جاوید شاہین


کشمیر کا معاملہ بہت ہی سادہ اور آسان ہے، جس کے مطابق ایک قوم کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو حق خود ارادیت کا موقع دیا جائے گا اوراُس کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ اعلان کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ اقوام عالم اس کی گواہ ہیں۔ اقوا م متحدہ میں اس سے متعلق ۱۸قراردادیں موجود ہیں۔ پچھلے ۷۳ سال سے ایک قوم چیخ پکار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی راے کا اظہار کر رہی ہے۔ حصولِ آزادی کے اظہارکے لیے جس جس طریقے کوبھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے کشمیری قوم نے ہر اس طریقے کو آزما یا لیکن ایک خو نخوار ظالم جو بدمستی میں کسی بھی زبان کو سمجھنے سے عاری ہے،وہ صرف مار دھاڑ،ظلم و ستم کرنے کے ہنر سے آشنا ہے۔سیاسی پلیٹ فارم ہویا عوامی احتجاج ، ہڑتال ہو یا عسکری میدان اہالیانِ کشمیر نے ہر میدان میں بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ بھارتی ایوانوں اور دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکے داروں تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ حقیقت سے آشنا ہوں، لیکن بدقسمتی سے اقوام عالم اس سچائی سے ہمیشہ آنکھیں چُراتی نظر آئیں۔ جس سے بھارت کو بھی حوصلہ ملا کہ طاقت کے سہارے کشمیریوں کی امنگوں اور حصولِ آزادی کی خاطر کوششوں کو دبائے۔ بھارتی حدود میں اگر کہیں کوئی بھی اس ظلم وجبر کو عیاں کرنے کی کوشش کرے تو اس کو یا تو پابند سلاسل کیا جاتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے خوف ودہشت کا شکار بنایا جاتا ہے۔

کشمیر کے شب وروز کے احوال کو قلم بند کیا جائے تو ایک ایسا ڈراؤنا خاکہ تیار ہوتاہے، جسے دیکھ کر انسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ یہ جدید دور میں کسی بستی کے حال و احوال ہیں۔ مسائل اور چیلنجوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ، ایک قوم کو ایک تیزخونیں سیلابی ریلے کے ساتھ بہائے لیے جارہا ہے۔ وہ قوم ایک بے بس، کمزور اور لاچار انسانوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جس کے تمام اختیارات ایک ظالم کے حوالے ہیں۔اس قوم کے بازاروں ، قصبوں ، گلی کوچوں یہاں تک کہ خلوت گاہوں تک پر اُسی کا قبضہ ہے۔ وہ جب چاہے اس کے کھیت جلادے ، جب چاہے اس کے گھر بارود سے برباد کردے یا انسانی زندگی ہی کا خاتمہ کر ڈالے۔ یہ سب اس کی مرضی پر منحصر ہے کیونکہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں ہے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد نہ وہ دہشت گرد کہلاتا ہے اور نہ مجرموں اور ڈاکوؤں ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔

اس سب ظلم وتشدد کے مارے انسان کی حالت کیا ہوتی ہے، وہ قابل بیان نہیں بلکہ اس کا انجام یہی نظر آتا ہے کہ وہ گُھٹ گُھٹ کے اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ بنیادی طور پر جن حالات سے اُسے ہر روز سابقہ پیش آتا ہے، وہ اُس میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُسے کسی کا مرنا، کسی کے ساتھ ظلم ،کسی بے کس کی آہ وفغان ، کسی معصوم کی سسکیاں اور خود  اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر، اُس کے اعصاب کو متاثر نہ کرسکیں، اُسے جذباتی نہ بناسکیں اور اُس میں کسی طرح کا ہیجان پیدا نہ کریں۔ اگر اُس میں یہ تمام’ صلاحیتیں‘ پیدا ہوجائیں تو عین ممکن ہے کہ ایسا انسان کشمیر میں اچھی طرح سے زندگی گزار سکتا ہے اور یہ بھی اسی وقت تک ہے، جب کہ  وہ خود اس تصادم کی نذر ہوکر جان نہ کھو دے۔ اگر بات کو مزید وضاحت سے بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک ’عام انسان‘ ایسے ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس میں ’بے حسی‘ کی  ایسی ’صلاحیت‘ پیدا نہ ہو کہ والد ہونے کے ناطے وہ’ اپنے عزیز ترین بیٹے کے ساتھ بازار جائے  اور وہاں سے اپنے بیٹے کی لاش اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر چپ چاپ لے آئے‘۔ اور بچہ ہونے کی صورت میں ’اس معصوم میں یہ’صلاحیت‘ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگ والد کی چھلنی لاش کو دیکھ کر  دل برداشتہ نہ ہو۔ وہ آہ تک نہ کرے اور اپنے آنسو پی جانے کے ہنر سے آشنا ہو۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ذرا بھی نہ ڈرے اور اپنے دل کو دلاسہ دینے کے لیے کافی ہو۔

بھارتی حکومت اپنی ریاستی دہشت گردی کو ’مذہبی جنگ‘ کا رنگ دینا چاہتی ہے، تاکہ وہ عالمی سطح پر اس تمام صورت حال کا جواز پیش کر سکے۔تائید حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حدتک کے جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے: آصفہ جان کا تعلق کٹھوہ کے بکروال خاندان سے تھا۔ آٹھ سالہ معصوم بچی کومندر کے تہہ خانے میں لے جاکر چارروز تک مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا اور اس کے بعد پتھر مار مار کر جاں بحق کر دی گئی۔ اس درندگی کا ارتکاب کرنے والوں کے حق میں ’ہندو ایکتا منچ ‘ نامی تنظیم نے ترنگا بردار جلوس نکالے، جس کی پشت پناہی بی جے پی کر رہی تھی۔

