یہ ۱۹۴۷ءکا پُر آشوب دور تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطے میں خود ڈوگرہ حکومت کے ایما پر مسلم کُش فسادات کی آگ انسانیت کو شرمسار کر رہی تھی۔ اکھنور کے علاقے میں ہندوسکھ فسادیوں کے ایک گروپ نے ایک مسلم خاندان کے مرد وں کو ہلاک کرکے، خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد انھیں مردوں کا گوشت پکانے اور پھر زبردستی کھانے پر مجبور کروایا۔ چند سال قبل جب کشمیر کے ایک سابق اعلیٰ سول افسر خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے کالم نگار سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے جیسے ہی جموں کے ان خونریز فسادات کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی موٹی تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر رہا ہے۔
اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ جمو ں میں ۶۹فی صد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ روزنامہ دی ٹائمز، لندن کی ۱۰؍اگست ۱۹۴۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’ان فسادات میں چند ماہ کے اندر ۲ لاکھ۳۷ہزار افراد ہلاک ہوئے‘‘۔ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجا کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ اس قتل عام کی خود نگرانی کررہے تھے۔
دوسری طرف انھی دنوں اس درندگی کے بالکل برعکس، وادیِ کشمیر میں کس طرح عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے۔ معروف صحافی و سیاسی کارکن پنڈت پران ناتھ جلالی اس کا ایک چشم دید واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو جلالی کو کشمیری پنڈتوں کی آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر تفتیش کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو بھی نہیں بخشا۔ سبھی گائوں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ایک پنڈت کے خالی مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ ایک رات، ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیرمعمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ میل بھر چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ ’’نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ اور تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائوں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے‘‘۔ جلالی صاحب کہتے تھے کہ ’’ندامت سے میرے پائوں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گائوں والوں پر جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پہ پشیمان تھے۔ دراصل گائوں والے سمجھتے تھے کہ پولیس کے بھیس میں وہ لوگ پنڈتوں کو مارنے اور لوٹنے کی غرض سے آئے ہیں۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہ کیا‘‘۔
اب حال ہی میں جس طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر حامی وویک اگنہوتری کی لکھی اور ڈائریکٹ کی ہوئی ہندی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ ۱۱مارچ کو نمایش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ فلم میں ۱۹۹۰ء میں وادیِ کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ایسی کہانی کہ جو نہ صرف یکطرفہ ہے، بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر پورے بھارت میں ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا ہے کہ ایک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد چیختے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہندو بھائیوں سے میری اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتے ہیں‘‘۔ اس فلم کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایئے کہ ’را‘ کے سابق چیف اے ایس دولت نے اعتراف کیا ہے: ’’یہ ایک پروپیگنڈا فلم ہے، جس میں پیش کی گئی تفصیلات کا حقائق کی دُنیا سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔(اخبار مسلم مرر، ۲۲مارچ ۲۰۲۲ء)
دہلی میں ایک سینیر صحافی فراز احمد پریس کلب میں اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’کشمیر کا مسئلہ دراصل کشمیری پنڈتوں کا داخلی جھگڑا ہے، جس نے جنوبی ایشیا کے امن و امان کو نشانہ بنایا ہوا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’علامہ اقبال، جنھوں نے پاکستان کا تصور دیا، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو ، جنھوں نے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنایا، اور پھر شیخ محمد عبداللہ ، جنھوں نے اس کو مزید اُلجھانے میں معاونت کی، تینوں کشمیری پنڈتوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے‘‘۔ کشمیری پنڈت کی اصطلاح دراصل زوال پذیر مغل بادشاہ محمد شاہ نے اپنے ایک درباری جے رام بھان کے مشورے پر ایک فرمان کے ذریعے شروع کروائی تھی۔ کشمیری پنڈتوں کا مغل دربار میں اچھا خاصا اثر و رسوخ تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو دیگر برہمنوں سے اعلیٰ اور برتر نسل تصور کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے رسم و رواج دیگر برہمنوں سے جدا ہیں‘‘۔ وہ دیوالی و ہولی نہیں مناتے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں ایک متوازی گنگا کا ایک سنگم تیرتھ بھی اختراع کیا ہوا ہے اور کھیربھوانی اور شاریکا دیوی ان کے دیوی دیوتا ہیں۔
ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہات و قصبات میں دونوں ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ ، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔ کشمیر کی معروف شاعرہ لل دید ، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ تاہم، اس کا پورا کلام ہی اللہ کی وحدانیت پر مشتمل ہے۔
کشمیر میں اسلام کی آمد ۱۴ویں صدی میں اس وقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میںمیر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی، تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس پر لبیک کہا۔ یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔ اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کےدورِحکومت میں ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھا، تو اس نے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔ مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنھیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکے، ان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کے لیے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے بخشے۔
شیخ عبداللہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے اقلیتی احساس اور عصبیت کو اُبھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، کہ وہ مسلمان امرا سے خائف رہتے تھے۔معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار لکھتے ہیں، کہ مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران ، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کے ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت بھی ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پرسکّے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً ۱۸۱۰ءتک جاری رہے۔ مؤرخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے۔
افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ پھر جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، تو ڈوگرہ حکمران مہاراجا گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر ، مسلمان کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس، اُن دنوں کشمیر میں تعینات تھے، انھوں نے لکھا تھا کہ:’’کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے، جب کہ مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے‘‘۔ اسی دور میں کشمیری پنڈتوں کو انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انھوں نے نعرہ بلند کیا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ چونکہ مسلمان ان دنوں اَن پڑھ تھے، اس لیے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجکٹ قانون کے خلاف زمین و آسمان ایک کر دیئے۔
شیخ محمد عبداللہ کے مطابق جب ۱۹۳۱ء میں کشمیر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا، تو راجا ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر انھیں پروپیگنڈا کرنے کی شہہ دی کہ ’’یہ تحریک ہندو مہاراجا کے خلاف بغاوت ہے اور کشمیری پنڈت خطرے میں ہیں‘‘ کا شور برپا کر ڈالا۔ گلانسی کمیشن کی سفارشات اور اس تحریک کی بدولت جب چند نوکریاں مسلمانوں کو ملنے لگیں، تو کشمیر میں پنڈت لیڈروں نے اس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ مگر ان کی ہی برادری کے چند افراد پریم ناتھ بزاز، کشپ بندھو اور جیالال کلم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا، تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ اسی نفسیات کے تحت آج بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
شیخ عبداللہ کے مطابق: ان میں اکثر پنڈتوں کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ مہاتما جی گاندھی کہتے تھے، کہ ’’کشمیر کی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتا ہوا انگارہ ڈال دیا گیا ہو۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپٹ جائے گا‘‘۔ اور گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تنبیہہ کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کے نام کی صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے کھیل رچایا جاتا ہے۔کشمیری پنڈت لیڈران سے اپیل ہے کہ اپنے اثر و رسوخ کا مثبت استعمال کرکے، نسلی نفرت کی آگ بجھانے اور مسئلۂ کشمیر پاٹنے کا کا م کریں، بلکہ سیاسی لیڈروں کو مسئلے کے سیاسی حل کی طرف بھی گامزن کروائیں، تاکہ خطے میں ایک حقیقی اور پائیدار امن کی راہ ہموار ہوسکے۔
؍اگست ۲۰۲۱ء کی شام کو امریکی سرپرستی میں قائم افغان آرمی نے کا بل کو خالی کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی سمیت بیش تر حکومتی لوگ ملک چھوڑ گئے اور تحریک طالبان افغانستان کے رضاکاروں نے آگے بڑھ کر دارالحکومت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء کو ان کے اقتدار کو قائم ہو ئے چھے ماہ ہو چکے ہیں، جب کہ باقاعدہ حکومت کا قیام اور عبوری کا بینہ کا اعلان۲۸ ستمبر کو کیا گیا۔
تحریک طالبان افغانستان کاآغاز ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ہوا۔جب ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی ماسکونواز حکومت کاخاتمہ ہوا اورافغانستان میں مجاہدین کے دھڑوں کی باہم لڑتی بھڑتی حکومت قائم ہوئی۔ باہم اختلافات، خانہ جنگی اور لاقانونیت کی وجہ سے صوبوں کی سطح پرمقامی کمانڈروں نے اپنی عمل داری قائم کرلی اور ملکی سطح پرمضبوط حکومتی کنٹرول قائم نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں بدامنی کاراج تھا۔عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس عام تھا۔ اس دور میں قندھار سے ملاعمراخوند کی قیادت میں تحریک طالبان کاظہورہوا۔ جس نے کچھ ہی عرصے میں ملک گیر مقبولیت حاصل کرلی۔۱۹۹۶ء میں تحریک طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے ملک کوایک اسلامی شناخت دی۔یہ حکومت ۲۰۰۱ء تک قائم رہی۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا میں تخریب کاری کا ایک بڑاواقعہ پیش آیا تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کی، جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکا نے ملا عمرسے مطالبہ کیاکہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے، لیکن انھوں نے انکار کیاچنانچہ امریکی اور ناٹو افواج نے افغانستان پرحملہ کرد یا۔ اور شمالی اتحاد کی مدد سے کابل پرقبضہ کرکے حامدکرزئی کی قیادت میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔دسمبر۲۰۰۱ء سے لے کر فروری۲۰۲۰ء تک تحریک طالبان مسلسل غیرملکی افواج سے حالت ِ جنگ میں رہی اور بالآخر ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کی بنیاد پر افغانستان سے غیرملکی افواج کاانخلا عمل میں آنا تھا۔
جون۲۰۲۱ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک۳۱ ؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے جہاںدنیاکوحیران کردیا، وہاں مزاحمتی تحریک طالبان کو بھرپور اعتماد سے پیش قدمی کاموقع بھی فراہم ہوگیا۔ امریکی سرپرستی میں تشکیل کردہ افغان فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہو ئی،افغان صدراور ان کی کابینہ ملک سے فرار ہو گئے اور ۱۵؍اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔۱۶ ؍ اگست سے ۳۱ ؍اگست کے دن تک کابل ائیرپورٹ پر انتہائی افسوس ناک واقعات ہوئے، جب کہ اس کا انتظام۵ ہزار سے زائدامریکی فوج کے پاس رہا۔ اس دوران ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد غیر ملکی اور ان کاساتھ دینے والے مقامی افراد کا انخلا عمل میں آیا۔ انھی دنوں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ نے خودکش حملہ بھی کیا، جس میں ۱۳؍ امریکی فوجیوںسمیت ۲۰۰؍افغان مارے گئے۔ امریکی فوج نے جانے سے پہلے کابل ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جنگی جہاز،ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ و برباد کرکے ایک بدترین مثال قائم کی۔
طالبان تحریک نے دارالحکومت کابل پرقبضہ کے بعد صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل لیا۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور نائب صدر امراللہ صالح نے واد یِ پنج شیر میں چند روز مزاحمت کے بعد راہ فرار اختیار کی۔
۱۷؍ اگست کے فوراً بعد طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت کا آغاز کیا۔قندھار میں تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی زیر صدارت رہبری شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ پہلے مرحلے میں مختلف محکموں،کابل انتظامیہ اور مرکزی بنک کے صدر کے طور پر ۱۲ شخصیات کا اعلان کیا گیا۔اس دوران کابل میں سابق صدرحامدکرزئی،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینیر گلبدین حکمت یار سے مشاورت کی گئی، جس سے یہ خیال پیدا ہو ا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین، ذبیح اللہ مجاہد، اور دیگر زعماء نے میڈیا پر بہترین ترجمانی کی۔عام معافی کا اعلان ،تعلیمی اداروں میں تعلیم کا آغاز اور بازاروں اور بنکوں میں لین دین کا آغاز ہوا۔ محرم الحرام میں اہل تشیع کے جلوس اور خواتین کے مظاہروں کی اجازت دی گئی۔البتہ جس عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا، اس میں صرف طالبان رہنما ئوں کو شامل کیا گیا ہے۔
مُلّامحمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ملاعبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام حنفی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سونپے گئے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں ملاعمر کے صاحبزادے ملایعقوب کو وزیر دفاع،سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ، ملاامیر خان متقی وزیر خارجہ اور ملافصیح الدین بدخشانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک ۶۷؍افراد کو وزارتیں و دیگر اہم مناصب دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اعلان کیاگیا تھا کہ ۱۱ستمبر کو تقریب حلف برداری ہوگی۔لیکن پھر اس کو ملتوی کردیا گیا۔ مرکز کے علاوہ افغانستان کے ۳۴صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں بھی تمام مناصب پر تعیناتی کی جا چکی ہے اور ملک کے طول و عرض پر امارت اسلامی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔
اس سب کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کو سخت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے:
گذشتہ چھے ماہ میں امارت اسلامی افغانستان کی قیادت نے کئی ایسے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں :
ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی پوری طرح فعال کر دیا گیا اور ان کے عملے کی تنخواہیں بھی عالمی ادارے IRCRC (عالمی ادارہ صحت) وغیرہ دے رہے ہیں ۔البتہ ڈاکٹروں اور طبّی عملے کی کمی اور ادویات کی نایابی کا مسئلہ کئی جگہ موجود ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کے لیے پشاور،ایران اور بھارت جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
طالبان کی قیادت نے کمال حکمت و فراست کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ملکی معیشت کو ایک حد سے گرنے نہیں دیا ۔ملک میں امن و امان قائم کرنے اور مواصلاتی نظام کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بنک کاری کے نظام کو بھی سہارا دیا ۔ افغان مرکزی بنک کا سربراہ حاجی محمد ادریس کو پہلے ہی مرحلے میں مقرر کیا گیا اور انھوں نے بنک کا انتظام سنبھالتے ہی تمام بنکوں کو روزانہ کم از کم سرمایہ فراہم کرنا شروع کردیا، البتہ یہ پابندی لگائی کہ ہر فرد اپنے کھاتے سے ہفتے میں دو سو ڈالر یا اس کے برابر افغان کرنسی نکال سکتا ہے،اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انھوں نے تمام نجی بنکوں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے اور کم از کم نصف تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھیں گے ۔اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں اور سرکاری ملازمین کو پہلے چند ماہ نصف تنخواہ اور اب مکمل تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس طرح لاکھوں افراد بے روزگار ہونے سے بچ گئےاور اندرون ملک کاروباری ماحول بحال ہو چکا ہے ۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام، خصوصاً شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کچھ حد تک بحال ہو چکی ہے اور سرکاری ٹھیکے بھی جاری ہو گئے ہیں ۔البتہ مکمل طور پر اقتصادی ترقی بحال نہیں ہو ئی اور ملک میں مجموعی طور پر غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بنکوں میں ATM کی سہولت ابھی تک بحال نہیں کی جاسکی ہے۔
بیرونی تجارت میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنک کاری کی سہولتوں کی کمی ہے۔ جس سے تاجروں کو بیرونی کرنسی کے کاروباری معاملات میں مشکل درپیش ہے۔سب سے بڑا مسئلہ افغان مرکزی بنک کے بیرونی اثاثہ جات ہیں، جو ۹ ؍ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور جو امریکی بنکوں میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا عندیہ دیا ہے ۔اور اس میں سے یک طرفہ اور جبری طور پر نصف رقم ۲۰۰۱ء میں امریکا میں دہشت گردی کے واقعے میںہلاک ہو نے والے امریکی شہریوں کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نا انصافی اور سنگین جرم ہے جس کا امریکی حکومت ارتکاب کرنے جارہی ہے۔ اس اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اناتیونیو گیوٹریس نے کئی بار امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پابندی ختم کر دے اور افغان قوم کی یہ امانت اسے واپس دے ۔
بھارت نے گذشتہ بیس سال میں صدر اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے اور افغانستان میں اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی اور رفاہی کام کیے، جس کے نتیجے میں افغان عوام میں بالعموم بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، جو اس کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی ہے ۔ بھارت نے سفارتی سطح پر رابطوں کے باوجود اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ ایک ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، جس نے گذشتہ چار عشروں سے ایک شورش زدہ ملک میں مکمل امن و امان اور مرکزی حکومت کی رٹ قائم کردی ہے، جو اس سے پہلے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے بعدکبھی بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسلامی نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
پاکستانی حکومت کے علاوہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں ،خدمت خلق کی تنظیموں ،سماجی اداروں اور کاروباری تنظیموں اور شخصیات کو اس نازک موقع پر افغانستان کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغان عوام ایک عرصے سے پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اب کئی خاندانوں کا دوسرا گھر پاکستان ہی ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی بھی افغانستان میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوںسے ثقافتی ،مذہبی،قبائلی اور تجارتی روابط ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان روابط کو مزید مستحکم کیا جائے۔ اس کی ایک بہترین مثال حال ہی میں خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کا اقدام ہے کہ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق نے افغان حکومت کے محکمۂ تعلیم کے وفد کی آمد کے موقعے پر اعلان کیا کہ وہ کابل میں افغان طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے میڈیکل اور نرسنگ کالجز پر مشتمل کیمپس قائم کریں گے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں میڈیکل اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔لازماً یہ اقدام اُٹھانے چاہییں کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف پر داخلے دیئے جائیں۔ اسی طرح عسکری اور دیگر تربیتی اداروں میں بھی افغانو ں کو آنے کا موقع دیا جائے۔تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر بحال کی جائیں، اور ہر ممکن طریقے سے پاکستانی اور افغان تاجروں کو آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔ وزارتِ خزانہ کا یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ملکی کرنسی استعمال کی جائے گی ۔
گذشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کے معاملے پر دو مقامات پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے، جس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ لیکن طالبان کی مر کزی قیادت نے فراست سے ان واقعات کا بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے ذمہ دار افراد کو سزا دی۔ پاک افغان تعلقات میں ایک اور اہم مسئلہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں خاص طور پر پاکستانی فوج اور پولیس کے جواانوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ قابلِ تشویش ہے، جس کی روک تھام کے لیے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے قائدین بالخصوص وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انھی کے ایما پر حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور ایک موقعے پر سیز فائر کا اعلان بھی ہوا ۔لیکن اب تک صلح کی شرائط پر عدم اتفاق کی وجہ سے کو ئی باقاعدہ معاہدہ وجود میں نہیں آسکا ہے۔
پاکستان کے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے، جن میں ’الخدمت فائونڈیشن پاکستان‘ نمایاں ہے، اور اب تک ۲۱کروڑ مالیت کا سامان، جس میں غذائی اجناس ،گرم ملبو سات اور ادویات ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا چکا ہے، جب کہ کابل میں یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے آغوش مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے تین رکنی وفدنے گذشتہ ماہ کابل کا تفصیلی دورہ کیا اور امارت اسلامی کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔الخدمت نے امدادی سامان کی ایک کھیپ افغانستان روانہ کی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے،مزیدامداداورتعاون درکار ہے۔
اشتہارات کی کمی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے نشریات بھی متاثر ہو ئی ہیں ۔نائب وزیر نشریات ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی سے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں سے معاملات کیے ہیں۔ غیر ملکی خواتین صحافی بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی ادارے براہ راست افغانستان کے شہروں اور دیہات سے رپورٹیں نشر کر رہے ہیں ۔پاکستانی صحافی بھی بڑی تعداد میں افغانستان جارہے ہیں، اور عوامی جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
افغانستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس میںسیاحت کے فروغ کے لیے اچھے مواقع ہیں، لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں،بین الاقوامی پروازوں کی بندش اور بنکاری کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حالات معمول پرنہیں آ رہے ۔ افغانستان، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے، جو مستقبل میں بڑے انسانی، مالی اور جغرافیائی وسائل کی بنیاد پر دنیا میں ایک اہم سیاسی و نظریاتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
افغانستان میں معاشی بحالی اور امن و امان کا قیام طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کی قیادت راسخ العقیدہ علما پر مشتمل ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں ،عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو ناان کے لیے ایک مشکل اور صبرآزما جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے، جب بھارت کے جنوبی صوبہ کرناٹک، میں اسمبلی انتخابات کی مہم جاری تھی، تو یہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک مقتدر لیڈر، اننت کمار (مرکزی وزیر) پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کی حکمت عملی پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب اننت کمار سے پوچھا گیا کہ ’’بی جے پی کیا ایجنڈا لے کر میدان میں اتر رہی ہے؟‘‘ تو انھوں نے صاف اعتراف کیا کہ ’’پولرائزشن ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کہاں عوام ہمیں ووٹ دیتے ہیں‘‘۔ اُن دنوں شیر میسور ٹیپو سلطان، ہندو نسل پرستوں کی زد میں تھے۔ تب کانگریس کے ایک لیڈر کے۔ رحمان خان ٹیپو سلطان یونی ورسٹی بنانا چاہتے تھے اور کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے ٹیپو سلطان کی برسی منانے کا اعلان کیاہوا تھا۔ اننت کما ر کا کہنا تھا کہ ’’یہ ایشوہماری انتخابی مہم کے لیے غذا ہے اور اس کا بھرپور استعمال کیا جائے گا‘‘۔ پولرائزیشن کے اس ہتھیار نے اسمبلی میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد ۴۰ سے بڑھا کر ۱۰۴کردی۔
۲۰۰۴ء میں جب کانگریس کے زیر قیادت اتحاد نے انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو شکست دی، اس وقت بی جے پی کے سربرا ہ اور ملک کے موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’یہ انتخاب ان کی پارٹی نے تعمیری ایشوز یعنی ’شائینگ انڈیا‘ کے نعرے پر لڑا تھا ۔ مگر اس شکست نے ان میں احساس پیدا کر دیا ہے کہ عوام کو جذباتی ایشوز پر ہی لبھایا جاسکتا ہے‘‘۔ تب سے بی جے پی نے اقتدار کی کرسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے لیے تین آزمودہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے ، اور وہ ہیں:’’ گائے، مسلمان اور پاکستان‘‘۔
۲۰۱۴ء سے ابھی تک ’گائے کی حفاظت‘ کے نام پر ہجومی تشدد کے ۸۰ واقعات میں ۵۰؍افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اب گائے کا ایشو کچھ ٹھنڈا پڑچکا ہے۔ ’پاکستان‘ کے ایشو کو آیندہ کے لیے اُٹھا رکھا گیا ہے، جس طرح پلوامہ کے المیے کے بعد ۲۰۱۹ء میں اس کا استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم، آج اس وقت ہندو شدت پسند اور ان کی سیاسی تنظیم بی جے پی ، مسلمان کارڈ کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔خود وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے انتخابی حلقہ ورانسی میں تاریخی شخصیات اورنگ زیب عالم گیر اور صوفی بزرگ سید سالار مسعود غازی کو مطعون کرکے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بناکر مخالفین کو شکست دی۔
لکھنؤ شہر کے ایک معروف صحافی حسام صدیقی کے مطابق: ’’ہندو شدت پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلمانوں کے خلاف اکثر طرح طرح کے تجربے کرتی رہتی ہے، تاکہ عام ہندوؤں کو بھڑکا کر بی جے پی کی حمایت میں پولرائز کیا جاسکے‘‘۔ اس وقت حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کا آغاز کرناٹک کے اڈپی قصبے سے ہوا، جہاں گورنمنٹ پری یونی ورسٹی کالج فار گرلز میں نصف درجن مسلم لڑکیوں کودسمبر میں کلاس میں جانے سے روکا گیا، کیونکہ انھوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صوبہ کی بی جے پی حکومت نے ۵فروری کو حکم نامہ جاری کرکے تمام اسکول اور کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔
سوال یہ ہے کہ حجاب سے کس طرح نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو رہی تھی؟جو لوگ حجاب کی مخالفت کر رہے ہیں، اب ان سے کوئی پوچھے کہ ہندو خواتین جو گھونگھٹ میں رہتی ہیں، تو ان کے گھونگھٹ بھی اتار کر پھینک دو۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ تو دُور کی کوڑی لاتے ہوئے سب سے آگے نکل گئے۔ انھوں نے کہا:’’حجاب کے ذریعے کچھ لوگ ملک میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ (داعش) کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ نفرت کی خلیج کو گہرا کرنے کے لیے بی جے پی کی زیر قیادت دیگر صوبائی حکومتیں بھی حجاب پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بڑی تعداد میں حجاب کے خلاف بطورِ احتجاج طلبہ کو بھگوا مفلر تقسیم کر رہی ہیں۔ اسے چھوٹے چھوٹے بچوں تک میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہندو نسل پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ’ لوّ جہاد‘ سے شروع کی جانے والی لہر، شہریت قانون، تبدیلیِ مذہب پر پابندی کا قانون، گائے کے نام پر ہجومی تشدد اور ایسے اَن گنت اقدامات کے تسلسل میں اب حجاب کے سوال پر جھگڑا کھڑا کیا گیاہے۔ اس طرح سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔۲۰۱۷ء میں خاتون رپورٹر شوئیٹا ڈیسائی نے اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی مہنت آدتیہ ناتھ کے حلقہ انتخاب گورکھپور اور خوشی نگر کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’’اس علاقے میں مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کردیے جانے کی سیکڑوں وارداتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کا ’شدھی کرن ‘کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گائوں کی ۱۷سالہ عاصمہ نے بتایا، کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ مگر وہ کسی طرح ان کی گرفت سے بھاگ نکلی‘‘۔ خاتون رپورٹر نے بتایا کہ ’’ صر ف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان ہیں، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرنےکے بعد ان کی زبردستی کی شادیاں کردی گئی ہیں‘‘۔
چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا شوہر اروند گاؤں کے مکھیا ٹھاکر کا بیٹا ہے۔ ماتھے پر بندی سجائے اور ہندووانہ لباس میں ملبوس امیشا نے رپورٹر کو بتایا، کہ ’’جب وہ ۱۳سال کی تھی، تو ٹھاکروں نے اس کو گھر سے اٹھا کر اغوا کیا‘‘۔ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔ دو سا ل قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واھنی سے وابستہ چارافراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے، کہ ادتیہ ناتھ کے کارکنوں نے انصاری پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد ہی اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی باڑی کرنے کی اجازت ملی‘‘۔
پانچ سا ل پہلے کی بات ہے کہ جب میں اتر پردیش کے انتخابات کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ کالج کے ایک پروفیسر، جو سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے قریبی رشتہ دار تھے، انھوں نے بتایا کہ ’’میں مودی کے بدترین مخالفین میں سے ہوں، مگر ایک کام اس نے بہت اچھا کیا اور وہ یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی عقل ٹھکانے لگائی ہے اور انھیں ٹھیک کنٹرول میں رکھا ہے‘‘۔ بھارت میں بے بنیاد طور پر یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں نے یا تو ملکی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے یا ان کے ادا کیے گئے ٹیکسوں پر ہی وہ زندہ ہیں‘‘۔یہ مذہبی منافرت کا دوسرا مرحلہ ہے، جو فسطائیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کا پراپیگنڈا یورپ میں دوسری عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے خلاف عام تھا۔
بھارت میں مذہبی منافرت اُبھارنے کا یہ کام نہایت منظم انداز میں ہو ا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ چھے ہزار سے زائد سکول سرکاری امداد پر چلتے ہیں۔ ان میں زیرتعلیم بچوں کے معصوم ذہنوں کو مذہبی نفرت سے مسموم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں شیشو مندر ہیں‘ جہاں نوجوان نسل کی برین واشنگ کی گئی۔ یہاں سے فارغ ہونے والے تعلیم یافتہ افراد ہی آگے چل کر مختلف میدانوں میں مختلف حوالوں سے مذہبی تعصب پھیلاتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک صاف طور پر بھارتی میڈیا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
۲۰۱۴ء کے دوران کشمیر میں انتخابات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے دیکھا، کہ جموں کے مسلم اکثریتی علاقے ’چناب ویلی‘ میں دشوار گزار اور انتہائی دور دراز علاقوں میں آر ایس ایس کے پُرجوش کارکنوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کارپوریٹ اور دیگر سیکٹروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ اراکین راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک حتیٰ کہ کیرالا سے عیش وآرام کی زندگی چھوڑ کر ایک سال کی چھٹی لے کر دیہات میں رات دن ’ہندوتوا‘ کا پاٹھ پڑھارہے تھے۔
شہید بابری مسجد کی جگہ پر عالی شان رام مندر کی تعمیر کے بعد مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے آر ایس ایس کا نشانہ اب۱۹۹۱ء کا عبادت گاہوں کا قانون ہے، جس کی رُو سے بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام عبادت گاہوں کی۱۹۴۷ء والی حیثیت کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس قانون کو کالعدم کرانے کے مطالبے میں تیزی آنے کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کے عید گاہ کے قضیے کو ہوا دی جار ہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی ۔ یہ جامع مسجد شہر کے قلب میں دریائے گنگا کے کنارے للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور مسجد کے بارے میں اب بتایا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کرشن کے جنم استھان کا حصہ ہے ۔ یہ دونوں ہی قدیم مساجد ہیں، جہاں مسلمان برسہا برس سے نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔
بنارس کی اس مسجد کے بارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی سے واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاو ڈالا، تو اس کے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کے لیے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانے کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اس کے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتاچلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اس کے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ مقدمہ کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اس کے اوپر مندر کو اَزسر نو تعمیر کرادیا۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔ یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔
بھارت کے مشہور دانش وَر سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other میں لکھا تھا کہ ’’میں اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتا ہوں‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔اتر پردیش میں صوبائی انتخابی مہم دیکھنے والے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ ’’مسلمانوں میں اپنی تعلیم و ترقی کے بجائے اپنے تحفظ کا احساس زیادہ گھر کر گیا ہے‘‘۔
سعید نقوی کے مطابق: ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کا مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔ غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ بھارت میں اس لفظ سے وابستہ حُرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے، جس پر ہندو قوم پرستی کا عالی شان مندر تعمیر اور ترشول بلند کیا جارہا ہے۔یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی قوم کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہے۔ نقوی صاحب کا مزید کہنا ہے کہ ’’مجھ پر ایک اور حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے، وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منہ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’فرقہ پرست‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔حال یہ ہے کہ پچھلے چاربرسوں میں دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ گورکھپور کا اردو بازار، ہندی بازار ہوگیاہے، ہمایوں نگراب ہنومان نگر ہوگیا، اتر پردیش اور بہار کی سرحد پر تاریخی مغل سرائے شہر دین دیال اپدھائے نگر ہوگیا اور مغل بادشاہ اکبر کا بسایا ہوا الٰہ آباد اب پریاگ راج ہوگیا ہے، فیض آباد ایودھیا ہو گیا ہے۔ ہریانہ کا مصطفےٰ آباد اب سرسوتی نگر ہوگیا ہے‘‘۔
احمد آباد کو اب کرناوتی نگر اور فیروز آباد کو چندرا نگر بنانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی، مگر یہاں تو تاریخ مسخ ہورہی ہے۔ یہ مٹتے ہوئے نام ، مسخ ہوتی تاریخ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے خود اعتمادی چھین کر احساس کمتری میں دھکیل دے گی۔ کیونکہ یہ صرف نام نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے شان دار ماضی کی جھلک تھی ، جو ثابت کرتی تھی کہ مسلمان اس ملک میں کرائے دار نہیں بلکہ حصہ دار اور اس کی تاریخ کا حصہ تھے۔ لیکن شاید غیرمحسوس طریقے سے ۱۵ویں صدی کے اواخر کے اسپین کے واقعات دہرائے جا رہے ہیں۔
مسلمانوںکی سیاسی حالت حددرجہ ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا۔ اس لیے اسے ان کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈر اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک آسودہ حال ملک بنا سکیںگے؟
اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع خصوصی عدالت میں بیان دے رہے تھے: ’’میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا پُرامن رویہ تمھاری گولی سے زیادہ طاقت ور ہے ۔کیا میری امن پسندی ہی میرے خلاف دلیل بنادی جائے گی؟جب سے اخوان المسلمون قائم ہوئی ہے، ہماری جدوجہد پرامن ہے اور ان شاء اللہ ہم پر توڑے جانے والے ظلم کے خلاف اللہ کی نصرت ہمیں ضرور حاصل ہوکر رہے گی۔جج صاحبان ! حقائق کو توڑا مروڑا جارہا ہے ۔جو کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں اور جو جیلوں میں ناحق بنداورقید کاٹ رہے ہیں، ظلم انھی پر توڑا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اخوان المسلمون فتحیاب لوٹے گی اور پہلے سے بڑھ کر طاقت ور: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷‘‘
ڈاکٹر محمد بدیع [پ: ۷؍اگست ۱۹۴۳ء] ۱۶جنوری ۲۰۱۰ء کو اخوان المسلمون کے آٹھویں مرشد عام منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک صائب الرائے اور صاحب ِعزیمت رہنما ہیں ۔ اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام [۲۰۰۴ء- ۲۰۱۰ء] محمدمھدی عاکف [۱۹۲۸ء-۲۰۱۷ء] کے قریبی ساتھی ہیں ۔دونوں سید قطب شہید [شہادت: ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء]کے شاگرد رہے اور سید صاحب کے ساتھ ہی ۱۹۶۵ء کی قید و بند اور ابتلا و آزمایش میں مبتلا رہے اور کندن بن کر نکلے۔ مصر کے ریاستی اطلاعاتی ادارے نے ۱۹۹۹ء میں انھیں ’۱۰۰ بہترین عرب سائنس دانوں‘ میں شمار کیا تھا ۔
اس وقت کے مصری فوجی حکمران ، جمال عبد الناصر کی فوجی عدالت نے ڈاکٹر محمد بدیع کو ناکردہ جرم کی پاداش میں ۱۵ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ وہ ۹سال جیل میں قید رہ کر رہا ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں ۷۵ دن کے لیے پھر قید کردئیے گئے ۔۱۹۹۹ء میں تیسری بار گرفتار کیے گئے اور پانچ سال قید کی سزا پائی اور ۲۰۰۳ء میں رہا ہوئے۔
۲۰۱۳ء میں صدر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف چند دولت مند ملکوں کی پشت پناہی میں جنرل سیسی کی باغی حکومت نے فوجی انقلاب میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ فوجی جنتا نے اس بار ان پر قتل اور تشدد پر اُبھارنے کا الزام عائد کیا۔اس وقت مصر کے آٹھ اضلاع میں ان کے خلاف ۴۸مقدمات درج ہیں ۔
حالیہ فروری ۲۰۲۲ء میں ایک جعلی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مرشدعام کی عمرقید کو برقرار رکھاگیاہے۔۳۰دن کے اندر اندر انھیں سنائی جانے والی یہ دوسری عمرقید کی سزا ہے۔ اس طرح مختلف مقدمات میں اب تک مجموعی طور پر انھیں ۲۰۰ برس کی عمرقید سنائی جاچکی ہے۔ مزید ۸۰ برس قید کی سزائوں والے مقدمات کی سماعت ابھی باقی ہے۔
۷۸برس کے مرشدعام کو آٹھ برس سے مسلسل قیدتنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان کی بیٹی ضحی بدیع کہتی ہیں کہ میرے والد محترم علیل ہیں۔ پانچ برس سے انھیں اہلِ خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ کھانے پینے کا سامان اور باہر سے دوا تک نہیں پہنچنے دی جارہی۔ انھیں طبّی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے اور قید کی تعذیب اور مشقت اس پر سوا ہے۔ ’’وہ سخت جسمانی کمزوری کا شکار ہیں ، ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری التجا سننے والا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے‘‘۔
عرب حکومتوں کے پالیسی سازوں کے خیال میں ’عرب بہار‘ کی کامیابی کے پیچھے در اصل اخوان المسلمون کے نظریاتی ،سرتاپا قربانی دینے والے، منظم کارکنان تھے ۔لہٰذا، جب تک انھیں اور ان کی قیادت کا صفایا نہ کردیا جائے دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی پشت پناہی کے باوجود، ہمارے لیے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔اسی لیے اخوان المسلمون اور خصوصاً ان کی قیادت ان کا اہم ہدف ہے۔
۲۰۱۳ء میں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کی گرفتاری کے بعد جناب محمود عزت قائم مقام مرشدعام مقرر ہوئے۔ حکومتی جبرو استبداد کو دیکھتے ہوئے بار بار ساتھیوں نے انھیں ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا ۔لیکن قائم مقام مرشد عام نے دار و گیر میں مبتلااپنے ساتھیوں کو تنہا چھوڑنا پسند نہ کیا اور ملک ہی میں اپنے کارکنوں کے درمیان رہے ۔۲۰۱۵ٌ میں اخوان المسلمون کے دیگر ۹۲کارکنان کے ہمراہ انھیں بھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد میں عمر قید میں بدل دیا گیا۔ ۸؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو محمود عزت بھی گرفتار کرلیے گئے ۔
