ڈاکٹر حسن الدین احمد


اسلام ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان بیج ہے تو اسلام اس کا درخت ہے۔ جہاں ایمان ہوگا، اخلاق میں برتائو، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے، سعی اور جدوجہد کے راستوں میں اس کا ظہور ہوگا۔ گویا ایمان کا اظہار عملِ صالح کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت البرّ (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ … الخ) میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے تذکرے کے بعد سب سے پہلے جس عملِ صالح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ اس کی راہ میں اس کے بندوں پر مال خرچ کرنا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ (البقرہ ۲:۱۷۷) اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروںاور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔

اس عمل کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے اہلِ کتاب سے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بات کی (دیکھیے المائدہ۵:۶۳) تو وہ کہتے تھے کہ کیا اللہ کے ہاتھ بندھے ہیں کہ وہ ہم سے مال مانگتا ہے، حالانکہ اللہ تو غنی ہے وہ خود ہی اللہ کے محتاج تھے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو آگاہ کر رہا ہے کہ انفاق سے نہ کترائیں ورنہ اللہ ان کی جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کردے گا:

وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ o (محمد ۴۷:۳۸) اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا (اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے)۔ (مزید دیکھیے فاطر۳۵:۱۵)

تیسری بات یہ کہ اللہ جس عمل کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کرتا ہے وہ عمل پہلے ہی اپنے نبیوں کے کردار میں لوگوں کو بطور نمونہ دکھا دیتا ہے تاکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ناممکن نہ سمجھیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کم و بیش یہ وہی عمل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی کیا کرتے تھے جیساکہ ایک حدیث کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپؐ سے فرمایا تھا کہ ’’اللہ آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا، اس لیے کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں وغیرہ۔ گویا کامل مسلمان بننے کے لیے ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کا اختیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ایمان لانا اور اس کا صرف زبانی اظہار اس امر کی ضمانت نہیں ہے کہ مومن کو کوئی اچھا یا بڑا اجر ملے جب تک کہ ایمان لانے والا ایمان کے زبانی اظہار کے ساتھ اس کا عملی اظہار بھی نہ کرے۔ یہ عملِ صالح ہی ہے جو مومن کو اچھے اور بُرے اجر کا مستحق بناتا ہے۔ قرآن اس کا اعلان اس طرح کرتا ہے:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ (مزید دیکھیے الکہف ۱۸:۲)

اللہ کی محبت میں دل پسند مال خرچ کرنا

زیرمطالعہ آیت کے اس دوسرے جزو میں جو پہلی بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال اس کی محبت میں لاتے ہیں‘‘۔ اس پہلی بات میں بھی دو نکتے ہیں جن پر غور کرلینا چاہیے۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’وہ اپنا مال لاتے ہیں‘‘۔ لانے سے مراد خرچ کرتے یا صرف کرتے ہیں۔ کیا یہاں اِس خرچ کو ایک فریضہ قرار دیا جا رہا ہے یا یہ خرچ نفل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لیے اللہ تلقین کر رہا ہے؟ تمام مفسرین کے نزدیک یہ مال لانا یا خرچ کرنا نفل یا اختیاری عمل ہے۔ چنانچہ ایسے نفل یا اختیاری خرچ کو جو ان ضرورت مندوں پر کیا جائے جن پر خرچ کرنا قانونی یا دینی فریضہ یا ذمے داری نہ ہو ’انفاق‘ یا صدقہ کہا جاتا ہے۔ انفاق ایک اخلاقی اور سماجی فریضہ ہے اور اس کے کرنے کے فائدے بھی بہت ہیں۔ ایک سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ انفاق کا اجر ۷۰۰ گنا بڑھا کر بلکہ اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۶۱) جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے اور وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ انفاق کرنے والے کو بخش دینے اور انعام واکرام سے نوازنے کا وعدہ کرتا ہے:

وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَ فَضْلًا وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ ۲:۲۶۸) اللہ تمھیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے، اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔

ایک تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ انفاق کرنے والے کے چھوٹے موٹے گناہ دھو دیتا ہے:

وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo (البقرہ ۲:۲۷۱) تمھاری بہت سی برائیاں اس طرزِعمل سے محو ہوجاتی ہیں۔

اس کے دیگر فوائد میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرنے سے اس کی قربت حاصل ہوتی ہے:

وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ  (التوبہ ۹: ۹۹) اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔

اب جس کام میں ایسے بے شمار فائدے ہوں اس میں کون ذی فہم انسان مال لگانے سے احتراز کرے گا؟ تو پھر اس کام میں دیر کیوں کی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس انفاق، یعنی ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی طرف قرآن میں جگہ جگہ توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:

فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o (البلد ۹۰: ۱۳-۱۶) کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ یہ انفاق اس کی محبت میں کرتے ہیں۔ ’اس کی محبت‘ سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا وہ مال مراد ہے جس سے انفاق کرنے والا خود رغبت رکھتا ہے؟ جیساکہ ایک جگہ اللہ نے یہی وجہ بتائی ہے:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲) تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو۔