اگر چہ اہل کشمیر ایک عرصے سے انھی حالات کے اندر زندگی گزار رہے ہیں اور بے مثال قربانیوں کے سہارے تحریکِ مزاحمت کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہرآنے والے دن کے ساتھ ظلم و تشدد میں ریکاڑ توڑ اضافہ ہو رہا ہے۔اس خوف و دہشت میں جہاں ایک فرد کی ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہو، اس کے لیے ان حالات میں آزادی کی بات کرنا آسان کام نہیں ہے۔لیکن حصولِ آزادی کی تڑپ ہر کشمیری کے لیے اُس بچھڑے ہوئے بچے کی مانند ہے، جو اپنی ماں سے ملنے کے لیے ہر مشکل کو عبور کرنے کے لیے تیار ہو۔

اگر چہ بھارت میں الیکشن جیتنے کے لیے ’پاکستان سے دشمنی‘ ایک لازمی عنصر کے طور پر استعمال ہورہی ہے، وہیں بھارتی جنتا پارٹی کےمنشور کا یہ ایک حصہ تھا کہ کشمیر کو مکمل طور پر ’ہندو راشٹر‘ میں شامل کرنا۔ پچھلے سات سال سے اسی منشور پر شد ومد سے کام جاری ہے۔ جس کی وجہ سے اہالیانِ کشمیر میں سخت خوف وہراس پھیل چکا ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ غیریقینی بڑھتی جارہی ہے۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ءکے بعد کشمیر کے حالات میں مزید ابتری دیکھنے میں آئی۔ ہر دین پسند کو مجرم تصور کیا گیا اور ہر دین پسند جماعت کا دائرہ تنگ کیا گیا جس میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے کہ اُس کو ممنوعہ جماعت قرار دے کر اس کے وابستگان کو پابند سلاسل کیا گیا۔خوف و ہراس کے سایے پورے جموں و کشمیر کی ریاست پر دراز کیے گئے۔ جموں و کشمیر کے انضمام میں حائل کچھ رکاوٹوں کو ختم کرنے لیے لیے آئینی طور پر دفعہ۳۵  اے اوردفعہ۳۷۰  کو بھی منسوخ کیا گیا۔ اس کے بعد پورے خطے کا راج دہلی حکومت نے پورے طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اور اب کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔اگر یہی صورت حال جاری رہی تو پھر وہ ہوسکتا ہے جس طرح کہ: ایک وقت میں فلسطین دنیا کا ایک ملک تھا اور آج دنیا کے نقشے میں فلسطین موجود نہیں ہے لیکن اسرائیل دنیا کے ممالک میں شمار کیا جاتاہے۔بھارتی عزائم اسی طرح سے بالکل واضح ہیں کہ وہ کشمیر کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے پرعمل درآمد کے لیے سابق بھارتی فوجیوں اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو کشمیر میں بسانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

حالات کی اس ابتر صورت حال نے پورے خطے کے رہنے والے افرادکو ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔اگر چہ ایک طرف پہلے ہی مشکلات میں گھرے انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہوچکا تھا، وہیں اب مستقبل کے اس ڈراؤنے منصوبے نے ان کی ذہنی الجھن میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اہلِ کشمیر پہلے اپنی آزادی کی محرومی سے مارے جارہے تھے اور اب اپنے گھر بار اور زمین جایداد سے محروم ہونے جارہے ہیں۔ان المناک حالات نے اگر چہ خطے میں رہنے والے لوگوں کو بھی ’تنگ آمد بجنگ آمد ‘کے مصداق جنگ کے لیے تیار کیا تھا، لیکن ظاہر بات ہے کہ خالی ہاتھوں سے بکتر بند گاڑیوں سے نہیں لڑا جاسکتا۔ اس ذہنی تناؤ کی صورت حال نے اہلِ کشمیر کو بے بسی اور مجبوری کی تصویر بنادیا ہے۔ بلاشبہہ ایک انسان کی زندگی میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں، جن کو حل کرنا اور زندگی کو آگے بڑھانا ایک معمول کا طریقہ ہے، لیکن اہالیانِ کشمیر کی زندگیوں کا سب سے بڑا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے، جس کو حل کرتے کرتے ان کی تین نسلیں ختم ہوگئی ہیں، لیکن مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔

اس ساری صورت حال کے بعد زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام وہ مشورہ کرتا ہے، جو کسی دانش وَر کی زبان سے یوں ادا ہوتا ہے کہ ’’کشمیریوں کو ایسا نہیں ایسا کرنا چاہیے۔بندوق نہیں آواز بلند کرنی چاہیے، عسکریت نہیں ، عوامی احتجاج کرنا چاہیے‘‘۔ یا کبھی یہ بھی سننے کو ملتاہے کہ ’’یہ جہاد نہیں وطنیت کی جنگ ہے‘‘۔نرم گرم بستر پرآرام فرما کر ایسی باتیں کہی جاسکتی ہیں، لیکن حقیقت میں ایسے حضرات بھارت کے سفاکانہ عزائم سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجودبڑی آسانی سے ایسے مشورے داغ دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خالی ہاتھوں سے ایک طاقت ور مکار دشمن کا مشکل مقابلہ دیکھنا ہو تو اس کا مشاہدہ ہر روز کشمیر کی سرزمین پردیکھنے کوملتا ہے۔