددگاروں اور فوجی طاقت کے نشے میں ایسا بدمست ہے کہ اخلاق، قانون ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے اور مسلسل مظاہروں کی پروا کیے بغیر غزہ میں مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مظالم اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو غزہ کی صورتِ حال پر برطانیہ کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ غزہ پر ایک سال میں سلامتی کونسل کا ۴۷واں اجلاس تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسئلے پرایک سال میں اتنے اجلاس ہوئے، لیکن اسرائیل نے کونسل کی تمام قراردادوں کی پروا کیے بغیر غزہ میں قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، جس کی واحد وجہ امریکا کی پشت پناہی ہے۔

اسرائیلی اخبار کے ۴ستمبر ۲۰۲۴ء کے شمارے میں شمالی غزہ کے بارے میں اسرائیل کے ایک منصوبے ’جرنیلوں کا پلان‘ کا باقاعدہ  اعلان کیا گیا ہے، جس میں کھل کر کہا گیا کہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیورا ایلانڈ کی قیادت میں تیارکردہ منصوبے کے مطابق شمال کے پورے علاقے، یعنی پورےغزہ شہر کو ایک مکمل محصور فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے گا اور شمالی غزہ کی پوری آبادی کو ایک ہفتے کے اندر یہ علاقہ فوری طور پرچھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کہا گیا ہے: ’’ اکتوبر، نومبر، یا دسمبر ۲۰۲۴ء یا شاید ابتدائی ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں اس نئی کارروائی کا آغاز کرے گی (یعنی آپریشن کلین اَپ)۔ مکمل محاصرہ سے پہلے پانی، خوراک، اور ایندھن کی تمام فراہمی بند کردی جائےگی ، یہاں تک کہ جو لوگ یہاں پر رہ جائیں وہ ہتھیار ڈال دیں یا بھوک سے مرجائیں‘‘۔

اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ بیزل ایل اسموٹریچ اور دیگر نسل پرست وزراء کھل کر اِس کا اعلان کر چکے ہیں اور بااثر اسرائیلیوں نے بھی فوج سے شمالی غزہ میں مکمل نسل کشی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پروفیسر اُزی رابی نے جو تل ابیب یونی ورسٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، ۱۵ ستمبر کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ اور اگست میں، Ynet کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نیتن یاہو پر شمالی غزہ کے رہائشیوں کا’صفایا‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

 یہ سطور لکھتے وقت اس منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۶؍ اکتوبر سے شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے وہاں بلاتخصیص قتل و غارت اور نسل کشی کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے اور بچوں، خواتین، اور نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔

اس ساری صورت حال کے تین پہلو اہم ہیں، جس کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:

  • انسانی المیہ:اکتوبر کی ابتدا تک ۴۲ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے جا چکے ہیں۔ان میں ہزاروں بچوں اور عورتوں کے ساتھ ۱۷۴ صحافی بھی شامل ہیں، جب کہ ۱۰ ہزار سے زیادہ لاشیں ابھی تک ملبے تلےدبی ہوئی ہیں اور زخمیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے کہیں زیادہ تک تجاوز کرچکی ہے، جس میں ۶۹ فی صد بچے اور خواتین ہیں۔ بھوک کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔معصوم شہریوں کے قتل ، ان کو برہنہ کرنے اور ان کو اذیتیں دینے پر صہیونی جس طرح خوشی کا اظہار کرتے اور سیلفیاں بنا کر سوشل میڈیا پرشیئر کر رہے ہیں، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ان مناظر کے نفسیاتی اثرات خود کئی ایسے اسرائیلی فوجیوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہیں جن میں انسانیت کی کچھ بھی رمق باقی ہے۔ صہیونی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادانتہائی ڈیپریشن کا شکار ہے اور فوج میں خود کشی کی اطلاعات بھی ہیں۔ فوجیوں میں ڈیپریشن کے علاج کے لیے اسرائیل کی ’شومری یسرائیل‘ نامی تنظیم اپنے’ہیروز‘ کے لیے ضروری نفسیاتی علاج پر کام کر رہی ہے۔ اس کےمطابق: ’’اسرائیل کے فوجیوں نے حال ہی میں جنگ کے ناقابلِ تصوّر، خوفناک مناظر دیکھے ہیں۔ ہمارے کئی ’ہیرو‘ شدید ڈیپریشن (PTSD) کا شکار ہیں۔ ان کی صحت کی بحالی لازم ہے تاکہ وہ اَز سرِ نواپنے گھروں میں والد یا شوہرکاکردار ادا کرسکیں‘‘ ۔
  • انفراسٹرکچر کا نقصان: عرب سنٹر برائے واشنگٹن ،الجزیرہ اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں تقریباً ۸۰ فی صد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تقریباً۵ لاکھ ۱۶ہزار گھر تباہ ہوکررہائش کے قابل نہیں رہے۔ ۸۴ فی صد ہسپتال اورصحت کی سہولیات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ بے شمار اسکول اور مساجد تباہ ہوچکی ہیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں تقریباً ۴۲ ملین ٹن ملبہ پڑا ہوا ہے۔ نقصان کا اندازہ کم از کم ۳۳ بلین ڈالر ہے ۔ ۲۵ جولائی ۲۰۲۴ء کو امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا: ’’جب ہم حماس کو شکست دے دیں گے تواس کے بعد ایک نیا غزہ ابھر سکتا ہے، جو میرے نزدیک ایک غیر عسکری اور غیر انتہا پسند غزہ تو ہوگا، لیکن اسرائیل غزہ میں دوبارہ آبادکاری نہیں ہونے دے گا‘‘۔
  • اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی: اسلحہ فراہم کرنے والے ملکوں نے غزہ کو اپنے اسلحے کے مؤثر استعمال کی ’ٹیسٹنگ لیبارٹری‘ کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔ غزہ کے چپے چپے پر اکتوبر کی ابتدا تک ۸۵ہزار ٹن سے زیاہ دھماکا خیز مواد کے برابر بم گرائے جا چکے ہیں۔ یہ مقدار دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی طاقت سے چھ گنا زیادہ ہے۔ امریکا کی طرف سے مارچ ۲۰۲۴ء میں مجموعی منظور شدہ فنڈز ۶ء۱۲ ارب ڈالر، اگست ۲۰۲۴ء میں ۲۰؍ ارب ڈالر، اورستمبرمیں اسرائیل کی سکیورٹی کی مد میں مزید ۷ء۸؍ ارب ڈالر کے معاہدے کیے گئےہیں۔

عرب سینٹر برائے واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ’’مئی تک گرائے جانے والے۴۵ہزار بموں میں تقریباً ۹ سے ۱۴ فی صد بم نہیں پھٹے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا: ’’ان دھماکا خیز باقیات کو صاف کرنے میں کم از کم ۱۴ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے سفید فاسفورس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہے ‘‘۔

دنیا کی ’مہذب‘ اور مغرب زدہ طبقوں کے مطابق ’رول ماڈل‘ اقوام اپنی ’تہذیب ‘کا غزہ میں عملی اظہار اور برملا اعلان کر چکی ہیں، جس میں تہذیب کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ بقول پروفیسر انور مسعود:

آج تمھاری خوں خواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو

یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو

ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نخلستانوں کو

زنداں زنداں بھیڑ لگائی بے تقصیر اسیروں کی
مقتل میں تبدیل کیا ہے تم نے پھر زندانوں کو

کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے
کتنادکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو

اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو

ظلم وستم کی خونی شب کا منظر بجھنے والا ہے
اِک عنوان فراہم ہوگا عبرت کے افسانوں کو

باطل کا بے ہنگم غوغا کوئی دم کا مہماں ہے
کوئی شور دبا نہیں سکتا، مست الست اذانوں کو

  • اسرائیل ٹائمز (۷؍اکتوبر ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ کی جنگ کا نام ’فولادی تلوار‘ سے تبدیل کرکے اسے ’احیاء کی جنگ‘ (War of Revival) رکھنے کی تجویز دی ہے، تاکہ یہ جنگ کےمقاصد کی مثبت عکاسی کر سکے‘‘۔ اس سے پہلے ۲۷ ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے ایک نقشہ دکھایا، جس میں غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اب اسرائیلی وزرا کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ ان کا مقصد ’عظیم تراسرائیل‘ کا قیام ہے جوموجودہ اسرائیل، اردن، لبنان، شام ، عراق اور سعودی عرب کے کچھ علاقے پر مشتمل ہوگا جس میں خیبر اور مدینہ منورہ بھی شامل ہے، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔
  • دُنیا کے مستقبل پر اثرات:’صرف طاقت کی بنیاد پر حکومت ‘کے نظریے کی حمایت ایک خطرناک تبدیلی کی عکاسی ہے۔ اسرائیل موجودہ جنگ کو فلسطین سے نکال کر دوسرے پڑوسی ملکوں تک پھیلا چکا ہے، جو عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہورہاہے، جس سے دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ سکتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ انصاف پسند اور ذمہ دار عالمی طاقتیں انسانیت، انصاف اور اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق بین الاقوامی تعلقات کےاصولوں پر اَزسرِنو غور کریں۔ جنگ کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور ان کونافذکرنے کا قابلِ عمل طریقۂ کار بنایا جائے۔ انسان نُما درندوں کے زیر اثر مزید نہیں رہا جاسکتا۔ اقتصادی عدم توازن، غربت، اور ماحولیاتی مسائل یقیناً اہم ہیں، لیکن موجودہ صورتِ حال میں فوری اور اوّلین ترجیح انسان اور انسانیت کا تحفظ ہے۔ اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو جنگل کا قانون سب کو باری باری اپنی لپیٹ میں لے لےگا، مستقبل سب کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اقوام عالم کو آج نئے عالمی نظام اور اتحاد کی ضرورت ہے، جس کی بنیادیں اور فیصلے معاشی برتری یا پستی، نسل، رنگ اور علاقوں کے بجائے عدل وانصاف، اخلاقیات اور انسانیت پر استوار کی جائیں۔ اس کےلیے موجودہ اقوام متحدہ کی انھی بنیادوں پر تشکیلِ نو کی جاسکتی ہے یا ایک اور عالمی اتحاد بنایا جاسکتا ہے۔
  • مسلم حکومتوں کی ذمہ داری :فلسطین /بیت المقدس کی تاریخی اور دینی حیثیت مسلمانوں کے لیےبہت اہم ہے۔واقعۂ معراج کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)

پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِ حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے براہِ راست معراج پر لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصٰی لے جایا گیا۔

آج مسلمانوں کی حالت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مصداق ہے جس میں فرمایا گیا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ‘‘۔

کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔(ابوداؤد)

 غزہ،فلسطین کےموجودہ حالات میں وقت کے تعین کے علی الرغم مسلم حکومتوں اور عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اسے پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے: سورۃ النساء (آیت ۷۵) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔

اس آیت کے اندر کفار کے نرغے میں آئے تمام مظلوم مسلمانوں کے بارے میں آزاد مسلم حکومتوں اور عوام کوسخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے جس کی رُوسے ان پر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نہ صرف اخلاقی و مالی بلکہ ہر قسم کی مادی مدد بھی فرض ہے۔

اس وقت عالم کفر کی کئی مغربی حکومتیں فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں، لیکن قرآن کی ان واضح ہدایات کے باوجود مسلم ممالک کی حکومتیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض تو دَرپردہ اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی لگتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی شرمناک بے حسی اور خاموشی انسانیت اور مسلمانوں کےماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے، لگتا ہے وہ اصحاب الاخدود کی طرح اس گروہ کا حصہ ہیں جو آگ میں جلنے والے مومنوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔

دوسری طرف کچھ مسلمان اپنے حال میں مست صرف دعاؤں ، چلّوں ، ذکر کی محفلوں اور خانقاہوں اور مدرسوں کی خدمت کو جہاد کا نعم البدل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ ۹: ۱۹)

 سورۂ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

اللہ کے ہاں تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔(التوبہ ۹:۲۰-۲۱)

 سورئہ توبہ ہی میں اس راستے کی رکاوٹوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے:

اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ ،اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘۔(التوبہ ۹:۲۴)

قرآن و سنت کے یہ احکام کسی زمانے، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو سب مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتاہے۔ یہی امت مسلمہ کا تصور ہے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)

حدیث کا مطلب واضح ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم درد کی وجہ سے بیتاب ہوتا ہے اور درد دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کیا ہمارا رویہ غزہ /فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ایسا ہی ہے؟

ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق حتی الوسع غزہ کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، بحیثیت مسلمان یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی‘‘۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت انسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں سے ، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے‘‘۔(ابو داؤد)

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا کی اہمیت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔حضرت عمرؓ سے روایت ہے ’’دعا ان حوادث ومصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو‘‘ (مشکوٰۃ )۔ اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ہرقسم کا تعاون بھی کریں۔ دُعا اور دوا مل جائیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے۔

l عملی اقدامات : ان حالات میں بنیادی ذمہ داری تو مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ اخلاقی امداد اور اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پر فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے مادی تعاون بھی کریں، تاکہ وہ صہیونیوں کے مسلسل ظلم کا جواب دے سکیں۔ آئیڈیل طریقہ تو یہی تھا کہ سب مسلم ممالک مل کر اس حکمت عملی پر کام کرتے اورعملی اقدام کرتے۔

البتہ ہر مسلمان کو انفرادی طور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، جو اس کے بس میں ہو وہ کر گزرے۔ کم ازکم درج ذیل کام ضرور کریں:

  • اخلاقی تعاون: ہرمسلمان پر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا حق ہے کہ سوشل میڈیا سمیت ہر سطح پر فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل اور اس کے حواریوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی جدوجہد مثلاًسیمینار ، جلسہ، جلوس وغیرہ میں شرکت کریں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی آواز بلند کریں۔
  • مالی  و  مادی امداد: ہرفرد کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق کسی بھی معتبر ادارے/ واسطے کے ذریعے مالی تعاون کرے اور مادی امداد میں بھی اپنا حصہ ڈالے۔ یہ روزمرہ کی ضروریات کا سامان، دوائیاں یا کوئی بھی دوسری چیز ہوسکتی ہے جس کی وقتاً فوقتاً اپیل کی جاتی رہتی ہے۔
  • بائیکاٹ:  ان تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں جن کا مالی فائدہ ،رائلٹی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے بلاواسطہ یا بالواسطہ صہیونیوں، اسرائیل یا اس کے حواریوں کو پہنچتا ہے۔
  • بیت المقدس کی اسلامی اور تاریخی حقیقت سے آگاہی: ایک اہم پہلو لوگوں کو بیت المقدس کی اسلامی اور تاریخی حقیقت سے آگاہ کرنا بھی ہے۔مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت کیا ہے؟ اسےخود بھی سمجھیں اورہر سطح پر اس کو سمجھانے کوشش کریں۔

میں ’پین برطانیہ‘ اور جیوری کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس سال ’پین پنٹر‘ ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اپنی گفتگو کا آغاز اس ’مینارۂ جرأت‘ کے نام سے کروں گی، جن کے ساتھ میں نے اپنا ایوارڈ بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاء احمد عبدالفتح [پ:نومبر ۱۹۸۱ء]اس ایوارڈ میں میرے شریک ہیں۔ ہم پُرامید تھے اور دُعاکر رہے تھے کہ آپ اس سال ستمبر میں آزاد ہوں گے، لیکن مصر کی حکومت نے آخرکار یہی فیصلہ کیا کہ آپ اتنے ’شان دار‘ مصنّف اور ایسے ’خطرناک‘ مفکر ہیں کہ آپ کو آزاد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن آپ آج اس ہال میں ہمارے ساتھ ہیں اور آپ یہاں پر موجود لوگوں میں سب سے اہم ہیں۔ آپ نے جیل خانے سے لکھ بھیجا ہے کہ ’’میرے الفاظ اثر کھو چکے ہیں، لیکن میں لکھ رہا ہوں ۔اگرچہ سننے والے چند ہی ہیں اور میں بول رہا ہوں ‘‘۔

ہم سن رہے ہیں علاء، بہت غور سے!

آپ سب جو یہاں آئے ہیں، آپ سب کو میرا سلام اور ان کو بھی جو حاضرین کو تو شاید نظر نہ آئیں، لیکن میری نظریں انھیں بالکل ایسے ہی دیکھ رہی ہیں، جیسے یہاں پر موجود لوگوں کو۔ میرا اشارہ ہندستانی جیلوں میں قید میرے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف ہے، جن میں وکیل بھی ہیں، اور اساتذہ بھی، طلبہ بھی ہیں اور صحافی بھی۔ میں عمر خالد، گل فشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرحبیل امام، رونا ولسن، سریندرا گیڈلنگ، مہیش راوت کی بات کر رہی ہوں۔ خرم پرویز میرے دوست! میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم انتہائی خوب صورت لوگوں میں سے ایک ہو، لیکن جیل کی دیواروں نے تمھیں تین سال سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عرفان مہراج میں تمھیں بھی یاد کر رہی ہوں اور ان ہزاروں خاک نشینوں کو بھی جو کشمیر یا ملک بھر [انڈیا] کی جیلوں میں قید، متاعِ حیات لٹا رہے ہیں۔

جب پین برطانیہ کی مہتمم اور پنٹر جیوری کی رکن، رُتھ بورتھویک نے اس اعزاز سے متعلق پہلی بار مجھ سے بات کی تو انھوں نے لکھا تھا کہ ’پنٹر پرائز‘ (Pinter Prize)ایسے مصنّفین کو دیا جاتا ہے جو ’’اٹل سچائی، غیرمتزلزل (unflinching)اور فکری عزم کے ساتھ ہماری زندگی اور معاشرے کی اصل حقیقتوں‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات ہرلڈ پنٹر نے نوبیل انعام کے حصول کے وقت تقریر میں کہی تھی۔

’غیر متزلزل‘ کے لفظ نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیوں کہ میں خود ہمیشہ متزلزل رہتی ہوں۔  میں ان دو الفاظ، متزلزل اور غیر متزلزل پر کچھ مزید بات کرنا چاہوں گی۔اس لفظ کی شاید سب سے بہتر وضاحت ہیرلڈ پنٹر نے ہی کی تھی:

میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لندن کے امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس، ریاست نکاراگوا کے خلاف سرگرم مسلح باغیوں ‘کونٹراز‘ (Contras) کو مزید رقم کی فراہمی کے متعلق فیصلہ کرنے والی تھی۔ میں نکاراگوا کے نمائندہ وفد میں شامل تھا، لیکن ہمارے وفد کا اہم ترین حصہ ایک پادری جان میٹکاف تھے۔ امریکی کمیٹی کے سربراہ ریمنڈ سیٹز (Raymond Seitz) تھے (جو اس وقت نائب سفیر تھے، اور بعد میں سفیر بنے)۔پادری میٹکاف نے کہا،’جناب میں شمالی نکاراگوا کے ایک مذہبی حلقے کا منتظم ہوں۔ وہاں اہل علاقہ نے مل کر ایک مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر تعمیر کیا تھا۔ ہم امن وسکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن کچھ مہینے پہلے باغیوں نے حملہ کر کے مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر سمیت ہر شے تباہ کر دی۔ انھوں نے نرسوں اور استانیوں کی آبروریزی کی اور ڈاکٹروں کو انتہائی دردناک طریقے سے ذبح کردیا۔ ان کا رویہ بالکل وحشیانہ تھا۔ آپ براہ مہربانی امریکی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔

ریمنڈ سیٹز ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی بڑی عزّت تھی۔ انھوں نے یہ بات سنی، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گہری آواز میں بولے: ’پادری صاحب! آج میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں۔ معصوم لوگ ہمیشہ سے جنگ کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔‘ برف جیسی منجمد خاموشی کے ساتھ، ہم ان کی طرف دیکھتے رہے لیکن سفیر صاحب ذرا بھی ’متزلزل‘ نہ ہوئے۔

یاد رہے [۴۰ ویں] امریکی صدر رونالڈ ریگن [م:۲۰۰۴ء] ان باغیوں کو’اخلاقی طور پر امریکی بانیانِ قوم کے ہم پلّہ‘ قرار دے چکے تھے اور یہ اصطلاح انھیں خاصی پسند تھی۔ انھوں نے افغان مجاہدین کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی تھی، جو پھر طالبان بن گئے۔ یہی طالبان امریکی قبضے کے خلاف بیس سالہ جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان میں حکمران ہیں۔ ان سے پہلے ایک جنگ ویت نام کی بھی تھی، جہاں پر وہی ’غیر متزلزل‘ امریکی نظریہ کارفرما تھا، جس کے تحت سپاہیوں کو کھلی اجازت تھی کہ ’ہر متحرک شے کو قتل کردو‘۔