یا یہ مراد ہے کہ اللہ سے محبت کی خاطر اس کی راہ میں مال خرچ کیا جائے؟ جیساکہ ایک دوسری جگہ اللہ نے مال خرچ کرنے کی یہ وجہ بھی بتائی ہے:

اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًاo (الدھر ۷۶:۹) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

یا دونوں ہی معنی لیے جاسکتے ہیں جیساکہ مولانا مودودیؒ نے بیان کیا ہے (تفہیم القرآن)۔ مستند بات یہی لگتی ہے کہ دونوں ہی معنی لیے جائیں، چنانچہ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ نیکی کا تقاضا یہ ہے کہ  اللہ سے محبت کے اظہار کے لیے وہ مال نکالا جائے جو نکالنے والے نے خود اپنے لیے پسند کیا ہوا ہے، نہ کہ وہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے جو مال خرچ کرنے والا خود اپنے لیے گوارا نہ کرے:

وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ (البقرہ ۲: ۲۶۷) ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ اگر وہی چیز تمھیں کوئی دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ تم اس کو قبول کرنے میں اغماض برت جائو۔

ایک حدیث کے مطابق لوگ اللہ کے عیال ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ وہ بندہ پسند ہے جو اللہ کے عیال کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ ایک اور حدیث میں ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے کی طرف ہمیں اس طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ قیامت کے روز اللہ اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ وہ بیمار تھا مگر اس نے اللہ کی عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا کہ اے اللہ میں کس طرح تیری عیادت کرتا تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے موجود پاتا۔ اسی طرح کھانے اور پلانے پر بھی اللہ اپنے بندے سے مکالمہ کرے گا۔ بالکل یہی تعلیم عیسائیوں کی کتاب میثاقِ جدید کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ نے بھی اپنے پیروکاروں کو دی تھی (دیکھیے میتھیو ۴۱:۲۵-۴۵)۔ اور یہ مماثلت کیوں نہ ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسٰی ؑدونوں ہی ایک اللہ کے پیغامبر تھے اور اسی کا پیغام انسانوں کو پہنچا رہے تھے۔

مال کا موضوع وہ واحد موضوع ہے جس پر اللہ نے لگاتار کئی رکوعات میں اہلِ ایمان کو ہدایات دی ہیں (دیکھیے سورۂ بقرہ، رکوعات ۳۶-۳۹)۔ ان رکوعات کے علاوہ بھی اللہ نے قرآن میں مختلف جگہوں پر اہلِ ایمان پر انفاق کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ اس نے جس کو بھی جو مال اس کے تصرف کے لیے دیا ہے اس مال میں اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی حق ہے:

وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o (المعارج ۷۰: ۲۴-۲۵) جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔

یہی بات ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ لوگوں کو جو رزق اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس میں غریبوں کا بھی حق ہے۔ اللہ رب العزت بھی یہی بات ایک اور انداز سے ہمارے سامنے رکھتا ہے:

وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ج (الحدید ۵۷:۷) اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔

یہاں تو اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ ہر اس چیز میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے جس جس پر اس نے انسان کو خلیفہ بنایا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے صرف مال ہی پر انسان کو خلیفہ بنایا ہے؟ نہیں، بلکہ اس نے انسان کو اس کے مال کے ساتھ ساتھ اس کی صحت و جسم، علم و فہم، وقت، توانائی اور اولاد پر بھی خلیفہ بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کو اُس کی راہ میں لگایا جانا چاہیے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو صدقہ کرو کہ یہ تم پر واجب ہے۔ کسی نے پوچھا کہ اگر کسی کے پاس مال نہ ہو؟ آپؐ نے جواب دیا کہ مال کمائے اور پھر صدقہ کرے۔ کسی نے کہا کہ اگر کوئی یہ بھی نہ کرسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا کہ کم از کم اپنے کو برائی سے بچا کر رکھے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔

اس آیت کے دوسرے جزو میں اللہ تعالیٰ نے جن چند لوگوں پر مال خرچ کرنے کا تذکرہ کیا ہے وہ بالترتیب یہ ہیں: قرابت دار، یتیم، مسکین، مسافر، فقیر اور غلام۔ ہم اسی ترتیب سے ان کے حقوق اور ان پر مال خرچ کرنے کی اہمیت کا مطالعہ کریں گے۔ لیکن یہ بات سمجھ لی جائے کہ ان کے علاوہ اور بھی اللہ کے بندے ہیں جن پر وہ مناسب جگہوں پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ جیسے سورئہ نساء کی آیت ۳۶ میں ہمسایوں اور ہم نشینوں کا بھی تذکرہ ہے۔ اسی طرح سورۂ دھر کی آیت ۸ میں قیدی کا بھی تذکرہ ہے۔ سورئہ حدید کی آیت ۱۰ میں مجاہدین فی سبیل اللہ اور سورئہ بقرہ کی آیت ۲۷۳ میں اللہ کی راہ میں مصروف ضرورت مندوں وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔ ہم یہاں صرف ان ہی ضرورت مندوں کا مطالعہ کریں گے جن کا تذکرہ زیرمطالعہ آیت میں کیا گیا ہے۔

