عرفان غازی


سپریم کورٹ میں آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت دو مہینے سے جاری ہے۔ اس دوران فاضل جج ترمیم کی بعض شقوں کے مضمرات کے متعلق دونوں جانب کے وکلا کو وضاحت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ ۱۶؍اگست ۲۰۱۰ء کو حکومت کے وکیل افتخار احمد میاں نے اٹھارھویں ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لامحدود اختیارات کی حامل ہے اور عوام نے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ فاضل ججوں نے اس پر کئی سوالات اُٹھائے۔ ان سوالات کا لب ِلباب چیف جسٹس افتخاراحمد چودھری کے اس ریمارک میں موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو آئین میں کوئی بھی ترمیم کرنے کا بے قید اختیار حاصل ہے: ’’اگر کل کلاں پارلیمنٹ یہ اعلان کردے کہ ریاست کی پالیسی اسلام نہیں، بلکہ سیکولرزم ہے تو کیا ہم اس کو قبول کرلیں گے؟‘‘

مسٹر جسٹس طارق پرویز نے یہی بات ان الفاظ میں کہی: ’’اگر پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل۲ میں ترمیم کردے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے تو کیا یہ اختیارات کا جائز استعمال ہوگا؟‘‘

سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ باتیں روزنامہ ڈان (Daily Dawn)کو بہت شاق گزری ہیں۔ دو دن بعد اداریے میں ججوں کے موقف کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے سوال کیا، آیا سپریم کورٹ نے ازخود یہ فیصلہ کرنے کا ذمہ لے لیا ہے کہ پاکستانی عوام کس سسٹم کے تحت رہنا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ آئین کی نگہبان ہے یا پاکستانی ریاست کا بنیادی ڈھانچا متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے؟

اداریہ نویس نے آگے چل کر اشارے اشارے میں سپریم کورٹ کے ارکان کو ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کیا، لکھتا ہے: The original meaning, and perhaps for reasonable people the only applicable meaning, of the term 'secularism' has been lost here in Pakistan.، یعنی یہاں پاکستان میں سیکولرزم کا اصل مفہوم جو معقول لوگوں کے نزدیک شاید واحد قابلِ فہم مفہوم ہے، گم ہوکر رہ گیا ہے۔ موصوف اپنے آپ کو ان ’معقول لوگوں‘ کی صف میں رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: سیکولرزم کا مطلب لادینیت یا مذہب دشمنی نہیں ہے، لیکن قدامت پسند لوگ ۶۰ برس سے اس جھوٹ کی تکرار کرتے آرہے ہیں کہ سیکولرزم لادینیت ہے۔ سیاسی پارٹیوں تک تو یہ جھوٹ چل گیا، لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی اسی مفہوم کو اپنا لیا ہے۔ یہاں ڈان کے اداریہ نویس نے قدامت پسندوں اور     اعلیٰ ترین عدلیہ کے علم میں اضافے کی غرض سے لیکچر دیا ہے کہ سیکولرزم تو مذہب کے معاملے میں غیرجانب داری کا نام ہے، یعنی ریاست کی مذہب سے جدائی کا محدود تصور!

کسی اخبار کا اداریہ اس کے مدیر کی راے کا اظہار ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مدیرمحترم سیکولرزم کی وکالت کرتے کرتے دین اور مذہب کے فرق سے اپنی بے خبری کا راز فاش کر گئے۔ کسی عقیدے اور اس پر مبنی چند عبادات و رسوم کو مذہب کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اظہار خیال کے عادی مدیر صاحب کو یقینا معلوم ہوگا کہ اوکسفرڈ ڈکشنری نے بھی ریلیجن کے یہی معنی بیان کیے ہیں، لیکن مثال میں اسلام کو بھی عیسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کے زمرے میں شامل کردیا، حالانکہ اسلام ایک دین ہے، مذہب نہیں ہے۔ دین ایک خالص قرآنی اصطلاح ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں، اس لیے انگریزی داں حضرات دین کو بھی ریلیجن کا ہم معنی لیتے ہیں۔

