مولانامحمدیوسف اصلاحی


اس تحریر میں خطاب صرف آسٹریلیا کے مسلمانوں سے نہیں بلکہ بیرونِ ملک مقیم تمام مسلمانوں سے ہے۔ اس لیے ہمارے قارئین کو چاہیے کہ بیرونِ ملک مقیم اپنے اعزہ و احباب تک اپنے ذرائع سے اس مؤثر تحریر کو پہنچانے کا اہتمام کریں۔ دوسری طرف اس کا مخاطب ہمارا ہر قاری اور ہم سب بھی ہیں کہ اپنے اپنے دائرے میں ہم اسلام کے نمایندے ہیں اور اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ (ادارہ)

بلاشبہہ منصوبے زمین پر بھی بنتے ہیں اور ہمیشہ سے انسان زمین پر اپنے لیے منصوبے بناتا رہا ہے، مگر قضا وقدر کے منصوبے آسمان پر بنتے ہیں،اور نافذ وہی منصوبے ہوتے ہیںجو قضا وقدر کے آسمانی منصوبے ہوتے ہیں۔ آسٹریلیامیں رہنے والے مسلمانوں کویہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ خود بخود تلاشِ روزگار میں اس سرزمین کی طرف نکل آئے___ روزی اللہ کے قبضے میں ہے اور بندہ جب تک زمین پر زندہ چل پھر رہا ہے اس کی روزی اللہ اس تک پہنچائے گا۔اس کو موت اسی وقت آئے گی جب وہ اپنے نصیب اور حصے کی روزی پوری کرلے گا۔

آسٹریلیا میں آکربسنے والے مسلمانوں کی مثال ایسی نہیں ہے کہ آندھی چلی اور اس نے کچھ دانے اپنے جھونکے سے اٹھائے اور یہاں کے میدانوں، صحراؤں، دریاؤں اور پہاڑوں میںلاکر بکھیر دیے___بلکہ اللہ نے اپنے منصوبے کے تحت ہندستان، پاکستان اور دوسرے ملکوں سے اپنے منتخب کردہ دانے ان ملکوں سے اٹھائے اور اپنے اس منصوبے کے تحت یہاں کی زمین میںلاکر اس کی باقاعدہ کاشت کی ہے۔ اب وہ چاہتاہے کہ اس کی بوئی ہوئی یہ فصل لہلہائے اور برگ وبار لائے___ یہ مسلمان اٹھیں اور یہاں کے رہنے والوں کو اس دعوت اور اس پیغام سے  آشنا کرکے ان کو اللہ کی مرضی کے مطابق جینے کا سلیقہ سکھائیں، اور ان تک وہ امانت پہنچائیں   جس کے امین بن کر وہ اس ملک میں آکر بسے ہیں۔

اس ملک کے رہنے ،بسنے والوں کا ان آنے والوں پر یہ حق ہے کہ وہ ان کوجہنم کی آگ سے بچائیں ۔خدا کی مرضی اور خداکا دین ان تک پہنچائیں اور ان تک اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغامِ امن ونجات پہنچائیں جن پر نبوت ختم ہوگئی ہے، اور جنھوں نے وہی  پیغام انسانیت کوپہنچایاہے جو ہمیشہ سے خدا کی طرف سے مبعوث کیے جانے والے رسول پہنچاتے رہے ہیں۔ اور اب روے زمین پر اسلام ہی خدا کا ایک مستند، محفوظ، مکمل اور آخری نجات بخشنے والا دین ہے۔

اس ملک میں جو مسلمان آکر بسے ہیں اور یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس ملک کو جہالت اور جاہلیت (دین اور ہدایت سے دُوری جاہلیت ہے) سے نکالیں، ان کوقرآن اور سیرت رسولؐ سے واقف کرائیں۔ یہ اس ملک میں اسلام کے نمایندے، اسلام کے سفیر اور اسلام کے ترجمان ہیں۔ اللہ نے انھیں اپنے ملک کے اس حصے میں اس لیے لاکر بسایا ہے کہ یہ اپنی گفتگوؤں، تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ان تک اللہ کا دین پہنچائیں___     نہ صرف قول سے بلکہ اپنی عملی زندگی سے اسلام کے نمایندے بن کر ان کے سامنے آئیںاور اپنی دیانت وامانت، اپنے اخلاق وبرتاؤاور اپنے معاملات وسلوک سے ان کوبتائیں کہ خدا کا دین روے زمین پر کس طرح کے بندے پسند کرتاہے، اور اس کے مطلوب اور محبوب بندے کیسے ہوتے ہیں۔ ان کی عملی زندگیاں شہادت دیں کہ جودین ان مسافروں اور اسلام کے ان سفیروں کے پاس ہے وہ اس لیے بھی حق ہے کہ وہ ان جیسے انسان پیدا کرتاہے جو دنیا والوں کے لیے رحمت ہوتے ہیں،جو قول کے سچے، وعدے کے پکے،فرائض کے پابند، انسانوں کے حق میں ہمدردو غم گسار اور انسانی شرافت کے پیکر ہوتے ہیں___ دینِ حق کوماننے والے صرف دعوے کرنے والے نہیں ۔