اگر آپ ویت نام میں امریکی جنگ کے اہداف سے متعلق ’پینٹاگون پیپرز‘ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ کو نسل کشی سے متعلق کئی مباحث میں یہ ’غیر متزلزل‘ عزم نظر آئے گا۔ ’لوگوں کو سیدھا سیدھا قتل کر دیا جائے یا انھیں آہستہ آہستہ بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارا جائے؟ دیکھنے میں زیادہ اچھا کیا لگے گا؟ پینٹاگون میں موجود مینڈرینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بقول امریکی جو ’زندگی، خوش حالی، دولت اور طاقت ‘کے خواہش مند ہیں، ان کے برعکس ایشیائی لوگ ’بڑے پُرسکون طریقے سے املاک کی تباہی اور جانی نقصان کو قبول کر لیتے ہیں‘۔ جس کی وجہ سے امریکی مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’اپنے اسٹرے ٹیجک اہداف کو منطقی انجام یعنی نسل کشی تک پہنچا سکیں‘۔

کون اتنا بھاری وزن بغیر ’متزلزل‘ ہوئے اٹھا سکتا ہے؟

آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال بھر سے ہمارے سامنے ایک اور نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نوآبادیاتی قبضے کو بچانے کے لیے غزہ اور لبنان میں اپنی ’غیر متزلزل‘ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۴۲ہزار لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان میں ابھی وہ شامل نہیں، جن کی چیخیں کسی عمارت، محلے، بلکہ پورے شہر کے ملبے تلے دبی رہ گئیں اور جن کی باقیات کو ابھی ملبہ کھود کر نکالنا اور لاشوں کی گنتی میں شمار کرنا باقی ہے۔ ’آکسفام‘ (Oxfam)کی حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ بیس برس کی کسی بھی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچے غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔

نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے وقت لاتعلق رہنے والے امریکا و یورپ نے اپنے جذبۂ جرم کی تسکین کے لیے ایک اور نسل کشی کا میدان سجا دیا ہے۔

تاریخ میں نسل کشی کی مرتکب ہونے والی ہر ریاست کی طرح اسرائیلی صہیونیوں نے بھی، جو خود کو اللہ کے چنیدہ لوگ سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے سے پہلے ان کو انسانی مرتبے سے گرانے کی کوشش کی:

  • سابق اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن [م: ۱۹۹۲ء] نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والے درندے‘ قرار دیا۔
  • جب کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن [م: ۱۹۹۵ء] کے مطابق فلسطینی ’ٹڈیوں‘ کی مانند ہیں ’جنھیں کچلا جا سکتا ہے‘۔
  • گولڈامیئر [م: ۱۹۷۸ء]نے فلسطینیوں کے انسانی وجود کا ہی انکار کرتے ہوئے کہا: ’فلسطینی نام کی کوئی مخلوق وجود نہیں رکھتی‘۔
  • فسطائیت کے خلاف لڑنے کی شہرت رکھنے والے مشہور سورما برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل [م:۱۹۶۵ء] کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں مان سکتا کہ کوئی کتا کھولی کا مالک بن سکتا ہے، چاہے جتنا عرصہ بھی وہ اس میں لیٹا رہے۔ کھولی کی حتمی ملکیت ایک ’اعلیٰ نسل‘ کے پاس ہی رہے گی‘۔

چنانچہ ان ’دو ٹانگوں والے درندوں‘، ’ٹڈیوں‘، ’کتوں‘ اور ’عدم موجود لوگوں‘ کو قتل کرنے، کونوں کھدروں میں دھکیلنے اور ان کی ’نسل کشی‘ کے بعد ایک نیا ملک قائم کیا گیا: اسرائیل۔ خوشی سے نعرے لگائے گئے کہ ’بے وطن قوم کو بے آباد وطن مل گیا۔‘امریکا و یورپ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو مشرق وسطیٰ کی دولت اور وسائل پر قبضے کے لیے اپنی چھاؤنی کے طورپر استعمال کیا۔ اسے کہتے ہیں ’مفادات کا حسین امتزاج!‘

چنانچہ، ہر جرم کے باوجود، اس نئی ریاست کی ’غیر متزلزل‘ اور ’بے جھجک‘ مدد کی گئی، اسے مسلح کیا گیا اور اس کی جیبیں بھری گئیں، اس کے نازنخرے اٹھائے گئے اور سراہا گیا۔ یہ ریاست اس بگڑے ہوئے بچّے کی طرح پروان چڑھائی گئی، جو امیر گھر میں پیدا ہو اور والدین اس کے ہرظلم و زیادتی پر فخر سے مسکراتے رہیں۔ چنانچہ آج اگر اسرائیلی، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کھلے عام فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو حیرت کیسی؟(’پینٹاگون پیپرز‘ کو کم از کم خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ انھیں چُرا کر شائع کیا گیا)۔ اگر اسرائیلی سپاہی تہذیب کے تمام تقاضے فراموش کر چکے ہیں تو کیسا تعجب؟

کیا یہ کوئی اَنہونی بات ہے کہ آج خواتین کو قتل یا بےگھر کرنے کے بعد ان کے زیریں جامے پہن کر گھٹیا وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہیں اور اسرائیلی فوجی، اپنے ہاتھوں مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخمی بچوں اور آبروریزی و گھنائونےتشدد کا شکار ہونے والے قیدیوںکی نقلیں اُتارتے دکھائی دیتے ہیں؟آپ کو ایسی وڈیوز بھی مل جائیں گی کہ اسرائیلی فوجی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے یا موسیقی کی دھنوں پر ناچتے ہوئے عمارتوں کو بارود سے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟

اسرائیل کی ان حرکتوں کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟

اسرائیل اور اس کے اتحادیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق:’یہ جواب ہے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے، اسرائیلی شہریوں کا قتل اور اغوا کا‘۔

اب یہ گفتگو کا وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جائے گی کہ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر، اپنی غیر جانب داری اور دانش وَرانہ صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے فریقین کو برابر ثابت کروں۔اپنی اخلاقی غیر جانب داری ثابت کرنے کے لیے اب مجھے حماس اور غزہ کی دیگر مسلح تنظیموں، لبنان اور حزب اللہ کی مذمت کرنی ہو گی کہ انھوں نے شہریوں کو قتل و اغوا کیا۔ پھر مجھے غزہ کے شہریوں کو بھی ڈانٹنا پڑے گا کہ وہ حماس کے حملے پر خوش کیوں ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد ہر شے آسان ہو جاتی ہے۔ چھوڑیں جی دفعہ کریں، جب سب ایک جیسے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟

لیکن میں اس مذمتی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ مظلوم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کیسے کرے اور اس کا اتحادی کون ہو، یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ۲۰۲۳ میں دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور جنگی کابینہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا: ’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ میں بھی صہیونی ہوں‘۔

صدر بائیڈن کے برخلاف جو خود کو ‘غیر یہودی صہیونی‘ سمجھتے ہیں اور بالکل ’غیر متزلزل‘ طریقے سے جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہے ہیں، اُنھیں دیکھتے ہوئے میں خود کو کسی ایسے خول میں محدود نہیں کروں گی، جس میں میرے لکھے ہوئے الفاظ نہ سما سکیں۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں اور وہی لکھتی ہوں، جو سو چتی اور دیکھتی ہوں۔