نائب مرشد عام محمود عزت کے ساتھ کام کرنے والی اعلیٰ انتظامی کمیٹی کے اولین کنوینیر ڈاکٹر محمد کمال کوابتدا میں ہی شہید کردیا گیا تھا اور دوسرے ذمہ دار ڈاکٹر محمد عبد الرحمٰن مرسی کو قید کرلیا گیا۔
اخوان کے رہنما ڈاکٹر عصام عریان ۲۱؍ اگست ۲۰۲۱ءکو سیسی آمریت کے ہاتھوں قید کے دوران تشدد سے جیل ہی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تشدد زدہ میّت، گھر والوں کے حوالے کرنے کے بجائے انتظامیہ نے خود سپرد خاک کردی تھی۔ تدفین کے وقت گھروالوں کو قبرستان آنے تو دیا گیا،لیکن موبائل فون لانے کی اجازت نہیں دی، تاکہ مجرم نظام اپنا جرم چھپاسکے۔
امام ابن تیمیہؒ نے قید کی دھمکی کے جواب میں فرمایا تھا:’’ہمارے دشمن ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں ؟ قید ہمارے لیے خلوت اور تنہائی میں عبادت کا موقع ہے ۔جلاوطنی ہمارے لیے سیاحت ہے اور قتل ہمارے لیے شہادت‘‘ ۔امام ؒ کے اس مقولے کو زندگی کا وظیفہ بناتے ہوئے اس وقت اخوان المسلمو ن کی چوٹی کی قیادت اورمکتب ارشاد کے تمام ممبران قید میں ہیں۔ اخوان کے ۶۰ہزار کارکن جیلوں میں بند ہیں ۔(جیلوں میں جگہ کم پڑچکی ہے اور حال ہی میں جنرل سیسی حکومت نے نئے جیل خانے تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔)
صدر مرسی کی زندگی میں مرشد عام محمد مھدی عاکف سے حکومت نے مذاکرات کرنا چاہے تو انھوں نے فرمایا: ’’جس نے مذاکرات کرنے ہوں وہ مصر کے حقیقی منتخب صدر ( مرسی ) سے کرے‘‘۔ نائب مرشد عام خیرت الشاطر کا کہنا تھا: ’’جو بات چیت چاہتا ہے ،وہ صدر مصر (مرسی)سے کرے‘‘۔
صدر مرسی شہید کی دوران قید جیل میں وفات [۱۷جون ۲۰۱۹ء] کے بعد اخوان کا دو ٹوک موقف اب یہ ہے کہ ’’ان کی شہادت کے بعد مذاکرات کا حق اب صرف اور صرف مصری قوم کو ہے۔ اس لیے کہ جنگ اب اخوان اور غدار فوجی جنتا کے مابین نہیں بلکہ بغاوت کے مرتکب فوجیوں اور اس قوم کے درمیان ہے، جس کا مینڈیٹ چُرالیا گیا ہے۔جس کی آواز کو دبا دیاگیا ہے ،اورجس کی عزت پامال کی گئی ہے ۔ تیران و صنافیر کے جزیرے بیچ ڈالے گئے، اور مصر کو امریکا واسرائیل کا بے دام غلام بنادیا گیا ۔
لندن میں قائم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (IA) انسانی حقوق کی کوئی واحد عالمی انجمن نہیں ہے کہ جس نے اسرائیل کو ’نسل پرست ریاست‘ قرار دیا ہو۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے دوسرے گروپ بھی صہیونی ریاست کے خلاف ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشل اپنی تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سمیت دو اسرائیلی انجمنوں (بتسلیم اور یش دین) کی ہم نوا بن گئی ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے نسل پرست اقدامات کا پردہ چاک کر چکی ہیں۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسیوں اور ضابطوں کے ذریعے نسل پرستی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اسی طرح فلسطینی شہریوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر غیر نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔
اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بے بنیاد الزامات کے ذریعے ادارے کی اسرائیل سے نفرت واضح ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس کا مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو اُبھارنا ہے۔
نسل پرست صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ’بیانیے کی جنگ‘ جیسی اصطلاحات کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اس کے حواری ’پروپیگنڈا کی جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ طرزِعمل ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے پہلوتہی برت رہا ہے۔
اسرائیل میں نسل پرستی کے مظاہر تو پہلے دن سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد بخوبی جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے ان کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ۲۰ ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے ۹۵ فی صد مقامی باسیوں کے حقوق کی بُری طرح پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین نے صہیونی منصوبے پر واضح اور دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریز کیا کہ شاید مستقبل بعید میں کوئی نہ کوئی، کسی دن تل ابیب کی حکومت کو ’نسل پرستی‘ کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔
برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے، جو حقائق کے بجائے عقیدے کو بنیاد مانتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انھوں نے ۲۰۱۷ء میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا دو ریاستی حل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔پھر فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطرانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی، ایسے میں ان کے استصواب رائے کے حق کی بات چہ معنی دارد؟
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات رکھتے تھے۔ واشنگٹن میں ۲۰۱۴ء کے دوران ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، تو اسرائیل کے نسل پرست ریاست بننے کے خطرات دوچند ہو جائیں گے‘۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈریان کے بقول: ’نسل پرستی کا خطرہ بہت زیادہ ہے، اور اس سنگین صورتِ حال کے جوں کا توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے‘۔
یہ دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ’سٹیٹس کو‘ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی نسل پرست جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں، جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکیرٹری بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے متعلق اعتبار بھی کچے دھاگے سے بندھا تھا۔ گذشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا، ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں‘۔ بان کی مون کا تبصرہ اسرائیل کے نسل پرست ریاست ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے خیالات سے آگاہی کا نقیب ثابت ہوا۔ اگرچہ عالمی ادارے کے موجودہ جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ۲۰۱۷ء میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔
اب اسرائیلی رہنما اس بات پر متفکر ہیں کہ مبادا یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار نہ ٹھیرا دیا جائے۔ صہیونی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرے کو بھی ظاہری طور پر سجایا گیا ہے۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں‘، تاہم صہیونی ریاست ’پھسلتی ڈھلوان‘ پر اسی سمت سفر کر رہی ہے۔اسی طرح سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی جدوجہد‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب یہ جنگ ہار بھی سکتا ہے‘۔
بزرگ اسرائیلی رہنما کے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا، اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کا خاتمہ نوشتۂ دیوار ہوگا‘۔
دوسرے اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندۂ جاوید حقیقت ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں کہ’ اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے‘۔ سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘
اسرائیل بڑی مدت سے امریکی یونی ورسٹیوں میں اسرائیل کی حمایت کے لیے ’ہاسبارہ‘ تنظیم کے ذریعے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں اطلاعاتی پروپیگنڈے سے اپنا ’روشن چہرہ‘ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ تکنیک‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے نقصان پہنچایا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کا نقطۂ عروج بننے جا رہی ہے۔ ’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں سامنے آنے والی جمی کارٹر کی کتاب اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کے بارے میں بحث کا نقطۂ آغاز بنی۔
کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق انھیں یہود مخالف خیالات کا پرچارک قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا، جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اَٹا ہوا تھا۔
دو عشرے گزرنے کے بعد کئی امریکی ادارے، اسرائیل کے بارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل ناجائز قبضے کے بوجھ تلے دبی اپنی جمہوریت کو دنیا کے سامنے مہنگے داموں مزید نہیں بیچ سکتا‘۔
ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ تل ابیب اس وقت تک نسل پرست ریاست ہی قرار پائے گا، جب تک وہ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مساوی حقوق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل موجودہ رپورٹ جاری کرنے کے بعد ان اداروں کی فہرست میں شامل ہو گئی جو اسرائیل کے متعصبانہ رویہ کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں اور اقوام عالم کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ’’بہت ہوگیا، اسرائیل کی جواب دہی اب نہیں تو کب؟ ‘‘
۲۷۸ صفحات پر مشتمل یہ مدلّل رپورٹ امریکی سینیٹ ممبران کی تنقید کی زد میں آئی ہے ۔ امریکی قانون سازوں کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف فلسطینی نژاد امریکی بزرگ اسدعمر کی اسرائیلی فوج کے تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے تو یہ سب خاموش ۔ دوسری جانب جب انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں تو اُلٹا ان اداروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ پر برہم مقتدر لوگوں میں سر فہرست نام امریکی امور خارجہ کی سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینی ڈیز کے بارے میں شنید ہے کہ اسرائیل گذشتہ ۱۶ برس سے ان کی انتخابی مہم کے لیے ہزاروں ڈالر فنڈنگ کر رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ رپورٹ سامنے آئی، تو رابرٹ مینی ڈیز نے فی الفور اس تنظیم کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور واضح طور پر اس رپورٹ کو غلط فہمی اور گمراہ کن حقائق پر مبنی قرار دیا۔
بلاشبہہ اسد عمر نامی بزرگ شہری کی موت کی ذمہ دار ان کی بےجا حراست تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ان کو مغربی کنارے کے ایک قصبے سے شبہہ کی بنیاد پر گرفتار کیا، جب وہ اپنی کار پر جا رہے تھے۔ تشدد کی وجہ سے اسی روز ان کی موت واقع ہوگئی۔ روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی فوجی سربراہ نے اس حادثے پر اظہار افسوس کیا مگر معافی مانگنے سے گریز کیا ۔
اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ واقعی اسرائیل کے متعصبانہ رویے، غاصبانہ نظام حکومت اور انسانیت کے خلاف جرائم پر ایک مؤثر اور چشم کشا دستاویز ہے۔ تاہم، اس پر امریکی اربابِ اختیار کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے ۔
یہ ایک نہایت افسوس ناک اتفاق ہے کہ حالات و واقعات کی رفتار دیکھ کر میں نے بیسویں صدی کے آخری عشرے کے شروع میں روانڈا میں ۱۹۹۴ء میں ہونے والی ’نسل کشی‘ (Genocide)سے تقریباً پانچ سال قبل اس کی پیش گوئی کی تھی، اور اسی طرح صدی کے شروع میں یہ کہا تھا کہ میانمار میں حالات روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف جائیں گے۔ اور آج اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تشویش ناک حالات بھارت میں ہیں، جہاں پر مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ سر پر کھڑا نظر آرہا ہے۔
’جینوسائیڈ واچ‘ ۲۰۰۲ء سے ہندستان میں نسل کشی کے بارے میں انتباہ (warning) دے رہی تھی کہ جب گجرات میں اس سال فروری،مارچ کے دوران قتل عام کے دوران ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے۔اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے، جنھوں نے اس انسانی المیے کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا تھا بلکہ درحقیقت، اس بات کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ مودی نے مسلمانوں کے اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس سے بڑھ کر مودی نے جو آج کل ہندستان کے وزیر اعظم ہیں، اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے ’مسلم مخالف، اسلاموفوبک بیان بازی‘ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔
مودی نے اس المیے کو ریاستی اور اداراتی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے جو دو طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں ایک تو اگست ۲۰۱۹ء میں ہندستانی زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنا اور اسی سال شہریت (ترمیمی) ایکٹ پاس کرنا ہے، جس میں واضح طور پر مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مقصد وادیٔ کشمیر میں’ہندو تسلط کو بحال کرنا‘ ہے، جس میں مسلم اکثریت ہے، اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ کا نفاذ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہے، جس میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے پناہ گزینوں کو مخصوص سازگار درجہ دیا، جو کہ بعض مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ایک گروہ جسے اس سے خارج کر دیا گیا وہ مسلمان ہیں۔یہ ایکٹ خصوصاً ، ان مسلمانوں کے لیے ہے جن کے والدین ۱۹۷۱ءمیں خانہ جنگی کے دوران مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر آسام میں آباد ہو گئے تھے۔ یہ تقریباً ۳۰ لاکھ لوگ ہیں، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، جو گذشتہ ۵۰ برس سے ہندستان کے باقاعدہ شہری کے طور پر’بس گئے‘ ہیں۔
متنازع شہریت (ترمیمی) ایکٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگ دستاویزی طور پر یہ ثابت کریں کہ وہ ۱۹۷۱ء سے پہلےکے ہندستان کے شہری تھے۔اب بہت سارے لوگوں کے پاس اس قسم کی دستاویزات نہیں ہیں۔ جس کا صاف مقصد یہ ہے کہ انھیں غیرملکی قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے۔
