ڈینیل پایپس


تبصرہ و ترجمہ: سلیم منصور خالد

ہم بھی ایک عجب عہد میں سانس لے رہے ہیں کہ پسے اور مصیبت میں پھنسے ہوئے فرد بلکہ معاشرے ہی کو نصیحت کے درس دیے جاتے ہیں اور ظالم کے ظلم پر بات کرنے کو مصلحت کے خلاف یا شاید انتہا پسندانہ سوچ قرار دیا جاتا ہے۔

مغرب کے مخصوص دہشت پسندانہ ماحول اور مسلم دنیا کی استبدادی فضائوں میں سانس لینے والے ’ناصحین اور سیانے‘ لوگ یہ کہتے ہیں: ’’بھائی، مسلم دنیا کے بارے میں فکری عدم توازن اور قلمی صلیبیت کے علَم بردار مغربی قلم کاروں کی تحریروں کا مت نوٹس لیا کریں۔ مغربی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح کے سیانے لوگوں میں کچھ ظالم تو ہر بات اور ہرحادثے کی خبر پر اپنے مجبور و مظلوم بھائیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے،   طنزیہ انداز میں کہتے ہیں: ’’اچھا، یہ بھی یہودی سازش ہے‘‘۔ اور ایسا جملہ اُچھالتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے چہروں پر  دانش کی چمک پھیل جاتی ہے، حالانکہ وہاں پر عبرت کی سیاہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ چلیے، ناصحین کے ہدایت نامے کو لمحے بھر کے لیے تسلیم کر ہی لیا جائے کہ ایسی دل آزار اور اشتعال انگیز تحریریں لکھنے والے کچھ جنونی لوگ ہی ہیں اور بس۔ مگر اس چیز کا کیا کیا جائے کہ انھی فکری دہشت گردوں کی گرد کو مغربی سیاسی و فوجی قیادتیں اپنی آنکھ کا سرمہ اور غبار کو فکر کا محور بنا لیتی ہیں۔ پھرکٹھ پتلیوں کی طرح ان لوگوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کو دنیا میں پھیلانے کے لیے اندھادھند کارروائیاں شروع کردیتی ہیں۔ مغربی دنیا کے لوگ انھی لیڈروں کو اپنا رہبر و رہنما بھی منتخب کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں آگ، دولت اور موت کی کنجیاں بھی دے دیتے ہیں۔

یہاں مغرب کے جس فتنہ جو گروہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، انھی میں ایک نام ڈینیل پایپس (Daniel Pipes) کا بھی ہے، جس کی اشتعال انگیز تحریریں، علم و دانش اور اخلاق و ادب کی دنیا میں تو کوئی وزن نہیں رکھتیں، مگر وائٹ ہائوس، پینٹاگون اور دس ڈاوننگ سٹریٹ ان تحریروں کا عملی ترجمہ کرنے میں کسی سے پیچھے رہتے نظر نہیں آتے۔ یہاں پر اسی فرد کے ایک تازہ مضمون The Enemy Has a Name کا ترجمہ دیا جا رہا ہے، جو مقبوضہ فلسطین کے یہودی اخبار یروشلم پوسٹ میں ۱۹جون۲۰۰۸ء کو شائع ہوا اور بعدازاں اس کی ویب سائٹ سے دوسرے حلقوں میں پہنچایا گیا، ترجمہ ملاحظہ ہو:

اگر آپ دشمن کو متعین طور پر نام نہیں دیں گے تو پھر آپ اسے شکست کیسے دے سکیں گے؟ بالکل اس طرح جیسے ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مریض کے مرض تشخیص کرے۔ تاحال امریکا اپنے مخالفین میں سے دشمن کو متعین کرنے میں متردّد نظر آتا ہے۔