مجھے اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ بطور ایک مصنف، بطور ایک غیر مسلم اور بطور ایک خاتون، میرا حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیر اثر زندہ رہنا بہت مشکل یا شاید ناممکن ہو۔ لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاریخ اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا، جس کے تحت یہ گروہ وجود میں آئے۔ فی الوقت اہم بات یہی ہے کہ یہ سب ایک نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا کوئی لبرل اور سیکولر فوج، نسل کشی کے اس بدمست ہاتھی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک قوم کے خلاف ہوں تو وہ اپنے دفاع کے لیے خدا سے رجوع نہ کرے تو کیا کرے؟

مجھے معلوم ہے کہ ایرانی حکومت اور ’حزب اللہ‘ کے بہت سے ناقدین ان کے اپنے ملکوں میںبھی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے جیلوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حماس کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً ۷؍اکتوبر کو عام شہریوں کا قتل و اغوا لیکن پھر بھی اس کا موازنہ اس سب سے نہیں کیا جاسکتا، جو اسرائیل اور امریکا غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کی غلامی ۷؍اکتوبر سمیت اس سارے فساد کی جڑ ہے۔ یاد رکھیے، اس مسئلے کا آغاز ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہیں ہوا۔

میں یہاں اِس ہال میں موجود تمام سامعین سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنے پر رضامند ہوں گے، جو فلسطینی کئی عشروں سے گزار رہے ہیں؟ کون سے پُرامن راستے ہیں، جو فلسطینیوں اور ان کی قیادتوں نے نہیں آزمائے؟ گھٹنوں کے بل گر کر مٹی چاٹنے کے علاوہ کون سا سمجھوتہ ہے، جو انھوں نے قبول نہیں کیا؟

آگاہ رہیے اور جان لیجیے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ  اسرائیل جارحیت مسلط کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے تا کہ مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر سکے، اپنی نسلی عصبیت کے نظام کو مزید مضبوط کر سکے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر کر سکے۔

۷؍ اکتوبر سے جاری جنگ میں ہزاروں لوگوں کو جان سے ماردینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ کی اکثریتی آبادی کو کئی دفعہ دربدر کر چکا ہے۔ اس نے ان کے ہسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔ ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا ہے۔ ایک پوری قوم کو بھوکوں مارا جا رہا ہے کہ ان کی تاریخ ہی مٹ جائے۔ دنیا کی امیر ترین اور طاقت ور ترین حکومتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ اخلاقی و مادی سطح پر پوری طرح ان سارے مظالم میں شامل ہیں۔ ان میں میرا وطن ہندستان بھی شامل ہے، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں کارکن فراہم کرتا ہے۔

یہ سب ممالک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب ہوچکے ہیں۔ گذشتہ صرف ایک سال میں امریکا اسرائیل کو۱۷ء۹ بلین ڈالر کی فوجی امداد بھیج چکا ہے۔ چنانچہ اب مناسب ہے کہ امریکی اس جھوٹ کا لبادہ اتار دیں کہ وہ ’ثالث ہیں‘، ’جنگ کے مخالف ہیں‘ ،یا جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کا حصہ سمجھی جانے والی الیکسینڈرا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں‘۔ مَیں برملا کہوں گی کہ جو فریق بذاتِ خود نسل کشی میں شامل ہو، وہ ہرگز ثالث نہیں ہوسکتا۔

دنیا کی ساری طاقت، سارا پیسہ، سارے ہتھیار اور سارا پروپیگنڈا مل کر بھی اس زخم کو چھپا نہیں سکتے، جسے ہم فلسطین کہتے ہیں۔ اس زخم سے تمام انسانیت کا خون رِس رہا ہے۔

سلامتی کونسل میں رائے شماری کے مطابق جو ممالک اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنا رہے ہیں، ان کی اکثریتی آبادی اس کے خلاف ہے۔ ہم نے ان ممالک میں مسلسل لاکھوں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ ان میں نوجوان یہودیوں کی وہ اکثریت بھی شامل ہوتی ہے، جو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے گھڑا جانے والا جھوٹ سن سن کر اور کسی کے ہاتھوں استعمال ہوہو کر  تنگ آ چکی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن جرمن پولیس، یہودیوں پر ہی ’یہوددشمنی‘ کا الزام لگاکر انھیں صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں گرفتار کرے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت، اسرائیل کی خدمت میں یہاں تک چلی جائے گی کہ اسے آزادیٔ اظہار کے اپنے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین پسند نعروں پر پابندی لگانا پڑے؟ کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ ساری مغربی دنیا کے اخلاقی اصول آج باقی دنیا کے لیے ایک خوفناک لطیفہ بن چکے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب دنیا کے سامنے ’دریا سے سمندر تک اسرائیل‘ کا وہ نقشہ لہرایا، جس میں فلسطین سرے سے موجود ہی نہیں، تو دنیا ان کے آگے بچھی دیکھی گئی ہے کہ کیسا بابصیرت آدمی ہے جو یہودیوں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

دوسری طرف جب فلسطینی یا ان کے اتحادی ’نہر سے بحر تک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انھیں الزام دیا جاتا ہے کہ وہ کھلے عام یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہے؟ یا انھیں اپنا خبث باطن دوسروں میں دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی ذہنیت ہے، جو تنوع برداشت نہیں کر سکتی؟ جو ایک ملک میں دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر مساوی حقوق کےساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ساری دنیا اسی طرح رہتی ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو قبول نہیں کرسکتی کہ فلسطینی بھی جنوبی افریقہ ، ہندستان اور نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے والے دوسرے ممالک کی طرح آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی طرح جو متنوع آبادی کے حامل ہیں، چاہے کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہوں، لیکن آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقہ کے باشندے اپنا مشہور نعرہ ’عوام زندہ باد‘ لگایا کرتے تھے تو کیا وہ گورے لوگوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے تھے؟ ہر گز نہیں۔ وہ نسلی عصبیت پر مبنی حکومتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور آج یہی مطالبہ فلسطینیوں کا ہے۔

جو جنگ اب شروع ہوئی ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن اس کا خاتمہ اسرائیل میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ یہودیوں سمیت سب کے لیے، پوری دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گی اور دنیا میں انصاف ہوگا۔ ہمارے دلوں سے آخرکار یہ کانٹا نکل جائے گا۔

اگر امریکی حکومت، اسرائیلی حمایت سے دست بردار ہو جائے تو آج ہی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ ابھی اسی لمحے سب قتل و غارت گری بند ہو جائے گی۔ اسرائیلی مغوی اور فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی نمائندوں کے ساتھ جو مذاکرات جنگ کے بعد ہونے ہیں، وہ ابھی ہوسکتے ہیں اور یوں لاکھوں لوگوں کو تکلیف اور تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسی دردناک بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ امکان ہی ناقابلِ تصوّر ہے کہ انھیں اس پر ہنسی آئے گی!