حقیقت میں ماننے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے دین کے حق ہونے پر دلیل اور شہادت ہوتے ہیں۔اپنی پرکشش اور مثالی زندگی کو پیش کرکے وہ یہ باور کرائیں کہ یہ زندگی ان کا کارنامہ نہیں بلکہ اس دینِ حق کی دین ہے جسے انھوںنے اپنایا ہے۔جیسا کہ اللہ کے ایک محبوب  اور مبعوث بندے نے اپنے جیل کے ساتھیوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: (جب جیل میں خدا کے دو بندے ان سے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے تھے اور یوسف علیہ السلام کی پاکیزہ اور مثالی زندگی دیکھ کر ان سے کہنے لگے:  اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَo (یوسف ۱۲:۳۶) ’’ہم آپ کونہایت پاکیزہ اور حسین زندگی والا دیکھ رہے ہیں‘‘) میری زندگی میںجو حُسن وجمال اور جوکشش اور رعنائی تمھیںنظر آرہی ہے وہ میرا کمال نہیں ہے۔وہ اس ہدایت اور علم کانتیجہ ہے جو خدانے مجھے عطا فرمایاہے: ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ (یوسف ۱۲:۳۷) ’’یہ (جو پاکیزہ زندگی تم دیکھ رہے ہو) یہ اس علم وہدایت کی بدولت ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہے‘‘۔ اس کے بعد آپ ؑنے اپنی بات پوری کرتے ہوئے فرمایا:

اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَo وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآئِ یْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ o (یوسف۱۲:۳۷-۳۸) اور میں پابند اور متبع ہوں اس دین کا جو میرے باپ دادا ابراہیم ؑ، اسحاق ؑاور یعقوب ؑ کا دین ہے، ہمارے لیے یہ ہرگز زیبا نہیںکہ اللہ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کریں۔ ہم پر اور تمام انسانوں پر یہ اللہ کا خاص فضل ہے لیکن اکثر انسان خدا کے ناشکرے ہیں۔

بلاشبہہ آپ اپنے ارادے سے روزگار کی تلاش میں یہاں پہنچے ہیں لیکن اللہ نے اپنے منصوبے کے تحت آپ کو ایک خاص مشن پر یہاں بھیجا ہے، اور اس توقع پر بھیجا ہے کہ آپ یہاں اسلام کے نمایندے اور سفیر بن کررہیںگے۔ اپنے وجود اور اپنی پُرکشش اسلامی زندگی سے اسلام کے لیے راہ ہموار کریںگے۔ آپ کو دیکھ کر ، آپ کوسن کر اور آپ کو برت کرلوگ جب آپ کی طرف رغبت محسوس کریں تو آپ بجا طور پر انھیں یہ جواب دیں کہ یہ جوکچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ اس دین کی برکات اور ثمرات ہیںجسے ہم نے اپنا رکھا ہے، اور یہ صرف ہمارا ہی دین نہیں ہے بلکہ یہی آپ کے باپ دادا کا بھی دین ہے___ اس لیے کہ تمام انبیا اسلام ہی کی دعوت لے کر     دنیا میںآئے اور سب نے ایک ہی پیغام دیا کہ انسانو! اللہ کی بندگی کرواور خدا کو چھوڑ کر ان  باطل معبودوں کی پرستش نہ کرو جو تم نے گھڑ رکھے ہیں، اور جن کے لیے تمھارے پاس کوئی علمی اور نقلی دلیل ہر گز نہیں ہے۔