قرابت داروں پر خرچ

اللہ نے فرمایا: ذوی القربٰی۔ اس سے مراد قرابت دار ہیں۔ قرابت دار میں والدین، بیوی، شوہر، اولاد، دادا، دادی، نانا، نانی، ماں، باپ کے بھائی، بہن اور ان کی اولادیں وغیرہ سب ہی شامل ہیں۔ اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے حسنِ سلوک، یعنی انفاق کے لیے ہمارے اولوا الارحام، یعنی اقربا دوسرے تمام مومنین اور مہاجرین کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں:

وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِکُمْ مَّعْرُوْفًا (الاحزاب ۳۳:۶) مگر کتاب اللہ کی رُو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی کرنا چاہو توکرسکتے ہو۔

والدین، ازواج اور اولاد پر مال خرچ کرنا فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کے حقوق ایسے موضوعات ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ طویل مقالے لکھے جاسکتے ہیں (ان موضوعات پر تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے راقم کی کتاب تعلیماتِ قرآن، حصہ دوم، ادارہ معارف اسلامی، کراچی)۔ چونکہ ان پر مال خرچ کرنا فرائض میں شامل ہے اور عمومی طور پر انفاق میں شامل نہیں ہے اس لیے ہم یہاں ان کا مختصراً مطالعہ کریں گے۔

  • والدین پر خرچ: اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر جہاں بھی اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہاں فوراً بعد ہی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا بھی حکم دیا ہے، مثلاً:

وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (النساء ۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو۔

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہماری توجہ ان کے احسانات کی طرف بار بار دلاتا ہے کہ کس طرح تکالیف اُٹھا کر انھوں نے ہماری پرورش اور تربیت کی ہے، مثلاً ایک جگہ فرمایا:

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ o (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اسی لیے ہم نے اس کو وصیت کی کہ میرا شکر کر اوراپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ دراصل والدین کی ضروریاتِ زندگی پر مال خرچ کرنے کو اللہ نے انفاق نہیں بلکہ ان کے احسانات کا اظہارِ شکر قرار دیا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق بھی سب سے اچھا عمل اللہ کی بندگی اختیار کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ہے۔ اسلام کی نظر میں والدین کا مقام یہ ہے کہ نہ صرف دنیا میں ان کے ساتھ سب سے بڑھ کر نیکی کا سلوک کیا جائے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔ ان کی اولاد کے لیے ضروری ہے کہ ان کے ان حقوق کو پورا کرے۔ بعداز موت بھی والدین کے جو حقوق باقی رہتے ہیں ایک حدیث کے مطابق ان حقوق میںسے ایک حق یہ ہے کہ ان کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی رہے اور اس کے لیے اس سے اچھی دعا اور کیا ہوگی جو اللہ نے خود سکھائی ہے:

قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۲۴) اور دعا کیا کر کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔

  • اھل و عیال پر خرچ: اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر خواہ وہ بیوی ہو یا بیوہ یا مطلقہ ہو، مال خرچ کرنے کی تلقین کی ہے۔ بیوی پر خرچ کرنا تو فرض ہے جیساکہ اللہ پاک کا حکم ہے:

وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء ۴:۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جو کھائیں وہی اپنی بیویوں کو بھی کھلائیں اور وہ جو پہنیں ویسا ہی اپنی بیویوں کو بھی پہنائیں۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو لقمہ بھی کوئی شوہر اپنی بیوی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کھلاتا ہے وہ صدقہ ہے۔ اسی طرح شوہرکی وراثت میں بیوہ کو حصہ دیا جانا بھی فریضہ ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے سورئہ نساء کی آیت ۱۲)۔ ایک متفق علیہ حدیث کے مطابق بیوائوں اور مسکینوں کے لیے دوڑدھوپ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی مانند ہے۔ مطلقہ عورتوں کے لیے فرمایا کہ متقیوں کے مال میں ان کا بھی حق ہے، یعنی طلاق دے کر خالی ہاتھ ان کو ان کے میکے نہ بھیجا جائے بلکہ ان کو کچھ مال دے کر رخصت کیا جائے:

وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲:۲۴۱)اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے، یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔

ایسی عورتوں کو سہارا دینے کے لیے جن کا کوئی ولی یا مددگار نہ ہو ایک دارالامان کا تصور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا جب آپؐ نے ایک عورت کو اپنی عدت حضرت ابن اُم مکتوم کے گھر گزارنے کا حکم دیا۔ جاہلیت کے زمانے میں عرب کے لوگ ہمہ وقت جنگجویانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لڑکے جنگ میں ان کے لیے قوت کا باعث تھے جب کہ وہ لڑکیوں کو اپنے لیے کمزوری کا باعث سمجھتے تھے اور اسی خوف سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ آج بھی بھارت میں لڑکیوں کی پیدایش ہندوؤں کے لیے باعث ننگ اور بوجھ سمجھی جاتی ہے اور کسی نہ کسی بہانے لڑکیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اللہ نے لوگوں کو اس قتل سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ جب انھیں رزق دے رہا ہے تو اولاد کے پیدا ہونے پر وہ انھیں بھی دیتا ہے۔ دوسرے معنوں میں والدین کو جو رزق ملتا ہے اس میں ان کی اولاد کا حصہ بھی ہے جو ان پر خرچ ہونا چاہیے:

وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۱) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔

ایک حدیث کے مطابق صدقے کا وہ دینار سب سے اچھا ہے جو اپنی اولاد پر خرچ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: جس شخص کی بیٹی پیدا ہوئی اور اس نے اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ حقیر جانا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

  • رشتے داروں پر خرچ: اب ہم صلۂ رحمی کے تحت مجموعی طور پر لیکن اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے باقی سارے ہی قرابت داروں پر مال خرچ کرنے کا مطالعہ کریں گے۔

صلۂ رحمی کے معنی رحم کو پہنچنے کا عمل ہے۔ رحم دراصل ماں کے پیٹ میں وہ تھیلی ہے جس میں زندگی جنم لیتی ہے، پرورش پاتی ہے اور پھر وہ انسانی شکل میں باہر نکلتی ہے۔ اسی لیے محبت و شفقت کے اس اعلیٰ جذبے کو جو ماں کے دل میں اپنے اس بچے کے لیے پیدا ہوتا ہے رحم کہا جاتا ہے۔ چنانچہ جو بھی کسی کی ماں کے رحم سے باہر آتا ہے، یعنی بھائی یا بہن، یا ماں اور باپ کی مائوں کے رحم سے باہر آتا ہے، یعنی چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ وغیرہ، یا اسی طرح ان کی اولادیں وغیرہ یہ سب اقربا ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن سے رضاعت یا شادی کے ذریعے قرابت استوار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک یا صلہ رحمی یا ان پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ جب تخلیقِ کائنات کا عمل مکمل کرچکا تو رحم کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ ’’میں قطع سے تیری پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ اللہ نے کہا: ’’کیا تو اس پر راضی ہے کہ میں اسے جوڑوں جو تجھے جوڑے اور اسے کاٹوں جو تجھے کاٹے؟‘‘ بولی: ’’ہاں‘‘۔ اللہ نے کہا: ’’ایسا ہی ہوگا‘‘۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ اور اس کی عمر دراز ہو تو وہ صلہ رحمی (یعنی اقربا پر انفاق) کرے۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو اقربا سے اس لیے سلوک کرتا ہے کہ اس کا بدل اسے ملے تو یہ تجارت ہے۔ صلہ رحمی کا کمال یہ ہے کہ جو کاٹے اسے جوڑا جائے۔ ایک اور حدیث کے مطابق جو قطع رحمی کرتا ہے (جو اپنے اقربا میں سے کسی سے ترکِ تعلق یا بدسلوکی کرتا ہے) وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

درحقیقت اسلام کی دعوت کا ایک اہم نکتہ صلۂ رحمی کی تبلیغ بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر روم کو ایک خط کے ذریعے اسلام کی دعوت دی تو اس نے حضرت ابوسفیان کو بلایا جو اس وقت اس کے شہر میں تجارت کی غرض سے موجود تھے۔ ان سے قیصر نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بات کی تبلیغ کرتے ہیں؟ انھوں نے بتایا: وہ کہتے ہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ شرک نہ کرو، نماز قائم کرو، سچائی اختیار کرو اور صلہ رحمی کرو‘‘۔

اقربا پر مال کس طرح خرچ کیا جائے؟ اس کی چند اچھی مثالیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ملتی ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی مشرکہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت عمرؓ کو ہدایت کی کہ وہ ایک ریشمی قمیص جو خود نہیں پہن سکتے تھے اپنے مشرک بھائی کو تحفتاً دے دیں۔ ایک تیسری حدیث کے مطابق آپؐ نے حضرت ابوطلحہؓ کا باغ صدقے میں لینے سے انکار کیا اور ان سے فرمایا کہ وہ اس باغ کے پھل میں اپنے عم زاد کو بھی شریک کریں۔ پہلی دونوں احادیث سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اقربا کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ ان کا کردار یا مذہب کیا ہے۔ انفاق سے کسی کی اصلاح مقصود نہیں بلکہ اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، ہدایت دینا نہ دینا تو اللہ کا کام ہے:

لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ (البقرہ ۲:۲۷۲) لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے، ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔

یتیموں پر خرچ

اقربا پر مال خرچ کرنے کی تلقین کے بعد اللہ ہماری توجہ یتامٰی پر مال خرچ کرنے کی طرف دلاتا ہے۔ یتامٰی جمع ہے یتیم کی۔یتامٰی وہ نابالغ بچے ہیں جن کے باپ انتقال کرگئے ہوں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ یہ بچے مال کے اس ذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں جو فطری طور پر ان کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتا تھا بلکہ وہ باپ کی شفقت اور تربیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ مکمل طور پر معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب اگر معاشرہ ان کی صحیح پرورش اور نگہداشت نہ کرے تو یا تو وہ اپنی جان کھو بیٹھتے ہیں یا پھر وہ معاشرے میں غیرصالح عنصر بن کر اُبھرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خاص طور پر ان یتیموں کی پرورش اور تربیت پر مال خرچ کرنے اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت کے برتائو کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے نیک بندے یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں، ان کو کھانا کھلاتے ہیں:

وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِیْمًا وَّاَسِیْرًا o (الدھر ۷۶:۸) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

اور ان کے ساتھ سختی کا برتائو نہیں کرتے:

فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْ o (الضحٰی ۹۳:۹) لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو۔

اور جو ان کی مدد کرنے کے بجاے ان کو دھتکارتے ہیں وہ اپنے دین و ایمان کی نفی کرتے ہیں:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo (الماعون ۱۰۷: ۱-۳) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی سزا و جزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔

اور جو ان کے اچھے مال کو اپنے خراب مال سے بدل دیتے ہیں یا ان کا مال زبردستی ہڑپ کرلیتے ہیں یا اور دوسرے ناجائز طریقوں سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وغیرہ وہ دراصل خود کو ایک بھڑکتی آگ میں ڈالے جانے کا سامان کرتے ہیں:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا o (النساء ۴:۱۰)جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کا مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔

احادیث میں بھی یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ملتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا جو ایک مسلم یتیم کو متبنی بنائے اور اسے کھلائے بجز اس کے کہ اس نے کوئی ناقابلِ معافی گناہ کیا ہو۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق جو کسی یتیم کی اچھی پرورش کرکے اسے بڑا کرے گا وہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اس طرح ہوگا جس طرح آپؐ نے اپنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی اُٹھا کر دکھائیں۔ اس طرح یتیم کے کفیل کو نہ صرف یہ بشارت ملی ہے کہ وہ جنت میں جائے گا بلکہ اس کو آپؐ کی قربت کا بھی اعزاز حاصل ہوگا۔

ایک اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی جارہی ہو۔ بے سہارا یتیموں کی نگہداشت کے لیے قرونِ وسطیٰ کی مسلمان حکومتوں نے جگہ جگہ یتیم خانے بنا رکھے تھے (سیرت النبیؐ)۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی مسلمان حکومتیں اس قسم کا انتظام کریں۔

مساکین پر خرچ

یتامٰی کی طرف توجہ دلانے کے بعد اللہ مساکین پر مال خرچ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔  اکثر و بیش تر اللہ نے جہاں یتیموں کا تذکرہ کیا ہے وہاں ساتھ ہی مساکین کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیساکہ ہم نے اس سے پہلے یتیموں کے حقوق کی مثالوں میں مساکین کا تذکرہ بھی دیکھا ہے۔ مساکین جمع ہے مسکین کی۔ ایک حدیث کے مطابق مسکین وہ شخص ہے جو مال تو رکھتا ہے مگر اتنا نہیں کہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے اور غیرت اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔ ایسے لوگ ہمارے اردگرد کافی تعداد میں ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتے یا اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کا علاج نہیں کراسکتے یا اگر مقروض ہوں تو غربت کی وجہ سے قرض ادا نہیں کرپاتے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ایسے غیرت مند غریبوں کو پہچانیں اور حسبِ موقع اور استطاعت ان پر مال خرچ کریں۔ صاحبِ استطاعت لوگوں کا مسکینوں پر مال نہ خرچ کرنا بھی ان کے لیے عذابِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتا ہے جیساکہ ہم اس سوال و جواب میں دیکھتے ہیں:

مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ o قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo (المدثر ۷۴:۴۲-۴۴)تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘‘۔

اگر ہم خود ان پر مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو بھی ہمیں کم از کم جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں ان کی توجہ ایسے مساکین کی طرف دلانی چاہیے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو گویا ہم اپنے دین و ایمان کی خود ہی نفی کرتے ہیں جیساکہ ہم نے اس سے پہلے یتیموں کے بیان کے دوران سورئہ ماعون کے مطالعے میں دیکھا ہے اور ہماری یہ بے عملی یا لاپروائی بھی خود ہمارے لیے عذابِ جہنم کی ایک وجہ بن سکتی ہے:

خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ o ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ o ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ o اِِنَّہٗ کَانَ لاَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo (الحاقۃ ۶۹:۳۰-۳۴) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو، پھر اسے جہنم میں جھونک دو، پھر اسے ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ صُفّہ کی مثال کے مطابق ایسے مساکین کی دیکھ بھال کے لیے مسلمان حکومتوں کو بھی مناسب انتظام کرنا چاہیے۔ جب غیرمسلم حکومتیں، جیسے کینیڈا اور امریکا وغیرہ اپنے غریب عوام کو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ماہانہ وظیفہ دے سکتی ہیں تو مسلمان حکومتیں اپنے غریب عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ایسا کیوںنہیں کرسکتیں؟