علماے اسلام اس فرق کو خوب سمجھتے ہیں۔ جب وہ عبادات اور ان کے لوازمات کے بارے میں مختلف فقہا کی تحقیق کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں: یہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہ امام شافعیؒ یا امام مالکؒ یا اسی پاے کے دوسرے فقہا کا مذہب ہے۔ یہ تمام مذاہب دین اسلام کے دائرے ہی میں بیان کیے جاتے ہیں۔ مذہب عربی زبان ہی کا لفظ ہے، لیکن قرآن مجید میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام کو دین ہی کہا گیا ہے، کیونکہ یہ محض چند رسوم و عبادات کا نام نہیں، بلکہ ضابطۂ حیات کا نام ہے جو انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ وہ راہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اور اللہ کے رسولؐ نے اپنے قول و فعل میں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔

ڈان کے زیرنظر اداریے میں سیکولرزم کی یہ بالکل صحیح تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ نظام ریاست کی مذہب سے جدائی کے تصور پر مبنی ہے۔ اگر یہاں مذہب سے مراد وہ دین ہے جو انسانی معاشرے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے تو علامہ اقبال نے اسی کے بارے میں فرمایا تھا:  ع

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیکولرزم کے مبلغوں کا کہنا ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح پاکستان کی ریاست کو اسی دین پر چلانا چاہتے تھے۔ ثبوت کے لیے قائداعظم کی اس تقریر کا ایک جملہ پکڑ رکھا ہے جو انھوں نے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ اداریہ نویس کے بقول جملہ یہ ہے: ’’ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں‘‘ (religion is not business of the state)۔

اسلام سے پاکستان کا رشتہ توڑنے کے خواہاں دانش مند گذشتہ ۶۳برس سے اسی ایک جملے کی گردان کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ یہ جملہ نہ صرف اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے بلکہ اس میں تحریف کر کے بیان کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ قائداعظم جس اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، اس کے ۷۹ ارکان میں ۱۶ کانگریسی ہندو شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ہندو ارکان میں سے منتخب کیے گئے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں قائداعظم سمیت مسلم لیگ کے رہنما تسلسل کے ساتھ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد غیرمسلم اقلیتوں کو یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ اسلامی ریاست میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

قائداعظم کی تقریباً نصف تقریر اسی یقین دہانی پر مشتمل تھی۔ فرمایا: You may belong to any religion or cast or creed-that has nothing to do with the business of the state' (آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے ہوسکتا ہے، اس بات کا امورِ سلطنت سے کوئی تعلق نہیں)۔ یہ گویا امورِ مملکت، یعنی قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے مساوی حقوق کا اعلان تھا، لیکن ڈان کے اداریہ نویس کا اصرار ہے کہ نہیں، یہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی clarion call(صداے نفیر) تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک مسخ شدہ جملہ قرآن کو پاکستان کا آئین قرار دینے اور قائداعظم کے اسی مفہوم کے سابقہ بیانات کو منسوخ کرتا ہے۔ برسوں پہلے سردار شوکت حیات اور ممتاز محمد خان دولتانہ کے بیانات نظر سے گزرے تھے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ تو لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے لگایا جاتا تھا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد قائداعظم نے اس قسم کی تقریریں کیں کہ ’’ہماری نجات اس اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐاسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں‘‘۔ تو کیا یہ باتیں بھی انھوں نے عوام کو ورغلانے کے لیے کی تھیں؟ ڈان کہتا ہے: اصل مقصد تو سیکولر ریاست کا قیام ہی تھا۔

خدا کی شان ہے، جس اخبار نے ۷۰برس قبل قائداعظم کی سرپرستی میں اشاعت کا آغاز کیا تھا، وہ بھی آج اپنے مربی کی کردارکشی کرنے والوں کی صف میں کھڑا ہے۔ زیرنظر اداریے کا لبِ لباب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی راے کے برعکس پارلیمنٹ کو آئین کے اسلامی مزاج میں ترمیم کر کے نظامِ مملکت کو سیکولرزم کی بنیادوں پر استوار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کوئی فرد اگر اسلام سے منحرف ہوجائے تو اسے کیا کہتے ہیں؟

؎ میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو، ان نے تو

 قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترکِ اسلام کیا

(بہ شکریہ روزنامہ اُمت، کراچی، ۲۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)