 علاء عبدالفتح! اختتام پر میں پھر تمھاری طرف آؤں گی۔ میں تمھاری کتاب تم ابھی ہارے نہیں (Not Yet Been Defeated)کا ذکر کروں گی، جو تم نے جیل میں لکھی ہے۔ ہار اور جیت کے معنی سے متعلق ایسے خوب صورت الفاظ میں نے اور کہیں نہیں پڑھے، نہ میں نے کسی اور کو یوں مایوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا ہے۔ میں نے کم ہی ایسا کام دیکھا ہے جس میں ایک شہری اپنی ریاست، اپنے جرنیلوں، اور(قاہرہ کے التحریر) چوک کے ان نعروں سے اس قدر واضح انداز میں الگ کھڑا نظر آتا ہے:

مرکز میں کھڑے ہونا بغاوت ہے کیونکہ مرکز کی جگہ صرف جرنیل کے لیے ہے۔

مرکز بغاوت کی جگہ ہے اور میں کبھی باغی نہیں رہا۔

 وہ ہمیںکناروں کی طرف دھکیل کر خوش ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم مرکز سے ہٹے نہیں، بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔

 ووٹوں کے ڈبے، محل سرا، وزارتیں، قید خانے یہاں تک کہ قبریں بھی اتنی کشادہ نہیں ہیں کہ ان میں ہمارے خواب سما سکیں۔

ہم نے کبھی مرکز میں ہونا نہیں چاہا کیونکہ یہ اپنے خوابوں سے منہ موڑنے والوں کی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ چوک بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقلاب کی جنگ اس سے ہٹ کر لڑی اور ہمارے اکثر ہیرو منظر سے باہر رہے۔

غزہ اور لبنان کی جنگ ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس کے ہیرو بھی منظر سے باہر ہیں۔ لیکن وہ لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا‘ (From the River to the Sea - Palestine will be Free)اور یہ ہوکر رہے گا۔

اپنی نظریں گھڑیوں پر نہیں، کیلنڈر پر رکھیں۔ کیونکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام، یہاں پر میں جرنیلوں کی بات نہیں کر رہی، بلکہ عوام کی کر رہی ہوں اور عوام اسی طرح اپنے وقت کا فیصلہ کرتے ہیں۔  (The Wire، ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء)

 _______________

’پین انگلینڈ‘ (PEN England) نے ۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ’پین پنٹرایوارڈ‘ مشترکہ طور پرممتاز دانش ور اور مصنّفہ اروندھتی رائے اور مصری نژاد برطانوی مصنّف علاء احمد عبدالفتح کو دیا۔ اروندھتی رائے نے ایوارڈ کی ساری رقم ’فلسطینی چلڈرن ریلیف فنڈ‘ کو عطیہ کی۔ ترجمہ: اطہر رسول حیدر

اخبار ڈی کلاسیفائیڈ   کی جمع کردہ معلومات کے مطابق برطانیہ خفیہ طور پر اسرائیلی فوج کو نفسیاتی جنگ کے حربے سکھا رہا ہے۔ حال ہی میں افشاء ہونے والی متعدد دستاویزات کے مطابق برطانوی فوج کی ’۷۷ویں بریگیڈ‘ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ حکمت عملی اور تدابیر کے متعلق مشاورت کرتی آرہی ہے۔

یاد رہے ۷۷ویں بریگیڈ ’معلومات کے اس دورمیں‘ سوشل میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے دیگر پہلوؤں میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ بریگیڈ اپنی کارروائیوں کے لیے ’نفسیاتی جنگ کے غیرمہلک طریقوں‘ مثلاً سائبر حملوں، منفی پروپیگنڈے اور آن لائن آپریشنوں پر انحصار کرتی ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دفاع میں اپنی ابلاغی مہم کے دوران، اسرائیل خود بھی جعلی اور تحریف شدہ ویڈیوز اور جعلی اکاؤنٹس کا سہارالیتا آرہا ہے۔

اس سلسلے میں ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ہرمیٹیج، برکشائر میں واقع’ ۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر میں دو بار معلومات کا تبادلہ ہوا۔ یہ دستاویزات Anonymous for Justice نامی گروپ نے اسرائیلی فوج کے اکاؤنٹ ہیک کر کے حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام دستاویزات من و عن Distributed Denial of Secretsمیں شائع ہوئیں۔

اگرچہ کچھ دستاویزات خفیہ معاملات سے بھی تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے مندرجات بہرحال عوامی مفاد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ذرائع ابلاغ میں ان کو شائع کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل اس وقت بین الاقوامی عدالتوں میں ’نسل کشی‘ (Genocide)کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع حقِ معلومات کے قانون یا پارلیمان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب میں اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے متعلق کچھ بھی بتانے سے انکاری ہے۔

جوائنٹ سروسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے اعزازی رکن پروفیسر پال راجرز کے مطابق: ’’یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے، جو برطانوی اور اسرائیلی عسکری کمان کے درمیان اعلیٰ سطحی تعلقات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمومی طور پر عسکری شعبے میں شفافیت پر بھی زور دیتی ہے‘‘۔

برطانوی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم اسٹاف کی سطح پر باقاعدگی سے دنیا بھر کے دفاعی اداروں کے ساتھ نان آپریشنل اشتراکِ عمل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام منصوبے ضابطے کے تحت تکمیل پاتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پابندی کی جاتی ہے‘‘۔

تاہم، نفسیاتی جنگ کے متعلق اسرائیل کے ساتھ حالیہ تعاون کے متعلق پوچھنے پر محکمہ دفاع نے کسی وضاحت سے انکار کر دیا۔

  • بریگیڈ ۷۷‘: ۲۰۱۸ء میں اسرائیلی فوج کے افسر بینزی زمرمان نے اسرائیلی فوج کے ’جے تھری‘ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ اور برطانوی فوج کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں کا آغاز کیا۔

اس خفیہ تعاون کے رازکو افشا کرنے والی ایک ای میل کے مطابق اس کا مقصد ’’اسرائیلی فوج ’جے تھری‘ ڈائریکٹوریٹ کے شعبہ ابلاغی مہمات کے ارکان کو ایسی مہمات کی منصوبہ بندی، انتظام اور انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار مہارت سے روشناس کروانا تھا‘‘۔

اس کے بعد برطانوی فوج کے ایک میجر نے اسرائیلی وفد کے لیے دو دن کا پروگرام ترتیب دیا، جو وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر اور ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر واقع برکشائر میں منعقد کیا جانا تھا۔

اس پروگرام کے تحت اسرائیل یا برطانیہ کے کسی خفیہ مقام پر ’اسٹرے ٹیجک ابلاغی مہمات کا انتظام‘ اور ’اسرائیلی ابلاغی حکمت عملی اور اس کا ڈھانچا‘ کے موضوع پر تفصیلات کا تبادلہ کیا جانا تھا۔

  • ابلاغی مہمات: فروری ۲۰۱۹ء میں اسرائیلی فوج کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے کمانڈر ایرز میسل نے ایک وفد کے ہمراہ ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے متعلق مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اگلے چند ماہ کے دوران تل ابیب میں برطانیہ کے دفاعی اتاشی رونی ویسٹرمین ۲۰۱۸ء میں ملتوی ہونے والے دورے کو اَزسرِنو مرتب کروانے کے لیے کوشاں رہے۔

