انسان میں فطری طور پر تین قسم کی خواہشات پائی جاتی ہیں: ۱- کھانے پینے کی خواہش ۲-جنسی تعلق سے رغبت ۳- راحت و آرام کی طلب۔ اب اگر ان تینوں خواہشات کو بے قید آزادی دے دی جائے تو عیش پرستانہ زندگی میں انسان کا مبتلا ہو جانا یقینی ہے۔ اور اگر ان کو دبانے یا کچلنے کی کوشش کی جائے تو انسانیت کی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں مفلوج ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسلام نے افراط و تفریط کی ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال کی راہ پیش کی ہے۔ یہ اعتدال پیدا کرنا رمضان المبارک کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو) سے واضح کیا ہے۔
روزے کی حالت میں دن بھر ایک مسلمان بھوک کی شدت، پیاس کی تیزی اور جنسی خواہش کے ہیجان کو قابو میں رکھتے ہوئے خواہش نمبر۱ اور نمبر۲ کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ افطار کے بعد تھکا ماندہ جسم آرام کاطالب ہوتا ہے، لیکن مؤذن کے بلاوے پر نہ صرف یہ کہ فرض و سنت ادا کرتا ہے بلکہ نمازِ تراویح بھی ادا کرتا ہے۔اس طویل عبادت کے بعد انسان آرام کے لیے لیٹتا ہے اور صبح تک راحت و سکون کی طلب اس میں پائی جاتی ہے لیکن ان ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں خلافِ معمول پھر اسے رات کے آخری حصے میں سحری کے لیے اُٹھنا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کا جسم عیش و عشرت اور سکون، راحت کا دلدادہ ہونے کے بجاے مشقت اور جفاکشی کا عادی ہوجاتاہے اور اس کی تیسری خواہش بھی بے قید آزادی کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہے۔
روزے سے جس توازن اور عدل کی شاہراہ پر انسان کا قدم اُٹھتا ہے،و ہی اسے تقویٰ کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ اِعْدِلُوْا ط ھُوَ اَقْرَبُ لِلْتَّقْویٰ (المائدہ ۵:۸)’’عدل کی راہ اختیار کرو وہ تقویٰ سے قریب تر ہے‘‘۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اعتدال و میانہ روی کی یہ کیفیت وہ ہے جس کی بنا پر انسان تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوکر اپنے رب کا قرب اور اس کی بے پایاں رحمت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ بس یہی رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے۔
رمضان کا مبارک اور مقدس مہینہ جن خصوصیات اور محاسن کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہاں ان میں سے صرف چند اہم اور نمایاں خصوصیات اور تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے ہوئے ان کے نتائج و ثمرات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
۱- باطنی، یعنی قلبی کیفیات اور اندرونی حالات میں انقلاب و تبدیلی پیدا کی جائے۔
۲- ظاہری، یعنی بیرونی دبائو اور تحریری قوانین کے ذریعے برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو نشوونما دینے کی کوشش کی جائے۔
اسلام نے یہ دونوں طریقے اختیار کیے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے: سنو! جسم میں ایک گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگروہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارے جسم میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ فرمایا: یہ لوتھڑا دل ہے‘‘ (مشکوٰۃ، ج ۱،ص ۲۴۱)۔ قلبی کیفیات کو بدلنے اور پاکیزہ میلانات پیدا کرنے کے لیے نماز کے بعد اگرکسی عبادت کا مقام ہوسکتا ہے تو وہ روزہ ہے۔
ظاہر ہے کہ جب مقامِ محبت حاصل ہوجائے تو پھر عبادت و اطاعت کی مٹھاس بھی دوچند ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ قرآن میں ارشاد ہے: وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵)، یعنی اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت کی نعمت تمھیں بخشی ہے اس پر تم اس کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم (احسانات کا) شکر ادا کرو۔ اسی جذبۂ شکر کو اُبھارنے کے لیے ایک حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے کمتر ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم ان نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو گے جواللہ تعالیٰ نے تمھیں عطا فرمائی ہیں۔ (بخاری، مسلم، مشکٰوۃ)
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ، ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی (ابوداؤد، مشکوٰۃ، ج۱،ص ۷۵) اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، اورتیرے دیے ہوئے رزق پر میں نے افطار کیا، پیاس بجھ گئیں، رگیں تر ہوگئیں، اور خدا کے ہاں اجر ثابت ہوگیا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دعا میں بھی اعترافِ نعمت اور جذبۂ شکر اُبھارنے کی نمایاں طور پر تربیت دی گئی ہے۔
