جسٹس سردار محمد رضا


ترجمہ: مسلم سجاد

’نظریۂ ضرورت‘ کے سہارے پاکستان کے دستوری اور سیاسی نظام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے اور ہر     طالع آزما کی زورآوری اور دستورشکنی کو اس کے ذریعے جوازفراہم کیا گیا ہے جو ہماری ۶۰سالہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ۲۰۰۷ء میں سپریم کورٹ نے اس بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کے شکنجے سے قوم کو نجات دلانے کی جرأت مندانہ کوشش کی اور عدالت نے صاف الفاظ میں اپنے اس عندیے کا اظہار کیا کہ اب نظریۂ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانا چاہیے، لیکن ایک بار پھر اس منحوس نظریے کا سہارا لے کر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو فوج کے اس وقت کے سربراہ نے دستور کے ساتھ عدالت عالیہ ہی پر ضرب کاری لگائی اور تاریخ کے دھارے کو ایک بار پھر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ من پسند عدلیہ جو بھی کہے لیکن اب قوم بیدار ہے، اور حقیقی عدلیہ اور سول سوسائٹی بشمول پریس اور سیاسی جمہوری قوتوں کے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہیں۔ آج قوم ایک تاریخی جدوجہد میں مصروف ہے۔ سپریم کورٹ کے ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے فیصلے میں (جو امیرجماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد،جماعت اسلامی اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان وغیرہ کی طرف سے دائر کردہ مقدمے کے بارے میں تھا) اگرچہ چھے محترم ججوں نے تکنیکی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا، مگر تین محترم ججوں نے مقدمے میں اٹھائے جانے والے سوالات کو درست قرار دیتے ہوئے نہ صرف اسے قابلِ سماعت قراردیا، بلکہ ان ایشوز پر اپنی راے بھی دی، جس کا حاصل یہ تھا کہ اس وقت کا فوجی سربراہ صدارت کے انتخاب میں شرکت کا حق نہیں رکھتا اور نظریۂ ضرورت کے تحت دستور کے واضح احکام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اکثریت کی راے سے اختلاف کرنے والے ججوںمیں محترم جسٹس سردار محمد رضا نے بڑے اختصار کے ساتھ لیکن بڑے محکم انداز میں نظریۂ ضرورت پر بحث کی ہے جو  اب ہماری تاریخ کا حصہ اور قوم کی امانت ہے۔ ہم محترم جسٹس سردار محمد رضا صاحب کے اسی فیصلے کا ترجمہ ذیل میں پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)

میں نے اپنے فاضل بھائی جسٹس رانا بھگوان داس کا دیا ہوا فیصلہ پڑھ لیا ہے۔ یہ ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے مختصر فیصلے کے دلائل تھے جس میں ہم نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے    یہ قرار دیا تھاکہ درخواستیں دستور کی دفعہ ۱۸۴ (۳) کے تحت قابلِ سماعت (maintainable) ہیں۔ اس لیے کُل کی کُل قبول کی جاتی ہیں۔ درج بالا فیصلے کے استدلال سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن چاہوں گا کہ عدالت کے فاضل مشیر مسٹر حفیظ پیرزادہ کے موقف پر کچھ تفصیل سے عرض کروں۔

انھوں نے مقدمے کے میرٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔حاجی سیف اللہ کیس (پی ایل ڈی ۱۹۶۸ء ایس سی ۱۶۶) پر  ان کے انحصار کرنے کے معنی یہ تھے کہ اگر درخواست دہندگان میرٹ پر اچھا مقدمہ رکھتے ہیں تب بھی ان کے حق میں رٹ جاری کرنا حالات کے لحاظ سے مناسب نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ فوجی حکومت سے خالص جمہوریت کی طرف منتقلی میں رکاوٹ ڈالے گا۔ اس طرح کا موقف اختیار کرنا اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس بات کو بالکل فراموش کرکے کہ ماضی میں یہ طرزِفکر کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ کرسکا ، ایک بار پھر ریاست کی ضرورت کے نظریے کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ اس طرح کا انتقال ایک نئی فوجی حکومت کے لیے ایک حیات افروز وقفہ فراہم کرتا ہے اور قوم کو باربار زیرو پوائنٹ پر لے آتا ہے ___نظریۂ ضرورت کا عجوبہ!