لندن میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی اس معاملے میں ان کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا: ’’منصوبے کی تشکیلِ نو کے لیے منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔جون تک برطانوی وزارت دفاع اور ۷۷ویں بریگیڈ کا یہ اسرائیلی دورہ گذشتہ خطوط پر دوبارہ ترتیب دیا جا چکا تھا کیونکہ، سال [۲۰۱۸ء] میں یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا‘۔چنانچہ ۱۰ اور ۱۱ جولائی کو اسرائیلی وفدنے ایک دن برکشائر میں ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے ساتھ، جب کہ اگلا دن وزارت دفاع کے ساتھ گزارا، اور اسرائیلی فوج کو ابلاغی مہمات کی منصوبہ بندی اور انتظام کرتے ہوئے انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مہارت سے روشناس کروایا گیا۔

  • متعاقب دورہ: اسرائیلی وفد کے ’کامیاب‘ دورے کے بعد ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے کمانڈر ڈینئل ریو نے درخواست کی کہ ان کے ایک افسر کو فالو اَپ کے لیے اسرائیل بھیجا جائے۔

تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ درخواست کے مطابق یہ دورہ ۲۸ مارچ سے ۴؍ اپریل ۲۰۲۰ء کے درمیان ہونا تھا، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش سفری پابندیوں کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا۔ برطانوی سفارت خانے کی درخواست کے مطابق گفت و شنید کا موضوع ’ابلاغی مہمات کی استعداد پیدا کرنا‘ تھا اور اسے خفیہ قرار دیا گیا تھا۔

’فلسطین ایکشن‘ تنظیم کی شریک بانی ہدیٰ اموری نے ڈی کلاسیفائیڈ کو بتایا: ’’اسرائیلی ریاست، فلسطینیوں کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے اکثر نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے‘‘۔ان کے مطابق افشاء ہونے والی دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ: ’’برطانیہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہے‘‘۔

۷اکتوبر کو اسرائیل پر ’حماس‘ کے حملے کے بعد، انڈین میڈیا اور صہیونیوں کی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی زبردست حمایت کی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تل ابیب اور نئی دہلی دونوں فلسطینی اور کشمیری علاقوں پر قبضے اور الحاق کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر میں جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی اختیار کردہ پالیسیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت میں انڈین ہاتھ ملوث ہے، خاص طور پر ہندوتوا حامیوں کے ذریعے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی حکومت کے دور میں انڈیا، فلسطین کے مسئلے پر اپنے قدیم اور روایتی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، بلکہ انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ گہرے مشترکہ تعلقات استوار کرلیے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ حالیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا، اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور وہ غزہ میں فوجی آپریشن میں شریک ہے۔ ۱۵ مئی کو ہسپانوی ساحل پر کارگو بحری جہاز ’بورکم‘ (Borkum) سے متعلق کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انڈین ہتھیاروں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجی گئی تھی۔ فلسطینی قبضے کے خلاف سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’بورکم‘ میں ۲۰ٹن راکٹ انجن، ۱۲ء۵ ٹن دھماکا خیز مواد، ۳۳۰۰پاؤنڈ دھماکا خیز مادہ اور توپوں کے لیے، ۱۶۳۰پونڈ چارجر اور توپ کے گولوں کے لیے دھماکا خیز مواد تھا۔ پھر ۶ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ ’قدس نیوز نیٹ ورک‘ نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کی ویڈیو جاری کی ہیں، جن کے مطابق ایک لیبل پر واضح طور پر لکھا تھا:’میڈ اِن انڈیا‘۔

اس کے علاوہ، کچھ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سیکڑوں انڈین فوجی یا شہری، اسرائیل میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے حق میں مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے انڈیا کی غیرمنصفانہ حمایت سے پیداشدہ لعن طعن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے ذریعے غزہ کو علامتی امداد کی ترسیل بھی کی ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اسرائیل کی طرف اسٹرے ٹیجک جھکاؤ ساری دُنیا پر واضح ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:’’انڈیا وہی کرے گا، جو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘۔

انڈین ملٹری انٹیلی جنس اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کشی کی کارروائیوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ’غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، انڈیا نے حمایت نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت اس سال فلسطینی مزدوروں کی جگہ ۸۰ ہزار غیر ملکی ملازمین کو مستقل طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی اکثریت انڈیا سے آئے گی۔ ’امریکا،بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتا ہے، جو غزہ کی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے نازک حالات میں انسانی ہمدردی، ترقی اور امن کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور مالی تعاون پر مبنی ہے۔

مزید برآں، ’ہندوتوا، صہیونی اتحاد‘ کی گھن گرج کو دیکھنا ہو تو انڈیا کی فوجی حمایت زیادہ تر غزہ میں جنگ کے دوران انڈین نیوز چینلوں پر نشر ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر انڈیا اسرائیل ٹرینڈ شروع کیا گیا اور صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی غیرمعذرت خواہانہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لیے بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ پھر کمال ڈھٹائی سے جعلی ویڈیوز اور مسخ شدہ تصاویر اور پرانی خبریں تک جاری کی گئیں۔ اس طرح انڈیا، جعل سازی اور غلط معلومات کا مرکز بن گیا، جس نے اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا اصل ہدف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح چند انڈین شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس بھی نکالے گئے جہاں ’اسرائیل زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جے شری رام‘ جیسے ’ہندوتوا‘ جیسے قوم پرست نعرے بھی لگائے گئے۔

 اسرائیل کے بارے میں انڈیا کی اختیار کردہ پالیسی، دُہرے انڈین کردار کے بارے میں سوالات اُٹھاتی ہے: ایک طرف علامتی امداد فراہم کرنے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نسل کشی میں بامعنی شریک کار کے طور پر۔ اس کے ساتھ حیرت کی بات ہے کہ مرکزی دھارے کا بھارتی میڈیا غزہ تنازعہ میں انڈین کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ تاہم، انڈین میڈیا کھلے عام ایسے کلپس نشر کرتا آرہا ہے جو غزہ میں جاری ’صہیونی،بھارتی،امریکی گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رٹ کے خلاف یہ مکروہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل کے طور پر، برطانوی دفتر خارجہ کے ایک سفارت کار نے یہ مانتے ہوئے استعفا دے دیا ہے کہ ’اس طرح برطانوی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہوسکتی ہے‘۔

چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کسی بھی قانونی حیثیت سے درست نہیں ہے۔ اسی طرح طاقت کے زور پر یا انڈین قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس لحاظ سے، تل ابیب اور نئی دہلی دونوں نے ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ (IHL) کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں انڈیا کی پالیسی میں واضح تبدیلی اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی بے جا حمایت، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے غزہ جنگی شراکت دار کے طور پر، انڈیا کا مقصد کشمیر پر یک طرفہ طور پر قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔ یوں اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے نئی دہلی جنگی جرائم میں ملوث چلی آرہی ہے۔