خدا نخواستہ آپ کی زندگیوں نے انھیں اسلام کی طرف راغب اور متوجہ کر نے کے بجاے اسلام سے متنفر کیا، اور آپ نے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی راہ روکی اور آپ کو دیکھ کر، آپ کے اعمال ومعاملات کو دیکھ کر اگر وہ اسلام کی طرف متوجہ ہونے کے بجاے اسلام سے اور دور ہونے لگے، تو یہ آپ کے لیے زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہوگا۔ آپ تنہائی میں دھاڑیں مار مار کرروئیں کہ پروردگار اس عذاب سے ہمیں بچاکہ ہم تیری راہ میں بیٹھ کر اور تیرے دین کے نمایندے ہوکر تیرے دین سے لوگوں کو روکنے اور متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں___ہماری زندگیاں لوگوں کے لیے اسلام کی راہ ہموار کرنے، اسلام کی طرف راغب ہونے اور اسلام سے مشرف ہونے کے بجاے اسلام کی راہ روکنے اور اسلام سے دُور ہونے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ خدایا! ہمیں اس  صورت حال سے نکال اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے قول وعمل سے تیرے دین کی طرف لوگوں کو راغب کرسکیں، تیرے دین کی را ہیں لوگوں کے لیے کھول سکیں اور ہمیں اسلاف کی وہ پرکشش زندگیاں اختیار کرنے کی توفیق دے کہ لوگ جوق در جوق تیرے دین کی طرف آئیں۔

میں آپ کو یہ تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیشہ اپنے ازلی دشمن شیطان سے ہوشیار رہیں، اس تباہ کن وسوسے سے اپنے قلوب کو محفوظ رکھنے کی شعوری کوشش کریں ___شیطان آپ کے دل میںیہ وسوسہ پیدا کرسکتاہے کہ تم تو یہاں اپنے معاشی مستقبل کو درست کرنے آئے ہو، اپنے اہل وعیال کے لیے خوش حال زندگی گزار نے کا سامان مہیا کرنے آئے ہو___ایسا نہ ہو کہ تمھاری دینی سرگرمیاں اور دعوتی کوششیں دیکھ کر اس ملک کے لوگ تمھیں برداشت نہ کرسکیں اور تم کسی آزمایش میںمبتلا ہوجاؤ!

یہ شیطانی وسوسہ اگر لاحق ہوا تو یہ تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گا۔خوب یاد رکھو کہ یہ زمین اللہ کی ہے، یہ آسمان اللہ کا ہے، یہاں کے سارے وسائل اور تمام تر نعمتیں اللہ کی ہیں___کوئی دوسرا مالک اس کائنات میں نہیں ہے۔ یہاں صرف اسی ایک کا اختیار اور اقتدار ہے اور صرف ایک ہی مالک وآقا ہے ۔ سب اس کے محتاج اور بے اختیار بندے ہیں۔اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر تم پیغامِ حق پہنچاتے رہے تو اللہ لوگوں کے شر سے تمھاری حفاظت فرمائے گا۔ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ ۵:۶۷)’’اور اللہ تمھیں لوگوں(کے شر ) سے محفوظ رکھے گا‘‘۔

حکیمانہ تبلیغ کا ایک نمونہ

حضرت موسٰی ؑ کی قوم نے جب آپ ؑ سے شکوہ کیا اور اپنی مظلومیت اور بے بسی کی شکایت کی تو انھوں نے اپنی مظلوم، بے بس اور خستہ حال امت کو خطاب کرتے ہوئے چار ہدایتیں دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے خطاب فرمایا:

۱-  اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ (الاعراف ۷ : ۲۸) ’’اللہ سے مدد طلب کرو‘‘۔

دینے والا صرف اللہ ہے ،کسی اور کے قبضے میںکچھ نہیں ہے۔جو کچھ تمھیںملا ہے اللہ ہی نے دیا ہے، اور جو کچھ تمھیں ملے گا اللہ ہی سے ملے گا۔ اللہ کو چھوڑ کرتم اگر بندوں کی طرف متوجہ ہوئے تو ان بندوں کے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔یہ تو خود خدا کے محتاج ہیں۔ خدا سے رشتہ مضبوط کرو ، اسی سے مانگو، وہی مدد کرنے والا ہے اور اسی کی مددسے تم عزت وعظمت کی زندگی پاسکتے ہو، اگر وہ تمھیں چھوڑ دے، اگر وہ تمھاری پروا نہ کرے تو تم نہ کہیںاور سے روزی پاسکتے ہو نہ عزت وعظمت ۔سب کچھ اسی کے قبضے میں ہے،بس اسی سے رشتہ جوڑواور اسی سے مانگو۔ اس سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اللہ کا ارشاد ہے :