۲۰۰۱ء کے اواخر میں امریکی اعلیٰ حکام نے اس ضمن میں غیرمؤثر اور غیریقینی اعلامیے جاری کیے۔ وزیردفاع رمزفیلڈ نے کامیابی کو اس امر سے منسوب کیا کہ: ’’ہم ایسی فضا پیدا کرنا اور اس کاتحفظ چاہتے ہیں کہ جہاں ہم ہر قسم کی آزادی سے سانس لے سکیں‘‘، جب کہ صدربش نے کہا: ’’ہم دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو شکست دینا چاہتے ہیں‘‘۔ دراصل ’دہشت گردی کو شکست‘ دینا ہی اصل نصب العین اور ہدف ہونا چاہیے، جو تاحال حاصل نہیں ہوسکا۔ ماہرین کے بقول دہشت گردی بذاتِ خود کوئی دشمن نہیں بلکہ دشمن کی ایک جنگی چال کا نام دہشت گردی ہے۔ آخرکار صدر بش نے ۲۰۰۴ء کے وسط میں اعتراف کیا: ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دشمن کا درست نام نہیں لیا۔ دراصل یہ ان نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جنگ ہے جو آزاد خیال معاشروں میں یقین نہیں رکھتے، اور جو آزاد خیال معاشروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے دہشت گردی کو  بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں‘‘۔ اگلے برس برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ذرا وضاحت سے کہا: ’’دشمن دراصل وہ مذہبی نظریہ ہے جو دنیا بھر میں اسلام کے نام سے موسوم ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد صدربش نے تین اصطلاحیں استعمال کیں: ’اسلامی انقلابیت‘، ’دہشت گردانہ جہادازم‘ اور ’اسلامی فسطائیت‘۔ مگر ان اصطلاحوں پر سخت تنقید کے نتیجے میں بش ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ۲۰۰۷ء کے وسط میں صدربش نے کہا: ’’ہم اس دہشت گردی کے خلاف عظیم جدوجہد کر رہے ہیں، جو شرق اوسط کی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ موقف جس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے امریکی انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں ’موت کے فدائی، فرقہ واریت کے پرستار‘ دہشت کے متوالے جیسی غیرواضح اور مبہم اصطلاحوں کو استعمال کرتی ہیں۔

اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جامع نام رکھتا ہے اور وہ ہے: ’’اسلام ازم، اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور‘، اسلام پرست آمرانہ نظریہ، کہ جو بھرپور مالی مدد سے اسلامی قوانین (شریعہ) کو عالمی اسلامی ضابطے کے طور پر نافذ کرنے کا خواب ہے‘‘۔

اس مناسبت سے ہدف بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ: اسلام ازم کو شکست فاش دینا اور اسلام کی ایک متبادل شکل وضع کرنے کے لیے مسلمانوں کی مدد کرنا۔ یہ کام اتفاقیہ طور پر انجام دینے کی سوچ کے ساتھ نہیں بلکہ حلیف قوتوں کی مدد سے اسی جذبے کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس عزم کے ساتھ ماضی میں دو یوٹوپیائی انقلابی تحریکوں،یعنی فسطائیت اور اشتراکیت کو سبق سکھانے کے لیے بڑا مضبوط قدم اٹھایا گیا تھا۔

پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ اس نظریاتی دشمن کو ویسی شکست فاش دی جائے، جس طرح ۱۹۴۵ء اور ۱۹۹۱ء میں کیا گیا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اس [اسلامی] انقلابی نظریے کی تحریک کو کمزور اور پھر نابود کردیا جائے، تاکہ ان کے ہاتھوں دنیا کے ہلائے جانے کی دہشت کا خاتمہ ہوجائے۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم [۴۵-۱۹۳۹ئ] ہم نے خون، لوہے اور ایٹم بم کے ذریعے جیتی تھی، ایک تو یہ ماڈل ہوا۔ دوسرا ماڈل [اشتراکی روس سے] سرد جنگ جیتنے کا ہے، کہ جس میں جنگی دبائواور پیچیدہ عمل کو بروے کار لایا گیا تھا، جس نے سوویت یونین کو پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا۔