نظریۂ ضرورت نہ قانون ہے نہ کوئی ضابطہ اور نہ کوئی قاعدہ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں دیے ہوئے حالات میں ایک ناانصافی کو مصلحت کے نام پر جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ مغرب کے بہت سے فلسفی، اسکالر اورنام نہاد دانش ور وقتاً فوقتاً مختلف نظریات پیش کرتے رہتے ہیں جن پر پوری دنیا میں مباحثے ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں حقیقی چیزیں اختیار کرلی جاتی ہیں اور آگے بڑھائی جاتی ہیں، جب کہ پس ماندہ اقوام کو غیرحقیقی اوہام کا فریب دیا جاتا ہے جن کی بدقسمتی سے مقدس احکامات کی طرح پیروی کی جاتی ہے۔ دوسری قسم میں ہینس کیلسن کا نظریۂ ضرورت اور میکاولی کا پرنس شامل ہے جو پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں تباہ کن حد تک منافقانہ ہونے کے باوجود بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ نظریات نہ عام طور پر دنیا بھر میں قبول کیے جاتے ہیں نہ وہ جدید قانون کی بنیاد ہیں۔ چیف جسٹس حمود الرحمن (جیسے کہ وہ اس وقت تھے) کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے جنھوں نے چیف جسٹس محمدمنیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’انھوں نے نہ صرف ہینس کیلسن کے نظریے کا غلط اطلاق کیا، بلکہ انھوں نے یہ بھی غلط کہا کہ یہ جدید قانون کا عام طور پر تسلیم شدہ نظریہ ہے۔ کیلسن کے شاگرد بھی وہاں تک جاتے ہوئے ہچکچائے جہاں تک کیلسن گیا تھا…‘‘۔

 میرے ذہن کو جو چیز پریشان کرتی ہے وہ کیلسن یا میکاولی کے غیرمعمولی خیالات ہیں، ان کا حقیقی ہونا، یا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو یہ خیالات ختم ہوچکے ہیں لیکن تیسری دنیا میں یہ پھل پھول رہے ہیں۔ اب ہم لوگ بحیثیت مسلمان کیوں ان کی پیروی کریں، کیوں نہ ہم انھیں مسترد کردیں۔ میرا ایمان ہے کہ ہم مسلمانوں کو اپنی آخری رہنمائی وحی کے علم، یعنی قرآن کی دانش سے حاصل کرنا چاہیے۔

ایک ایسی کتاب جو تمام زمانوںپر محیط ہے، اسے جزوی امور سے احتراز کرنا چاہیے اور اصولوں کو بیان کرنا چاہیے۔ یہ بات قرآن کے لیے بدیہی طور پر سچ ہے۔ اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ضرورت یا میکاولی کے نظریات کیا ہیں۔ مختصراً، یہ حضرات کہتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ، حلال اور حرام ان کی کوئی ایسی حدیں نہیں ہیں جو کسی بھی حال میںتوڑی نہ جاسکتی ہوں۔ اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو اچھا برتائو، اچھا اخلاق، اصول یا اقدارِحیات سے قطع نظر حرام کو حلال کیا جاسکتا ہے اور جو مقاصد حاصل کیے جائیں وہ ذرائع کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف قرآن انسان کے طرزعمل پر کچھ حدود عائد کرتا ہے جن کو تبدیل یا مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے انحراف درج ذیل آیت کے خلاف ہے:

وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ (الانعام ۶: ۱۱۵) تمھارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے۔

نظریۂ ضرورت انسان کا بنایا ہوا چیستاں ہے جسے ہمیشہ اللہ کی عطا کی ہوئی اعلیٰ انسانی اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔ بعض احکامات افراد کے لیے ہیں جن کا انکار بظاہر پورے معاشرے کو متاثر کرتاہے۔ جب سچائی کا حکم اور جھوٹ کی مذمت کی جائے تو دراصل یہ اس آیت کے مطابق ہوتا ہے:

وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ ۶:۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائواور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔

اللہ تعالیٰ نے سچائی کو جھوٹ سے ملانے کی بھی مذمت کی ہے۔ مصلحت کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔ اس سے بھی زیادہ واضح حکم سورئہ نساء میں ہے جہاں حق و انصاف کی     اعلیٰ اقدار کے مقابلے میں نہایت ضروری مصلحتوں کو نظرانداز کر کے ایک طرف رکھ دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًاَ o (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے  علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر، یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِمعاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

آیئے کچھ دوسری آیات پر بھی ایک نظر ڈالیں جہاں مصلحت کی خاطر سچائی سے انحراف کی مذمت کی گئی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَط  اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵: ۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

وقت کی کمی کی وجہ سے قرآن پاک کے فقط چند حوالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے ورنہ اس موضوع پر کہ قرآن نے سچائی کے مقابلے پر مصلحت کی مذمت کی ہے، کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یہ بدترین قسم کا نفاق ہے جو ان قوموں کا طریقہ رہا ہے جن کو تباہ کر دیا گیا اور ان کی جگہ وہ قومیں لائی گئیں جنھوں نے اللہ کے حکم کی پیروی کی۔ عمل میں دو رنگی مذموم افراد کا نشان رہا ہے۔ تاریخ   اس پر گواہ ہے۔ اس کی سچائی سورۂ عصر سے عیاں ہے جہاں صحیح راہ پر نہ چلنے والوں کو خسران میں مبتلا قرار دیا گیا ہے۔ مختصراً قرآن کا ہرلفظ جھوٹ، نفاق، کردار کے دوغلے پن، مصلحت، یعنی نظریۂ ضرورت کی مذمت کرتاہے۔ اسے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے اور پورے معاشرے پر اس کا اطلاق کیا جائے تو نظریۂ ضرورت ہی ریاست کی ضرورت کا نظریہ بن جاتا ہے۔ جو بھی منظر ہو، اجتماعی یا انفرادی، یہ نظریہ ہر طرح سے تباہ کن ہے۔ ریاست کی سطح پر یہ پوری قوم کے لیے تباہ کن ہے۔ یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ کردار کا دوغلاپن ہمیشہ جھوٹ کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ سچے لوگ ڈانواں ڈول نہیںہوتے۔ سچائی اور برائی کو ملانا خدائی فیصلے کی نفی ہے۔

اس موقع پر میں علامہ اقبال کاایک شعر پیش کیے بغیر نہیںرہ سکتا جن کی قرآن پر گہری نظر ان کی شاعری سے نمایاں ہے    ؎

باطل دوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

بت پرستی کے آج کل متنوع اظہار ہیں۔ نظریات، عقائد، مفروضے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق تراشے جاتے ہیں اور اللہ کے بجاے انسانوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک شے کے دوسری شے سے تبادلے (quid pro quo) پر سیاست میں تو عمل ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں، انصاف کرتے ہوئے عدالتی معاملات میں کام میں نہیں لایا جاسکتا۔ یہ مناسب وقت ہے کہ مصلحت کے بجاے زندگی کی اعلیٰ اقدار کو اختیار کیا جائے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس الزام سے بچانا چاہیے کہ ع  خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں۔

جو مختصر وضاحت کی گئی ہے، گو موضوع کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے، تاہم میں یہ قرار دیتا ہوں کہ نظریۂ ضرورت قرآنی احکامات کے خلاف ہے اور میرٹ کی بنیاد پر جو فیصلہ ہو رہا ہو، اسے روکنا تاکہ ریاستی ضرورت کے تحت انتقال اقتدار ہو، نہ انصاف پر مبنی ہوگا نہ جائز نہ قانونی۔ درخواستیں قابلِ سماعت ہیں، ہمارے مختصر حکم نامے ۲۸ستمبر ۲۰۰۷ء کے مطابق، قبول کی جاتی ہیں۔