قُلْ مَا یَعْبَؤُبِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ (الفرقان ۲۵:۷۷) اے رسولؐ! ان کو بتادیجیے کہ تمھارے رب کوتمھاری کیا پروا ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔

تمھارا رشتہ تو اس وقت تک رہے گا جب تک تم اس کو پکار نے والے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے بن کر رہو گے۔ اگر تم نے اس کو پکارنا چھوڑدیا، اس سے رشتہ توڑلیا تو پھر اس کو تمھاری کیا پر وا ہے کہ تم ذلت اور مسکنت کے کس کھڈ میں گرتے ہو۔ اگر عزت کی زندگی اور اللہ کی نوازشیں چاہتے ہو تو اسے برابر پکارتے رہو، اسی کی بندگی کرو، اور اسی سے مدد طلب کرو۔ اس نے تمھیں یہ زندگی عطا کی ہے اور وہی اس زندگی کو کامیاب اور باعزت گزارنے کے وسائل بھی دینے والاہے۔ لوگوں سے لو نہ لگاؤ۔ کسی کے اختیار میںکچھ نہیں ہے۔ اس زمین پر وہی کچھ ہوتاہے جو خداچاہتاہے۔ یہاں کے اسباب ووسائل بھی اس کے قبضے واختیار میں ہیں اور عزت وذلت بھی اسی کے قبضے میں ہے،اسے چھوڑ کر تم کہیں سے کچھ نہیں پاسکتے۔ تُعِزّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلّ مَن تَشَآئُ (اٰل عمرٰن ۳: ۲۶) ’’وہی ہے جس کو چاہتا ہے عزت و عروج دیتا ہے اور وہی ہے جس کو چاہتا ہے ذلت اور زوال دیتا ہے۔

۲- وَاصْبِرُوْا ___ (الاعراف ۷:۱۲۸) ’’اور صبر اختیار کرو‘‘۔

دوسری ہدایت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کویہ دی کہ صبر اختیار کرو۔ اگر کوئی قوم تم پر مسلط ہے اور تم محکوم ہو تو دل چھوٹا نہ کرو، بلکہ صبرکرو ۔

صبر میںدو باتیں ہیں:

  • تحمل سے کام لو ،برداشت کرو۔ اشتعال میں نہ آؤ۔ تم ایسا کام ہرگز نہ کرو جو اس دین کے شایان ِشان نہ ہو جس دین سے اللہ نے تمھیںسرفراز فرمایا ہے۔ اپنے اور اپنے دین کے وقار کو ہمیشہ پیش نظر رکھو، حلم اور بردباری سے کام لو اور اللہ پر بھروسا کرو، وہ تمھیں ہر گز ضائع نہیں  کرے گا۔
  •  صبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپنے دین پر اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ۔ اپنی دینی شناخت کی قدرو قیمت سمجھو اور اپنے اصولوں اور دین کے احکام پر اور زیادہ قوت کے ساتھ جم جاؤ۔ دین کی یہ شناخت تمھارے ضیاع کا سبب نہیں بلکہ یہی تمھاری حفاظت کرنے والی ہے۔ اپنے دین کو چھپاؤ نہیں بلکہ اور زیادہ دین دار بن کرابھرو، اور استقامت کاپیکر بنو۔لوگوں سے نہ گھبراؤ ،لوگوں کے ظلم وستم اور زیادتیوں سے خدا تمھاری حفاظت فرمائے گا۔اور جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ کرے اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا، بشرطیکہ وہ دین پر جم جائے اور اللہ نے دین پر عمل کرنے اور دین پہنچانے کا جو فریضہ اس پر عائد کیا ہے، وہ سرگرمی سے اس کام میں لگا رہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ ۵: ۶۷) اے محمدؐ! آپؐ کے  رب نے جو پیغام آپؐ کی طرف نازل کیا ہے اسے پہنچانے میں لگے رہیے ۔ اگر  آپؐ نے یہ کام نہ کیا تو آپؐ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔رہے [یہ مخالف] لوگ تو اللہ ان سے آپؐ کی حفاظت فرمائے گا(ان کی پروانہ کیجیے)۔