قیام اللیل سے نفس کی تربیت جس طرح ہوتی ہے، اس کی وضاحت اس انداز سے کی گئی ہے: اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا (المزمل ۷۳:۶) ’’بلاشبہہ رات کا اُٹھنا نفس کو کچلنے اور بات کے درست ہونے کے لیے زیادہ سازگار ہے‘‘۔ رات کے آخری حصہ میں نرم گرم بستر چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لیے اُٹھنا نفس پر انتہائی شاق گزرتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصے کی اس پُرسکون فضا میں اپنے رب سے مناجات اور سرگوشی کرنے میں جو لطف حاصل ہوسکتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی دن کے ہنگامہ پرور اوقات میں میسر نہیں آسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو دوسرے مہینے کی نسبت رمضان میں شب بیداری کا خصوصی طور پر اہتمام فرمایا کرتے تھے لیکن آخری عشرے میں آپ کی جدوجہد اور بھی زیادہ تیز ہوجاتی تھی جیساکہ حدیث میں ہے: ’’جب (آخری) عشرہ شروع ہوتا تو اپنی کمر کس لیتے، رات کو جاگ کر گزارتے اور گھر والوں کو بھی بیدار کرتے‘‘۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کو پوری تیزی کے ساتھ بے سمجھے بوجھے تراویح میں پڑھ لیا جائے۔ قرآنِ مجید کا حق صحیح معنی میں اس وقت ادا ہوسکتا ہے جب اس کے نزول کے مقاصد پیشِ نظر رکھے جائیں:
۱- لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۶) ہم نے قرآن کو اُتارا ہے تاکہ اُسے آپ ٹھیر ٹھیر کر اطمینان سے پڑھیں۔
۲- کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا (صٓ ۳۸:۲۹) ہم نے برکت والی کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غوروفکر کریں اور تدبر سے کام لیں۔
۳- اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ (النساء ۴:۱۰۵) ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب اُتاری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نے جو راہ آپ کو دکھائی ہے، اس کے مطابق آپ فیصلہ کریں۔
گویا انسان اپنے نفس پر، اپنے گھر پر، ماحول پر، پورے ملک پر بلکہ پوری دنیا پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے غلبے اور حکمرانی کو قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جائے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اور معاشرے کا کوئی حصہ بھی اس کی رہنمائی سے خالی نہ رہے۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ (البقرہ ۲:۱۸۶) جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو ان سے کہہ دو کہ) میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی پکار کو میں سنتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔
قرآنِ مجید کا یہ اندازِ بیان ظاہر کر رہا ہے کہ رمضان اور دعا میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ دعا کی مقبولیت کے پیش تر اوقات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان، عبادت کا مقدس پاکیزہ اور پُربہار موسم ہے اور دعا کے بارے میں ارشاد نبویؐ ہے: اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (ترمذی، مشکوٰۃ، ص ۱۹۴، کتاب الدعوات)، یعنی دعا عبادت کا مغز اور گودا ہے۔ اسی بنا پر روزے دار کی دعا خصوصاً افطار کے وقت اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احسانات خصوصاً نعمت ِ قرآن کا شُکر، اسی طرح ادا ہوسکتا ہے کہ اس ماہ میں کثرت سے غربا و مساکین کی مدد کی جائے اور نیک کاموں میں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے۔ اس طرح روزے دار اس ماہ میں اپنے دل سے بُخل کے میل کچیل کو دُور کرسکتا ہے اور اسے سخاوت و فیاضی کا خوگر بنا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کی ان تمام خصوصیات پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان کے ذریعے عبادتِ خالق اور خدمتِ خلق، دونوں کی تربیت دی گئی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفُوَ فَاعْفُ عَنِّیْ(ترمذی، مشکوٰۃ، ج…، ص ۱۸۲) اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، تو میری خطائیں معاف فرما۔
عام طور پر ستائیس ویں شب کو ہی شب ِ قدر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات شب ِ قدر ہوتی ہے۔ اس لیے ان پانچ راتوں کو خاص طور پر عبادت و تلاوت اور ذکرِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔
ان خصوصیات کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان المبارک کے ثمرات و نتائج کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس مقدس مہینے کے تقاضوں کو کامل خلوص اور غیرفانی لگن کے ساتھ پورا کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادتوں اور شادمانیوں سے سرفراز ہوتے ہیں۔