۱۹۹۵ء میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کے لیے بھارت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت، کانگریس کی ہم نوا ’نیشنل کانفرنس‘ کی معاونت کے لیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ۱۹۸۹ میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفا دیا اور بھارت مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے لندن جا کر بس گئے تھے۔

 ان انتخابات کو معتبر بنانے کے لیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ ابھی حُریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ ایس پدمانا بھیا کر رہے تھے، انھوں نے حکومت نواز بندوق برداروں پر مشتمل ایک پارٹی ’عوامی لیگ‘ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور، وہ تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمدیوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں گے۔ اس گروپ نے ان دنوں چند برسوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارا پانا چاہ رہے تھے۔

اگلے سال یعنی ۱۹۹۶ء میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسہما راؤ کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست ِراست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہانی کروائی گئی، کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، اور وہ زیادہ خود مختاری کی قراردار منظور کرواکے نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا۔ سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاروق عبداللہ کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ اس طرح ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

 ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سرِ اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔

 نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں ۸۷ رکنی ایوان میں ۵۷ نشستیں جیت کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں ۱۹۵۳ء سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرارداد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ مگر جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ اُلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی ۲۰۰۰ء  میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس کی ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔

فاروق عبداللہ جنھوں نے انتخابات میں شرکت اور بھارت کو عالمی دباؤ سے بچانے کے لیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی، کہ نئی دہلی ۱۹۵۳ء کی پہلے والی پوزیشن بحال کرے گی، یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بن گئے اور انھوں نے بھی وزارت سے استعفا دینا گوارا نہیں کیا۔

لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹنٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے کشمیر میں گھٹن کا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک حکومت بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔

 ان انتخابات میں ۱۹۹۶ء ہی کی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ ۹۰سیٹوں میں سے ۴۲ پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے نیشنل کانفرنس کو ۳۵ سیٹیں حاصل ہوئیں اور جموں کی ۴۳سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی نے ۲۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس علاقے میں ہندو سیٹوں کی تعداد ۲۴ سے بڑھاکر ۳۱ کردی گئی تھی۔ اس طرح مسلم سیٹوں کو ۱۲ سے گھٹا کر ۹ کر دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس، ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادیٔ کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ راہول گاندھی نے وادیٔ کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی، اور جس کانگریسی اُمیدوار کے حق میں مہم چلائی، وہ تیسرے نمبر پر آیا۔

جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کی ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادیٔ کشمیر اور جموں کی مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔

وادیٔ کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد اُمیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا، وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اُمیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو اُمیدواروں کے انتخاب کے لیے نہایت کم وقت ملا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے ۲۰۱۵ء میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادیٔ کشمیر میں شکست کھا گئی ہے، اور تین نشستوں تک محدود ہوگئی۔جس پارٹی کے اُمیدوار پر تھوڑا بھی شک گزرا کہ اس کے تعلقات نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کو شکست ہوئی۔

بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادیٔ چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے اُمیدوار کھڑے کر دیئے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کی پیر پنجال پٹی میں لگا۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کے لیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنجال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ،حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بی جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شا نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا ۱۰۰۰ سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔

 گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے اُمیدوار فقیر محمد نے ۷۲۴۶ ووٹ حاصل کیے،جب کہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے ۸۳۷۸ ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔

 ۱۹۹۶ء میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لے کر میدان میں اُتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔  ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ یہ مسئلہ حل ہونے کا امکان ہے۔ اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کی راہداریوں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اَب معدوم ہو چکی ہے۔

نئی دہلی کو اطمینان ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہوگی۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرارداد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار  برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔

اسی طرح عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ ​​حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

اس حکومت پر لیفٹنٹ گورنر کی خاصی گرفت ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی آواز کو سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو یہ کارنامہ تصور ہوگا، ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دُھل سکیں۔

 جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

برطانوی جمہوری طرزِ حکومت میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس ’ملاوٹی جمہوریت‘ کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کی آبادی مسلسل دبائو میں رہتی ہے، اور اکثریتی آبادی ہی قیادت کرتی ہے۔

ہندوستان میں بھی اکثریتی سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر انڈیا میں جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار نہیں کر پاتی؟ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں اَن گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔ پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے گئے ہیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔

اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۶۸ء۳ فی صد اور ہندوؤں کی ۲۸ء۲ فی صد ہے۔مگر ۲۰۲۲ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر جہاں ریاست کی ۵۶ء۱۵ فی صد آبادی رہتی ہے، کے حصے میں اسمبلی کی ۴۷ نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی ۴۳ء۸۵فی صد آبادی کو ۴۳ نشستیں دے دیں۔

یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے ۰ء۸ ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں تو کیا ہے؟‘‘

پھر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔

اس ۹۰ رکنی اسمبلی میں اب ۲۸ فی صد ہندو آبادی کو ۳۴ء۴۴فی صد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں اگرچہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی ۳۴ء۲۱ فی صد ہے۔غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقے کے مسلم اکثریتی حلقوں کو ۱۲ سے کم کرکے اب ۹کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی ۴۳ فی صد سے کم ہو کر ۳۹ فی صد ہوجائے گی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل ۳۷  سیٹوں میں سے ۱۲ مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔

جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف ۵۰ہزار ہے، اسمبلی کا ایک حلقہ ہے، جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی ۹۲ء۸ فی صد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، جہاں اس کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے۔ اسے اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔

۲۰۱۴ء میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار ۲ء۸۶ فی صد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان ۷۰ فی صد اور ہندو ۲۸ فی صد ہیں۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں ۹۱ فی صد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔

انتخابات کے بعد گورنر منوج سنہا نے پانچ اراکین کو نامزد کرنا ہے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد ۹۰ سے بڑھ کر ۹۵ ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک رکن ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے آنے والوں میں سے ہوگا۔ گویا یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ۹۵ رکنی اسمبلی میں اقلیتی آبادی کو ۳۹ نشستیں مل سکتی ہیں، جب کہ ان کاجائز حق ۲۹نشستوں کا بنتا ہے۔

چونکہ مسلم آبادی کے ہی نمائندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں، اس لیے گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے، تاکہ منتخب حکومت برسرِاقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہو۔ اس حکم نامہ کی رُو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرر سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی اور اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکے گی۔

لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کی طے شدہ میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔

ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہوجائیں گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو ’مشمولہ قبائل فہرست‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔

جس طرح نیشنل کانفرنس نے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اُترتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔

عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلزکانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہی ہے۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔

بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم کو نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی تائید حاصل رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔

انجینئر رشید نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا۔ جو گو کہ غیرقانونی تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار ۱۹۸۷ء میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عمر عبد اللہ سمیت روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عمر عبداللہ نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی؟ اور پھر جو ایجنڈا لےکر انجینئر رشید میدان میں آئے ہیں، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا چیز روک رہی ہے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی، یا پھر یہ چند سانسیں لینے کی ہی آزادی ہوگی؟