تاہم اسلامیت کے خلاف فتح پانے کے لیے مذکورہ بالا دونوں حکمت عملیوں کو بروے کار لانا ہوگا، جو بھرپور جنگ، جوابی دہشت گردی، جوابی پروپیگنڈا اور دیگر بہت سے ہتھکنڈوں پر مشتمل ہوگی۔ ماضی میں اس راہ پر چلتے ہوئے افغانستان سے طالبان کی حکومت کا صفایا کیا گیا تھا اور اب اگلے قدم کے طور پر ہمیں قانون پسند اسلامیان(Lawful Islamists) کو نشانہ بنانا ہے، جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیمی، دینی، عدالتی، ابلاغی اور سیاسی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔

ہمارا اگلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان مسلمانوں کی مدد کریں جو اسلامیان کے نقطۂ نظر کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلامی طرزِ حکومت کے برعکس جدید طریقوں پر زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن یہ [روشن خیال] مسلمان ایک کمزور مخلوق ہیں اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہے۔ انھوں نے حال ہی میں تحقیق و جستجو کا کام شروع کیا ہے۔ وہ رابطے، ابلاغ، تنظیم، مالیات کی فراہمی اور متحرک ہونے کے لیے محنت سے کام کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کرنے کے لیے ان روشن خیال مسلمانوں کو، غیرمسلموں کی حوصلہ افزائی اور مالی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ آخری تجزیے میں اسلامیّت نے اہلِ مغرب کے سامنے دو چیلنج پیش کیے ہیں، اور وہ یہ کہ: بات صاف صاف کی جائے، اور فتح کے حصول تک جدوجہد جاری رکھی جائے۔ (www.danielpipes.org)

ڈینیل پایپس کی اس تحریر کے دامن میں چھپی ہوئی شرارت اور دروغ گوئی تو واضح ہے، تاہم چند امور کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:

  • یہ صاحب، اسلامیانِ عالم کو بطور دشمن نام دینے اور ان کا تشخص متعین کرنے کا واویلا کر رہے ہیں، حالانکہ ۲۰۰۱ء ہی کے آخر تک امریکا نے تاریخ کی بدترین بم باری کرکے لاکھوں افغانی مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا، اور پھر ۲۰۰۳ء کے نصف اول میں عراق پر موت اور بارود کی بارش کر کے لاکھوں مسلمانوں کو برباد کر دیا تھا۔ مگر مضمون نگار تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ابھی تک نام متعین کرنے کی بحث کا سوال اُٹھا کر، انسانی تاریخ کے اس بدترین قتلِ عام کو معمول کا واقعہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
  • دوسری جنگ عظیم کی ’فتح‘کو ایک لفظ ’ایٹم‘ سے موسوم کر کے ذکر یوں چھیڑا ہے جیسے کچھ اور تو کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ نہیں بتایا کہ ان دو ایٹم بموں نے کتنے لاکھ جاپانیوں کو ہلاک یا اپاہج کردیا تھا اور اس جنگ میں کتنے سو لاکھ انسانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ گویا کہ ایک امریکی مارا جائے تو خبر، اور دوسرے لاکھوں انسان مارے جائیں تو معمول کی ایک بات۔ روشن خیالی کی یہی بدترین قسم، مغرب کی مادہ پرست تہذیب کا مظہر ہے۔
  • یہ کہنا کہ: ’’سوویت یونین کو امریکا بہادر نے جنگی دبائو اور پیچیدہ عمل سے پُرامن طور پر ریزہ ریزہ کردیا‘‘ کتنی بڑی سفاکی اور کس درجے کی دروغ بافی ہے۔ اشتراکی روس کے وجود کو رستا ہوا ناسور بنانے میں کیا ۱۳ لاکھ افغانوں کی جانیں، ۶۰ لاکھ افغان عورتوں، بچوں اور بوڑھے انسانوں کی ۱۵ برس تک مہاجرت کسی شمار میں نہیں ہیں؟
  • اسلام کے نئے ماڈل کی تشکیل(reconstruction) کا کام کرنے کے لیے  مرزاے قادیان کی طرح کے کئی ہرکارے، اہلِ مغرب اور ان کی پٹھو مسلمان حکومتوں کی چھتری تلے کام کررہے ہیں، مگر اس کے باوجود موصوف کی بے صبری دیدنی ہے۔
  • سب سے اہم یہ کہ مضمون نگار اس تحریر میں ان پُرامن مسلمانوں کو جو درس گاہوں، پارلیمانوں، ہسپتالوں، ابلاغی اداروں اور دینی اداروں میں کام کر رہے ہیں، سفاکانہ نشانہ بنانے کا درس دے رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بدمست دانش ور دنیا کو آگ، خون اور موت کے حوالے کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی ایسے فرد کا کوئی احترام نہیں جو کھلے عام اور پُرامن طور پر سماجی زندگی میں کام کر رہا ہے۔

