ڈاکٹر احسان الحق


اِبلاغ عربی زبان کے بابِ افعال سے بطور مصدر مستعمل ہے جس کا معنی ہے: پہنچا دینا۔ باب تفعیل سے یہی مصدر ’تبلیغ‘ کے وزن پر آتا ہے جس کا مفہوم خوب اچھی طرح پہنچا دینا ہے۔ اِبلاغ عامہ کی اصطلاح Mass Communication کا مفہوم بھی یہی ہے کہ عام لوگوں تک بات پہنچائی جائے۔ اس اصطلاح سے پہلے جرنلزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن اس کا دائرہ محدود تھا۔ یعنی صرف صحافتی دنیا میں شائع ہونے والی خبریں مراد تھیں۔ اب اِبلاغِ عامّہ میں اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سی ڈیز، فلم، انٹرنیٹ وغیرہ سب شامل ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت خبر کی اشاعت کا بڑا ذریعہ شاعری، اسواق (میلے) ندوات (مقامی مجلسیں) اور ’سھرات‘ رات کی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ قرآن حکیم نے اِبلاغ کے ضمن میں اتنی جامع رہنمائی دی ہے جو ہر دور پر منطبق (apply) ہوتی ہے۔

اِبلاغ کے بنیادی اصول

  • مستند اور ٹہوس حقیقت: پہلا اصول یہ دیا کہ خبر بے لگام نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کا ایک حوالہ ہونا چاہیے۔ اور وہ حوالہ اللہ کی ربوبیت پر ایمان کی دعوت کے ساتھ انسانیت کی خیرخواہی اور راست بازی کا قیام ہے۔

اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌo (اعراف۷:۶۸) (حضرت ہود ؑنے اپنی قوم سے کہا) کہ میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔

  • واضح اور ابھام سے پاک: دوسرا اصول یہ دیا کہ خبر واضح ہو۔ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے قرآن حکیم ’بلاغ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم واضح پیغام (اعلامیہ) ہے۔

ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَ لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ابراھیم ۱۴:۵۲) یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ اُن کو اس کے ذریعے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں، وہ ہوش میں آجائیں۔

کہیں اِبلاغ کے ساتھ مبین کا لفظ استعمال ہوا۔

وَ مَاعَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ o (یٰسٓ ۳۶:۱۷) اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

  • مؤثر اِبلاغ: تیسرا اصول یہ دیا گیا کہ اچھی خبر سے آگاہ کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ اسے بار بار نشر کرنا اور دلوں کی گہرائی میں اُتارنا ضروری ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ ۵:۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔

یہ فریضۂ اِبلاغ پوری دل سوزی سے ادا کیا جائے۔

وَ عِظْھُمْ وَ قُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَوْلًام بَلِیْغًا o (النساء ۴:۶۳) انھیں  سمجھائو اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اُتر جائے۔

  • جرأت اور بے خوفی: چوتھا اصول یہ دیا گیا کہ سچا پیغام پہنچانے میں خوف کو قریب نہ آنے دیا جائے۔

الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ط (احزاب ۳۳:۳۹) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

  • مثبت طرزِ فکر کا فروغ: پانچواں اصول یہ دیا گیا کہ معاشرے میں ایسی خبررسانی ہو جس سے طبیعتوں میں ہیجان انگیزی اور انتشارِ ذہنی کے بجاے امن و آشتی اور مثبت طرزِفکر کو فروغ حاصل ہو۔

وَ ھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ج   وَ ھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِo (الحج ۲۲:۲۴) اور یہ وہ لوگ ہیں جنھیں پاکیزہ کلموں کی ہدایت دی گئی ہے اور یہ وہ ہیں جنھیں پسندیدہ راستے کی طرف رہنمائی دی گئی ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا o (احزاب ۳۳:۷۰) اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (النور ۲۴:۱۹) بے شک جو لوگ مومنوں کے درمیان فحش باتوں کو پھیلانا پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

اِبلاغ کا منفی پھلو

اِبلاغ میں جن باتوں سے روکا گیا ہے (منہیات) وہ حسب ذیل ہیں:

  • جہوٹ سے اجتناب: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِo (الحج ۲۲:۳۰) ’’اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو‘‘۔
  • خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا: بنی اسرائیل کی مذمت میں ارشاد ہوا کہ انھیں شہرمیں داخل ہوتے وقت جس کلمے کی ادایگی کا حکم دیا گیا، انھوں نے توڑ مروڑ کر اسے کچھ کا کچھ کردیا۔

فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَo (البقرہ ۲: ۵۹)  مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی، ظالموں نے بدل کر اُسے کچھ اور کردیا۔ آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔

  • غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ سے گریـز: اسلام نے خوف اور امن کی غیرذمہ دارانہ خبروں کی رپورٹنگ سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ منافقین کی بدعادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اِذَاجَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖط  (النساء ۴:۸۳) یہ لوگ جہاں کہیں اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں، اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں۔

حکم دیا گیا:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَـاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا (الحجرات ۴۹:۶)  اے اہلِ ایمان! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو۔

  • دہوکا دھی اور چربہ سازی کی ممانعت:کسی کی تحریر کو بغیر حوالے کے اپنے نام سے نقل کردیا جائے، یا اصل مصنف کی طرف وہ کچھ منسوب کردیا جائے جو اس نے نہ کہا ہو۔ ارشاد ہے:

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْق ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط فَوَیلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَ وَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَo (البقرہ ۲:۷۹) پس ہلاکت و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس سے وہ تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں۔ پس بربادی ہے اس وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور بربادی ہے ان کے لیے اس کے سبب جو وہ کماتے رہے ہیں۔

حوالہ دی گئی آیات شانِ نزول کے اعتبار سے مختلف پس منظر رکھتی ہیں مگر قرآن حکیم کا ایک حوالہ آفاقی ہدایت ہے۔ جو اشارتاً زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ خود وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’خبر‘ کہا۔

اِِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًاط سَا۔ٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ (النمل۲۷:۷) مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں۔

خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حدیث میں ’مخبرصادق‘ (سچی خبردینے والا) کا لقب استعمال ہوا۔

ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں اِبلاغ کے منصب پر فائز تمام شخصیات، صحافی، براڈکاسٹر، میڈیا سے وابستہ شخصیات، داعی، اساتذہ وغیرہ سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بقدر استطاعت خبر کے اِبلاغ میں درج ذیل باتوں کی پابندی کریں:

  • انھیں انسانیت کا خیرخواہ ہونا چاہیے۔
  •  انھیں امانت دار ہونا چاہیے۔
  • انھیں    بے باک ہونا چاہیے۔
  • ان کا اِبلاغ بے رنگ نہیں، بلکہ بامقصد ہونا چاہیے۔

خبر کے ذیل میں درج ذیل باتوں کی پابندی کرنی چاہیے:

  • مثبت پہلوئوں کو بھی خبر میں نمایاںمقام دیا جائے۔
  • پاکیزہ بات کہی جائے۔
  • جھوٹ سے بچا جائے۔
  • بات سیدھے سادے انداز میں کی جائے۔
  • بات دل سے کہی جائے۔
  • بات ذمہ دارانہ طریقہ سے کی جائے۔

اگر ان اصولوں کو اِبلاغ عامہ کے ادارے اپنا لیں تو قوم کو انتشارِ ذہنی اور اضطرابِ فکری سے بچایا جاسکتا ہے اور اسے ایک صحیح سمت دی جاسکتی ہے، اس لیے کہ درست سمت کے تعین کے بغیر دائروں کے سفر میں قوم کی نسلوں کی نسلیں بھٹکتی رہیں گی۔