رسول خاتم النبیینؐ کے نمایندے کی حیثیت سے یہ آیت امت سے مخاطب ہے کہ    اے رسولؐ کے نمایندو !جس دین کے تم حامل ہو، اس کو پہنچاتے رہوجہاں بھی تم رہو۔ اگر تم نے   یہ کام نہ کیا اور اپنی نمایندگی کا حق ادا نہ کیا ، توتم نمایندگی میں کھوٹے ثابت ہوگے۔ ہاں، اگر تم حکمت کے ساتھ یہ پیغام پہنچاتے رہے اور خود بھی اس پر جمے رہے تو لوگوں سے تم کو ئی خطرہ محسوس نہ کرو۔  اللہ ان سے تمھاری حفاظت کا خود سامان کرے گا۔ تم اللہ کے کام میں لگے رہو اور وہ تمھاری حفاظت نہ کرے، یہ ممکن نہیں۔ اللہ اپنے دین کی نصرت میںلگے رہنے والوں کو ہرگز ضائع نہیںکرتا۔ دنیا میں انھی کی یادیں رہ جاتی ہیں اورانھی کے کارنامے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں جو سنگین سے سنگین حالات میںبھی دینِ حق پر جمے رہتے ہیں۔ صبر واستقامت دکھاتے ہیں، اور اللہ کے دین کی نمایندگی اور ترجما نی کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ حالات سے مرعوب ہوکر اور انسانوں سے خوف کھاکر کتمانِ حق کرتے ہیں، اور خدا نے جس مشن پر انھیںلگایا تھا اسے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، نہ اللہ کے رجسٹر میں ان کا کوئی ذکر رہتاہے، نہ تاریخ کے اوراق میں ان کا کہیںتذکرہ ہوتا ہے، ذکر صرف ان کا ہوتا ہے جو صبر واستقامت کا پیکر ہوتے ہیں ___ اور جہاں رہتے ہیں اپنے دین کی شناخت کے ساتھ رہ کراپنے دین کی سفارت اور نمایندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔

۳- اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ___ (الاعراف ۷: ۱۲۸) ’’یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے‘‘۔

تیسری بات حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خطاب میںیہ فرمائی کہ یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ جس کوچاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے۔(کچھ مدت کے لیے) اگر تم یہ دیکھ رہے ہو کہ آج   اللہ نے کسی خاص قوم کو اس پر اقتدار دے رکھاہے تو وہ اس کے مالک ہر گز نہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ وہی اس کے مالک ہوگئے ہیں اور ان کا یہ اقتدار اس پر دائمی ہے، بلکہ اللہ اپنی حکمت اور مشیت کے تحت کچھ مدت کے لیے کسی کو اس کاوارث بنا دیتاہے جب تک وہ اس وراثت کا حق اداکریں۔ اور اگر وہ ظلم و سفاکیت پر اتر آتے ہیں اور اپنی خدائی کے زعم میں مبتلا ہوکر خدا کے بندوں پر ظلم کرنے لگتے ہیں تو اللہ بہت جلد انھیںبے دخل کردیتاہے اور کسی دوسری قوم کوان کی جگہ لے آتاہے۔ یہ جانشینی اور اقتدار دائمی نہیںہوتا۔زمین کا اصل وارث ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔

بیرون ملک آکر بسنے والے مسلمانو! تم جس ملک میں آکر بسے ہو، یہ اللہ کا ہے۔ اللہ ہی اس کامالک ہے۔ یہاں اگنے والے غلے اور پھل بھی اللہ اگاتاہے۔ یہاں برسنے والا پانی بھی   اللہ ہی برساتاہے۔ زمین بھی اللہ کی ہے، یہ آسمان بھی اللہ کا ہے اور یہاں کے وسائل وذرائع اور روے زمین پر پھیلی ہوئی بے پناہ نعمتیں بھی سب اللہ کی ہیں۔ سب کچھ اسی نے پیدا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے، تمھیں بھی ان نعمتوں سے مستفیض ہونے کے لیے اللہ ہی یہاں لایا ہے۔ تم آئے نہیں ہو، لائے گئے ہو، اور اس منصوبے کے تحت لائے گئے ہو کہ یہ خطۂ زمین بھی تمھارے ذریعے اللہ کے دین اور رسولؐ اللہ کے کلمے سے آشنا اور منور ہو۔ دراصل تمھیں یہاں لاکر اللہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ تم اپنے دین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو، اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ کیا عمل کرتے ہو۔ فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ___ پس وہ دیکھ رہا ہے کہ تم کیا عمل کرتے ہو۔