۲۰۱۷ء میں میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ جہاں میانمار کی حکومت نے پہلے ایک قانون سازی کے ذریعے عشروں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کو شہری قرار دیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے انھیں بے دخل کرکے کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔
اقوام متحدہ کا ’نسل کشی کنونشن‘ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو نسل کشی کو جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مقصد خاص طور پر کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہی سے بچانا ہے، مگر روہنگیا مسلمان یہ المیہ بھگت رہے ہیں۔ اب بھارت میں بالکل اسی خونیں المیے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کا مقصد شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے تحت پورے ہندستان میں ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان متاثر کرنا ہے۔ ’ہندوتوا تحریک‘ کے تحت ہندستان کا تصور بطور ہندو قوم، ہندستان کی تاریخ اور ہندستانی آئین کے خلاف ہے۔ ہندستانی آئین سیکولرازم کے تحت اپنے بسنے والے تمام شہریوں سے وعدہ کیا تھا۔
اس وقت حقیقت میں مسٹر نریندرا مودی، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) جیسے انتہا پسند، ’ہندوتوا‘ کے علَم بردار گروپ کے کارکن کی حیثیت سے ہندستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اقتدار میں ہیںاور حکومت کی پوری مشینری پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔
بھارت کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر نسل کشی ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اور یہ کہ بھارتی آسام اور مقبوضہ کشمیر میں مسلم نسل کشی کی ابتدائی علامات اور مظاہر موجود ہیں۔
اسی طرح اتراکھنڈ کے یاتری شہر ’ہردوار‘ میں ۱۷ سے ۱۹ دسمبر تک ’ہندوتوا‘ لیڈر کی طرف سے منعقدہ ایک کانفرنس کو معمولی واقعہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی متعدد اپیلیں کی گئی ہیں، اور حلف لیے گئے ہیں، جس کا واضح مقصد اپنے ماننے والوں کو نسل کشی پر اُکسانا ہے۔
مودی نے بحیثیت بھارتی وزیر اعظم، نفرت آمیز اقدامات اور نفرت انگیز تقاریر کیں، جو خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کے جذبات بھڑکاتی ہیں،جن کی مذمت کرنا دُنیابھر کے مہذب لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
’ہردوار کانفرنس‘ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کی گئی زبان، محض وہاں موجود مشتعل لیڈروں اور سامعین تک محدود نہیں، بلکہ یہی زبان مسلمانوں کے خلاف ہندستانی حکومت بھی استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔ جس کا مقصد اس ’پولرائزیشن‘ کو گہرا کرنا ہے، جس کی وجہ سے نسل کشی ہوتی ہے، لہٰذا ہم خبردار کر رہے ہیں کہ ہندستان میں نسل کشی بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ ہندستان کے یہ حالات ’روانڈا‘ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں، جہاں ۱۹۹۴ءمیں نسل کشی ہوئی تھی۔
روانڈا میں نسل کشی کی پیش گوئی میں نے اس وقت ملک کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں کی تھی اور روانڈا کے اس وقت کے صدر کو خبردار کیا تھا کہ’’اگر آپ نے اپنے ملک میں نسل کشی کی علامتوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو پانچ سال کے اندر یہاں عملاً نسل کشی ہوجائے گی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود نسل کشی کی راہ پر چلنے کے لیے نفرت انگیز تقاریر کی جاتی رہیں، اور پھر ہم جانتے ہیں، ۷؍اپریل سے ۱۵جولائی ۱۹۹۴ء پر پھیلے ایک سو دنوں میں روانڈا کے ۸لاکھ تتسی باشندوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا۔
دنیا بھر کے انصاف پسند اور انسانیت دوست انسانوں اور اداروں کو آج اس عزم کا اظہار کرنا اور عملی اقدامات کرنے چاہییں کہ ہم ہندستان میں ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔
بھارت میں نئے سال کا آغاز مسلمانوں پر اخلاق سوز حملے سے ہوا۔ یکم جنوری کو ’بُلی بائی‘ ایپ پر سو سے زیادہ بھارتی مسلمان خواتین کی تصاویر دی گئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’یہ برائے فروخت ہیں‘‘۔ ان ناموں میں معروف صحافی، استاد، سماجی کارکن اور فنونِ لطیفہ سے متعلق خواتین شامل تھیں جنھیں ہدف بنایا گیا تھا۔
بظاہر اس کوشش سے جہاں مسلم خواتین کی جنسی اعتبار سے توہین کی گئی ہے وہاں سماجی طور پرمعروف اور سیاسی طور پر سرگرم مسلم خواتین کو ردعمل پر مجبور اور ۲۰کروڑ مسلمانوں پر مشتمل بھارت کی مضبوط اقلیت کو مشتعل کیا گیا ہے۔درحقیقت یہ بھارت میں اسلاموفوبیا واقعات کے تسلسل کے حوالے سے ایک تازہ واقعہ ہے۔
گذشتہ برس ۲۰۲۱ء کے آخری روز ایک معروف بھارتی روزنامہ نے اسلاموفوبیا پر مبنی نمایاں طور پر ایک اشتہار شائع کیا،جس کے لیے اترپردیش حکومت نے مالی معاونت کی۔چند ہفتے قبل شمالی بھارتی شہر ہردوار میں تین روزہ مذہبی تقریب کے آخری دن بہت سے انتہاپسند ہندو لیڈروں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کا حلف اُٹھایا۔ دسمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی دو تقریروں میں ہندستان کی تاریخ کی مختلف مسلم شخصیات اور موجودہ ’دہشت گردی‘ کے درمیان ربط اور تعلق قائم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندستان کے مسلمانوں کو اپنے آبائواجداد کے مبینہ جرائم کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا اور اس کی سزا دی جائے گی‘‘۔
اس دوران اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے، جن کا تعلق حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہے، اعلان کیا ہے کہ ’’ریاست کے آیندہ اسمبلی انتخابات کو ۸۰ فی صد بمقابلہ ۲۰فی صد قرار دیا جاسکتا ہے، اور یہ کہ وہ ریاستی انتخابات کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ سمجھتے ہیں‘‘۔ یاد رہے یوپی میں ۸۰فی صد ہندو اور ۲۰ فی صد مسلمان ہیں۔
۲۰۲۱ء میں مسلم مخالف پروپیگنڈا، جس کا ارتکاب ہندستان کے منتخب لیڈروں نے کیا، اسے ڈھٹائی پر مبنی ملکی اسلامو فوبیا میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں منظورکردہ یا تجویز کردہ مسلم مخالف قوانین اور پالیسیوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔
۲۰۱۴ء میں ہندو قوم پرست بی جے پی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے ہندستان میں مسلمان اپنےآپ کو خطرے میں محسوس کرتےہیں۔ لیکن گذشتہ برس مسلم قومیت سے دشمنی اور بھی کھل کر سامنے آگئی۔ آج انتہاپسند ہندو قوم پرست، حکومت، مقامی حکام کی مدد اور بسااوقات حوصلہ افزائی سے مسلمانوں پر یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ ’’یہ زیادہ دُور کی بات نہیں ہے کہ جب وہ اپنےہی ملک میں برابرکےشہری کی حیثیت سےدیکھے نہیں جائیں گے‘‘۔ ان کی کھانے پینے کی ضروریات پر پابندیاں اور مذہبی عبادات کے دوران ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور مجرمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین کی محض اس وجہ سے تذلیل کی جاتی ہے اور انھیں خوف زدہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کا روزگار خطرات کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اعلانات کیے جاتے ہیں۔
صرف مسلمان ہی نہیں ہیں کہ جنھیں ملک میں انتہاپسندوں کے بڑھتےہوئے دن دہاڑے کھلے عام حملوں کا سامنا ہو۔ ملک بھر میں عیسائیوں کو بھی اسی طرح کی نفرت اور تشدد کا سامناہے۔ ایک کے بعد ایک ریاست میں تبدیلیِ مذہب کے قانون پر پابندی لگائی جارہی ہے اور عیسائیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا جاتا ہے کہ وہ غریب ہندوئوں اور قبائل کو تبدیلیِ مذہب پر مجبورکر رہےہیں۔ اس پراپیگنڈے سے رائے عامہ عیسائی اقلیت کے خلاف ہورہی ہے۔ عیسائیوں کی اتوار کے روز عبادت کو مسلسل انتشار کا سامنا ہے، گرجوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور ان کے مذہبی پیشوائوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
معروف صحافی جان دیال نے حال ہی میں بتایا ہے کہ گذشتہ ماہ میں کم از کم ۱۶ شہروں اورقصبوں میں متشدد ہندو ہجوموں نے گرجوں پر حملے کیے، مذہبی عبادت اور کرسمس مناتے ہوئے مختلف گروپوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات ہریانہ، اترپردیش او ر دہلی سے لے کر جنوب میں کرناٹکہ تک دیکھنے میں آئے۔ یونائٹیڈ کرسچن فورم کے مطابق: ’’۲۰۲۱ء کے دوران بھارت میں عیسائیوں پر کم از کم ۴۶۰حملے کیے گئے ہیں‘‘۔
بی جے پی کی قیادت میں بھارت دنیابھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک بن گیا ہے۔ انھیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشی لحاظ سے تکالیف اور اذیتوں کا سامنا ہے۔ ان کی مذہبی رسومات، کھانے پینے کی اشیاء، حتیٰ کہ کاروبار تک کو جرم ثابت کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ امتیازی قوانین کے ساتھ ساتھ انھیں دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ برقی میڈیا، پرنٹ میڈیا اور فلمی صنعت ان کےخلاف تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکمران مسلسل ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔
۲۰۲۱ء کا سال بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے خوف، تشدد اور ہراسانی کاسال تھا، اور ۲۰۲۲ء کے آغاز پر ’بُلی بائی‘ کے شرمناک واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو انتہاپسندانہ حملے مذہبی اقلیتوں پر اگلےسال بھی پوری قوت سے جاری رہیں گے۔
بھارت کے مسلمان اپنے خلاف حملوں کو ہلکا نہیں لے رہے ہیں۔جب انھیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ وہ ’برائے فروخت‘ ہیں، جیساکہ نام نہاد ’نیلامی ایپ‘ میں دکھایا گیا ہے تو بہت سی مسلمان خواتین نے خوف زدہ ہونے اور دھمکیوں میں آنے سے انکارکردیا ہے۔ انھوں نے حکام پر دبائو بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج کروائی ہیں اور مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ دار افراد کو پکڑا جائے اور انھیں سزا دی جائے۔
اسی دوران مسلمان صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی ایک نئی ٹیم ملک بھر میں اسلاموفوبیا حملوں اورواقعات کے اعداد و شمار اکٹھے کررہی ہے اور سرکاری اداروں سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ حال ہی میں ہردوار سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جو کال دی گئی ہے اس کے ذمہ دار سزا سے بچ نہ سکیں۔
بھارت میں بی جے پی کے اکثریتی تشدد کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور اسے مزید بڑھنا ہے۔ مذہبی اقلیتیں اس کے خلاف آواز اُٹھارہی ہیں اس لیے کہ ان کے لیے اب خاموش رہنے کا کوئی موقع نہیں۔
بھارتی مذہبی اقلیتوں اور ان کے اتحادیوں کی اسلام مخالف اور عیسائی مخالف حملوں کے خلاف توجہ دلانے کی کوششیں اکثریتی تشدد کی لہر کو کم کرنے میں مددگارہوں گی۔ لیکن بھارت اس بحران سے نہیں نکل سکتا۔بین الاقوامی برادری کو ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہراساں کرنے اور نسل کشی کی دھمکیوں کے خلاف ایک موقف اپنانا چاہیے۔
اگر ہم ماضی کے ظلم و سفاکیت کے واقعات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بین الاقوامی برادری کی مظلوم اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد پر خاموشی نے نسل کشی کے لیے راہ ہموار کی۔ آج بہت سی وہ طاقتور اور ’جمہوریت پسند‘ قومیں جو دُنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے نمایندگی کرتی ہیں وہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کی مذمت کرنے سے پرہیز کررہی ہیں کیونکہ وہ بھارت کو چین کے خلاف ایک اہم اسٹرے ٹیجک اتحادی سمجھتی ہیں، یا ایک اہم تجارتی منڈی کہ جس پر وہ اظہارِ ناراضی نہیں کرسکتے۔
لیکن اگر دنیا کی جمہوریت پسند قومیں خاموش رہیں گی اور بھارت کو اس راستے پر چلنے کی اجازت دیں گی، تو بھارت جلدخانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، اور خانہ جنگی سے دوچار بھارت دوسرے ممالک کی مصنوعات نہ خرید سکے گا۔ اس سے خطے کے تمام ممالک اور دُنیابھر کے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس طرح اقلیتوں کے مابین تشدد دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ یہ ہولناک منظرنامہ ناگزیر ہے۔
ماضی میں بھارت میں مختلف مذہبی قومیتیں پُرامن طریقے سے رہتی رہی ہیں اور ایسا دوبارہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مگر مسلمان اورعیسائی اکثریتی تشدد کا سامنا کررہے ہیں، جس کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس چیز کا مقابلہ اتحاد، شعور اور مسلسل جدوجہد سے ممکن ہے۔ اسی طرح جمہوریت پسند عناصر اپنے ملک میں اس جذبے کے تحفظ کے لیے یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔(الجزیرہ، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء)
ایک سوال فضا میں گردش کر رہا ہے کہ ’’پاکستان نے ان بھارتی ٹرکوں کو جو واہگہ کے ذریعے افغانستان انسانی بنیادوں پرامداد لے جانا چاہتے تھے، پاکستان سے راہداری کی اجازت نہ دے کر سفارتی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ یہ ایک اچھا موقع تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کی فضا کم کرنے کا۔ جب ہم نے بھارت کو واہگہ سے ٹرک لے جانے کی اجازت نہیں دی تو وہ چاہ بہار، ایران کے ذریعے سے امدادی سامان لے کر جائے گا۔ اس طرح بھارت اور ایران کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے اور افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم ہوگا‘‘۔
بظاہر یہ سوال درست دکھائی دیتا ہے، مگر فی الحقیقت معاملہ یہ نہیں ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں جس قدر جلد ممکن ہو، اناج اور کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل امدادی سامان پہنچے کیونکہ اگر خدانخواستہ وہاں صورتِ حال خراب ہوتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں پر مزید افغان مہاجرین آئیں، اور افغانستان پھر کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو۔ اگر معاشی صورتِ حال خراب ہوتی ہے یاانسانی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس سے دہشت گردوں کو موقع ملے گا۔ لہٰذا، پاکستان کا مفاداسی میں ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال جس قدر جلد ممکن ہو، بہتر ہو۔ اسی لیے پاکستان نے دسمبر۲۰۲۱ء میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی ایک نکاتی ایجنڈے پر کی تھی، کہ کس طرح افغانستان کو انسانی بحران سے بچایا جائے؟ جو ملک بھی افغانستان کو امداد دیتا ہے یا دے گا، پاکستان اسے خوش آمدید کہتا ہے اور خوش آمدید کہتا رہے گا، چاہے وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سارے معاملے کو اس کے درست پس منظر میں دیکھناہوگا۔
