عبدالرحمن


مجھے ایک طالب علم، کارکن اور استاد کی حیثیت سے کچھ عرصہ امریکا میں گزارنے کا موقع ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں دوسرے لوگوں کی نسبت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں عالی جاہ ‘محمد‘ کے پیروکار بھی شامل ہیں جو پہلے کی نسبت اب اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔ تقریباً ہرمسجد میں یا اسلامک سنٹر میں نمازِ جمعہ کے بعد امریکی اسلام قبول کرتے ہیں۔

مسلمانوں میں احساسِ ذمہ داری کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ پہلے صرف ایم ایس اے (M.S.A) تھی اور اب متعدد تنظیمیں ہیں جن میں: Islamic Society of North America (ISNA)، The Muslim Community of America (MCA)،  Association of Muslim Social Scientists(AMSS)، Association of Muslim Scientists and Engineers (AMSE)، Islamic Medical Association (IMA)، Muslim Women Committee (MWC) شامل ہیں۔ ان سب کا اپنا اپنا دائرۂ کار ہے۔ سب فعال اور ایک دوسرے کی مددگار ہیں اور آپس میں بھی رابطے ہیں۔

امریکا میں تعلیم مشکل ہے، مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے۔ تقریباً ۲۴ گھنٹے لائبریریاں اور تجربہ گاہیں (Labs) کھلی رہتی ہیں۔ تعلیم مہنگی ہے، اس لیے طلبہ و طالبات کو ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود مسلمان طلبہ و طالبات دینی فرائض کے لیے خاصا وقت نکالتے ہیں۔ نمازوں کے لیے مخصوص جگہیں نہایت مصروف ہوتی ہیں۔ مسلمان طلبہ دیگر مصروفیات کے باوجود نمازوں کے انتظامات کے لیے وقت کی قربانی دیتے ہیں۔ ہر ہفتے کے روز ایک تقریب ہوتی ہے جس میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ اہم دینی موضوعات پر تقاریر ہوتی ہیں جن پر آزاد فضا میں بحث اور سوالات ہوتے ہیں۔ نمازِ جمعہ اور دیگر اجتماعات میں اہم موضوعات پر طلبہ بڑی تیاری کے بعد تقاریر کرتے ہیں۔ کبھی کبھار دیگر مقامات سے علما اور اسکالر بھی بلائے جاتے ہیں۔ بڑا ایمان افروز ماحول ہوتا ہے۔ اسلام کے بہترین عالمی دین ہونے کا احساس ہوتاہے۔ ہر رنگ، نسل اورملک کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ مختلف مکاتب ِفکر کے مسلمانوں کی جب اختلافی موضوعات پر بحث ہوتی ہے تو ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے اور تنقید برداشت کرنے کا قابلِ رشک مظاہرہ ہوتا ہے۔ تقاریر اور بحث کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان طلبہ اور طالبات کو اسلام کا خاصا علم ہے۔ عموماً قرآن و حدیث کے حوالے دیے جاتے ہیں۔

عیسائیوں کو اسلام سمجھانے کے لیے علیحدہ پروگرامات بھی ہوتے ہیں جن میں دیگر غیرمسلم بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ ایسے پروگراموں سے احساس ہوتا ہے کہ اگر مغرب میں دعوتِ دین   کے لیے اسی معاشرے کامسلمان ہو تو بہت اثر ہوتا ہے۔ اس کا احساس مسلمانوں کو بھی ہے۔   کئی نومسلم امریکی، مسلمان ممالک میں اسلامی تعلیم اور دعوت کا طریقہ سیکھتے ہیں اور واپس امریکا آکر دعوت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

ایم ایس اے دیگر مسلمان و عیسائی تنظیموں سے مل کر کانفرنسیں منعقد کرتی ہے۔ رمضان میں اچھے پروگرام ہوتے ہیں جن میں اجتماعی افطار، مطالعۂ قرآن اور اہم موضوعات پر تقاریر ہوتی ہیں جن میں امریکی دل چسپی لیتے ہیں۔ فلاڈلفیا کے شہر میں ۱۴،۱۵ مساجد ہیں جن میں مسلمانوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا بندوبست ہے۔ رمضان میں ہرمسجد میں اور جہاں مسجد نہیں ہے وہاں چرچوں اور دیگر موزوں مقامات پر تراویح میں ختمِ قرآن کا بندوبست ہوتا ہے۔ اگر مقامی حفاظ نہ ہوں تو مسلم ممالک سے لائے جاتے ہیں۔ مالی مشکلات کی وجہ سے عموماً مساجد کی حالت اچھی نہیں ہے۔ مسلم ممالک اور مال دار مسلمانوں کی توجہ کی ضرورت ہے۔ وہاں اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی جمہوریت تبلیغ اسلام کے لیے ضروری ہے۔ ایک امریکی مسلمان مبلغ کے مطابق اگر امریکا میں تبلیغ اسلام کے لیے اچھے مسلمان مبلغ ہوتے اور دنیا میں ایک ملک ایسا ہوتا جس میں حقیقی اسلامی نظام قائم ہوتا تو اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا۔

امریکا میں متعدد ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ وہاں پر مبلغِ اسلام کو مقامی لوگوں کے مذاہب، معاشرے اور کلچر کا بھی علم ہونا چاہیے۔ ایک عرب پروفیسر نے اس کی تشریح یوں کی کہ اسلام ایک بیج ہے جو مختلف اقسام کی مٹی اور آب و ہوا میں کاشت کریں تو پھل کی خوشبو، رنگ   اور ذائقہ مختلف ہوگا، البتہ بنیاد ایک ہوگی۔ انتہاپسند مبلغ بھی کچھ مسائل پیدا کرتے ہیں، مثلاً    بے پردہ خواتین کو مساجد سے نکال دینا، بائیں ہاتھ سے کھانے والے پر برس پڑنا۔ دوسری طرف مغربی معاشرے سے متاثر مسلمان بہت لبرل بھی بن جاتے ہیں اور فرائض کی پروا بھی نہیں کرتے۔ بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ اجتماعی مربوط پروگرام بنایا جائے جس میں امریکا میں موجود اہلِ علم و عمل مسلمان شامل ہوں، اور مال دار مسلمان مالی مدد کریں۔

ایک اچھا عمل اسلامی لٹریچر کی ممکنہ حد تک فراہمی بھی ہے۔ دعوتی پروگراموں اور نمازِ جمعہ کے بعد اسٹال لگائے جاتے ہیں جن پر مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر مفت یا مناسب قیمت پر مہیا ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کیونکہ اسلام علم کا دین ہے۔ ہماری دینی جہالت مختلف مسائل اور اختلافات کی بنیاد ہے۔ مسلمان تنظیمیں عمدہ حکمت عملی سے امریکیوں کی توجہ مسئلۂ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرف بھی مبذول کروا سکتی ہیں۔