سعید اکرم


قرآن حکیم کا آغاز دعا سے ہوتا ہے اور اس میں بہت سی دعائیں ہیں جو انسان کو انداز بدل بدل کر ربِ کائنات کے آگے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی حاجتیں بیان کرنے اور اسی کے سامنے اپنی استدعائیں پیش کرنے کے طریقے سکھلاتی ہیں، لیکن مختلف مقامات پر رب العزت نے اپنے انبیا کی زبانی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے دعائوں کے جو تحفے عطا کیے ہیں ان میں سے ہر ایک قبولیت کے حوالے سے ایک نسخۂ کیمیا ہے۔ یہ دعائیں گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبروں جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی اپنی حاجت براری کے لیے صرف اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی کے آگے اپنی جھولی پھیلائی۔

ذیل میں اس آس پر مختلف انبیا علیہم السلام کی چند قرآنی دعائیں مع ترجمہ و مختصر تشریح  پیش کی جاتی ہیں کہ ربِ دوجہاں یقینا ایک دن اپنی ان عظیم اور بزرگ ترین ہستیوں کی دعائوں کے صدقے اُمت ِمسلمہ کو موجودہ مشکلات کے گرداب سے نکال لے گا، اور اس وطنِ عزیز کے حالات پر کہ جو صرف اسی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، کرم فرمائے گا اور اس میں سچے دین کو سربلندی اور اپنے نام لیوائوں کو سرخروئی عطا کرے گا۔

  •  حضرت ابراھیم ؑ کی دعا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب دونوں باپ بیٹا، یعنی حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ اس دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ خدا کے گھر کی تعمیر کے مبارک کام کے دوران آنے والے زمانوں کے اندر تک اپنی دعائوں کو پھیلا کر خدا سے اس گھر کی پاسبانی اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والی ایک قوم کی استدعا کر رہے تھے، اور پھر خدا نے ان کی اِس دعا کو یوں قبول کیا کہ ان کی نسل کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس عظیم ترین ہستی سے نوازا جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئی:

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (البقرہ۲:۱۲۸) اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، اے رب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں ) بنا۔ ہماری نسل سے ایسی قوم اُٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

  •  نبی کریمؐ کی دعا: نبی کریمؐ نے خدا کے حضور اپنی امت کی طرف سے ایک ایسی درخواست جمع کرا دی ہے جو ہرمشکل میں قیامت تک اس کے کام آتی رہے گی اور ہر تاریکی میں اس کے لیے ایک شمع کی صورت جگمگاتی رہے گی:

رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ۲:۲۰۱) اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

  •  حضرت داؤدؑ کی دعا: حضرت دائود علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب ان کے ایما پر طالوت اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر جالوت کے مقابلے پر نکلا اور پھر اسے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ تب اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی، کہ حضرت دائود علیہ السلام نے جو اس وقت تک ابھی ایک کم سِن نوجوان تھے، جالوت کو سرِمیدان قتل کردیا اور اللہ نے انھیں یعنی حضرت دائود علیہ السلام کو ان کا سردار بنا دیا:

رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (البقرہ۲:۲۵۰) اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔

  •  حضرت زکریاؑ کی دعا:یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب انھوں نے حضرت مریمؑ کو ایک حجرے میں گوشہ نشین دیکھا اور یہ دیکھا کہ اس پاک باز لڑکی کو اللہ اس حال میںبھی رزق پہنچا رہا ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ دعا نکلی اور پھر اللہ نے ان کی دعا اس طرح قبول کی کہ اس بڑھاپے میں انھیں حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِo (اٰل عمرٰن۳:۳۸) پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر، تو ہی دعا سننے والا ہے۔

  •  حضرت آدمؑ کی دعا: یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب اللہ نے ان دونوں، یعنی آدم و حوا کی لغزش پر ان کے ستر ایک دوسرے پر کھول دیے، انھیں حیا کے فطری جذبے نے بالکل مغلوب کرکے رکھ دیا اورانھیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو انھوں نے رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! ہم پر رحم کیجیے، ہمیں معاف کر دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ہم بالکل تباہ ہوکر رہ جائیں گے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اُوپر ظلم کیا، اب اگر تونے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

  • حضرت شعیبؑ کی دعا: جب حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اورانھوں نے اہلِ مدین کو اللہ کے احسانات یاد دلا دلا کر راہِ راست پر آنے کی دعوت دی لیکن وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں اللہ کا حکم ماننے اور ان کی پیروی سے مسلسل انکار کرتے رہے تو حضرت شعیب ؑنے اللہ سے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے اہلِ مدین کو ان کے جرم کی پاداش میںاس طرح مٹا دیا جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo (الاعراف ۷:۸۹) اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

  •  حضرت موسٰیؑ کی دعا: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ سینا سے واپس آئے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی ہارون ؑ کے منع کرنے کے باوجود ان کی قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس پریشانی کے عالم میں اپنے رب سے یہ دعا کی اور پھر اس میں یوں اضافہ کیا۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں، پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے، آپ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں:

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo (الاعراف ۷:۱۵۱) اے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔

  •  حضرت نوحؑ کی دعا: حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کے حق میں دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا رد کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے تو حضرت نوحؑ نے اس دعا کی صورت میں اپنے رب سے معافی طلب کی اور پھر جواب میں رب العزت نے فرمایا کہ اب دیکھتے رہنا کہ کس طرح تجھ پر اور تیرے پیروکاروں پر ہماری برکتیں اور سلامتی نازل ہوتی ہے:

رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ o (ھود ۱۱:۴۷) اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجائوں گا۔

  •  حضرت یوسفؑ کی دعا: جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی اور ان کی اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے اور اپنے بھائیوں سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں اپنی شکرگزاری کا اظہار کیا اوربادشاہت کے باوجود صالحین کے ساتھ اپنے انجام کی درخواست کی:

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo (یوسف ۱۲:۱ ۱۰) اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا، زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔

  •  ایک جامع دعا: جب بڑھاپے میں رب کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیل ؑجیسے فرزند عطا کیے تو انھوں نے یہ دعا کی اور پھر ان کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ان کی یہ دعا قیامت تک ہر مومن کی نماز کا مستقل حصہ بنا دی گئی:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ o رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo (ابراھیم ۱۴: ۴۰-۴۱) اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں۔ پروردگار! میری دعا قبول کر، پروردگار میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔

  •  حضرت سلیمانؑ کی دعا:اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک عظیم بادشاہت اور چرند پرند سب پر حکومت عطا کی اور ایسے میں جب وہ ایک روز اپنے لشکر کے ہمراہ کہیں جارہے تھے تو ان کے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے آپس میں کہا کہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ورنہ کچلے جائیں گے تو حضرت سلیمان ؑ نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس سب کے باوجود میری آرزو ہے کہ میرا انجام صالحین میں ہو:

رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہٗ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o (النمل ۲۷:۱۹) اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر  ادا کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔

  •  شرح صدر کے لیے دعائیں: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزے دے کر فرعون کے پاس جانے کو کہا تو حضرت موسٰی ؑنے کہ جن کی زبان میں بچپن ہی سے لکنت تھی اس دعا کے الفاظ میں اللہ سے اپنی استعانت کی درخواست کی لیکن جب فرعون نے ان کے معجزوں کو جادو کا محض ایک کھیل قرار دیا اور ان کی مسلسل دعوت کے جواب میں مسلسل انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ   لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ o (طٰہٰ ۲۰:۲۶ تا ۲۸) پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

  •  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے اُترتے وقت حضرت جبریل ؑکے ہمراہ وحی کے الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے۔ اس پر اللہ نے فرمایا کہ آپؐ کو وحی کا یاد کرا دینا ہمارا کام ہے۔ اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یوں کہا کریں کہ میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد آپؐ پر کبھی پریشانی کی کیفیت طاری نہ ہوئی اور پھر پوری اُمت نے ان الفاظ کو اپنا وظیفہ بنا لیا:

رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo  (طٰہٰ ۲۰:۱۱۴) اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

  •  مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعائیں: یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔ جب وہ اللہ کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے مایوس ہوکر اور اس خوف سے کہ اس قوم پر اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا اور اللہ نے اپنی قدرت سے انھیں وہاں زندہ سلامت رکھا۔ اس حال میں مچھلی کے پیٹ کے اندر تاریکی میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اور اللہ نے انھیں اس دعا کی بدولت اس تاریکی اور مصیبت سے نجات بخشی:

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo (الانبیا ۲۱:۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا (اے خدا! مجھے معاف کردے)

  •  یہ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا ہے۔ وہ خود بہت ضعیف اور ان کی بیوی بانجھ ہوچکی تھی۔ انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں اپنے لیے ایک وارث کی التجا کی اور ان کے رب نے ایک معجزانہ شان کے ساتھ ان کی دعا قبول کی اور انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ o (الانبیا ۲۱:۸۹) اے پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

  •  حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کبھی مجنوں، کبھی شاعر، اور کبھی جادوگر ہونے کا الزام دیتے اور کسی صورت حضوؐر کی دعوت کو مان کر نہ دیتے تو حضوؐر نے آخر ان الفاظ میں فیصلہ طلب کیا اور پھر اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی کہ ان الزام دینے والوں کے دیکھتے ہی دیکھتے حق غالب آگیا اور باطل پرست سب منہ دیکھتے رہ گئے:

رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۱۲) اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔

  •  حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ کے ظلم سے تنگ آکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر برس ہا برس تک اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ کر اللہ کی حاکمیت میں آنے کی دعوت دیتے رہے اور وہ قوم کہ جس میں ان کا باپ بدستور شامل رہا،مسلسل انکار کرتی رہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی اور اپنے لیے اللہ سے صالحین میں شمولیت کی التجا کی۔ اس پر اللہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ دیکھ لینا قیامت کے روز جنت صرف ایمان لانے والوں کے لیے اور دوزخ منکرین کے سامنے ہمیشہ کے لیے کھول دی جائے گی:

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ o وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ o وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ o وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَo (الشعرا ۲۶:۸۳) اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر، اور مجھے جنت کے وارثوں میں شامل فرما اور میرے باپ کو معاف کردے کہ وہ بے شک گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

  •  مفسدین سے مقابلے کے لیے دعا: حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جب مسلسل ان کی نافرمانی کرتی رہی اور علانیہ فحش کاری میں مبتلا رہی اور یہاں تک کہ حضرت لوطؑ سے اللہ کا عذاب لے آنے کاچیلنج کرنے لگی تو حضرت لوطؑ نے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے ان نافرمانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا کر رکھ دیا:

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۳۰) اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔

آیئے! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رو رو کر اس سے ملتجی ہوں:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَـآ اِنْ نَّسِیْنَـآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (البقرہ ۲:۲۸۶) (ایمان لانے والو، تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