اس مذکورہ امدادی مشن کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کو بہت سی مراعات بھی دینا چاہی ہیں۔ مثلاً یہ کہا کہ ’’بھارت ۵۰میٹرک ٹن گندم کی جو امداد دینا چاہتا ہے، وہ پاکستانی ٹرکوں کے ذریعے طورخم تک پہنچائی جائے‘‘، یا ’’افغانستان کے ٹرک واہگہ تک آئیں اور گندم لے کر چلے جائیں‘‘۔ بھارت نے جواب میں یہ کہا کہ ’’کیا گارنٹی ہے کہ ہم جو امداد دےرہے ہیں، وہ افغانستان میں صحیح جگہ تقسیم ہوگی؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’یہ امداد اقوام متحدہ کی نگرانی میں تقسیم کرا دی جائے گی اور اس طرح کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن بھارت نے ان معقول دلائل کا جواب دینے کے بجائے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چاہ بہار کے ذریعے ہی یہ امداد پہنچائے گا۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ اگر ہم اجازت بھی دے دیں کہ بھارتی ٹرک ہی واہگہ سے گزرتے ہوئے طورخم تک جائیں، تو اس طرح یقینا سیکڑوں بھارتی ٹرک آئیں گے۔ اگر ایسے میں پاکستان سے گزرتے ہوئے کسی ایک بھارتی ٹرک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجاتاہے، یا کوئی دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہوتا ہے، تو انسانی بحران کے خاتمے کے لیے کی جانی والی یہ کوشش، پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک بحران کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس لیےیہ خطرہ مول لینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا، حکومت پاکستان نے صحیح فیصلہ کیا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی کہ بھارتی ٹرک واہگہ سے افغانستان جائیں۔ اس طرح ہمارے لیے مزید کئی عملی مشکلات ہیں۔ بھارتی ٹرکوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پاکستان کو ان ٹرکوں کی سیکورٹی کے لیے بڑے پیمانے پر، اقدامات اُٹھانا پڑیں گے۔
ان حالات میں یہی مناسب تھا کہ بھارت اسی طرح سمندر کے ذریعے کراچی تک امدادی گندم پہنچاتا اور جس طرح سے بھارت کی دیگر برآمدات افغانستان جاتی ہیں، یا افغانستان سے ٹرک کراچی اورواہگہ پہنچ جاتے اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی افغانستان پہنچادیتے۔ مگر پاکستان اپنی سطح پر ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ بھارت میں اس وقت جو حالات ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ نفرت کاالائو بھڑکایا جارہا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت جو انسانیت سوزی کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان میں یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے کہ بھارت کے ٹرک یہاں آئیں اور بھارتی ڈرائیور انھیں چلا کر طورخم تک سکون سے لے کرجائیں۔
بھارت اس سے پہلے بھی انسانی امداد افغانستان بھجواتا رہا ہے اور وہ اس کے لیے چاہ بہار بندرگاہ کو بھی استعمال کرتا رہا ہے اور بذریعہ ہوائی جہاز بھی انسانی امداد بھجواتا رہا ہے، جس پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ وہ آج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے کہ ’’پاکستان ہمیں واہگہ کے ذریعے انسانی امداد لے جانے کی اجازت نہیں دے رہا؟‘‘ اس میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بھارت جب بھی افغانستان کے لیے انسانی امداد کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ پاکستان ہی سے کہتا ہے کہ ’’ہمیںواہگہ کے ذریعے اسے بھجوانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ بلاشبہہ یہ ایک سستا راستہ ہے، لیکن بھارت کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان مخصوص حالات اور جائز وجوہ کی بناپر اس کی اجازت نہیں دے گا۔
حکومت پاکستان نے ان تمام امکانی خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بارہا پاکستان، بھارت کو کئی بار رعایتیں دے چکا ہے اور کئی ٹھوس اقدامات بھی اُٹھائے ہیں ،لیکن ان کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلا بلکہ بھارت نے اسے پاکستان کی کمزوری ہی سمجھا اور کشمیر میں اپنی سفاکیت کو برقرار رکھا ہے، اور آج بھی ظلم و جبر کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ چلیئے اگر ہم اس مسئلے کو کشمیر کے ساتھ نہ بھی جوڑیں، لیکن ہمارے ہاں جو بے اعتمادی کی فضا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو اس قسم کا خطرہ مول لینا چاہیے۔ اب یہ بھارت کی مرضی ہے کہ وہ یہ انسانی امداد چاہ بہار کے ذریعے پہنچائے یا کراچی و واہگہ کے ذریعے بھجوائے یا ہوائی جہاز کے ذریعے بھجوائے۔ بہرحال، پاکستان نے بالکل درست اور دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔
گذشتہ دنوں حکومت ِ پاکستان نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ یہ پالیسی بنیادی طور پر فوج اور سول حکومت نے مرتب کی ہے۔ پالیسی ترجمانوں کے بقول ’’پاکستان کا بنیادی اور اصلی نصب العین ملک کی اقتصادی ترقی ہے، لیکن اس کے لیے ملکی سکیورٹی [سلامتی] اہم ترین پہلو ہے اور اندرونی اور بیرونی امن و امان کے بغیر اس کا حصول ناممکن ہے‘‘۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’یہ پالیسی عوامی مفاد کی مرکزیت پر مبنی ہوگی‘‘۔
’الجزیرہ چینل‘ نے حکومت پاکستان کے مشیر سلامتی، ڈاکٹر معید یوسف صاحب سے پوچھا کہ ’’شہریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کس طرح اس سے بہرہ مند ہوگی، جب کہ اس کا ایک حصہ عوام سے خفیہ رکھا گیا ہے؟‘‘۔ دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے،جب کہ یہ پالیسی دستاویز انگریزی میں تحریر کی گئی ہے۔ دونوں صورتوں میں عوام کی رسائی نہیں ہوگی‘‘۔ ڈاکٹر معید کے پاس ان سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ اس اعلان کردہ قومی سلامتی پالیسی سے جنوری ۲۰۲۲ء میںقوم واقف ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان، ان کے رفقائے کار اور معاونین نے اس کو ’’اپنے قومی، علاقائی اور عالمی وژن سے ہم آہنگ قرار دیا ہے اور اس میں بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے کہ ’’جنگ اور دہشت گردی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے‘‘۔ معلوم نہیں کہ یہ یقین دہانی کس کو اور کس لیے دی جارہی ہے۔
ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیاگیا ہے کہ ’’یہ بات کشمیر پالیسی سے متصادم نہیں ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر پالیسی اس سے مختلف ہوگی؟ پھر کہا گیا ہے کہ ’’قومی سلامتی پالیسی، اقتصادی ترقی اور دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کا نام ہے‘‘ یعنی دوسرے لفظوں میں وقتاً فوقتاً مسئلہ کشمیر کو بھی ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کی آزادی یا مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل کا سوال اسی سلامتی پالیسی کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور کشمیریوں کے سیاسی مقام پر پہلی ضرب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے لگائی تھی، جس نے کشمیریوں کے اختیارات کو محدود کردیا تھا،اور ہندستان اور پاکستان سے کہا تھا کہ وہ ان کو رائے شماری کا حق دیں۔ اس میں کشمیریوں کے اختیار کو سلب کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندستان نے اپنی بے پناہ فوجی طاقت بڑھا کر ریاست کے باشندگان کے لیے کشمیر کو ایک بدترین جیل میں تبدیل کردیا۔
۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں دونوں ملکوں نے معاہدے کرکے، اس کو عملاً دوطرفہ سرحدی جھگڑا بناکر رکھ دیا اور سلامتی کونسل کی رائے شماری کی قرارداد وں کو طاق نسیاں پر رکھ دیا۔ کیا ایک کروڑ سے زیادہ کشمیری انسان نہیں، بھیڑبکریاں ہیں، جن کی حفاظت محض بھیڑبکریوں کے ’چرواہوں‘ کی مرضی کی طرح کی جاتی رہے گی۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی اس اہم مرحلے پر مذکورہ بالا صحیح یا غلط تصور یا خدشے کو رفع کرنے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ حق خودارادیت اور کشمیریوں کی تاریخی فریق کی حیثیت کا اس دستاویز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ اس قوم کو حق خودارادیت بے کم و کاست دیا جائے۔ حق خود ارادیت کا انعقاد تمام مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ اس کی پرانی سرحدوں کو بحال اور فعال کیا جائے اور کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہ کیا جائے۔
اگر ہندستان اور پاکستان اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں یا اگر ہندستان کے سامراجی عزائم اس راہ میں حائل ہیں، تو کشمیریوں کے ساتھ مشاورت کرکے قابل عمل لائحہ عمل تلاش کیا جائے، لیکن کسی بھی قیمت پر کشمیریوں کو برہمنی سامراج کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے۔ کشمیری ہی سر زمین کشمیر کے مالک ہیں، کوئی ان کو فروخت نہیں کرسکتااور نہ تقسیم کر سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کشمیریوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے اور ان کے مطالبۂ آزادی میں شدت پیدا ہورہی ہے۔
پاکستان بجاطور پر ابتدا سے ہی حق خودارادیت اور رائے شماری کا ترجمان اور عالمی وکیل رہا ہے۔ اس لیے قومی سلامتی پالیسی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ذکر نہ ہونا حیران کن بھی ہے اور سخت خطرناک بھی۔ ایسی شکل میں اس کو قومی سلامتی پالیسی کا نام دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ پاکستان کو کس سے خطرہ ہے؟ ہندستان سے خطرہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی سب سے بڑی بنیاد مسئلہ کشمیر نہیں ہے؟
ہندستان نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے کشمیر میں جو جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے ، اس کا کوئی عکس اس قومی سلامتی پالیسی میں نہیں دکھائی دیتا۔ پاکستان اقتصادی ترقی کو بظاہر اس پالیسی کے ذریعے سے آگے بڑھانا چاہتاہے، لیکن بھارت، کشمیر میں عالمی سطح پر ایسے دُور رس اقدامات کر رہا ہے، جن سے پاکستان کی معاشی پالیسی کے دھندلانے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہندستان کشمیر ی عوام کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت پر ضرب لگا رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ کشمیریوں میں ایسی ذہنی اور فکری قوت ہے کہ وہ از خود اپنی صلاحیتوں سے کشمیر میں تعلیم، صحت اور تجارت و صنعت و حرفت کے بڑے بڑے ادارے قائم کرسکتے ہیں۔
ہندستان، اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے کشمیرکے مسئلے پر پاکستان کو نقصان پہنچانے اور مات دینے میں سرگرم ہے، لیکن پاکستان کی سلامتی پالیسی دستاویز، بھارتی حکمت کاری کا ادراک کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ملک کی قومی سلامتی پالیسی بنانے والوں کا فرض ہے کہ وہ ان سوالات کو نظرانداز نہ کریں اور کشمیری قوم کے کرب اور مسائل اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ ہندستان نے ۵؍ اگست کے اقدامات سے جموں و کشمیر کی وحدت مٹانے کی احمقانہ کو شش کی ہے اور تاریخ کے اوراق جلائے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کئی اجلاس بھی اس صورتِ حال کو مضحکہ خیز بنانے میں بھارتی طرف داری کا کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان تاریخ کے ان سوختہ اوراق کو اپنی قومی پالیسی دستاویز میں شمار نہیں کرتی، تو جان لیجیے اس کا بہت منفی پیغام عوام تک پہنچے گا۔ پھر کشمیری قوم کو اپنی تاریخ آپ لکھنے سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکے گا۔
صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے، جب بھی کسی دوسرے شہر یا ملک میں پہلی بار جانا ہو، تو اس علاقے کا پریس کلب ہی پہلی منزل ہوتا ہے۔ خبر وہاں سے ملے یا نہ ملے، مگر رابطہ، رہبری یا کم از کم خبر نگاری کے لیے رسی کا سرا ہاتھ میں آ ہی جاتا ہے۔اس جگہ کوئی نہ کوئی مقامی صحافی رضاکارانہ طور پر آپ کو بریف کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی یہ آپ کی اپنی پیشہ ورانہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ کس طرح اس خبر یا ایشو کو پرکھتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔
۲۰۱۸ء سے قبل جب کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پریس کلب موجود نہیں تھا۔ اس لیے دورے پر آئے صحافیوں کے لیے لال چوک سے متصل بی بی سی اور دی ٹیلی گراف جیسے معروف میڈیا اداروں سے وابستہ سینیر صحافی یوسف جمیل کا یہ دفتر پہلا پڑاؤ ہوتا تھا۔ ۹۰ کے عشرے میں چونکہ وادیِ کشمیر کے حالات مخدوش تھے، وہ اس دومنزلہ کوارٹر کی دوسری منزل میں قیام پذیر تھے، جب کہ پہلی منزل میں ان کا دفتر، ڈرائنگ روم اور کچن تھا۔ مغربی ممالک اور دہلی سے آئے صحافیوں کا ایک جم غفیر وہاں موجود ہوتا تھا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود ، حلم، بُردباری اور آداب میزبانی نبھانا، جمیل صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ میں نے چونکہ صحافت کی تعلیم اور ملازمت دہلی سے شروع کی تھی، اس لیے رپورٹنگ یا چھٹیاں منانے کے لیے سال میں ایک دو بار سرینگر وارد ہوتا تو جمیل صاحب سے ملاقات لازماً ہوتی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور رہنمائی کرتے۔اسی طرح دوسرا ٹھکانہ جہاں باہر سے آئے صحافی دروازہ کھٹکھٹا تے تھے، وہ انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کا سرینگر کا بیورو ہوتا تھا۔ اس کا دفتر بھی اسی لین میں تھا۔