o

اس سامراجی یلغار کے راستے صاف کرنے کے لیے خود ہماری اقوام میں، ہم جیسے نام اور شکلیں رکھنے والے بہت سے کارندے اپنا کام کر رہے ہیں۔ کبھی یہ کام سامراج کے ٹوڈی، قادیانی اور بہائی کرتے تھے، اب ان کے ساتھ’روشن خیال‘ اور منکرین حدیث، طاقت کے سرچشموں پر قابض ’ماڈرن مُلّا‘ بھی شریکِ کار ہیں۔ لاہور سے ایک اخبار نکلتا ہے ڈیلی ٹائمز، جس کے مالک پنجاب کے گورنر اور پیپلزپارٹی کے منظورِ نظر لیڈر سلمان تاثیر ہیں۔ اس پرچے میں مذہبی آزادی، تقسیمِ ہند، فرقہ واریت، کلچرل آزادی، فری سوسائٹی کے نام پر جو کچھ چھپتا ہے، وہ قوم کے سامنے ہے، مگر اس پر سوال اٹھانا ’آزادیِ صحافت‘ کے منافی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اخبار کے ایک بزرگ کالم نگار نے لال مسجد کے سانحے (۱۰جولائی ۲۰۰۷ئ) کے تین روز بعد لکھا تھا کہ: ’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال طبقے مولویوں کے خلاف متحد ہوجائیں اور فوج کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کریں‘‘۔ بہ چشم ہوش دیکھا جائے تو ان کی یہ حسرت ناک خواہش اپنی جگہ ایک جھوٹ ہے۔ اتحاد کیا، اسی ’نام نہاد روشن خیال‘ طبقے کے اتحاد نے تو گذشتہ ۶۰برس سے پاکستانی قوم کے سیاہ و سفید پر قبضہ جما رکھا ہے، مگر افسوس کہ موصوف کو ابھی تک خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر یہ ہے کہ ابھی تک تسلی نہیں ہوئی۔ انھی کے ایک قائد، مسٹر مشرف کی صورت میں قوم کی گردن پر سوار ہیں۔ دوسرے قائد کراچی میں آگ اُگلتے، خون کا سیلاب لاتے اور اخلااق کا قتل عام کرتے ہیں۔ پھر اسی اخبار کے مالک اب آدھے پاکستان کے گورنر ہیں۔ اس حمام میں اتحاد و اختیارکی محرومی کے کیا معنی؟

ڈینیل پایپس کے ارشادات پڑھیے، اور پھر ڈیلی ٹائمز، لاہور کے خصوصی نامہ نگار متعینہ نیویارک خالد حسن کی تائیدِ مزید کو ملاحظہ کیجیے، آپ کو تمام کردار حیرت انگیز طور پر ایک ہی آرکسٹرا کی دُھن پر رقصاں دکھائی دیں گے۔ ہمارے سامنے اس وقت ۲۸ جنوری ۲۰۰۷ء کا ڈیلی ٹائمز ہے، جس میں یہی خالد حسن ایک تجزیہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ربوہ شہیدوں کا شہر ہے‘‘۔ ان کی یہ تحریر اور کچھ نہیں تو اس امر کی وضاحت کر دیتی ہے کہ موصوف کی سخن وری کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور اب، جب کہ ڈینیل پایپس نے مذکورہ بالا اشتعال انگیز مضمون شائع کیا اور اسے اپنی  ویب سائٹ پر ڈالا تو انھی خالد حسن نے اس کی تائید کے لیے کسی سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا، اور ۳جولائی ۲۰۰۸ء کو بطور ’وعدہ معاف گواہ‘ لکھا:

گیلپ سروے کے مطابق مسجدوں میں جانے والے مسلمانوں کے برعکس، مسجدوں میں نہ جانے والے مسلمان زیادہ تر دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں‘‘۔ [یہ خبر اس نمایندے نے ڈیلی ٹائمز کی اشاعت ۱۲ مئی ۲۰۰۶ء میں بھی شائع کرائی تھی، لیکن وقت گزرنے کے بعد خبر کے اس ٹکڑے کو دوبارہ ریکارڈ سے نکالتے اور اپنے جذبات کی تپش کا اضافہ کرتے ہوئے، ۳جولائی ۲۰۰۸ء کے نثرپارے میں آگے چل کر لکھا ہے:] بے روزگار مسلمانوں کے برعکس وہ مسلمان زیادہ دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں کہ جن کے پاس کُل وقتی ملازمتیں ہیں۔ [پھر ڈینیل پایپس کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے، تمام حدیں توڑ کر، موصوف یہ روشن خیال نظریہ پیش کرتے ہیں] l یاد رکھیے، ناخواندہ مسلمان چاقوؤں اور تلواروں سے جہاد کریں گے l خواندہ مسلمان بندوقوں سے جہاد کریں گے l اعلیٰ فنی و سائنسی تعلیم کے حامل مسلمان ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کوبطور آلہ استعمال کرکے، جہادی نظریے کی تشہیرکرکے نئے ’مجاہدوں‘ کو بھرتی کریں گے lتعلیم یافتہ مسلمان یہی کام اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر زیادہ وسعت سے کریں گے گویا کہ زیادہ پڑھا لکھا مسلمان، زیادہ مذہبی انتہا پسند ہوتا ہے، مطلب یہ کہ پڑھا لکھا فرد [مسلمان] زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘‘۔ (www.danielpipes.org)

دیکھنا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں، جو نفرت پھیلانے اور آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک آئین، دستور اور اخلاق کا کوئی وزن نہیں؟ درحقیقت یہ  وہ لوگ ہیں جن میں سے ایک گروہ مسلم اُمہ کے دین دار طبقوں کو نشانہ بناتا ہے، اور دوسرا گروہ  رفاہِ عامہ کے کاموں کو دہشت گردی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، جب کہ تیسرا گروہ تاجروں اور      مخیر حضرات کو یہی الزام دیتا ہے، اور چوتھا گروہ جدید تعلیم یافتہ اور پُرامن مسلمانوں کو خطرے کا سرچشمہ قرار دیتا ہے، اور آخر نتیجے میں گویا پوری ملّت اسلامیہ اس سرخ نشان کی زد میں آجاتی ہے۔ اس مسئلے پر غوروفکر، اسلامیانِ علم کے سامنے ایک بڑا اہم سوال ہے۔

یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ، اور وہ یہ کہ کچھ لوگ بے جا طور پر اپنے آپ کو مغربی جنگجوؤں کے سامنے ماڈریٹ یا ’نرم چارہ‘ ثابت کرنے کے لیے، اصولی موقف میں بے جا لچک یا حددرجہ لچک دار موقف کو پیش کرنے کے لیے بہت سی بچگانہ کوششیں یا حرکتیں کرتے   دکھائی دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موقف اصولی، اخلاقی اور منصفانہ ہونا چاہیے، اور پھر اس میں لیت و لعل نہ برتا جائے۔ جن لوگوں کے سامنے موقف کو نرم کرنے کا کھیل کھیلا جاتا ہے، وہ ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے، اگر انھوں نے اس سے متاثر ہونا ہوتا تو بوسنیا اور کوسووا کے حددرجہ مغرب زدہ مسلمانوں کے ساتھ وہ ظلم و زیادتی نہ کرتے۔ گویا کہ دشمن کو لیپاپوتی سے غرض نہیں، وہ تو جڑ بنیاد کو ہدف بنانا چاہتا ہے، اس لیے معاملے کو اصولی طور پر مضبوط موقف کے ساتھ حل کرنا ہے۔