مسافروں پر خرچ

اقربا، یتامٰی اور مسکین کے ذکر کے بعد اللہ مال خرچ کرنے کے لیے وابن السبیل کا ذکر کرتا ہے۔ وابن السبیل کے معنی ’راستے کا بیٹا‘ ہے۔ عربی زبان میں مسافر کے لیے محاورتاً ’راستے کا بیٹا‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تلقین کر رہا ہے کہ ہم اپنا مال مسافروں پر بھی خرچ کریں۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنے کسی کام سے اپنے گھر سے دُور کسی جگہ آیا ہوا ہو۔ مسافر وہ بھی ہے جو اپنی منزل کی جانب جاتا ہوا راستے میں رک کر آرام کرتا ہے اور مسافر وہ بھی ہے جو کسی سے ملنے کی خاطر اس کے گھر آکر ٹھیرتا ہے۔ ایسے سب مسافر دراصل مہمان ہوتے ہیں اور یہ سارے ہی مہمان باوجود اس کے کہ وہ خود صاحبِ استطاعت یا صاحبِ حیثیت ہوں ہماری خاطر و تواضع کے حق دار ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مہمانوں کی خاطر تواضع کے چند بنیادی آداب سکھائے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہو تو وہ مہمان کا اکرام کرے۔ ایک دوسری حدیث کے مطابق میزبان کو چاہیے کہ وہ پہلے دن مہمان کو اس سے اچھا کھلائے جیسا وہ خود کھاتا ہے، اور اگر مہمان مزید ٹھیرتا ہے تو میزبان جو کچھ بھی مہمان کو کھلاتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اگر کوئی شخص اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی مسافر کی میزبانی کرسکے تو اسے چاہیے کہ کسی اور کو مسافر کی میزبانی کے لیے کہے۔ ایک دفعہ ایک مسافر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس آیا اور کھانے کے لیے کچھ طلب کیا مگر اس وقت اُمہات المومنینؓ میں سے کسی کے بھی گھر میں سواے پانی کے اورکچھ نہ تھا۔ آپؐ نے یہ نہیں کیا کہ معذرت کرلیتے بلکہ آپؐ کے پاس جو لوگ موجود تھے ان سے پوچھا کہ کوئی اس مسافر کو ایک رات کے لیے اپنا مہمان بنا سکتا ہے؟ مختصر یہ کہ ایک صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ گھر پہنچنے پر بیوی نے بتایا کہ صرف اتنا کھانا ہے کہ بچوں کو کھلایا جاسکے۔ اُس صحابیؓ نے بیوی کو مشورہ دیا کہ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو۔ چراغ بجھا دو۔ اندھیرے میں مہمان کے سامنے کھانا رکھو۔ مسافر کھانا کھائے گا، جب کہ صحابی اور ان کی بیوی صرف اپنے ہاتھ اور منہ چلائیں گے تاکہ مسافر یہ سمجھے کہ وہ بھی کھانے میں شریک ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اگرچہ کھانا خود ان کی اپنی ضرورت سے بھی کم تھا مگر ان دونوں میاں بیوی نے مہمان کو اپنے اُوپر فضیلت دی اور اس طرح اس کا اکرام کیا۔ ان کا یہ عمل اللہ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ نے قرآن میں اس کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کے لیے مہمان داری کا ایک عظیم نمونہ رکھ دیا، فرمایا:

وَ یُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر ۵۹:۹) اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔

مدد کے لیے ھاتھ پہیلانے والوں پر خرچ

وابن السبیل کے بعد فرمایا: والسائلین۔ سائلین جمع ہے سائل کی۔ سائل کے معنی ہیں پوچھنے والا یا سوال کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو سوال کرے یا مدد طلب کرے اس کی بھی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اس کی ایک مثال ہم نے پہلے سورئہ معارج میں دیکھی ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مانگنے والے کو منع نہ کیا جائے:

وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْھَرْ o (الضحٰی ۹۳: ۱۰) اور سائل کو نہ جھڑکو۔

اسی طرح ایک جگہ اللہ نے جن لوگوں کی تباہی کی بات کی ہے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو لوگوں کو عاریتاً مانگنے پر بھی کوئی چیز نہیں دیتے:

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ

یُرَآئُ وْنَ o وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (الماعون ۱۰۷: ۴-۷) پھر تباہی ہے   ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔

اگر کوئی کسی مانگنے والے کو کچھ نہیں دینا چاہتا یا اگر دیتا بھی ہے تو ساتھ ہی سوال کرنے والے کو بُرا بھلا بھی زبان سے کہہ دیتا ہے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ مانگنے والے کی عزتِ نفس یا   اس کے دل کو مجروح کیے بغیر خوش اسلوبی سے معذرت کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے:

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی (البقرہ ۲:۲۶۳) ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔ (مزید دیکھیے: بنی اسرائیل ۱۷:۲۸)