۴- حضرت موسٰی ؑ کے خطاب کی آخری بات نہایت ہی چشم کشا اور انقلابی فکر دینے والی ہے:

وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ___ (الاعراف ۷:۱۲۸) اور انجام کار متقین کے لیے ہے۔

گویا انجام کی کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے رہے ہیں۔ یہ تو ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیا کی یہ زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی اور تمام انسانوں کی ایک ابدی زندگی ہے، وہاں کچھ لوگ کامیاب ہوں گے اور کچھ لوگ ناکام ۔کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ۔ کچھ لوگ اپنی کامیابیوں پر خوشیاں منارہے ہوں گے اور کچھ لوگ اپنی ناکامی پر آہ وفغاں کررہے ہوں گے۔

اس کامیابی کا تعلق اس سے نہ ہوگا کہ کون دنیا میں اقتدار میںرہا اور انسانوں پر حکومت کرتا رہا۔ اور کون مظلوم اور محکوم رہا اور دوسروں کی غلامی میں زندگی گزار تا رہا۔کون دولت کی   ریل پیل میںرہا اور کون نانِ شبینہ کا محتاج رہا۔ کون دنیا کی نعمتوں میںداد عیش دیتا رہا اور کون دانے دانے کو ترستا رہا، کس قوم کو حکمرانی کے تخت پربٹھایا گیا اور کون سی قوم محکومی کی ذلت میں رہی۔ یہ سب تو دنیا میں امتحان کے ذریعے اور پرچے تھے۔ کامیابی اور خوش نصیبی تو اس کے حصے میں آئے گی جو دی ہوئی آزمایش اور دی ہوئی حیثیت میں خدا کی مرضی کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنا اچھا رول ادا کرتا رہا۔اور اس حالت میں اللہ کے حضور پہنچاکہ اس نے تقویٰ کی زندگی گزاری ۔ اور خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے قلب ِمنیب کے ساتھ خدا کے حضور میں حاضر ہوا۔

خدا کے نبیِ صادق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خطاب کی یہ چار ہدایتیں بڑی ہی قیمتی ہیں۔ ان کوبار بار پڑھیے، انھیں حرز جاں بنائیے اور ان کی روشنی میں اپنی زندگی کالائحۂ عمل طے کیجیے___ یہ ہدایتیں ایک بہت ہی پس ماندہ، خستہ حال اور برسوں سے پامال کی جانے والی ملت کے سامنے رکھی گئی تھیں اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں اللہ نے اسے دنیوی عروج بھی بخشا۔

ہمارا حال اگرچہ آج نہایت پست ہے مگر ایسا عبرت ناک بھی نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے پاس ۵۶ سے زیادہ آزاد مملکتیں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں دینی بیداری پیدا ہورہی ہے۔ ہماری خواتین بیدار ہورہی ہیں۔ ہماری امت پھر قرآن کی طرف متوجہ ہورہی ہے اور اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں دل کو تقویت دینے والی یہ ہدایت دی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَ الْکِتَابِ اَقْوَاماً وَّیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ قوموں کو اونچا اٹھا تاہے اور کچھ دوسری قوموں کو پست کرتاہے‘‘۔

اسی کتاب نے ہمارے اسلاف کو اٹھایا تھا اوریہی کتاب آج پھر ہمیں اٹھائے گی۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم جس خطۂ زمین میںبھی رہیں وہاں اس کی تعلیمات کو عام کرنے میں لگ جائیں اور گھر گھر اللہ کی اس امانت کو پہنچانے کی سعی کریں۔ اپنی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل اسی کی روشنی میں کریں۔ اپنے گھر کو اسی کی تعلیمات سے آراستہ اور منور کریں اور انسانوں تک ان کی یہ امانت پوری دیانت کے ساتھ پہنچانے کا حق ادا کریں، اوراپنے اس مقام کو پہچانیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نوازشِ خاص سے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ ہم اس انتخاب کی لاج رکھیں، اس کا حق ادا کریں، اور اللہ کو ہم سے جو توقعات ہیں ہم ہرحال میں ان کو پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ (اسلامک فورم فار آسٹریلین مسلمز (IFAM) آسٹریلیا کے دورے کے موقع پر خطاب، ۲۰۰۸ء)