اخبار ان دنوں صرف جموں سے شائع ہوتا تھا، مگر سرینگر میں اس کا بیورو ظفر معراج کی سربراہی میں خبروں کا سرچشمہ تھا۔ کشمیر میں دہلی سے شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس اور جموں سے شائع ہونے واے کشمیر ٹائمز کی دھوم تھی۔ ارون شوری کی ادارت میں انڈین ایکسپریس نے تفتیشی صحافت میں خاصا نام کمایا تھا اور آئے دن اس وقت کی کانگریسی حکومت اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف ان کے پاس کوئی نہ کوئی اسٹوری ہوتی تھی۔ ظفر معراج بھی ایک طرح سے جموں و کشمیر کے ارون شوری تھے۔ ان کی تفتیشی صحافت کاری نے تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا۔
بات ہو رہی تھی سرینگر پریس کلب کی۔کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ۲۰۱۸ء کے بعد کشمیر پریس کلب کی صورت میں خطے کے صحافیوں کو ایک آواز ملی تھی۔ یہ واحد صدا تھی، جو صحافیوں کی زندگی کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔اگرچہ پوری دنیا میں ہی اس وقت صحافت بحران کا شکار ہے، مگر کشمیر میں یہ کن حالا ت کا شکار ہے، اس کا ہلکا سا اندازہ سرینگر سے شائع ہونے والے مختلف اخباروں کے اداریوں اور ادارتی صفحات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ایک آزمودہ فارمولہ جس میں پہلے اداروں کی شبیہ داغ دار کی جاتی ہے اور پھر ان کو متنازعہ بتایا جاتا ہے، اس کا استعمال کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ پریس کلب کو دھوکے اور فریب کے ذریعے بند کر ادیا گیا۔ یہ ادارہ نہ صرف صحافیوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، بلکہ باہر سے دورہ پر آئے صحافیوں کے لیے بھی پہلا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ فری لانس یا جو پیشہ ور صحافی، جن کے ادراوں کے سرینگر میں دفاتر نہیں ہیں، ان کے لیے کلب اور اس کے ذریعے پیش کی جانے والی سہولیات کسی نعمت سے کم نہیں تھیں۔
سرینگر میں پریس کلب کا قیام ۲۰۱۸ء میں ایک طویل جدوجہد کے بعد عمل میں آیا تھا۔ حکومت نے پریس انکلیو اور لال چوک سے ذرا فاصلے پر ایک سرکاری ادارے کی خالی کی ہوئی بلڈنگ میں پریس کلب بنانے کی پیش کش کی تھی۔ جس کے بعد باضابطہ انتخابات کے بعد انتظامیہ تشکیل دی گئی، جو ایک عرصہ قبل اپنی انتظامی مدت مکمل کر چکی تھی۔ مگر چونکہ ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کے قوانین تبدیل کر دیئے گئے، اس لیے کلب کو نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کرنے کے لیے کہا گیا۔
جولائی ۲۰۲۱ءکو کلب نے رجسٹریشن کی درخواست دی، اور چھے ماہ بعد دسمبر میں اس کی منظوری آگئی، جس کے بعد فروری میں نئی انتظامیہ کی تشکیل کے لیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا گیا۔اس کے فوراً بعد بتایا گیا کہ ’’کلب کی انتظامیہ کے خلاف انٹیلی جنس کی منفی رپورٹوں کی وجہ سے رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ مگر صحافیوں کے ایک گروپ نے ریاستی پولیس کی قیادت میں، جب کورونا وائرس کی وجہ سے پابندیاں نافذ تھیں، بلڈنگ پر قبضہ کرکے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا اعلان کردیا۔ حالانکہ اس قبضے سے قبل پریس کلب کے اگلے انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر نے ۲۰۱۸ء میں اس کلب کےقیام کے وقت دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا‘ کے ذمہ داروں کو باور کرانے کی کوشش کی، کہ ’’کشمیر کے پریس کلب کو انتخابات کے بغیر ہی تسلیم کرلیا جائے کیونکہ انتخابات کی صورت میں ’علیحدگی پسند گروپ‘ کلب پر قبضہ کرسکتا ہے۔ کشمیر میں تو ویسے صحافیوں کی کئی تنظیمیں ہیں، مگر یہ واحد جگہ تھی، جو سبھی کی مشترکہ وراثت تھی اور سبھی اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اس قضیہ کے اگلے ہی دن، جب پریس کلب آف انڈیا سے لے کر دیگر صحافتی انجمنوں نے انتخابات سے قبل اس طرح کے قبضے پراعتراض کیا، تو حکومت نے کلب کو ہی تحلیل کرکے بلڈنگ کو اپنی تحویل میںلے لیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ ’’صحافیوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے اور اس سے قانون و نظم کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘‘۔
کشمیر میں صحافیوں کے لیے عملی صحافت کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔اس خطے میں ۱۹۹۰ءسے لے کر اب تک ۱۹صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی کڑی کے طور پر ۲۰۱۸ء میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سُلایاگیا۔آصف سلطان تو ۲۰۱۸ءسے ہی جیل میں ہیں۔ اب حال ہی میں نوجوان صحافی سجاد گل کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے قبل فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بدنامِ زمانہ ’یوایل پی اے‘ (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت گرفتار کرکے چھے ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیاتھا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔
پچھلے تین برسوں میں کم از کم ۱۲صحافیوں کو پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ جبراً لاپتا کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو۱۹۸۹ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمدصادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ تکبیر میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ۱۹۹۰ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ’ٹاڈا‘(TADA) قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ۲۰۱۰ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموں گریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمز کے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔
اگر دنیامیں کسی بھی صحافت کے طالب علم کو یہ مطالعہ کرنا ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اس کی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اس کو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعے میں ضرور لانا چاہیے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ’’چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لیے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے‘‘۔ حتیٰ کہ پرائیویٹ سیکٹر اور کاروباریوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دُور رہیں۔سابق وزیرداخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادیِ اظہار پر قد غن لگانے پر خوب تنقید کرتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراساں کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھی کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے بے باکانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتہ میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل کسی بھی صورت نئی دہلی کو ہضم نہیں ہوتے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ ۲۰۱۵ء میںاس ادارہ کو سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑے اور سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ ۔
ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ مقبول کھوکھرکو ۲۰۰۴ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا، جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم ’سیفما‘ کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائی کورٹ نے حکومت سے دومرتبہ کہا کہ مقبول کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں‘‘۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اخبار کے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہایش گاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سرعام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
کشمیر میں صحافت پریس کلب کے بغیر ۲۰۱۸ء سے قبل بھی کام کرتی تھی۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاید ہی کوئی فرق پڑے گا۔ مگر جس طرح اس کو نشانہ بنایا گیا، وہ دیگر جگہوں پر پریس پر قد غن لگانے کا ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ’پریس کلب آف انڈیا ‘کی طرح بھارت کے دیگر شہروں میں بھی کلبوں کی بلڈنگیں ، حکومت نے ہی عاریتاً دی ہوئی ہیں۔سرینگر کی طرح اب وہ کسی بھی وقت ان کو واپس لے کر پریس کلب کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا سامان کرسکتی ہے۔
گذشتہ سال فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے بدترین سال تھا۔ اس لیے کہ ۲۰۱۴ء میں جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا تھا اور۲ہزار ۳سو۱۰ فلسطینیوں کو ہلاک کیا تھا، اس سے بڑھ کر اس سال مظالم ڈھائے گئے ہیں اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسیلم‘ (B'Tselem) نے اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھولنے کی وجہ سے ’بتسیلم‘ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دینا چاہتا ہے۔
۲۰۲۱ء میں، اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں ۳۱۳ فلسطینیوں کو شہید کیا، جب کہ ۸۹۵ فلسطینیوں کے گھر اسرائیلی فوجیوں نے گرا دیئے اور مسلح اسرائیلی آبادکار، فلسطینیوں کے گھروں کو گرانے کے لیے امریکی ساختہ کیٹرپلر بلڈوزر استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے لیے خود کو ’سراہنے‘ کے لیے یہ ناکافی ہے۔
اسی دوران ایما واٹسن ایک برطانوی اداکارہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں ایک پوسٹ پہ بہت سے اسرائیلی مشتعل ہیں، جس پر لکھا ہے: Solidarity is a Verb ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے ترجمان گیلاڈاردن نے اس پر کہا ہے کہ واٹسن کا پیغام اس کی فلموں کی طرح محض ایک ’افسانہ‘ ہے۔ اقوام متحدہ میں سابق اسرائیلی سفارت کار ڈینی ڈینن نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واٹسن کو یہودیوں کی دشمن قرار دے دیا۔
جب بھی اسرائیلی کسی فلسطینی شہری کو قتل کرتے ہیں تو اس کا جرم ثابت کرنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہیں، بلکہ وہ عوام کو اشتعال دلانے کے لیے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں یا ان پر الزام دھر دیتے ہیں کہ وہ یہودیت کے مخالف ہیں۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ عوام کو اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ کون ’یہودی مخالف‘ ہے، بجائے اس کے کہ کون قاتل ہے اور کون بے گناہ شہریوں کی جان لیتا ہے۔
اسرائیل کی حقائق کے خلاف پروپیگنڈا جنگ کی سب سے زیادہ زد اموات کی تفصیل پر پڑتی ہے۔ وہ ۳۱۳ فلسطینی جو اسرائیلی سیکورٹی افواج کے ہاتھوں مارے گئے، ان میں ۷۱ بچّے تھے۔ اسرائیلیوں نے غزہ میں ۲۳۶، مقبوضہ مغربی کنارے میں ۷۷ فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ جہاں پر اسرائیلی، عیسائی اور مسلمان فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً وہ تمام فلسطینی جو مغربی کنارے میں مارے گئے ہیں، ان میں سے بیش تر کو مسلح اسرائیلی آبادکاروں نے مارا ہے۔ انھوں نے پہلے تصادم کا آغاز کیا، اور پھر اسرائیلی مسلح افواج نے ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ حکومتی سطح پر انھیں فنڈز دیئے جاتے ہیں، تاکہ وہ مزید گھر تعمیر کرسکیں۔ انھیں تفریحی سہولیات اور روز مرہ اشیاء کی خریداری کے لیے مراعات دی جاتی ہیں اور اس کا بڑا حصہ ۳ء۳ ؍ارب ڈالر امریکی امداد میں سے دیا جاتا ہے۔
’بتسیلم‘ کی تحقیقی رپورٹ‘ اسرائیلی سفاکیت کا شکار ہونےوالوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے۔ حد یہ ہے کہ یہ وہ معلومات ہیں جو اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں بہت کم جگہ پاتی ہیں۔ اسرائیلی یا امریکی میڈیا میں یہ خبر صرف اسی وقت جگہ پاتی ہے، جب کبھی کبھار کوئی یہودی اس کا نشانہ بنے۔ اس وقت میڈیا برہمی کا اظہار کرتا ہے، مگر ایسے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، حتیٰ کہ گھروں کو گرانے کی خبریں بھی کم جگہ پاتی ہیں، جس پر اسرائیل آہستگی اور تسلسل سے عمل پیرا ہے، اور فلسطینی علاقوں کو اپنے اندر ضم کرتا چلا جارہا ہے۔
’بتسیلم رپورٹ‘ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ۸۹۵ فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا گیا، جب کہ ۲۹۵ گھروں کو گرا دیا گیا۔ ۲۰۱۶ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جب ایک گھر تباہ کیا جاتا ہے تو خاندان کو بے گھر کر دیا جاتا ہے، اور پھر اسرائیلی فوج انھیں ہراساں کرتی ہے، اور اکثر انھیں نہ صرف اپنے ٹائون سے بھاگ جانے بلکہ ملک تک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمایندہ ڈینی ڈینن یہ پوری طرح جانتا ہے کہ جن فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا، ان میں ۴۶۳ یعنی نصف سے زائد تعداد بچوں کی تھی۔اس سب کے باوجود ۲۹۵گھر تباہ اور ۸۹۵ ؍افراد کو بے گھر کرکے گلیوں میں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ غیر رہایشی ۵۴۸ عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا گیا، جن میں پانی کی ٹینکیاں، کنویں، گودام، زرعی فارم ہائوس، تجارتی عمارتیںاور فلسطینی پبلک مقامات شامل ہیں۔ ۲۰۱۲ء کے بعد یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر جلتی آگ کی گولیاں برسانا انصاف کے خلاف نہیں، حتیٰ کہ ایک موقع پر جب ایک نوجوان فلسطینی جو غزہ پر تعمیر کی جانے والی باڑ کے ’بہت قریب‘ تھا اور پرندوں کا شکار کر رہا تھا، اس آگ کا نشانہ بننے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوگیا۔
مجھے یقین ہے کہ ’بتسلیم‘ جیسی اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم پر اسرائیل پابندی لگا کر دفن کرنا چاہتا ہے۔ دراصل امریکی میڈیا، اسرائیل کو کسی پیچیدگی سے دوچار نہیں کرنا چاہتا اور نہ اپنے آپ کو اخلاقیات، تہذیب اور انسانی ناشائستگی سے چشم پوشی کی وجہ سے کسی پیچیدگی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔
کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ امریکا کے ایک معروف اخبار نیویارک ٹائمز میں شہ سرخی شائع ہوتی ہے کہ ’’اسرائیل نے ۳۱۳ فلسطینی ہلاک کر دیئے‘‘ اور ذیلی سرخی میں ایما واٹسن کو صرف اس بات پر کہ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا بھی احترام کیا جائے ’یہودی مخالف‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ کیا ’سامی مخالف‘ اصطلاح اب کوئی مفہوم رکھتی ہے؟ یا اسرائیلی پروپیگنڈا اور اشتعال کی بناپر یہ اپنی اہمیت کھو چکی ہے؟
۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا افغانستان میں موسم کی شدت، گھروں کی تباہ حالی، قحط کی کیفیت اور بیماریوں کے حملے جیسی صورتِ حال کے پیش نظر وزائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا۔ اس طرح کے ہنگامی اجلاسوں میں تمام وزرائے خارجہ شرکت نہیں کر پاتے، لیکن اس اجلاس میں ۲۲وزرائے خارجہ نے شرکت کی جو ایک مناسب تعداد تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے وزرائے مملکت بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور کامیاب اجلاس رہا۔
اجلاس میں بہت سے اہم نکات زیربحث آئے اور متوازی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ اجلاس کے بعد افغانستان پر ایک قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن بھی جاری ہوا۔
افغانستان میں ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ افغان اس وقت قحط کا شکار ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اس انسانی بحران کو حل کرنے کےلیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا۔ اس طرح یہ کانفرنس بنیادی طور پر ایک نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھی۔
اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن جاری ہوا ہے، اس کے دو حصے ہیں۔ عام طور پر اس قسم کی قراردادوں کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک ابتدائیہ (Preamble) اور دوسرا عملی حصہ (Operative Part)۔ ابتدائیے میں سابقہ قراردادوں اور مختلف حوالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ عملی حصہ میں لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کن چیزوں پر عمل درآمد ہوگا۔ کسی بھی قرارداد کا یہی بنیادی اور جوہری (substantive) حصہ ہوتا ہے۔
اس کانفرنس میں افغان طالبان حکومت کا وفد بھی شریک تھا اور قائم مقام وزیرخارجہ امیرمتقی نے اس وفدکی قیادت کی۔ انھوں نے اس اجلاس میں ایک گھنٹے کی مفصل تقریر کی اور یہ بتایا کہ ہمارا کیا منصوبہ ہے اور ہم کس طرح آگے بڑھیں گے؟
قرارداد کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں صرف افغانستان کا نام لیا گیا ہے۔ کہیں بھی ’امارت اسلامیہ‘ یا ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ او آئی سی نے حددرجہ محتاط رویہ اپنایا ہے، اور او آئی سی میں ابھی تک طالبان حکومت یا امریکی پشت پناہی میں ختم ہونے والی حکومت کے بعد کی صورتِ حال کو تسلیم کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ خاص طور پر تاجکستان جہاں اب تک افغان طالبان کی اپوزیشن کے بہت سے لوگ جن کا سابق حکومت سے تعلق تھا، وہاں موجود ہیں۔ طالبان افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کہتے ہیں، جب کہ سابق حکومت کے لوگ اپنی حکومت کو ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کہتے تھے۔ اس لیے مسلم وزرائے خارجہ نے بیچ کا راستہ نکالا اور صرف افغانستان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
قرارداد میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراراد ۲۵۹۳ جو ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء میں منظور ہوئی تھی، کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس قرارداد کی یہ ایک اہم بات ہے کہ اس میں سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا، جب کہ یہ سلامتی کونسل کی افغانستان پر آخری قرارداد تھی۔یادرہے اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا اور اس نے کوشش کر کے وہ قرارداد منظور کروائی تھی۔ تاہم، اس میں طالبان کا نام لیے بغیر ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’’وہاں وسیع حکومت (Inclusive) ہونی چاہیے۔ حکومت میں دیگر علاقائی قومیتوں کی نمایندگی بھی ہونی چاہیے‘‘۔
اسی طرح اس قرارداد میں کہیں بھی ’افغان حکومت‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ صرف ایک پیراگراف میں ’افغان اتھارٹیز‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس قرارداد کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔
کانفرنس میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں افغانستان کے لیے ایک ’ہیومن ٹیرین ٹرسٹ فنڈ‘ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک (IDB) میں قائم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اس فنڈ کے لیے ایک ارب ریال کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ۳۰ملین ڈالر کی امداد پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مسلم ملک نے اس فنڈ میں مالی امداد کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبر کس طرح سے اس فنڈ میں حصہ ڈالتے ہیں؟
اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے‘‘۔ اس قرارداد میں اس بات کا احساس بھی موجود ہے کہ صرف ’انسانی ہمدردی‘ کے تذکرے اور معاونت سے کام نہیں چلے گا بلکہ جو معاشی تباہ حالی (economic meltdown ) روز افزوں ہے، اس کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے دوماہ میں انسانی بحران کی صورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے گی۔ لیکن جب تک معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہوتی ہیں، یہ معاشی بحران جاری رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کا نظامِ بنکاری اور فنانس کا نظام جو بالکل بیٹھ چکا ہے اس کو بحال کیا جائے۔ اس کے لیے مغربی ممالک اور امریکا کی معاونت بہت ضروری ہے۔ اس اجلاس میں امریکا اور یورپی ممالک کے نمایندے بھی موجود تھے۔
او آئی سی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ’رابطہ گروپ‘ کے بجائے افغانستان کا ’خصوصی نمایندہ‘ مقرر کیا جائے۔ وہ نمایندہ او آئی سی کے ساتھ مل کر افغان اُمور کو دیکھے، اور اس مقصد کے لیے او آئی سی کے موجودہ سیکرٹری جنرل حسین براہیم طٰہٰ کو خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ انھیں او آئی سی کے اگلے اجلاس میں جو مارچ ۲۰۲۲ء میں اسلام آباد میں ہونا ہے، اس کی رپورٹ پیش کرنا ہے۔
یہ تمام باتیں اہم اور مفید ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان پر پیش رفت کس طرح سے ہوتی ہے؟
اس کانفرنس میں افغانستان کاوفدتو شامل تھا لیکن گروپ فوٹو کے موقعے پر اس وفد کے نمایندے کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایسی چھوٹی باتیں بعض ممالک کے لیے بہت حساس بن جاتی ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی پیش نظر رہے کہ نئی دہلی میں تیسرا سالانہ سنٹرل ایشیا ری پبلکس کا اجلاس ہوا جس میں پانچ ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس کے بعد بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۵۹۳ کا باقاعدہ ذکر ہوا اور ’افغانستان میں وسیع حکومت‘ پر زور دیا گیا۔ ’دہشت گردی‘ کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔
بلاشبہہ او آئی سی کی قرارداد میں بھی دہشت گردی کی بات ہوئی ہے اور داعش کا ذکر ہوا ہے، آئی ایس خراسان، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور ای ٹی آئی ایم کا تذکرہ ہے، لیکن ازبکستان اسلامی موومنٹ کا نام قرارداد میں نظر نہیں آیا۔ جو قرارداد دہلی میں جاری ہوئی، اس میں افغانستان پر صرف دوپیراگراف ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان سے دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’چاہ بہاربندرگاہ میں بہشتی ٹرمینل جو بھارت نے بنایا ہے اس کو بھی افغانستان میں انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کو بھی اس بندرگاہ کے ذریعے فروغ دیا جائے گا‘‘۔
اسلام آباد کانفرنس میں فلسطین پر الگ سے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس اعلامیے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ بلاشبہہ فلسطین پر ہمارا ایک اصولی موقف ہے۔ تاہم، یہ اجلاس تو صرف افغانستان کی صورتِ حال کے لیے مختص تھا تو فلسطین پر اعلامیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر اگر فلسطین کو اعلامیہ میں شامل کیا جاسکتا تھا تو کشمیر کا بھی اعلامیہ میں تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وزارائے خارجہ نے یہ گریز پائی کیوںا ختیار کی؟معاملہ یہ ہے کہ کچھ طاقت ور مسلم ممالک نہیں چاہتے کہ بھارت کے خلاف کوئی پوزیشن لی جائے۔ بلاشبہہ اس موقع پر اس اعلامیے کی ضرورت نہیں تھی۔ فلسطین پر ہمارا واضح اور پختہ اصولی موقف ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر پر او آئی سی میں اختلافات کو اس اعلامیہ نے مزید نمایاں کرکے دشمن ملک کے لیے سہولت پیدا کی ہے۔
او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے پیش نظر امریکا، طالبان کے معاملے کو سیاست سے الگ کرکے دیکھے‘‘۔
امرواقعہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں معاملات کو اس طرح سے الگ نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کہ انسانی بحران اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ انسانی بحران کو امکانات اور مفادات کے ایک موقعے کے طور پر لیتے ہیں اور اس میں اپنے لیے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا بھی یہی کر رہا ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے افغانستان سے نکل گیا۔ ماضی میں بھی کچھ اسی طرح ہوا۔ دسمبر۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین منہدم ہوا، تو امریکا اس خطے سے ہٹ گیا اور پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا کہ وہ ان معاملات کا خود سامنا کرے، خواہ مہاجرین کا معاملہ ہو، یا منشیات کا معاملہ، یا دہشت گردی کا معاملہ۔
آج امریکا نے افغانستان کے فنڈز روکے ہوئے ہیں اور افغانستان کو تسلیم نہیں کرتا تو اس طرح ایک طرف وہ طالبان پر دبائو بڑھانا چاہتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس معاملے میں پاکستان کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ سچی بات ہے کہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین اور روس کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اگر افغانستان میں صورتِ حال بگڑتی ہے تو لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔ یوں اس خطے کو مسلسل جنگی دبائو سے دوچار کرکے، معاشی ترقی اور امن کا راستہ روکنا امریکی مفادات کا ہدف دکھائی دیتا ہے۔
طالبان کی کوشش ہے کہ اس صورتِ حال میں ان کو تسلیم کرلیا جائے۔ مغربی دُنیا اس بات کو تو تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں انسانی حقوق کا مسئلہ بناکر وہ گریز کا راستہ بھی اختیار کرتی ہے۔
اب اگر او آئی سی سے وابستہ ممالک کو ہی دیکھا جائے تو وہاں کون سی جمہوریت ہے، وہاں کون سی تمام عناصر پر مشتمل مشترکہ حکومتیں ہیں یا وہاں پر مغربی ’’تصورات و معیارات‘‘ کے مطابق خواتین کے حقوق کی کون سی پاس داری کی جاتی ہے؟
اسی طرح طالبان کے آنے سے پہلے افغانستان میں کون سی جمہوریت تھی؟ انتخابات میں صرف ۲۰ فی صد ووٹ ڈالے جاتے تھے اور ان میں سے ۱۰ فی صد اشرف غنی کو اور ۱۰ فی صد عبداللہ عبداللہ کو مل جاتے تھے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا، جب ملک کے دو صدر تھے۔
دُنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان کے لیے وسیع حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رشید دوستم، یونس قانونی اور امرصالح وغیرہ کو وہ اپنی حکومت میں شامل کرلیں گے۔ یہ بات تو کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ تاہم، طالبان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت میں مختلف علاقائی قومیّتوں اور طبقوں کو نمایندگی دیں۔ مثال کے طور پر وہ تاجک اور ہزارہ قومیّتوں کے نمایندوں کو حکومت میں شامل کریں۔ خواہ ان کی معروف قیادت کو نہ لیں، لیکن ٹیکنوکریٹس کو اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے کچھ فائدہ بھی اُٹھا سکیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ عبداللہ عبداللہ کو کچھ پیش کش کرتے ہیں تو کیا وہ طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ اگر وہ ان جیسے لوگوں کو شامل کریں گے، تو معاملہ پھر وہیں آکر رُک جائے گا اور حکومت چل نہیں پائے گی۔ اسی طرح طالبان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے کہ طالبان فی الحال ایک سیاسی جماعت نہیں ہیں، لیکن جب تک یہ عبوری نظام موجود ہے یا ’’لویہ جرگہ‘‘ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک طالبان کو دوسری قومیّتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ طالبان قیادت میں پشتون کی اکثریت ہے اور حکومت بھی زیادہ تر پشتون کی نمایندگی کررہی ہے، لہٰذا طالبان کو اس سلسلے میں لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا اور کچھ لچک دکھانا ہوگی۔
اسی طرح خواتین کا مسئلہ مغربی دُنیا نے اپنے تصورات کے مطابق بہت مبالغہ آمیز طریقے سے اُٹھا رکھا ہے، مگر بہرحال افغان معاشرت میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ دین اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرشخص کو لکھنے، پڑھنے اور کام کرنے کا حق ہے، البتہ طریق کار مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم، افغانستان میں لڑکیاں اسکول اور کالج جارہی ہیں، اور اس چیز کو بے جا طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بہرحال ان معاملات کو آگے بڑھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔
’انسانی حقوق اور وسیع تر حکومت کی باتیں‘ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کی جارہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا، بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کو سیاست سے جدا رکھے گا۔ وہ پاکستان، چین اور طالبان کو بھی دبائو میں رکھے گا۔جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ’’انسانی بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر بین الاقوامی امداد کو سیاست سے الگ رکھا جائے‘‘، وہ یہ بات ایک خیالی دُنیا میں کرتے ہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔
امریکا اس خطے سے عسکری طور پر گیا ہے، مگر اپنے معاشی، عسکری اور تزویراتی مفادات کے لیے وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور اُٹھائے رکھے گا۔ جس میں ہمارے لیے دانش مندی سے راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ محض بیانات کے زور پر ٹکرانا مناسب نہیں ہوگا۔