غلاموں کی رھائی پر خرچ

والسائلین کے بعد فرمایا: وفی الرقاب۔ رقاب جمع ہے رقبہ کی۔ رقبہ کے معنی گردن ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کیا جائے۔ دوسرے معنوں میں جو غلام ہوں یا غلام بنا لیے گئے ہوں ان کی طرف سے فدیہ دے کر ان کو آزاد کرایا جائے۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ اسلام بنیادی طور پر آزاد لوگوں کو پکڑ کر غلام بنانے کا سخت مخالف ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جو لوگ آزاد انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لیتے ہیں، رسولؐ اللہ روزِ قیامت ایسے لوگوں کے خلاف غلاموں کے ولی و وکیل ہونے کا فریضہ انجام دیںگے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تو جنگ میں پکڑے ہوئے لوگوں کو بھی غلام بنانے کے بجاے ان سے فدیہ لے کر (یا قیدیوں کا تبادلہ کر کے) یا بطورِ احسان مفت ہی چھوڑ دینے کی تلقین کرتا ہے:

فَاِِذا لَقِیْتُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی۔ٓ   اِِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوْا الْوَثَاقَ فَاِِمَّا مَنًّام بَعْدُ وَاِِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا (محمد ۴۷:۴) پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرلو تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔

اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف انداز سے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین کی ہے، مثلاً ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ اللہ نے میں سورئہ بلد میں گردن کے طوق کو کھولنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قتلِ خطا، عہدوپیمان توڑنے اور جو کوئی بیوی سے ظہار کرے اسے فدیے میں غلام آزاد کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔

غرض یہ کہ اسلام جہاں مسلمانوں کو مختلف حیلوں کے ذریعے غلاموں کو آزاد کرنے کی تلقین کرتا ہے وہیں یہ بھی حکم دیتا ہے کہ اگر ان کو آزاد نہ کیا جائے تو ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیساکہ کسی دوسرے انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کو برابری کے معیار پر کھلایا اور پہنایا جائے اور ان کی جنسی طلب کو بھی پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مختصر یہ کہ اسلام میں غلام ایک ایسا ملازم ہے جس کو اپنے مالک یا آقا سے ہر وقت علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ اپنے مالک کو اس کا معاوضہ ادا کرے، اور مالک اور عام مسلمانوں کو اس کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ غلاموں کو ان کی آزادی کے لیے معاوضہ ادا کرنے میں سہولت پہنچائیں:

وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ (النور ۲۴:۳۳) تمھارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں ان سے مکاتبت کرلو، اگر تمھیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔

موجودہ زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر اگر ہم تھوڑا سا بھی غور کریں تو یہ بات آسانی سے معلوم ہوجاتی ہے کہ آج بھی غلامی کا رواج جاری و ساری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت ور، جنگجو اور غیرمسلم قومیں آج بھی مفتوحہ قوموں کے ساتھ غلامی بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک روا رکھتی ہیں۔ ان مفتوحہ یا کمزور قوموں کے افراد کو پکڑ کر ان کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک کیا جاتاہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ اور جنیوا کنونشن جیسے کئی ادارے دنیا میں انھی نام نہاد علَم بردارانِ انسانی آزادی نے بنا رکھے ہیں۔ یہ ادارے طاقت ور قوموں یا ان کی حلیف قوموں کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ درحقیقت حقوقِ انسانی کی حفاظت کی خاطر قائم اداروں کو تو طاقت ور قوموں نے اپنے مفاد کی خاطر کم زور قوموں کے ساتھ غلاموں کا ساسلوک روا رکھنے کے لیے بنایا ہوا ہے اور قابلِ توجہ بات یہ بھی ہے کہ یہی چھوٹی اور کمزور قومیں ان اداروں کی رکنیت لے کر نہ صرف یہ کہ ان طاقت ور قوموں کی غلام بنتی ہیں یا بلیک میل ہوتی ہیں بلکہ اس غلامی کی فیس بھی ادا کرتی ہیں۔

اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ مسلمانوں کی توجہ اس طرف دلا رہا ہے کہ غیرمسلم طاقت ور قومیں ہمیشہ ہی مجبور و کم زور اور مفتوح قوموں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک روا رکھیں گی لہٰذا وہ اپنے ان دینی بھائیوں جن کو ایسی ظالم و جابر قومیں بزورِ قوت یا مال پکڑ پکڑ کر اپنے ظلم و ستم کا شکار بنا رہی ہوں کی ہرممکنہ طور پر رہائی اور آزادی کے لیے اپنا مال خرچ کریں۔

مال کتنا اور کیسے خرچ کیا جائے؟

یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے ضرورت مند بندوں پر مال خرچ کیا جائے یہ فطری سوال اُٹھتا ہے کہ ان پر کتنا اور کس طرح خرچ کیا جائے؟ اگرچہ اللہ نے یہاں   اس کا جواب نہیں دیا ہے لیکن قرآن میں دوسری مختلف جگہوں پر ان کے جوابات ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جگہ لوگوں کے اسی سوال کا کہ کتنا مال خرچ کیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ ۲:۲۱۹) اور پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو۔

یعنی جو مال کسی کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ کس کی کیا ضروریات ہیں؟ اس کا صحیح علم تو خرچ کرنے والا ہی جانتا ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ انسان فطرتاً بخیل ہے:

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ وَ کَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۰) کہیے ،اگرکہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمھارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔

اسی لیے وہ کہتا ہے کہ انسان نہ تو بالکل ہی مال روک کر بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی   بے تحاشا خرچ کرکے ضرورت سے زیادہ فیاضی دکھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ خرچ کرنے والا انسان بعد میں خود ہی اپنی حالت پر ملامت و حسرت کا اظہار کرے:

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۹) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو۔ (مزید دیکھیے الفرقان۲۵:۶۷)

دوسرے معنوں میں ان ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے میں میانہ روی کا طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بخیلی کا مظاہرہ ہو یا اسراف کا مظاہرہ دونوں ہی ناپسندیدہ کام ہیں۔ اللہ کو ایسے اعمال سے کراہت آتی ہے:

کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا (بنی اسرائیل ۱۷:۳۸) ان امور میں سے ہر ایک کا بُرا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔

ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت سعدؓ بن وقاص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنا ایک تہائی مال اللہ کی راہ میں صدقہ اور خیرات کرسکتے ہو اور اتنا نہ صدقہ کرو کہ اپنی اولاد کو اس حالت میں چھوڑ کر جائو کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائیں۔ ایک اور حدیث سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال ہی اللہ کی راہ میں صدقہ یا خیرات کیا جانا چاہیے۔

ایک مسافر صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے فضا میںایک آواز سنی جو بادلوں سے کہہ رہی تھی کہ وہ فلاں شخص پر برسیں۔ وہ شخص بادلوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ بادل ایک پہاڑی پر برس گئے۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ پہاڑوں پر برسنے والا پانی بہتا ہوا ایک نالے میں بہنے لگا۔ مسافر اس نالے کے بہائو کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دُور جاکر اس نے دیکھا کہ اس نالے سے ایک بوڑھا شخص اپنے کھیت کو سیراب کر رہا ہے۔ مسافر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنی فصل کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک حصہ وہ اپنے بال بچوں کی ضروریاتِ زندگی پر خرچ کرتا ہے۔ دوسرے حصے سے وہ نئی کاشت کے لیے بیج اور کھاد وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اور تیسرا حصہ وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتا ہے۔

ان دونوں احادیث سے ہمیں ’العفو‘ یا ضرورت سے زائد مال کی بڑی اچھی تشریح ملتی ہے لیکن اگر مال اُمت کی بقا یا سرحدوں کی حفاظت یا جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر دیا جا رہا ہے تو جس سے جتنا ہوسکے دے اور میانہ روی اختیار نہ کرے۔ ایسے انفاق کی بہترین مثالیں وہ ہیں جن میں غزوئہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنا سارا ہی مال لے آئے اور حضرت عمر فاروقؓ اپنی ساری ہی چیزوں کو آدھا آدھا تقسیم کر کے لے آئے۔ ایک غریب اور مسکین شخص نے جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ساری رات ایک یہودی کا باغ سینچا اور صبح معاوضے کے طور پر اس کو جو کھجوریں ملیں اس میں سے آدھی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپؐ نے اس کی کھجوروں کو سارے مال پر پھیلا دیا اور فرمایا کہ یہ راس المال ہے۔

اس سوال کہ ’’کس طرح خرچ کیا جائے؟‘‘ کا جواب بھی ہمیں قرآن میں مختلف جگہوں پر ملتا ہے، مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ ۲:۲۷۱) اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔

ایک حدیث کے مطابق اس طرح دیا جائے کہ اگر داہنا ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے۔ گویا چھپا کر دیا جائے تاکہ لینے والے کی خودداری اور عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن اگر کسی اجتماعی کام کے لیے دیا جا رہا ہو یا کسی ادارے کو دیا جا رہا ہو تو علی الاعلان دیا جائے تاکہ دیکھنے والے کے اندر بھی دینے کی تحریک پیدا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفاق کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo (البقرہ ۲:۲۷۴) جو لوگ اپنے مال شب وروز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔

ایک حدیث کے مطابق صدقہ دینے کا بہترین وقت وہ ہے جب دینے والا جوان اور صحت مند ہو اور اس کی اپنی ضروریات ہوں اور اسے اپنے افلاس کا ڈر بھی ہو نہ کہ جب وہ قریب المرگ ہو اور پھر یہ کہے کہ یہ فلاں کے لیے اور یہ فلاں کے لیے ہے تو مال اب اس کا نہیں رہا اور یہ فلاں اور فلاں ہی کا ہوگیا ۔

مختصراً یہ کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہیے کہ مال و اولاد تو آرام و آسایش کے وقتی سامان ہیں اور اللہ کی راہ میں انفاق جیسے اعمالِ صالحہ ہی آخرت کا سامان ہیں:

اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا o (الکھف ۱۸:۴۶) یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرایش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھیں سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو انفاق ہم نے کیا ہے اس کو قبول فرمائے، آمین!

(یہ تحریر مقالہ نگار کے آیت البرّ کے ایک تفصیلی مطالعے کا جز ہے)